*شہریت ترمیمی بل:مضمرات اور سوالات*
توقیر بدر القاسمی:ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+918789554895
تین دسمبر کی بات ہے،شام کو جب فیس بک آن کیا تو فیس بک پر ہمارے کرم فرما ابراہیم ندوی صاحب کا ہمارے نام مینشن کی ہویی ایک پوسٹ نظر آی،دراصل انہوں نے CAB یعنی سٹیزن امینڈمنٹ بل"شہریت ترمیم مسودہ قانون"کے ممکنہ انسداد کو لیکر اپنی وال پر راقم سے سجھاو طلب کیا،سو جو کچھ برجستہ وہاں لکھا،احباب کے اصرار پر وہ افادہ عام کی خاطر نیوز پورٹل کے حوالے کیا جارہا ہے.سجھاو نیچے تفصیل سے درج ہے!
"راقم کا ماننا یہ ہے کہ اس شہری ترمیم بل کو روکنے کے لیے بنا وقت گنوایے سہ رخی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے.
*الف* :ہندو مسلم کا مسئلہ اسے قطعا نہ بننے دیا جائے، بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر اس کی دور رس مضرت رسانی کو عام عوام میں سادہ طریقے سے بتانے کی جو ضرورت ہے،وہ کیا جایے،یعنی ذہن سازی ان سوالات پر ہو کہ کیا سارے بنیادی مسایل حل ہوچکے ہیں؟نوجوان نسل کی نوکری تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ کیا مہنگائی کا مسئلہ حل ہو چکا ہے؟جو اس طرح کے ابھی غیر ضروری کاموں میں سبھی کو الجھانے کی کوشش ہورہی ہے؟کیا غیر ملکی کو دھر پکڑ کرنے کے لیے دیگر ذرائع اور موثر عملہ نہیں ہیں؟آج جب کہ سرحد اور سرحدی قوانین،قوانین امن عالمہ اس قدر سخت ہیں،کہ کویی پرندہ تک نہ پر مار سکتا ہے اور نہ کوئی بندہ چھپ سکتا ہے،تو پھر یہ لایعنی بحث کیوں؟اگر یہ ناگزیر ہی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایک جمہوری ملک میں آیینی طور پر جہاں بھید بھاؤ نہ ہو،وہاں بھید بھاؤ کا بیج بو کر آپسی میں اختلافات کو ہوا دیکر ہی اسکو بظاہر حل بباطن ایک مسئلہ بنادیا جایے؟اسکے بعد کیا NRC کا ہوا نہیں کھڑا ہوگا؟اس کی تیاری کے لیے کیا پھر سے سارا ملک لاین میں نہیں لگے گا؟بابووں کی رشوت کا بازار گرم نہیں ہوگا؟کیا اس معاشی بحران میں ملک آج یہ سب سہ سکتا ہے؟کم پڑتی مادی وسایل اور سکڑتی زمین پر ان باہری کو بسا کر مزید مسائل کیا پیدا نہیں ہونگے؟ آسام میں اسی کو لیکر سولہ سو کروڑ روپے کا خرچ اور شب و روز ہزاروں افراد کی کڑی محنت اور سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ سب یونہی کالعدم اور فالتو قرار دییے جائیں گے؟کیا بہبود انسانی اور ترقی یونہی ہوتی ہے؟
*ب* :دانشورانہ سطح پر اس بیانیے کو عام کرنے کی ضرورت ہے،کہ آج جو امن و امان اور ترقی کے گن گان کو اس سے جوڑا جارہا ہے،کیا اسی طرح نوٹ بندی کے فوائد پر گن گان نہیں ہوا تھا اور کیا وہ سب فیل نہیں ہوگیے؟آسام میں جو جزوی طور پر ہوا ہے کیا اسکے نتایج سبھی کے لیے خوش کن ہیں؟آخر وہاں بی جے پی کی رکنیت رکھنے والے ہی اسے اب غلط نہیں ٹھہرارہے ہیں؟آج جس طرح سے فلاں فلاں ملک کے ستایے ہویے کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کی جاری ہے،تو کیا یہ اکیسویں صدی میں آج حلق سے اترنے والی بات ہے؟