*یہ زمانہ ہے قلم کا!*
تحریر: اسعداللہ ابن سہیل احمداعظمی
*صفحہ کاغذ پہ جب موتی* *لٹاتاہے قلم*
*ندرتِ افکار کے جوہردکھاتاہے* *قلم*
*بزرگانِ علم وفن کی خلوتوں* *کا آشنا*
*ان کے فکروفھم کی باتیں* *سناتاہے قلم*
تاریخ عالم پرایک نظردوڑانے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قلم کے استعمال سے اگر کوٸی چاہے تو اخوت ومحبت، بھاٸی چارگی کو پھیلاٸے اور اگر چاہے تواسی قلم کے استعمال سے نفرت وعداوت، بغض وعناد کا بازار گرم کرے، قلم کی اہمیت یوں توہردور اور ہرزمانے میں مسلم رہی ہے،ماضی کے افسانے ہوں، حال کے واقعات، یا مستقبل کے لاٸحہ عمل سب اسی کے زیرِ اثرہوتے ہیں۔۔قلم کے بارے میں قرآن یوں گویاہے "الذی علم بالقلم"تو کبھی قرآن اس کی قسم کھاتےہوٸے کہتاہے"ن والقلم ومایسطرون" اور اگرہم آقاٸے نامدار کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر جب بھی وحی کا نزول ہوتا فوراً اس کولکھنے کا حکم دیتے، اسی طرح آپ نے کٸی خطوط لکھواکر کافراورعیساٸی بادشاہوں کی طرف بھیجے جسکی وجہ سے وہ حلقہ بگوش اسلام ہوٸے۔۔۔۔
*تاریخ*
اگرہم قلم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حدیث شریف ہمیں مقصود تک رہنمائی کرتی ہے۔ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، پھر اس کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے عرض کیا : ائے اللہ میں کیا لکھوں؟ رب العزت کی بارگاہ سے جواب ملاکہ تقدیر لکھو۔بس اسی قلم سے وہ سب کچھ لکھا جو گزر چکی ہیں اور ان سب چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ (ترمذی 2155)
اگر مادی دنیا میں ایجاد قلم کے موضوع پر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام قلم کے اول موجد ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا۔ (البدا یہ النہایہ )
قلم ہی کے استعمال سے امام بخاریؒ نے صحیح البخاری جیسی عظیم کتاب امت کے سپردکی، جس کو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ"کا درجہ حاصل ہے، اسی قلم کے استعمال نے سقراط، افلاطون، اور بوعلی سیناکے ناموں کو ابھی تک زندہ رکھاہے۔۔
دورِحاضر میں قلم کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے چونکہ اس دور میں اسلام اور مسلمان پرزیادہ ترحملے قلم ہی کے ذریعے کٸے جارہے ہیں اور یہ کہاوت یادآرہی ہے کہ "قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہتھیارہے" اس ٹیکنالوجی دور میں تلوار توصرف عجاٸب گھرکی رونق بن چکی ہے، لیکن اس کے کارناموں سے انکار نہیں
قلم کے استعمال کے لٸے ہمیں کتابوں کے مطالعہ کی بھی ضروت ہے بغیرمطالعہ کے لکھنےکی استعداد پیدانہیں ہوسکتی اسلٸے ضروری ہے کہ ہم کتابوں کامطالعہ کریں اور اگر خدانے کسی کو قدرتی طور پرلکھنے کی صلاحیت سے نوازاہے تو بھی مطالعہ کرے کیونکہ مطالعے سے تحریر میں شیفتگی اور پختگی پیداہوتی ہے۔۔۔
مطالعہ کے لٸے کونسے مصنف کی کتاب بہترہوگی؟ اس کے لٸے قارٸین اہل علم اور کتب شناش سے رجوع کریں۔۔۔۔البتہ بطور آسانی میں چند مصنف کا نام ذکرکٸے دیتاہوں۔۔۔مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ، مولاناابوالکلام آزادؒ، مولانااشرف علی تھانویؒ،مفتی تقی عثمانی مدظلہ وغیرھم۔۔۔
