از: سید احمد اُنیس ندوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
بالآخر سپریم کورٹ نے بابری مسجد تنازعہ کو حل کرنے کی خاطر تین رکنی کمیٹی مقرر کر دی ہے .. جو آپس کی مصالحت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گی.
گزشتہ سال مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے بھی اس سلسلے میں پیش رفت کی تھی .. اور سابق چیف جسٹس کی مرضی بھی مفاہمت کی تھی مگر اُس وقت " سہرا کس کے سر بندھے" والا معاملہ پیش آ گیا. اور ہر قسم کی مفاہمت و مصالحت سے کلی احتراز کی قسمیں کھائ گئیں .. اگر مولانا محترم نے محض مصالحت کی بات سے آگے بڑھ کر باقاعدہ حل پیش کیا تھا اور اُس سے قائدین مطمئن نہیں تھے تو کم از کم اتنا تو ہو سکتا تھا کہ مولانا محترم سے یہ کہا جاتا کہ ہم مفاہمت و مصالحت کے لئے تیار ہیں مگر آپ جو راستہ بتا رہے ہیں مثلا مسجد کو منتقل کرنے کا وغیرہ وغیرہ وہ قابل اطمینان نہیں ہے، آئیے ہم سب بیٹھ کر مصالحت کا کوئ اور فارمولہ تجویز کرتے ہیں، تو شاید وہ سب کچھ نہ ہوتا جو گزشتہ سال ہوا ...
مگر اُس وقت صاف صاف کہا گیا کہ مصالحت کی کوئ گنجائش نہیں .. اور اُس ملاقات کو جو ذاتی رائے کی بنیاد پر آن ریکارڈ کی گئ اُس کو بنیاد بنا کر ایک قیمتی شخص کو بورڈ سے نکالنے کی تجویز منظور کی گئی.
عزت و ذلت اللہ تعالی کے اختیار میں ہے .. سورہ یوسف سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ خدا تعالی کی قدرت کاملہ کا اظہار بعض مرتبہ اس طور پر ہوتا ہے کہ نظر آتا ہے وہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو وہ ظاہر کے بالکل خلاف ہوتا ہے ... بہرحال اب ہر طرف مصالحت و مفاہمت کی باتیں ہیں ... البتہ اُس کمیٹی میں شری شری کی موجودگی بہت سے اہل نظر کی نظر میں قابل اطمینان نہیں ہے .. ویسے بھی بابری مسجد اور رام مندر کا انتخابات سے بڑا گہرا رشتہ ہے .. اور اس وقت اچانک اس قضیہ کا گرمانا کہیں نہ کہیں انتخابات پر اثرانداز ہوگا.
مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کا شری رام جی کو بزبان شاعر مشرق علامہ اقبال ' امامِ ہند' کہنا اور اُس کا ترجمہ "لیڈر آف انڈیا" کرنا بھی شرپسندوں کو پسند نہیں آیا اور افتراء و بہتان کی بدترین صورت حال فتنہ پرور صحافیوں کی جانب سے سامنے آئ ... ایسے لوگ ہندوستانی مفسرین اور مؤرخین کے ناموں سے بھی ناواقف ہیں جنہوں نے ہندوستان کی ان تاریخی شخصیات پر قلم اٹھائے ہیں .. مولانا محترم کو بھی میڈیا والوں سے محتاط رہنا ہوگا وہ ایک خاص پلاننگ کے ساتھ بار بار مولانا کا نام اس قضیہ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں .. اداروں، تنظیموں اور شخصیات سے وابستہ افراد کو تمام طرح کی عصبیتوں سے بالاتر ہو کر "تائید" و "اختلاف" کے لئے "دین" و "شریعت" کو بنیاد بنانا چاہئے اور ہر دو صورتوں میں مبالغہ اور شدت سے پرہیز کرنا چاہئے ..علم اور اخلاق کا جدا ہونا خسارہ دارین کا سبب ہے ... اللہ کرے وطن عزیز میں امن برقرار رہے اور مفاہمت کی کوئ بہترین صورت سامنے آئے ... آمین
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
بالآخر سپریم کورٹ نے بابری مسجد تنازعہ کو حل کرنے کی خاطر تین رکنی کمیٹی مقرر کر دی ہے .. جو آپس کی مصالحت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گی.
