ذیشان الہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بلاشبہ دعوت انبیاء و صحابہ کا پیارا کام، نصرت الہی کا جام، اللہ کی محبت و رحمت کا نام، دین پر ثابت قدمی اور جہنم سے آزادی کا پیغام ہے جبکہ عدم دعوت کی بنا پر اللہ کی پھٹکار اور جہنم کی دھتکار ہے.
لفظ "دعوۃ "ثلاثی مجرد کے باب نصر کا مصدر ہے جس کے بہت سے معانی ہے لیکن سب سے مشہور معانی "دعا الی الشی "ہے جیساکہ اللہ فرماتا ہے "قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ "جبکہ شریعت کی اصطلاح میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اس پر کاربند رہنے کی طلب کو دعوت کہتے ہیں ۔یوں تو کتاب و سنت میں دعوت کی اہمیت و فضیلت متعدد مقامات پر وارد ہوئی ہے جن میں سے چند ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں.
(1)دعوت دین انبیائے کرام کا مشن ہے دلیل "و لقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت ۔
(2)دعوت دین صحابہ کرام کا مشن ہے دلیل "کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون باالمعرف و تنھون عن المنکر ۔
(3)دعوت دین سب سے پیارا مشن ہے دلیل "و من احسن قولا ممن دعا الی اللہ ۔
(4)دعوت دین کے لئے نکلنا دنیا و ما فیھا سے بہتر ہے ۔"غدوۃ فی سبیل اللہ او روحۃ خیر من الدنیا و مافیھا ۔
(5)دعوت دین اجر عظیم کا ذریعہ ہے دلیل "لا خیر فی کثیر من نجوھم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس "
(6)دعوت دین فرشتوں کی دعاؤں کے حصول کا ذریعہ ہے دلیل "ان اللہ و ملائکتہ و اھل السموات و الارضین حتی النملۃ فی حجرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر "
(7)دعوت دین نصرت الہی کا سبب ہے دلیل "انما ینصر اللہ ھذہ الامۃ بضعیفھا بدعوتھم و صلاتھم و اخلاصھم ۔
(8)دعوت دین اللہ کی محبت کا ذریعہ ہے دلیل "احب الاعمال الی اللہ ایمان بااللہ ثم صلۃ الرحم ثم الامر باالمعروف و النھی عن المنکر ۔
(9)دعوت دین حصول رحمت کا ذریعہ ہے دلیل "اولئک سیرحمھم اللہ "
(10)دعوت دین پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے دلیل " ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم ۔
دعوت کی اسی اہمیت و فضیلت کی وجہ سے جب آپ صلعم کو "قم فانذر "کے تحت دعوت کا حکم دیا گیا تب آپ صلعم اس طرح کھڑے ہوئے کہ 23سال تک آرام و سکون نہ کئے اور جب اس دنیا سے رخت سفر باندھنے کا وقت قریب آیا تب آپ صلعم کبھی"فلیبلغ الشاھد الغائب "تو کبھی "بلغوا عنی و لو آیۃ "کے ذریعہ دعوت کے پرچار و پرسار پر صحابہ کو ابھار رہے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ صحابہ کرام پوری شدت کے ساتھ دعوتی کام کا انجام دینے لگے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک صدی کے اندر اندر اسلام عرب کی تپتی ہوئی ریگستانوں سے نکل کر افریقہ کے جنگلوں کو عبور کرتے ہوئے مغرب میں اندلس تک اور مشرق میں دھلی کے لال قلعہ تک پہنچ گیا ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سے ایسے اصول و ضوابط ہیں جس کی وجہ سے صحابہ کرام کو اتنی بڑی کامیابی نصیب ہوئی ۔تو آئیئے ان اصول و ضوابط کو میں نمبروائز ذیلنمیں بیان کرنے جا رہا ہو ں جن کو اپنا کر ہم اپنی دعوت کو مؤثر بنا سکتے ہیں.
