اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *بجرنگ دل کے بندر کتنے بہادر ہیں؟* دل سے دل تک ارقم امیر سندھی المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 3 March 2020

*بجرنگ دل کے بندر کتنے بہادر ہیں؟* دل سے دل تک ارقم امیر سندھی المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا

*بجرنگ دل کے بندر کتنے بہادر ہیں؟*

دل سے دل تک
ارقم امیر سندھی
المعلم بمدینۃ العلوم گاگریا

چار سال قبل کی بات ہے۔ مسلم نوجوان موٹر سائیکل اور بندوق لیکر شکار کے لیے نکل پڑے۔ رات گھپ اندھیری تھی، ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وہ سرچ لائٹ کی مدد سے ہرنوں کو تلاش کرتے کرتے ہندوؤں کے گھروں کے قریب جا پہنچے۔ یہ ان کا اکثر معمول تھا۔ کمبخت ہرنوں نے بھی زیادہ تر وہیں ہونا تھا۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ ہندوؤں میں وشنوئی ذات کے لوگ ہرن کو معبود کا درجہ دیتے ہیں۔ ادھر شکاریوں کے پھیرے روز کا معمول تھا۔ گھروں میں موجود بڑے بوڑھے اور جوان حتی الامکان شکاریوں کو نظر انداز کرتے، اکثر الجھنے سے کنی کتراتے تھے۔ کبھی کبھار اپنی موجودگی اور بیداری کا احساس دلاتے تو شکاری بھاگ جایا کرتے تھے۔ بد قسمتی سے اس دن ایک سنگھی، زہریلا ہندو گھر پر تھا، گھر والوں کے منع کرنے اور لاکھ سمجھانے کے باوجود اس نے گاڑی کی لائٹیں بند کرکے شکاریوں کا پیچھا شروع کردیا۔

شکاریوں نے بھی محسوس کر لیا کہ ان کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ نوخیز گبرو نوجوان نے بندوق پر اپنی گرفت مضبوط کی، ٹریگر پر انگلی رکھ کر مستعد ہو گیا۔ اس کے ساتھی نے بائک سنبھال کر اپنی راہ لی۔ آگے نا ہموار سڑک پر پہلے گاڑی کے انجن کی تیز آواز سنائی دی، وہ کچھ سمجھ پاتے اس سے قبل ہی گاڑی ان کے سر پر پہنچ چکی تھی۔ ہڑ بڑاہٹ میں ان کی موٹر سائینکل بند ہوگئی۔ قریب تھا کہ گاڑی انہیں کچل کر رکھ دیتی۔ مگر پہلے گاڑی رکی، لائٹ چالو ہوئی پھر ایک بندہ اتر کر ان کے پاس آیا۔ پہلے انہیں سخت وسست کہا، پھر اسلام اور مسلمانوں پر بھونکنے لگا۔
"فاروق! اب کس بات کا انتظار ہے؟"
بڑے صیاد نے کہا
یہ سننے کی دیر تھی کان پھاڑ دھماکے کے ساتھ ٹوپی دار بندوق نے آگ اگلی متکبر مشرک وہیں ڈھیر ہوگیا۔

یہ کوئی عام حادثہ یا ان ہونا واقعہ نہیں تھا۔ موجودہ ماحول میں کسی مسلم کے ہاتھ سے غیر مسلم کا قتل وہ بھیانک جرم ہے، جس کی سزا پوری قوم بھگتے پھر بھی کم ہے۔ متعصب مشرک قوم اپنے آپ کو پاک!  باقی سب قوموں کو ناپاک اورملیج سمجھتی ہے۔ جس طرح ہم ایک انسان کو بچانے کے لیے کیڑے مکوڑوں کی پرواہ نہیں کرتے، ایسے ہی یہ اپنے ایک آدمی کوبچانے کے لیے کتنے بھی انسانوں کا خون جائز سمجھتے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہیں ہریانہ اور راجستھان کے بدمعاش، غنڈے اور بجرنگ دل کے بندر مشتعل ہوئے۔ غیر قانونی ہتھیار لیے زخمی سانپ کے طرح پھنکارتے، اسلحہ لہراتے انتقام اور صرف اور صرف انتقام کے نعرے لگاتے جمع ہوئے۔ ایک کے بدلے تمام مسلم ڈھانیوں (گھروں) کو جلانا اور مکینوں کو قتل کرنا۔ یہ منصوبہ تیار تھا، بس عمل کرنے کی دیر تھی لیکن مقامی لوگ صلح چاہتے تھے۔ انہیں زندگی ان مسلمانوں کے ساتھ گزارنی تھی۔ مگر بجرنگ دل کے بزدل بندر جن کے منہ کو نہتے مظلوم مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے۔ وہ کسی طور پر نہیں مان رہے تھے۔