گزشتہ سال مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے بھی اس سلسلے میں پیش رفت کی تھی .. اور سابق چیف جسٹس کی مرضی بھی مفاہمت کی تھی مگر اُس وقت " سہرا کس کے سر بندھے" والا معاملہ پیش آ گیا. اور ہر قسم کی مفاہمت و مصالحت سے کلی احتراز کی قسمیں کھائ گئیں .. اگر مولانا محترم نے محض مصالحت کی بات سے آگے بڑھ کر باقاعدہ حل پیش کیا تھا اور اُس سے قائدین مطمئن نہیں تھے تو کم از کم اتنا تو ہو سکتا تھا کہ مولانا محترم سے یہ کہا جاتا کہ ہم مفاہمت و مصالحت کے لئے تیار ہیں مگر آپ جو راستہ بتا رہے ہیں مثلا مسجد کو منتقل کرنے کا وغیرہ وغیرہ وہ قابل اطمینان نہیں ہے، آئیے ہم سب بیٹھ کر مصالحت کا کوئ اور فارمولہ تجویز کرتے ہیں، تو شاید وہ سب کچھ نہ ہوتا جو گزشتہ سال ہوا ...
مگر اُس وقت صاف صاف کہا گیا کہ مصالحت کی کوئ گنجائش نہیں .. اور اُس ملاقات کو جو ذاتی رائے کی بنیاد پر آن ریکارڈ کی گئ اُس کو بنیاد بنا کر ایک قیمتی شخص کو بورڈ سے نکالنے کی تجویز منظور کی گئی.
عزت و ذلت اللہ تعالی کے اختیار میں ہے .. سورہ یوسف سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ خدا تعالی کی قدرت کاملہ کا اظہار بعض مرتبہ اس طور پر ہوتا ہے کہ نظر آتا ہے وہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو وہ ظاہر کے بالکل خلاف ہوتا ہے ... بہرحال اب ہر طرف مصالحت و مفاہمت کی باتیں ہیں ... البتہ اُس کمیٹی میں شری شری کی موجودگی بہت سے اہل نظر کی نظر میں قابل اطمینان نہیں ہے .. ویسے بھی بابری مسجد اور رام مندر کا انتخابات سے بڑا گہرا رشتہ ہے .. اور اس وقت اچانک اس قضیہ کا گرمانا کہیں نہ کہیں انتخابات پر اثرانداز ہوگا.
مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کا شری رام جی کو بزبان شاعر مشرق علامہ اقبال ' امامِ ہند' کہنا اور اُس کا ترجمہ "لیڈر آف انڈیا" کرنا بھی شرپسندوں کو پسند نہیں آیا اور افتراء و بہتان کی بدترین صورت حال فتنہ پرور صحافیوں کی جانب سے سامنے آئ ... ایسے لوگ ہندوستانی مفسرین اور مؤرخین کے ناموں سے بھی ناواقف ہیں جنہوں نے ہندوستان کی ان تاریخی شخصیات پر قلم اٹھائے ہیں .. مولانا محترم کو بھی میڈیا والوں سے محتاط رہنا ہوگا وہ ایک خاص پلاننگ کے ساتھ بار بار مولانا کا نام اس قضیہ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں .. اداروں، تنظیموں اور شخصیات سے وابستہ افراد کو تمام طرح کی عصبیتوں سے بالاتر ہو کر "تائید" و "اختلاف" کے لئے "دین" و "شریعت" کو بنیاد بنانا چاہئے اور ہر دو صورتوں میں مبالغہ اور شدت سے پرہیز کرنا چاہئے ..علم اور اخلاق کا جدا ہونا خسارہ دارین کا سبب ہے ... اللہ کرے وطن عزیز میں امن برقرار رہے اور مفاہمت کی کوئ بہترین صورت سامنے آئے ... آمین