سقراط ایک موقع پرکہتاہے اپناوقت دوسروں کی تحریروں کے مطالعے اور افکار سے روشنی حاصل کرنے سے اپنی لیاقت بڑھانے میں صرف کرو اسی طرح وہ چیزیں بآسانی حاصل ہوجاٸیں گی جن کے حصول کے لٸے دوسروں کو محنتِ شاقہ اٹھانی پڑی۔۔
*کھلتے ہیں اندھیروں میں* *اجالوں کے دریچے*
*آتی ہے سحر رات کی منزل۔سے* *گزر کر*
آج بہت سے حضرات کہتے ہیں کہ ہمیں لکھنا نہیں آتا،یاہم لکھ نہیں سکتے ،یہ بات قبول نہیں "اگر ہمت کریں پھرکیانہیں انسان کے بس میں"ضروری نہیں ہے کہ پہلے ہی دفعہ ہماری تحریر ادبی پیراہن سے شاٸشتہ وششتہ ہو یاتعبیرات وامثال کے گل کھلیں یاتشبیہات واستعارات کا جوہر بکھیریں یہ سب رفتہ رفتہ ہوگا، شرط تو یہ ہے کہ ہم لکھنا شروع کریں دوچار سطرہی بے ترتیب بے جوڑ ہی سہی۔۔۔ ان شاء اللہ آج نہیں تو کل ہم ایک اچھے قلمکار بن سکیں گے۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی کئی شکلیں تبدیل کیں۔ پنکھ کو بھی بطور قلم استعمال کیا جاتا رہا۔ سرکنڈے کو تراش کر بھی قلم بنایا گیا۔ پین، پنسل، بال پوائنٹ اور پوائنٹر کی شکل میں بھی قلم استعمال ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کا کی بورڈ اور موبائل فون کے بٹن قلم کی جدید ترین اشکال ہیں۔ اب زیادہ تر کی بورڈ کے ذریعے کمپوزنگ کی جاتی ہے۔ لیکن قلم کا استعمال آج بھی رائج ہے۔ الغرض قلم کا استعمال ازل سے ہے اور تاقیامت رہے گا اور قلم اسی طرح قلم کار پیدا کرتی رہے گی۔۔۔
تحریر: اسعداللہ ابن سہیل احمداعظمی
*صفحہ کاغذ پہ جب موتی* *لٹاتاہے قلم*
*ندرتِ افکار کے جوہردکھاتاہے* *قلم*
*بزرگانِ علم وفن کی خلوتوں* *کا آشنا*
*ان کے فکروفھم کی باتیں* *سناتاہے قلم*
تاریخ عالم پرایک نظردوڑانے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قلم کے استعمال سے اگر کوٸی چاہے تو اخوت ومحبت، بھاٸی چارگی کو پھیلاٸے اور اگر چاہے تواسی قلم کے استعمال سے نفرت وعداوت، بغض وعناد کا بازار گرم کرے، قلم کی اہمیت یوں توہردور اور ہرزمانے میں مسلم رہی ہے،ماضی کے افسانے ہوں، حال کے واقعات، یا مستقبل کے لاٸحہ عمل سب اسی کے زیرِ اثرہوتے ہیں۔۔قلم کے بارے میں قرآن یوں گویاہے "الذی علم بالقلم"تو کبھی قرآن اس کی قسم کھاتےہوٸے کہتاہے"ن والقلم ومایسطرون" اور اگرہم آقاٸے نامدار کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر جب بھی وحی کا نزول ہوتا فوراً اس کولکھنے کا حکم دیتے، اسی طرح آپ نے کٸی خطوط لکھواکر کافراورعیساٸی بادشاہوں کی طرف بھیجے جسکی وجہ سے وہ حلقہ بگوش اسلام ہوٸے۔۔۔۔
*تاریخ*
اگرہم قلم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حدیث شریف ہمیں مقصود تک رہنمائی کرتی ہے۔ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، پھر اس کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے عرض کیا : ائے اللہ میں کیا لکھوں؟ رب العزت کی بارگاہ سے جواب ملاکہ تقدیر لکھو۔بس اسی قلم سے وہ سب کچھ لکھا جو گزر چکی ہیں اور ان سب چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ (ترمذی 2155)
اگر مادی دنیا میں ایجاد قلم کے موضوع پر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام قلم کے اول موجد ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا۔ (البدا یہ النہایہ )
قلم ہی کے استعمال سے امام بخاریؒ نے صحیح البخاری جیسی عظیم کتاب امت کے سپردکی، جس کو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ"کا درجہ حاصل ہے، اسی قلم کے استعمال نے سقراط، افلاطون، اور بوعلی سیناکے ناموں کو ابھی تک زندہ رکھاہے۔۔
دورِحاضر میں قلم کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے چونکہ اس دور میں اسلام اور مسلمان پرزیادہ ترحملے قلم ہی کے ذریعے کٸے جارہے ہیں اور یہ کہاوت یادآرہی ہے کہ "قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہتھیارہے" اس ٹیکنالوجی دور میں تلوار توصرف عجاٸب گھرکی رونق بن چکی ہے، لیکن اس کے کارناموں سے انکار نہیں
قلم کے استعمال کے لٸے ہمیں کتابوں کے مطالعہ کی بھی ضروت ہے بغیرمطالعہ کے لکھنےکی استعداد پیدانہیں ہوسکتی اسلٸے ضروری ہے کہ ہم کتابوں کامطالعہ کریں اور اگر خدانے کسی کو قدرتی طور پرلکھنے کی صلاحیت سے نوازاہے تو بھی مطالعہ کرے کیونکہ مطالعے سے تحریر میں شیفتگی اور پختگی پیداہوتی ہے۔۔۔
مطالعہ کے لٸے کونسے مصنف کی کتاب بہترہوگی؟ اس کے لٸے قارٸین اہل علم اور کتب شناش سے رجوع کریں۔۔۔۔البتہ بطور آسانی میں چند مصنف کا نام ذکرکٸے دیتاہوں۔۔۔مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ، مولاناابوالکلام آزادؒ، مولانااشرف علی تھانویؒ،مفتی تقی عثمانی مدظلہ وغیرھم۔۔۔
سقراط ایک موقع پرکہتاہے اپناوقت دوسروں کی تحریروں کے مطالعے اور افکار سے روشنی حاصل کرنے سے اپنی لیاقت بڑھانے میں صرف کرو اسی طرح وہ چیزیں بآسانی حاصل ہوجاٸیں گی جن کے حصول کے لٸے دوسروں کو محنتِ شاقہ اٹھانی پڑی۔۔
*کھلتے ہیں اندھیروں میں* *اجالوں کے دریچے*
*آتی ہے سحر رات کی منزل۔سے* *گزر کر*
آج بہت سے حضرات کہتے ہیں کہ ہمیں لکھنا نہیں آتا،یاہم لکھ نہیں سکتے ،یہ بات قبول نہیں "اگر ہمت کریں پھرکیانہیں انسان کے بس میں"ضروری نہیں ہے کہ پہلے ہی دفعہ ہماری تحریر ادبی پیراہن سے شاٸشتہ وششتہ ہو یاتعبیرات وامثال کے گل کھلیں یاتشبیہات واستعارات کا جوہر بکھیریں یہ سب رفتہ رفتہ ہوگا، شرط تو یہ ہے کہ ہم لکھنا شروع کریں دوچار سطرہی بے ترتیب بے جوڑ ہی سہی۔۔۔ ان شاء اللہ آج نہیں تو کل ہم ایک اچھے قلمکار بن سکیں گے۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی کئی شکلیں تبدیل کیں۔ پنکھ کو بھی بطور قلم استعمال کیا جاتا رہا۔ سرکنڈے کو تراش کر بھی قلم بنایا گیا۔ پین، پنسل، بال پوائنٹ اور پوائنٹر کی شکل میں بھی قلم استعمال ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کا کی بورڈ اور موبائل فون کے بٹن قلم کی جدید ترین اشکال ہیں۔ اب زیادہ تر کی بورڈ کے ذریعے کمپوزنگ کی جاتی ہے۔ لیکن قلم کا استعمال آج بھی رائج ہے۔ الغرض قلم کا استعمال ازل سے ہے اور تاقیامت رہے گا اور قلم اسی طرح قلم کار پیدا کرتی رہے گی۔۔۔