تحریر: حافظ دانش فلاحی
شانتی سندیش بلریاگنج
_________________
اس وقت جو طاقتیں ہمارے اوپر حکمرانی کررہی ہیں ان کی پیدائش و افزائش دونوں نفرت، ٹکراؤ اور سماجی و ملکی تانے بانے کے انتشار پر مبنی و منحصر ہیں۔
ملک کے اندر جس قدر بد امنی و خانہ جنگی بڑھے گی ان طاقتوں کو اتنا ہی فائدہ اور قوت ملے گی۔وہ چاہتے ہیں کہ مختلف مذاہب و نظریات کے ماننے والے سیاسی و سماجی دونوں لحاظ سے منتشر رہیں تاکہ ان کے ناپاک عزائم یعنی ہندو راشٹر کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہوسکے۔ان کے اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی یکجہتی ہے۔ ان کو پر امن فضا کبھی رآس نہیں آسکتی ۔
اس لئے بہانے بہانے سے انہوں نے بھارتی سماج کے مختلف طبقات کےا ندر نفرت کا بیج بونے کا کام کیا۔
خصوصا مسلمانوں کو وہ اس راہ کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں،اور اس روڑے کو ہٹانے کے لئے سماجی، سیاسی و مذہبی انتشار لازمی ہے۔
شہریت کا ترمیمی قانون اور اس کا پس منظر جو بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ اس کے ذریعہ ملک کے اندر ٹکراؤ پیدا کرکے اپنے گھناؤنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ان سے مقابلے کے لئے اتحاد و یکجہتی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔سب کا ایک ساتھ مل کر کھڑا ہونا،ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانا اور عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے ہی میں کامیابی ہے۔
ایک ایسا اتحاد جو ہندوستانی تہذیب کا آئینہ ہو،جہاں ایک طرف ہندو ،مسلم ،سکھ عیسائی تمام مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ ہوں وہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور بااثر افراد ( جو واقعی اس لڑائی کو سڑک سے سنسد تک لڑنے کی واقعی طاقت رکھتے ہوں) ان کو بھی ساتھ لیا جائے تاکہ باہمی یگانگت، ہمدردی اور رواداری کی خوشبو پورے ملک میں پھیل جائے۔
اس اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے ہمارے ملک میں فاشست طاقتوں کے ایک مضبوط گروہ کے ساتھ خود ہمارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو لاعلمی، جذباتیت اور اپنی معصومیت کی وجہ سے ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
اپنے اندر کے ان معصوم لوگوں کو ان کا آلہ کار بننے سے روکنا بھی ہماری ایک بڑی ذمہ داری ہے۔
سیاسی طور سے ہماری قربتیں کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوسکتی ہیں،لیکن کسی سیاسی جمامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دوسری سیاسی جماعتوں کے مثبت و مفید کاموں پر بھی ان کی ستائش نہ کریں۔موجودہہ حالات میں ہمیں ان سطحی چیزوں سے اوپر اٹھ کر اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی ہمارے کاز کے لئے آگے آئے اس کا استقبال ہو۔
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کرو نفرتیں
آج ملک کو یکہجتی کی ضرورت ہے بہت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے حقوق کے لئے پر امن مظاہرہ ایک جمہوری ملک کی پہچان ہے،آئے دن ہمارے ملک میں مختلف طرح کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن اس وقت ملک کے کونے کونے میں کالے قانون کے خلاف جو مظاہرے ہورہے ہیں وہ شاید اس ملک کی ایک نئی تاریخ لکھے گا۔
