قوم کے بیٹیوں کی پکار!!!
احقر العباد محمدشمیم دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
قوم کی دلیر حوصلہ مند بیٹیاں جن کی اولوالعزمی کے سامنے مسلح نقاب پوشوں، اوباشوں، فسادیوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں،
ہاں جی ہاں وہی بیٹیاں جن کے بلند عزائم اور جرات مندی کے آگے تاناشاہ حکومت کا غرور پیوند زمیں ہو گیا،
وہی بیٹیاں سخت ترین سردی کی تکلیفوں کو برداشت کرتی ہوئی آج بھی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں. تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں.
بھارت کی یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ جن پھولوں سے گلشن میں خوشبو آتی ہے جن پھولوں سے چمن سجایا جاتا ہے، جن سے ہی چمن کی زینت ہوتی ہے، افسوس انہیں کو ہر دور میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے،زیرِ نظر سانحہ میں جہاں ایک جانب پولیس تماشائی بنی رہے وہیں دوسری جانب مطلق العنان حکومت خاموش رہی، سوال یہ ہے کہ پھول جیسی قوم کی بیٹیاں کب تک قیادت کے فرائض انجام دیتی رہیں گی،
یہ شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں بغیر قیادت کے محاذ سنبھالے ہوئے ہیں مہینہ گزر گیا ابھی بھی ان کے مستقل مزاجی، اور ثابت قدمی میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا، سخت سردی کے موسم میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، مزید اب جسم میں کپکپی طاری کردینے والی کبھی کبھی بارش بھی ہوتی رہتی ہے، قربانی در قربانی پیش کرتی ہوئی قوم کی بیٹیاں کچھ تو سوچتی ہوں گی کہ اے کاش!!
آج شیخ الہند، شیخ الاسلام، آزاد، سیوہاروی، زندہ ہوتے تو ہماری ضرور قیادت کرتے، ہمارے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اس پر جارحانہ رخ اختیار کرتے، ہمیں یوں ہی ہتھیاروں سے لیس اوباشوں کے حوالے نہ چھوڑتے کہ وہ ہمارے سروں پر حملہ آور ہوکر ہمیں زخموں سے لہو لہان کر دیں،
ان بیٹیوں نے محسوس کیا کہ اگر سی اے اے (CAA) قانون جوجبراً نافذ اور مسلط کر دیا گیا، تو پانچ لاکھ آسام کے مسلمانوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، حراستی کیمپ میں جو نوجوان لڑکیاں ہوں گی ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا ان کی عزتوں کو کیسے تار تار کیا جائے گا، ان کی آہ و فریاد پر لبیک کون کہے گا، بروقت ان کی فریاد رسی کو کون پہنچے گا، سب پر ان کی عقابی نگاہ بنی ہوئی ہے
سچائ یہ ھے کہ بھارت کا سنویدھان سب کو یہاں آزادی سے یہاں رہنے کا حق دیتا ہے حالیہ اقدام تو آزادی پر ہی حکومت کی ضربِ کاری ہے، اپنے ووٹ بینک کے لئے حکومت مذہب کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کو پاش پاش کرنا چاہتی ہے، آفرین کہ قوم کی بہادر بیٹیوں نے ان خدشات کو محسوس کیا اور بغیر مضبوط قیادت کے میدان میں اتر گئیں لیکن ان کا ساتھ کل بھی نہیں دیا گیا اور آج بھی پشت پھیر کر انہیں سڑک پر چھوڑ کر ہم اپنے آرام دہ بستروں میں پڑے ہوئے ہیں،
