اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ملاوٹ کی سیاست!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 4 April 2019

ملاوٹ کی سیاست!

کبھی چہرہ نہیں ملتا، کبھی درپن نہیں ملتا.
توقیر بدر القاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہم سب ابھی جہاں ہیں،جس دور سے گزر رہے ہیں،جو وقت و حالات ابھی ہمارے ساتھ ہیں.یا آنے والا وقت جو آیگا،ان سب کے تناظر میں اگر کسی چیز کو موضوع گفتگو بناکر قومی و ملی طور پر ہم جہاں کہیں بھی کچھ ڈسکس Discuss کر رہے ہوتے ہیں تو اسکا محور ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے"سیاست".
یہاں 'ریاست' کی حقیقت اور 'حکومت' کی ماہیت نیز انکے مابین فرق و اشتراک کا بیان مقصود ہے نہ ہی اس پر ماہرین کی آراء کا اظہار یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے،کیونکہ یہ میدان ایم اے ان پالیٹکل ساینس کے اسکالروں کا ہے.
ویسے سبھی جانتے ہیں کہ آج کے حوالے سے جمہوریت کے سایے میں'ریاست'یہ کسی بھی جگہ انسانی آبادی اور مہذب معاشرے میں قیام عدل و انصاف،دفع شرر و رفع حرج،ترقی سماج و ازالہ مرض ممکنہ علاج نیز نظم و ضبط قایم رکھنے والے ادارے کا نام ہے،جبکہ 'حکومت'ان متذکرہ بالا اوصاف کو بروئے کار لانے کے لیے پابند عہد عوامی منتخب نمائندوں کی جماعت کہلاتی ہے.
اب سوال یہ ہے کہ اگر ریاست و حکومت متذکرہ بالا عنوان و اوصاف اور شرائط سے عبارت ہے تو پھر آج سماج میں ایک انصاف پسند شریف انسان کی جگہ کسی شر پسند عناصر کو نمایندگی کا موقع کیونکر مل جاتا ہے؟ایسے شر پسند عناصر سماج کو ترقی کی طرف لیجانے کے بجائے معاشرے کو پست سے پست تر کرنے کا موقع کیونکر پا لیتے ہیں؟عدل و انصاف کی بالادستی اور مظلوموں کی اشک سوی کی جگہ جبر و نا انصافی کا کھلے عام مظاہرہ کیوں ہوتا ہے؟دفع شر کی جگہ وہ آخر ازالہ خیر کا نمایندہ کویی کیونکر بن جاتا ہے؟
یہ اور ان جیسے بہت سے ایسے واجب سوالات ہیں،جن کا جواب سنجیدگی سے ٹھنڈے ہوگا اور دل و دماغ سے اس کا حل بھی تلاش کرنا ہمارا فرض بنتا ہے یہ تسلیم کرنا ہوگا، کیونکہ انسانی ہمدردی و  خیر خواہی کا یہی تقاضہ ہے اور حساسیت سے بھرپور دل و دماغ  کا یہ فریضہ بھی!
ایسا اس لیے کہنا پڑ رہا ہے کیونکہ اسے سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ "آپ سیاست و حکومت میں دلچسپی لیں یا نہ لیں،پر سیاست و حکومت آپ میں بھرپور دلچسپی ضرور لیتی ہے"
اس متن کی شرح کی جایے تو سر دست یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم آیے دن جہاں سیاسی لیڈران کو وقتاً فوقتاً بات بے بات پر بیان بازی کرتے ہوئے پاتے ہیں،وہیں دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا میر کیا فقیر،شعوری یا غیر شعوری طور پر جسے دیکھیے اس بیان پر چرچہ کرتے ہویے وہ دیکھے جاتے ہیں.
اسی طرح حکومت میں آپ ہو یا نہ ہو تاہم حکومت کی فراہم کردہ اسکیم آپ تک کاغذی طور پر ہی سہی،ضرور پہونچتی ہے اور آپ اس کے حوالے سے بھی اپنی اپنی سطح سے چیں بجبیں ہویے بنا نہیں رہ پاتے ہیں!
شاید یہی وہ دوامی انسانی ضرورت رہی ہے،جس کی تکمیل کے لئے عہد بنی اسرائیل میں وسیع تر سماجی امور کے پیش نظر اس کی قیادت انبیاء وقت کے سپرد رہی!بعد ازاں یہ سلسلہ ختم المرسلین تک نبوت کے دایرے میں جاری رہا.محسن انسانیت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ ذمہ داری نیک سیرت باخبر و باہمت افراد کے ہاتھوں میں رہے اسکی راہنمای کی گیی.
چناچہ ہر پڑھا لکھا انسان جانتا ہے قیادت کے لیے 'بسطة فی العلم والجسم' سے مفهوم قرآنی معیار کل بھی مسلم تھا اور آج بھی سبھی سماج میں یکساں مقبول و معقول ہے.
ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنی باخبری اور دلیری کا کویی ناجایز فایدہ اٹھایے تو یہ اسکی بدتوفیقی ہی نہیں سراسر اسکی بد قسمتی بھی ہے.
بات طویل ہوتی جارہی ہے.ہم ابتدائی سطور میں پیش کردہ حالات اور اٹھایے گیے سوالات کی طرف آتے ہیں.
بات یہ ہورہی تھی کہ ابھی ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ سیاست،سیاست اور سیاست کے شور و غوغا سے اٹا پڑا ہے.
اب تو ایک ہمہ جہت وسیع تر میدان میڈیا کا دور ہے،اس لیے کیا ٹی وی اور کیا اینڈرایڈ فون میں موجود یو ٹیوب!
چناچہ آج جہاں دیکھیے یا جہاں سنیے،ہر جگہ یہی شور بپا ہے کہ فلاں کیا 'ملاوٹ' کررہا ہے،کون 'کتنا ملاوٹ'کرنے میں کامیاب ہوا یا آنے والے دنوں میں ہوگا.
آپ شاید'ملاوٹ'سے کھان پان میں ملاوٹ سمجھ رہے ہونگے!
اگر ایسا ہے تو یہ واضح رہے آپ غلط سمجھ رہے ہیں.یہاں'ملاوٹ'سے مراد سیاسی پارٹیوں کا'گٹھ بندھن ہے.
اسے ہم ملاوٹ سے معنون کرنے پر خود کو اس لیے بھی مجبور پاتے ہیں کہ آپ بھی اگر پارٹی میں آنے جانے اور ملنے بچھڑنے والے افراد و عناصر کی حقیقت و ماہیت پر نگاہ ڈالیں اور انکی ذہنیت و تربیت کا حساسیت کے ساتھ جایزہ لیں، تو اس سے انکار نہیں کر سکتے  کہ یہاں' گٹھ بندھن'کا لفظ نہ صرف بے تکا ہے، بلکہ سراسر ایک عظیم دھوکہ ہے.حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ یہاں لفظ 'ملاوٹ'کا عنوان ہی چست درست بیٹھتا ہے!
بہر کیف ہم آگے بڑھتے ہیں ورنہ بات پھر کہیں اور نکل جایگی!
تو جیسا کہ آپ نے بھی محسوس کیا کہ حالات کے تجزیہ کے بعد اب یہاں اٹھایے گیے سوالات کے جوابات ڈھونڈنا ہم سب کا اخلاقی،انسانی اور سماجی فریضہ ہے.
اس سلسلے میں یہ بھی یہاں واضح کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ راقم اس پس منظر میں اپنے مطالعے سے زیادہ اپنے مشاہدے پر بھروسہ کرتا آیا ہے، چنانچہ اپنی بات اسی مشاہدے کی روشنی میں رکھنا مناسب سمجھتا ہے.
تو بہرحال اپنا مشاہدہ یہی ہے کہ آج کے وقت میں جو کویی سیاسی جھنڈا اٹھاتا ہے اور عوام کو رجھانے والا نعرہ لگاتا ہوا عوامی چہرہ بنتا ہے پھر بالآخر جمہوری طریقے سے عوام کے ہاتھوں وہ جھنڈا بردار منتخب ہوکر عوام کا نمایندہ بن جاتا ہے.تب ہی فی الواقع اسکی حقیقت عیاں ہوتی ہے.
یعنی لوگ باگ یہ فیصلہ کرنے کے پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ آیا یہ نمایندہ اپنی مدت کار میں کچھ مشن Mission اور ویژن Vision لیکر آیا ہے یا بس اتفاقی اور حادثاتیAccidental طور پر منتخب Select ہو بیٹھا ہے.
اسکی ایکٹیوٹی سے اسکا فیصلہ عوام  بہت جلد کر لیتے ہیں،بلکہ بسا اوقات آیندہ انتخاب میں مسترد Reject کرکے اپنا عملی فیصلہ سنا بھی دیتے ہیں.
اب جب بات مشاہدے کی چل نکلی ہے،تو بطور حل یہ بتادینا بھی راقم اپنا فریضہ سمجھتا ہے،کہ آج بھی سماج میں زمینی طور پر کچھ ایسے لیڈر مل جاتے ہیں،جو کسی چالاک کی چالاکی کے نتیجے میں غریبی کا درد ذاتی طور پر جھیلے ہوئے ہوتے ہیں.ٹوٹے مکان میں رشوت خور افسر کو خوش نہ کرپانے کے نتیجے میں اپنا بچپنا بتایے ہوتے ہیں.آس پڑوس کیا،خود کے گھر میں قریبی رشتے داروں اور اپنوں کو طبی سہولیات یا من مانی فیس نہ جٹا پانے پر اپنی آنکھوں کے سامنے انہیں تڑپ تڑپ کر مرتا دیکھ چکتے ہیں.غربت اور جہالت کا فایدہ اٹھا کر صدیوں سے ساتھ رہ رہے الگ الگ دھرم اور طبقے کے باہم شیر وشکر پڑوسی کو،آدم خور نیتاوں کا لقمہ تر بنتے دیکھ دیکھ بڑے ہوتے ہیں.
