اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: عوام کو علماء سے شکایت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 16 April 2019

عوام کو علماء سے شکایت!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اکثریت ضروری مسائل سے ناواقف ہوتی ہے،بہت سارے پنچ وقتہ نمازی نماز کے پابند ایسے بھی ہیں، جوالحمدللہ نماز توپڑھتے ہیں لیکن ضروری مسائل نہیں جانتے، کیونکہ اس دور کے علماء بھی اس قدر مصروف ہوگئے ہیں انہیں اتنی فرصت ہی نہیں کہ عوام الناس کو ضروری مسائل بتائے، اس لئے پوچھنے بھی شرم کرتی ہے، اس کے ذہن ودماغ میں یہ بات ہوتی ہے اللہ کوعبادت قبول توکرے گاہی،پھر موجودہ زمانہ کے علماء کے اس قدر نازونخرے کوئی مسجد سے نکلتے مسلہ پوچھ لیا تواس پر برس پڑے، بجلی کی طرح گرج پڑے یہ مسلہ پوچھنے کی جگہ ہے، کچھ سمجھتے میں آتا ہے آپ کو،مسلہ پوچھناہوتومدرسہ آنا یا جب میں دارالافتاء میں بیٹھوں تب مسلہ پوچھاکرو، لوگوں کے سامنے اچھی خبر لے لی،کوئی فون کیا تو اس پر برسنے لگے یہ مسلہ پوچھنے کاوقت ہے، جم کر برس پڑے، آپ بھی بتائیں جن پر ایک مرتبہ اس طرح کی بارش ہوجائے گی دوبارہ وہ مسلہ پوچھنے کی ہمت کرے گا، ہرگز نہیں کرے گا، بھلے ہی اسے مسلہ سے واقفیت نہ ہو پھربھی وہ مسلہ نہیں پوچھے گا،لیکن یہ اخلاق تو تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادت واطوار کے بالکل خلاف ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ترمصروفیات کے باوجود بھی ادنی سے ادنی شخص بھی جب چاہتا جہاں چاہتا کوئی بات معلوم کرسکتاتھا، جس جگہ چاہتا تھا روک سکتا تھا، کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کوڈانٹا ہو، کسی سے ناراضگی کااظہار کیا ایک بھی مثال نہیں پیش کی جاسکتی، وارث انبیاء کے صفات بھی یہی ہونی چاہیئے ان کے مزاج میں نرمی ہونی چائیے،اس قدر رعب ودبدبہ لوگوں پر نہ جمائے کہ لوگ استفادہ سے محروم رہیں، کوئی کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکے،اگر کوئی مسلہ پوچھے تواسے دلچسپی کے ساتھ بتانے کی کوشش کرے، آج کل اکثر عوام کی شکایت یہی ہے کہ فلاں مولوی صاحب مسائل نہیں بتاتے ان سے کچھ پوچھو توبتاتے نہیں،ہماری ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، سلام کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا بہت ڈرتے ہوئے کہنے لگے مفتی صاحب ایک مسلہ پوچھ سکتے ہیں، میں نے کہا جی بالکل پوچھیئے، ان کومسلہ بتایا اس کے بعد انہوں نے میرانمبر طلب کیا اورڈرتے ہوئے کہا، کیا میں آپ سے مسائل کبھی پوچھ سکتاہوں، اور پھر کچھ شکوہ اپنا بیان کیا،ایسے ہی ایک دوسرے صاحب کافون آیا ایصال ثواب کامسلہ پوچھا، پھر بہت ڈرتے ہوئے کہا، کیا کبھی ضرورت پڑے آپ سے پوچھ سکتاہوں، میں کہا، بالکل پوچھ نہیں لیکن ہمارا اصول یہی ہے ضروری مسائل پوچھیئے لایعنی اور بیکار چیزوں سے نہ ہماری کوئی دلچسپی ہے نہ اس سلسلہ میں تحقیق کرکے اپنے وقت کے ضیاع کوبہتر سمجھتے ہیں..
موجودہ زمانہ کے عوام الناس کے احوال تجربہ سے یہی معلوم ہوا کہ عوام الناس مسائل پوچھنے بھی ایک جھجھک محسوس کررہی ہے،یا توان کو بالکلیہ مسائل کاجواب نہیں دیاجاتا یا وقت پر جواب نہیں دیاجاتا، اب کچھ بڑے مفتیان کرام ہیں، ان کے یہاں مسائل پوچھنے کا ایک وقت متعین ہے، مثلا عصر بعد ہی مسلہ پوچھ سکتے ہیں، کچھ لوگ مزید قید لگاتے ہیں کہ جب میں مخصوص ہیئت میں ہوں تبھی مسائل پوچھے جاسکتے ہیں، مثلا دارالافتاء میں رہوں تبھی مسائل پوچھ سکتے ہیں، اور موجودہ زمانہ کے کچھ علماء اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے یہاں کوئی مسلہ پیش کیاجاتا ہے سال بھر گزر جاتا ہے، جواب نہیں ملتا، اب حضرت کی اس قدر مصروفیت بھلا کیونکر جواب دیں.