لیکن یوپی کے اندر کالے قانون کے تمام پر امن مظاہرے کو طاقت کے زور سے کچلنے کے لئے ایک خطرناک منصو بے کا اعلان بہت پہلے ہی کردیا گیا تھا جس نے بہت سے بے قصور و معصوم مظاہرین کی یا تو جان لے لی یا ان کے اوپر ملک سے غداری جیسی سنگین دفعات لگاکر غیر معینہ مدت کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
اور جگہوں کی طرح اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے قصبہ بلریاگنج میں بھی خواتین کا ایک غیر منظم لیکن پر امن احتجاج منعقد ہوا جس کو طاقت کے ذریعہ کچل دیا گیا ،جس میں کئی ایک خواتین شدید زخمی ہوئیں۔کئی لڑکوں کے ساتھ ملک و بیرون ملک کی ایک معتبر و علمی شخصیت، بے مثال خطیب ،سادگی کے پیکر، مشہور عالم دین مولانا طاہر مدنی صاحب کو ماسٹر مائنڈ قرار دیکر گرفتار کرلیا گیا اور ملک سے غداری جیسی سنگیںن دفعات کے تحت مقدمہ دائر کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
رتبہ ملا بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر یوپی پولس کا یہ رویہ بھی فاشست طاقتوں کے مزاج کے مطابق تھا اور یہ تو ہونا ہی تھا۔
لیکن اب اگر اظہار یکجہتی و رواداری کے نام پر کوئی سیاسی جماعت یا اس کے ارکان آگے آتے ہیں تو ان کی قدر ہونی چاہئے۔
علماء کونسل کے مختلف وفود کا ایڈمنسٹریشن اور مظلومین سے بارہا ملاقات، سماجوادی پارٹی کے چھوٹے بڑے ذمہ داروں اور ارکان اسمبلی کی بلریاگنج آمد،بہوجن سماج پارٹی کے ذمہ داروں کا ڈی ایم اور ایس پی سے ملاقات اور بے قصوروں کی رہائی کا مطالبہ۔ اعظم گڑھ بار کونسل کے عہدیداروں اور الہ آباد،لکھنو و دہلی ہائی کورٹ کے وکلاء کی طرف سے ملنے والی مفت قانونی سہولیات کی پیشکش ،اس علاقے سے سماج وادی کے قد آور رکن اسمبلی نفیس احمد کی بار بار ضلع و جیل انتظامیہ سے ملاقات اور اسمبلی میں مظلومین کے حق میں آواز اٹھانے کی یقین دہانی،
کانگریس کی ایک قدآور شخصیت محترمہ پرینکا گاندھی جی کی بلریاگنج آمد اور متاثرین سے اظہار ہمدردی ،یہ سب ایک مثبت اور خوش آئند پہلو ہے جس کی تعریف ہونی چاہیئے اور ایسے لوگوں کے خلاف ایسے بیانات اور تحریروں سے بچنا چاہیئے جو آپسی انتشار کو بڑھاوا دینے والا ہو۔
بلریاگنج میں شدت سے اس بات کو محسوس کیا جارہا ہے کہ سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری چند افراد اس پورے معاملے میں حکومت وقت و پولس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اس کو سیاسی رنگ دیکر اپنی سطحی سیاسی دشمنیاں نکالنے و کارآمد افراد کو پیچھے دھکیلنے کے لئے اختلاف کو جان بوجھ کرمزید ہوا دے رہے ہیں۔
کاش لوگ جان پاتے کہ۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں جو بھی طاقتیں و افراد ہمارا ساتھ دیں مقامی سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ان کا استقبال کرنا چاہیئے اور باہمی یکجہتی و رواداری کے جذبات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ جان لیں کہ یہ لمبی لڑائی ہے اور یہ صرف اس قانون کی واپسی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس وقت تک جاری رہنی چاہیئے جب تک فاشسٹ نظریات کو مکمل طور سے ختم نہ کیا جاسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم تمام لوگوں کو ایک ساتھ لیکر ایک صف میں کھڑے نہ ہوجائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں ہاتھ لئے پورا ملک ساتھ چلے۔
تحفہ درد لئے پیار کی سوغات لئے۔
ریگزاروں سے عداوت کی گزر جائیں گے۔
خون کے دریاؤں سے ہم پار اتر جائیں گے۔
گفتگو بند نہ ہو۔
بات سے بات چلے ۔
صبح تک شام ملاقات چلے۔
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ دانش فلاحی
شانتی سندیش سینٹر ۔بلریاگنج
9794733357
شانتی سندیش بلریاگنج
_________________
اس وقت جو طاقتیں ہمارے اوپر حکمرانی کررہی ہیں ان کی پیدائش و افزائش دونوں نفرت، ٹکراؤ اور سماجی و ملکی تانے بانے کے انتشار پر مبنی و منحصر ہیں۔
ملک کے اندر جس قدر بد امنی و خانہ جنگی بڑھے گی ان طاقتوں کو اتنا ہی فائدہ اور قوت ملے گی۔وہ چاہتے ہیں کہ مختلف مذاہب و نظریات کے ماننے والے سیاسی و سماجی دونوں لحاظ سے منتشر رہیں تاکہ ان کے ناپاک عزائم یعنی ہندو راشٹر کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہوسکے۔ان کے اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی یکجہتی ہے۔ ان کو پر امن فضا کبھی رآس نہیں آسکتی ۔
اس لئے بہانے بہانے سے انہوں نے بھارتی سماج کے مختلف طبقات کےا ندر نفرت کا بیج بونے کا کام کیا۔
خصوصا مسلمانوں کو وہ اس راہ کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں،اور اس روڑے کو ہٹانے کے لئے سماجی، سیاسی و مذہبی انتشار لازمی ہے۔
شہریت کا ترمیمی قانون اور اس کا پس منظر جو بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ اس کے ذریعہ ملک کے اندر ٹکراؤ پیدا کرکے اپنے گھناؤنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ان سے مقابلے کے لئے اتحاد و یکجہتی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔سب کا ایک ساتھ مل کر کھڑا ہونا،ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانا اور عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے ہی میں کامیابی ہے۔
ایک ایسا اتحاد جو ہندوستانی تہذیب کا آئینہ ہو،جہاں ایک طرف ہندو ،مسلم ،سکھ عیسائی تمام مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ ہوں وہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور بااثر افراد ( جو واقعی اس لڑائی کو سڑک سے سنسد تک لڑنے کی واقعی طاقت رکھتے ہوں) ان کو بھی ساتھ لیا جائے تاکہ باہمی یگانگت، ہمدردی اور رواداری کی خوشبو پورے ملک میں پھیل جائے۔
اس اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے ہمارے ملک میں فاشست طاقتوں کے ایک مضبوط گروہ کے ساتھ خود ہمارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو لاعلمی، جذباتیت اور اپنی معصومیت کی وجہ سے ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
اپنے اندر کے ان معصوم لوگوں کو ان کا آلہ کار بننے سے روکنا بھی ہماری ایک بڑی ذمہ داری ہے۔
سیاسی طور سے ہماری قربتیں کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوسکتی ہیں،لیکن کسی سیاسی جمامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دوسری سیاسی جماعتوں کے مثبت و مفید کاموں پر بھی ان کی ستائش نہ کریں۔موجودہہ حالات میں ہمیں ان سطحی چیزوں سے اوپر اٹھ کر اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی ہمارے کاز کے لئے آگے آئے اس کا استقبال ہو۔
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کرو نفرتیں
آج ملک کو یکہجتی کی ضرورت ہے بہت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے حقوق کے لئے پر امن مظاہرہ ایک جمہوری ملک کی پہچان ہے،آئے دن ہمارے ملک میں مختلف طرح کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن اس وقت ملک کے کونے کونے میں کالے قانون کے خلاف جو مظاہرے ہورہے ہیں وہ شاید اس ملک کی ایک نئی تاریخ لکھے گا۔
