اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مہاراشٹر میں اویسی کا بڑھتا ہوا سیاسی اثر و رسوخ ،مفتی محمد عظیم قاسمی فیض آبادی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 2 November 2019

مہاراشٹر میں اویسی کا بڑھتا ہوا سیاسی اثر و رسوخ ،مفتی محمد عظیم قاسمی فیض آبادی

مہارشٹر میں اویسی کا بڑھتا ہوا سیاسی اثرورسوخ
ـــــــــــــــــ
✍🏻 از:  محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
            9358163428
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مہارشٹر وکشن گنج میں اویسی کی  کامیابی سے سیاسی پارٹیوں میں جو ہلچل ہے وہ واضح طور پر اویسی کے بڑھتے اثرورسوخ کی دلیل ہے ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــ

مہارشٹر وہریانہ کا اسمبلی الیکشن بھی ختم ہوکر اسکا نتیجہ سامنے آگیا ہریانہ میں تو پھر دوبارہ کھٹر کی حکومت بھی بن گئی مہاراشٹر میں اگر چہ بی جے پی وشیو سینا کی آپسی رشاکشی کی وجہ سےابھی تک قیادت کا قیادت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنےنہیں دیاگیا مگر ان کی مخلوط حکومت کا بننا تقریبا طے ہے
 لوک سبھاکے الیکشن کے بعد یہ کسی صوبے کا یہ پہلا اسمبلی الیکشن تھا ان دونوں ریاستوں کے الیکشن کے نتجائج سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ بی جے پی اور مودی شاہ کو قوم نکار چکی ہے ان کا زور اب بالکل کم ہوگیا ہے اور اب بی جے پی کی نسیں ڈھیلی ہونا شروع ہو گئی
  اگر چہ مہنگائی ، بے روز گاری ، ماب لنچنگ ،  ملک کی گرتی ہوئی معیشت ، آئین وجمہوریت کے لئے خطرات ، کے پیش نظر امید یہ کی جارہی تھی کہ اس الیکشن میں ان کی شہ رگ ہی کٹ جائے گی مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا اس کی مختلف اسباب ہوسکتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ حزب اختلاف کا متحد نہ ہونا، کانگریس کی کمزوری، اور کانگریس ودیگرپارٹیوں کا آپس میں صحیح حکمت عملی کا اختیار نہ کرنا بھی ہے
   کانگریس تو اس میں خوش ہے کہ اس کی سیٹیں بڑھ کر بی جے پی کی سیٹیں گھٹ گئی اور اسکا ووٹ فیصد کم ہوگیا کانگریس گویا  کہ ایک طرح سے اپنی فتح تصور کرتی ہے جبکہ اسے پانچ سال حکومت سے بے دخل ہونے پر ، اور حکومت تشکیل دینے سے محروم رہنے پر افسوس کرتے ہوئے اگے کے لئے کوئی صحیح حکمت عملی طے کرنے کا منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی تگ ودو کرنی چاہئے
     اس الیکشن میں ایک بات باعث مسرت یہ ہے کہ اسدالدین اویسی کی پارٹیAIMIM کی  شکل میں مسلم قیادت مضبوطی کی طرف گامزن ہے اگرچہ مہاراشٹر کے 2014 کے الیکشن میں بھی AIMIM کی دوہی سیٹ آئی تھی مگر اس مرتبہ اویسی کی پارٹی کا ووٹ فیصد بڑھا ہے اور 6 یا7ساتھ سیٹ ایسی بھی ہے جو دوسرے  نمبر پر رہی اور بڑے کم فرق ےے ہار ہوئی ہے اس طرح مہاراشٹر میں مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد کل10
ہوگئی ہے
   لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ اپنے ہی ناعاقبت اندیش مبصرین وتجزیہ نگار بی جے پی  کی جیت اور اور کانگریس کی ہار کا ٹھیکرا اویسی کے سر پھوڑنے کی کوشش میں پورا زور صرف کررہے ہیں کہ AIMIM کی وجہ سے کانگریس کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں معلوم نہیں اویسی صاحب نےکانگریس  کی سیٹوں کے بڑھانے کا ٹھیکا کب لیا تھا ؟
    طرح طرح کے بےتکے تبصرے ہورہے ہیں کوئی کہتاہے کہ اویسی بی جے پی کو فائدہ پہنچاتاہے ،کوئی بی جے پی کی بی ٹیم کہتاہے ، تو کوئی ووٹ کٹوا کہتا ہے اس طرح کے نہ جانے کیا کیا طعنہ لوگ دیتے ہیں ایسے نظریات کے حامل تمام لوگوں سے میرا سوال ہے کہ ابھی مہاراشٹر کے ساتھ ہریانہ میں بھی الیکشن ہوا وہاں کوئی اویسی کوئی AIMIM کے ممبران نہیں تھے وہاں کیوں کانگریس بی جے پی سے اگے نہ بڑھ سکی ؟
  اسی طرح ہریانہ میں اگر جے جے پی کی وجہ سے کئی سیٹوں پر کانگریس کا ووٹ تقسیم ہوگیا اور بی جے پی کامیاب ہوگئی تو وہاں جے جے پی پر یہ الزام کیوں نہیں ہے ؟
  ہریانہ میں کئی چھوٹی پارٹیاں قسمت آزمارہی تھیں وہ اس کی ذمہ دارکیوں نہیں ؟
  مایاوتی کی بی یس پی بھی ہریانہ میں زور آمائی کررہی تھیں اور ظاہر ہےکہ دلتوں کا ووٹ کئی سیٹوں پر منتشر ہواہوگا لیکن کسی نے بھی کانگریس کی شکشت کا ٹھیکرا اس کے سر نہیں پھوڑا ، اسی طرح ہریانہ ومہاراشٹر کےساتھ ساتھ  اترپردیش میں بھی 11سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوا تھا اس میں سے 3 سماجوادی کے امیدوار  کامیاب ہوئے اور ایک سیٹ پر لوک دل باقی 7 سیٹوں پر بی جے پی نے ہی فتح کا جھنڈا لہرایا مایا وتی کی بی ایس پی کی ایک بھی سیٹ نہ نکل سکی اس کا ذمہ دار کون ہے؟
ظاہر کہ ہرجگہ بی ایس پی  کے امیدوار اچھی خاصی مقدار میں ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہوئے اگر دلتوں کےوہ ووٹ وہاں نہ جاکر سماج وادی کو جاتے تو شاید بی جے پی کے لئے ایک سیٹ بھی نکالنا مشکل ہوجاتا لیکن کسی نے بھی اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کا ذمہ دارمایاوتی کو نہیں ٹھرایا ؟
   خودمہاراشٹر ہی میںAIMIM کے علاوہ INO ، BVA ، PJP ، SP ، JSS ، RSP ، BSP ، PWPI وغیرہ دیگر پارٹیاں انتخابی میداں میں سرگرم تھیں ان سب پارٹیوں کو جانے والا ووٹ اگر تقسیم ومنتشرنہ ہو کر کانگریس کا جاتاتب بھی تو کانگریس کچھ مزید سیٹوں پر کامیاب کا رچم لہراتی
   بلکہ میراخیال ہے کہ جن جن سیٹوں پر AIMIM کے امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبرپر تھے اور وہاں سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے اگر کانگریس کا امیدوار نہ ہوتا تو AIMIM کے ممبراں کی تعداد دس پندرہ سے بھی تجاوز کرتی تو پھر بی جے پی کو کامیاب کرنے کا الزام اس صورت میں تو خود کانگریس پر یا دیگر پارٹیوں پر ہوناچاہئے؟
   آپ غور فرمائیں کہ ہریانہ  میں مایاوتی اورمہاراشٹرمیں پرکاش امبیڈکر پر اسی طرح اترپردیش میں مایاوتی پر
کسی بھی دلت نے اس بات کولےکر انگلی نہ اتھائی کہ اگر یہ انتخابی میدان میں نہ اترتےتو کانگریس کو اور بڑی کامیابی حاصل ہوتی اور بی جے پی  کا صفایا ہوجاتا 
اسی طرح دیگر پارٹیوں پر ان کے پرستاروں نے کبھی طعن وتشنیع کا شکار نہ بنایا ، اور ہریانہ میں تو بہت معمولی فرق رہا، بی جے پی گرتے گرتے سنبھل گئی لیکن چونکہ دلت یہ جانتا ہے کہ یہ ہماری لڑائی لڑرہے ہیں اور انھیں کے ساتھ ہمارا مفادوابستہ اور اسی  سے ہمارا ایک الگ  وجود ہے تو کیا اس تناظر میں ان تجزیہ نگاروں ومبصریں کے تبصرے کو کسی سازش کا حصہ قرار نہ دیاجائے؟ اور اویسی اور اس کی پارٹی کے وقار کو مسلمانوں میں گھٹاکر اس کی ابھرتی ہوئی ساکھ کو اس کی طاقت کمزور کرنے کے منصوبے کی تکمیل نہ سمجھا جائے؟
  اب آپ ہی انصاف سے بتائیں کہ آپ کی لڑائی نہ کسی نے لڑی ہے اور نہ لڑے گا اور نہ ہی آپ کی لڑائی لڑنے والی کسی قیادت کو ابھرنے دیا جائے گا آپ غور کریں کہ سیاسی اعتبار سے ہر میدان میں ہر موقع پر جتنی مضبوطی کے ساتھ آپ کے حق کی لڑائی لڑی،آپ کی ترجمانی اسدالدین اویسی نے کی ہے چاہے طلاق وحلالہ کا موضوع ہو یا مذہبی مداخلت ، اخلاق پہلوخان افرازل ہو یا کہ پرویز ، ماب لنچنگ ہو یا مسلم پرسنل لاء ، یکساں سول کوڈ ہو یا مذہبی آزادی ہر موقع پر اویسی سینہ سپر ہو کر کھڑا رہتا ہے آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ کیا آپ کی یہ لڑائی کوئی اور لڑسکتاہے یا کبھی لڑاہے 70 سالوں میں آپ نے ہر ایک کو باری باری آزمابھی لیا لیکن کوئی آپ کے لئے کبھی کھڑا نہیں ہوا  ہے
 اب سوچئے کہ کیا بی جے پی کو کامیابی سے روکنے کا ٹھیکا صرف اویسی کا ہے؟ 
اور کیا وہ اس کے لئے الیکشن لڑنا چھوڑ دیں ؟
  میرے بھائی کوئی بھی پارٹی آج تک آناًفاناً میدان مین اتر کر اس طرح کامیاب نہیں ہوگئی ہے بلکہ ہر ایک آہستہ اہستہ اقتدار کی کرسی تک پہنچی ہے خود بی جے پی کسی زمانے میں ایک ایک سیٹ کے لئے ترستی تھی
      یہ بات قابل توجہ رہے کہ الیکشن میں ہمیشہ ہارجیت کے فرق کے ساتھ ساتھ ووٹ فیصد بھی دیکھا جاتاہے اور الیکشن کمیشن کے رکارڈ میں درج ہوتاہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اویسی کہ پارٹی AIMIM کا ووٹ فیصد کثرت سے بڑھا ہے اور مزید کشن گنج بہار میں اس کی کامیابی سے پروانچل میں قدم جمنے کے جو آثار سیاسی پارٹیوں کو سیاست کے عینک سے نظر آرہاہے دراصل اس نے سیاسی اکھاڑے میں بڑی ہلچل پیداکردی ہے جن پارٹیوں کو سیکولر سمجھا جاتاہے ان کو بھی اویسی کی جیت ہضم نہیں ہورہی ہے ان کو اس جیت سے صاف نظر آرہاہے کہ اس کی پارٹی نے اگربلاتفریق مذہب وملت کام کیا تومسلمانوں کو ووٹ بنک کے طور پر استعمال کرنے کا دھندھا خطرے میں پرسکتا ہے
  اور اسی خطرے سے بچنے کے لئے اویسی کے خلاف یہ محاذ کھول دیا گیا اور طرح طرح سے بدنام کرنے کی تدابیر اختیار کی جارہی ہے ہندوستان کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ جب بھی کوئی مسلم قیادت سر ابھارے تومسلمانوں کے درمیان اسکے تعلق سے بی جے پی کی ہمنوا ہونے ،  بی جے پی کی بی ٹیم ، یا بی جے پی کے لئے کام کرنے وغیرہ کا پرچار اتنی کثرت سے کردیا جائے تو بس مسلمانوں کے اس سے نفرت کرنے اسے نکاردینے کے لئے یہی کافی ہے
  یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلم قیادت نہ ابھرنے دینے کا جو جال ستر70سالوں سے بناگیا ہے اس کو بروئے کار لانے کا یہ سب تانابانہ ہے کہ  مسلمانوں میں اس کی ساکھ خراب کردی جائےتو مسلمان خود اس کو نفرت کہ نگاہ سے دیکھنے لگیں گے اویسی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ اسی کا حصہ ہے اسی مسلم قیادت کو نہ ابھر نے دینے اور برہمن کاحکومت کرنے کاپیدائشی حق وبرہمنوادمضبوط رہےاور دیگر قومیں اس کے ہمیشہ تابع رہیں اسی لئے دلت مسلم اتحاد کو کامیاب نہ ہونے دینے کے لئے مسلمان اور دلتوں کو ہمیشہ لڑایاجاتاہے اور دونوں کے ووٹ منتشرکرنے کے لئے ساری تدابیر اختیار کی جاتی ہے ابھی حال ہی میں اویسی وپرکاش امبیڈکر کے اتحاد کو کامیاب نہ ہونے کے پیچھے بھی یہی طاقتیں کام کررہی تھی جو کامیاب بھی ہوئیں اعظم خان ، نسیم الدین صدیقی ، الہ آباد کے محمد عتیق ، مئو کےمختار انصاری ، بہار کے شہاب الدین کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہورہاہے یہ سب اسی کا حصہ ہے
   اسی لئے کوئی بھی سیکولرکہی جانے والی پارٹی وزیر اعلیٰ یا کوئی بڑی عہدہ کسی مسلمان کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی 
لھذا اس کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرنے اور بہت سنجیدگی سے اس بارے میں سوچ سمجھ کر قدم بڑھانےکی ضرورت ہے اور کوئی تبصرہ یا تجزیہ پیش کوتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے
  اللہ سب صحیح شعور بخشے