علوم وفنون میں بالذات کوئی برائی نہیں ہوتی۔
از: ________ وقار احمد قاسمی۔
خلاصہ بحث:
مغربی تعلیمی نظام کے ہولناک انجام سے اگلی نسل کو بچانے کے لیے عصری علوم کی ایسی درسگاہوں کی ضرورت ہے، جو علوم وفنون کی اعلی تعلیم کے ساتھ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوں اور اپنی دینی روایات وتعلیمات کو برقرار رکھیں۔
________________________________
مغربی کلچر کہتا ہے: "اپنی زندگی مزے میں گزارو"؛ اور یہی مغربی نظامِ تعلیم کا مقصدِ عظمی بھی ہے؛ ایسے افکار کے ادارے بڑی تیزی سے اپنے پر پھیلاتے جارہے ہیں اور مختلف قسم کے مجالات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان سب کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو راست روی سے بھٹکا کر دنیا کے فریب میں پھنسانا ہے تاکہ وہ اپنے اللہ ورسول کو بھول کر، اپنی دینی تعلیمات وروایات کو بھول کر بدکردارانہ و فاحشانہ طریقۂ زندگی اختیار کرلیں اور ان کا مقصد اخروی کامیابی نہیں؛ بلکہ دنیوی کامیابی ہو، ان کا دل ودماغ اسلام پسند نہیں؛ بلکہ مغربیت ولادینیت کا دلدادہ ہو۔
اسی عزم وارادے سے مغربی افکار پر مبنی اداروں میں فنونِ مختلفہ ایسے انداز سے پیش کیے جارہے ہیں کہ سب سے پہلے الحاد و لادینیت کا درس ملتا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے تعلیم یافتہ یہ گمان کرتے ہیں کہ: "احکام شرعیہ میں مصالحِ عباد کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے"(جب کہ یہ خیال غلط ہے، جس کی قرآن، حدیث اور خیرالقرون میں اہل علم کا اجماع تکذیب کرتا ہے)۔
اس میں قصور فنون کا نہیں؛ فنون میں تو بالذات کوئی برائی نہیں ہوتی؛ مگر اس کو سادہ لوح انسان کے سامنے پیش کرنے کے جو طرز اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ایک حد تک ضرور مؤثر ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ علامہ رشید احمد گنگوہیؒ نے کہا تھا کہ انگریزی سیکھنا اس شرط پر جائز ہے کہ دین میں کوئی نقص نہ آئے۔
حقیقت یہی ہے کہ علوم وفنون کے حصول میں کوئی حرج نہیں؛ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر شخص کے لیے بحیثیت مسلمان اسلامی شناخت اپنانا ضروری ہے۔ علوم وفنون کا سیکھنا اسی وقت جائز ہوسکتا ہے، جب دین میں کوئی خرابی واقع نہ ہو؛ ورنہ شریعت کوئی ایسا علم وفن سیکھنے کی اجازت نہیں دیتی، جس سے اسلامی احکامات وتعلیمات کی دھجیاں اڑیں۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثر شرح مغربی نظامِ تعلیم سے کافی متأثر ہے؛ حتی کہ انہیں کی روایات وتعلیمات میں کامیابی سمجھتی ہے؛ مگر یہ ممکن ہی نہیں؛ کیوں کہ ان کے بتائے ہوئے راستے میں کوئی کامیابی نہیں۔ مسلمانوں کی فلاح کے لیے خود حضور علیہ الصلاة والسلام نے کیا خوب راہنمائی فرمائی ہے کہ میرے اور میرے اصحاب کے راستے پر چلو (یعنی اسلامی تعلیمات وروایات کے مطابق زندگی گزارو)۔ اس راہنمائی کے بعد مغربی فکروں کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