آج وہ بیٹیاں سوچتی ہوں گی کہ کہاں پر ہیں ہمارے قائدین جو اپنے کانفرنس، اجلاس، میں اغیار کے پیشوا کو اسٹیج کی زینت بنا کر ان سے لچھے دار تقریریں اور نعت خوانی کی محفل سجا کر سامعین کے دل کو باغ باغ کر دیتے تھے، آج مصیبت کے ایام میں وہ کیوں نہیں اغیار کے پیشواؤں کو آگے بڑھا کر دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں، کیا دھرنے پر بیٹھنے سے پولیس گولی مار دے گی یا جیل میں قید کر دے گی، آخر پرسکون دھرنے سے گھبراہٹ کیسی ہے؟ کیا شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں سوچتی نہیں ہوں گی کہ کہ اسیر مالٹا کو کیسی کیسی اذیت ناک سزائیں دی گئیں، انگریزوں نے وہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے
کہ جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے، ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب ان کی وفات حکیم محمد اجمل کی کوٹھی پر ہوئی، غسل دینے والے نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ پر زخموں کے بڑے بڑے نشانات ہیں، اس نے رشتہ داروں سے پوچھا تو انہوں نے گھر والوں سے پوچھا لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا، سب حیران تھے اہل خانہ سے بھی اس بات کو چھپائے رکھا آخر یہ کیا معاملہ ہے؟
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کلکتہ گئے ہوئے تھے، ان کو شیخ الہند کی وفات کا پتہ چلا تو وہاں سے جنازہ میں شرکت کے لئے آئے، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بتائیے یہ کیا معاملہ ہے؟حضرت مدنی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمانے لگے یہ ایک راز تھا اور حضرت نے منع فرمایا تھا کہ میری زندگی میں کسی کو نہیں بتانا، اس لئے یہ امانت تھی اور میں نہیں بتا سکتا تھا، اب تو حضرت وفات پا گئے ہیں، لہذا اب تو میں بتا سکتا ہوں، وہ فرمانے لگے جب ہم مالٹا میں قید تھے اس وقت حضرت کو اتنی سزا دی جاتی، اتنی سزا دی جاتی، کہ جسم پر گہرے زخم ہو جاتے تھے، اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ فرنگی انگارے بچھا دیتے اور حضرت کو اس کے اوپر لٹا دیتے تھے، جیل کے حکام کہتے کہ محمود!! صرف اور صرف اتنا کہہ دو کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں ہم تمہیں چھوڑ دیں گے، مگر حضرت فرماتے کہ نہیں میں یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا، وہ ان کو بہت زیادہ تکلیف دیتے تھے، حضرت جب اپنی جگہ پر رات کو سونے کے لیے آتے تو سو بھی نہیں سکتے تھے، نیند نہ آنے کی وجہ سے تکلیف اور ادھر سے اذیتیں، ہم لوگ حضرت کی حالت کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے، ہم نے ایک دن کہا کہ حضرت!!
آخر امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الحیل لکھی ہے، لہذا کیا کوئی ایسا حیلہ ہے کہ آپ ان کی سزا سے بچ جائیں،
حضرت نے فرمایا نہیں، اگلے دن حضرت کو پھر سزا دی گئی جب کئی دن متواتر یہ سزا ملتی رہی تو ایک دن ایک انگریز کھڑا ہو کر کہنے لگا، تو یہ کیوں نہیں کہنا چاہتا کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں، اس وقت حضرت نے فرمایا کہ میں اللہ کے دفتر سے نام کٹوا کر تمہارے دفتر میں نام نہیں لکھوانا چاہتا،حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ کو اذیت ناک سزا دی گئی ہے، ہم حضرت کے ساتھ تین چار شاگرد تھے ہم نے مل کر عرض کیاحضرت!!
کچھ مہربانی فرمائیں ،اب حضرت نے دیکھا کہ سب مل کر بات کر رہے ہیں، تو ان کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے، فرمانے لگے حسین احمد!!
تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟
میں روحانی بیٹا ہوں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا، میں روحانی بیٹا ہوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کا کہ جن کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ اگر ہاتھی کو بھی مارے جاتے تو وہ بھی بلبلا اٹھتا، میں روحانی بیٹا ہوں مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہ جن کو دو سال کے لئے گوالیار کے قلعے میں قید رکھا گیا، میں روحانی بیٹا ہوں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا، کیا میں ان فرنگیوں کے سامنے سکشت تسلیم کر لوں، یہ میرے جسم سے جان تو نکال سکتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں نکال سکتے ہیں،
یہ شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں آج شیخ الہند کے روحانی فرزندوں قائدوں کا راستہ دیکھ رہی ہیں کہ ِانہوں نے جو زبردست تحریک شروع کی ہے (سنویدھان بچانا ، سی اے اے قانون ختم کرانا ، آسام کے پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے گھر ہونے سے محفوظ کرنا، ان کی آکر کے قیادت کریں)
یہ ان جرات مند، بے باک بیٹیوں کے افکار و خیالات و سوالات ہیں جنہوں نے اب تک شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنے آپ کو مضبوط کر رکھا ہے،
ایسا نہ ہو کہ قائدین آنے میں تاخیر کر دیں اور حالات کی ستائی ہوئی بیٹیوں نے جس ظالم سرکش طوفان کو اپنے بلند عزائم سے روک رکھا ہے وہ طوفان آگے بڑھ جائے تو یقیناً آنے والی نسلیں جو حکومت کے تشدد کا شکار ہوں گی وہ آج کے بہادر بیٹیوں کو خراج تحسین پیش کریں گی لیکن قائدین کی خاموشی پر ماتم کریں گی،
ان بیٹیوں کی پکار پر تاریخ جو حقائق پیش کر رہی ہے اسے پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے
حجاج بن یوسف جس کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں، وہ حافظ قرآن تھا، شراب نوشی سے اجتناب کرتا تھا، جہاد کا دھنی تھا،
جب عرب سے مسلمانوں کا ایک قافلہ ہندوستان آیا تو راجہ داہر نے اسے قید کرادیا اس وقت ایک شخص فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اس سے ایک خاتون نے کہا کہ جاکر حجاج بن یوسف کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ عرب کی ایک لڑکی نے تجھے پکارا ہے کہ حجاج بن یوسف ہم لوگوں کو قید سے آزاد کرادے،
حجاج بن یوسف جسے تاریخ تمام خوبیوں کے باوجود ایک ظالم کے نام سے یاد رکھتی ہے وہ حجاج بن یوسف اتنا غیرت مند تھا کہ اس نے دو مرتبہ بھارت میں فوج بھیجا، کمانڈر شہید ہو گیا، فوج پیچھے ہٹ گئی، تیسری مرتبہ اس نے اپنے بھانجے محمد بن قاسم کو بھیجا، یہ سترہ سال کے جوان تھے جن کی حجاج کی بیٹی سے ہی نئ نئی شادی ہوئی تھی، اسی حالت میں بیوی کو چھوڑ کر بھارت آئے فتوحات نے ان کے قدموں کو سلامی پیش کی، تقریباً آدھے ہندوستان کو انہوں نے فتح کیا، اور ان قافلہ والوں کو آزاد کرایا، اسلام کا اتنا عظیم کمانڈر جس نے پے در پے کئی جنگیں لڑیں اور فتوحات کے پرچم لہراتے چلے گئے وقت کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ انہیں دوبارہ اپنی بیوی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا،
لیکن عربی خاتون کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے آئے اور انہیں آزاد کرا لئیے،
حجاج بن یوسف جیسا بھی تھا لیکن اس کے دل میں اسلامی حمیت باقی تھی، اس نے ایک خاتون کی پکار پر لشکر روانہ کر دیا، افسوس تو اس بات کا ہے آج قوم کی ہزاروں بیٹیوں کی پکار پر قیادت خاموش کیوں ہے؟
ہمارے خطیب حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ سب مسلمانوں کے اعمال سیئہ کا نتیجہ ہے سوال یہ ہے مسلمانوں کی وہ تحریک جو اغیار میں دعوت کا فریضہ انجام دیتی تھی جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب ان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، لیکن جو اصلاح معاشرہ کا کام کرتے ہیں ایسی کسی تحریک پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے، مستقل طور پر مسلمانوں میں تبلیغی جماعت ہے، اور بریلوی،دیوبندی ،اہل حدیث جماعت اسلامی سب اصلاح معاشرہ کا پروگرام کرتے ہیں، مزید جمعہ کی نماز سے قبل خطیب حضرات بیان کرتے ہیں اس میں اصلاحی باتیں ہوتی ہیں، اب اگر یہ کہیں گے کہ یہ مسلمانوں کی بدعملی کا نتیجہ ہے تو آخر کمی کس میں ہے، اور وہاں آسام میں پانچ لاکھ مسلمان حراستی کیمپ میں ٹھونس دئیے جائیں گے تو کیا وہ پانچ لاکھ لوگ اپنے گناہوں کی سزا بھگتیں گے؟؟. اب میں علامہ اقبال کے ان اشعار پر اپنے قلم کو سکون دے رہاہوں. (سن اے غافل صدا میری،یہ ایسی چیز ہے جس کو.. وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں، طائر بوستانوں میں. وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے. تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں. ذرا دیکھ اسکو جو کچھ ھورہا ہے، ھونے والا ہے. دھرا کیا ہے، بھلا عہد کہن کی داستانوں میں، یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر. زمیں پر تو ہو، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں. نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والوں. تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
احقر العباد محمدشمیم دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
احقر العباد محمدشمیم دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
قوم کی دلیر حوصلہ مند بیٹیاں جن کی اولوالعزمی کے سامنے مسلح نقاب پوشوں، اوباشوں، فسادیوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں،
ہاں جی ہاں وہی بیٹیاں جن کے بلند عزائم اور جرات مندی کے آگے تاناشاہ حکومت کا غرور پیوند زمیں ہو گیا،
وہی بیٹیاں سخت ترین سردی کی تکلیفوں کو برداشت کرتی ہوئی آج بھی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں. تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں.
