صبح کی بات (تیسری قسط)
بقلم فہیم اختر ندوی
کائنات کو اللہ نے بہترین طریقہ پر پیدا کیا۔۔۔ اس کا ہر ذرہ شاہکار ہے۔۔۔۔ جدھر دیکھیں حسن آشکار اور منظر تابدار ہے۔۔۔۔ کہیں کوئی جھول نہیں ۔۔۔ انسان کو بھی کمال کی تخلیق بخشی ہے ۔۔ ایسی کہ وہ بیشتر اپنے ہی حسن بے تاب میں کھو جاتا ہے۔۔۔۔ اللہ کی ہر تخلیق اپنے کمال اور جمال کے عروج پر ہے۔۔۔ اور کیوں نہ ہو کہ وہ تخلیق خالقِ باکمال کی ہے۔۔۔۔ تخلیق ہی تو اپنے خالق کی پہچان کراتی ہے۔۔۔۔
اور اللہ نے اس شاہکار تخلیق کے بعد کہا بھی ہے۔۔ کہ دیکھو! یہ ہے میری تخلیق۔ کس کمال کی ہے یہ۔۔۔ احسن تقویم بھی ہے۔۔ احسن خلق اور اتقن شی بھی ہے۔۔۔
تو اسی کمال اور معیار کی وجہ ہے کہ زندگی باغ وبہار بنتی ہے۔۔ لذتیں شباب پر ہوتی ہیں۔۔ راحتیں معیار پر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کا نظام بھی تو اسی کمال کی وجہ سے استوار رہتا ہے۔۔۔ صبح وشام۔ بارش و دھوپ۔ روشنی وتاریکی۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ غلے ومیوے۔ گل وبوٹے۔ پھل وپودے۔۔۔ اور یا۔۔۔۔ چرند وپرند۔ رینگتے کیڑے۔ چلتے پھرتے چوپائے اور دوڑتے بھاگتے درندے۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ زمین کے پیٹ اور پشت پر موجود ہمہ نوع کی زندگیاں۔ اور پانی کی تہوں میں آباد خلقت کی نیرنگیاں۔۔۔۔۔ یہ سب اسی کمالِ تخلیق کے مطابق ایک مضبوط نظام کائنات کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ تو ہے نا یہ سب کرشمہ اسی کمال اور جمال کا؟!!۔۔۔۔۔
تو ہماری زندگی بھی اسی کمال اور پرفیکشن کے ساتھ چلتی ہے۔۔ اور تب ہی گلزار اور خوشگوار رہتی ہے۔۔۔۔ کیا معیار نہ ہو تو تعلیم کی خوبی آسکے گی؟۔۔۔ کمال نہ ہو تو بیماری کا علاج ہو سکے گا؟؟۔۔۔ پرفیکشن نہ آئے تو کوئی ٹکنالوجی اور مشین کام کرسکے گی؟؟؟۔۔۔۔ غیر معیاری سامان تو ہم بھی نہیں خریدتے نا۔۔۔۔۔ اور تب زندگی کتنی دشوار ہوجاتی ہے۔۔ بلکہ خطرات سے دوچار ہوجاتی ہے۔۔۔ یا ہم زبانِ اعتراف میں کہیں تو بھیانک حادثات اور جانی و مالی نقصانات مقدر بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔ معیار کی کمی۔ نقص ولاپرواہی اور کمال سے خالی کام ہی ناکامیوں اور بربادیوں کی آفتیں لاتے ہیں ۔۔۔ اور ایک نقص ہزار نقصانات کی وجہ بنتا ہے۔۔۔۔ یہ کھلا نتیجہ آئے دن ہم آپ دیکھتے ہیں۔ جھوجھتے ہیں۔ کڑھتے ہیں اور کرب سے کراہتے ہیں۔۔۔۔ تو پرفیکشن یعنی کمال ہی زندگی کی روح ہے۔۔۔ اور کمال و معیار ہی اللہ نے زندگی میں رکھی ہے۔۔۔ اس سے ہم ہٹے۔۔اور ناکامی نصیب میں آئی۔۔۔۔
تو کیا۔۔۔ اللہ کے اس نظام پر یقین رکھنے والے اپنی زندگی کے کاموں میں اسی معیار کو برقرار رکھتے ہیں؟ ۔۔۔ ایک کڑوا سوال ہے۔۔ اور اس کا تعلق علم لینے اور دینے۔۔ نظم ونسق چلانے۔۔ انتظام وانصرام بنانے۔۔ تحقیق وایجاد لانے۔۔ اجتماعیت اور قیادت انجام دینے۔ سب سے ہے۔۔۔۔بچوں کی پرورش اور نوجوانوں کی تربیت سے گہرا تعلق ہے۔۔۔