آخر سایے جانے کی حد اور معیار عوام کے سامنے نہیں آنے چاہیے؟یہ جب ملک کے عوام پر اور وسایل پر لاکر دیگر ملکوں کے باشندے کو بسانا ہے،تو پھر اس پر عوامی رایے شماری اور ریفرنڈم کروانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟کیا اس سے ملک کے مسیلے حل ہونگے یا مزید پاؤں پساریں گے؟کیا ان ملکوں سے ذرا ذرا سی بات پر آنے والے کا رخ ملک عزیز کی طرف نہیں ہوگا؟ کیا اس ملک میں یہ خوش آیند ہوگا؟ کیا ظلم سہنے والے فقط 2014 کے تک کے ہی مانے جائیں گے؟آخر یہ کون سا پیمانہ ہے؟جہاں ایک مذہب والے ہوکر اپنے ہی ہم مذہب کو اپنے علاقے سے کھدیرتے رہتے ہیں!وہاں یہ سب ٹھنڈے پیٹ ہضم ہوجایگا؟CAB کے بعد NRC کو لاگو کرنا،یہ ملک اپنے گرتے پھسلتے GDP پر اس طرح کے بوجھل و دیر پا خرچ والے اقدامات کو سہ سکتا ہے؟کیا یہ مزید مہنگائی اور بے روزگاری نتیجے میں کرپشن کی طرف ملک کو دھکیلنے والا اقدام نہیں؟
*ج* :ایوانی سطح پر سیکولر مزاج لیڈروں سے بات چیت کی جایے،انکی تیاری اس حوالے سے ہو کہ اس بل کا گن گان کرنے والی سرکار کیا واقعی ایسا کر سکتی ہے جو کنٹرول آبادی کا مسیلہ وقتا فوقتاً اٹھاتی رہتی ہے؟اور ایک طبقہ کو انکے افراد مستقل ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں؟آخر کیا تک ہے؟اور وہ بھی اس گلوبل ولیج میں انسانیت کے بجاے مذہب کی بنیاد پر اسے اپنانا کیا یہ قابل قبول ہوگا اور آیندہ کے لیے خوش آیند؟کہیں ایسا تو نہیں کہ برادران وطن کے لئے یہ اقدام دیگر مسلم ملکوں میں نوکری سے لیکر رہایش تک سب پر اثر انداز ہو؟اگر واقعی یہ ناگزیر ہے تو انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں؟تاکہ عالمی توجہ کی حامل مظلوم روہنگیای جماعت بھی اپنا حق پاسکے!آخر اس مسئلے کو اس طرح کیوں نہیں حل کرتے جس طرح پانی ہوا اور سرحد کے تنازعے حل کیے جاتے ہیں!
اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے عالمی فورم سے ان ملکوں کے پریشان افراد کے لیے وہاں کے ذمہ داروں سے انسانیت کے ناطے بات چیت کی جایے؟اور اپنے عملہ کو مزید ٹریننگ دیکر اس لایق بنایا جایے کہ وہ گھس پیٹھیے کو دھر دبوچیں!تاکہ ملک عزیز کا سر ساری دنیا میں فخر سے اونچا ہوسکے!آخر کام یوں بھی تو ہوسکتا ہے!اگر یہ بل پاس ہوگیا تو اسکا امکان نہیں کہ جعلی دستاویزات بنواکر دیگر ملکوں کے ہند مخالف دشمن عناصر خفیہ ایجنسی اور فوج تک اپنی رسای حاصل کر لے اور پھر ملک کے اہم اہم شعبے تک پہونچ کر یہاں کے راز وہاں پہونچائیں؟ اس لیے اسے ملک کے مفاد میں دیکھتے ہوئے سبھی کو آگے آنا چاہیے؟ خبر یہ بھی ہے کہ شمال مشرقی ریاست میں احتجاج دیکھ کر اس بل سے ان ناگالینڈ سمیت ریاستوں کو مستثنٰی کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے!تو کیا ان ریاستوں کے لیے کچھ اور،جبکہ بقیہ ملک کے لیے کچھ اور قانون یہ "ون نیشن ون لا" تھیوری کے خلاف نہیں ہے؟
إن تمام باتوں کو جس سطح سے بھی عام ہوسکے،اسے عام کیا جایے!"
