اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ہم جنس پرستی سے محفوظ نہیں، ساجد الاثری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 2 October 2019

اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ہم جنس پرستی سے محفوظ نہیں، ساجد الاثری

*اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ہم جنس پرستی سے محفوظ نہیں❗❗❗*
 گذشتہ روز راقم الحروف کو ڈپارٹمینٹ آف پولیٹیکل سائنس کی فریشر میٹ میں مدعو کیا گیا.اس طرح کی فریشر میٹ میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا.ارادہ پختہ نہیں تھا مگر داعیان میں ایک ساتھی کے اصرار پر جانا پڑا.ذہن میں یہ تھا کہ مختصر سی نشست ہوگی جو کہ باہمی تعارف وطعام پر مشتمل ہوگی.مگر معاملہ اس کے برعکس تھا، عصرانہ کے ساتھ ساتھ عشائیہ کا بھی نظم تھا،لھو ولعب کی ایک مکمل محفل مزین تھی جہاں پر کمیونسٹ افکار ونظریات کے مختلف پوسٹروں کے ذریعے نیۓ طلبہ کا استقبال کیا جارہا تھا.اندر داخل ہوا تو میرے   ایک ساتھی جو وہاں پہلے سے ہی براجمان تھے بغل میں بٹھایا.اس وقت محفل میں قہقہہ کا بازار گرم تھا، جہاں ایک نوجوان طنزومزاح کے جھوٹے قصّے سنا کر سامعین کو ہنسا ہنسا کر محذوذ کر رہا تھا ساتھ میں خود بھی گدھے کے مثل چینخ چینخ کر قہقہے لگا رہا تھا،مجھے بہت برا محسوس ہو رہا تھا کہ اسی دوران میرے ساتھی نے ایک پوسٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا! آپ اس پوسٹر کا مطلب سمجھتے ہیں نا؟کافی غور وخوض کے بعد نفی میں جواب دیا کیونکہ پوسٹر پر لکھے کوڈ ورڈ سے میرا پہلی دفعہ سابقہ پیش آیا تھا.پوسٹر پر مکتوب حروف یہ تھے(LGBTQ) جسے میں تحریر کے ساتھ ارسال کر رہا ہوں.حالانکہ یہ کرنٹ ایشو تھا جس کے کوڈ ورڈ سے میرا واقف نہ ہونا میری ذاتی کمزوری تھی البتہ اسے اپنی زبان میں خوب سمجھتا تھا.مطلب کی جانب اشارہ ملنے پر میرے بدن میں گویا آگ لگ گئی.فوراً اپنے داعی کو بلا کر پھٹکار لگائی اور پوسٹر ہٹانے کا مطالبہ کیاتو یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کی خاطر پہلے ہی بھر پور کوشش صرف کر چکا ہوں اور چلتا بنا،یکے بعد دیگرے دو عالموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جو فریشر پارٹی کے آرگنائزر کا حصہ تھے.ان پر بھی سخت پھٹکار لگائی کہ شاید غیرت جاگ جاۓ  مگر یہ کہہ کر اپنا اپنا پلہ جھاڑنے لگے کہ اس میں ہماری شمولیت نہیں تھی،پوسٹر ہٹانے کا مطالبہ کیا تو کنّی کاٹنے لگے اور اپنے سرغنہ کو بلا لاۓ جس نے پوسٹر چسپاں کر رکھا تھا،کچھ دیر قبل یہ بےشرم نۓ طلبہ کو علی گڑہ کی تہذیب وثقافت پر لیکچر دے رہاتھا جس میں اس نے کرتے پائجامے کو خصوصی نشانہ بنایا. متعلقہ پوسٹر پراعتراض ظاھر کرنے پر اس نے شرم کو بھی خاطر میں نہ لایا اور طلبہ کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہہ بیٹھا کہ "ہم لوگ تو GAY (ہم جنس پرست) ہیں اس میں اعتراض کی کیا بات ہے! ہم نےجب اپنے انداز میں احتجاج بلند کیا تو زبان گنگ ہوگئی اور یہ کہہ کر فرار ہوگیا کہ "یہ پولیٹیکل سائنس کی کلاس ہے تھیالوجی(دینیات) کی نہیں"اسی دوران میرے رفیق نے بانی اے ایم یو کا حوالہ دیا تو الٹا انھیں کو مجرم ٹھرا بیٹھا کہ نعوذ بااللہ انھوں نے ہی اپنی کتابوں میں اس فحش کے ارتکاب کی تعلیم دی ہے.ہم چند احباب غیض وغضب کی حالت میں فریشر میٹ کا بائیکاٹ کرکے اس محفل سے نکل آۓ مگر واللہ اعلم کہ اس کی کیا مصلحت کارفرما تھی کہ پوسٹر کے چاک کرنے کا ذرابھر بھی خیال ذہن میں نہ آیا ورنہ اسلامی غیرت تو یہ تھی کہ اسے اعلانیہ چار حصوں میں تقسیم کر دیتا.بعد میں صرف کف افسوس ملتے رہ گیۓ.