آج ان فارغین اور طلبہ پر غور وفکر کی ضرورت ہے، جن کے قلوب غیروں کی رسومات سے لبریز ہیں اور ان کے علوم وفنون سے بے حد متأثر ہیں؛ سب سے پہلے انہیں اسلامی تعلیمات و روایات سکھانا ہوگا، تاکہ وہ مغربی تعلیمی نظام کے ہولناک انجام سے محفوظ رہیں۔ اس کی ترتیب یوں ہو کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو نظامِ جدیدہ کے تمام علوم وفنون کی اعلی تعلیم کے ساتھ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوں اور ہمیشہ اپنی دینی تعلیمات وروایات کو برقرار رکھیں۔ ان کا مزاج اسلامی ہو، ان کا ذہن اسلام پسند ہو اور ان کا دل اسلامی علوم کا دلدادہ ہو۔
ان اداروں میں اسلامی احکامات کے مطابق علوم جدیدہ، مثلا: سائنس، مہندسہ، نظم ونسق، میڈیکل، زبان، آرٹ اور ماسٹر وغیرہ؛ علاوہ ازیں دیگر مشہور علوم وفنون کا درس دیا جائے، تاکہ مسلمان خدا کی قدرت سے بنی ہوئی نایاب اشیاء میں خوب تحقیق کریں اور اس کے ذریعے دین اسلام کی حقانیت مزید عام ہو۔
یہ علوم جدیدہ ایسے طریقے سے پیش کیے جائیں کہ فارغین میں مغربیت کے بجائے اسلامیت کا غلبہ ہو اور وہ دل ودماغ کے اعتبار سے اسلامی ہوں۔ موجودہ حالات کے مناسب ایسی فکروں کا ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس سے زیادہ ضروری ایسے اداروں کا قیام اور ان کے تعلیمی نصاب کا انتخاب ہے؛ اس تعلق سے کسی بامنظم جماعت کو ضرور اقدام کرنا چاہیے؛ ورنہ مولانا آزاد کی بات پھر سے دہرائی جاسکتی ہے کہ آپ نے وقت کا خیال نہیں رکھا، وقت تو روز بروز آگے بڑھتا گیا اور ایک لمبی مسافت طے کرچکا؛ مگر آپ وہیں رکے رہے؛ نتیجہ یہ کہ وقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا؛ یقینا وقت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکتا۔ یہ گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز وقت کا الارم ہے کہ میں آگے بڑھ رہا ہوں، ساتھ آنا ہے، تو: آجاؤ؛ ورنہ میں کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
از: ________ وقار احمد قاسمی۔
خلاصہ بحث:
مغربی تعلیمی نظام کے ہولناک انجام سے اگلی نسل کو بچانے کے لیے عصری علوم کی ایسی درسگاہوں کی ضرورت ہے، جو علوم وفنون کی اعلی تعلیم کے ساتھ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوں اور اپنی دینی روایات وتعلیمات کو برقرار رکھیں۔
________________________________
مغربی کلچر کہتا ہے: "اپنی زندگی مزے میں گزارو"؛ اور یہی مغربی نظامِ تعلیم کا مقصدِ عظمی بھی ہے؛ ایسے افکار کے ادارے بڑی تیزی سے اپنے پر پھیلاتے جارہے ہیں اور مختلف قسم کے مجالات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان سب کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو راست روی سے بھٹکا کر دنیا کے فریب میں پھنسانا ہے تاکہ وہ اپنے اللہ ورسول کو بھول کر، اپنی دینی تعلیمات وروایات کو بھول کر بدکردارانہ و فاحشانہ طریقۂ زندگی اختیار کرلیں اور ان کا مقصد اخروی کامیابی نہیں؛ بلکہ دنیوی کامیابی ہو، ان کا دل ودماغ اسلام پسند نہیں؛ بلکہ مغربیت ولادینیت کا دلدادہ ہو۔
اسی عزم وارادے سے مغربی افکار پر مبنی اداروں میں فنونِ مختلفہ ایسے انداز سے پیش کیے جارہے ہیں کہ سب سے پہلے الحاد و لادینیت کا درس ملتا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے تعلیم یافتہ یہ گمان کرتے ہیں کہ: "احکام شرعیہ میں مصالحِ عباد کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے"(جب کہ یہ خیال غلط ہے، جس کی قرآن، حدیث اور خیرالقرون میں اہل علم کا اجماع تکذیب کرتا ہے)۔
