اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اسلام میں لڑکی کی شادی اور ولی کی حیثیت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 2 April 2019

اسلام میں لڑکی کی شادی اور ولی کی حیثیت!

ذیشان الہی منیر تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے اس پرفتن دور میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لڑکی کی شادی کے مسئلہ کو لیکر اپنے پیارے پیارے غلط افکار و نظریات اور دلائل کو خوب نمک مرچ لگا کر اس طرح چٹپٹا بنانے کی کو شش کرتے ہیں کہ اس تیخی مرچی سے ایک طرف لڑکی کی شادی میں ولی کو  غیر ضروری قرار دیاجاتا ہے و ہی دوسری طرف خواتین کو کھلی چھوٹ دے کر اسے بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا  ہے جبکہ کتاب و سنت کے اندر ڈھیر سارے ہیرے اور موتی کی طرح چمکتے اور
دمکتے ہوئے دلائل موجود ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر خواتین کی شادی نہیں ہوتی تھی ان دلائل میں سے چند کو ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے ... دلیل نمبر(1)سورہ بقرہ آیت نمبر 232 میں رحمن کا یہ برہان ہے "واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن"یہ آیت کریمہ اس بات پر دال ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں اس آیت میں اولیاء کو خطاب ہے اس سے عورت کے نکاح میں ان کا حق اور اختیار ثابت ہوتا  ہے اس آیت کے تحت ابو جعفر تفسیر طبری صفہ 288 پر حافظ ابن کثیر تفسیر ابن کثیر صفہ 595 پر محمد بن اسماعیل البخاری ج 1 صفہ 77 پر امام ترمذی سنن ترمذی حدیث نمبر 2981 پر اور علامہ شوکانی نیل الاوطار صفہ 197 پر رقمطراز ہے کہ "فی ھذہ الآیۂ دلیل علی ان النکاح لا یجوز بغیر ولی "یہ آیت اس بات پر روشن دلیل ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتی ہے.
دلیل نمبر (2)فرمان باری تعالی ہے "فانکحوھن باذن اھلن و اتوھن اجورھن بالمعروف (نسا:آیت 25)اس کا ترجمہ یہ ھیکہ تم ان کے گھر والوں کی اجازت کے ساتھ ان سے نکاح کرو اور معروف طریقے سے ان کا حق مہر ادا کرو اس آیت کریمہ کے بارے میں امام ابن جریر اپنی کتاب تفسیر ابن جریر صفہ 19 پر لکھتے ہیں کہ "باذن اھلن سے مراد ہے کہ خواتین کا نکاح ان کے سرپرستوں کی اجازت سے کی جائے گی.
دلیل نمبر (3) اللہ تعالی کا فرمان ہے "ولا تنکحواالمشرکین حتی یومنوا(بقرہ:221)جس کا ترجمہ یہ ہیکہ تم اپنی عورتوں کا مشرکین سے نکاح نہ کرو حتی کہ وہ ایمان لے آئیں امام بخاری نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے جبکہ حافظ ابن حجر فتح الباری صفہ 182 پر رقمطراز ہیکہ اس آیت میں اللہ تعالی نے نکاح کے بارے میں مردوں کو مخاطب کیا ہے عورتوں کو نہیں گویا ولی کے بغیر عورت کا نکاح ناممکن ہے.
قرآنی دلائل کے بعد حدیث نبوی سے کچھ دلائل کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے ۔دلیل نمبر( 1 )سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں کہ ان میں سے ایک صورت یہ تھی "یخطب الرجل الی الرجل ولیتہ او ابنتہ فیصدقھا ثم ینکحھا فلما بعث محمد بالحق ھدم نکاح الجاھلیۃ کلہ الا نکاح الناس الیوم "امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں موجود "الا نکاح الناس الیوم "کے الفاظ سے ثابت کیا ہے کہ ولی کی اجازت نکاح میں ضروری ہے کیونکہ جس نکاح کو آپ صلعم نے برقرار رکھا ہے اس کا اندازہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہی بیان کیا ہے کہ ولی خود عورت کا نکاح کرے.