مزید افسوس یہ سن کر ہوا کہ یہ وہی نوجوان ہے جو چند سالوں پہلے انڑمیڈیٹ کی کلاسیز میں صوم وصلاۃ کا پابند تھا اب اس کے اندر کمیونسٹ کی ذہنیت سرایت کر گئی ہے.محفل میں اس ذہنیت کایہ کوئی تنہا طالب علم  نہیں تھا بلکہ ان پوسٹروں(جس میں کال مارکس کی فوٹو بھی شامل تھی) کو چسپاں کرنے میں متعدد طلبہ کی ذہنیت کار فرما تھی جو باطل کےجدید افکار ونظریات سے مرعوب تھے اور جس کی جھلک انکے پروگرام میں بھی دکھ رہی تھی.اور وہ اپنے اس نظریے کو فروغ دینے میں کسی حد تک کامیاب بھی نظر آرہے تھے. اور اس کی زندہ مثال کا میں نے وہیں مشاھدہ کیا،ایک کشمیری طالب علم اس چیز سے پرے ہوکرکے کہ ان کے والدین،ان کے قرابت دار،ان کے احباب کن حالات سے دوچار ہیں!بے غیرتی اور بے حیائی کا ثبوت پیش کرتے ہوۓ فلمی گانے گنگنا رہا ہے.کہاں ان کی مائیں ،بہنیں تڑپ تڑپ کر آہ وبکاہ کر رہی ہوں اور یہ بےغیرت گانے سنا کر لوگوں کے دلوں کی تسکین کا سامان بنا ہوا ہے.
یہ ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال!جہاں ماضی میں اسی ادارے نے عصری علوم کے ساتھ ساتھ  اسلامی نظریات کو فروغ دینے میں ایک اعلی اور نمایاں کردار انجام دیا ہے،آج وہ باطل کے افکار ونظریات کی نظر ہورہا ہے اور میرے ذاتی تجربے کے مطابق اس افکار کو فروغ دینے اور اسے تقویت پہنچانے میں سب سے زیادہ نمایاں کردار (Cultural Education Centre)  CEC کا رہا ہے جو کہ اے ایم یو میں باطل افکار ونظریات،فحاشی وعریانیت کا مرکز بنا ہوا ہے.جہاں آۓ دن کوئی نہ کوئی ایشو برپا ہوتا  رہتا ہے،کبھی feminism کی بنیاد پر پنجڑا توڑ کی مہم چلائی جاتی ہے تو کہیں اسلامی افکار و تحریکات کو نشانہ بنانے کے لیۓ مختلف النوع  حربے اپناۓ جاتے ہیں اور اس کے خلاف سازشیں رچی جاتی ہیں.
اگر فوری طور پر اس پر قدغن نہ لگائی جاۓ اور اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جاۓ تو وہ دن بعید نہیں جب اے ایم یو اپنی وہ حیثیت کھو دےگی جس پر آج وہ فائز ہے.اور اس کی تہذیب خاک کی نظر ہوجاۓ گی.اور اس کی عظمت وشوکت تار عنکبوت کے مانند بھی باقی نہ بچے گی.
اس سلسلے میں انتظامیہ سے کوئی خیر کی توقع نہیں البتہ ان سنجیدہ افراد کو  خواہ وہ طالب علم کی حیثیت سے اس چمن کا حصہ ہوں یا کسی شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہوں،اسے سنجیدگی سے لینا چاھیۓ اور اس کے تدارک کی حسب استطاعت کوشش بھی کرنی چاھیے.
                                   ساجدالأثری  01/10/2019