جاوید ارمان سماجی کارکن نئی دہلی
_______________
مکرمی:خالص کشمیر کےنقطہ نظر سے دیکھاجائےتوپاکستان نےکشمیر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج جو پاکست اننکشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی دکھاتا ہےاسی نے کشمیر کو ناقابلِ فراموش نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کےحالیہ اقدامات کے خلاف پاکستان پروپیگنڈے پھیلا رہا ہے۔اب جموں و کشمیر جغرافیائی لحاظ سےدو حصوں میں منقسم ہو گیا ہے۔جس میں جغرافیائی لحاظ سے لداخ کو مرکزی خطے کی حیثیت حاصل ہے۔ہندوستان کے حالیہ اقدام سے کشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کو درجہ ختم ہو گیا ہے۔اس کے بعد سے پاکستان ،بھارت کے ساتھ جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔پلوامہجیسے مذموم دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے اب اس قول سے رجوع کرنے کا عہد کیاہے۔اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع ،سفارتی تعلقات اور دوطرفہ تجارت کو معطل کرنااوردوسرے انتظامات کا جائزہ لینا اور اس کی آزادی کا مشاہدہ کرنا۔14 اگست کو پاکستان کے ذریعہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرنا کہ اسے کشمیر سے ہمدردی ہے سراسر عیاری ہے۔یہ حقیقت ہیکہ وادی کشمیر کے چند حصے میں لوگ مرکزی حکومت کے حالیہ فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں لیکن حکومت کے اس فیصلے سے کشمیر میں ترقی کے نئے وسائل،نئے راستے دستیاب ہونگے۔ کشمیری عوام کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کی زینے طے کرے گی۔اس میں کوئی چھپانےوالی بات نہیں ہیکہ حکومت نے شر پسند عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے مواصلاتی نظام کو بند کیا ہے اور فوج کی مزید ٹکڑی تعینات کی گئ ہے تاکہ کسی طرح کا کوئی ہنگامہ نہ ہو اور نظم و نسق کی صورتحال نہ بگڑے۔واضح رہے کہ کچھ صنعت کاروں بشمول جماعتوں سمیت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے احتجاج کی دھمکی دی تھی،ان باتوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے وادی میں مزید فوج کی تعنیاتی کی گئی ہے۔ حکومت کی اولین ترجیح کشمیری عوام کا تحفظ ہے۔یہ کہنا غلط ہوگا کہ حکومت نے کشمیر میں اپنا بھروسہ کھو دیا ہے۔بیشک کشمیری عوام میں سے کچھ ٹیس محسوس کروانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک ہی وقت میں یہ خیال کرنا بھی غلط ہیکہ کشمیری مزاحم ہیں۔مواصلاتی نظام پرپابندی،کشمیری عوام کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر سے کشمیری عوام میں تھوڑی بہت بے چینی کی کیفیت ہے۔کشمیر مسئلے پر پاکستان نے اپنا بھروسہ کھو دیا ہے۔پاکستان نے کشمیر ایشو کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اس سے صاف پتہ چلتا ہیکہ کشمیر مسئلے کو لیکر پاکستان کا کوئی صاف موقف نہیں ہے۔پاکستان غلط فہمی کا شکار ہیکہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا،ایسا ہونا ہوتا تو اب تک کشمیری عوام کی جانب سے کوئی عملی اقدام ہوتا لیکن نہیں ہوا۔کشمیری عوام نے 1947میں ہی ہندوستان کو اپنا ملک مان لیا تھا۔ہندوستانی فوج جب کشمیر میں موجود پاکستانی حملہ آوروں کو پیچھے ہٹانے کیلئے کشمیر پہنچی تھی تو ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے بعد کشمیری عوام نے ہندوستانی فوج کی پاکستانی فوج کے خلاف ہندوستانی فوج کی مدد کی۔حقیقت یہ ہیکہ پاکستان غلط طریقے سے کشمیر میں دخل اندازی کر رہا ہے۔جبکہ کشمیری عوام خود اس مسئلے پر خاموش ہے۔اگر کشمیری عوام کو کچھ کہنا ہی ہوگا تو وہ سابق آئ اے ایس افسر شاہ فیصل کی طرح کہ کشمیری عوام کو اس نقصان کا احساس ہو رہا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ کشمیر کا اصل مسئلہ کیا تھا،خصوصی ریاست کا درجہ یا کچھ اور۔شاہ فیصل کشمیر کی ان نوجوان آوازوں میں سے ایک ہے جس کی بات کشمیری عوام سنتے ہیں۔جہاں تک کشمیر کو لیکر پاکستان کا معاملہ ہے تو پاکستان کے تمام دعوے کھوکھلے ہیں۔پاکستان کشمیری عوام کی راہ۔میں مسائل حائل کر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
_______________
مکرمی:خالص کشمیر کےنقطہ نظر سے دیکھاجائےتوپاکستان نےکشمیر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج جو پاکست اننکشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی دکھاتا ہےاسی نے کشمیر کو ناقابلِ فراموش نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کےحالیہ اقدامات کے خلاف پاکستان پروپیگنڈے پھیلا رہا ہے۔اب جموں و کشمیر جغرافیائی لحاظ سےدو حصوں میں منقسم ہو گیا ہے۔جس میں جغرافیائی لحاظ سے لداخ کو مرکزی خطے کی حیثیت حاصل ہے۔ہندوستان کے حالیہ اقدام سے کشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کو درجہ ختم ہو گیا ہے۔اس کے بعد سے پاکستان ،بھارت کے ساتھ جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔پلوامہجیسے مذموم دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے اب اس قول سے رجوع کرنے کا عہد کیاہے۔اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع ،سفارتی تعلقات اور دوطرفہ تجارت کو معطل کرنااوردوسرے انتظامات کا جائزہ لینا اور اس کی آزادی کا مشاہدہ کرنا۔14 اگست کو پاکستان کے ذریعہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرنا کہ اسے کشمیر سے ہمدردی ہے سراسر عیاری ہے۔یہ حقیقت ہیکہ وادی کشمیر کے چند حصے میں لوگ مرکزی حکومت کے حالیہ فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں لیکن حکومت کے اس فیصلے سے کشمیر میں ترقی کے نئے وسائل،نئے راستے دستیاب ہونگے۔ کشمیری عوام کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کی زینے طے کرے گی۔اس میں کوئی چھپانےوالی بات نہیں ہیکہ حکومت نے شر پسند عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے مواصلاتی نظام کو بند کیا ہے اور فوج کی مزید ٹکڑی تعینات کی گئ ہے تاکہ کسی طرح کا کوئی ہنگامہ نہ ہو اور نظم و نسق کی صورتحال نہ بگڑے۔واضح رہے کہ کچھ صنعت کاروں بشمول جماعتوں سمیت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے احتجاج کی دھمکی دی تھی،ان باتوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے وادی میں مزید فوج کی تعنیاتی کی گئی ہے۔ حکومت کی اولین ترجیح کشمیری عوام کا تحفظ ہے۔یہ کہنا غلط ہوگا کہ حکومت نے کشمیر میں اپنا بھروسہ کھو دیا ہے۔بیشک کشمیری عوام میں سے کچھ ٹیس محسوس کروانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک ہی وقت میں یہ خیال کرنا بھی غلط ہیکہ کشمیری مزاحم ہیں۔مواصلاتی نظام پرپابندی،کشمیری عوام کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر سے کشمیری عوام میں تھوڑی بہت بے چینی کی کیفیت ہے۔کشمیر مسئلے پر پاکستان نے اپنا بھروسہ کھو دیا ہے۔پاکستان نے کشمیر ایشو کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اس سے صاف پتہ چلتا ہیکہ کشمیر مسئلے کو لیکر پاکستان کا کوئی صاف موقف نہیں ہے۔پاکستان غلط فہمی کا شکار ہیکہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا،ایسا ہونا ہوتا تو اب تک کشمیری عوام کی جانب سے کوئی عملی اقدام ہوتا لیکن نہیں ہوا۔کشمیری عوام نے 1947میں ہی ہندوستان کو اپنا ملک مان لیا تھا۔ہندوستانی فوج جب کشمیر میں موجود پاکستانی حملہ آوروں کو پیچھے ہٹانے کیلئے کشمیر پہنچی تھی تو ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے بعد کشمیری عوام نے ہندوستانی فوج کی پاکستانی فوج کے خلاف ہندوستانی فوج کی مدد کی۔حقیقت یہ ہیکہ پاکستان غلط طریقے سے کشمیر میں دخل اندازی کر رہا ہے۔جبکہ کشمیری عوام خود اس مسئلے پر خاموش ہے۔اگر کشمیری عوام کو کچھ کہنا ہی ہوگا تو وہ سابق آئ اے ایس افسر شاہ فیصل کی طرح کہ کشمیری عوام کو اس نقصان کا احساس ہو رہا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ کشمیر کا اصل مسئلہ کیا تھا،خصوصی ریاست کا درجہ یا کچھ اور۔شاہ فیصل کشمیر کی ان نوجوان آوازوں میں سے ایک ہے جس کی بات کشمیری عوام سنتے ہیں۔جہاں تک کشمیر کو لیکر پاکستان کا معاملہ ہے تو پاکستان کے تمام دعوے کھوکھلے ہیں۔پاکستان کشمیری عوام کی راہ۔میں مسائل حائل کر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