(1)حکمت "دلیل"ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن "اس آیت میں واضح طور پر دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں کہ داعی حکمت و تدبر، فھم و دانائی اور طریق حسن کا رویہ اختیار کرے اور مدعو کو مخاطب کرتے وقت لہجے میں نرمی ۔گفتگوں میں شیریں کلامی اورشایستگی ہو۔تلخی ۔ترشی اور طنزیہ لہجے سے گریز ہو۔
(2)رفق و نرمی "جیساکہ اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیھما السلام کو دعوت کے اصول کو بتاتے ہوئے فرمایا ۔"اذھب الی فرعون انہ طغی فقولا لہ قولا لینا "اور خود سب سے بڑے داعی محمد صلعم کے بارے میں اللہ نے کہا "و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین "
(3)دعوت تدریجا پیش کرے جیسا کہ شراب کی حرمت اس کی بہترین مثال ہے ۔اس لئے تواتر و تسلسل اور ہمہ وقت اور موقع بے موقع وعظ و تلقین سے پرہیز کرے ۔آپ صلعم نے جب معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری کو دعوت کی خاطر یمن بھیجا تو فرمایا "
بشروا ولا تنفروا یسرا ولا تعسرا "
(4)مدعو کے فہم، معیار اور اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت پیش کی جائے، زبان سادہ، صاف اور سلیس استعمال کی جائے اور طول بیانی و کثرت خطاب سے پرہیز کیا جائے ۔
(5)اخلاص "دعوت کا مقصد نام و نمود، عزت و شہرت، مال و دولت یا جاہ و منصب نہ ہو "انما الاعمال باالنیات و انما لکل امرء ما نوی "
(6)معیت الہی کا احساس "اس کی وجہ سے داعی کے اندر عزم و حوصلہ، شجاعت و بہادری، ثابت قدمی اور کلفتوں پر صبر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جیساکہ غار ثور میں آپ صلعم نے ابوبکر سے کہا تھا "لاتحزن ان اللہ معنا "
(7)داعی سچا ہو۔دلیل "من اصدق من اللہ حدیثا "جیسا کہ ابوجہل جیسا دشمن اسلام نے آپ صلعم کے بارے میں کہا ۔"انا لا نکذب و لکن نکذب بہ ما جئت بہ "
(8)داعی خاکسار ہو ۔اور یہ کبر و غرور کی ضد ہے اللہ نے نبی صلعم کو خاکساری کا حکم دیا ۔واخفض جناحک للمومنین.
(9)داعی کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو "دلیل "یا ایھا الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون "کیونکہ اس کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا جیسا کہ اس کی طرف اللہ نے بھی اشارہ کیا ۔اتامرون الناس باالبر و تنسون انفسکم "
(10)داعی علم کی ہتھیار سے آراستہ ہو ۔دلیل "فاعلم انہ لا الہ الااللہ واستغفر لذنبک "اس آیت میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے گناہوں سے استغفار سے قبل علم کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔کیونکہ فتاوی ابن تیمیہ کے مطابق ایک جانکار داعی اور جاہل داعی میں ٹھیک ویسے ہی فرق ہے جیسے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال اور نہ سکھائے ہوئے کا حرام ۔یہی وجہ ہے کہ آپ صلعم کو پہلے اقراء کہا گیا اس کے بعد "قم فانذر "کے مد نظر دعوت کا حکم دیا گیا ورنہ بغیر علم کے داعی اور مدعا الیہ دونوں کے لئے گمراہی کا سبب ہے جیسا کہ آپ صلعم نے فرمایا "ضلوا و اضلوا "
(11)محاسبہ نفس : داعی کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے ۔دلیل "یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد "
(12)تالیف قلبی :داعی کو چاہیے کہ وہ تالیف قلبی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل و معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں.
(13)لوگوں سے میل جول "داعی کو چاہئے کہ وہ اس صفت سے بھی متصف ہو جیساکہ نبی صلعم حج کے موقع سے یا پھر مکہ میں آنے والے وفود سے ملاقات کرتے تھے.
