قاری عطاالرحمن بلھروی نے طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کو شریعت میں مداخلت اور دستور ہند کی روح کے منافی قراردیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اپنی شریعت کے ایک نقطے سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے.
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 3/اگست2019) گذشتہ دن راجیہ سبھا سے پاس ہونے والے تین طلاق مخالف بل (خواتین حق نکاح تحفظ بل )پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قاری عطا الرحمن بلھروی امام جمعہ مسجد عثمانیہ احاطہ سنگی بیگ نخاس لکھنؤ نے کہا کہ بل آئین ہند کے خلاف اور مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت ہے یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں تمام مذاہب کے رہنے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے اس کے باوجود ملک پر کسی ایک مذہب کی تہذیب کو تھوپنا دراصل جمہوریت کا قتل ہے مسلمان اپنے دین و شریعت کے ایک نقطے سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں مسلمانان ہند اس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ وہ یکساں سول کوڈ کے بوسیدہ قوانین کے ذریعے اپنے عائلی قوانین اور شخصی معاملات و مسائل کا حل نکالیں۔ انہوں نے مزید کہا کی مسلم پرسنل اللہ اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانون ہے اور یہ پوری انسانیت کے لئے سرچشمہ رحمت ہے لہذا اس دین الہی میں کوئی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی تاریخ شاہد ہے کہ جن طاقتوں نے دین کو نقصان پہنچایا وہ نیست ونابود ہوگئے گئے
قاری عطاءالرحمن بلھروی نے ۔مزید کہا کی موجودہ وقت میں نہ صرف ہمارے دین پر حملے ہورہے ہیں بلکہ اس ملک کا جو بیش قیمت اثاثہ دستور ملک ہے وہ بھی نشانے پر ہے اس لیے ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک میں اپنے پورے وقار اور مذہبی خصوصیات کیساتھ رہیں گے ہمارے اس فیصلے کو ارادہ الہی کے علاوہ کوئی بھی طاقت بدل نہی سکتی اور ہمارے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر اختیار کریں گے تاکہ کہ اسلام کو امن و سلامتی کا دین اور مسلمان انسانیت نواز اور امن وسلامتی کے رہبر سمجھے جائیں
قاری عطاء الرحمن نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ اور شریعت کے نفاذ کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ مسلمان مسلم پرسنل لاء کے امور یعنی نکاح۔ طلاق۔ خلع۔ رضاعت و حضانت اور میراث و ہبہ کے معاملات کو شرعی طریقے پر طے کرنے کے نظام کو قائم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم اپنے تمام معاملات کو شریعت کے مطابق ہی حل کریں گے اور اپنی عملی زندگی میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی سب سے بڑی طاقت ملت کا اتحاد ہے ہم متحد رہ کر ہی مخالف سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس وقت عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر بھی اس بات کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کو ابھارا جائے تاکہ وہ آپسی اختلافات میں ہی الجھے رہیں اپنے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہونے کا ان کو موقع ہی نہ ملے ایسے نازک وقت میں تمام مسالک کے قائدین اور اور اور مقتدیٰ شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو اور مشترکہ مسائل کے لئے ایک ساتھ مل بیٹھ کر غور کرنے اور جدوجہد کرنے کا ماحول بنائیں اور اس بات کا صاف اعلان کریں کہ شریعت میں مداخلت نا قابل قبول ہے شریعت میں کسی بھی قسم کی ذرہ برابر تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی جس طرح مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ نے مسلم پرسنل لاء کی اھمیت بیان کرتے ہوۓ کہا تھا کہ ہمارے اوپر پھر دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہئے چاہیے اور یہ ہمارا شہری جمہوری اور آئینی حق ہے اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی ہمت افزائی بھی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے تحفظ اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون واطمینان میں مضمر ہے۔ آج ملت اسلامیہ کو اس اعلان کے کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے کہ اشد ضرورت ہے
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 3/اگست2019) گذشتہ دن راجیہ سبھا سے پاس ہونے والے تین طلاق مخالف بل (خواتین حق نکاح تحفظ بل )پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قاری عطا الرحمن بلھروی امام جمعہ مسجد عثمانیہ احاطہ سنگی بیگ نخاس لکھنؤ نے کہا کہ بل آئین ہند کے خلاف اور مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت ہے یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں تمام مذاہب کے رہنے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے اس کے باوجود ملک پر کسی ایک مذہب کی تہذیب کو تھوپنا دراصل جمہوریت کا قتل ہے مسلمان اپنے دین و شریعت کے ایک نقطے سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں مسلمانان ہند اس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ وہ یکساں سول کوڈ کے بوسیدہ قوانین کے ذریعے اپنے عائلی قوانین اور شخصی معاملات و مسائل کا حل نکالیں۔ انہوں نے مزید کہا کی مسلم پرسنل اللہ اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانون ہے اور یہ پوری انسانیت کے لئے سرچشمہ رحمت ہے لہذا اس دین الہی میں کوئی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی تاریخ شاہد ہے کہ جن طاقتوں نے دین کو نقصان پہنچایا وہ نیست ونابود ہوگئے گئے
قاری عطاءالرحمن بلھروی نے ۔مزید کہا کی موجودہ وقت میں نہ صرف ہمارے دین پر حملے ہورہے ہیں بلکہ اس ملک کا جو بیش قیمت اثاثہ دستور ملک ہے وہ بھی نشانے پر ہے اس لیے ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک میں اپنے پورے وقار اور مذہبی خصوصیات کیساتھ رہیں گے ہمارے اس فیصلے کو ارادہ الہی کے علاوہ کوئی بھی طاقت بدل نہی سکتی اور ہمارے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر اختیار کریں گے تاکہ کہ اسلام کو امن و سلامتی کا دین اور مسلمان انسانیت نواز اور امن وسلامتی کے رہبر سمجھے جائیں
قاری عطاء الرحمن نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ اور شریعت کے نفاذ کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ مسلمان مسلم پرسنل لاء کے امور یعنی نکاح۔ طلاق۔ خلع۔ رضاعت و حضانت اور میراث و ہبہ کے معاملات کو شرعی طریقے پر طے کرنے کے نظام کو قائم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم اپنے تمام معاملات کو شریعت کے مطابق ہی حل کریں گے اور اپنی عملی زندگی میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی سب سے بڑی طاقت ملت کا اتحاد ہے ہم متحد رہ کر ہی مخالف سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس وقت عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر بھی اس بات کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کو ابھارا جائے تاکہ وہ آپسی اختلافات میں ہی الجھے رہیں اپنے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہونے کا ان کو موقع ہی نہ ملے ایسے نازک وقت میں تمام مسالک کے قائدین اور اور اور مقتدیٰ شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو اور مشترکہ مسائل کے لئے ایک ساتھ مل بیٹھ کر غور کرنے اور جدوجہد کرنے کا ماحول بنائیں اور اس بات کا صاف اعلان کریں کہ شریعت میں مداخلت نا قابل قبول ہے شریعت میں کسی بھی قسم کی ذرہ برابر تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی جس طرح مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ نے مسلم پرسنل لاء کی اھمیت بیان کرتے ہوۓ کہا تھا کہ ہمارے اوپر پھر دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہئے چاہیے اور یہ ہمارا شہری جمہوری اور آئینی حق ہے اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی ہمت افزائی بھی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے تحفظ اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون واطمینان میں مضمر ہے۔ آج ملت اسلامیہ کو اس اعلان کے کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے کہ اشد ضرورت ہے