مولانا ابوالفضل قاسمی،برا دربھنگہ
_____________
وطن عزیز میں گزشتہ ٧/٦ سالوں میں مسلمانوں پر ان کے مذہب اور اسلامیت کی بنیاد پر جس قدر حملے ہوئے،ان سے ہر ذی شعور واقف ہیں،منصوبہ بند طریقہ پر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیا، باہتمام مسلم دشمنی کے جذبات کو ابھارا اور مسلمانوں کے خلاف خونی
کارروائیوں کو اکسایا گیا ،جس کے نتيجہ میں بے شمار جانیں ہلاک ہوئیں، " ماب لنچنگ " اور دہلی فسادات میں بہت سے افراد کی جانیں تلف ہوئیں ۔ بہت چالاکی کے ساتھ منصوبہ بند طریقہ سے کرونا وایرس کو تبلیغی جماعت سے جوڑا گیا پھر اس چالبازی کو آگے بڑھاتے ہوئے گودی میڈیا نے ملک بھر میں مسلم دشمنی کے جذبات کو انگیز کیا اس طرح ملک بھر میں لاک ڈاون کے باوجود مسلمانوں پر ان کے مذہب اور اسلامیت کی بنیاد پر حملے شروع ہوگئے، بازاروں میں بائیکاٹ اور کالونیوں سے بےدخل کرنے کی صدائیں ہیں ، کورونا وائرس کو مسلمانوں کے سر ڈال کر ملک بھر میں زہرناک مسلم دشمنی کو پروان چڑھایا جارہاہے ،فرقہ پرستی کی فضا دن بدن بڑھتی جارہی ،پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کااضافہ ہوا ہےیہاں تک کہ بعض جگہ اس وجہ سے ان پر حملہ بھی ہوئے اور اب ہسپتالوں میں ان کی اموات کے بازار سجائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کےلیے یہ شفاء خانے اب موت خانے ثابت ہورہے ہیں۔ابھی حال ہی کی بات ہے کہ جامعہ احسن العلوم جہاں گیر پوری دہلی کے استاد قاری شمیم الدین صاحب کو گیس کی شکایت تھی ،الٹی آئی اور منھ سے بلڈ آنا شروع ہوا ، کچھ دیر بعد بےہوش ہوگئے ،ان کے رشتہ داروں نے ٨ جون ٢۰٢۰ء کو ان کو "جی پی پنتھ "ہاسپیٹل لے گئے،لیکن پنتھ والوں نے داخکہ لینے سے انکار کردیا ،اس کے بعد ان کو "لوک نائک" ہاسپیٹل لےجایا گیا ،اللہ اللہ کرکے ان کا داخلہ تو ہوگیا ،لیکن جب تک مریض ہاسپیٹل میں تھے ان کے رشتہ داروں کو نہ ان سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی کسی سے کوئی بات چیت کا موقع دیا،حالانکہ مریض کے رشتہ دار ان سے ملاقات کا مطالبہ کرتے رہے ،مگر ڈاکٹر نے ایک نہ سنی، بالآخر 48 گھنٹے کے بعد مریض کے انتقال کی خبر آئی۔جب کہ خود ڈاکٹروں کا کہنا ہے قاری شمیم الدین کو کورونا نہیں تھا ،تو پھر 48 گھنٹے تک ڈاکٹرس ان کے ساتھ کیا کر رہے تھے ،ان کے رشتہ دار کو ان سے ملنے کیوں نہیں دیا گیا ؟مریض کو لاوارث کیوں چھوڑا گیا ؟کہیں ان کی موت بھوک پیاس اور عدم توجہی کی وجہ سے تو نہیں؟اس طرح کئی سوال ہیں جو ذہن و دماغ میں آتے ہیں اور ڈاکٹرس پر سوالیہ نگاہیں اٹھتی ہیں۔ابھی چند روز قبل کانپور میں واقع میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر آرتی لال چندانی کی ایک ویڈیو مسلم مخالف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کرتے ہوئے نظر آئی، وہ کہہ رہی ہے “مسلم مریضوں کے لیے حکومت ہمارے لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے ،میں کہتی ہوں کہ ان مریضوں کو زہر کا انجکشن لگائیں جائیں،انہیں کھانا کھلانا انہیں دوائی دینا اور انہیں حکومت کے مصارف اور وسائل کے ذریعے سہولت دینا یہ وقت اور مال کی بربادی ہے،ان جماعتی مسلمانوں کو جیل میں بند کرکے رکھنا چاہیے اور ڈنڈے سے پیٹنا چاہیے یا تو انہیں جنگل کی