کشن گنج(آئی این اے نیوز 22/جولائی2019) جامعہ محمود المدارس کشن گنج جو اب تک کشن گنج کے موتی باغ میں عارضی جگہ پر چل رہا تھا اب اپنی مستقل تعمیر پچھم پالی کشن گنج میں منتقل ہوچکا ہے۔ اسی مناسبت سے جامعہ محمود المدارس کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں شہر کشن گنج و دیگر اضلاع سے مشاہیر علماء کرام تشریف لائے۔
جلسے کی صدارت مفتی محمد جاوید اقبال صدر جمعیۃ علماء بہار نے فرمائی جبکہ مولانا آفتاب اظہر صدیقی ڈائیریکٹر الہدایہ اسلامک اکیڈکی چھترگاچھ نے نظامت کا فریضہ انجام دیا۔
محفل کا آغاز تلاوت کلام اللہ اور نعت پاک سے ہوا جس کے بعد مدرسہ ہٰذا کے صدر مفتی صبیح اختر شیخ الحدیث مدرسہ جلالیہ ہوجائی آسام کا پرمغز خطاب ہوا، انہوں نے مدارس و اہل مدارس کی اہمیت کو بتاتے ہوئے دینی تعلیم اور مدارس کے پھیلے ہوئے جال کو مسلمانوں کے لیے باعث فلاح اور فخر کا ذریعہ قرار دیا۔
قاری مشکور احمد مہتمم مدرسہ نے ادارے کی بنیاد سے اب تک کے تاثرات پیش کیے، انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالباسطؒ ہی اس مدرسے کے اصل کرتادھرتا تھے، مجھے ان کی رحلت سے زیادہ صدمہ کبھی نہیں ہوا، مولانا عبدالباسط میرے بھائی کی طرح عزیز تھے، ان کی رہنمائی میں ہی ہم چلتے تھے، لیکن ان کی رحلت کے بعد میں بالکل تنہا پڑ گیا اس وقت ان اکابر علماء نے میرا ساتھ دیا، میرا ہاتھ تھاما، مجھے شانہ دیا اور حوصلہ افزائی کے ساتھ میری رہنمائی بھی کی جس کا نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔
مولانا شمس الدین ڈائریکٹر مرکز المعارف آسام نے اپنے فصیحانہ بیان میں تعلیمی کیفیت کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوانٹیٹی پر نہیں بلکہ کوالٹی پر اپنی محنت صرف کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دستار بندی کے عنوان سے ہزاروں جلسوں میں حفاظ کرام کی ایک بڑی تعداد کو دستارِ حفظ سے نوازا جاتا ہے جن کو قرآن پاک یاد نہیں ہوتا، یہ صرف ایک دھوکہ ہے، طالب علم اس دھوکے میں ہے کہ اسے حافظ کی ڈگری مل گئی، والدین سمجھتے ہیں کہ ہمارا بیٹا حافظ بن گیا، ذمہ داران مدارس اس دھوکے میں ہیں کہ ہم نے اتنے اتنے حافظ بنا دیے۔ مولانا نے کہا کہ جب تک کسی طالب علم کو مکمل قرآن اچھی طرح یاد نہ ہوجائے اور وہ ایک یا دو نشست میں مکمل قرآن نہ سنادے اسے حافظ کی دستار نہ دی جائے۔
اسی طرح صرف عالم بنانے سے زیادہ عالم با عمل بنانے کی کوشش کی جائے۔
ان کے علاوہ مولانا ممتاز عالم مہتمم مدرسہ فیض القرآن ٹھکری باڑی نے اپنی تقریر میں اہل مدارس کو بچوں کی حاضری پر نگرانی کی بات کہی انہوں نے کہا کہ جو والدین واقعی اپنے بچے کو پڑھانے کا شوق رکھتے ہیں وہ ان کی غیرحاضری بالکل نہ ہونے دیں۔
مولانا عمیر انور صدر مدرس مدرسہ آمنہ للبنات بیلوا نے جامعہ محمود المدارس کا ترانہ پیش کیا۔ مفتی جاوید اقبال صدر جمعیۃ علماء بہار نے مدارس کی عظمت پر بیان کیا اور اپنے نظام تعلیم کو مزید مضبوط کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے علاوہ مفتی محمد عیسیٰ خلیفہ و جانشین مولانا ادریس نوکٹہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان فرمایا۔
