ازقلم مفتی محمد نوراللہ قاسمی دربھنگوی
______________
فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں اُس صدقہ کا نام صدقہٴ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ مکمل ہوجانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہٴ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں
کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا زَکَوٰۃُ الْفِطْرِ طُہْرَۃٌ لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ وَالرَّفثِ، وَطُعْمَۃٌ لِّلْمَسَاکِیْن صدقہٴ فطر روزہ دار کی بے کار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابو داؤد، ۱۶۰۶، ابن ماجہ، ۱۸۷۲)
انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض کیا ہے جس کی حکمت یہ ہے کہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں۔ صدقۂ فطر میں روزہ داروں کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور اُن کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مال داروں کے گھروں میں تو اُس روز عید ہوتی ہے، مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جب کہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے مال دار اور اچھے کھاتے پیتے لوگوں پر لازم ٹھہرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہٴ فطر دے دیں، تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی اچھا کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ (ابوداؤد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ صدقہٴ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ترمذی)
جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکاۃ واجب ہو یا اس پرزکاۃ تو واجب نہیں لیکن ضروری اسباب سے ز ائد اتنی قیمت کا مال یا سامان اس کے پاس موجود ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہوتاہے چاہے وہ مال تجارت کا ہو یانہ ہو اور چاہے سال پورا گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو اور اس صدقہ کو شرع میں صدقہ فطر کہتے ہیں ۔
عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ اور عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اگر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا تو بعد میں بھی ادا کرنا ہوگا، لیکن بعد میں ادا کرنے سے اس صدقہ کی فضیلت ختم ہوجائے گی، اور یہ عام صدقہ بن جائے گا، نیز عید الفطر کی نماز کے بعد تک تاخیر مکروہ ہے۔ غریب کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ صدقہ عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک میں بھی ادا کیا جاسکتاہے۔
______________
فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں اُس صدقہ کا نام صدقہٴ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ مکمل ہوجانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہٴ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں
کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا زَکَوٰۃُ الْفِطْرِ طُہْرَۃٌ لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغوِ وَالرَّفثِ، وَطُعْمَۃٌ لِّلْمَسَاکِیْن صدقہٴ فطر روزہ دار کی بے کار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابو داؤد، ۱۶۰۶، ابن ماجہ، ۱۸۷۲)
انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض کیا ہے جس کی حکمت یہ ہے کہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں۔ صدقۂ فطر میں روزہ داروں کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور اُن کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مال داروں کے گھروں میں تو اُس روز عید ہوتی ہے، مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جب کہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے مال دار اور اچھے کھاتے پیتے لوگوں پر لازم ٹھہرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہٴ فطر دے دیں، تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی اچھا کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ (ابوداؤد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ صدقہٴ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ترمذی)
جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکاۃ واجب ہو یا اس پرزکاۃ تو واجب نہیں لیکن ضروری اسباب سے ز ائد اتنی قیمت کا مال یا سامان اس کے پاس موجود ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہوتاہے چاہے وہ مال تجارت کا ہو یانہ ہو اور چاہے سال پورا گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو اور اس صدقہ کو شرع میں صدقہ فطر کہتے ہیں ۔
عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ اور عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اگر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا تو بعد میں بھی ادا کرنا ہوگا، لیکن بعد میں ادا کرنے سے اس صدقہ کی فضیلت ختم ہوجائے گی، اور یہ عام صدقہ بن جائے گا، نیز عید الفطر کی نماز کے بعد تک تاخیر مکروہ ہے۔ غریب کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ صدقہ عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک میں بھی ادا کیا جاسکتاہے۔