اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *مدارس کی اصل طاقت فضلاء ہیں نہ کہ طلبہ۔۔۔۔!* ✒۔۔۔۔۔انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 9 February 2020

*مدارس کی اصل طاقت فضلاء ہیں نہ کہ طلبہ۔۔۔۔!* ✒۔۔۔۔۔انس بجنوری

*مدارس کی اصل طاقت فضلاء ہیں نہ کہ طلبہ۔۔۔۔!*

✒۔۔۔۔۔انس بجنوری

افواہوں، غلط بیانیوں، سازشی نظریات اور گھٹیا و بے بنیاد خبروں کا ایک ریلا ہے جو حقائق اور سچ کی فصیلوں سے سر پٹخ پٹخ کر اندر گھسنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔لیکن جھوٹی خبروں، بے بنیاد تجزیوں اور طعنے کوسنے سے کبھی سچ مغلوب ہوا؟ وقتی طور پرچند آنکھیں ضرورچندھیائی جا سکتی ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ زیادہ دیر تک ہر ایک کو بے وقوف بنایا جائے۔ بلبلہ خواہ کسی قدر بڑا ہو، اسے چند لمحوں بعد پھٹنا ہی ہے،سورج نکلنے،دھوپ پڑنے سے گھاس پر گری نمی رخصت ہوجاتی ہے۔یہ قوانین قدرت ہیں۔ کسی کی خواہش یا چاہنے سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔۔۔۔بالآخر چند ہفتوں سے قوم کو جس بات کا شدت سے انتظار تھا اور جس للکار کو قوم سننا چاہتی تھی وہ گذشتہ کل حضرت مہتمم صاحب کی صاف وضاحت کے سامنے آنے کے بعد خوشی میں جھوم اٹھی اور ایک بار پھر دارالعلوم قوم کی آنکھ کا تارہ اور ملت اسلامیہ کا روشن ستارہ بن گیا۔۔۔۔۔بلآخر سازشوں کے بادل چھنٹے اور حق صاف نظر آنے لگا۔۔۔۔حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہ نے رجوع کے بعد ملک گیر احتجاج کی جس شدت کے ساتھ تائید کی یہ بلاشبہ آپ ہی کا حصہ ہے۔۔۔ہمیں اور ملت کے تمام بہی خواہوں کو حضرت والا سے ایسی ہی صاف وضاحت کی امید تھی اور کیوں نہ ہو جب کہ یہ ایک حقیقت ہے:
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں۔۔۔
بلاشبہ دارالعلوم دیوبند کی ایک روشن تاریخ رہی ہے جسے آج بھی علمائے دیوبند سختی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔جن قربانیوں اور فداکاریوں کا اندازہ استاذ محترم شارح بخاری حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری قدس سرہ کے شہرہء آفاق ترانے سے ہوتا ہے ، ترانہء دارالعلوم کی جامعیت، اشعار کی حسن آفرینی، مثالی بانکپن ، پاکیزہ مجموعہء سخن اور مقناطیسی جاذبیت پر کسے انکار ہوسکتا ہے، بلاشبہ یہ ایک شاہکار ہے ، جو ظفر بجنوری رحمہ اللہ کے قلم سے الہامی شکل میں وجود میں آیا ۔۔۔۔ترانے کی اثر انگیزی و دل پزیری ، جادوئی کلام کا رنگ و آہنگ اور فطری پاکیزگی ہر اس شخص کو گرویدہ کرلیتی ہے جو علوئے ظرف کا مالک اور صداقت کا پرستار ہے۔۔۔۔
کبھی مایوسی اور اضطراب کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو ظفر بجنوری کے اس کلام کو سن کر روح میں تازگی اور اکابر کے روحانی مآثر کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے،اور قلب و نظر کی تختی پر عظمتوں و عزیمتوں کے استعارے اور تکبیر مسلسل کی جھنکار پھوٹتی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔کبھی اس انداز میں سننے کی کوشش کریں کہ جس خاص کیفیت میں ڈوب کر حضرت ظفر بجنوری نے اس کو خون جگر سے رقم کیا ہے۔۔۔۔کبھی جائے تخیل کی اس دنیا میں جہاں خوشبو ہی خوشبو کا بسیرا ہے۔۔۔۔۔کبھی رخت سفر باندھے اس احاطے کی طرف جہاں محمود بہت تیار ہوئے، کبھی نظر اٹھائے اس وادی طرف جہاں سے حد درجہ شرر بیدار ہوئے۔۔۔کبھی فکر ولی اللہی کے اس عمیق سمندر میں غوطہ زنی کرے جو تنویر نبوت کی ضوء ہے۔۔۔۔کبھی جاکر اس میکدے کا نظارہ کرے جہاں کا ہر رند، رند نہیں پیر مغاں ہے۔۔۔آپ آئے تو سہی اس صحن چمن میں جہاں کی ہر شاخ باطل کے لیے تلوار ہے ۔۔۔۔۔کبھی اس دار قاسم کا معائنہ تو کرے جو حق پرستوں کی چھاونی ہے۔۔۔۔۔کبھی ان ذروں کی زیارت کریں کہ خورشید جن ذروں کو ہر صبح جگانے آتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ صرف جذباتی یا خوبصورت لفظوں کا سحر و طلسم نہیں اور نہ ہی شاعرانہ تخیل کی ایسی تعبیر ہے ، جس کی کوئی حقیقت باہر کی دنیا میں نہ پائی جاتی ہو ؛ بل کہ علمائے دیوبند کی تاریخ کا صفحہ صفحہ اس حقیقت پر گواہ اور سینہ سینہ عزیمت و وفا کے لہو سے گل رنگ و لرزا ہے ۔۔۔۔
حضرت بجنوری رحمہ اللہ کو اس کلام کی بہ دولت تاابد یاد رکھا جائے گا ۔۔۔۔ظفر بجنوری رحمہ اللہ صرف خشک مزاج مولانا نہیں تھے ؛ بل کہ علامہ تھے ، وہ رند و تماش بیں نہیں ؛ بل کہ خالص مذہبی در سگاہ کے بلند پایہ محدث تھے ، انھوں نے جام شریعت اور سندان عشق کو آپس میں ٹکرانے نہیں دیا ؛ لیکن اس کے باوجود وہ تغزل میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔۔وہ محض غزل گو نہیں ؛ بل کہ تاج دار تغزل تھے ۔۔
 ترانہء دارالعلوم ، مادر علمی اور اکابر دیوبند کے سچے اور مضبوط افکار و نظریات کا حقیقی ترجمان ہے۔۔۔۔!
جس سے حضرت کی دارالعلوم سے گہری شیفتگی ، سچی وارفتگی اور حقیقی وابستگی جھلکتی ہے ۔زندہ آباد ظفر بجنوری زندہ آباد۔۔۔۔آپ واقعی ظفرمندوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔۔۔۔!

