اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور اسکا علاج!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 25 September 2019

مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور اسکا علاج!

عطاء الرحمن بلھروی
______________
دور جدید میں مسلمانوں کے حالات نہایت سنگین ہیں چہار  جانب خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ہمارے اس ملک ہندوستان میں اسپین کی تاریخ میں جو کچھ ہوا اسکو دہرانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے   لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر  مسلمانوں کو ابھی تک حالات کی سنگینی کا شعور نہی ہے اور وہ بے حسی اور بے شعوری کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں  واقعہ  یہ ہے  کہ مسلمانوں کو مختلف عنوانات اور مختلف بہانوں سے مصائب میں مبتلا کیا
جا رہا ہے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے پیچیدہ بنایا جارہا ہے وہ جہاں اکثریت میں ہیں وہاں کی حکومتوں کو ان کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ۔ کبھی دہشت گرد۔کبھی انتہاء پسند کبھی شدت پسند ثابت کیا جارہا ہے اور کبھی انسانی آبادی کے لیے ایک شدید خطرہ بتایا جارہا ہے تاکہ وہ اصلاحی اور تربیتی کوششوں کو  طاقت کا استعمال کرکے روکیں۔ جس کی وجہ سے  نہ کوئی مدرسہ محفوظ ہے  نہ مسجد۔ نہ  کارخانہ۔ نہ تجارت۔ ہر جگہ اسلام کی بیخ کنی کی تدبیریں کی جارہی  ہیں ارباب سیاست اور اہل قلم جو جو اپنے آپ کو انسانیت کا علمبردار قرار دیتے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کرنے میں مصروف ہیں اسلامی شعائر  کا مذاق اڑاتے ہیں اور عوام و خواص کو اسلامی ذہن سے خوفزدہ کرتے ہیں ہیں
جسکی وجہ سےحالات خطرناک ہورہے ہیں ان حالات میں گھبرانے اور مسلمانوں کو  مایوس ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ مایوس ہونے کا   مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ  تبارک و تعالی کہ ذات کامل کے یقین سے محروم ہیں  کیونکہ اللہ کے لئے کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔ حالات کو موافق بنانے اور فضا کو ہموار کرنے میں اسے تو بس ایک حرف کن کی ضرورت ہے۔ وہ تو بے نیاز  بادشاہ ہے۔اسکی ملکیت اور خدائی میں کوئی شریک نہیں وہ خودمختار و قادر مطلق ہے اسلئے ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرنا چاہیے  کہ آج ہماری یہ حالت کیوں ہوگئی ہے کہ ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے  ہییں ایسے نازک صورتحال میں ہمیں گھبرانے اور مایوس ہونے کی ہرگز  ضرورت نہیں بلکہ ان اسباب کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جسکی وجہ سے آج ہم ذلت و رسوائی کا شکار ہیں  اور اپنا احتساب کریں  اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس کو بروقت درست کرنے کی کوشش کریں  اور یہ یقین کریں اسلام اور مسلمان ہی غالب ہو کر رہیں گے
مغرب نے اسلام کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی  لیکن اسلام کا سدا بہار درخت  آج بھی وہی برگ و بار لانے کی صلاحیت رکھتا ہے ہزار  اسکو قیود کے شکنجوں میں جکڑا جائے لیکن اس کی جو ابھرنے کی فطرت ہے اس کا ظہور ہو کر رہے گا۔ اور ظاہر ہیکہ ظلم کی ناؤ  سدا نہی چلتی اور نہ اسکا درخت پنپتا ہےبلکہ ظلم کا انجام برابر اسکا منھ کالا ہونا ہے
تاریخ شاہد ہیکہ  اسلام نہایت ہی ناسازگار اور ہمت شکن حالات میں پھلا پھولا اور عنقریب حق کی آواز دنیا کے ہر کونے میں بلند ہو کر رہے گی مدت خواہ  کتنی ہی دراز ہو لیکن پوری دنیا میں حق بلند ہو کر رہے گا اور طاقت بن کر ابھرے گا اس لیے کہ مظلوم ہمیشہ مظلوم نہیں رہتا
آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنا رشتہ قرآن و سنت سے مضبوط کریں ہم مومن بن جائیں اور استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہیں۔   باطل سے نہ تو مرعوب ہوں  اور نہ خائف. دین اسلام کی عملی تصویر پیش کریں۔ اپنے معاملات اور اخلاق درست کرنے کے ساتھ اسلام کی زندگی کا عملی نمونہ بن کر اسلام کے متعلق پہلی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔ جھگڑے اور فساد سے اجتناب  کرتے ہوئے اخوت و محبت اور بھائی چارگی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور انسانیت و محبت کے پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔ باہمی اختلافات اور مسلکی جھگڑوں کو ترک کرکے آپسی اتحاد و اتفاق اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کریں ذاتی مفاد کو ملت کے مفاد پر ترجیح نہ دیں اپنے مزاج کو  بغض و حسد اور کینہ سے پاک کریں اور توحید خالص کے ساتھ زندگی بسر کریں کریں
ملک کے حالات  کو پیش نظر رکھتے ہوئے  مرشدالامت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر و ناظم ندوۃ العلماء لکھنو حضرت مولانا  سید محمد  رابع حسنی ندوی رقمطراز ہیں  ہمیں اس ملک میں اس راہ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے متعلق جو غلط فہمی ہے وہ دور ہو۔ اور اسلام کو امن و سلامتی کا دین سمجھا جائے۔ اور ایسا انسانی معاشرہ بنایا جائے جس میں سب کو امن وچین حاصل ہو اور مسلمان انسانیت نواز اور امن و سلامتی کا رہبر سمجھے جائیں۔ اس کیلئے اصلا تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلمان اپنےحالات و سیرت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی طرف توجہ دیں۔دوسرے یہ کہ  ان کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں  ہیں۔ان کو دور کرنے کے متعلق تدابیر اختیار کریں۔اور تیسرے میڈیا کے ذریعہ جس کو دنیا انسانیت کی تخریب کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ہم اسکو انسانیت اور انسان کے اخلاق سیرت کی بلندی تک لے جانے کے لیے استعمال کریں یہ تینوں ذرائع اگر ہم استعمال میں لائیں گے تو اس سے ہمارے متعلق دوسروں کی بد گمانی خوش گمانی سے بدل جائے گی اور ہم امن و سلامتی اور سربلندی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے
آج اولین ضرورت ہے مسلمان ان خصائص سے آراستہ ہوں  اور دین اسلام کی مکمل تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشیں کرلیں  کہ اللہ کی نصرت اسی صورت میں ساتھ ہوگی جب اللہ کی نصرت کی جائے گی  یہی مفہوم ہے اس آیت کا۔ ان تنصر الله ينصر كم ويثبت أقدامكم
 اور دوسری جگہ کا ارشاد ہیکہ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے راستےمیں کوششیں کیں ہم ان کو ضرور ہدایت دیں گے اور بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے
آج کھویا ہوا مقام دوبارہ مل سکتا ہے بشرطیکہ ہم اپنے اعمال درست کرلیں! دین و شریعت کا پابند بننا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