اسی دوران خبر یہ بھی آئ کہ کابینہ سے اس متنازع بل کو منظوری مل چکی ہے،کیی احباب اس کی الگ الگ توجیہ کرتے نظر آیے،جبھی راقم نے یہ اپنی ملت و قوم کے لئے تجویز اور توجیہ پیش کی!
"کابینہ سے متنازع بل کی منظوری کے بعد اس کے پیچھے ارتدادی طوفان جو چھپا ہے،اسے بھی سمجھنے کی ہمیں رب کریم سے توفیق مانگنی چاہیے!
بہرحال دنیا بھر کی سیاست و سیاست داں تو چانکیہ سے لیکر میکاولی تک کے فلسفہ طریقہ حکمرانی پر پہ شدت سے عمل پیرا ہیں!کہتے ہیں لوہے کو لوہا کاٹتا ہے،چناچہ اب سیاسی بساط سے اور پارلیمانی مہرے سے ہی اس کو مات دی جاسکتی ہے. سبھی پارٹیاں سمیت جے ڈی یو،سوشینا اور اے کے ڈی ایم جیسی سیکولر پارٹی کے سیکولر ماینڈ سبھی لیڈران سے مکمل تال میل بٹھانے اور ان کے ممبران کے ذریعے دونوں ایوانوں میں اسے رکوا کر ملک و ملت پر احسان کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا.
ملی و سیاسی قائدین جلسے جلوس اور فلاں چلاں مہم کے بجاے ترجیحی طور پر اس پر جٹ جائیں تو بڑا کام ہوسکتا ہے.
کیونکہ کبھی چانکیہ والا پھونکا ہوا فسوں "سام دام ڈنڈ بھید" چلتا ہے،تو کبھی میڈیا کے تھرو اپنوں میں لومڑی تو غیروں کے حق میں ان بلوں اور لنچنگ کے ذریعے شیر بننے کی جو میکاولی والی نصیحت وہدایت اور روایت ہے،وہ کافی پرانی ہے!
تاہم"مکروا و مکرالله و الله خیرالماکرین"کی حقیقت"خلیفہ فی الأرض کو"انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحافظون"کی عملی تصویر و تعبیر کے ضمن میں سمجھنا ہوگا!"
توقیر بدر القاسمی:ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+918789554895
توقیر بدر القاسمی:ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+918789554895
تین دسمبر کی بات ہے،شام کو جب فیس بک آن کیا تو فیس بک پر ہمارے کرم فرما ابراہیم ندوی صاحب کا ہمارے نام مینشن کی ہویی ایک پوسٹ نظر آی،دراصل انہوں نے CAB یعنی سٹیزن امینڈمنٹ بل"شہریت ترمیم مسودہ قانون"کے ممکنہ انسداد کو لیکر اپنی وال پر راقم سے سجھاو طلب کیا،سو جو کچھ برجستہ وہاں لکھا،احباب کے اصرار پر وہ افادہ عام کی خاطر نیوز پورٹل کے حوالے کیا جارہا ہے.سجھاو نیچے تفصیل سے درج ہے!
"راقم کا ماننا یہ ہے کہ اس شہری ترمیم بل کو روکنے کے لیے بنا وقت گنوایے سہ رخی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے.