اس میں قصور فنون کا نہیں؛ فنون میں تو بالذات کوئی برائی نہیں ہوتی؛ مگر اس کو سادہ لوح انسان کے سامنے پیش کرنے کے جو طرز اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ایک حد تک ضرور مؤثر ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ علامہ رشید احمد گنگوہیؒ نے کہا تھا کہ انگریزی سیکھنا اس شرط پر جائز ہے کہ دین میں کوئی نقص نہ آئے۔
حقیقت یہی ہے کہ علوم وفنون کے حصول میں کوئی حرج نہیں؛ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر شخص کے لیے بحیثیت مسلمان اسلامی شناخت اپنانا ضروری ہے۔ علوم وفنون کا سیکھنا اسی وقت جائز ہوسکتا ہے، جب دین میں کوئی خرابی واقع نہ ہو؛ ورنہ شریعت کوئی ایسا علم وفن سیکھنے کی اجازت نہیں دیتی، جس سے اسلامی احکامات وتعلیمات کی دھجیاں اڑیں۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثر شرح مغربی نظامِ تعلیم سے کافی متأثر ہے؛ حتی کہ انہیں کی روایات وتعلیمات میں کامیابی سمجھتی ہے؛ مگر یہ ممکن ہی نہیں؛ کیوں کہ ان کے بتائے ہوئے راستے میں کوئی کامیابی نہیں۔ مسلمانوں کی فلاح کے لیے خود حضور علیہ الصلاة والسلام نے کیا خوب راہنمائی فرمائی ہے کہ میرے اور میرے اصحاب کے راستے پر چلو (یعنی اسلامی تعلیمات وروایات کے مطابق زندگی گزارو)۔ اس راہنمائی کے بعد مغربی فکروں کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
آج ان فارغین اور طلبہ پر غور وفکر کی ضرورت ہے، جن کے قلوب غیروں کی رسومات سے لبریز ہیں اور ان کے علوم وفنون سے بے حد متأثر ہیں؛ سب سے پہلے انہیں اسلامی تعلیمات و روایات سکھانا ہوگا، تاکہ وہ مغربی تعلیمی نظام کے ہولناک انجام سے محفوظ رہیں۔ اس کی ترتیب یوں ہو کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو نظامِ جدیدہ کے تمام علوم وفنون کی اعلی تعلیم کے ساتھ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوں اور ہمیشہ اپنی دینی تعلیمات وروایات کو برقرار رکھیں۔ ان کا مزاج اسلامی ہو، ان کا ذہن اسلام پسند ہو اور ان کا دل اسلامی علوم کا دلدادہ ہو۔
ان اداروں میں اسلامی احکامات کے مطابق علوم جدیدہ، مثلا: سائنس، مہندسہ، نظم ونسق، میڈیکل، زبان، آرٹ اور ماسٹر وغیرہ؛ علاوہ ازیں دیگر مشہور علوم وفنون کا درس دیا جائے، تاکہ مسلمان خدا کی قدرت سے بنی ہوئی نایاب اشیاء میں خوب تحقیق کریں اور اس کے ذریعے دین اسلام کی حقانیت مزید عام ہو۔
یہ علوم جدیدہ ایسے طریقے سے پیش کیے جائیں کہ فارغین میں مغربیت کے بجائے اسلامیت کا غلبہ ہو اور وہ دل ودماغ کے اعتبار سے اسلامی ہوں۔ موجودہ حالات کے مناسب ایسی فکروں کا ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس سے زیادہ ضروری ایسے اداروں کا قیام اور ان کے تعلیمی نصاب کا انتخاب ہے؛ اس تعلق سے کسی بامنظم جماعت کو ضرور اقدام کرنا چاہیے؛ ورنہ مولانا آزاد کی بات پھر سے دہرائی جاسکتی ہے کہ آپ نے وقت کا خیال نہیں رکھا، وقت تو روز بروز آگے بڑھتا گیا اور ایک لمبی مسافت طے کرچکا؛ مگر آپ وہیں رکے رہے؛ نتیجہ یہ کہ وقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا؛ یقینا وقت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکتا۔ یہ گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز وقت کا الارم ہے کہ میں آگے بڑھ رہا ہوں، ساتھ آنا ہے، تو: آجاؤ؛ ورنہ میں کسی کا انتظار نہیں کرتا۔