اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کم سنی میں اما عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح :تحقیق و تجزیہ

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 7 March 2019

کم سنی میں اما عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح :تحقیق و تجزیہ

ذیشان الہی منیر تیمی ،چکنگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    بلاشبہ اس دنیا کے اندر نبی صلعم کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جو قابل تعریف و تقلید ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اٹھنا،  بیٹھنا، ہنسنا، گھومنا، پھرنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ملنا، جلنا،شادی اور بیاہ کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر پل اور ہر لمحہ پوری انسانیت کے لئے نجات کا زینہ اور جنت میں جانے کا سفینہ ہے،بحیثیت مسلمان ہونے کے میرا یہ پختہ ایمان و یقین ہے کہ جو شخص آپ کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی ناقابل یقین گردانا تو ایسا شخص گستاخ رسول اور مرتد اسلام ہے۔لیکن اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی زندگی سے لیکر اب تک کے مسلمان ہی نہیں بلکہ ڈھیر سارے غیر مسلم بھی آپ کے صاف و شفاف اور سلجھی ہوئی زندگی سے فیض یاب ہونے کی کوششیں کیں ان ڈھیر سارے ناموں میں سے ایک چمکتا اور دمکتا ہوا نام کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا بھی ہے جو آپ سے الفت رکھتے ہیں اور اس الفت کو دل و روح تسکین سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے ایسے اشعار ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی روشن زندگی کی خوبصورت عکاس ہے ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ناہنجار قسم کے لوگوں کو بھی دیکھا گیا
جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کو بدنام کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے اپنائے لیکن کسی میں کامیابی نہ ملی تو باالآخر ان لوگوں نے یہ مسئلہ اٹھانا شروع کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اما عائشہ رضی اللہ عنھا سے چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی کی تھی جو پیغمبر اسلام کے لئے مناسب نہ تھی ۔یہ اعتراضات اور شکوک و شبہات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں علمائے کرام، محققین عظام نے اس کے جوابات بھی دیئے ہیں تاہم ذیل کی سطروں میں حتی المقدور اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔امید کرتا ہوں کہ تحقیق و تجزیہ کے بعد جو پہلوں سامنے آئیں گے اس سے حق کی حقانیت اور باطل کی بطلان ہوجائے گی ۔
       اگر حقیقی بات کی جائے تو یہ اعتراض اس گندی سوچ اور بیمار فکر پر منحصر ہے کہ اما عائشہ رضی اللہ عنھا میں وہ قوت و طاقت اور اہلیت و صلاحیت پیدا نہ ہوئی تھی جو ایک عورت کو اپنے شوہر محترم کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کی جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تحقیقی مطالعہ کریں تو یہ حادثات و واقعات اس بناوٹی اور مفروضہ باتوں کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے جس کی وجہ سے اما عائشہ رضی اللہ عنھا کی شان میں ناروا اور بیجا طریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کو جنبش دی جاتی ہے ۔ سب سے پہلے قارئین کے دماغ میں یہ بات رہے کہ مذہب اسلام میں نکاح کے جائز ہونے کے لئے بلوغت شرط نہیں ہے ۔قرآن مجید کے مطابق نابالغ لڑکیوں کی عدت تین ماہ ہے سورہ مائدہ کی یہ آیت "و اللآئی لم یحضن"والی آیت اس بات کی مکمل توضیح و تشریح ہے اور اس بات کا انکار ایک اندھا بھی نہیں کر سکتا کہ عدت کا سوال اسی عورت کے ساتھ پیش آتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو ۔کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں (الاحزاب29) اس لئے "واللآئی لم یحضن "سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنہیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے ۔(الفقہ الاسلامی و ادلتہ جلد 7 صفحہ 18 )
       اما عائشہ رضی اللہ عنھا کے متعلق صحیح سند سے بہت ساری ایسی احادیث آئی ہیں جو اس بات پر دال ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا جسمانی اعتبار سے کافی مضبوط تھی اور آپ میں جسمانی نشو و نما کی صلاحیت بھی بھرپور تھی ۔اس کے پیچھے بہت سارے اسباب کار فرما ہے لیکن ان میں سے ایک تو خود عرب کی تپتی ہوئی ریگسانی زمین کی گرم گرم آب و ہوا میں خواتین کے غیر معمولی نشو و نما کی صلاحیت ہے ۔دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح چیدہ، چنیدہ اور برگزیدہ اشخاص کے دماغی اور ذہنی قوی میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوتی ہے ۔اسی طرح قد و قامت اور جسامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہت ہی کم وقت میں اما عائشہ رضی اللہ عنھا کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لئے ایک خاتون میں ضروری ہوتی ہے ۔