*الف* :ہندو مسلم کا مسئلہ اسے قطعا نہ بننے دیا جائے، بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر اس کی دور رس مضرت رسانی کو عام عوام میں سادہ طریقے سے بتانے کی جو ضرورت ہے،وہ کیا جایے،یعنی ذہن سازی ان سوالات پر ہو کہ کیا سارے بنیادی مسایل حل ہوچکے ہیں؟نوجوان نسل کی نوکری تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ کیا مہنگائی کا مسئلہ حل ہو چکا ہے؟جو اس طرح کے ابھی غیر ضروری کاموں میں سبھی کو الجھانے کی کوشش ہورہی ہے؟کیا غیر ملکی کو دھر پکڑ کرنے کے لیے دیگر ذرائع اور موثر عملہ نہیں ہیں؟آج جب کہ سرحد اور سرحدی قوانین،قوانین امن عالمہ اس قدر سخت ہیں،کہ کویی پرندہ تک نہ پر مار سکتا ہے اور نہ کوئی بندہ چھپ سکتا ہے،تو پھر یہ لایعنی بحث کیوں؟اگر یہ ناگزیر ہی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایک جمہوری ملک میں آیینی طور پر جہاں بھید بھاؤ نہ ہو،وہاں بھید بھاؤ کا بیج بو کر آپسی میں اختلافات کو ہوا دیکر ہی اسکو بظاہر حل بباطن ایک مسئلہ بنادیا جایے؟اسکے بعد کیا NRC کا ہوا نہیں کھڑا ہوگا؟اس کی تیاری کے لیے کیا پھر سے سارا ملک لاین میں نہیں لگے گا؟بابووں کی رشوت کا بازار گرم نہیں ہوگا؟کیا اس معاشی بحران میں ملک آج یہ سب سہ سکتا ہے؟کم پڑتی مادی وسایل اور سکڑتی زمین پر ان باہری کو بسا کر مزید مسائل کیا پیدا نہیں ہونگے؟ آسام میں اسی کو لیکر سولہ سو کروڑ روپے کا خرچ اور شب و روز ہزاروں افراد کی کڑی محنت اور سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ سب یونہی کالعدم اور فالتو قرار دییے جائیں گے؟کیا بہبود انسانی اور ترقی یونہی ہوتی ہے؟
*ب* :دانشورانہ سطح پر اس بیانیے کو عام کرنے کی ضرورت ہے،کہ آج جو امن و امان اور ترقی کے گن گان کو اس سے جوڑا جارہا ہے،کیا اسی طرح نوٹ بندی کے فوائد پر گن گان نہیں ہوا تھا اور کیا وہ سب فیل نہیں ہوگیے؟آسام میں جو جزوی طور پر ہوا ہے کیا اسکے نتایج سبھی کے لیے خوش کن ہیں؟آخر وہاں بی جے پی کی رکنیت رکھنے والے ہی اسے اب غلط نہیں ٹھہرارہے ہیں؟آج جس طرح سے فلاں فلاں ملک کے ستایے ہویے کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کی جاری ہے،تو کیا یہ اکیسویں صدی میں آج حلق سے اترنے والی بات ہے؟آخر سایے جانے کی حد اور معیار عوام کے سامنے نہیں آنے چاہیے؟یہ جب ملک کے عوام پر اور وسایل پر لاکر دیگر ملکوں کے باشندے کو بسانا ہے،تو پھر اس پر عوامی رایے شماری اور ریفرنڈم کروانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟کیا اس سے ملک کے مسیلے حل ہونگے یا مزید پاؤں پساریں گے؟کیا ان ملکوں سے ذرا ذرا سی بات پر آنے والے کا رخ ملک عزیز کی طرف نہیں ہوگا؟ کیا اس ملک میں یہ خوش آیند ہوگا؟ کیا ظلم سہنے والے فقط 2014 کے تک کے ہی مانے جائیں گے؟آخر یہ کون سا پیمانہ ہے؟جہاں ایک مذہب والے ہوکر اپنے ہی ہم مذہب کو اپنے علاقے سے کھدیرتے رہتے ہیں!وہاں یہ سب ٹھنڈے پیٹ ہضم ہوجایگا؟CAB کے بعد NRC کو لاگو کرنا،یہ ملک اپنے گرتے پھسلتے GDP پر اس طرح کے بوجھل و دیر پا خرچ والے اقدامات کو سہ سکتا ہے؟کیا یہ مزید مہنگائی اور بے روزگاری نتیجے میں کرپشن کی طرف ملک کو دھکیلنے والا اقدام نہیں؟
*ج* :ایوانی سطح پر سیکولر مزاج لیڈروں سے بات چیت کی جایے،انکی تیاری اس حوالے سے ہو کہ اس بل کا گن گان کرنے والی سرکار کیا واقعی ایسا کر سکتی ہے جو کنٹرول آبادی کا مسیلہ وقتا فوقتاً اٹھاتی رہتی ہے؟اور ایک طبقہ کو انکے افراد مستقل ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں؟آخر کیا تک ہے؟اور وہ بھی اس گلوبل ولیج میں انسانیت کے بجاے مذہب کی بنیاد پر اسے اپنانا کیا یہ قابل قبول ہوگا اور آیندہ کے لیے خوش آیند؟کہیں ایسا تو نہیں کہ برادران وطن کے لئے یہ اقدام دیگر مسلم ملکوں میں نوکری سے لیکر رہایش تک سب پر اثر انداز ہو؟اگر واقعی یہ ناگزیر ہے تو انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں؟تاکہ عالمی توجہ کی حامل مظلوم روہنگیای جماعت بھی اپنا حق پاسکے!آخر اس مسئلے کو اس طرح کیوں نہیں حل کرتے جس طرح پانی ہوا اور سرحد کے تنازعے حل کیے جاتے ہیں!
اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے عالمی فورم سے ان ملکوں کے پریشان افراد کے لیے وہاں کے ذمہ داروں سے انسانیت کے ناطے بات چیت کی جایے؟اور اپنے عملہ کو مزید ٹریننگ دیکر اس لایق بنایا جایے کہ وہ گھس پیٹھیے کو دھر دبوچیں!تاکہ ملک عزیز کا سر ساری دنیا میں فخر سے اونچا ہوسکے!آخر کام یوں بھی تو ہوسکتا ہے!اگر یہ بل پاس ہوگیا تو اسکا امکان نہیں کہ جعلی دستاویزات بنواکر دیگر ملکوں کے ہند مخالف دشمن عناصر خفیہ ایجنسی اور فوج تک اپنی رسای حاصل کر لے اور پھر ملک کے اہم اہم شعبے تک پہونچ کر یہاں کے راز وہاں پہونچائیں؟ اس لیے اسے ملک کے مفاد میں دیکھتے ہوئے سبھی کو آگے آنا چاہیے؟ خبر یہ بھی ہے کہ شمال مشرقی ریاست میں احتجاج دیکھ کر اس بل سے ان ناگالینڈ سمیت ریاستوں کو مستثنٰی کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے!تو کیا ان ریاستوں کے لیے کچھ اور،جبکہ بقیہ ملک کے لیے کچھ اور قانون یہ "ون نیشن ون لا" تھیوری کے خلاف نہیں ہے؟
إن تمام باتوں کو جس سطح سے بھی عام ہوسکے،اسے عام کیا جایے!"
اسی دوران خبر یہ بھی آئ کہ کابینہ سے اس متنازع بل کو منظوری مل چکی ہے،کیی احباب اس کی الگ الگ توجیہ کرتے نظر آیے،جبھی راقم نے یہ اپنی ملت و قوم کے لئے تجویز اور توجیہ پیش کی!
"کابینہ سے متنازع بل کی منظوری کے بعد اس کے پیچھے ارتدادی طوفان جو چھپا ہے،اسے بھی سمجھنے کی ہمیں رب کریم سے توفیق مانگنی چاہیے!
بہرحال دنیا بھر کی سیاست و سیاست داں تو چانکیہ سے لیکر میکاولی تک کے فلسفہ طریقہ حکمرانی پر پہ شدت سے عمل پیرا ہیں!کہتے ہیں لوہے کو لوہا کاٹتا ہے،چناچہ اب سیاسی بساط سے اور پارلیمانی مہرے سے ہی اس کو مات دی جاسکتی ہے. سبھی پارٹیاں سمیت جے ڈی یو،سوشینا اور اے کے ڈی ایم جیسی سیکولر پارٹی کے سیکولر ماینڈ سبھی لیڈران سے مکمل تال میل بٹھانے اور ان کے ممبران کے ذریعے دونوں ایوانوں میں اسے رکوا کر ملک و ملت پر احسان کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا.
ملی و سیاسی قائدین جلسے جلوس اور فلاں چلاں مہم کے بجاے ترجیحی طور پر اس پر جٹ جائیں تو بڑا کام ہوسکتا ہے.
کیونکہ کبھی چانکیہ والا پھونکا ہوا فسوں "سام دام ڈنڈ بھید" چلتا ہے،تو کبھی میڈیا کے تھرو اپنوں میں لومڑی تو غیروں کے حق میں ان بلوں اور لنچنگ کے ذریعے شیر بننے کی جو میکاولی والی نصیحت وہدایت اور روایت ہے،وہ کافی پرانی ہے!
تاہم"مکروا و مکرالله و الله خیرالماکرین"کی حقیقت"خلیفہ فی الأرض کو"انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحافظون"کی عملی تصویر و تعبیر کے ضمن میں سمجھنا ہوگا!"
توقیر بدر القاسمی:ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+918789554895