معیار اور کمال کی ضرورت گھر کے سلیقے اور قرینے میں ہوگی۔۔ تنظیموں اور اداروں کے نظام میں ہوگی۔۔ مسجدوں اور محلوں کی جمعیتوں میں ہوگی۔۔ انتظامی عہدوں میں۔ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں۔ جلسوں اور پروگراموں میں ہوگی۔۔۔ اور ان سب سے پیشتر اور سب سے بڑھ کر اعلی تعلیم اور اعلی تحقیق میں ہوگی۔۔ بہترین ایجادات اور نفع رساں انکشافات میں ہوگی۔۔۔۔
یہی معیار تو تھا کہ نامِ مسلم عنوانِ عز وشرف تھا۔ اور انسانیت عیش و آرام کی راحت میں تھی۔۔۔ اور اب وہ تاریخ کا فسانہ ہے۔۔۔۔ تو کیا ہم اس زریں تاریخ کو تازہ نہیں کرسکتے؟ ۔۔۔۔ اتنی سی تو بات ہے کہ ہم معیار کو دوست بنالیں اور کمال کو رفیق۔۔۔ اس سے نہ سمجھوتہ کریں۔ اور نہ اس سے دور۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تخلیق بھی ہم سے یہی کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔ اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔۔۔
کتنا آسان ہے کہ ہمارا گھر ہمارا در۔ ہمارے ادارے اور تعلیم کے شعبے۔۔۔۔ اور ہماری ہر ذمہ داری اور ہر وابستگی اس عہد کی پابند ہوجائے۔۔ کہ معیار ہمارا شعار ہے۔۔ اور کمال ہمارا نشان ۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ہم پھر وہ نہ ہوجائیں گے؟ جو اللہ کو پسند ہے۔۔ انسانیت کی پسند ہوگی۔۔ اور خود ہم کو پسند آئے گی۔۔۔
سوچئے۔۔۔ طے کیجئے۔۔ عہد سے جڑ جائیے۔۔۔ اور نتیجہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔۔۔ کوشش کرتے ہیں۔۔ مل جل کر کرتے ہیں۔
خدا حافظ
بقلم فہیم اختر ندوی
کائنات کو اللہ نے بہترین طریقہ پر پیدا کیا۔۔۔ اس کا ہر ذرہ شاہکار ہے۔۔۔۔ جدھر دیکھیں حسن آشکار اور منظر تابدار ہے۔۔۔۔ کہیں کوئی جھول نہیں ۔۔۔ انسان کو بھی کمال کی تخلیق بخشی ہے ۔۔ ایسی کہ وہ بیشتر اپنے ہی حسن بے تاب میں کھو جاتا ہے۔۔۔۔ اللہ کی ہر تخلیق اپنے کمال اور جمال کے عروج پر ہے۔۔۔ اور کیوں نہ ہو کہ وہ تخلیق خالقِ باکمال کی ہے۔۔۔۔ تخلیق ہی تو اپنے خالق کی پہچان کراتی ہے۔۔۔۔
اور اللہ نے اس شاہکار تخلیق کے بعد کہا بھی ہے۔۔ کہ دیکھو! یہ ہے میری تخلیق۔ کس کمال کی ہے یہ۔۔۔ احسن تقویم بھی ہے۔۔ احسن خلق اور اتقن شی بھی ہے۔۔۔
تو اسی کمال اور معیار کی وجہ ہے کہ زندگی باغ وبہار بنتی ہے۔۔ لذتیں شباب پر ہوتی ہیں۔۔ راحتیں معیار پر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کا نظام بھی تو اسی کمال کی وجہ سے استوار رہتا ہے۔۔۔ صبح وشام۔ بارش و دھوپ۔ روشنی وتاریکی۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ غلے ومیوے۔ گل وبوٹے۔ پھل وپودے۔۔۔ اور یا۔۔۔۔ چرند وپرند۔ رینگتے کیڑے۔ چلتے پھرتے چوپائے اور دوڑتے بھاگتے درندے۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ زمین کے پیٹ اور پشت پر موجود ہمہ نوع کی زندگیاں۔ اور پانی کی تہوں میں آباد خلقت کی نیرنگیاں۔۔۔۔۔ یہ سب اسی کمالِ تخلیق کے مطابق ایک مضبوط نظام کائنات کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ تو ہے نا یہ سب کرشمہ اسی کمال اور جمال کا؟!!۔۔۔۔۔
