ازقلم: محمد عظیم ڈھکواوی فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شبِ برأت بڑی بابرکت رات ہے اس مبارک رات کے فضائل وبرکات اور اس کی عظمت وخصوصیت لکھتے وقت رنج وغم اور افسوس کا اظہار بھی کرنا پڑتاہے کہ ہمارے اعمال وافعال اور ان دنوں میں ہونے والے خرافات وبدعات نے اس کے ثواب کو عذاب اور اس کے خیرات وبرکات کو دینی ودنیوی خسارے ونقصان سے تبدیل کردیا
مسلمان کبھی وہ قوم تھی جو ہر شر سے کوئی خیر اور ہر برائی میں کوئی بھلائی تلاش کرلیتی تھی اور ہر نقصان ومضرت کی جگہ سے بھی نفع حاصل کرلیتے تھے اور آج ہماری شامتِ اعمال نے اس طرح کی کایاپلٹ دی کہ ہر نیکی کی جگہ سے بدی ہر بھلائی کی جگہ سے برائی اورہر نفع کی جگہ نقصان ہمارا حصہ اور مقدر بن چکی ہے
رسم آتش بازی اور مسلمانون کا اسراف:
یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے کہ اس کے آتے ہی سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم عبادتوں میں اضافہ کردیتے تھے اورہمہ تن ذکرِالٰہی میں مشغول ہوجاتے اور اس کی پندرہویں رات میں فرشتوں کا زمین پر نزول ہوتاہے اس رات میں کائنات کا ہر ذرّہ اپنے خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوتاہے اور ہر طرح کی دینی ودنیوی خیروبرکت کا نزول ہوتاہے بندوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور اس رات باری تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتاہے اس مبارک مہینے میں ہمیں اپنے نبی کی پیروی کرنی چاہئے ہمارے لئے اسی میں دین ودنیا کی فلاح مضمر ہے
مگر ہم مسلمانانِ ہند اس مبارک ماہ اور اس مقدس رات میں کہاں تک اپنے نبی کی پیروی کرتے اور اپنے نبی کی سنتوں پر چلتے ہیں اور ایسی باعظمت رات کی کتنی قدر کرتےہیں،
ہماراحال یہ ہے کہ ماہ شعبان آتے ہی آتش بازی میں مشغول ہوجاتےہیں شبِ برأت کے دن اپنے بچوں کو آتش بازی کا سامان منگاکر دینا، آتش بازی کے لئے پیسے دینا ایسا ضروری تصور کیاجاتاہے کہ احکام خداوندی ٹل جائیں مگر یہ رسم نہ ٹلے ، بڑے بوڑھے اپنے چھوٹوں کو دنیا ودین کی اس آگ کا تحفہ بھیجنا بزگانہ شفقت کا لازمی نتیجہ سمجھتے ہیں، خیر وبرکت سے لبریز یہ شعبان کا مہینہ جسے شبِ برأت کے نام سے جاناجاتاہے عموماآتش بازی اور حلوہ خوری کا مہینہ سمجھاجاتاہے، مسلمان جنہیں مذہب سے بےگانگی نے عقل وذہنی انحطاط اور پرلے درجے کا زیاں کار بنادیا ہے اس مبارک مہینے کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں پٹاخے، پھلجھری اوردیگر آتش بازی اور پھرحلوہ اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناکر نیاز دے دی جائے، یہی اس دن کے کرنے کے اعمال ہیں گویاہم خدائے بزرگ وبرترکی بارگاہ میں اپنی نیاز مندی اور عبادت، دعاء واستغفار،تلاوت اور ذکر واذکار کا تحفہ وہدیہ پیش کرنےکے بجائے پٹاخے پھلجھریاں پیش کرتے ہیں اور زبان حال سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم آگ کو پسند کرتے ہیں اور آگ ہی میں رہنا چاہتے ہیں ( استغفراللہ) یہ خرافات ہر وقت اور ہر جگہ ہیں لیکن شبِ برأت میں جب کہ رحمتِ خداوندی ہرشخص کو توبہ واستغفار کی طرف بلارہی ہے ان واہیات ، بے ہودہ لغویات اور فضولیات میں مبتلا ہونا درحقیقت اس کی نعمت کی ناقدری ہے (نعوذباللہ من ذالک)
اور اسی وجہ سے علماءکا اس بات پراتفاق ہے کہ مبارک مقامات اور مبارک اوقات میں جس طرح نیک عمل کاثواب بڑھ جاتاہے اسی طرح گناہ کاعذاب بھی زیادہ ہوتاہے اور اسکی سزا بھی بڑھ جاتی ہے
