تحریر: مولانا فیاض احمد صدیقی
_____________________
میں آپ اور دنیا میں موجود اربوں لوگ، کیا یہ محض اتفاقاً وجود میں آئے یا اسکو کسی مخصوص ذہن یا طاقت نے پیدا کیا؟؟ شاید یہ سوال ہر کسی کے دماغ میں ہو، البتہ کچھ سوال کرنے سے ڈرتے ہیں یا پھر ان کی طرف دلچسپی ہی نہیں ہے۔ آج سے چند سو سال پہلے تک ہماری کائنات ہمارے نظام شمسی تک محیط تھی، مگر سائنسی سوچ و بچار نے اس کائنات کو وسعت دی، پھر ہم نے مانا کہ ہماری کل کائنات ہماری اپنی کہکشاں ہے۔ اور جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں اسکا نام ملکی وے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دہائیوں میں جب ہبل نامی سائنسدان نے آسمان کے گھپ اندھیروں میں جھانک کر دیکھا تو کائنات کے مسحور کن مناظر نے ہبل کو ششدر کردیا، اور کائنات نے اپنا راز بتانا شروع کیا،
یہ سن 1920 کی بات ہے جب ہبل نے دنیا کو بتایا کہ جو آسمان میں ہمیں ستارے جیسے نظر آنے والا آسمانی مجسمہ، ستارہ نہیں بلکہ دور دراز کے کہکشائیں ہے، یوں کنویں کے مینڈک یعنی کی انسان نے اپنی دنیا، اور اپنی چھوٹی سی کہکشاں سے نکل کر کائنات کے باقی حصوں کو دیکھنا شروع کیا۔ یہ دریافت انسانوں کے لئے بہت ہی حیران کن تھا، آج ہم ہبل ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس قابل ہوئے کہ کائنات کی دور دراز کہکشاؤں کو دیکھ سکے، صرف یہی نہیں بلکہ ہم ان کہکشاؤں کا ہم سے فاصلہ، کہکشاں کی عمر، کہکشاں کی جسامت، کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد تک کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آج تک کے مشاہدے کے مطابق ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں دو سو ارب سے زائد کہکشائیں موجود ہیں۔ اور ہر کہکشاں اوسطا ایک لاکھ نوری سال کے قطر کی ہے، یاد رہے ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، اور روشنی کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں زمیں کے گرد سات چکر لگا سکتی ہے۔ سائنسدانوں اور ماہر فلکیات کے مطابق ہر کہکشاں میں کم و بیش ایک سو سے پانچ سو ارب ستارے موجود ہے ، اور ان دوسو ارب کہکشاں میں ملکی وے بھی ایک ہے، اور ملکی وے میں موجود دو سو سے تین سو ارب ستاروں میں ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے، جس کے گرد زمین زندگی جیسی نعمت کو دامن میں لئے محو سفر ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہماری کائنات کتنی بڑی ہے۔ اب آتے ہیں اصل مدعے پر۔ زرا سوچیں! اس انگنت کہکشاؤں میں ایک کہکشاں جس کے اپنے انگنت ستارے ہیں میں کسی ایک اوسط ستارے کے گرد سفر کرتے ہوئے آٹھ سیاروں میں سے ایک سیارے پر زندگی ہونا، اور اس زندگی کا ہمارا حصہ ہونا، اسکے کتنے امکانات ہے؟ زرا غور کریں! وہ نطفہ جس سے میں اور آپ پیدا ہوئے اس نطفے میں موجود کروڑوں سپرمز میں سے وہ سپرم جس سے میں اور آپ پیدا ہوئے اسی کو ہی بیضے میں جاکر کیوں ایگ سے ملنا تھا؟ جب کروڑوں سپرم جس میں وہ سپرم بھی شامل ہے جس سے ہم پیدا ہوئے، اس ریس میں تھا تو ہر سپرم کا اپنا ایک امکان تھا، ان کروڑوں سپرم میں سے صرف وہ سپرم ہی جاکر ایگ سے ملا جسکی جدو جہد سب سے زیادہ تھی، یعنی وہ چیمپین تھا۔ پھر رحم مادر میں زائگوٹ بننے کے بعد کتنے فی صد مواقع تھا کہ میں اور آپ ایک سالم انسان بن کر نکلیں گے۔ یقینا یہ ایک گھمبیر صورتحال ہے۔ پھر بھی ہم آج ایک سالم انسان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ہم کبھی ایسا نہیں سوچ سکتے کہ وہ کونسی طاقت تھی جس نے اسی سپرم کو ہی ایگ سے جا ملایا! ابھی ہم کچھ نہیں جانتے۔ لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی طاقت ضرور ہے اور یقینا اسی طاقت کا کائنات میں راج ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن اس طاقت کے بارے میں انکار کرنے والے صحیح سے جان سکے گے ۔۔:::::::::