دلیل نمبر (2) سیدنا ابو موسی الاشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول صلعم نے فرمایا "لا نکاح الا بولی "کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں اس حدیث کو امام ابن الجارود ،ابن حبان، علی بن مدینی، امام ذھلی اور امام حاکم رحمھم اللہ نے صحیح کہا ہے جبکہ حافظ ابن حجر تخریج احادیث المختصر صفہ 372 پر لکھتے ہیں ھذا حدیث حسن صحیح امیر صنعانی فرماتے ہیں "والحدیث دل علی انہ لا یصح النکاح الا بولی "یہ حدیث اس بات پر دال ہیکہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں حوالہ کے لئے دیکھئے سبل السلام صفہ 117
دلیل نمبر (3)سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلعم  نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہیں "فنکاحھا باطل قالت ثلاث مرات "تو اسکا نکاح باطل ہے سیدہ عائشہ نے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا یہ حدیث مسند احمد، سنن ابی داود، سنن دار قطنی وغیرہ میں موجود ہے جبکہ اس حدیث کو امام ترمذی اور حافظ ابن عساکر نے حسن کہا ہے اور حاکم، ابن حبان اور ابو عوانہ نے صحیح کہا ہے
دلیل نمبر (4)بخاری شریف میں یہ روایت موجود ہے کہ سیدہ زینب نبی صلعم کی ازواج مطہرات پر فخر کرتی ہوئی کہتی تھیں کہ تم سب کا نکاح تمہا رے گھر والوں نے کیا ہے جبکہ میرا نکاح اللہ تعالی نے آسمانوں کے اوپر سے کیا ہے.
دلیل نمبر (5)سفیان ثوری، اوزاعی امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی، عبد اللہ بن مبارک، اسحاق بن راھویہ، علامہ ابن تیمیہ، ابن قدامہ المقدسی اور شاہ ولی اللہ محدث دھلوی کا مسلک ہیکہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اگر کوئی نکاح کرلے تو "یفرق بینھما"ان دونوں کے درمیان جدائی کرائی جائے گی، جبکہ محمد بن سیرین نے کہا "ان الزانیہ ھی التی تنکح نفسھا "جو عورت خود اپنا نکاح کرتی ہے وہ زانیہ ہے.
مذکورہ بالا ان تمام دلائل کے برخلاف کچھ نام نہاد علمائے کرام بے بنیاد دلائل کا سہارا لیکر لڑکی کی شادی کو ولی کے بغیر  درست قرار دیتے ہیں جن میں سے چند کا شرعی پوسٹ ماٹم میں ذیل    میں کر رہا ہوں
معترضین اعتراض کے طور پر سب سے پھلے      یہ حدیث پیش کرتے ہیں "ان عائشہ زوج النبی صلعم زوجت حفصہ بنت عبد الرحمن "کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے حفصہ بنت عبد الرحمن کا نکاح زبیر سے کر دیا..  لیکن یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ کوئی عورت کسی عورت کا ولی نہیں بن سکتی اور جہاں تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے نکاح کا بندوبست کیا تھا وہ نکاح کا ولی نہیں تھی جیسا کہ السنن الکبری اور مصنف ابن ابی شیبہ صفہ 133 پر اس کو واضح کیا گیا ہے..
دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب نے ایک عورت کا بغیر ولی کے نکاح جائز قرار دیا اس کی ماں نے اس کی رضامندی سے نکاح کیا تھا. لیکن یہ اعتراض بھی قابل حجت نہیں کیونکہ اس کی سند  سخت ضعیف ہے اس میں ابو معاویہ الضریر مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہے ہیں اس میں ایک مبھم اور مجھول راوی موجود ہے یہ قرآن و حدیث اور سیدنا علی کے قول کے بھی خلاف ہے
تیسرا اعتراض اس حدیث سے کرتے ہیں کہ "الثیب احق بنفسھا من ولیھا "اور ایک روایت میں ہے کہ "لیس للولی مع الثیب امر "کہ شوہر دیدہ عورت کے بارے میں ولی کا  کوئی اختیار نہیں.. لیکن یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ اس میں تو محض شوہر دیدہ خواتین کو زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے جس کا  واضح مفھوم ہیکہ کم اختیار بھی کسی کوباقی ہے اور وہ ولی کا ہے ان احادیث میں ایسا کہیں بھی نہیں ہیکہ عورت ولی کے بغیر نکاح کر سکتی ہے.
آج سماج و معاشرے کے اندر یہ دیکھنے کو ملتا ہےکہ لڑکی اور لڑکے کا اولیاء کے بغیر خود نکاح کرنا دونو خاندانوں کی ذلت و رسوائی کا باعث بنتا ہے لو میرج اور کوٹ میرج سے فریقین کے والدین اور خاندان کی رسوائی ہوتی ہے غیرت کے نام پر قتل و غارت بھی ہوتی ہے فریقین کو والدین سمیت تھانے, کچھری اور عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے اس لئے اسلام نے ان تمام جرائم و کرائم کے سد باب کے لئے لڑکیوں کے نکاح میں ولی کا ہونا شرط قرار دیا چنانچہ ان تمام جرائم و کرائم اور دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کی شادی ناجائز ہے ۔