برا، دربھنگہ(آئی این اے نیوز 21/مئی 2020) موت ایک حقیقت ہے ، ہر نفس کو اپنے متعینہ وقت پر موت آنی ہے ، لیکن بعض شخصیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے انتقال کا صدمہ صدیوں ہوا کرتا ہے ، انہیں میں سے ہندوستان کے مشہور و معروف عالم دین ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ، استاذ الاساتذہ درجنوں کتابوں کے مصنف حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کا انتقال ہے،
حضرت کے انتقال کی وجہ سے پوری ملت اسلامیہ خصوصا دار العلوم دیوبند کا بڑا علمی خسارہ ہوا ہے ، حضرت ؒ ’’ موت العالم موت العالم‘‘ ( ایک عالم ربانی کی موت پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے )کے بجاطور پر مصداق تھے ، ان خیالات کااظہار متحرک و فعال نوجوان عالم دین مولانا ابوالفضل قاسمی صاحب نے تعزیتی کلمات میں کیا ،انہوں نے مزید اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حضرت والا کی صلبی اولادیں ہی نہیں بلکہ ہزاروں روحانی اولادیں بھی یتیم ہوگئیں، حضرت کی وفات سے صرف ان کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ حضرت کے ہزاروں شاگرد اور سارے عالم کے دینی و علمی حلقے سوگوار ہیں، حضرت کی رحلت دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے جانے سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا بہت مشکل ہے۔مولانا ابوالفضل نے بتلایا کہ 1393ھ میں دار العلوم دیوبند کے مسند درس و تدریس کے لیے مفتی صاحب کا انتخاب عمل میں آیا اور 2020ء تک تقریبا نصف صدی پر محیط تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، مفتی صاحب کے اسباق بے حد مقبول، مرتب اور معلومات سے بھر پور ہوتے تھے، طلبہ میں عموما ان کی تقریر نوٹ کر لینے کا رجحان پایا جاتا تھا، ان کی تقریر میں اتنا ٹہراؤ اور اتنی شفافیت ہوتی ہے کہ لفظ بلفظ اسے نوٹ کر لینے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی، دارالعلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ برسوں ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق ان سے متعلق رہیں۔ دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت کے بعد (1429ھ مطابق 2008ء) سے بخاری شریف جلد اول کا درس بھی ان سے متعلق کر دیا گیا، اب بوقت انتقال دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے، اوقات کی پابندی اور کاموں میں انہماک، دین میں تصلب ان کے اہم قابل تقلید اوصاف ہیں۔
فقہ وفتاویٰ میں حضرت مفتی صاحب امام کا درجہ رکھتے تھے، فقہی اجتماعات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور ان کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کی بہت سی کتابیں دار العلوم سیمت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں، مفتی صاحب کی وفات سے علم و فن کا روشن ستارہ اور علماء دیوبند کاآفتاب غروب ہوگیا۔آخر میں نوجوان عالم دین نے کہا کہ حضرت ؒ کہنہ مشق محدث و فقیہ تھے ، اللہ تعالیٰ نے افہام و تفہیم کا زبردست ملکہ عطا فرمایا تھا ، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے علمی ذخائر کو ان کے لئے ذخیرئہ آخرت بنائے ۔
حضرت کے انتقال کی وجہ سے پوری ملت اسلامیہ خصوصا دار العلوم دیوبند کا بڑا علمی خسارہ ہوا ہے ، حضرت ؒ ’’ موت العالم موت العالم‘‘ ( ایک عالم ربانی کی موت پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے )کے بجاطور پر مصداق تھے ، ان خیالات کااظہار متحرک و فعال نوجوان عالم دین مولانا ابوالفضل قاسمی صاحب نے تعزیتی کلمات میں کیا ،انہوں نے مزید اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حضرت والا کی صلبی اولادیں ہی نہیں بلکہ ہزاروں روحانی اولادیں بھی یتیم ہوگئیں، حضرت کی وفات سے صرف ان کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ حضرت کے ہزاروں شاگرد اور سارے عالم کے دینی و علمی حلقے سوگوار ہیں، حضرت کی رحلت دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے جانے سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا بہت مشکل ہے۔مولانا ابوالفضل نے بتلایا کہ 1393ھ میں دار العلوم دیوبند کے مسند درس و تدریس کے لیے مفتی صاحب کا انتخاب عمل میں آیا اور 2020ء تک تقریبا نصف صدی پر محیط تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، مفتی صاحب کے اسباق بے حد مقبول، مرتب اور معلومات سے بھر پور ہوتے تھے، طلبہ میں عموما ان کی تقریر نوٹ کر لینے کا رجحان پایا جاتا تھا، ان کی تقریر میں اتنا ٹہراؤ اور اتنی شفافیت ہوتی ہے کہ لفظ بلفظ اسے نوٹ کر لینے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی، دارالعلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ برسوں ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق ان سے متعلق رہیں۔ دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت کے بعد (1429ھ مطابق 2008ء) سے بخاری شریف جلد اول کا درس بھی ان سے متعلق کر دیا گیا، اب بوقت انتقال دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے، اوقات کی پابندی اور کاموں میں انہماک، دین میں تصلب ان کے اہم قابل تقلید اوصاف ہیں۔
فقہ وفتاویٰ میں حضرت مفتی صاحب امام کا درجہ رکھتے تھے، فقہی اجتماعات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور ان کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کی بہت سی کتابیں دار العلوم سیمت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں، مفتی صاحب کی وفات سے علم و فن کا روشن ستارہ اور علماء دیوبند کاآفتاب غروب ہوگیا۔آخر میں نوجوان عالم دین نے کہا کہ حضرت ؒ کہنہ مشق محدث و فقیہ تھے ، اللہ تعالیٰ نے افہام و تفہیم کا زبردست ملکہ عطا فرمایا تھا ، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے علمی ذخائر کو ان کے لئے ذخیرئہ آخرت بنائے ۔