کال کوٹھری میں پھینک دیناچاہئے یہ دہشت گرد ہیں حالانکہ میڈیکل کے طالب علموں کو انسانیت کی خدمت کادرس دیاجاتا ہے جس میں مذہب، رنگ، نسل اور فرقوں سے بالاتر ہوکر انسانی جذبہ کے تحت خدمت خلق کی عملی تربیت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر آرتی لال چندانی کا یہ بددماغ بیانیہ درحقیقت اس ہندوتوا ذہنیت کی ترجمانی ہے جو اب ہندوستان کے سسٹم پر قابض ہے یہ عبرت اور فہم لینے کا موقع ہے،یہ ذہنیت سترسالہ برہمنی کھیتی سے تیار شدہ نظریہ ہے، اہل ایوان اور سسٹم کے افسران بظاہر تعلیم یافتہ ہیں،لیکن ان کے دماغ متعصب نظریہ کے زہر سے بھرے پڑے ہیں-
گودی میڈیا کی زہر افشانی کے نتیجے میں سرکاری و غیرسرکاری سبھی ہاسپیٹلوں میں ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،اس کا اندار اِس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔رضوانہ خاتون حاملہ تھیں جمعرات 16 اپریل کو رضوانہ کو خون بہنا شروع ہوا اور تکلیف میں اضافہ ہوا، رضوانہ اپنے بھائی کے ساتھ MGM ہاسپیٹل جمشید پور پہنچیں، اس کے بعد رضوانہ کے ساتھ جو کچھ اسلام دشمنی پر مبنی حیوانیت کا سلوک ہوا اسے رضوانہ کی زبانی ہی پڑھیے:
" میں ایک بجے ہسپتال پہنچی، وہاں بھی میرا خون بہہ رہا تھا، یہ دیکھ کر وہاں کھڑی ہوئی ایک خاتون نرس / ڈاکٹر نے مجھے میرے نام اور مذہب کی بنیاد پر گندی گندی گالیاں دیں اور مجھے کہا کہ جو خون زمین پر گرا ہے اسے صاف کرو، کہاں کہاں کرواتی ہو اور کرونا پھیلاتی ہو، میری حالت خراب تھی اسلئے مجھے خون صاف کرنے میں دیر لگی، میرا پورا بدن کپکپا رہاتھا، اسی دوران ہاسپیٹل کی اس خاتون نے مجھے چپل نکال کر بری طرح سے پیٹا، میں ہکا بکا رہ گئی، میرے بھائی نے اس کی مخالفت کی، پھر میں فوراﹰ TKhan نرسنگ ہوم پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے ہماری جانچ کی اور پیٹ میں پل رہے میرے بچے کی موت کی خبر دی "
رضوانہ پر گزری ہوئی یہ وحشتناک واردات کو انڈیا کے معروف میڈیا ہاؤز انڈین ایکسپریس نے کور کیا ہے۔ابھی دو تین دن ہوئے پروفیسر ولی اختر صاحب جو مرکزی حکومت کے تحت دہلی یونیورسٹی میں ملازم تھے انہیں دہلی کے سات ہسپتالوں نے ایڈمٹ لینے سے انکار کیا تو بالآخر الشفا ہسپتال میں داخل کیے گئے جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔اتنی نفرت کہ مسلمانوں کے علاج سے بھی گریز،ان کو داخلہ لینے سے ہی انکار۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔جذبات اور اشتعال کے بجائے، عقل مندی اور فراست کا ثبوت پیش کریں۔صبر کے معنی بزدلی یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کے نہیں بلکہ مناسب تدابیر اختیار کرتے ہوئے دشمن کی ساری کوششوں کو ناکام بنانے کے ہیں۔اس طرح کے کئی واقعات اس لاک ڈاون میں پیش آئے ہیں،آج کے حالات جس میں مذہب کے نام پر تفریق عام ہے، ہر شہر میں ملٹی اسپشیلٹی ہاسپیٹل اور ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کرنے والے نرسنگ ہوم کا قیام ناگزیر ہے۔جس طرح مساجد و مدارس بنانا عبادت ہے اسی طرح ہاسپیٹل قائم کرنا بھی عبادت ہے، اہل اسلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے اپنی وسعت کے بقدر اس کار خیر میں تعاون پیش کریں،صوبائی ،ضلعی و بلاک سطح پر چھوٹے،بڑے ہاسپیٹل قائم کریں۔