اس مبارک رات میں بدبخت وبد نصیب مسلمان اور زیادہ سرکش ہوجاتے ہیں اپنے مال ودولت کو شیطانی راہ میں برباد کرتے ہیں مفلس ونادار بن جاتے ہیں معصوم اور مقدس فرشتوں کا استقبال آتش بازی کی گندیوں اور بیہودہ شور وغل سے کرتے ہیں، اور اس مبارک رات کی تمام برکتوں سے محروم رہتے ہیں اور پھر ہمیں اس بات کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا افسوس کہ جو قوم حق کا شعلہ بن کر باطل کو جلانے کے لئے آئی تھی آج وہ خودہی باطل کے شعلوں سے اپنے کو جلارہی ہے جو قوم لوگوں کی رہبری کے لئے آئی تھی، وہ خود گمراہ اور رہبری کی محتاج نظر آرہی ہے
آج کسی دینی فلاحی کام کے لئے مسلمانوں کے پاس پیسے نہیں، کسی دینی ادارے کے لئے، انجمن اور دینی مدارس کےلئے ان کو ہزار حیلے وبہانے آتے ہیں اورطرح طرح کے عذر کریں گےکہ آج کل تومیں خود پریشانی میں مبتلا ہوں اس وقت ہاتھ خالی ہے فی الحال کاروبار بند ہے
غرض نہ جانے کیاکیا اعذار تلاش کرتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد اگر بدعت وگمراہی لغویات وفضولیات کا شیطان صدا لگاتاہے تو بلا تأمل اس کی آواز پر لبیک کہنے کےلئے تیار رہتے ہیں یہ رسم نہ صرف یہ کہ گناہ بے لذت ہے بلکہ اس کی وجہ سے دنیوی تباہی وبربادی ہوتی ہے جیساکہ اس کی وجہ سے آگ لگناوغیرہ مشاہدے میں آتاہے اور اس کے علاوہ ویسے بھی اپنے مال کو ضائع کرنا اور اسرافِ بے جا ہے ، جو دنیا میں بھی مذموم ہونے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی بربادی کا دروازہ کھولتا ہے اور قرآن کریم نے " لاتسرفوا" کی تاکید کرکے اسراف سے منع کیا اور "ان اللہ لایحب المسرفین " کہہ کر یہ بھی واضح کردیا کہ جو شخص اسراف کا شکار ہے وہ خدا کی محبت سے آشنا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی عشق خداوندی کی لذت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے
آتش بازی اور چراغاں:
آتش بازی گھروں اور مسجدوں میں روشنی اور چراغاں کرنے کی رسم جو آج ہندوستان میں رائج ہے نہ تو اسلام نے اس کی تعلیم دی اور نہ ہی یہ اسلامی طزرہے بلکہ یہ تو ہندوؤں کی رسم ہے اور انہیں کا یہ طریقہ ہے اور یہ انہیں کے مشہور تیوہار دیوالی کی نقالی ہے، ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے اور میل ملاپ کی بوجہ سے انہیں سےنقل کرکے یہ چیزیں مسلمانوں میں آئی ہیں جو قابل ترک عمل ہے، اسلام میں اس کی کوئی نظیر نہیں اور نہ ہی مذہب اسلام اسے پسند کرتاہے، بلکہ ایسے اعمال کرنے والوں کے لئے
"من تشبہ بقوم فھو منہم " (جوقوم جس سے مشابہت رکھے وہ انہیں میں سے ہے)
کی وعید شدید بھی ہے اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو سادگی کے ساتھ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتاہے ،فضولیات ولغویات سے احتراز کرتے ہوئے ایک پاکیزہ ماحول پیداکرناچاہتا ہے اس لئے غیروں کے طور طریقے اور دوسروں کے طرزے عمل اپنانے سے منع کرتاہے
حلوے کی رسم:
حلوے کی رسم کو شبِ برأت کے ساتھ ایسا خاص کیا کہ شبِ برأت کا جزولاینفک سمجھا جانے لگا، کہ گویا اسکے بغیر شبِ برأت ہی نہیں ہوتی حتی کہ اسکے ترک پر اتنا رنج وافسوس ہوتاہے کہ فرائض وواجبات کے ترک پر اتنا غم نہیں ہوتا حد تویہ ہے کہ اس رسم میں کوتاہی کرنے والے کو بخیل، کنجوس کے مکروہ وناگوار القاب سے نوازا جاتاہے
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جب سراکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے اس وقت آپ نے حلواکھایاتھا اس لئے ان کی یاد کے طورپرمناتے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ان ایام میں ہوئی تھی یہ ان کا فاتحہ ہے.