داؤدی رقمطراز ہے کہ "و کانت عائشۃ شبت شبابا حسنا"یعنی اما عائشہ نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی ان کی والدہ محترمہ نے ان کی جسمانی نشو و نما کا خاص خیال رکھا اور انہیں وہ تمام چیزیں فراہم کی جو ان کی جسمانی نشو و نما کے لائق تھی ۔چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ 98 اور ابن ماجہ صفحہ 226 میں بذات خود عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول مذکور ہے کہ "میری والدہ محترمہ نے میری جسمانی نشو و نما کی خاطر ڈھیر ساری تدبیریں کیں آخر ایک تدبیر سے بہت زیادہ فائدہ ہوا اور میری جسمانی حالات میں بہترین انقلاب برپا ہوگیا ۔اس کے ساتھ ساتھ اس اہم نکتہ کو بھی ذہن میں محفوظ رکھنا چاہئے کہ اما عائشہ رضی اللہ عنھا کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیا گیا ہو خدمت نبوی میں پیش کیا تھا اور پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی بلکہ لڑکیاں تو اپنے ماں کے جگر کا ٹکڑا ہوا کرتی ہیں اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت سے پہلے ان کی رخصتی کر دیا ہو۔اگر ایک منٹ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ سرزمین عرب کے اندر لڑکیاں عام طور پر نو سال کی عمر میں بالغ نہیں ہوتی تو اس میں کوئی قباحت و حیرت کی بات نہیں کہ استثنائی صورت میں طبی اعتبار سے اپنی پختہ تندرستی کے مد نظر میں کوئی خاتون خلاف عادت نو سال ہی میں سن بلوغت کو پہنچ جائے ۔جو سوچ و فکر فتنہ برپا کرنے کا عادی ہو ۔شکوک و شبہات کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہو تو انہیں یہ بات ہضم کرنے میں کافی دقت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑیگا لیکن جو شخص اختلاف و انتشار سے ہٹ کر حقیقت کی تلاش کرے اور عدل و انصاف کا چشمہ لگا کر تاریخ کا مطالعہ کرے تو انہیں معلوم ہوگا کہ سرزمین عرب کے اندر ڈھیر ساری ایسی خواتین تھیں جو نو برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ۔تفصیل کے لئے ضرور دیکھے(سنن دار قطنی جلد 3 صفحہ 322 مطبوعہ لاہور پاکستان ) خود ہمارے وطن عزیز ملک ہندوستان کے اندر وکٹوریہ ہسپتال دھلی میں ایک بچی جو سات سال کی تھی اس نے ایک بچہ جنا ہے(اخبار "مدینہ "بجنور یکم جولائی 1932 )
     جب ہندوستان جیسے متوسط آب و ہوا والے ملک میں سات سال کی بچی کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے تو پھر عرب کی گرم آب و ہوا میں نو سال کی عمر میں اس اہلیت کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی ام کلثوم اور عروۃ بن زبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح کم سنی میں کئے تھے (حوالہ کے لئے ضرور دیکھے "الفقہ الاسلامی و ادلتہ جلد 7 صفحہ 180) ان صحابہ کرام کا اپنی بچیوں کا کم سنی میں نکاح کردینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس زمانہ میں بہت کم ہی عمر میں عربی خواتین کے اندر شادی و خلوت کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی تو اما عائشۃ رضی اللہ عنھا کا نکاح 6  سال کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحتیں پیدا نہ ہوئی ہو۔لہذا اب اس قسم کا وسوسہ اور خیال فتین اور فاسدین کا ہوگا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اما عائشہ رضی اللہ عنھا سے کم سنی میں شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟  جبکہ اما عائشہ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن بیوہ، مطلقہ اور شوہر دیدہ تھیں اما عائشہ سے بچپن میں اس لئے شادی کر لیا گیا تاکہ وہ آپ سے زیادہ عرصہ تک علم حاصل کر سکیں اور آپ رضی اللہ عنھا کی وجہ سے لوگوں کو دین وشریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں ۔اور یہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ڈھیر سارے صحابہ کرام اور تابعین عظام ان کی زبردست ذہانت و بصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کئے تھے۔
    حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر کوئی ایسی شخصیت نہیں جو مکمل 23 برس تک ہر پل اور ہر لمحہ منظر عام پر زندگی بسر کرلے ۔ہزاروں اور لاکھوں آدمی ان کی ایک ایک حرکات و سکنات کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں ۔اپنے گھر میں اپنے اھل و عیال کے ساتھ رہنے میں بھی ان کا امتحان ہو رہا ہو لیکن اتنی جانچ پڑتال پر بھی ان کی صاف و شفاف شخصیت پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے بلکہ عدل و انصاف، پاکدامنی و پارسائی کے معیاری مقام پر فائز نظر آئے ۔جس نے آپ کو قریب سے جانچنے کی کوشش کی وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فین اور مرید بن گئے اور کلمۃ پڑھ کر اسلام لےآئیں اس لئے میں دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پوری انسانیت میں صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت ہی انسان کامل کہلانے کا حقدار ہے اس بات کو ثابت کرنے کے لٰئے یہی کافی ہے کہ ایک عیسائی سائنسداں نے اپنی کتاب میں دنیا کے سو بڑی بڑی شخصیت پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اول نمبر پے رکھا ہے اس لئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک مکمل نمونہ ہے اور اس میں عدل و انصاف کی ایسی خوشبوں آتی ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