دہلی سے اعظم گڈھ بذریعہ کیفیات سپرفاسٹ
از: وقار احمد غالب پوری۔
mohdwaqarakhtar@gmail.com
آج بتاریخ 7 اگست کیفیات سپر فاسٹ سے گھر جانے کا ٹکٹ تھا، وقت پر احقر اپنے دوستوں کے ساتھ اسٹیشن پر پہونچا؛ پر اتفاق سے ہم تینوں کی سیٹیں الگ الگ تھیں، جن میں کافی فاصلہ تھا۔ اسٹیشن پر پہونچ کر ہم نے پلیٹ فارم نمبر 16 کا رخ کیا، دیکھا کہ آج کیفیات سوپر فاسٹ کافی پہلے ہی پلیٹ فارم پر لگی ہوئی ہے۔
وقت سے پہلے پلیٹ فارم پہ لگی ٹرین کو دیکھ کر ذہن میں آیا کہ شاید یہ ٹرین آج تاخیر سے دہلی پہونچی ہو اور اسی پلیٹ فارم پر ہی انتظامیہ نے روک دیا ہو؛ لیکن یہ تو ایک خیال تھا، تحقیق کی غرض سے انٹرنیٹ پے چیک کرنے کی کوشش کی ، تو معلوم ہوا کہ وقت سے تھوڑی لیٹ تھی ، پلیٹ فارم پر روز کی بنسبت آج پہلے ہی لگا دی گئی ہے؛ کیوں کہ کوچ کے نمبرات کچھ تبدیل ہیں آج ؛ اس لیے پہلے ہی لگا دی گئی ، تاکہ لوگ بآسانی اپنے اپنے کوچ میں وقت مقررہ پر پہونچ جائیں۔
اسٹیشن ماسٹر نے کیفیات کے ٹائم کا اعلان کیا؛ لیکن دہلی سے روانہ ہونے کا وقت تو ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ 7:15 شام میں ہے۔ پھر بھی اسٹیشن ماسٹر کی باتوں کو بغور سنا کہ شاید کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ اس کے اعلان سے معلوم ہوا کہ کیفیات 7:10 pm پے یہاں سے روانہ ہوگی۔
ہم وقت قریب ہونے پر اپنے اپنے کوچ کی طرف چلے گئے اور اپنی بک کردہ سیٹ پر انے سازوسامان کی جگہ بناکر سکون کی ایک لمبی سانس لی اور بیٹھتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ شاید اب ہم اپنے علاقہ میں پہونچ چکے ہیں؛ کیوں کہ کیفیات میں مسافرین کی زیادہ تر تعداد شاہ گنج، پھولپور، سرائمیر، اعظم گڈھ ، محمد آباد گوہنہ، مئو، گھوسی، بلریا گنج، جین پور اور مبارک پور وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے، جہاں کے افراد ملنسار اور خوش مزاج ہوتے ہیں، ان کی زبانیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور علاقے کے ہونے کی وجہ سے ایک الگ سا تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور آپس میں اخوت وبھائی چارگی والا تعلق رکھتے ہوئے عزت سے پیش آتے ہیں؛ جس کی بنیاد پر اس ٹرین میں بیٹھتے ہی ہر ایک کو ایک خوبصورت قسم کی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے اور اسے اپنا گھر کافی دور ہونے کے باوجود بھی قریب تر محسوس ہونے لگتا ہے۔
کیفیات تو دور، ابھی جب ہم پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 16 پر پہونچے ، تو وہیں پر اپنے علاقہ کی زبانیں سنائی دینے لگیں، وہیں اپنے علاقہ کا انداز، محبت اور طور وطریقہ؛ سب کچھ کا احساس ہونے لگا، جسے دیکھ کر ، سن کر ، محسوس کرکے بہت خوشی ہوئی۔ خوشی کی بات بھی ہے؛ کافی وقت کے بعد اپنے علاقہ کے لوگ دکھ رہے ہیں ، اپنی زبانیں سننے کو مل رہی ہیں ، چاروں طرف اپنے علاقہ کے طعام ومشروبات کی خوشبوئیں آرہی ہیں؛ اس لیے خوشی تو ہونی ہی ہونی ہے۔