_____________________
میں آپ اور دنیا میں موجود اربوں لوگ، کیا یہ محض اتفاقاً وجود میں آئے یا اسکو کسی مخصوص ذہن یا طاقت نے پیدا کیا؟؟ شاید یہ سوال ہر کسی کے دماغ میں ہو، البتہ کچھ سوال کرنے سے ڈرتے ہیں یا پھر ان کی طرف دلچسپی ہی نہیں ہے۔ آج سے چند سو سال پہلے تک ہماری کائنات ہمارے نظام شمسی تک محیط تھی، مگر سائنسی سوچ و بچار نے اس کائنات کو وسعت دی، پھر ہم نے مانا کہ ہماری کل کائنات ہماری اپنی کہکشاں ہے۔ اور جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں اسکا نام ملکی وے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دہائیوں میں جب ہبل نامی سائنسدان نے آسمان کے گھپ اندھیروں میں جھانک کر دیکھا تو کائنات کے مسحور کن مناظر نے ہبل کو ششدر کردیا، اور کائنات نے اپنا راز بتانا شروع کیا،
یہ سن 1920 کی بات ہے جب ہبل نے دنیا کو بتایا کہ جو آسمان میں ہمیں ستارے جیسے نظر آنے والا آسمانی مجسمہ، ستارہ نہیں بلکہ دور دراز کے کہکشائیں ہے، یوں کنویں کے مینڈک یعنی کی انسان نے اپنی دنیا، اور اپنی چھوٹی سی کہکشاں سے نکل کر کائنات کے باقی حصوں کو دیکھنا شروع کیا۔ یہ دریافت انسانوں کے لئے بہت ہی حیران کن تھا، آج ہم ہبل ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس قابل ہوئے کہ کائنات کی دور دراز کہکشاؤں کو دیکھ سکے، صرف یہی نہیں بلکہ ہم ان کہکشاؤں کا ہم سے فاصلہ، کہکشاں کی عمر، کہکشاں کی جسامت، کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد تک کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آج تک کے مشاہدے کے مطابق ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں دو سو ارب سے زائد کہکشائیں موجود ہیں۔ اور ہر کہکشاں اوسطا ایک لاکھ نوری سال کے قطر کی ہے، یاد رہے ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، اور روشنی کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں زمیں کے گرد سات چکر لگا سکتی ہے۔ سائنسدانوں اور ماہر فلکیات کے مطابق ہر کہکشاں میں کم و بیش ایک سو سے پانچ سو ارب ستارے موجود ہے ، اور ان دوسو ارب کہکشاں میں ملکی وے بھی ایک ہے، اور ملکی وے میں موجود دو سو سے تین سو ارب ستاروں میں ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے، جس کے گرد زمین زندگی جیسی نعمت کو دامن میں لئے محو سفر ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہماری کائنات کتنی بڑی ہے۔ اب آتے ہیں اصل مدعے پر۔ زرا سوچیں! اس انگنت کہکشاؤں میں ایک کہکشاں جس کے اپنے انگنت ستارے ہیں میں کسی ایک اوسط ستارے کے گرد سفر کرتے ہوئے آٹھ سیاروں میں سے ایک سیارے پر زندگی ہونا، اور اس زندگی کا ہمارا حصہ ہونا، اسکے کتنے امکانات ہے؟ زرا غور کریں! وہ نطفہ جس سے میں اور آپ پیدا ہوئے اس نطفے میں موجود کروڑوں سپرمز میں سے وہ سپرم جس سے میں اور آپ پیدا ہوئے اسی کو ہی بیضے میں جاکر کیوں ایگ سے ملنا تھا؟ جب کروڑوں سپرم جس میں وہ سپرم بھی شامل ہے جس سے ہم پیدا ہوئے، اس ریس میں تھا تو ہر سپرم کا اپنا ایک امکان تھا، ان کروڑوں سپرم میں سے صرف وہ سپرم ہی جاکر ایگ سے ملا جسکی جدو جہد سب سے زیادہ تھی، یعنی وہ چیمپین تھا۔ پھر رحم مادر میں زائگوٹ بننے کے بعد کتنے فی صد مواقع تھا کہ میں اور آپ ایک سالم انسان بن کر نکلیں گے۔ یقینا یہ ایک گھمبیر صورتحال ہے۔ پھر بھی ہم آج ایک سالم انسان بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ہم کبھی ایسا نہیں سوچ سکتے کہ وہ کونسی طاقت تھی جس نے اسی سپرم کو ہی ایگ سے جا ملایا! ابھی ہم کچھ نہیں جانتے۔ لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی طاقت ضرور ہے اور یقینا اسی طاقت کا کائنات میں راج ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن اس طاقت کے بارے میں انکار کرنے والے صحیح سے جان سکے گے ۔۔:::::::::