سی اے اے: اقوام متحدہ کی سپریم کورٹ سے رجوع
عالمی ادارہ انسانی حقوق کی کمشنر میشل بیچلٹ کا غیر معمولی قدم
سدھیر رنجن چودھری نے لوک سبھا میں معاملہ اُٹھایا
یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں:ہندوستان کا موقف
نئی دہلی۔4 ؍ مارچ: آئی این اے نیوز
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ہائی کمشنر مشیل بیچلٹ نے غیر معمولی قدم اُ ٹھاتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہندوستانی سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔دائر عرضی میں انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ انہیں بطور عدالت کے دوست شنوائی میں شامل ہونے کی منظوری دی جائے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب اقوام متحدہ نے ہندوستان سے جڑے کسی قانون کے خلاف اس کی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اسے سی اے اے کو لے کر ہندوستان پر دبائو بنانے کی کوشش بھی سمجھی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اقوام متحدہ کی طرف سے دائر عرضی پر ہندوستان نے سخت تبصرہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ اقوام متحدہ نے جینوار میں ہمارے مستقل سفارت خانے کو سوموار کو بتایا کہ ان کے دفتر نے سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کو لے کر ایک انٹروینشن عرضی دائر کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور قانون بنانے کو لے کر ہندوستانی پارلیمنٹ کی خودمختار اتھارٹی سے وابستہ ہے۔ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ ہندوستان کی خودمختاری سے متعلق کسی بھی مسئلے پر کسی غیر ملکی فریق کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون آئینی طور پر درست ہے اور ہمارے آئینی اقدار کے تمام شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ تقسیم ہند کے سانحے کی وجہ سے منظر عام پر آئے انسانی حقوق کے معاملات کے سلسلے میں ہمارے طویل المدتی قومی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ رویش کمار نے کہا، ’’ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم سب اپنی آزاد عدلیہ کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور اس پر اعتماد رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری مضبوط اور قانونی طور پر مستحکم پوزیشن سپریم کورٹ میں غالب آئے گی۔‘‘ادھر لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے لیڈرادھیر رنجن چودھری نے بھی اقوام متحدہ کے اس قدم کو لے کر مرکزی حکومت پر طنز کیا ہے۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا یہ بیرونی معاملہ ہے؟ کیوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کا یہ مدعا ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا ، یو این ایچ آر سی نے شکایت کی ہو۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک میں احتجاج کا سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے اور حال ہی میں دارالحکومت نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے فسادات جن میں 46 افراد مارے گئے تھے، اسی قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان تصادم سے شروع ہوئے تھے۔ملک کے صحافیوں کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔گذشتہ ہفتے عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ بیچلٹ نے شہریت کے متنازع قانون اور دلی فسادات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی قیادت کو مزید تشدد کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے متنازع قانون پاس کیے جانے کے فوری بعد عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق نے اس قانون کو 'بنیادی طور پر امتیازی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے اس پر دوبارہ غور کرنےکا مطالبہ کیا تھا۔
عالمی ادارہ انسانی حقوق کی کمشنر میشل بیچلٹ کا غیر معمولی قدم
سدھیر رنجن چودھری نے لوک سبھا میں معاملہ اُٹھایا
یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں:ہندوستان کا موقف
نئی دہلی۔4 ؍ مارچ: آئی این اے نیوز
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ہائی کمشنر مشیل بیچلٹ نے غیر معمولی قدم اُ ٹھاتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہندوستانی سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔دائر عرضی میں انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ انہیں بطور عدالت کے دوست شنوائی میں شامل ہونے کی منظوری دی جائے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب اقوام متحدہ نے ہندوستان سے جڑے کسی قانون کے خلاف اس کی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اسے سی اے اے کو لے کر ہندوستان پر دبائو بنانے کی کوشش بھی سمجھی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اقوام متحدہ کی طرف سے دائر عرضی پر ہندوستان نے سخت تبصرہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ اقوام متحدہ نے جینوار میں ہمارے مستقل سفارت خانے کو سوموار کو بتایا کہ ان کے دفتر نے سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کو لے کر ایک انٹروینشن عرضی دائر کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور قانون بنانے کو لے کر ہندوستانی پارلیمنٹ کی خودمختار اتھارٹی سے وابستہ ہے۔ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ ہندوستان کی خودمختاری سے متعلق کسی بھی مسئلے پر کسی غیر ملکی فریق کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون آئینی طور پر درست ہے اور ہمارے آئینی اقدار کے تمام شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ تقسیم ہند کے سانحے کی وجہ سے منظر عام پر آئے انسانی حقوق کے معاملات کے سلسلے میں ہمارے طویل المدتی قومی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ رویش کمار نے کہا، ’’ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ہم سب اپنی آزاد عدلیہ کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور اس پر اعتماد رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری مضبوط اور قانونی طور پر مستحکم پوزیشن سپریم کورٹ میں غالب آئے گی۔‘‘ادھر لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے لیڈرادھیر رنجن چودھری نے بھی اقوام متحدہ کے اس قدم کو لے کر مرکزی حکومت پر طنز کیا ہے۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا یہ بیرونی معاملہ ہے؟ کیوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کا یہ مدعا ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا ، یو این ایچ آر سی نے شکایت کی ہو۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک میں احتجاج کا سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے اور حال ہی میں دارالحکومت نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے فسادات جن میں 46 افراد مارے گئے تھے، اسی قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان تصادم سے شروع ہوئے تھے۔ملک کے صحافیوں کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔گذشتہ ہفتے عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ بیچلٹ نے شہریت کے متنازع قانون اور دلی فسادات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی قیادت کو مزید تشدد کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے متنازع قانون پاس کیے جانے کے فوری بعد عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق نے اس قانون کو 'بنیادی طور پر امتیازی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے اس پر دوبارہ غور کرنےکا مطالبہ کیا تھا۔