اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: موڑ آجائے، تو: مڑنا پڑتا ہے؛ اسے راستہ بدلنا نہیں کہتے۔ از : _______ وقار احمد قاسمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 26 June 2020

موڑ آجائے، تو: مڑنا پڑتا ہے؛ اسے راستہ بدلنا نہیں کہتے۔ از : _______ وقار احمد قاسمی

موڑ آجائے، تو: مڑنا پڑتا ہے؛ اسے راستہ بدلنا نہیں کہتے۔
از : _______ وقار احمد قاسمی
_____________________________________
خلاصہ بحث:
مدارس کے طلبہ ہوں یا یونیورسٹیز وکالجز کے؛ زبانیں ہر کسی کو سیکھنا چاہیے۔ حالات حاضرہ کے پیش نظر کم از کم عربی اور انگریزی تو ضروری ہے؛ البتہ زبان سیکھتے ہوئے خاص خیال رہے کہ اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی احکامات وتعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہو۔
_____________________________________

بالتفصیل:
زبان وادب ایک ایسی شے ہے، جس سے اپنے مافی الضمیر کو بہتر طور پر ہر خاص وعام تک پہونچایا جاسکتا ہے؛ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے، جب مختلف شہرت یافتہ زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہو۔ موجودہ عہد میں چند مشہور زبانیں : عربی، انگریزی، ترکی، فارسی اور اردو؛ ہیں۔ مجموعی طور پر یہ زبانیں دنیا کے تقریبا ہر حصہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں؛ البتہ اِن میں عربی اور انگریزی بنسبت دوسری زبانوں کے زیادہ عام ہے۔

ہندوستان میں تعلیم کی دو صورتِ حال ہے: جسے علوم جدیدہ اور علوم اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علوم جدیدہ کے تعلیم یافتہ یا اس سے متعلقین صرف انگریزی زبان تک ہی محدود رہتے ہیں؛ الا یہ کہ مختصر عربی جانتے ہوں، جو اس نیت سے سیکھتے ہیں کہ ترجمہ نگاری کے مواقع فراہم ہوں گے۔ جہاں تک ترکی اور فارسی زبان کا تعلق ہے، تو یہ گنے چنے افراد، جن کا عنوان ہی یہی ہوتا ہے، وہ اس سے شغف رکھتے ہیں؛ ورنہ ان زبانوں کے سیکھنے سکھانے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا؛ الا ماشاء اللہ؛ بلکہ بعض تو ان زبانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنی چاہیے اور عربی زبان تو ہر مسلمان کو سیکھنا چاہیے؛ چوں کہ یہ قرآن کی زبان ہے، نبی کی زبان ہے اور اسلامی زبان ہے؛ گویا مسلمانوں کی شناخت ہے۔

اس کے برخلاف مدارس اسلامیہ کے طلبہ عربی زبان میں تو ماہر ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساٹھ سے ستر فیصدی طلبہ فارسی بھی جانتے ہیں اور جہاں تک انگریزی کا تعلق ہے، تو ان کی تیس فیصد تعداد اس زبان پر مکمل عبور رکھتی ہے اور تقریبا دس فیصد ٹوٹی پھوٹی انگریزی جانتے ہیں۔ مزید یہ کہ ترکی زبان سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں؛ گرچہ مواقع کے پیش نظر سیکھتے ہیں؛ ورنہ یہ تعداد یہاں بھی بہت کم ہی ہوتی ہے اور اردو تو مادری زبان ہی ہے۔

ہاں؛ مدارس اسلامیہ کے بیس سے تیس فیصدی طلبہ دیگر زبانوں کو تو نہیں؛ لیکن انگریزی زبان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ وہی طلبہ ہوتے ہیں، جن کی ابتدائی تعلیم چھوٹے تعلیمی ڈبوں میں ہوتی ہے، جہاں تعلیمی سختی کا ذہنی اثر ایسا ہوجاتا ہے کہ ان کے دل ودماغ وسعت کی جگہ تنگی اختیار کرجاتے ہیں؛ یہ ذہنیت آگے چل کر کافی نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ جماعت انگریزی کے تعلق سے خیال کرتی ہے کہ زبانی علم بے مطلب ہے، جس کے ہم محتاج نہیں۔