بھارت کی یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ جن پھولوں سے گلشن میں خوشبو آتی ہے جن پھولوں سے چمن سجایا جاتا ہے، جن سے ہی چمن کی زینت ہوتی ہے، افسوس انہیں کو ہر دور میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے،زیرِ نظر سانحہ میں جہاں ایک جانب پولیس تماشائی بنی رہے وہیں دوسری جانب مطلق العنان حکومت خاموش رہی، سوال یہ ہے کہ پھول جیسی قوم کی بیٹیاں کب تک قیادت کے فرائض انجام دیتی رہیں گی،
یہ شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں بغیر قیادت کے محاذ سنبھالے ہوئے ہیں مہینہ گزر گیا ابھی بھی ان کے مستقل مزاجی، اور ثابت قدمی میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا، سخت سردی کے موسم میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، مزید اب جسم میں کپکپی طاری کردینے والی کبھی کبھی بارش بھی ہوتی رہتی ہے، قربانی در قربانی پیش کرتی ہوئی قوم کی بیٹیاں کچھ تو سوچتی ہوں گی کہ اے کاش!!
آج شیخ الہند، شیخ الاسلام، آزاد، سیوہاروی، زندہ ہوتے تو ہماری ضرور قیادت کرتے، ہمارے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اس پر جارحانہ رخ اختیار کرتے، ہمیں یوں ہی ہتھیاروں سے لیس اوباشوں کے حوالے نہ چھوڑتے کہ وہ ہمارے سروں پر حملہ آور ہوکر ہمیں زخموں سے لہو لہان کر دیں،
ان بیٹیوں نے محسوس کیا کہ اگر سی اے اے (CAA) قانون جوجبراً نافذ اور مسلط کر دیا گیا، تو پانچ لاکھ آسام کے مسلمانوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، حراستی کیمپ میں جو نوجوان لڑکیاں ہوں گی ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا ان کی عزتوں کو کیسے تار تار کیا جائے گا، ان کی آہ و فریاد پر لبیک کون کہے گا، بروقت ان کی فریاد رسی کو کون پہنچے گا، سب پر ان کی عقابی نگاہ بنی ہوئی ہے
سچائ یہ ھے کہ بھارت کا سنویدھان سب کو یہاں آزادی سے یہاں رہنے کا حق دیتا ہے حالیہ اقدام تو آزادی پر ہی حکومت کی ضربِ کاری ہے، اپنے ووٹ بینک کے لئے حکومت مذہب کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کو پاش پاش کرنا چاہتی ہے، آفرین کہ قوم کی بہادر بیٹیوں نے ان خدشات کو محسوس کیا اور بغیر مضبوط قیادت کے میدان میں اتر گئیں لیکن ان کا ساتھ کل بھی نہیں دیا گیا اور آج بھی پشت پھیر کر انہیں سڑک پر چھوڑ کر ہم اپنے آرام دہ بستروں میں پڑے ہوئے ہیں،
آج وہ بیٹیاں سوچتی ہوں گی کہ کہاں پر ہیں ہمارے قائدین جو اپنے کانفرنس، اجلاس، میں اغیار کے پیشوا کو اسٹیج کی زینت بنا کر ان سے لچھے دار تقریریں اور نعت خوانی کی محفل سجا کر سامعین کے دل کو باغ باغ کر دیتے تھے، آج مصیبت کے ایام میں وہ کیوں نہیں اغیار کے پیشواؤں کو آگے بڑھا کر دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں، کیا دھرنے پر بیٹھنے سے پولیس گولی مار دے گی یا جیل میں قید کر دے گی، آخر پرسکون دھرنے سے گھبراہٹ کیسی ہے؟ کیا شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں سوچتی نہیں ہوں گی کہ کہ اسیر مالٹا کو کیسی کیسی اذیت ناک سزائیں دی گئیں، انگریزوں نے وہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے
کہ جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے، ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب ان کی وفات حکیم محمد اجمل کی کوٹھی پر ہوئی، غسل دینے والے نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ پر زخموں کے بڑے بڑے نشانات ہیں، اس نے رشتہ داروں سے پوچھا تو انہوں نے گھر والوں سے پوچھا لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا، سب حیران تھے اہل خانہ سے بھی اس بات کو چھپائے رکھا آخر یہ کیا معاملہ ہے؟