حملے سے چند گھنٹے قبل ایک معمر بزرگ نے کھڑے ہوکر کہا:"مسلوں کو مارنے سے پہلے میری اک بات غور سے سن لو۔ کل جب پولیس نے چھاپہ مارا تو میرے پڑوسی علاؤالدین کے گھر سے دوبندوق بر آمد ہوئی، جبکہ اس کی مالی حالت یہ ہے کہ ایک وقت کھانا ملتا ہے تو دوسرا وقت بھوکا رہ کر گزارتا ہے۔ اب تم اندازہ لگا لو کہ مالدار ملوں کے پاس کیا کچھ ہو سکتا ہے؟ یہ بات یاد رکھنا! یہاں سخت رد عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ بس یوں سمجھ لو یہ پتھر بہت بھاری ہے"

اتنا سننا تھا کہ پورے مجمع کو گویا سانپ سونگ گیا۔ لہراتے بازو سست پڑھ گئے۔ چیختے گلے خشک ہوگئے، بد مست ہاتھی کی طرح جھومتے کافر اب چوہوں کے طرح کانپ رہے تھے۔ موت کے سوداگر اب موت کے تصور ہی سے پتھرا  گئے۔ آن کی آن میں!  کسی نے دائیں بائیں دیکھا اور نو دو گیارہ ہوا تو کوئی پتلی گلی پکڑ کر فرار ہوا۔

کسی نہتے کو پکڑ کر ہجومی تشدد کا نشانہ بناناہو، یا بے بس لاچار آدمی پر ظلم و جبر کرنا ہو۔ سرکار کی سر پرستی میں دہشت مچانی ہو یا پولیس کی اعانت سے خون خرابہ کرنا ہو تو ان کی جرات، بہادری دیکھنے لائک ہوتی ہے۔ مگر جہاں مرنے والوں نے تھوڑی سی مزاحمت کی، یا ذارا سے ہاتھ پیر مارے تو ایسی دوڑ لگاتے ہیں کہ ہرن کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں۔ دہلی فسادات کی ویڈیو آپ دیکھ لیں تو آپ کو بھی حق الیقین ہوجائے گا۔

ہند میں آج تک ہوئے فسادات میں اکثر ایسا ہوا ہے۔ سرکار نے مسلمانوں کو بے دست وپا کرکے مسلح، تربیت یافتہ غنڈوں کے آگے پھینک دیا۔ دفاع کرنے والوں پر پولیس پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑتی۔ تب یہ بہادری سے سینہ تان کر چلتے، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو اچھال کر تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کرتے۔ اس بے شرم اس پر ایک دوسرے کو داد دیتے۔

ابھی دہلی میں بھی وہی پرانی تاریخ دوہرائی گئی۔ سرکار کی مرضی، پولیس کی نصرت و حمایت کے ساتھ مسلمانوں پر منظم حملے کیے گئے، مساجد کو مسمار کیا گیا، قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی۔ کونسا ظلم تھا جو مظلوم مسلمانوں پر نہیں ڈھایا گیا۔ مگر جیسے ہی کٹتے، پٹتے، لٹتے، مرتے مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لیے مزاحمت کی تو پورے ملک کی چیخیں نکل گئیں۔ کیجروال، امت شاہ اور ملک کا میڈیا چیخ چیخ کر سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ اس فساد کا اصل مجرم کون ہے؟  مسلمانوں سے اپنی شکست کا بدلہ لے رہے بی جی پی والے جان لیں اور کان کھول کر سن لیں۔ اب ہم نے بھی طے کر لیا ہے۔ گاجر مولی کی طرح کٹنے اور بھیڑبکریوں کی طرح مرنے اور گھٹ کر دب کر جینے کے بجائے آزادی، وقار جرات کے ساتھ جئیں گے یا سینہ تان کر گولی کھائی گے۔
سوچا ہے کفیل اب کچھ بھی ہو ہر حال میں اپنا حق لیں گے
عزت سے جئے تو جی لیں گے یا جام شہادت پی لیں گے