اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بہت دیر کردی حضور آتے آتے قاسم سید روزنامہ خبریں دہلی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 5 December 2019

بہت دیر کردی حضور آتے آتے قاسم سید روزنامہ خبریں دہلی


بہت دیر کردی حضور آتے آتے
قاسم سید
روزنامہ خبریں دہلی
تاریخ بتاتی ہے کہ وہی سماج نشوو نماپاتا ہے جہاں عدل کی حکمرانی ہو’ کمزور کو انصاف ملنے کی امیدہی نہیں یقین بھی ہو۔
طاقتور ترین شخص کو بھی قانون کا ڈر اور خوف ہو جبکہ ہردور کے حکمراں طبقہ کی ذہنیت رہی ہے کہ قانون اس کے لئے نہیں
بلکہ نادار ’مفلس ’کمزور کے لئے بنایا گیا ہے وه اپنی من مانی اورمن مانے فیصلے کرانے کےلئے آزاد ہے۔ اسے عدلیہ اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں پر دسترس ہے ۔ اب یہ ذمہ داری سماج کے حساس اور باشعور لوگوں کی رہی ہے کہ وه اس روش کو قبول
کرنے سے انکار کردیں اورمزاحمت کا راستہ اختیار کریں یا معاشره کو اس دلدل میں رینگتے اور پیرپٹخنے کے لئے چھوڑدینیاپھر
آگے بڑھ کر ان زنجیروں کو توڑ ڈالیں جس میں زمانوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ وه قومیں تباه وبرباد ہوگئیں
جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتی ہیں اور طاقتوروں کو معاف کردیتی ہیں کیونکہ الله اپنی زمین پر ظلم برداشت نہیں کرتا خواه یہ ظلم
فرد کرے یا گروه’ حکومت کرے یا ادارے وتنظیمیں سب کا حساب برابر ہوتا ہے۔
دیگر معاملوں کی طرح بابری مسجد کے معاملہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی برادران وطن کی اکثریت اسے دل سے
محسوس کرتی ہے۔ انہوں نے قانون وعدلیہ کے احترام میں فیصلہ پر سرجھکالیا مگرناانصافی کی کسک اور خلش کی پھانس دل میں
یہ چبھن پیداکرتی رہتی ہے۔ ریویوپٹیشن قانونی لڑائی کو آخری حد تک لے جانے کا اظہار ہے جس کی اجازت ہے اور اس پر انگلی
اٹھانا کسی زاویہ سے مناسب معلو م نہیں ہوتا مگر کریڈٹ لینے کے جنون نے اس کو مذاق اور تماشہ بناکر رکھ دیا’ بابری مسجد
قضیہ کے آخری پڑائو پر مولانا ارشدمدنی کی قیادت والی جمعیۃ علمائے ہند اور تمام مسلم فریقوں کی طرف سے بلند آہنگ ومضبوط
دلائل کے ساتھ مقدمہ پیش کرنے والے ڈاکٹر راجیو دھون کے درمیان اختلافات اور کڑواہٹ نے مین اسٹریم میڈیا کو کیچڑ اچھالنے
’ٹرول کرنے والوں کی فوج کے نشانے بنانے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ خود مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے پر پتھراچھالنے
’انہیں ذہنی طور سے لہولہان کرنے اور وفاداریاں دکھانے میں بازی لے جانے کی چاہت میں احترام کی حدوں کو نظرانداز کرنے کا
سامان بھی دے دیا۔
یہ تلخی کیوں پیداہوئی۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ کیا یہ پیدا کی گئی؟ غلط فہمیوں کاجال بنایاگیا۔کیاجمعیۃ اور راجیودھون کے درمیان
جان بوجھ کر ‘پراسرار ہاتھوں’ نے فاصلے پیدا کئے؟کیا یہ پیشہ وارانہ رقابت ہے؟ کیا ان کی مقبولیت اور احترام کسی کو کھل رہا
تھا۔ کیا جمعیۃ کو ریویوپٹیشن دائر کرنے کی کچھ زیاده جلدی تھی جس کا اظہار سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ آف ریکارڈ اعجازمقبول
کے بیان سے ہوتاہے۔ کیا یہ دبائو جمعیۃ کی طرف سے تھا۔ کیا جمعیۃ بحیثیت کلائنٹ اب راجیو دھون کی افادیت اور ضرورت
محسوس نہیں کر رہی تھی۔ کیا بورڈ اور جمعیۃ کے درمیان جاری رسہ کشی جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کاشاخسانہ ہے۔ کیا
واقعی جانشین شیخ الاسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کی معتبر موثر آواز حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم راجیو دھون کو نہیں
جانتے۔ وه ان سے نہیں ملے اورنہیں کبھی ان کی ملاقات ہوسکی۔ کیاانہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جس طرح قومی
مفاد اور امن ویک جہتی کی خاطر کڑوا گھونٹ سمجھ کر بھاگوت کو شرف ملاقات بخشا۔ کیا حضرت والا کو ان کے مشیر لگاتار
گمراه کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آخر وه کون لوگ ہیں جو ان کی شبیہ کو داغدار بناناچاہتے ہیں اور ان سے ایسے بیانات دلوائے
جارہے ہیں جن کا دفاع کرنا خود ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے؟ کیا کچھ لوگوں نے ان کو اپنے حصار میں لے لیا ہے کہ صحیح اور
سچی بات ان کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتے اور سب خیریت ہے کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ جس کا شکوه دبی دبی زبان میں خود
جمعیۃ کے حضرات کرنے لگے ہیں۔ مولانا ارشدمدنی ملک کی چندغیر متنازع شخصیات میں سب سے اول مقام پرہیں مگر حالیہ
دنوں میں ان کے بعض اقدامات وبیانات پر سخت تنقید ہوئی ہے اور ان کی شخصیت کو بھی بحث ومباحثہ کے دائرے میں لادیاگیا ہے
۔آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔کیا اردواخبارات میں دیوقامت بیانات چھپواکر اس خساره کو پوراکیاجاسکتا ہے۔
جانشین شیخ الاسلام کی جرات مندی بے باکی اور حق گوئی پر کسی کو کلام نہیں۔ن کی سادگی’ ساده مزاجی اور خلوص ونیت پر
بھی انگلی نہیں رکھی جاسکتی۔ مگر جولوگ ان کے بیان تیار کرتے اور کرواتے ہیں جو انہیں مشوره دے رہے ہیں اور جو ان کی
آنکھ کان بنے ہوئے ہیں کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں جمعیۃ جس طرح لگاتار تنازعات کا شکار
رہی ہیں وه بہت تشویشناک ہے۔ جمعیۃ ہندوستان کی قدیم ترین مسلم مذہبی جماعت ہے۔ کانگریس سے غیر مشروط وفاداری کاعہد
نبھانے کے باوجود اس کا وقار اور ساکھ قائم ہے ۔مولانا ارشد مدنی کی قیادت نے اس میں دوچند اضافہ کیا ہے ایسا نہ ہوکہ یہ دولت بیش بہالاخیروں کے ہاتھوں ضائع ہوجائے۔ کلائنٹ کی مرضی اور اجازت کے بغیر اگر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آن ریکارڈ نے راجیو
دھون کے بارے میں فیصلہ لیا ہے تو یہ اپنے آپ میں حیرت وافسوس کا مقام ہے۔ اب یاتو کلائنٹ نے اپنے مقررکرده وکیل کو ہر
طرح کا اختیار دے کر کوئی بھی فیصلہ لینے کا مجاز بنادیا ہے یاپھر اسے اپنے اوپر اتنا اعتماد ہے کہ وه کلائنٹ کو بغیر اطلاع
ومشوره اس کے مفاد میں کوئی بھی قدم اٹھاسکتاہے۔ بہرحال نہ تو ڈاکٹر راجیودھون کی سچائی پر شبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی
حضرت والا کی نیت وارادے پر’ مگر جوکچھ ہوا وه بہت افسوسناک اور قابل گرفت ہے۔ اب ڈیمیج کنٹرول کی کوششوں کےنتیجہ
میں جو سامنے آرہا ہے اور بھی مضحکہ خیز اوررسوائی کا سامان لئے ہوئے ہے ۔ جو نقصان ہوچکا اس کا ازالہ مشکل ہے جہاں
جو پیغام جانا تھا یا دینا تھا وه چلا گیا۔
مشکل یہ ہے کہ اندھ بھکتوں کی فوج صحیح بات نہ سمجھنے کے لئے تیارہے اور نہ ہی کسی اور کو سمجھنے دیناچاہتی ہے۔ سوشل
میڈیا پر بے ہنگم لایعنی تبصروں اور نیت وایمان پر حملوں کی رفتار اتنی تیز اور جارحانہ ہوتی ہے کہ متوازن بات کرنے والا بھی
محتاط ہوجائے اوریہی مقصد بھی ہوتا ہے جب راہل بجاج نے ملک میں ڈر اور خوف کی بات کہی تو بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے
ان کے بخیے ادھیڑ دئیے ۔ ہمارے یہاں بھی ہر طرح کے پیران وفاکیش کے غیر منظم اور غیر اعلان شده بھکتوں کاغول ہمہ وقت
سرگرم ہے کہ اس کے پیرومرشدکاہرفرمان بجا ہے کا ڈھول بجاتے رہتا ہے اور جو انگشت نمائی کرے اس کی سات پشتوں پر لعنت
وملامت بھیجی جاتی ہے۔ خاص طور پرعصری’ دینی تعلیمی اداروں سے نکلی نوخیز نسل کے کمالات وجمالات دیکھنے اور
سردھننے کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہی سوشل میڈیا اسکینر کی طرح کام کرتا ہے جہاں سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکتاکراما کاتبین کی
طرح ہر وقت اعصاب پر سوار رہتا ہے اس لئے تہہ میں چھپی خبریں بھی باہر آجاتی ہیں۔ بہرحال کوئی تاویل’ کوئی بہانہ’ کوئی عذر
اس حقیت کو نہیں جھٹلا سکتا کہ ہمارے محسن کی توہین کے جرم کا ارتکاب ہوا ہے جس نے اپنوں سے بھی زخم کھائے اور ہم
نےاس کی تضحیک کے گہرے زخموں پر تمسخر اور توہین کا مٹھی بھر نمک ڈال دیا۔ عنایات شاہی کی مرطوب ہوائیں آگے کیا گل
کھلاتی ہیں یہ دیکھنا باقی ہے بس اتنا خیال ضرور کرلیجئے کہ محسن کشوں اور احسان فراموشوں میں نام نہ لکھاجائے۔ تاریخ بہت
بے رحم ہوتی ہے وه کسی کے مرتبہ’ عزوجاه’عقیدت ’مرشدی وپیری جمال وکمال کا لحاظ نہیں کرتی۔کج کلاہوں کو سنبھال کر
رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ لڑائی بہت لمبی ہے اور انجام نامعلوم’ایسے قضیے کسی کے لئے بھی اچھے نہیں ہوتے نہ
جماعتوں کے لئے نہ ملت کے لئے اور نہ ہی ملک کے لئے۔