ان تمام افکار و نظریات اور دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ ان اصول و ضوابط کو گلے لگا کر اگر ہم اپنی دعوت کی شروعات کرتے ہیں تو پھر ہماری دعوت مؤثر اور مفید دعوت ہوگی اور اس دعوت کے اثرات و فوائد صاف صاف ہمیں دیکھائی دے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بلاشبہ دعوت انبیاء و صحابہ کا پیارا کام، نصرت الہی کا جام، اللہ کی محبت و رحمت کا نام، دین پر ثابت قدمی اور جہنم سے آزادی کا پیغام ہے جبکہ عدم دعوت کی بنا پر اللہ کی پھٹکار اور جہنم کی دھتکار ہے.
لفظ "دعوۃ "ثلاثی مجرد کے باب نصر کا مصدر ہے جس کے بہت سے معانی ہے لیکن سب سے مشہور معانی "دعا الی الشی "ہے جیساکہ اللہ فرماتا ہے "قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ "جبکہ شریعت کی اصطلاح میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اس پر کاربند رہنے کی طلب کو دعوت کہتے ہیں ۔یوں تو کتاب و سنت میں دعوت کی اہمیت و فضیلت متعدد مقامات پر وارد ہوئی ہے جن میں سے چند ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں.
(2)دعوت دین صحابہ کرام کا مشن ہے دلیل "کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون باالمعرف و تنھون عن المنکر ۔
(3)دعوت دین سب سے پیارا مشن ہے دلیل "و من احسن قولا ممن دعا الی اللہ ۔
(4)دعوت دین کے لئے نکلنا دنیا و ما فیھا سے بہتر ہے ۔"غدوۃ فی سبیل اللہ او روحۃ خیر من الدنیا و مافیھا ۔
(5)دعوت دین اجر عظیم کا ذریعہ ہے دلیل "لا خیر فی کثیر من نجوھم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس "
(6)دعوت دین فرشتوں کی دعاؤں کے حصول کا ذریعہ ہے دلیل "ان اللہ و ملائکتہ و اھل السموات و الارضین حتی النملۃ فی حجرھا و حتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر "
(7)دعوت دین نصرت الہی کا سبب ہے دلیل "انما ینصر اللہ ھذہ الامۃ بضعیفھا بدعوتھم و صلاتھم و اخلاصھم ۔
(8)دعوت دین اللہ کی محبت کا ذریعہ ہے دلیل "احب الاعمال الی اللہ ایمان بااللہ ثم صلۃ الرحم ثم الامر باالمعروف و النھی عن المنکر ۔
(9)دعوت دین حصول رحمت کا ذریعہ ہے دلیل "اولئک سیرحمھم اللہ "
(10)دعوت دین پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے دلیل " ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم ۔
دعوت کی اسی اہمیت و فضیلت کی وجہ سے جب آپ صلعم کو "قم فانذر "کے تحت دعوت کا حکم دیا گیا تب آپ صلعم اس طرح کھڑے ہوئے کہ 23سال تک آرام و سکون نہ کئے اور جب اس دنیا سے رخت سفر باندھنے کا وقت قریب آیا تب آپ صلعم کبھی"فلیبلغ الشاھد الغائب "تو کبھی "بلغوا عنی و لو آیۃ "کے ذریعہ دعوت کے پرچار و پرسار پر صحابہ کو ابھار رہے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ صحابہ کرام پوری شدت کے ساتھ دعوتی کام کا انجام دینے لگے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک صدی کے اندر اندر اسلام عرب کی تپتی ہوئی ریگستانوں سے نکل کر افریقہ کے جنگلوں کو عبور کرتے ہوئے مغرب میں اندلس تک اور مشرق میں دھلی کے لال قلعہ تک پہنچ گیا ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سے ایسے اصول و ضوابط ہیں جس کی وجہ سے صحابہ کرام کو اتنی بڑی کامیابی نصیب ہوئی ۔تو آئیئے ان اصول و ضوابط کو میں نمبروائز ذیلنمیں بیان کرنے جا رہا ہو ں جن کو اپنا کر ہم اپنی دعوت کو مؤثر بنا سکتے ہیں.
