ہندوستانی جمہوریت میں بہادر عورتوں کا کردار
از قلم :محمد عبد الرحمن چمپارنی متعلم عربی ہفتم دارالعلوم وقف دیوبند
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ،جس کی جمہوریت کے سایےتلےہندومسلم ،سیکھ،عیسای کی اخوت و بھائی چارگی کا باغ لہلہاتا ہے اور اپنی کثرت میں وحدت کا پیغام دیتا ہے ،جمھوریت کا مطلب ہی ہے عدل وانصاف،پیار ومحبت ،قومی وملی تشخص بر قرار رکھنے کے ساتھ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا ،ہندوستان کی جمہوریت اس کی تعمیر و بقاء میں ہر باشندہ ہند کا نمایاں کردار ہے ،مردوعورت اور ہندو و مسلم برابر کے شریک و سھیم ہیں ،چند سالوں سے ہندوستانی عوام کو ایسی حکومت سے سابقہ پڑا ہے جس کا مقصد ہندوستان کے ہندومسلم ،سیکھ ،عیسای کے آپسی محبت وبھای چارگی کو مٹانا ہے اور اشتعال انگیز بیانات کے قسم قسم کے سیاہ اور کالے قانون نافذ کر کے ہندوستان کی یکجھتی کو حتم کرنا ہے - جس کی وجہ سے خود ہندوستان کی جمہوریت خطرہ میں ہے اور ہندو ستان باوجود آزاد ہونے کےاپنے کو غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہوا محسوس کر رہاہے -
یہ بات مسلم ہے کہ مردوں کی شجاعت و بہادری کوششوں اور مسلسل محنتوں کے بعد ہندوستان انگریزوں کے پنجہء استبداد سے چھٹکارا پایا ،ہندوستان کی آزادی اور اسے جمہوری ملک بنانے میں جہاں مرد پیش پیش رہے وہیں عورتیں بھی مردوں کے شانوں بشانہ رھیں کبھی ماں کی شکل میں تو کبھی بہن کی صورت میں توکبھی بیٹی کی شکل میں ان کی جراءت و بے باکی پر کو صدہا ہزار ہا سلام محبت وخراج عقیدت ہو ،یہ بھی واضح رہے کہ عورتوں کا مردوں کے شانوں بشانہ رہنا مردوں کی تخلیق سے ہی ہے ،اکی کو علامہ اقبال نے کہا ہے :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ -اکی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
چنانچہ جب ہم آزادی ہند کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو خود بخود عورتوں میں نمایاں نام مولانا ابوالکلام آزاد رح کی بیوی "زلیخا بیگم"کا آپ ہے ،جب ١٠/دسمبر ١٩٢٠ءکو مولانا ابوالکلام آزاد کلکتہ جیل میں ایک سال قید با مشقت کاٹ رہے تھے تو آپ کی شریک حیات "زلیخا بیگم"نے گاندھی کے نام ایک خط لکھا جس میں یہ درج تھا کہ :آپ اور مولانا ابوالکلام آزاد جن تحریکات کو آپسی و باہمی تعاون سے چلا رہے تھے ،اب ان کی عدم موجودگی میں آپ کسی دوسرے کو ذمہ دار نہ بنائیں اب میں بذات خود اس کام کو انجام دے رہی ہوں اور آیندہ دوں گی اگر کسی کے مدد کی ضرورت پڑی تو میں اپنے بھائی سے مدد لوں گی
(دیکھیے:شاھین صفت خواتین تیری ہمت وجرات کو سلام :از قلم مولانا قمر الزماں ندوی )
آج اگر ہندوستانی عوام کی طرف نظر کی جائے اور حکومت کی غلط پالیسی کی طرف جس کی وجہ سے پورا ہندوستان آگ میں جل رہا ہے, ہندوستان کی ماءیں اور بہنیں اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتی ہوی، اس کڑاکے سرد اور ٹھنڈ ہواؤں کا مقابلہ کرتی ہویں ہندوستان کے مختلف مقامات پر دہلی کے شاھین باغ میں ،پٹنہ کے سبزی باغ میں ،سمری بختیار پور سہرسا کے رانی باغ میں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے سامنے اور بتیا (مغربی چمپارن بھار ) کے کللکٹریٹ کے سامنے اور اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف مقامات پر بیٹھی ہوی غیر متعینہ ایام کے لیے دھرنا دیتی ہوی حکومت کے لیے ہوے سیاہ قانون کی پر زور مخالفت کر رہی ہیں اور بزبان حال کہ رہی ہے کہ یہ قانون ہندوستان کے آین کے خلاف ہے یہ ہندوستان کی جمہوریت پر بد نما داغ ہے ،اس لیے ہم حکومت تک اپنی آواز کو پہونچا نے کے لیے گھر کی راحت کو تج کر گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہویں ہیں ،اب بس ہماری جمہوریت بر قرار رہے ،ہندوستان کی ان بہادر اور باہمت خواتین پر جب شر پسندوں نے یہ الزام لگایا یہ 500/روپیہ لے کر کرایہ پرآیں ہیں اور احتجاج کر رہی ہیں تو وہاں پر ان ماؤں اور بہنوں نے اس کی مذمت کی اور اپنی بہادری و جان بازی سے کام لیتے ہوئے چیلینج کیا کہ جو لوگ اس طرح کہہ رہے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ آین اور بیٹھیں ,دھرنا دیں ہم انھیں /2000 روپیہ دیں گے ، نیز ان خواتین ہندیہ نے کورٹ میں غلط الزام لگانے والوں پر کیس درج کرای اور اپنی پھر ایک بار بہادری کی داد و دہش حاصل کی -
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ماں بہنوں کو سلامت رکھے ،ایمان واسلام پر استقامت اور مضبوطی سے جماے رکھے اور ان کی تحریکات اور شبانہ روز کی محنتوں کو قبول فرمائے اور ہمارے ملک ہندوستان کو پر امن بناے آمین ثم آمین یارب العالمین