آہ کیا درد بیان کیا گیا ہے اس ایک شعر میں، ظفر بجنوری کا پر اثر انداز دیکھیں ۔۔۔جس کو پڑھ کر ایک حساس دل جھوم اٹھتا ہے ، اور مادر علمی کی جرآت مند و طویل ترین تاریخ کا طواف کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔۔۔۔ جس میں جہاں دارالعلوم کی عظمت رفتہ اور اسلاف کے حیرت انگیز کردار کو ترقی پزیر ہونے کی دعا ہے تو وہیں پاکیزہ محافظ دستوں اور مقدس مسند نشینوں کے لیے انوار حرم  اور دل بیدار رکھنے کی تاکید بھی ہے۔۔گذشتہ کل  حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا رجوع اس زندہ دلی کی تازہ مثال بن کر سامنے آئی۔۔۔زندہ باد مفتی صاحب۔۔
یوں سینۂ گِیتی پر روشن، اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم،سینہ میں دلِ بیدار رہے۔۔!

*تو آخر مدارس خاموش کیوں ہیں؟*
رہا یہ سوال کہ فی الحال مدارس میدان میں کود کر احتجاج میں شریک کیوں نہیں؛  تو یہ عقلمندوں کا سوال نہیں اس لیے کہ دارالعلوم دیوبند    اور دیگر تمام تعلیمی درس گاہیں اس پوری ملت اسلامیہ کی خاطر اساسی طاقت اور بنیادی پلیٹ فارم کا درجہ رکھتی ہیں ، جہاں سے پوری اسلامی آبادی میں روشنی فراہم کی جاتی ہے، یہاں تعلیم و تعلم ہے تو آہ سحر گاہی بھی ، یہاں عبد اللہ بن مبارک کی حدیث دانی ہے تو امام اعظم کا تفقہ بھی ، غزالی کا فلسفہ ہے تو جنید بغدادی کا تصوف بھی اور آگے بڑھ کر کہوں تو فاروق و حیدر کی ایمان افروز شجاعت بھی ۔۔۔۔ جسے ہر سلیم الفطرت انسان تسلیم کرتا ہے، اس لیے مدارس کی دور اندیشی جذباتیت سے دوری ہی میں ہے ؛ تاکہ بوقت ضرورت آخری ہتھیار کام میں لاکر قوم کے ملی اور مذہبی تشخص کو باقی رکھنے کا ایک عظیم ہتھیار پہلے سے ہاتھ میں موجود ہو ۔۔۔۔
ہمارے سامنے "ترک ناداں" کی خونچکاں تاریخ میں 'ترک دانا' کا نمونہ موجود ہے کہ کس طرح شیخ محمود آفندی مدظلہ کے شیخ نے مادر گیتی کے سینوں میں مکتب کی شکل میں تعلیمی نظام کو باقی رکھ کر امید کا ایک چراغ جلایا جو اب پھل اور پھول کر آفتاب و ماہتاب بن چکا ہے جس کی وجہ سے "خلافت عثمانیہ" کی نشاہ ثانیہ کے آثار پیہم نظر آرہے ہیں۔۔۔۔۔!
 لیکن مدارس کے فضلا کی اکثریت غفلت و جمود کا شکار کیوں ہے؟ وہ کیوں مدارس کے سکوت سے اپنے سکوت کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔۔؟
جب کہ فضلاء ہی مدارس کی اصل طاقت ہے نہ کہ طلبہ!!
مدارس سے طلبہ اسی لیے فارغ ہوتے ہیں کہ دین کے ہر شعبے میں کام کرنے والے افراد امت کو میسر ہو، کچھ تعلیم و تعلم میں لگیں؛تو کچھ تبلیغ دین میں ، کچھ دین کی سرفرازی و سربلندی کی خاطر میدان کار زار میں شیطنت کو دھول چٹائیں تو کچھ کفریہ طاقتوں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے ،