تو ہماری زندگی بھی اسی کمال اور پرفیکشن کے ساتھ چلتی ہے۔۔ اور تب ہی گلزار اور خوشگوار رہتی ہے۔۔۔۔ کیا معیار نہ ہو تو تعلیم کی خوبی آسکے گی؟۔۔۔ کمال نہ ہو تو بیماری کا علاج ہو سکے گا؟؟۔۔۔ پرفیکشن نہ آئے تو کوئی ٹکنالوجی اور مشین کام کرسکے گی؟؟؟۔۔۔۔ غیر معیاری سامان تو ہم بھی نہیں خریدتے نا۔۔۔۔۔ اور تب زندگی کتنی دشوار ہوجاتی ہے۔۔ بلکہ خطرات سے دوچار ہوجاتی ہے۔۔۔ یا ہم زبانِ اعتراف میں کہیں تو بھیانک حادثات اور جانی و مالی نقصانات مقدر بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔ معیار کی کمی۔ نقص ولاپرواہی اور کمال سے خالی کام ہی ناکامیوں اور بربادیوں کی آفتیں لاتے ہیں ۔۔۔ اور ایک نقص ہزار نقصانات کی وجہ بنتا ہے۔۔۔۔ یہ کھلا نتیجہ آئے دن ہم آپ دیکھتے ہیں۔ جھوجھتے ہیں۔ کڑھتے ہیں اور کرب سے کراہتے ہیں۔۔۔۔ تو پرفیکشن یعنی کمال ہی زندگی کی روح ہے۔۔۔ اور کمال و معیار ہی اللہ نے زندگی میں رکھی ہے۔۔۔ اس سے ہم ہٹے۔۔اور ناکامی نصیب میں آئی۔۔۔۔
تو کیا۔۔۔ اللہ کے اس نظام پر یقین رکھنے والے اپنی زندگی کے کاموں میں اسی معیار کو برقرار رکھتے ہیں؟ ۔۔۔ ایک کڑوا سوال ہے۔۔ اور اس کا تعلق علم لینے اور دینے۔۔ نظم ونسق چلانے۔۔ انتظام وانصرام بنانے۔۔ تحقیق وایجاد لانے۔۔ اجتماعیت اور قیادت انجام دینے۔ سب سے ہے۔۔۔۔بچوں کی پرورش اور نوجوانوں کی تربیت سے گہرا تعلق ہے۔۔۔
معیار اور کمال کی ضرورت گھر کے سلیقے اور قرینے میں ہوگی۔۔ تنظیموں اور اداروں کے نظام میں ہوگی۔۔ مسجدوں اور محلوں کی جمعیتوں میں ہوگی۔۔ انتظامی عہدوں میں۔ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں۔ جلسوں اور پروگراموں میں ہوگی۔۔۔ اور ان سب سے پیشتر اور سب سے بڑھ کر اعلی تعلیم اور اعلی تحقیق میں ہوگی۔۔ بہترین ایجادات اور نفع رساں انکشافات میں ہوگی۔۔۔۔
یہی معیار تو تھا کہ نامِ مسلم عنوانِ عز وشرف تھا۔ اور انسانیت عیش و آرام کی راحت میں تھی۔۔۔ اور اب وہ تاریخ کا فسانہ ہے۔۔۔۔ تو کیا ہم اس زریں تاریخ کو تازہ نہیں کرسکتے؟ ۔۔۔۔ اتنی سی تو بات ہے کہ ہم معیار کو دوست بنالیں اور کمال کو رفیق۔۔۔ اس سے نہ سمجھوتہ کریں۔ اور نہ اس سے دور۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تخلیق بھی ہم سے یہی کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔ اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔۔۔
کتنا آسان ہے کہ ہمارا گھر ہمارا در۔ ہمارے ادارے اور تعلیم کے شعبے۔۔۔۔ اور ہماری ہر ذمہ داری اور ہر وابستگی اس عہد کی پابند ہوجائے۔۔ کہ معیار ہمارا شعار ہے۔۔ اور کمال ہمارا نشان ۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ہم پھر وہ نہ ہوجائیں گے؟ جو اللہ کو پسند ہے۔۔ انسانیت کی پسند ہوگی۔۔ اور خود ہم کو پسند آئے گی۔۔۔
سوچئے۔۔۔ طے کیجئے۔۔ عہد سے جڑ جائیے۔۔۔ اور نتیجہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔۔۔ کوشش کرتے ہیں۔۔ مل جل کر کرتے ہیں۔
خدا حافظ