اللہ تبارک وتعالی کا فضل وکرم ہے کہ ہم سبھی حضرات ٹرین میں سکون سے بیٹھ گئے ہیں ، کیفیات سوپر فاسٹ تقریبا 100 کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے، جلد ہی ہماری ٹرین غازی آباد پہونچ جائے گی اور وہاں سے کانپور سینٹرل، لکھنئو اور فیض آباد کے راستے اعظم گڈھ کا راستہ اختیار کرے گی ، غازی آباد کے بعد اس ٹرین کی اسپیڈ تھوڑی اور زیادہ ، تقریبا 110 یا 120 کیلومیٹر فی گھنٹہ ہوجاتی ہے۔ نیز تحقیق سے معلوم ہوا کہ دہلی سے لکھنئو جلدی لے جانے والی ٹرینوں میں سے ایک کیفیات بھی ہے، جو چوتھے نمبر پر ہوتے ہوئے تقریبا 7 گھنٹہ 45 منٹ میں پہونچ جاتی ہے۔ نمبر ایک پر شتابدی ایکسپریس ہے، دوسرے نمبر پر راجدھانی ایکسپریس، تیسرے نمبر پر بہار سنپرک کرانتی ایکسپریس اور چوتھے نمبر پر کیفیات سوپرفاسٹ ہے، جسے ہم لوگ اپنی زبان اور اپنی محفل میں راجدھانی کہا کرتے ہیں۔
شام کا وقت ہے، چلتی ہوئی ٹرین سے باہر خوبصورت منظر دکھ رہے ہیں ، موسم کافی خوشگوار ہے ، آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں، اندھیرا ہونے کے قریب ہے؛ بلکہ اندھیرا ہوچکا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چہرے کو چھو رہی ہیں، کیفیات اپنے انوکھے اور یونک انداز سے وقت پر چل رہی ہے، جو خود میں ایک خصوصیت کی حامل ہے، غازی آباد سے آگے نکل چکی ہے ۔ ہمیں امید واثق ہے کہ ان شاء اللہ ہم لوگ وقت پر اپنی اپنی منزل مقصود پر پہونچ جائیں گے، آپ تمام حضرات سے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
TIME 8:00
از: وقار احمد غالب پوری۔
mohdwaqarakhtar@gmail.com
آج بتاریخ 7 اگست کیفیات سپر فاسٹ سے گھر جانے کا ٹکٹ تھا، وقت پر احقر اپنے دوستوں کے ساتھ اسٹیشن پر پہونچا؛ پر اتفاق سے ہم تینوں کی سیٹیں الگ الگ تھیں، جن میں کافی فاصلہ تھا۔ اسٹیشن پر پہونچ کر ہم نے پلیٹ فارم نمبر 16 کا رخ کیا، دیکھا کہ آج کیفیات سوپر فاسٹ کافی پہلے ہی پلیٹ فارم پر لگی ہوئی ہے۔
وقت سے پہلے پلیٹ فارم پہ لگی ٹرین کو دیکھ کر ذہن میں آیا کہ شاید یہ ٹرین آج تاخیر سے دہلی پہونچی ہو اور اسی پلیٹ فارم پر ہی انتظامیہ نے روک دیا ہو؛ لیکن یہ تو ایک خیال تھا، تحقیق کی غرض سے انٹرنیٹ پے چیک کرنے کی کوشش کی ، تو معلوم ہوا کہ وقت سے تھوڑی لیٹ تھی ، پلیٹ فارم پر روز کی بنسبت آج پہلے ہی لگا دی گئی ہے؛ کیوں کہ کوچ کے نمبرات کچھ تبدیل ہیں آج ؛ اس لیے پہلے ہی لگا دی گئی ، تاکہ لوگ بآسانی اپنے اپنے کوچ میں وقت مقررہ پر پہونچ جائیں۔
اسٹیشن ماسٹر نے کیفیات کے ٹائم کا اعلان کیا؛ لیکن دہلی سے روانہ ہونے کا وقت تو ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ 7:15 شام میں ہے۔ پھر بھی اسٹیشن ماسٹر کی باتوں کو بغور سنا کہ شاید کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ اس کے اعلان سے معلوم ہوا کہ کیفیات 7:10 pm پے یہاں سے روانہ ہوگی۔