مولانا تفضیل ندوی کو مدرسے کا رکن مقرر کیا گیا۔
مولانا انوار عالم ناظم دارالعلوم بہادر گنج نے اپنے کلیدی خطاب میں تمام اہل مدارس کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ عملی سرگرمیوں پر توجہ دیجیے، صرف خیالی پلاؤ سے کچھ نہیں ہوتا، اپنے عمل کو اپنے قول کا مصداق بنائیے، ہمارے ہر قول و فعل سے اسلام جھلکتا دکھائی دے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داران مدارس اخلاص و للہیت سے کام کریں اور حساب کتاب بالکل صاف ستھرا رکھیں کہ جب جو چاہے آکر دیکھ سکے، مدرسے کی آمد و خرچ دو تین لوگوں کے سامنے ہو۔
مولانا انوار عالم کی دعا پر ہی محفل اختتام پذیر ہوئی۔
آخر میں مولانا محمد مشفق ناظم تنظیم و ترقی مدرسہ ہٰذا نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب میں موجود معزز علمائے کرام میں مولانا غیاث الدین مہتمم مدرسہ فرینگورہ، مولانا غلام مصطفیٰ، مولانا حبیب الرحمان صدر مدرسہ تجوید القرآن کشن گنج، مولانا شمیم ریاض ندوی گیراماری، مولانا طاہر بھنکردواری، مولانا محمد عارف سکھٹیار، مفتی عبدالغنی پورنیہ، مولانا ہاشم التاباڑی، مولانا ابوسالک ندوی مالک اقصیٰ ایڈورٹائزنگ کمپنی کشن گنج، مولانا معظم، مولانا مجیب، مفتی نوازش، مولانا نوید، مولانا گلفام پانجی پارہ، مولانا نور الزماں بیلوا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ شہر کی معزز شخصیات میں ڈاکٹر ذکی اطہر، ماسٹر نورالزماں، مکھیا مدثر، مسلم بھائی کسان بیکری والے، ڈاکٹر محمد منظر، حافظ عبدالعظیم اور عبدالبارک وغیرہ بھی شریک تقریب رہے۔
کشن گنج کے ایم پی ڈاکٹر محمد جاوید نے محمد پرویز کو اپنے نمائندہ کے طور پر بھیجا جنہوں نے مدرسے سے متعلق سڑک بنوانے اور بجلی کے کھمبے لگوانے کا وعدہ کیا۔
جلسے کی صدارت مفتی محمد جاوید اقبال صدر جمعیۃ علماء بہار نے فرمائی جبکہ مولانا آفتاب اظہر صدیقی ڈائیریکٹر الہدایہ اسلامک اکیڈکی چھترگاچھ نے نظامت کا فریضہ انجام دیا۔
محفل کا آغاز تلاوت کلام اللہ اور نعت پاک سے ہوا جس کے بعد مدرسہ ہٰذا کے صدر مفتی صبیح اختر شیخ الحدیث مدرسہ جلالیہ ہوجائی آسام کا پرمغز خطاب ہوا، انہوں نے مدارس و اہل مدارس کی اہمیت کو بتاتے ہوئے دینی تعلیم اور مدارس کے پھیلے ہوئے جال کو مسلمانوں کے لیے باعث فلاح اور فخر کا ذریعہ قرار دیا۔
قاری مشکور احمد مہتمم مدرسہ نے ادارے کی بنیاد سے اب تک کے تاثرات پیش کیے، انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالباسطؒ ہی اس مدرسے کے اصل کرتادھرتا تھے، مجھے ان کی رحلت سے زیادہ صدمہ کبھی نہیں ہوا، مولانا عبدالباسط میرے بھائی کی طرح عزیز تھے، ان کی رہنمائی میں ہی ہم چلتے تھے، لیکن ان کی رحلت کے بعد میں بالکل تنہا پڑ گیا اس وقت ان اکابر علماء نے میرا ساتھ دیا، میرا ہاتھ تھاما، مجھے شانہ دیا اور حوصلہ افزائی کے ساتھ میری رہنمائی بھی کی جس کا نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔
مولانا شمس الدین ڈائریکٹر مرکز المعارف آسام نے اپنے فصیحانہ بیان میں تعلیمی کیفیت کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوانٹیٹی پر نہیں بلکہ کوالٹی پر اپنی محنت صرف کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دستار بندی کے عنوان سے ہزاروں جلسوں میں حفاظ کرام کی ایک بڑی تعداد کو دستارِ حفظ سے نوازا جاتا ہے جن کو قرآن پاک یاد نہیں ہوتا، یہ صرف ایک دھوکہ ہے، طالب علم اس دھوکے میں ہے کہ اسے حافظ کی ڈگری مل گئی، والدین سمجھتے ہیں کہ ہمارا بیٹا حافظ بن گیا، ذمہ داران مدارس اس دھوکے میں ہیں کہ ہم نے اتنے اتنے حافظ بنا دیے۔ مولانا نے کہا کہ جب تک کسی طالب علم کو مکمل قرآن اچھی طرح یاد نہ ہوجائے اور وہ ایک یا دو نشست میں مکمل قرآن نہ سنادے اسے حافظ کی دستار نہ دی جائے۔
اسی طرح صرف عالم بنانے سے زیادہ عالم با عمل بنانے کی کوشش کی جائے۔
ان کے علاوہ مولانا ممتاز عالم مہتمم مدرسہ فیض القرآن ٹھکری باڑی نے اپنی تقریر میں اہل مدارس کو بچوں کی حاضری پر نگرانی کی بات کہی انہوں نے کہا کہ جو والدین واقعی اپنے بچے کو پڑھانے کا شوق رکھتے ہیں وہ ان کی غیرحاضری بالکل نہ ہونے دیں۔
مولانا عمیر انور صدر مدرس مدرسہ آمنہ للبنات بیلوا نے جامعہ محمود المدارس کا ترانہ پیش کیا۔ مفتی جاوید اقبال صدر جمعیۃ علماء بہار نے مدارس کی عظمت پر بیان کیا اور اپنے نظام تعلیم کو مزید مضبوط کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے علاوہ مفتی محمد عیسیٰ خلیفہ و جانشین مولانا ادریس نوکٹہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان فرمایا۔
مولانا تفضیل ندوی کو مدرسے کا رکن مقرر کیا گیا۔
مولانا انوار عالم ناظم دارالعلوم بہادر گنج نے اپنے کلیدی خطاب میں تمام اہل مدارس کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ عملی سرگرمیوں پر توجہ دیجیے، صرف خیالی پلاؤ سے کچھ نہیں ہوتا، اپنے عمل کو اپنے قول کا مصداق بنائیے، ہمارے ہر قول و فعل سے اسلام جھلکتا دکھائی دے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داران مدارس اخلاص و للہیت سے کام کریں اور حساب کتاب بالکل صاف ستھرا رکھیں کہ جب جو چاہے آکر دیکھ سکے، مدرسے کی آمد و خرچ دو تین لوگوں کے سامنے ہو۔
مولانا انوار عالم کی دعا پر ہی محفل اختتام پذیر ہوئی۔
آخر میں مولانا محمد مشفق ناظم تنظیم و ترقی مدرسہ ہٰذا نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب میں موجود معزز علمائے کرام میں مولانا غیاث الدین مہتمم مدرسہ فرینگورہ، مولانا غلام مصطفیٰ، مولانا حبیب الرحمان صدر مدرسہ تجوید القرآن کشن گنج، مولانا شمیم ریاض ندوی گیراماری، مولانا طاہر بھنکردواری، مولانا محمد عارف سکھٹیار، مفتی عبدالغنی پورنیہ، مولانا ہاشم التاباڑی، مولانا ابوسالک ندوی مالک اقصیٰ ایڈورٹائزنگ کمپنی کشن گنج، مولانا معظم، مولانا مجیب، مفتی نوازش، مولانا نوید، مولانا گلفام پانجی پارہ، مولانا نور الزماں بیلوا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ شہر کی معزز شخصیات میں ڈاکٹر ذکی اطہر، ماسٹر نورالزماں، مکھیا مدثر، مسلم بھائی کسان بیکری والے، ڈاکٹر محمد منظر، حافظ عبدالعظیم اور عبدالبارک وغیرہ بھی شریک تقریب رہے۔
کشن گنج کے ایم پی ڈاکٹر محمد جاوید نے محمد پرویز کو اپنے نمائندہ کے طور پر بھیجا جنہوں نے مدرسے سے متعلق سڑک بنوانے اور بجلی کے کھمبے لگوانے کا وعدہ کیا۔