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کلکتہ گئے ہوئے تھے، ان کو شیخ الہند کی وفات کا پتہ چلا تو وہاں سے جنازہ میں شرکت کے لئے آئے، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بتائیے یہ کیا معاملہ ہے؟حضرت مدنی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمانے لگے یہ ایک راز تھا اور حضرت نے منع فرمایا تھا کہ میری زندگی میں کسی کو نہیں بتانا، اس لئے یہ امانت تھی اور میں نہیں بتا سکتا تھا، اب تو حضرت وفات پا گئے ہیں، لہذا اب تو میں بتا سکتا ہوں، وہ فرمانے لگے جب ہم مالٹا میں قید تھے اس وقت حضرت کو اتنی سزا دی جاتی، اتنی سزا دی جاتی، کہ جسم پر گہرے زخم ہو جاتے تھے، اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ فرنگی انگارے بچھا دیتے اور حضرت کو اس کے اوپر لٹا دیتے تھے، جیل کے حکام کہتے کہ محمود!! صرف اور صرف اتنا کہہ دو کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں ہم تمہیں چھوڑ دیں گے، مگر حضرت فرماتے کہ نہیں میں یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا، وہ ان کو بہت زیادہ تکلیف دیتے تھے، حضرت جب اپنی جگہ پر رات کو سونے کے لیے آتے تو سو بھی نہیں سکتے تھے، نیند نہ آنے کی وجہ سے تکلیف اور ادھر سے اذیتیں، ہم لوگ حضرت کی حالت کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے، ہم نے ایک دن کہا کہ حضرت!!
آخر امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الحیل لکھی ہے، لہذا کیا کوئی ایسا حیلہ ہے کہ آپ ان کی سزا سے بچ جائیں،
حضرت نے فرمایا نہیں، اگلے دن حضرت کو پھر سزا دی گئی جب کئی دن متواتر یہ سزا ملتی رہی تو ایک دن ایک انگریز کھڑا ہو کر کہنے لگا، تو یہ کیوں نہیں کہنا چاہتا کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں، اس وقت حضرت نے فرمایا کہ میں اللہ کے دفتر سے نام کٹوا کر تمہارے دفتر میں نام نہیں لکھوانا چاہتا،حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ کو اذیت ناک سزا دی گئی ہے، ہم حضرت کے ساتھ تین چار شاگرد تھے ہم نے مل کر عرض کیاحضرت!!
کچھ مہربانی فرمائیں ،اب حضرت نے دیکھا کہ سب مل کر بات کر رہے ہیں، تو ان کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے، فرمانے لگے حسین احمد!!
تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟
میں روحانی بیٹا ہوں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا، میں روحانی بیٹا ہوں حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا، میں روحانی بیٹا ہوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کا کہ جن کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ اگر ہاتھی کو بھی مارے جاتے تو وہ بھی بلبلا اٹھتا، میں روحانی بیٹا ہوں مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہ جن کو دو سال کے لئے گوالیار کے قلعے میں قید رکھا گیا، میں روحانی بیٹا ہوں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا، کیا میں ان فرنگیوں کے سامنے سکشت تسلیم کر لوں، یہ میرے جسم سے جان تو نکال سکتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں نکال سکتے ہیں،
یہ شیخ الہند کی روحانی بیٹیاں آج شیخ الہند کے روحانی فرزندوں قائدوں کا راستہ دیکھ رہی ہیں کہ ِانہوں نے جو زبردست تحریک شروع کی ہے (سنویدھان بچانا ، سی اے اے قانون ختم کرانا ، آسام کے پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے گھر ہونے سے محفوظ کرنا، ان کی آکر کے قیادت کریں)
یہ ان جرات مند، بے باک بیٹیوں کے افکار و خیالات و سوالات ہیں جنہوں نے اب تک شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنے آپ کو مضبوط کر رکھا ہے،
ایسا نہ ہو کہ قائدین آنے میں تاخیر کر دیں اور حالات کی ستائی ہوئی بیٹیوں نے جس ظالم سرکش طوفان کو اپنے بلند عزائم سے روک رکھا ہے وہ طوفان آگے بڑھ جائے تو یقیناً آنے والی نسلیں جو حکومت کے تشدد کا شکار ہوں گی وہ آج کے بہادر بیٹیوں کو خراج تحسین پیش کریں گی لیکن قائدین کی خاموشی پر ماتم کریں گی،