لیکن یوپی کے اندر کالے قانون کے تمام پر امن مظاہرے کو طاقت کے زور سے کچلنے کے لئے ایک خطرناک منصو بے کا اعلان بہت پہلے ہی کردیا گیا تھا جس نے بہت سے بے قصور و معصوم مظاہرین کی یا تو جان لے لی یا ان کے اوپر ملک سے غداری جیسی سنگین دفعات لگاکر غیر معینہ مدت کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
اور جگہوں کی طرح اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے قصبہ بلریاگنج میں بھی خواتین کا ایک غیر منظم لیکن پر امن احتجاج منعقد ہوا جس کو طاقت کے ذریعہ کچل دیا گیا ،جس میں کئی ایک خواتین شدید زخمی ہوئیں۔کئی لڑکوں کے ساتھ ملک و بیرون ملک کی ایک معتبر و علمی شخصیت، بے مثال خطیب ،سادگی کے پیکر، مشہور عالم دین مولانا طاہر مدنی صاحب کو ماسٹر مائنڈ قرار دیکر گرفتار کرلیا گیا اور ملک سے غداری جیسی سنگیںن دفعات کے تحت مقدمہ دائر کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
رتبہ ملا بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر یوپی پولس کا یہ رویہ بھی فاشست طاقتوں کے مزاج کے مطابق تھا اور یہ تو ہونا ہی تھا۔
لیکن اب اگر اظہار یکجہتی و رواداری کے نام پر کوئی سیاسی جماعت یا اس کے ارکان آگے آتے ہیں تو ان کی قدر ہونی چاہئے۔
علماء کونسل کے مختلف وفود کا ایڈمنسٹریشن اور مظلومین سے بارہا ملاقات، سماجوادی پارٹی کے چھوٹے بڑے ذمہ داروں اور ارکان اسمبلی کی بلریاگنج آمد،بہوجن سماج پارٹی کے ذمہ داروں کا ڈی ایم اور ایس پی سے ملاقات اور بے قصوروں کی رہائی کا مطالبہ۔ اعظم گڑھ بار کونسل کے عہدیداروں اور الہ آباد،لکھنو و دہلی ہائی کورٹ کے وکلاء کی طرف سے ملنے والی مفت قانونی سہولیات کی پیشکش ،اس علاقے سے سماج وادی کے قد آور رکن اسمبلی نفیس احمد کی بار بار ضلع و جیل انتظامیہ سے ملاقات اور اسمبلی میں مظلومین کے حق میں آواز اٹھانے کی یقین دہانی،
کانگریس کی ایک قدآور شخصیت محترمہ پرینکا گاندھی جی کی بلریاگنج آمد اور متاثرین سے اظہار ہمدردی ،یہ سب ایک مثبت اور خوش آئند پہلو ہے جس کی تعریف ہونی چاہیئے اور ایسے لوگوں کے خلاف ایسے بیانات اور تحریروں سے بچنا چاہیئے جو آپسی انتشار کو بڑھاوا دینے والا ہو۔
بلریاگنج میں شدت سے اس بات کو محسوس کیا جارہا ہے کہ سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری چند افراد اس پورے معاملے میں حکومت وقت و پولس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اس کو سیاسی رنگ دیکر اپنی سطحی سیاسی دشمنیاں نکالنے و کارآمد افراد کو پیچھے دھکیلنے کے لئے اختلاف کو جان بوجھ کرمزید ہوا دے رہے ہیں۔
کاش لوگ جان پاتے کہ۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں جو بھی طاقتیں و افراد ہمارا ساتھ دیں مقامی سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ان کا استقبال کرنا چاہیئے اور باہمی یکجہتی و رواداری کے جذبات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ جان لیں کہ یہ لمبی لڑائی ہے اور یہ صرف اس قانون کی واپسی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس وقت تک جاری رہنی چاہیئے جب تک فاشسٹ نظریات کو مکمل طور سے ختم نہ کیا جاسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم تمام لوگوں کو ایک ساتھ لیکر ایک صف میں کھڑے نہ ہوجائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں ہاتھ لئے پورا ملک ساتھ چلے۔
تحفہ درد لئے پیار کی سوغات لئے۔
ریگزاروں سے عداوت کی گزر جائیں گے۔
خون کے دریاؤں سے ہم پار اتر جائیں گے۔
گفتگو بند نہ ہو۔
بات سے بات چلے ۔
صبح تک شام ملاقات چلے۔
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ دانش فلاحی
شانتی سندیش سینٹر ۔بلریاگنج
9794733357