میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
" کلیم عاجز "
عامر کاظمی
خضر پور - کلکتہ
دربھنگہ قلعہ گھاٹ، سبزی باغ ، شانتی باغ اور گھنٹہ گھر کے غیور نوجوانوں ، ماوں اور بہنوں سے گزارش ھے کہ " کنہیا کمار ہو یا چندر شیکھر آزاد " یا اور بھی کوئی لیڈر ، انکو سنیں لیکن ان پر انحصار نہ کریں اور نہ ہی انکے بہکاوے میں آکر اپنے جذبات کو بے قابو کرلیں - انکی تقریروں کو سن کر انکے لئے تالیاں بجاکر انکو اپنا رہبر نہ تسلیم کریں بلکہ ان سے یہ تقاضا کریں کہ یہ لڑائی صرف ہماری نہیں ھے ، یہ لڑائی دستور کے تحفظ کی ھے- ان لوگوں سے کھل کر کہیں کہ ہم تو دستور بچانے کیلئے سڑکوں پہ ہیں ہی ، آپ بھی اپنے سماج کو ہماری تحریک سے جوڑئیے اور اہنے لوگوں کو دستور کی حفاظت کے بارے میں بتائیے اور انکو قائل کیجئے ، ہم تو پہلے ہی سے جاگے ہوئے ہیں ، آپ انکو جگائیں جو آنکھیں کھول کر سونے کی اداکاری کررہے ہیں - ساتھ میں یہ بھی پیغام دیں کہ جدوجہد ہماری ، اسٹیج ہمارا ، مائک ہمارا اور لوگ بھی ہمارے پھر آپکی تقریریں سننے کیلئے تو ہم پیدا نہیں ہوئے ، ہمیں اپنے اندر سے مخلص لیڈرشپ کو ابھارنا ھے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی اسٹیج سے پروموٹ کرنا ھے - اگر آپ اپنے لوگوں کو ہماری تحریک سے نہیں جوڑ سکتے تو آپکو کوئی حق نہیں پہونچتا کہ ہماری جدوجہد کی سیڑھی پر چڑھ کر آپ اپنی بونی سیاسی قد کو اور اونچا کریں -
ہم نے ٧٢ برسوں تک یہی کیا ھے جسکے نتیجے میں ہم ہندوستانی الیکٹرول پولیٹکس میں حاشیے پر آچکے ہیں ، ہم نے ہمیشہ کنہیا کمار ، لالو یادو ، نتیش کمار ، مایا وتی ، اکھلیش یادو اور کانگریسیوں پر ہی تو بھروسہ کیا تھا - اب یہ غلطی ہم ایفورڈ نہیں کرسکتے ، اب ہمیں ان نام نہاد مسلم لیڈرشپ پر بھی بھروسہ نہیں کرنا ھے جو کبھی شکیل احمد ، عبدالباری صدیقی ، اشرف علی فاطمی ، تسلیم الدین ، شہاب الدین ، عبدالجلیل مستان ، غلام رسول بلیاوی ،خورشید افروز عالم ، شرف الدین اور محبوب علی قیصر کی اشکال میں رنگ بدل بدل کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر مصیبت کے وقت غائب ہو جاتے ہیں یا ہماری خاطر اپنی پارٹی لائن سے اوپر نہیں اٹھ پاتے تب ہم خود کو سیاسی طور پر یتیم سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، یہ ایسے صیاد ہیں جو دوسروں کے جال سے ہماری ووٹوں کا شکار کرتے ہیں اور مانندِ مچھلی ہمیں اپنی منھ مانگی قیمتوں پر فروخت کردیتے ہیں
اے میرے غیور نوجوانو! اپنی قیادت کو خود سنبھالنا سیکھو ، اب ہر کس و ناکس پر انحصار کا وقت نہیں بلکہ اپنی بکھری اور منتشر طاقت کو متحد و یکجا کرنے کا بہترین وقت ھے ، اس موقعہ کو گنوانا غیر دانشمندانہ عمل ہوگا - اگر اس بات پہ عمل کیا گیا تو آپ اپنی آنکھوں سے اپنی ہی بھیڑ سے مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، حسرت موہانی ، اشفاق اللہ خان اور میجر شہنواز خان کو ابھرتا دیکھیں گے تب آپکی نم آنکھیں بھی رشک سے اوپر کی جانب اٹھ جائینگیں -
درخواست گزار :
عامر کاظمی
خضر پور - کلکتہ
نوٹ : بہار اور اترپردیش کے احباب سے درخواست ھے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کردیں تاکہ زیادہ لوگوں تک بات چلی جائے ۔۔۔شکریہ
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
" کلیم عاجز "
عامر کاظمی
خضر پور - کلکتہ
دربھنگہ قلعہ گھاٹ، سبزی باغ ، شانتی باغ اور گھنٹہ گھر کے غیور نوجوانوں ، ماوں اور بہنوں سے گزارش ھے کہ " کنہیا کمار ہو یا چندر شیکھر آزاد " یا اور بھی کوئی لیڈر ، انکو سنیں لیکن ان پر انحصار نہ کریں اور نہ ہی انکے بہکاوے میں آکر اپنے جذبات کو بے قابو کرلیں - انکی تقریروں کو سن کر انکے لئے تالیاں بجاکر انکو اپنا رہبر نہ تسلیم کریں بلکہ ان سے یہ تقاضا کریں کہ یہ لڑائی صرف ہماری نہیں ھے ، یہ لڑائی دستور کے تحفظ کی ھے- ان لوگوں سے کھل کر کہیں کہ ہم تو دستور بچانے کیلئے سڑکوں پہ ہیں ہی ، آپ بھی اپنے سماج کو ہماری تحریک سے جوڑئیے اور اہنے لوگوں کو دستور کی حفاظت کے بارے میں بتائیے اور انکو قائل کیجئے ، ہم تو پہلے ہی سے جاگے ہوئے ہیں ، آپ انکو جگائیں جو آنکھیں کھول کر سونے کی اداکاری کررہے ہیں - ساتھ میں یہ بھی پیغام دیں کہ جدوجہد ہماری ، اسٹیج ہمارا ، مائک ہمارا اور لوگ بھی ہمارے پھر آپکی تقریریں سننے کیلئے تو ہم پیدا نہیں ہوئے ، ہمیں اپنے اندر سے مخلص لیڈرشپ کو ابھارنا ھے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی اسٹیج سے پروموٹ کرنا ھے - اگر آپ اپنے لوگوں کو ہماری تحریک سے نہیں جوڑ سکتے تو آپکو کوئی حق نہیں پہونچتا کہ ہماری جدوجہد کی سیڑھی پر چڑھ کر آپ اپنی بونی سیاسی قد کو اور اونچا کریں -
ہم نے ٧٢ برسوں تک یہی کیا ھے جسکے نتیجے میں ہم ہندوستانی الیکٹرول پولیٹکس میں حاشیے پر آچکے ہیں ، ہم نے ہمیشہ کنہیا کمار ، لالو یادو ، نتیش کمار ، مایا وتی ، اکھلیش یادو اور کانگریسیوں پر ہی تو بھروسہ کیا تھا - اب یہ غلطی ہم ایفورڈ نہیں کرسکتے ، اب ہمیں ان نام نہاد مسلم لیڈرشپ پر بھی بھروسہ نہیں کرنا ھے جو کبھی شکیل احمد ، عبدالباری صدیقی ، اشرف علی فاطمی ، تسلیم الدین ، شہاب الدین ، عبدالجلیل مستان ، غلام رسول بلیاوی ،خورشید افروز عالم ، شرف الدین اور محبوب علی قیصر کی اشکال میں رنگ بدل بدل کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر مصیبت کے وقت غائب ہو جاتے ہیں یا ہماری خاطر اپنی پارٹی لائن سے اوپر نہیں اٹھ پاتے تب ہم خود کو سیاسی طور پر یتیم سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، یہ ایسے صیاد ہیں جو دوسروں کے جال سے ہماری ووٹوں کا شکار کرتے ہیں اور مانندِ مچھلی ہمیں اپنی منھ مانگی قیمتوں پر فروخت کردیتے ہیں
اے میرے غیور نوجوانو! اپنی قیادت کو خود سنبھالنا سیکھو ، اب ہر کس و ناکس پر انحصار کا وقت نہیں بلکہ اپنی بکھری اور منتشر طاقت کو متحد و یکجا کرنے کا بہترین وقت ھے ، اس موقعہ کو گنوانا غیر دانشمندانہ عمل ہوگا - اگر اس بات پہ عمل کیا گیا تو آپ اپنی آنکھوں سے اپنی ہی بھیڑ سے مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، حسرت موہانی ، اشفاق اللہ خان اور میجر شہنواز خان کو ابھرتا دیکھیں گے تب آپکی نم آنکھیں بھی رشک سے اوپر کی جانب اٹھ جائینگیں -
درخواست گزار :
عامر کاظمی
خضر پور - کلکتہ
نوٹ : بہار اور اترپردیش کے احباب سے درخواست ھے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کردیں تاکہ زیادہ لوگوں تک بات چلی جائے ۔۔۔شکریہ