ان بیٹیوں کی پکار پر تاریخ جو حقائق پیش کر رہی ہے اسے پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے
حجاج بن یوسف جس کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں، وہ حافظ قرآن تھا، شراب نوشی سے اجتناب کرتا تھا، جہاد کا دھنی تھا،
جب عرب سے مسلمانوں کا ایک قافلہ ہندوستان آیا تو راجہ داہر نے اسے قید کرادیا اس وقت ایک شخص فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اس سے ایک خاتون نے کہا کہ جاکر حجاج بن یوسف کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ عرب کی ایک لڑکی نے تجھے پکارا ہے کہ حجاج بن یوسف ہم لوگوں کو قید سے آزاد کرادے،
حجاج بن یوسف جسے تاریخ تمام خوبیوں کے باوجود ایک ظالم کے نام سے یاد رکھتی ہے وہ حجاج بن یوسف اتنا غیرت مند تھا کہ اس نے دو مرتبہ بھارت میں فوج بھیجا، کمانڈر شہید ہو گیا، فوج پیچھے ہٹ گئی، تیسری مرتبہ اس نے اپنے بھانجے محمد بن قاسم کو بھیجا، یہ سترہ سال کے جوان تھے جن کی حجاج کی بیٹی سے ہی نئ نئی شادی ہوئی تھی، اسی حالت میں بیوی کو چھوڑ کر بھارت آئے فتوحات نے ان کے قدموں کو سلامی پیش کی، تقریباً آدھے ہندوستان کو انہوں نے فتح کیا، اور ان قافلہ والوں کو آزاد کرایا، اسلام کا اتنا عظیم کمانڈر جس نے پے در پے کئی جنگیں لڑیں اور فتوحات کے پرچم لہراتے چلے گئے وقت کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ انہیں دوبارہ اپنی بیوی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا،
لیکن عربی خاتون کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے آئے اور انہیں آزاد کرا لئیے،
حجاج بن یوسف جیسا بھی تھا لیکن اس کے دل میں اسلامی حمیت باقی تھی، اس نے ایک خاتون کی پکار پر لشکر روانہ کر دیا، افسوس تو اس بات کا ہے آج قوم کی ہزاروں بیٹیوں کی پکار پر قیادت خاموش کیوں ہے؟
ہمارے خطیب حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ سب مسلمانوں کے اعمال سیئہ کا نتیجہ ہے سوال یہ ہے مسلمانوں کی وہ تحریک جو اغیار میں دعوت کا فریضہ انجام دیتی تھی جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب ان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، لیکن جو اصلاح معاشرہ کا کام کرتے ہیں ایسی کسی تحریک پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے، مستقل طور پر مسلمانوں میں تبلیغی جماعت ہے، اور بریلوی،دیوبندی ،اہل حدیث جماعت اسلامی سب اصلاح معاشرہ کا پروگرام کرتے ہیں، مزید جمعہ کی نماز سے قبل خطیب حضرات بیان کرتے ہیں اس میں اصلاحی باتیں ہوتی ہیں، اب اگر یہ کہیں گے کہ یہ مسلمانوں کی بدعملی کا نتیجہ ہے تو آخر کمی کس میں ہے، اور وہاں آسام میں پانچ لاکھ مسلمان حراستی کیمپ میں ٹھونس دئیے جائیں گے تو کیا وہ پانچ لاکھ لوگ اپنے گناہوں کی سزا بھگتیں گے؟؟. اب میں علامہ اقبال کے ان اشعار پر اپنے قلم کو سکون دے رہاہوں. (سن اے غافل صدا میری،یہ ایسی چیز ہے جس کو.. وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں، طائر بوستانوں میں. وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے. تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں. ذرا دیکھ اسکو جو کچھ ھورہا ہے، ھونے والا ہے. دھرا کیا ہے، بھلا عہد کہن کی داستانوں میں، یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر. زمیں پر تو ہو، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں. نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والوں. تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
احقر العباد محمدشمیم دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی