ذیشان الہی منیر تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
حج اسلام کا یہ نہایت ہی اہم رکن ہے ۔یہ ارکان خمسہ میں سے ایک ہے ۔کتاب و سنت میں حج کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ۔ایک دلیل کے مطابق جو بالکل ٹھوس اور مضبوط دلیل ہے کہ جو مسلمان صاحب استطاعت ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لئے حج کرتا ہے تو وہ گناہ و معصیت سے ایسا مبرہ و منزہ ہوجاتا ہے جیساکہ وہ ابھی اپنی ماں کی پیٹ سے جنم لیا ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ ایک حاجی گناہ سے بالکل پاک و صاف ہو جاتا ہے گویا کہ اس نے اس نو مولود بچہ کی طرح کوئی گناہ ہی نہیں کیا ۔
حج کی ان تمام اہمیت و افادیت کے مد نظر ایک مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ کا حج کرے اور اپنا رشتہ زیادہ سے زیادہ اللہ سے مضبوط و مستحکم کرے ۔وہ مسلمان بہت خوش نصیب ہے جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بیت اللہ کا حج کرتے ہیں ان کے اندر ریا و نمود، دیکھاوا اور شہرت پسندی نہیں ہوتی تاکہ وہ گناہ سے پاک و صاف ہوجائے اور ان کا رب ان سے خوش ہوجائے ۔
حج کے ان تمام فوائد اور اہمیت کے باوجود عصر حاضر میں جب ہم حاجیوں پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج لگ بھگ ننانویں (99/)فیصد مسلمان شہرت و نام کی خاطر حج کرتے ہیں جب ایک شخص کے حج کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ایک سال قبل سے ہی خوب شہرت اور پیسہ کی گرمی اور سماج میں پیسہ والا کہلانے کے لئے لوگوں کے سامنے فخریہ انداز میں یہ کہتے ہیں کہ اس سال تو میں حج کو جارہا ہوں پھر اس کے بعد رشتہ داروں کی خاطر داری اور مرغ و مسلم کا ایک ایسا دور چلتا ہے کہ جس کو کھانے اور پچانے کے لئے ان حاجیوں کے معدے اور حاضمے میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے مجبورا بے چارہ شہرت پسند حاجی ڈاکٹر اور دوا سے رشتہ مضبوط کرلیتا ہے ۔کہیں کہیں پے تو ان حاجیوں کو رومال بھر بھر کے پیسہ بھی دیا جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسا کہ کسی فقیر کو حج کے لئے بھیجا جا رہا ہے ۔ان حاجیوں کی فہرست میں بے ایمان، دھوکہ باز، اچکا، بدمعاش، رشوت خور اور سود خور بھی ہوتا ہے اور اپنی شخصیت کو بھاری بھرکم حاجی کے لقب سے ملقب کرنے کے لئے حج کر لیتے ہیں تاکہ سماج والے انہیں پیسہ والا اور اثر و رسوخ والا سمجھے اس کے بعد جب ایسے حاجی حج سے واپس آتے ہیں تو نہ تو ان کے اخلاق میں یا پھر عادت و اطوار میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ماقبل کے گناہ سے رکتے ہیں الٹے سماج کے کمزور لوگوں پر جو وہ ظلم کرتے ہیں اس کی داستان الم سورہ بقرہ کے طرح طویل ہے اس لئے ایسے حج کا نہ تو کوئی فائدہ اور ثواب ہے اور نہ ہی ایسے حاجیوِں کی ضروت ہمارے سماج کو ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
حج اسلام کا یہ نہایت ہی اہم رکن ہے ۔یہ ارکان خمسہ میں سے ایک ہے ۔کتاب و سنت میں حج کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ۔ایک دلیل کے مطابق جو بالکل ٹھوس اور مضبوط دلیل ہے کہ جو مسلمان صاحب استطاعت ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لئے حج کرتا ہے تو وہ گناہ و معصیت سے ایسا مبرہ و منزہ ہوجاتا ہے جیساکہ وہ ابھی اپنی ماں کی پیٹ سے جنم لیا ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ ایک حاجی گناہ سے بالکل پاک و صاف ہو جاتا ہے گویا کہ اس نے اس نو مولود بچہ کی طرح کوئی گناہ ہی نہیں کیا ۔
حج کی ان تمام اہمیت و افادیت کے مد نظر ایک مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ کا حج کرے اور اپنا رشتہ زیادہ سے زیادہ اللہ سے مضبوط و مستحکم کرے ۔وہ مسلمان بہت خوش نصیب ہے جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بیت اللہ کا حج کرتے ہیں ان کے اندر ریا و نمود، دیکھاوا اور شہرت پسندی نہیں ہوتی تاکہ وہ گناہ سے پاک و صاف ہوجائے اور ان کا رب ان سے خوش ہوجائے ۔
حج کے ان تمام فوائد اور اہمیت کے باوجود عصر حاضر میں جب ہم حاجیوں پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج لگ بھگ ننانویں (99/)فیصد مسلمان شہرت و نام کی خاطر حج کرتے ہیں جب ایک شخص کے حج کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ایک سال قبل سے ہی خوب شہرت اور پیسہ کی گرمی اور سماج میں پیسہ والا کہلانے کے لئے لوگوں کے سامنے فخریہ انداز میں یہ کہتے ہیں کہ اس سال تو میں حج کو جارہا ہوں پھر اس کے بعد رشتہ داروں کی خاطر داری اور مرغ و مسلم کا ایک ایسا دور چلتا ہے کہ جس کو کھانے اور پچانے کے لئے ان حاجیوں کے معدے اور حاضمے میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے مجبورا بے چارہ شہرت پسند حاجی ڈاکٹر اور دوا سے رشتہ مضبوط کرلیتا ہے ۔کہیں کہیں پے تو ان حاجیوں کو رومال بھر بھر کے پیسہ بھی دیا جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسا کہ کسی فقیر کو حج کے لئے بھیجا جا رہا ہے ۔ان حاجیوں کی فہرست میں بے ایمان، دھوکہ باز، اچکا، بدمعاش، رشوت خور اور سود خور بھی ہوتا ہے اور اپنی شخصیت کو بھاری بھرکم حاجی کے لقب سے ملقب کرنے کے لئے حج کر لیتے ہیں تاکہ سماج والے انہیں پیسہ والا اور اثر و رسوخ والا سمجھے اس کے بعد جب ایسے حاجی حج سے واپس آتے ہیں تو نہ تو ان کے اخلاق میں یا پھر عادت و اطوار میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ماقبل کے گناہ سے رکتے ہیں الٹے سماج کے کمزور لوگوں پر جو وہ ظلم کرتے ہیں اس کی داستان الم سورہ بقرہ کے طرح طویل ہے اس لئے ایسے حج کا نہ تو کوئی فائدہ اور ثواب ہے اور نہ ہی ایسے حاجیوِں کی ضروت ہمارے سماج کو ہے ۔