_____________
وطن عزیز میں گزشتہ ٧/٦ سالوں میں مسلمانوں پر ان کے مذہب اور اسلامیت کی بنیاد پر جس قدر حملے ہوئے،ان سے ہر ذی شعور واقف ہیں،منصوبہ بند طریقہ پر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیا، باہتمام مسلم دشمنی کے جذبات کو ابھارا اور مسلمانوں کے خلاف خونی
کارروائیوں کو اکسایا گیا ،جس کے نتيجہ میں بے شمار جانیں ہلاک ہوئیں، " ماب لنچنگ " اور دہلی فسادات میں بہت سے افراد کی جانیں تلف ہوئیں ۔ بہت چالاکی کے ساتھ منصوبہ بند طریقہ سے کرونا وایرس کو تبلیغی جماعت سے جوڑا گیا پھر اس چالبازی کو آگے بڑھاتے ہوئے گودی میڈیا نے ملک بھر میں مسلم دشمنی کے جذبات کو انگیز کیا اس طرح ملک بھر میں لاک ڈاون کے باوجود مسلمانوں پر ان کے مذہب اور اسلامیت کی بنیاد پر حملے شروع ہوگئے، بازاروں میں بائیکاٹ اور کالونیوں سے بےدخل کرنے کی صدائیں ہیں ، کورونا وائرس کو مسلمانوں کے سر ڈال کر ملک بھر میں زہرناک مسلم دشمنی کو پروان چڑھایا جارہاہے ،فرقہ پرستی کی فضا دن بدن بڑھتی جارہی ،پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کااضافہ ہوا ہےیہاں تک کہ بعض جگہ اس وجہ سے ان پر حملہ بھی ہوئے اور اب ہسپتالوں میں ان کی اموات کے بازار سجائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کےلیے یہ شفاء خانے اب موت خانے ثابت ہورہے ہیں۔ابھی حال ہی کی بات ہے کہ جامعہ احسن العلوم جہاں گیر پوری دہلی کے استاد قاری شمیم الدین صاحب کو گیس کی شکایت تھی ،الٹی آئی اور منھ سے بلڈ آنا شروع ہوا ، کچھ دیر بعد بےہوش ہوگئے ،ان کے رشتہ داروں نے ٨ جون ٢۰٢۰ء کو ان کو "جی پی پنتھ "ہاسپیٹل لے گئے،لیکن پنتھ والوں نے داخکہ لینے سے انکار کردیا ،اس کے بعد ان کو "لوک نائک" ہاسپیٹل لےجایا گیا ،اللہ اللہ کرکے ان کا داخلہ تو ہوگیا ،لیکن جب تک مریض ہاسپیٹل میں تھے ان کے رشتہ داروں کو نہ ان سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی کسی سے کوئی بات چیت کا موقع دیا،حالانکہ مریض کے رشتہ دار ان سے ملاقات کا مطالبہ کرتے رہے ،مگر ڈاکٹر نے ایک نہ سنی، بالآخر 48 گھنٹے کے بعد مریض کے انتقال کی خبر آئی۔جب کہ خود ڈاکٹروں کا کہنا ہے قاری شمیم الدین کو کورونا نہیں تھا ،تو پھر 48 گھنٹے تک ڈاکٹرس ان کے ساتھ کیا کر رہے تھے ،ان کے رشتہ دار کو ان سے ملنے کیوں نہیں دیا گیا ؟مریض کو لاوارث کیوں چھوڑا گیا ؟کہیں ان کی موت بھوک پیاس اور عدم توجہی کی وجہ سے تو نہیں؟اس طرح کئی سوال ہیں جو ذہن و دماغ میں آتے ہیں اور ڈاکٹرس پر سوالیہ نگاہیں اٹھتی ہیں۔ابھی چند روز قبل کانپور میں واقع میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر آرتی لال چندانی کی ایک ویڈیو مسلم مخالف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کرتے ہوئے نظر آئی، وہ کہہ رہی ہے “مسلم مریضوں کے لیے حکومت ہمارے لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے ،میں کہتی ہوں کہ ان مریضوں کو زہر کا انجکشن لگائیں جائیں،انہیں کھانا کھلانا انہیں دوائی دینا اور انہیں حکومت کے مصارف اور وسائل کے ذریعے سہولت دینا یہ وقت اور مال کی بربادی ہے،ان جماعتی مسلمانوں کو جیل میں بند کرکے رکھنا چاہیے اور ڈنڈے سے پیٹنا چاہیے یا تو انہیں جنگل کی کال کوٹھری میں