یہ سچ ہے بعض عوام الناس بھی علماء کوتنگ کردیتے ہیں، جہاں 24 گھنٹہ سیوا جاری ہوتی ہے، آپس میں بحث ومباحثہ جاری ہوا کوئی بات پھنس گئی توفورا مفتیان کرام کوفون گھمادیا، یہ بھی نہیں دیکھا جاتا یہ وقت ان کے آرام کا ہے، یاسونے کا، رات ایک بجے بحث ہورہی تھی، ایک بجے رات کو ہی فون گھما دیا حالانکہ یہ وقت ان کے سونے کاہے، اس فون کی وجہ سے ان کی نیند خراب ہوئی، کبھی کبھی دوپہر میں فون کردیا حالانکہ دوپہر قیلولہ کاوقت ہوتا ہے، اس وقت بھی مفتیان کرام آرام فرماتے ہیں، توعوام کے لئے بھی لازم وضروری ہے علماء کرام کاپورا خیال رکھیں، ایسے وقت مسائل نہ دریافت کیاجائے جس سے ان کوتکلیف ہو، بہتر یہی ہے اگر کسی عالم سے نمبر لے توان سے دریافت کرلے حضرت کس وقت مناسب رہے گا مسائل معلوم کرنے کا،
علماء کی ذمہ داری:
علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کوئی مسلہ لے کر آئے اگر پوری طرح شرح صدر ہے، اس جزئیہ پر دسترس حاصل ہے، وہ مسلہ یاد ہے، تواسے جواب دیدے، جواب دینے میں اس بات کاخاص خیال رکھاجائے کہ تومطمئن کردیا جائے، اگر فقہی جزئیہ سے مطمئن نہیں ہورہا حدیث کامطالبہ ہے، تواسے پورا کیاجائے، الحمدللہ فقہ حنفی کاہرمسلہ احادیث اور آثار صحابہ سے مستنبط ہے، بس ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی تہہ تک پہنچیں، اور اگر مسلہ اس وقت ذہن میں نہ ہو توفورا کہہ دیاجائے یہ مسلہ مجھے نہیں معلوم، ان شاءاللہ کتاب میں دیکھ کر بتائیں گے، جتنے وقت میں اس مسلہ کی تحقیق کے لئے درکار ہو، وہ وقت دیدیں،عام طور سے ہمارے نئے فضلاء اس بات کے ڈر سے کہ عوام کیاسوچے گی کہ مسلہ ان کونہیں معلوم، ہرمسلہ کاجواب اسی وقت ضروری سمجھتے ہیں، بسااوقات اجتہاد کرنے کی وجہ سے جواب دینے میں خطا ہوجاتی ہے، امام مالک رحمہ اللہ جیسے بڑے امام نے تقریبا ۳۵ کے قریب مسائل میں کہا، لاادری میں نہیں جانتا، اس لئے ہم بھی صاف صاف کہدیں اس مسلہ کی ہمیں تحقیق نہیں مسلہ غلط ہرگز نہ بتائے، اور کبھی غلطی ہوجائے مسلہ بتانے میں توفورا رجوع کرے اپنی بے عزتی نہ محسوس کرے،اور عوام الناس کی طرف سے جومسائل آئیں ان پر پوری توجہ دے، انہیں اگنور نہ کرے، کیونکہ علم کے اندر پختگی تحقیق ہی سے آتی ہے اور یہ بھی سچ ہے مسائل مطالعہ کے ذریعہ اتنے پختہ یاد نہیں ہوتے جتناکسی کوبتادینے کے بعد یاد ہوجاتے ہیں، اس لئے جواب دینے سے بالکل نہ بھاگے بلکہ معتبر فقہی کتابوں کامطالعہ کرے، خصوصا عربی کتب کے مطالعہ کی عادت ڈالے، اور مسائل عربی کتب ہی میں دلائل کرے، اس سے صلاحیت میں نکھار آئے گا، اس بات پر بھی اس کی نظر ہو وہ مسلہ اگر براہ راست قرآن کریم کی آیت یا احادیث مبارکہ سے ثابت ہو، تواسے بھی ذہن میں رکھے، اور عوام الناس کواسے بتائے، کیونکہ موجودہ زمانے میں دلائل کا مطالبہ کیاجاتا ہے، بھلے ہی دلائل کی تعریف انہیں معلوم نہ ہو،اس لئے احادیث پر بھی نظر رکھنی ضروری ہے، مسائل کے بتانے سے ایک اخروی فائدہ ہے، بیشمار اس پر ثواب ملتے ہیں، نفلی عبادت میں مشغول ہونے سے زیادہ ثواب ملتاہے، وہیں دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ اس سے مسلہ بتانے والے عالم کاعلم پختہ ہوتا ہے، ایک مرتبہ بتانے کے بعد وہ مسلہ اس کے ذہن کے سامنے رہتاہے، اس لئے اس سمت کوشش کی سخت ضرورت ہے، عوام الناس کاہم پر حق ہے، ان کے سوالوں کونظر انداز نہ کیاجائے، اورعوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ علماء کی عزت کریں، ان کومسائل پوچھنے میں تکلیف بالکل نہ دیں، انہیں تنگ بالکل نہ کریں، بلکہ پہلے سے اجازت لے لیں، اللہ تعالی ہم سب کوروحانی علم سے نوازے....آمین