یہ دونوں باتیں بے اصل ومن گھڑت ہیں اول اس لئے کہ اس طرح کا اعتقاد رکھنا ہی غلط اور بے اصل ہے دوسری بات یہ کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک کے شہید ہونے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت دونوں واقعہ کا تعلق غزوہء احد سے ہے جو شوال میں پیش آیا اور اگر یہ باتیں درست بھی ہوں تو اس طرح کی یادگاریں بغیر کسی دلیل شرعی کے قائم کرنا ایک بدعت اور ناجائز عمل ہے اس کے علاوہ یہ ایک عجیب طرح کی فاتحہ خوانی ہے خودپکاکر خود ہی کھالے اور ایسے موقع پر بھی فقراء ومساکین کو حاشیہ پرہی رکھا جائے جو اصل اور حقیقی مستحق ہیں
اللہ ہم سب کق دین کی صحیح سمجھ عطافرمائے اور بدعات وخرافات لایعنی وفضولیات سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور اس مغفرت وبخشش کے حسین موقع پرتمام مسلمانوں کی مغفرت فرئے اسلام ومسلمانوں کے جان مال عزت وآبروکی حفاظت فرمائے اور دین کا بول بالافرمائے آمین یارب العالمین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شبِ برأت بڑی بابرکت رات ہے اس مبارک رات کے فضائل وبرکات اور اس کی عظمت وخصوصیت لکھتے وقت رنج وغم اور افسوس کا اظہار بھی کرنا پڑتاہے کہ ہمارے اعمال وافعال اور ان دنوں میں ہونے والے خرافات وبدعات نے اس کے ثواب کو عذاب اور اس کے خیرات وبرکات کو دینی ودنیوی خسارے ونقصان سے تبدیل کردیا
مسلمان کبھی وہ قوم تھی جو ہر شر سے کوئی خیر اور ہر برائی میں کوئی بھلائی تلاش کرلیتی تھی اور ہر نقصان ومضرت کی جگہ سے بھی نفع حاصل کرلیتے تھے اور آج ہماری شامتِ اعمال نے اس طرح کی کایاپلٹ دی کہ ہر نیکی کی جگہ سے بدی ہر بھلائی کی جگہ سے برائی اورہر نفع کی جگہ نقصان ہمارا حصہ اور مقدر بن چکی ہے
رسم آتش بازی اور مسلمانون کا اسراف:
یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے کہ اس کے آتے ہی سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم عبادتوں میں اضافہ کردیتے تھے اورہمہ تن ذکرِالٰہی میں مشغول ہوجاتے اور اس کی پندرہویں رات میں فرشتوں کا زمین پر نزول ہوتاہے اس رات میں کائنات کا ہر ذرّہ اپنے خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوتاہے اور ہر طرح کی دینی ودنیوی خیروبرکت کا نزول ہوتاہے بندوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور اس رات باری تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتاہے اس مبارک مہینے میں ہمیں اپنے نبی کی پیروی کرنی چاہئے ہمارے لئے اسی میں دین ودنیا کی فلاح مضمر ہے
مگر ہم مسلمانانِ ہند اس مبارک ماہ اور اس مقدس رات میں کہاں تک اپنے نبی کی پیروی کرتے اور اپنے نبی کی سنتوں پر چلتے ہیں اور ایسی باعظمت رات کی کتنی قدر کرتےہیں،
