مولانا طاہر مدنی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت میں انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعے متعینہ مدت کیلئے ملک کے باشندے پارلیمنٹ اور اسمبلی کیلئے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد انہیں نظر ثانی کا موقع ملتا ہے. بھارت ایک عظیم جمہوریہ ہے جہاں پابندی سے الیکشن ہوتا ہے اور منتخب حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملتا ہے. اگرچہ انتخابی سسٹم میں بہت کچھ اصلاح کی سخت ضرورت ہے تاہم یہ امر قابل قدر ہے کہ یہاں تبدیلی الیکشن کے ذریعے ہی آتی ہے.
الیکشن کے موقع پر ملک کو درپیش مسائل زیر بحث آتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو اپنا موقف رکھنے کا موقع ملتا ہے، مینی فیسٹو جاری ہوتے ہیں، ریلیاں ہوتی ہیں، پریس میٹ ہوتی ہے اور مختلف وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے..
مسلمان اس ملک کی سب بڑی اقلیت ہیں جن کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے. اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کرنا اور ان کے مسائل سے بے اعتنائی برتنا، جمہوری اقدار و روایات کے خلاف ہے. ہر الیکشن میں مسلمانوں سے متعلق مسائل زیر بحث آتے رہے اور ان پر ڈسکشن ہوتا رہا، لیکن اس بار مسلم مسائل یکسر غائب ہیں، حکمرانوں سے تو توقع بھی نہیں، لیکن اپوزیشن پارٹیوں کا بھی حال یہ ہے کہ اس پہلو سے وہ بھی خاموش ہیں، نہ جانے کیا مصلحت ہے کہ لفظ مسلم اور اس کے مسائل کا تذکرہ زبان پر لانے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے. نام نہاد سیکولر پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ مسلمان جائیں گے کہاں؟ ہمیں ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے. ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اس لیے ان کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے. مسلم کمیونٹی کی ایسی بے وقعتی اور ناقدری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، ان پارٹیوں کے اندر جو مسلم چہرے ہیں ان کو بھی وزن نہیں دیا جا رہا ہے کہ مبادا دوسرے ووٹر ناراض نہ ہوجائیں.
مسلمانوں کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
تحفظ، سلامتی، روزگار، تعلیم، صحت، حصہ داری، انصاف، مذہبی و ثقافتی آزادی، برابری، خواتین کی سیکورٹی، نوجوانوں کے لئے مواقع......
کہیں ان مسائل کا ذکر ہی نہیں ہورہا ہے، انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پر کوئی چرچا نہیں، علی گڑھ اور جامعہ ملیہ جیسے اداروں کے اقلیتی کردار پر بات نہیں، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے ساتھ انصاف کا ذکر نہیں، ملازمتوں میں نمائندگی کی ضمانت پر بات نہیں، فرضی انکاونٹر کا نشانہ بننے والوں سے اظہار ہمدردی نہیں، مسلمانوں کی تعلیمی، معاشرتی، معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں، ملک میں ہندو مسلم منافرت پھیلانے پر کوئی قدغن نہیں.... ایسا لگتا ہے کہ یہاں مسلمان نام کی کوئی قوم بستی ہی نہیں ہے.
اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا انتشار اور سیاسی بصیرت کی کمی ہے. اگر مسلمانان ہند سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں، اپنا ایجنڈا طے کریں، تمام مظلوموں کا ساتھ دیں اور قیام عدل کیلئے متحد ہوجائیں تو اتنی بڑی طاقت کو نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا.
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت میں انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعے متعینہ مدت کیلئے ملک کے باشندے پارلیمنٹ اور اسمبلی کیلئے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد انہیں نظر ثانی کا موقع ملتا ہے. بھارت ایک عظیم جمہوریہ ہے جہاں پابندی سے الیکشن ہوتا ہے اور منتخب حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملتا ہے. اگرچہ انتخابی سسٹم میں بہت کچھ اصلاح کی سخت ضرورت ہے تاہم یہ امر قابل قدر ہے کہ یہاں تبدیلی الیکشن کے ذریعے ہی آتی ہے.
الیکشن کے موقع پر ملک کو درپیش مسائل زیر بحث آتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو اپنا موقف رکھنے کا موقع ملتا ہے، مینی فیسٹو جاری ہوتے ہیں، ریلیاں ہوتی ہیں، پریس میٹ ہوتی ہے اور مختلف وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے..
مسلمان اس ملک کی سب بڑی اقلیت ہیں جن کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے. اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کرنا اور ان کے مسائل سے بے اعتنائی برتنا، جمہوری اقدار و روایات کے خلاف ہے. ہر الیکشن میں مسلمانوں سے متعلق مسائل زیر بحث آتے رہے اور ان پر ڈسکشن ہوتا رہا، لیکن اس بار مسلم مسائل یکسر غائب ہیں، حکمرانوں سے تو توقع بھی نہیں، لیکن اپوزیشن پارٹیوں کا بھی حال یہ ہے کہ اس پہلو سے وہ بھی خاموش ہیں، نہ جانے کیا مصلحت ہے کہ لفظ مسلم اور اس کے مسائل کا تذکرہ زبان پر لانے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے. نام نہاد سیکولر پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ مسلمان جائیں گے کہاں؟ ہمیں ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے. ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اس لیے ان کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے. مسلم کمیونٹی کی ایسی بے وقعتی اور ناقدری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، ان پارٹیوں کے اندر جو مسلم چہرے ہیں ان کو بھی وزن نہیں دیا جا رہا ہے کہ مبادا دوسرے ووٹر ناراض نہ ہوجائیں.
مسلمانوں کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
تحفظ، سلامتی، روزگار، تعلیم، صحت، حصہ داری، انصاف، مذہبی و ثقافتی آزادی، برابری، خواتین کی سیکورٹی، نوجوانوں کے لئے مواقع......
کہیں ان مسائل کا ذکر ہی نہیں ہورہا ہے، انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پر کوئی چرچا نہیں، علی گڑھ اور جامعہ ملیہ جیسے اداروں کے اقلیتی کردار پر بات نہیں، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے ساتھ انصاف کا ذکر نہیں، ملازمتوں میں نمائندگی کی ضمانت پر بات نہیں، فرضی انکاونٹر کا نشانہ بننے والوں سے اظہار ہمدردی نہیں، مسلمانوں کی تعلیمی، معاشرتی، معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں، ملک میں ہندو مسلم منافرت پھیلانے پر کوئی قدغن نہیں.... ایسا لگتا ہے کہ یہاں مسلمان نام کی کوئی قوم بستی ہی نہیں ہے.
اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا انتشار اور سیاسی بصیرت کی کمی ہے. اگر مسلمانان ہند سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں، اپنا ایجنڈا طے کریں، تمام مظلوموں کا ساتھ دیں اور قیام عدل کیلئے متحد ہوجائیں تو اتنی بڑی طاقت کو نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا.