حافظ شاداب محمدی(راہی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عرصہ پہلے میرے گاؤں میں بندر اور بندریا کا ناچ دکھانے والے مداری آیا کرتے تھے،اب انکا یہ روزگار بھی بند ہوگیا کیونکہ یہ کام بھی اب نیتاؤں نے لے لیا ہے،آج کل کے نیتا جتنا مزا دے سکتے ہیں کوئ اور اتنا مزا نہیں دے سکتا.
جوں جوں چناؤ کا وقت قریب آرہا ہے،باعزت بےعزتی کے دہانے پر ہے،قاتل منصف ہے،چور اچکے قوم کے مسیحا اور لیڈر ڈکلیئر ہورہے ہیں،جن کا کام ناچنا،گانا اپنی ادا وگدا سے لوگوں کو لطف اندوز کرنا تھا وہ بھی بےایمانی،بدتمیزی،بےغیرتی،لوٹ،کھسوٹ کی محفل میں ناچنے،گانے،اور جھومنے کو بےقرار ہیں.
بات اتنی ہی ہے کہ چناؤ وہ اسٹیج ہے جہاں سے لوگ اپنی زبان کی گندگی،احقریت وسطحیت کا عمدہ نمونہ پیش کر سکتے ہیں اور دل کا میل بذریعہ مائک لوگوں کے درمیان رکھ سکتے ہیں.
جمہوریت قوم ہند کی آن وبان اور شان ہے،پر اسکو نیتاؤں نے اتنے زخم دئے ہیں کہ بیچارہ پریشان ہے اور اہل مرہم کو تلاش رہا ہے.
بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ہے بھائ یہ تو بھلا ہو اس قوم کا جو یکجہتی اور باہمی محبت کی بات کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ ”ہم ایک ہیں“ ورنہ یہ ہماری جمہوریت ہی ہے کہ جب جو جسکو چاہے سربازار نیلام کردے،کسی کی عزت برباد کرے،سر راہ کسی کو بیوہ اور یتیم بنادے،کسی کا گھر لوٹ لے،دہشت گردی کا الزام لگاکر سالوں سلاخوں تلے دھکیل دے،مستزاد ہمارے نیتا اور منتری پاکستانی ویزا لئے ٹی وی چینلز پر دکھائ دے،بھائ جی دیکھئے نا اتنی ہمت اور طاقت جمہوریت میں انہیں کہاں سے آتی ہے؎
جمہوریت وقت ہے ایک زانی عورت
اولاد بھی دیگی تو حرامی......... دیگی؎
جس غریب کے پاس چھت نہیں اسکی کوئ بات نہیں،جس نوجوان کے پاس نوکری نہیں اسکا کوئ ذکر نہیں،جمہوریت ہند کی لاج کا پرواہ نہیں،
برابری کی بات جانے دیں صاحب دل بڑا دکھے ہیں کوئ ہمیں چین سے جینے دے یہی ہمارے لئے بہت کافی ہے.
نظروں نے سڑکوں،اسٹیشن،ہوائ اڈے اور کھلے چھت کے نیچے ہزاروں اور لاکھوں بے بس ولاچار دیکھے ہیں،جسے دیکھ روح کانپ گئ،جسم لرز اٹھا،دل دہل گیا،زبان کو کیسے کیسے لگام دیا پھر ساتھ جسم اور ذہن کے اس بوجھ کو آنکھوں نے آنسو کے ذریعہ کچھ کم کیا۔
اسکو کون دیکھے صاحب. دیکھنے کا اسے کتنوں کے پاس موقع نہیں،موقع ملے تو وقت نہیں،وقت ملے تو اسکا کوئ فائدہ نہیں مفاد پرست نیتا اور ابھینیتا نے ایسے افراد سے کبھی گلا ملے تو پتا چلے کہ کون کس طرح زندگی گزار رہا ہے یا خود وہ گزر رہا ہے.
کاش یہ ہند میں ہیں ہند بھی انکا ہوتا........؎
واہ واہی تو اس میں ہے کہ قوم کے پیسے لوٹ کر فلک بوس عمارت پارٹی آفس کے نام پر تعمیر کرلی جائے،کوئ گومتی فرنٹ بنانے میں قوم کے ہزاروں کڑوڑ روپئے پانی کی طرح بہا دے،جس ہاتھی کی ایک مورت سے دس(۱۰)غریب کا گھر بس سکتا ہے ویسے ہزاروں ہاتھی کی مورتیں منتظر راہ ہے کہ بہن جی واپس سرکار میں آئیں اور ان کے سر پر کئے گئے کبوتر کے پاخانے صاف کروانے کے لئے کوئ مزدور رکھ کر تادم آخر قوم ہند کو لوٹتی رہیں۔
واہ رے رام کی لیلا........؎
قوم ہند کو لوٹتی رہیں اور شان سے جیتی رہیں،جس کے دامن میں خود ہی ہزاروں داغ ہو انکی نصیحت کا کا فائدہ.
ان ساری باتوں کا عینی گواہ ہوں اور لکھنؤ اسکی منہ بولتی تصویر ہے.
ایک بھائی نے کہا جنگل کو کاٹ کر یہ بنایا گیا ہے مانا.... کاش ان غریب کا گھر بن گیا ہوتا تو آج بہن جی ووٹ کے خاطر ہاتھ نا پھیلاتی بلکہ یہ غریب کی دعاء انہیں بھت کام آتا.
وہ غریب جو آئے دن کسی ٹرک اور بس کے نیچے آرہے ہیں کتنی دعا ملتی....سب کا ہاتھ اور بہن جی ساتھ
مورتی اور ہاتھی پہ صرف کبوتر کا پاخانہ اور پیشاب آرہا ہے.
بہن جی بولتی ہیں تو جیسے سینے سے دل نکال لے،زبان کھولے تو بس طعنے اور طعنے ہی بولے.
مانا کہ سب غلط ہیں بہن جی کیا صحیح ہیں...؎
نوٹ: یہ مضمون غریب اور مزدور کے حقوق کی لڑائ کیلئے اس سے نیتا اور پارٹی سے کوئ تعلق نہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عرصہ پہلے میرے گاؤں میں بندر اور بندریا کا ناچ دکھانے والے مداری آیا کرتے تھے،اب انکا یہ روزگار بھی بند ہوگیا کیونکہ یہ کام بھی اب نیتاؤں نے لے لیا ہے،آج کل کے نیتا جتنا مزا دے سکتے ہیں کوئ اور اتنا مزا نہیں دے سکتا.
جوں جوں چناؤ کا وقت قریب آرہا ہے،باعزت بےعزتی کے دہانے پر ہے،قاتل منصف ہے،چور اچکے قوم کے مسیحا اور لیڈر ڈکلیئر ہورہے ہیں،جن کا کام ناچنا،گانا اپنی ادا وگدا سے لوگوں کو لطف اندوز کرنا تھا وہ بھی بےایمانی،بدتمیزی،بےغیرتی،لوٹ،کھسوٹ کی محفل میں ناچنے،گانے،اور جھومنے کو بےقرار ہیں.
بات اتنی ہی ہے کہ چناؤ وہ اسٹیج ہے جہاں سے لوگ اپنی زبان کی گندگی،احقریت وسطحیت کا عمدہ نمونہ پیش کر سکتے ہیں اور دل کا میل بذریعہ مائک لوگوں کے درمیان رکھ سکتے ہیں.
جمہوریت قوم ہند کی آن وبان اور شان ہے،پر اسکو نیتاؤں نے اتنے زخم دئے ہیں کہ بیچارہ پریشان ہے اور اہل مرہم کو تلاش رہا ہے.
بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ہے بھائ یہ تو بھلا ہو اس قوم کا جو یکجہتی اور باہمی محبت کی بات کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ ”ہم ایک ہیں“ ورنہ یہ ہماری جمہوریت ہی ہے کہ جب جو جسکو چاہے سربازار نیلام کردے،کسی کی عزت برباد کرے،سر راہ کسی کو بیوہ اور یتیم بنادے،کسی کا گھر لوٹ لے،دہشت گردی کا الزام لگاکر سالوں سلاخوں تلے دھکیل دے،مستزاد ہمارے نیتا اور منتری پاکستانی ویزا لئے ٹی وی چینلز پر دکھائ دے،بھائ جی دیکھئے نا اتنی ہمت اور طاقت جمہوریت میں انہیں کہاں سے آتی ہے؎
جمہوریت وقت ہے ایک زانی عورت
اولاد بھی دیگی تو حرامی......... دیگی؎
جس غریب کے پاس چھت نہیں اسکی کوئ بات نہیں،جس نوجوان کے پاس نوکری نہیں اسکا کوئ ذکر نہیں،جمہوریت ہند کی لاج کا پرواہ نہیں،
برابری کی بات جانے دیں صاحب دل بڑا دکھے ہیں کوئ ہمیں چین سے جینے دے یہی ہمارے لئے بہت کافی ہے.
نظروں نے سڑکوں،اسٹیشن،ہوائ اڈے اور کھلے چھت کے نیچے ہزاروں اور لاکھوں بے بس ولاچار دیکھے ہیں،جسے دیکھ روح کانپ گئ،جسم لرز اٹھا،دل دہل گیا،زبان کو کیسے کیسے لگام دیا پھر ساتھ جسم اور ذہن کے اس بوجھ کو آنکھوں نے آنسو کے ذریعہ کچھ کم کیا۔
اسکو کون دیکھے صاحب. دیکھنے کا اسے کتنوں کے پاس موقع نہیں،موقع ملے تو وقت نہیں،وقت ملے تو اسکا کوئ فائدہ نہیں مفاد پرست نیتا اور ابھینیتا نے ایسے افراد سے کبھی گلا ملے تو پتا چلے کہ کون کس طرح زندگی گزار رہا ہے یا خود وہ گزر رہا ہے.
کاش یہ ہند میں ہیں ہند بھی انکا ہوتا........؎
واہ واہی تو اس میں ہے کہ قوم کے پیسے لوٹ کر فلک بوس عمارت پارٹی آفس کے نام پر تعمیر کرلی جائے،کوئ گومتی فرنٹ بنانے میں قوم کے ہزاروں کڑوڑ روپئے پانی کی طرح بہا دے،جس ہاتھی کی ایک مورت سے دس(۱۰)غریب کا گھر بس سکتا ہے ویسے ہزاروں ہاتھی کی مورتیں منتظر راہ ہے کہ بہن جی واپس سرکار میں آئیں اور ان کے سر پر کئے گئے کبوتر کے پاخانے صاف کروانے کے لئے کوئ مزدور رکھ کر تادم آخر قوم ہند کو لوٹتی رہیں۔
واہ رے رام کی لیلا........؎
قوم ہند کو لوٹتی رہیں اور شان سے جیتی رہیں،جس کے دامن میں خود ہی ہزاروں داغ ہو انکی نصیحت کا کا فائدہ.
ان ساری باتوں کا عینی گواہ ہوں اور لکھنؤ اسکی منہ بولتی تصویر ہے.
ایک بھائی نے کہا جنگل کو کاٹ کر یہ بنایا گیا ہے مانا.... کاش ان غریب کا گھر بن گیا ہوتا تو آج بہن جی ووٹ کے خاطر ہاتھ نا پھیلاتی بلکہ یہ غریب کی دعاء انہیں بھت کام آتا.
وہ غریب جو آئے دن کسی ٹرک اور بس کے نیچے آرہے ہیں کتنی دعا ملتی....سب کا ہاتھ اور بہن جی ساتھ
مورتی اور ہاتھی پہ صرف کبوتر کا پاخانہ اور پیشاب آرہا ہے.
بہن جی بولتی ہیں تو جیسے سینے سے دل نکال لے،زبان کھولے تو بس طعنے اور طعنے ہی بولے.
مانا کہ سب غلط ہیں بہن جی کیا صحیح ہیں...؎
نوٹ: یہ مضمون غریب اور مزدور کے حقوق کی لڑائ کیلئے اس سے نیتا اور پارٹی سے کوئ تعلق نہیں.