اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: میت کی طرف سے کی گئی قربانی محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد مدھوبنی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 20 July 2020

میت کی طرف سے کی گئی قربانی محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد مدھوبنی


میت کی طرف سے کی گئی قربانی 


محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
مدھوبنی

میت کی طرف سے  مستقل قربانی کرنا ایک اجتہادی نوعیت کا مسئلہ ہے، جس میں قدیم اختلاف چلا آرہا ہے، اور شاید باقی بھی رہے گا،امام ترمذی نے نے اپنی عظیم کتاب جامع ترمذی میں اس اختلاف کی طرف اشارہ کرکے جناب عبداللہ بن المبارک کی رائے بھی بیان کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تابعین کے دور ہی سے اس مسئلے میں اختلاف چلا آرہا ہے. تاہم چند سالوں سے کچھ نو خیز طلبہ علم اسے اجتہادی مسئلہ کی بجائے سنت وبدعت کے دائرے میں کھینچ لائے ہیں، بلک بعض جوشیلے اور سطحی معلومات والے خطیب تو اس پر شرک تک کا فتوی جڑ دیتے ہیں، اس تحریر میں میرے علم کے مطابق جو راجح موقف ہے، اسے مختصر دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے.
1️⃣ ہماری معلومات کے مطابق میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے،
جائز ہونے کی بنیادی دلیل یہی ہے کہ قربانی صدقہ کی ایک قسم ہے اور میت کی طرف سے صدقہ کرنا بالإجماع جائز ہے. جیساکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کی طرف سے کنواں تیار کروایا تھا. (صحيح مسلم، کتاب الجنائز)
2⃣دوسری بنیادی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے.
اور فرماتے تھے

بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ
(صحیح مسلم،1967،ابوداؤد)
  بسم اللہ! الہی یہ قربانی، محمد، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما لیجیے
آل محمد میں فوت شدہ اور زندہ دونوں شامل ہیں، آپ کی اس قربانی کے ثواب میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں حالانکہ آپ وفات پاچکی تھیں. جب ایک قربانی کے ثواب میں خاندان کے تمام زندہ اور فوت شدہ افراد شامل کیے جاسکتے ہیں، تو مستقل قربانی کیوں نہیں کی جاسکتی؟
3⃣بعض اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، لیکن امام نووی لکھتے ہیں کہ محض دعویٰ سے خصوصیت ثابت نہیں ہوسکتی،
مزید برآں امت کی طرف سے خصوصیت کا دعویٰ تو پھر بھی وزن رکھتا ہے کہ نبی ہی اپنی امت کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے، لیکن گھر والوں کی طرف سے قربانی تو ایک متفق علیہ مسئلہ ہے، اس لحاظ سے قربانی فطری طور ایک پورے خاندان کی طرف سے مشترکہ نوعیت کی عبادت ہے، اس سے میت کو مستثنیٰ کرنا بلا دلیل ہے.
4⃣ یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میت کی طرف سے  مستقل قربانی کرنا ثابت نہیں، درست ہے لیکن اپنے پورے خاندان کو شریک کرنا تو ثابت ہے.
دوسری بات کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو غالبا مالی صدقہ کرنا بھی میت کی طرف سے ثابت نہیں؟
جب حدیث تقریری اور اجماع امت سے میت کی طرف سے  مالی صدقہ ثابت ہے تو یہ ہر قسم کے صدقہ کی دلیل ہے.
صدقہ کی مختلف اقسام کے لیے علیحدہ علیحدہ مستقل دلیل طلب کرنا محض تکلف ہے. مثلا میت کی طرف سے کنواں لگوانا ثابت ہے،
میت کی طرف سے مسجد بنوانے کی دلیل علیحدہ دی جائے، جگہ وقف کرنے، ہسپتال بنوانے، وغیرہ کی جب ہم علیحدہ علیحدہ دلیل کا مطالبہ نہیں کرتے تو صرف قربانی کے باب ہی میں مستقل علیحدہ دلیل کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟
اشکال، یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ وہ خاص ہیئت ہے، چلیں خاص ہیئت کی بھی دلیل دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب گھر والوں کو قربانی میں شریک کیا اور آپ کے اہل بیت میں فوت شدہ بھی تھے تو پھر نیا مطالبہ سامنے آتا ہے کہ شریک کرنا جائز ہے، مستقل قربانی کی دلیل پیش کریں، اس طرح کے مطالبات زیادہ سختی پر مبنی اور بیجا محسوس ہوتے ہیں،
4⃣اس  طرف بھی بھی اکثر اہل علم  کا میلان ہے، حتی کہ وہ علماء کرام بھی جو میت کی طرف سے عام حالات میں قربانی درست نہیں سمجھتے، کہتے ہیں کہ میت اگر  اپنے ترکہ کے ثلث میں سے قربانی کی وصیت کردے تو وصیت کی تنفیذ ضروری ہے.سوال یہ ہے کہ اگر یہ ناجائز وصیت ہے تو پھر اسے پورا کرنا کیوں ضروری ہے؟
5⃣میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر اور اس بات پر کہ یہ بھی مالی صدقہ ہی کی ایک قسم ہے، ایک مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے والد  نے دور جاہلیت  میں سواونٹ قربان کرنے کی نذر مانی تھی، ان کے ایک صاحب زادے نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ قربان کردیئے، ان کے دوسرے صاحب زادے جناب عمرو نے اپنے حصے کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا تو تمہارے روزے اور صدقے کا اسے فائدہ ہوتا
مسنداحمد، 6704
اگرچہ یہ حدیث نذر کے بارے میں ہے، لیکن نذر وہ جو نحر کے متعلق ہے. اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ نحر کرنے کو  صدقہ ہی کی قسم شمارکیا، یہ بھی واضح کر دیا کہ اس صدقے کا میت کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن جب میت موحد ہو، وگرنہ نہیں
6⃣عیدالاضحیٰ کے دن سب سےافضل صدقہ قربانی ہی ہے، اس لیے اپنے پیاروں کی طرف سے اگر کوئی یہ نیکی کرنا چاہتا ہے تو اسے منع کرنے کی کوئی دلیل نہیں
6⃣بعض علماء کے ذہن میں یہ قوی اشکال ہے کہ عام دنوں میں میت کی طرف سے جانور صدقہ کرنا جائز ہے لیکن عیدالأضحی کے دن قربانی پیش کرنا ایک خاص عبادت ہے، اسے عام صدقے پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ عبادات میں قیاس نہیں چلتا، عرض یہ ہے کہ قربانی کو صدقہ کی قسم کہنا قیاس نہیں ہے، بلکہ احادیث اور اجماع کے عموم سے استدلال ہے، احادیث کی رو سے قربانی تمام گھرانے کی طرف سے ہوتی ہے اور گھرانے کے عموم میں فوت شدہ افراد خانہ شامل ہیں، اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کے جواز پر اجماع ہے اور صدقہ کے عموم میں قربانی شامل ہے، یہاں مانعین کو استثناء کی دلیل دینی چاہیے جو کہ موجود نہیں،
7⃣ غرضیکہ اس مسئلے میں توسع ہے، شدت کا اظہار نہ کیا جائے.
دونوں طرف کبار اہل علم ہیں ،
، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن القیم اور ماضی قریب میں سعودی عرب دائمی فتوی کمیٹی کے تمام علماء کرام نے شیخ ابن باز کی سربراہی میں جواز ہی کا فتوی دیا ہے.
ہمارے برصغیر کے بعض کبار َاہل علم سید نذیر محدث دہلوی، عبداللہ محدث روپڑی، شمس الحق عظیم آبادی، المحدث شیخ ثناء اللہ المدنی جیسے علماء جواز ہی کا فتوی دیتے آئے ہیں، اس لیے ہمارے عوام میں بھی بعض گھرانے اس کے قائل وفاعل ہیں، اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے، قطعیت کے ساتھ میت کی طرف سے قربانی کو ناجائز، نادرست کہنا مناسب نہیں، اسے بدعت یا شرک قرار دینا تو سراسر جہالت ہے. گزارش فقط یہ ہے کہ اس نوعیت کے مسائل میں ہتھ تھوڑا ہولا رکھ لیا کریں.
6⃣ہاں البتہ  میت کی طرف سے قربانی کے ساتھ بعض رسمیں ایسی ہیں جو خلاف سنت ہیں، مثلا فوت شدہ والدین کی طرف سے پہلی عید کے موقع پر اب کی طرف سے قربانی کو ضروری سمجھنا، اسے خاص رسم کانام دینا، یا فوت شدہ اولیاء کرام کی طرف سے قربانی  کرنا،یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا، یہ اور اس طرح کے دیگر امور  درست نہیں ہیں ، یہ اہل بدعت کا شیوہ ہیں ،بالخصوص بزرگان دین کے نام پر قربانی میں بعض شرک کے دلدادہ لوگ اصل میں قربانی کے نام پر ان کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس  ۹انداز سے شرک وبدعت کی راہیں کھلتی ہیں، اس انداز سے اجتناب ضروری ہے، لیکن مطلقا میت کی طرف سے قربانی کو ممنوع قرار دینا مناسب نہیں.