پھینک دیناچاہئے یہ دہشت گرد ہیں حالانکہ میڈیکل کے طالب علموں کو انسانیت کی خدمت کادرس دیاجاتا ہے جس میں مذہب، رنگ، نسل اور فرقوں سے بالاتر ہوکر انسانی جذبہ کے تحت خدمت خلق کی عملی تربیت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر آرتی لال چندانی کا یہ بددماغ بیانیہ درحقیقت اس ہندوتوا ذہنیت کی ترجمانی ہے جو اب ہندوستان کے سسٹم پر قابض ہے یہ عبرت اور فہم لینے کا موقع ہے،یہ ذہنیت سترسالہ برہمنی کھیتی سے تیار شدہ نظریہ ہے، اہل ایوان اور سسٹم کے افسران بظاہر تعلیم یافتہ ہیں،لیکن ان کے دماغ متعصب نظریہ کے زہر سے بھرے پڑے ہیں-
گودی میڈیا کی زہر افشانی کے نتیجے میں سرکاری و غیرسرکاری سبھی ہاسپیٹلوں میں ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،اس کا اندار اِس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔رضوانہ خاتون حاملہ تھیں جمعرات 16 اپریل کو رضوانہ کو خون بہنا شروع ہوا اور تکلیف میں اضافہ ہوا، رضوانہ اپنے بھائی کے ساتھ MGM ہاسپیٹل جمشید پور پہنچیں، اس کے بعد رضوانہ کے ساتھ جو کچھ اسلام دشمنی پر مبنی حیوانیت کا سلوک ہوا اسے رضوانہ کی زبانی ہی پڑھیے:
" میں ایک بجے ہسپتال پہنچی، وہاں بھی میرا خون بہہ رہا تھا، یہ دیکھ کر وہاں کھڑی ہوئی ایک خاتون نرس / ڈاکٹر نے مجھے میرے نام اور مذہب کی بنیاد پر گندی گندی گالیاں دیں اور مجھے کہا کہ جو خون زمین پر گرا ہے اسے صاف کرو، کہاں کہاں کرواتی ہو اور کرونا پھیلاتی ہو، میری حالت خراب تھی اسلئے مجھے خون صاف کرنے میں دیر لگی، میرا پورا بدن کپکپا رہاتھا، اسی دوران ہاسپیٹل کی اس خاتون نے مجھے چپل نکال کر بری طرح سے پیٹا، میں ہکا بکا رہ گئی، میرے بھائی نے اس کی مخالفت کی، پھر میں فوراﹰ TKhan نرسنگ ہوم پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے ہماری جانچ کی اور پیٹ میں پل رہے میرے بچے کی موت کی خبر دی "
رضوانہ پر گزری ہوئی یہ وحشتناک واردات کو انڈیا کے معروف میڈیا ہاؤز انڈین ایکسپریس نے کور کیا ہے۔ابھی دو تین دن ہوئے پروفیسر ولی اختر صاحب جو مرکزی حکومت کے تحت دہلی یونیورسٹی میں ملازم تھے انہیں دہلی کے سات ہسپتالوں نے ایڈمٹ لینے سے انکار کیا تو بالآخر الشفا ہسپتال میں داخل کیے گئے جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔اتنی نفرت کہ مسلمانوں کے علاج سے بھی گریز،ان کو داخلہ لینے سے ہی انکار۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔جذبات اور اشتعال کے بجائے، عقل مندی اور فراست کا ثبوت پیش کریں۔صبر کے معنی بزدلی یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کے نہیں بلکہ مناسب تدابیر اختیار کرتے ہوئے دشمن کی ساری کوششوں کو ناکام بنانے کے ہیں۔اس طرح کے کئی واقعات اس لاک ڈاون میں پیش آئے ہیں،آج کے حالات جس میں مذہب کے نام پر تفریق عام ہے، ہر شہر میں ملٹی اسپشیلٹی ہاسپیٹل اور ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کرنے والے نرسنگ ہوم کا قیام ناگزیر ہے۔جس طرح مساجد و مدارس بنانا عبادت ہے اسی طرح ہاسپیٹل قائم کرنا بھی عبادت ہے، اہل اسلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے اپنی وسعت کے بقدر اس کار خیر میں تعاون پیش کریں،صوبائی ،ضلعی و بلاک سطح پر چھوٹے،بڑے ہاسپیٹل قائم کریں۔