اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کیا یہ حقیقت نہیں؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 5 April 2019

کیا یہ حقیقت نہیں؟

از قلم: غفران شکیل ندوی بستوی
جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  اپنی فکر اپنے پاس رکھیں دوسروں پر تھوپنا دور اندیشی نہیں ایسے بھی اپنی دہی کو کھٹا کون کہتا ہے .اختلاف پر اعتراض نہیں لیکن اختلاف برائے پگڑی اچھلوان پر سخت اعتراض ہے اور شرعی نقطۂ نظر سے بھی یہ امر ممدوح نہیں.
فکر وتدبر سے اگر جڑے اور لگیں رہیں تو حقائق کے باب وا ہوجائیں گے اور عقل وخرد کی رسائی یہاں تک ہوجائے گی کہ خلق الہی کا تنوع اور انکی رنگا رنگی افکار خیالات احساسات و جذبات کے تنوع پر دال اور اس پر غماز ہیں اسی طرح انبیاء کی کثرت اور انکی تعلیمات کا تنوع بھی اس کی طرف رھنمائ کرتا ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی حسین درس اور بہترین پیغام ہے ہر دور کے مسلمانوں کے لئے آپ سے اختلاف کفار نے کیا اور وہ درپہء ازار بھی رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ان کا جواب دینے میں اول فول نہیں بکا اوٹ پٹانگ غیر مہذب گفتگو نہیں کی کسی کی شخصیت کو مجروح کرنا ذاتیات پر چھینٹیں اڑانا تو بہت دور کی بات ہے آپ کے اخلاق کے حسن کا تو یہ عالم تھا کہ گالیاں دینے اور خون سے نہلا دینے والوں کو دعاوں اور اپنی آہ سحر گا ہی کے سوغات پیش کئے کفر وشرک تک بکنے والوں کے لئے بھی آپ سراپا محبت بن گئے اور اسی اصول وضابطے اور اسوہ وقدوہ کو آپ کے جاں نثار صحابہ نے اختیار کیا تو وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کے ہیرو ہوگئے اور یہ اصول وضابطے کسی خاص اور محدود زمانے کے لئے خاص نہ تھے بلکہ ہر دور اور ہر عصر کے لئے عام تھے اور ہیں جب بھی اس سے انحراف واعراض ہو گا نصرت خدائی اور رحمت الہی سے ہاتھ دھونا پڑے گا ..دل ٹرپ اور آنکھ بھیگ جاتی ہے اور صدا نکلتی ہے سوال بنکر کہ آخر آج اس ممتاز ونمایا امت کے ان افراد کا کیا حال ہوگیا ہے جو وراثت نبوی کو سنبھالے ہوئے ہیں جن کے فضائل میں قرآنی آیات کا نزول بھی ہوا ہے اور ڈھیر ساری احادیث نبویہ ان کی افضلیت واہمیت کو بیان کرتی ملتی ہیں جن میں خشیت الہی کا جوہر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو کشتی ء حیات کے لئے ساحل نجات اور کھیون ہار میں امت مرحومہ کو مشکل گھڑیوں سے نکالنے والے اور ایمان ویقین کی بالا دستی قائم کرنے والے ہیں وہی جی ہاں وہی جب ہتک عزت پہ اتارو ہوتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہیں کیا اپنی عزت نفس کی بقا کی خاطر اخلاقی قدر کا جنازہ نکالتے ہیں اپنی ناک بڑی رکھنے کے لئے علمی وقار کو داو پر لگاتے ہیں لہجہء پر وقار اور عالمانہ شان کا بینڈ بجا کر رکھ دیتے ہیں جس کے اسباب وعلل ہوا و ہوس اور اپنا ہی دہی میٹھا اور اپنی تحقیق اور فہم وفراست ہی حرف اخیر جیسے گھناؤنے اور شنیع وقبیح عمل کیا ہوسکتے .
ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے زندگی کے کسی بھی موڑ پر ( چاہے ہم فہامت الدھر علامہء زمانہ فقیہ عصر یا جو کچھ بھی ہوجائیں کہ )ہم پیرو اور متبع ہیں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اپنی مثال آپ ہیں انسانی قدروں کی بحالی میں اور یکتائے روزگار فرید العصر ہیں وسعت ظرفی اور اخلاقی بہتری میں اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کا انانیت وعصبیت سے منع کرنے اور اس کی آواز لگانے کا دائرہ محدود ہے بلکہ بہت ہی وسیع ہے اب اگر کوئی منہج وفکر اور نقطۂ نظر کو لیکر اڑتا یا ضد کرتا ہے دوسرے علماء کی کھلی اڑاتا ہے تو ایسا شخص قابل مواخذہ اور گرفت ہے اور اس حکم  کی زد میں آئے گا جس میں آپ نے ایسی حرکتوں کو عمل جاہلی سے تعبیر کیا اور ظاہر ہے جاہلیت کا کوئی عمل قبول نہیں لہذا اس نازک اور خطر دور میں فضلاء مدارس کو اس سے بالکلیہ اجتناب کرنا چاہیے اور تخریب سے ہٹ کر تعمیر کی فکر میں سر کھپانا چاہیے ایک دوسرے پر کیچڑ بازی سے کچھ ہونے جانے والا نہیں آج امت پر مسائل کے پہاڑ ٹوٹتے جاتے ہیں جسے کافور کرنے کا کام آج کے نوجوان فضلاء دیوبند کرینگے فضلاء مظاہر العلوم اور فضلاء ندوہ کی طرح دیگر مدارس کے نئے خون کرینگے اگر نمایا ں اور ممتاز امت بنکر رہنا ہے حتی الامکان ہمیں لا یعنیات سے پر ہیز (جیسا کہ آقا کا فرمان اس کی رہنمائی کرتا ہے)کریں اور اس سے بڑا لایعنی امر کوئی نہیں کہ ہم مناہج فکر کے اختلافات کو ہوا دیکر باہم دست وگریباں ہوجائیں .اللہ ہم سب کو فہم سلیم عطا فرمائے آمین.