ہم وقت قریب ہونے پر اپنے اپنے کوچ کی طرف چلے گئے اور اپنی بک کردہ سیٹ پر انے سازوسامان کی جگہ بناکر سکون کی ایک لمبی سانس لی اور بیٹھتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ شاید اب ہم اپنے علاقہ میں پہونچ چکے ہیں؛ کیوں کہ کیفیات میں مسافرین کی زیادہ تر تعداد شاہ گنج، پھولپور، سرائمیر، اعظم گڈھ ، محمد آباد گوہنہ، مئو، گھوسی، بلریا گنج، جین پور اور مبارک پور وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے، جہاں کے افراد ملنسار اور خوش مزاج ہوتے ہیں، ان کی زبانیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور علاقے کے ہونے کی وجہ سے ایک الگ سا تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور آپس میں اخوت وبھائی چارگی والا تعلق رکھتے ہوئے عزت سے پیش آتے ہیں؛ جس کی بنیاد پر اس ٹرین میں بیٹھتے ہی ہر ایک کو ایک خوبصورت قسم کی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے اور اسے اپنا گھر کافی دور ہونے کے باوجود بھی قریب تر محسوس ہونے لگتا ہے۔
کیفیات تو دور، ابھی جب ہم پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 16 پر پہونچے ، تو وہیں پر اپنے علاقہ کی زبانیں سنائی دینے لگیں، وہیں اپنے علاقہ کا انداز، محبت اور طور وطریقہ؛ سب کچھ کا احساس ہونے لگا، جسے دیکھ کر ، سن کر ، محسوس کرکے بہت خوشی ہوئی۔ خوشی کی بات بھی ہے؛ کافی وقت کے بعد اپنے علاقہ کے لوگ دکھ رہے ہیں ، اپنی زبانیں سننے کو مل رہی ہیں ، چاروں طرف اپنے علاقہ کے طعام ومشروبات کی خوشبوئیں آرہی ہیں؛ اس لیے خوشی تو ہونی ہی ہونی ہے۔
اللہ تبارک وتعالی کا فضل وکرم ہے کہ ہم سبھی حضرات ٹرین میں سکون سے بیٹھ گئے ہیں ، کیفیات سوپر فاسٹ تقریبا 100 کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے، جلد ہی ہماری ٹرین غازی آباد پہونچ جائے گی اور وہاں سے کانپور سینٹرل، لکھنئو اور فیض آباد کے راستے اعظم گڈھ کا راستہ اختیار کرے گی ، غازی آباد کے بعد اس ٹرین کی اسپیڈ تھوڑی اور زیادہ ، تقریبا 110 یا 120 کیلومیٹر فی گھنٹہ ہوجاتی ہے۔ نیز تحقیق سے معلوم ہوا کہ دہلی سے لکھنئو جلدی لے جانے والی ٹرینوں میں سے ایک کیفیات بھی ہے، جو چوتھے نمبر پر ہوتے ہوئے تقریبا 7 گھنٹہ 45 منٹ میں پہونچ جاتی ہے۔ نمبر ایک پر شتابدی ایکسپریس ہے، دوسرے نمبر پر راجدھانی ایکسپریس، تیسرے نمبر پر بہار سنپرک کرانتی ایکسپریس اور چوتھے نمبر پر کیفیات سوپرفاسٹ ہے، جسے ہم لوگ اپنی زبان اور اپنی محفل میں راجدھانی کہا کرتے ہیں۔
شام کا وقت ہے، چلتی ہوئی ٹرین سے باہر خوبصورت منظر دکھ رہے ہیں ، موسم کافی خوشگوار ہے ، آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں، اندھیرا ہونے کے قریب ہے؛ بلکہ اندھیرا ہوچکا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چہرے کو چھو رہی ہیں، کیفیات اپنے انوکھے اور یونک انداز سے وقت پر چل رہی ہے، جو خود میں ایک خصوصیت کی حامل ہے، غازی آباد سے آگے نکل چکی ہے ۔ ہمیں امید واثق ہے کہ ان شاء اللہ ہم لوگ وقت پر اپنی اپنی منزل مقصود پر پہونچ جائیں گے، آپ تمام حضرات سے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
TIME 8:00