چناچہ ان تمام تر ایذاوں سے لڑنے کے لیے ایسے جھوجھے ہویے لوگ باگ ان بیان کردہ لعنتوں سے اول مرحلے میں 'باغی'ہو تے ہیں.یہاں یہ واضح رہے کہ کسی مکروہ شی سے'بغاوت'اسی طبیعت کا خاصہ ہوتا ہے،جس میں ہمت،شجاعت اور کچھ کر گزرنے کی للک ہوتی ہے.
پھر دوسرے مرحلے میں تعلیم کو وہ اپنا اوڑھنا بچھونابناتے ہیں. دوران تعلیم وہ اچھے اساتذہ کے ہاتھوں میں خود کو سونپ کر سنوارتے ہیں.آگے چل کر تمام مقبول و معرف مذاہب کے فلسفیوں کے افکار اور انکے پیش کردہ اچھے کردار کو وہ اپنا ویژن بناتے ہیں.نفع آدمیت و خدمت انسانیت پر مبنی سیاست و حکومت کے لیے کیا گُن اور گِیان چاہیے اسے پورے عزم و حوصلے سے حاصل کرتے ہیں.پھر ان تمام لعنتوں کو جس کا پیچھے ذکر آچکا ہے،اپنے سماج اور معاشرے سے اکھاڑ پھینکنے کی ہمت کیے اپنی ساری کشتیاں جلاکر بحر سیاست میں وہ کود پڑتے ہیں.شجاعت کے ساتھ ساتھ وہ حکمت سے اپنے حریف کو للکارتے بھی ہیں اور صحیح جگہ پر اسے پچھاڑتے بھی ہیں.اس طرح پھر وہ بھلے حکومت و اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں ،پر سب کے دل و دعا میں ضرور رہتے ہیں،انہیں اس سے کویی فرق نہیں پڑتا کہ آیا انکے پاوں ریڈ کارپیٹ پر ہیں یا کسی کسان کے کھیت کھلیان میں،کیونکہ اس عالم جذب و مستی میں وہ اے سی کی ٹھنڈک نہیں،بلکہ ہزاروں بے کسوں کے آنسوؤں کو پوچھ کر سمندر کی سی ٹھنڈک اپنے دامن میں سمیٹ چکتے ہیں.
چناچہ ضرورت آج ان جیسوں کو ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لانے کی ہے.تبھی ہمارے بیان کردہ مذموم سیاست کے مذبوحی سوالات کا مقبول حل بصورت جواب سامنے نکل کر آسکتا ہے. بصورت دیگر اتفاقی و حادثاتی لوگ ہی قیادت کی کرسی پر براجمان ہونگے،جنکا مشن شروع سے ہی'کچھ نہیں' ہوتا ہے.
اب ظاہر ہے 'کچھ نہیں'ہی جس کا مشن ہوگا وہ ایسے عظیم منصب کو لیکر کیا کرسکتا ہے؟وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے.
درحقیقت ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی مشن یا ویژن کے بغیر فقط گلیمر والی چکا چوند کی دنیا سے متاثر ہوتے ہیں وہ ان سے متاثر ہوکر پہلے گلیمر کے برانڈ بننے کی کوشش کرتے ہیں.اب جب فقدان مشن و نفی ویژن کی صورت میں  کامیابی ہاتھ نہیں آتی،تو اس سے بیزار ہو جاتے ہیں اور پھر'کچھ اور'بننے کی سعی پیہم میں مشغول ہوجاتے ہیں. اتفاق کہیے کہ وہ 'کچھ اور'بننے میں بھی ناکام رہتے ہیں اور اسی طرح ٹرائیل کرتے کراتے، قسمت آزماتے کہیں دور سے ایک محفوظ راستہ safe way نظر آتا ہے.ایسا راستہ جو بنا کسی کوالیفیکیشن اور میرٹ و ٹیلنٹ کے منزل سیاست تک جاتا نظر آتا ہے.
چنانچہ کسی نہ کسی کا بلکہ بسا اوقات اپنے گھر میں ہی ممی،پاپا،تایا،ماما وغیرہ جو اسی میدان سیاست کے سینیر اور ماہر ہوتے ہیں وہ مل جاتے ہیں،انکا دامن تھام کر ان کا جھنڈا اٹھالیتے ہیں اور پہلی فرصت میں ہی انکا آشیرواد لیے آگے بڑھ جاتے ہیں اور پھر یہیں سے وہ سب تماشا ہوتا ہے،جو آج سیاست کی دنیا میں ہورہا ہے.
معاف کیجیے گا یہاں صاف صاف یہ گوش گزار کرنا چاہونگا کہ اگر ہمارے رویے میں تبدیلی نہیں آئی تو آیندہ بھی یہی سب ہوتے رہنے کا نہ صرف گمان،بلکہ یقین و اذعان سا پیدا ہونے لگتا ہے.
جسے محسوس کرکے ایک نامعلوم شاعر کا شعر اکثر یاد آجاتا ہے:
سمجھنےہی نہیں دیتی سیاست ہم کوسچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا، کبھی درپن نہیں ملتا