اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شب براءت کی فضیلت اور امت مسلمہ کی افراط وتفریط!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 20 April 2019

شب براءت کی فضیلت اور امت مسلمہ کی افراط وتفریط!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماہ شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزہ رکھتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ پورے شعبان کاروزہ رکھتے تھے،صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ شعبان کے مہینہ میں اللہ کے دربار میں بندوں میں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں،اس لئے آقا نے یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ میرے نامہ اعمال رب کے دربار میں پیش کئے جائیں تومیں روزہ کی حالت میں ہوں، شعبان میں ایک بابرکت اورفضیلت والی رات ہے، جس کی فضیلت حسن درجہ کی روایتوں سے ثابت ہے،حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تبارک وتعالی تمام بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، مشرک اور مسلمان بھائی سے بغض وعداوت رکھنے والے سوا تمام لوگوں کی مغفرت کردی جاتی ہے، بیہقی نے شعب الایمان میں اور علامہ ہیشمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد نے اس روایت کونقل کیا ہے، علامہ ہیشمی رحمہ اللہ نے اس روایت کونقل کرنے کے بعد فرمایا "رواہ الطبرانی فی الکبیروالاوسط ورجالھماثقات، مجمع الزوائد جلد 16 صفحہ  191اس روایت کو علامہ طبرانی نے کبیر اوراوسط دونوں میں روایت کیاہے، اور دونوں کے تمام راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد کے محقق شیخ حسین سلیم اسد الدرانی نے اس روایت کی تحقیق کرتے ہوتے ہوئے فرمایا، "وهذا الاسناد صحيح اذاكان مكحول سمعه من مالك والا فالاسناد منقطع وعلي كل حال فان الحديث صحيح بشواهده، مجمع الزوائد جلد16صفحہ191, یعنی یہ روایت صحیح درجہ کی ہے اگر مکحول کا مالک بن یغامر سے سماع ثابت ہو، اگر سماع ثابت نہ ہو تب بھی یہ روایت صحیح درجہ کی ہے کیونکہ اس روایت کے بیشمار شواہد ہیں، اس روایت کو علماء نے صحیح لغیرہ مانا ورنہ حسن لغیرہ ہونے کاتوسبھی نے اقرار کیا ہے،
علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے ابن دحیہ کے اس قول کہ شب براءت کے کوئی چیز حدیث سے ثابت نہیں ہے  کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے، کہ حدیث معاذ بن جبل حسن درجہ کی ہے،شب براءت کے سلسلہ میں بہت سی روایات بھی ہیں جوحسن درجہ کی ہیں، جس کے تمام راوی ثقہ ہیں، حدیث عبداللہ بن عمروعاص رضی اللہ عنہ کی روایت بھی حسن درجہ کی ہے، صاحب مشکوہ نے اس کی طرف اشارہ ہے، ایسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی روایت جسے بزار اور بیہقی نے روایت کیا، اس روایت کے بارے میں علامہ منذری نے کہا، باسناد لاباس بہ یعنی یہ روایت اسناد کے اعتبار سے درست ہے، جبکہ علامہ ہیشمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد کے اندر فرمایا،
قال الھیشمی، فیہ عبداللہ بن عبدالملک ذکرہ ابن حاتم فی الجرح والتعدیل ولم یضعفہ وبقیہ رجالہ ثقات،  مجمع الزوائد جلد 16صفحہ189, 190, اس روایت میں عبداللہ بن عبدالملک ہیں علامہ حاتم رحمہ اللہ نے ان کاتذکرہ جرح تعدیل کے باب میں کیاہے، لیکن ان کی تضعیف نہیں اور اس روایت باقی تمام راوی ثقہ ہیں، لہاذا یہ روایت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہما بھی حسن درجہ کی ہوئی، ایسے مرسل روایت مکحول عن کثیر بن مرہ تابعی کے طرق سے یہ بھی روایت مرسل جید ہے، علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے شرح زرقانی میں اس کاتذکرہ کیا ہے،
اہل حدیث علماء نے بھی شب براءت کی روایت کوحسن قرار دیاہے:
اس بحث کاخلاصہ یہی ہے کہ شب براءت کی روایت حسن درجہ کی ہے، غیرمقلد عالم دین مولانا عبیداللہ مبارکپوری نے اسے تسلیم ہے، مشکوہ شریف کی ایک روایت جوابن ماجہ شریف کی ہے اس کی تشریح کرتے ہوئےاپنی شرح کے اندر فرماتے ہیں،
فالحدیث ضعیف بطریقیہ ولکن لہ شواھد روی بعضھا باسناد حسن، مرعاہ المفاتیح جلد، ۳، صفحہ 341,
یعنی ابن ماجہ کی روایت اپنی سندوں سے توضعیف ہے لیکن شب براءت کے سلسلہ میں حسن درجہ کی روایت بھی ہیں، اور انہوں نے اس تمام روایتوں کوذکر کیا ہے، جس کو ہم اوپر ذکر کئے، روایت  معاذبن جبل، ابوبکر صدیق، عبداللہ بن عمروبن عاص، مکحول عن کثیر بن مرہ، یہ روایتیں ان کے نزدیک حسن ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث، غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ رات بابرکت ہے، چنانچہ علامہ عبیداللہ مبارکپوری اپنی شرح مرعاہ المفاتیح کے اندر تمام تر حسن درجہ کی روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں،
وھذہ الاحادیث کلھا تدل علی خطر لیلہ نصف شعبان وجلالہ شانھا وقدرھا فلاینبغی ان یغفک عنھا بل یستحب احیاءھا بالعبادہ والذکر، ویدل علی ندب احیاءھا حدیث علی الآتی. مرعاہ المفاتیح  .جلد3صفحہ 191,
یہ تمام احادیث اس بات کوثابت کرتی ہیں شب براءت کی رات انتہائی عظیم بلند مرتبہ ہے، اس کی شان اوراس رات مرتبہ بڑھاہوا اور شب براءت عام راتوں کی طرح نہیں ہے، لہاذا اس رات سے غافل مناسب نہیں بلکہ اس رات میں نماز ذکر تلاوت قرآن اور دوسری عبادتوں کے ذریعہ عبادت کرنا مستحب ہے، اور اس رات میں جاگ کر عبادت کرنا یہ بھی حدیث سے ثابت ہے،اس عبارت سے ثابت ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ رات انتہائی بابرکت ہے، انہوں نے بھی شب براءت کی روایت کو حسن درجہ کی تسلیم کیا ہے،
شب برات اور شیخ الاسلام حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ:
علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے بھی اس رات کی فضیلت کو تسلیم کیاہے، اپنے فتاوی مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں،
واما لیلہ النصف فقدروی فی فضلھا احادیث وآثار ونقل عن طائفہ من السلف انھم کانوایصلون فیھا.مجموع الفتاوی جلد 23صفحہ 132,
یعنی شب براءت کی رات کی فضیلت بیشمار احادیث اور حضرات صحابہ کرام کے آثار سے ثابت ہے، ہمارے سلف صالحین کا اس رات میں نماز پڑھنا ثابت ہے، مجموع الفتاوی میں دوسری جگہ لکھتے ہیں.
اذا صلی الانسان لیلہ النصف وحدہ اوفی جماعہ خاصہ کمایفعل طوائف من السلف فھواحسن.مجموع الفتاوی جلد. 23, صفحہ، 131,
یعنی شب براءت میں تنہا نماز پڑھنا یا کسی خاص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جیساکہ سلف صالحین کا اس رات میں اس طرح نماز پڑھتے تھے، ایسا کرنا بہتر ہے،
مذکورہ بالاعبارتوں سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے بھی شب براءت کوتسلیم کیا ہے اور اس رات میں عبادت کرنے کو بہتر قرار دیا ہے، اور اسلاف کوانہوں نے اسی پرپایا ہے کہ شب براءت کااہتمام کرتے تھے اورشب براءت کی رات میں عبادت میں مشغول رہتے تھے،
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی شب براءت میں عبادت مستحب:
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی کتاب الام کے اندر شب براءت کے اندر عبادت کرنے کو مستحب لکھا ہے خواہ نماز ذکر تلاوت قرآن وغیرہ کے ذریعہ ہو، علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح المھذب کے اندر مستحب لکھا ہے،
امت مسلمہ کاافراط وتفریط:
شب براءت کی فضیلت جہاں سند کے اعتبار سے مضبوط روایت سے ثابت ہے، اس کے باجود امت مسلمہ کا ایک گروہ فضیلت کوکنڈم کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے، وہیں دوسری امت مسلمہ کادوسراگروہ اس رات میں ایسی ایسی چیزوں کوانجام دیتاہے، جس کاشریعت مطہرہ سے تعلق نہیں، ایسی چیزوں کے کرنے کاحکم نہیں دیاہے، لہاذا دونوں ہی فریق خطاء پر ہیں، شب براءت فضیلت والی رات ہے، اس رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاعبادت کرنا ثابت ہے، اسلاف کابھی اس رات میں عبادت کرنے کامعمول رہاہے، حدیث حسن قابل حجت ہے، علامہ خطابی رحمہ اللہ نے معالم السنن میں بیان کیاہے، اکثر احکام حدیث حسن سے ہی ثابت ہیں، شب براءت کی روایت کوعرب علماء نے قابل حجت مانا ہے، لہاذا جب قابل استدلال روایتوں سے فضیلت ثابت ہے، توآخر اس رات کی فضیلت سے انکار کیوں؟جن علماء نے شب براءت کی فضیلت کوبالکلیہ انکار کیا ہے، ان پاس کچھ بھی دلائل موجود نہیں ہیں، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ شب براءت میں ہورہی ہے بدعات کے پیش نظر ان روایات کنڈم کرنے کی ناکام کوشش کیا ہے، یہ بھی کوئی عقل مندی نہیں بدعات کوروکنے کے لئے مضبوط روایتوں کو قابل استدلال روایتوِ کوموضوع قرار دیدیاجائے، اس رات میں جوبدعات ہوتی ہیں ان کی تردید بھی ضروری ہے، لیکن اس کی وجہ سے روایتوں کوساقط الاعتبار قرار دینایہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی ہے،اس اہم رات میں عبادت سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اوردعا خاص طور سے قبول ہوتی ہے، اس لئے آج کی رات میں دعاوں کاخاص اہتمام کریں، اللہ تعالی تمام لوگوں کواس رات کی قدردانی کرنے کی توفیق دے...آمین