محترم یہاں محتاجگی یا غیر محتاجگی کا سوال نہیں؛ بلکہ سوال علوم کی محدودیت کا ہے، حالاں کہ اسلام ساری دنیا اور قیامت تک کے لیے آخری خدائی مذہب ہے؛ یہ ایک وسعت پذیر، ہمہ گیر اور تمام بنی نوع انسانی کے لیے آیا ہے؛ لہذا اس میں زبان وتعلیم کی حدبندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا اور چوں کہ شریعت نے بھی زبان سیکھنے اور بولنے پر کوئ پابندی عائد نہیں کی ہے، جیسا کہ کاتب رسول حضرت زید بن ثابت نہ صرف عبرانی اور سریانی زبان جانتے تھے؛ بلکہ فارسی، رومی، قبطی اور حبشی زبانیں بھی جانتے تھے اور حضور علیہ الصلاة والتسلیم کی غیر زبانوں میں خط وکتابت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔

جب شریعت مطہرہ نے زبان سیکھنے سے منع نہیں کیا ہے؛ بلکہ ترغیب دی ہے، تو: کیوں اسے حاصل نہ کیا جائے؟ یہ محض ایک زبان ہی تو ہے؟ اسے سیکھتے ہوئے اسلامی تہذیب وثقافت کو ملحوظ رکھا جائے اور دوسروں کی تہذیب کو ٹھکرا دیا جائے، تو: سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔

مدارس اسلامیہ کی نشأة ثانیہ کے بانیین کی فکر تھی کہ مدارس اسلامیہ کے فارغین عظیم فکروں کے ساتھ عالمی شخصیت کے حامل ہوں: اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب انہیں دنیا کی کم از کم مشہور ترین زبانوں کا علم ہو؛ ورنہ وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ آپ مطالعہ کریں (حاشیہ کے ساتھ) عبید اللہ سندھی کی کتاب : "شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک" کا اور ان کے تعلیمی افکار ونظریات کا جائزہ لیں: ان اکابرین میں ایک فرد بھی آپ کو ان زبانی علوم کے خلاف نہیں ملے گا؛ الا یہ کہ اسلامی تہذیب وثقافت کا خاتمہ ہونے لگے؛ تو: سب خلاف ہوجائیں گے، جیسا کہ علامہ رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا: "انگریزی زبان سیکھنا درست ہے؛ بشرط یہ کہ: معصیت کافر قلب میں نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ ہووے" ( آب کوثر، از: شیخ محمد اکرم، ص:49)۔ اسی طرح مفکرِ دارالعلوم دیوبند حضرت نانوتوی بھی زبان کے خلاف نہیں تھے؛ بلکہ انہوں نے تو اپنے آخری سفرِ حج کے دوران ارادہ کیا تھا کہ وہ واپس آکر انگریزی زبان سیکھیں گے۔ (سوانح قاسمی، از: مناظر احسن گیلانی، ج:2، ص:227/ 280)؛ یہی وجہ ہے کہ علامہ شبلی اور مولانا آزاد وغیرہ مذکورہ تمام زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔

جب ان مدارس اسلامیہ کی نشأة ثانیہ کے بانیین زبان وادب سیکھنے اور سکھانے کے خلاف نہیں تھے اور ان کی کوشش تھی کہ علوم اسلامیہ کے فارغین پورے عالم میں نمایاں شخصیت کے حامل ہوں، تو: ہر حال میں کوشش کرنی چاہیے کہ ان فکروں کی لاج رکھی جائے اور اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔

اور چوں کہ اب وقت اور حالات ایسے آچکے ہیں کہ علوم جدیدہ کے متعلقین عربی زبان سیکھیں، تاکہ بقدر ضرورت اسلامی علوم بھی حاصل کرسکیں، جو کہ زندگی کا اصل مقصد ہے اور ان تعلیمات کی روشنی میں بہتر عمل اور انصاف کرتے ہوئے خوشگوار زندگی گزاریں۔ اسی طرح مدارس اسلامیہ کے بچے کُھچے طلبہ بھی انگریزی زبان سیکھیں، تاکہ پیش آنے والے مسائل ومشکلات کا بہتر طور پر دفاع کر سکیں، جس کے لیے بنیادی اصول وقوانین کا علم ہونا ضروری ہے اور ایسی چیزیں عموما انگریزی میں ہی ہیں۔ نیز دونوں جماعتوں کے طلبہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھیں، تو: بہت بہتر رہے گا۔

اور زبان سیکھنا، سکھانا؛ حقیقتا علوم یا طریقہ حصول علوم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے؛ بلکہ اب حالات نے وقت کے دباؤ میں اپنا رخ موڑ لیا ہے اور جب موڑ آجائے، تو: مڑنا پڑتا ہے، اسے راستہ بدلنا نہیں کہتے۔ اگر نہیں مڑے، تو یا دیوار سے ٹکرائیں گے یا ایسی کھائی میں گریں گے، جہاں سے نکلنا مشکل ہوگا اور اگر نکل بھی گئے، تو جب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