ہماراحال یہ ہے کہ ماہ شعبان آتے ہی آتش بازی میں مشغول ہوجاتےہیں شبِ برأت کے دن اپنے بچوں کو آتش بازی کا سامان منگاکر دینا، آتش بازی کے لئے پیسے دینا ایسا ضروری تصور کیاجاتاہے کہ احکام خداوندی ٹل جائیں مگر یہ رسم نہ ٹلے ، بڑے بوڑھے اپنے چھوٹوں کو دنیا ودین کی اس آگ کا تحفہ بھیجنا بزگانہ شفقت کا لازمی نتیجہ سمجھتے ہیں، خیر وبرکت سے لبریز یہ شعبان کا مہینہ جسے شبِ برأت کے نام سے جاناجاتاہے عموماآتش بازی اور حلوہ خوری کا مہینہ سمجھاجاتاہے، مسلمان جنہیں مذہب سے بےگانگی نے عقل وذہنی انحطاط اور پرلے درجے کا زیاں کار بنادیا ہے اس مبارک مہینے کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں پٹاخے، پھلجھری اوردیگر آتش بازی اور پھرحلوہ اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناکر نیاز دے دی جائے، یہی اس دن کے کرنے کے اعمال ہیں گویاہم خدائے بزرگ وبرترکی بارگاہ میں اپنی نیاز مندی اور عبادت، دعاء واستغفار،تلاوت اور ذکر واذکار کا تحفہ وہدیہ پیش کرنےکے بجائے پٹاخے پھلجھریاں پیش کرتے ہیں اور زبان حال سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم آگ کو پسند کرتے ہیں اور آگ ہی میں رہنا چاہتے ہیں ( استغفراللہ) یہ خرافات ہر وقت اور ہر جگہ ہیں لیکن شبِ برأت میں جب کہ رحمتِ خداوندی ہرشخص کو توبہ واستغفار کی طرف بلارہی ہے ان واہیات ، بے ہودہ لغویات اور فضولیات میں مبتلا ہونا درحقیقت اس کی نعمت کی ناقدری ہے (نعوذباللہ من ذالک)
اور اسی وجہ سے علماءکا اس بات پراتفاق ہے کہ مبارک مقامات اور مبارک اوقات میں جس طرح نیک عمل کاثواب بڑھ جاتاہے اسی طرح گناہ کاعذاب بھی زیادہ ہوتاہے اور اسکی سزا بھی بڑھ جاتی ہے
اس مبارک رات میں بدبخت وبد نصیب مسلمان اور زیادہ سرکش ہوجاتے ہیں اپنے مال ودولت کو شیطانی راہ میں برباد کرتے ہیں مفلس ونادار بن جاتے ہیں معصوم اور مقدس فرشتوں کا استقبال آتش بازی کی گندیوں اور بیہودہ شور وغل سے کرتے ہیں، اور اس مبارک رات کی تمام برکتوں سے محروم رہتے ہیں اور پھر ہمیں اس بات کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا افسوس کہ جو قوم حق کا شعلہ بن کر باطل کو جلانے کے لئے آئی تھی آج وہ خودہی باطل کے شعلوں سے اپنے کو جلارہی ہے جو قوم لوگوں کی رہبری کے لئے آئی تھی، وہ خود گمراہ اور رہبری کی محتاج نظر آرہی ہے
آج کسی دینی فلاحی کام کے لئے مسلمانوں کے پاس پیسے نہیں، کسی دینی ادارے کے لئے، انجمن اور دینی مدارس کےلئے ان کو ہزار حیلے وبہانے آتے ہیں اورطرح طرح کے عذر کریں گےکہ آج کل تومیں خود پریشانی میں مبتلا ہوں اس وقت ہاتھ خالی ہے فی الحال کاروبار بند ہے
غرض نہ جانے کیاکیا اعذار تلاش کرتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد اگر بدعت وگمراہی لغویات وفضولیات کا شیطان صدا لگاتاہے تو بلا تأمل اس کی آواز پر لبیک کہنے کےلئے تیار رہتے ہیں یہ رسم نہ صرف یہ کہ گناہ بے لذت ہے بلکہ اس کی وجہ سے دنیوی تباہی وبربادی ہوتی ہے جیساکہ اس کی وجہ سے آگ لگناوغیرہ مشاہدے میں آتاہے اور اس کے علاوہ ویسے بھی اپنے مال کو ضائع کرنا اور اسرافِ بے جا ہے ، جو دنیا میں بھی مذموم ہونے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی بربادی کا دروازہ کھولتا ہے اور قرآن کریم نے " لاتسرفوا" کی تاکید کرکے اسراف سے منع کیا اور "ان اللہ لایحب المسرفین " کہہ کر یہ بھی واضح کردیا کہ جو شخص اسراف کا شکار ہے وہ خدا کی محبت سے آشنا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی عشق خداوندی کی لذت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے
آتش بازی اور چراغاں:
آتش بازی گھروں اور مسجدوں میں روشنی اور چراغاں کرنے کی رسم جو آج ہندوستان میں رائج ہے نہ تو اسلام نے اس کی تعلیم دی اور نہ ہی یہ اسلامی طزرہے بلکہ یہ تو ہندوؤں کی رسم ہے اور انہیں کا یہ طریقہ ہے اور یہ انہیں کے مشہور تیوہار دیوالی کی نقالی ہے، ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے اور میل ملاپ کی بوجہ سے انہیں سےنقل کرکے یہ چیزیں مسلمانوں میں آئی ہیں جو قابل ترک عمل ہے، اسلام میں اس کی کوئی نظیر نہیں اور نہ ہی مذہب اسلام اسے پسند کرتاہے، بلکہ ایسے اعمال کرنے والوں کے لئے
"من تشبہ بقوم فھو منہم " (جوقوم جس سے مشابہت رکھے وہ انہیں میں سے ہے)
کی وعید شدید بھی ہے اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو سادگی کے ساتھ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتاہے ،فضولیات ولغویات سے احتراز کرتے ہوئے ایک پاکیزہ ماحول پیداکرناچاہتا ہے اس لئے غیروں کے طور طریقے اور دوسروں کے طرزے عمل اپنانے سے منع کرتاہے
حلوے کی رسم:
حلوے کی رسم کو شبِ برأت کے ساتھ ایسا خاص کیا کہ شبِ برأت کا جزولاینفک سمجھا جانے لگا، کہ گویا اسکے بغیر شبِ برأت ہی نہیں ہوتی حتی کہ اسکے ترک پر اتنا رنج وافسوس ہوتاہے کہ فرائض وواجبات کے ترک پر اتنا غم نہیں ہوتا حد تویہ ہے کہ اس رسم میں کوتاہی کرنے والے کو بخیل، کنجوس کے مکروہ وناگوار القاب سے نوازا جاتاہے
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جب سراکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے اس وقت آپ نے حلواکھایاتھا اس لئے ان کی یاد کے طورپرمناتے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ان ایام میں ہوئی تھی یہ ان کا فاتحہ ہے.
یہ دونوں باتیں بے اصل ومن گھڑت ہیں اول اس لئے کہ اس طرح کا اعتقاد رکھنا ہی غلط اور بے اصل ہے دوسری بات یہ کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک کے شہید ہونے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت دونوں واقعہ کا تعلق غزوہء احد سے ہے جو شوال میں پیش آیا اور اگر یہ باتیں درست بھی ہوں تو اس طرح کی یادگاریں بغیر کسی دلیل شرعی کے قائم کرنا ایک بدعت اور ناجائز عمل ہے اس کے علاوہ یہ ایک عجیب طرح کی فاتحہ خوانی ہے خودپکاکر خود ہی کھالے اور ایسے موقع پر بھی فقراء ومساکین کو حاشیہ پرہی رکھا جائے جو اصل اور حقیقی مستحق ہیں
اللہ ہم سب کق دین کی صحیح سمجھ عطافرمائے اور بدعات وخرافات لایعنی وفضولیات سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور اس مغفرت وبخشش کے حسین موقع پرتمام مسلمانوں کی مغفرت فرئے اسلام ومسلمانوں کے جان مال عزت وآبروکی حفاظت فرمائے اور دین کا بول بالافرمائے آمین یارب العالمین