اور کچھ سیاست میں قدم رکھ کر اپنے اسلاف کے قدم بہ قدم چلیں تاکہ اس امت کا اپنا الگ تشخص اور انفرادی وقار باقی رہے ؛ اب یہ آپ کے اوپر موقوف ہے کہ آپ کس راہ کا انتخاب کرتے ہیں ، یہاں آپ مدارس کے تابع نہیں اور نہ ہی مدارس آپ کو فراغت کے بعد فقط "تعلیم و تعلم" میں انحصار کی تلقین کرتے ہیں۔۔۔ ادارے کا اپنا ذاتی کوئی وجود نہیں ہوتا افراد اور فضلاء ہی اس کی عزت و شہرت میں چار چاند لگاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ابن خلدون اور ابن حزم کو سب جانتے ہیں لیکن ان کے مادر علمی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں مولانا قاسم نانوتوی مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا محمد علی مونگیری مولانا شبلی مولانا احمد رضا فاضل بریلوی مولانا مودودی رحمہم اللہ کے تذکروں سے سارا برصغیر معطر ہے ،لیکن ان کے مادرعلمی کا کسی کو اتہ پتہ نہیں۔ ہمارے بہت سے فضلاء سیاست سے صرف "انتخابی سیاست" کو مراد لے کر دامن کھینچ لیتے ہیں ؛ جب کہ سیاست کا مفہوم بہت وسیع تر ہے اور "سیاسیات" دین اسلام کا بہت عظیم باب ہے!!
سیاست سے بے رخی اس امت کے لیے نقصان دہ تو ثابت ہوسکتی ہے ، بل کہ ملت اسلامیہ ہند کے واسطے ایک لاینحل معمہ بن چکی ہے۔۔۔۔۔!
خیر ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی صفوں میں یگانگت فضا پیدا کرکے اسلامی سیاست کو پروان چڑھایا جائے۔۔۔۔۔
ضرورت ہے کہ اس دور التباس میں چند بنیادی اور با اثر شخصیات میدان میں آکر طلبہ کی پوری ٹیم کو ان کے داعیانہ مستقبل کی عقلی و شرعی ضرورتوں سے آگاہ کریں اور ان کے درمیان ایک مشن اور ایک تحریک کی روح پھونکیں وہ روح کہ جو ان کے جسموں سے نکل کر بہت دور جاچکی ہے اور پھر ایک دفعہ اسی مرکز کی طرف متوجہ کیا جائے جو خالص سلف صالحین کا راستہ اور حق پرست علماء کا منہج تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ بعض نام نہاد دانشوروں نے ٹیڑھے خطوط کھینچ کر نئی نئی پگڈنڈیاں نکال لیں اور انھیں پر چل کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔!
*"ہم کر بھی کیا سکتے ہیں"* اس ایک جملے نے مکمل اسلامی روحانیت کو ختم کرکے رکھ دیا آخر ہم نے یہ کیسے سوچ لیا ۔۔۔؟ ہمیں تو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کیا نہیں کرسکتے ؟ اسلام کی بے پناہ سچائی ہماری راہنما ،قرآنی طاقت ہماری رفیق ، اسوہ رسول ہمارا چراغ ، صحابہ کی فتوحات ہمارا مشعل اور اسلاف کے بے پناہ کارنامے ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔۔۔

فقیہ اعظم الشافعی الامام کی قدر و منزلت کے بارے میں کون ہے کہ جو ناواقف ہو ، آپ کا شمار امت کے بڑے چار اماموں میں ہوتا ہے، امام احمد بن حنبل جیسا صاحب عظیمت جن کے شاگردوں میں ہے۔۔۔
تفقہ اور افتاء کی اس منزل پر پہونچ کر امام شافعی چین سے نہیں بیٹھ گئے، ان کی نظر میں ایک مومن کی شخصیت محض قرطاس و قلم اور تعلیم و تعلم تک محدود نہ تھی، اور نہ وہ اس کو ایمانی معراج سمجھتے تھے ؛ بل کہ آپ نے تیر اندازی سیکھی اور اس میں اوج کمال حاصل کیا۔۔۔
چنانچہ وہ جس طرح باکمال علماء کے قلم کی حرکت پر وجد کرتے تھے ، ٹھیک اسی طرح ایک تیر انداز کا کمال تیر افگنی ان کی مجاہدانہ عقیدتوں کو بیدار کردیتا تھا۔۔۔!
شاید علامہ اقبال نے آپ ہی کی ذات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے:
یا وسعت ا فلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات!