حریر: اشرف اصلاحی
اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
رمضان کا مہینہ یوں دوسرے مہینوں افضل و بلند مقام کا حامل ہے۔ مگر رمضان کے آخری عشرہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آخری دس دنوں کی خصوصیت میں سے ایک خصوصیت اعتکاف کی بھی ہے۔ آخری نبی محمد ص اس آخری دس دنوں میں مسجد میں اعتکاف فرماتے تھے۔ کیونکہ مسجد میں عبادت کی نیت سے رکنے کا نام ہی اعتکاف ہے۔
آپ صلعم نے فرمایا کہ رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف دو حج و دو عمرہ کے برابر جیسا ہے۔ وہیں دوسری جگہ فرمایا کہ جس نے اللہ کی رضا کے لئے خلوص و ایمان کے ساتھ اعتکاف کیا تو اللہ تعالی اس کے پچھلے صغیرہ گناہ معاف فرما دےگا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ (رضی) کی صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ آپ (صلی) آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آخری عشرہ کا اعتکافطاق راتوں میں شب قدر کی تلاش اور اس کی برکت حاصل کرنے کے لئے فرماتے تھے۔ اس شب قدر کی تلاش میں جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اسی مبارک رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔
اعتکاف سنت رسول ہے یعنی محلہ کا کوئ بھی ادا کردے تو سب کی جانب سے ادا ہو جائے گا۔ معتکف کے لئے مسنون ہے کہ وہ نفلی عبادت، نماز، ذکر واذکار، تلاوت، استغفار و درا میں مشغول رہے۔ کسی طبعی و شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نا نکلے۔ دوستوں کی بھیڑ کے ساتھ اعتکاف کرنے، دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے، موبائل پر لگے رہنے اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت گزارنے سے بچنا چاہیئے۔
اعتکاف اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا بہتتین ذریعہ ہے۔ اعتکاف اصل میں انسان کو اپنی عاجزی کا اظہار، اللہ کی کبریائ و اس کے سامنے جھکنے، گناہو کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ان آخری دس دنوں میں عبادت، دعا، استغفار، اور لیلة القدر تلاش کرنے کی توفیق دے۔ شب قدر میں بیداری و اس کی برکت عطا کرے۔ ہم سب کو اعتکاف کرنے اور اس کا ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
رمضان کا مہینہ یوں دوسرے مہینوں افضل و بلند مقام کا حامل ہے۔ مگر رمضان کے آخری عشرہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آخری دس دنوں کی خصوصیت میں سے ایک خصوصیت اعتکاف کی بھی ہے۔ آخری نبی محمد ص اس آخری دس دنوں میں مسجد میں اعتکاف فرماتے تھے۔ کیونکہ مسجد میں عبادت کی نیت سے رکنے کا نام ہی اعتکاف ہے۔
آپ صلعم نے فرمایا کہ رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف دو حج و دو عمرہ کے برابر جیسا ہے۔ وہیں دوسری جگہ فرمایا کہ جس نے اللہ کی رضا کے لئے خلوص و ایمان کے ساتھ اعتکاف کیا تو اللہ تعالی اس کے پچھلے صغیرہ گناہ معاف فرما دےگا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ (رضی) کی صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ آپ (صلی) آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آخری عشرہ کا اعتکافطاق راتوں میں شب قدر کی تلاش اور اس کی برکت حاصل کرنے کے لئے فرماتے تھے۔ اس شب قدر کی تلاش میں جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اسی مبارک رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔
اعتکاف سنت رسول ہے یعنی محلہ کا کوئ بھی ادا کردے تو سب کی جانب سے ادا ہو جائے گا۔ معتکف کے لئے مسنون ہے کہ وہ نفلی عبادت، نماز، ذکر واذکار، تلاوت، استغفار و درا میں مشغول رہے۔ کسی طبعی و شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نا نکلے۔ دوستوں کی بھیڑ کے ساتھ اعتکاف کرنے، دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے، موبائل پر لگے رہنے اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت گزارنے سے بچنا چاہیئے۔
اعتکاف اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا بہتتین ذریعہ ہے۔ اعتکاف اصل میں انسان کو اپنی عاجزی کا اظہار، اللہ کی کبریائ و اس کے سامنے جھکنے، گناہو کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ان آخری دس دنوں میں عبادت، دعا، استغفار، اور لیلة القدر تلاش کرنے کی توفیق دے۔ شب قدر میں بیداری و اس کی برکت عطا کرے۔ ہم سب کو اعتکاف کرنے اور اس کا ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین