پانی پینے کا ادب
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
کیا صحیح احادیث میں بیٹھ کر پانی پینے کا حکم دیا گیا ہے؟ آج کل بعض لوگ اس کا انکار کر تے ہیں ۔ براہ کرم احادیث کی روشنی میں اظہار خیال فرمائیں ۔
جواب :
احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اُسےمنہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے ، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اور کھڑے ہوکر نہ پیے ، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے ۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔ حضرت انسؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے ( مسلم : 2025) حضرت ابوہریرہؓ تو آپؐ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سے کھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے ۔ ( مسلم : 2026 ) حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے ۔ (بخاری:5616 ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : 1637 ، مسلم:2027 ) حضرت عمر وبن شعیب ؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’ میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے ۔ ‘‘ (ترمذی : 1883 ) صحابہ کرام میں سے حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، اورحضرت عائشہؓ سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے ۔ (موطا امام مالک :3934_3938 )
مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علماء نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے : بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں ۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں ۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں ۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے : ’’ ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں ۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ آپؐ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے ۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم، جلد،195/13/5، دارالر یا ن للتراث قاہرہ، 1407 ۔ حافظ ابن حجرؒ نےبھی اسی رائے کوترجیح دی ہے ۔ فتح الباری بشرح صحیح البخاری، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، 82/10_85)
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے ممانعت اور جواز دونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آراءذکر کی ہیں ۔ آخر میں لکھا ہے : ’’ اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ متانت اور شائستگی سے ہٹا ہوا ہے ۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے ۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں ۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطۂ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو ، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے ۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا ۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اور بھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں ۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے ۔ ‘‘ (صحت ومرض اوراسلامی تعلیمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۵، ص 107)
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
کیا صحیح احادیث میں بیٹھ کر پانی پینے کا حکم دیا گیا ہے؟ آج کل بعض لوگ اس کا انکار کر تے ہیں ۔ براہ کرم احادیث کی روشنی میں اظہار خیال فرمائیں ۔
جواب :
احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اُسےمنہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے ، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اور کھڑے ہوکر نہ پیے ، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے ۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔ حضرت انسؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے ( مسلم : 2025) حضرت ابوہریرہؓ تو آپؐ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سے کھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے ۔ ( مسلم : 2026 ) حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے ۔ (بخاری:5616 ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : 1637 ، مسلم:2027 ) حضرت عمر وبن شعیب ؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’ میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے ۔ ‘‘ (ترمذی : 1883 ) صحابہ کرام میں سے حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، اورحضرت عائشہؓ سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے ۔ (موطا امام مالک :3934_3938 )
مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علماء نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے : بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں ۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں ۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں ۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے : ’’ ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں ۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ آپؐ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے ۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم، جلد،195/13/5، دارالر یا ن للتراث قاہرہ، 1407 ۔ حافظ ابن حجرؒ نےبھی اسی رائے کوترجیح دی ہے ۔ فتح الباری بشرح صحیح البخاری، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، 82/10_85)
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے ممانعت اور جواز دونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آراءذکر کی ہیں ۔ آخر میں لکھا ہے : ’’ اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ متانت اور شائستگی سے ہٹا ہوا ہے ۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے ۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں ۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطۂ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو ، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے ۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا ۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اور بھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں ۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے ۔ ‘‘ (صحت ومرض اوراسلامی تعلیمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۵، ص 107)