(1)حکمت "دلیل"ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن "اس آیت میں واضح طور پر دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں کہ داعی حکمت و تدبر، فھم و دانائی اور طریق حسن کا رویہ اختیار کرے اور مدعو کو مخاطب کرتے وقت لہجے میں نرمی ۔گفتگوں میں شیریں کلامی اورشایستگی ہو۔تلخی ۔ترشی اور طنزیہ لہجے سے گریز ہو۔
(2)رفق و نرمی "جیساکہ اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیھما السلام کو دعوت کے اصول کو بتاتے ہوئے فرمایا ۔"اذھب الی فرعون انہ طغی فقولا لہ قولا لینا "اور خود سب سے بڑے داعی محمد صلعم کے بارے میں اللہ نے کہا "و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین "
(3)دعوت تدریجا پیش کرے جیسا کہ شراب کی حرمت اس کی بہترین مثال ہے ۔اس لئے تواتر و تسلسل اور ہمہ وقت اور موقع بے موقع وعظ و تلقین سے پرہیز کرے ۔آپ صلعم نے جب معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری کو دعوت کی خاطر یمن بھیجا تو فرمایا "
بشروا ولا تنفروا یسرا ولا تعسرا "
(4)مدعو کے فہم، معیار اور اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت پیش کی جائے، زبان سادہ، صاف اور سلیس استعمال کی جائے اور طول بیانی و کثرت خطاب سے پرہیز کیا جائے ۔
(5)اخلاص "دعوت کا مقصد نام و نمود، عزت و شہرت، مال و دولت یا جاہ و منصب نہ ہو "انما الاعمال باالنیات و انما لکل امرء ما نوی "
(6)معیت الہی کا احساس "اس کی وجہ سے داعی کے اندر عزم و حوصلہ، شجاعت و بہادری، ثابت قدمی اور کلفتوں پر صبر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جیساکہ غار ثور میں آپ صلعم نے ابوبکر سے کہا تھا "لاتحزن ان اللہ معنا "
(7)داعی سچا ہو۔دلیل "من اصدق من اللہ حدیثا "جیسا کہ ابوجہل جیسا دشمن اسلام نے آپ صلعم کے بارے میں کہا ۔"انا لا نکذب و لکن نکذب بہ ما جئت بہ "
(8)داعی خاکسار ہو ۔اور یہ کبر و غرور کی ضد ہے اللہ نے نبی صلعم کو خاکساری کا حکم دیا ۔واخفض جناحک للمومنین.
(9)داعی کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو "دلیل "یا ایھا الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون "کیونکہ اس کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا جیسا کہ اس کی طرف اللہ نے بھی اشارہ کیا ۔اتامرون الناس باالبر و تنسون انفسکم "
(10)داعی علم کی ہتھیار سے آراستہ ہو ۔دلیل "فاعلم انہ لا الہ الااللہ واستغفر لذنبک "اس آیت میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے گناہوں سے استغفار سے قبل علم کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔کیونکہ فتاوی ابن تیمیہ کے مطابق ایک جانکار داعی اور جاہل داعی میں ٹھیک ویسے ہی فرق ہے جیسے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال اور نہ سکھائے ہوئے کا حرام ۔یہی وجہ ہے کہ آپ صلعم کو پہلے اقراء کہا گیا اس کے بعد "قم فانذر "کے مد نظر دعوت کا حکم دیا گیا ورنہ بغیر علم کے داعی اور مدعا الیہ دونوں کے لئے گمراہی کا سبب ہے جیسا کہ آپ صلعم نے فرمایا "ضلوا و اضلوا "
(11)محاسبہ نفس : داعی کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے ۔دلیل "یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد "
(12)تالیف قلبی :داعی کو چاہیے کہ وہ تالیف قلبی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل و معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں.
(13)لوگوں سے میل جول "داعی کو چاہئے کہ وہ اس صفت سے بھی متصف ہو جیساکہ نبی صلعم حج کے موقع سے یا پھر مکہ میں آنے والے وفود سے ملاقات کرتے تھے.
ان تمام افکار و نظریات اور دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ ان اصول و ضوابط کو گلے لگا کر اگر ہم اپنی دعوت کی شروعات کرتے ہیں تو پھر ہماری دعوت مؤثر اور مفید دعوت ہوگی اور اس دعوت کے اثرات و فوائد صاف صاف ہمیں دیکھائی دے گی۔