*گُلشن محمدی کے مہکتے پھول۔۔۔۔۔!*
*اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی*
اس عالم رنگ وبو میں ان گنت معاشرے ابھرے اور اپنا وقت پورا کرکے گمنام ہوگٸے، مگر آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل سرزمین عرب میں رسول معظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ کی صحبت بابرکت اور فیضِ لامتناہی سے جو معاشرہ وجود میں آیا اس کی آج تک کوٸی نظیر چشم فلک اور ارض بطن پیش نہیں کرسکی اور نہ آٸندہ پیش کرسکے گی، یہ صحابہ کرام کا معاشرہ تھا۔ اس لٸے کہ آفتاب نبوت کی شعاٸیں براہِ راست ان کے سینوں پر پڑی تھیں اور اس سعادت عظمیٰ میں کوٸی طبقہ امت ان کا سہیم وشریک نہیں۔
وہ چـانــد جــو روشــن ہـوا بــطـحـیٰ کـی افــق پــر
اس چــانــد کــے تابـنـدہ ســتارے ہیـں صـحــابــہؓ
(طاہر صاحب)
بلاشبہ صحابہ دین حق کے علمبردار، شمع رسالت کے پروانے، آسمان نبوت کے چمکتے ستارے تربیت نبوی سے آراستہ وپیراستہ، عشق محمدی سے سرشار، اور قرآن کے اولین مخاطب ہیں۔
جنکی تعریف قرآن اس انداز سے کرتاہے
( أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُم: وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل)
جنکے متعلق زبان نبوی سے کچھ یوں ارشادہوتا ہے(اَصْحابِی کَالنُّجُومِ بِاَیِّهِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اهْتَدیْتُمْ: میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کروگے راستہ پاجاٶگے)
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ درسگاہِ نبوت کا پروردہ جو بھی صحابی روٸے زمین کے جس خطے پر بھی گیا، اس کے دمِ قدم سے ظلمت کافور ہوگٸی، اندھیرے چھٹ گٸے، روشنی کی شمع پھیل گٸی، اجڑے ہوٸے گلستاں میں پھر سے بادِ بہاری چلنے لگی، مایوس کلیاں پھر سے مسکرانے لگیں، غنچے چٹکنے لگے، پھول مہکنے لگے، شادابی لہلہانے لگی۔
پھر گلستاں گلستاں بہار آگٸی
اور چمن کا چمن مسکرانے لگا
اسی قدسی اور نبوی تربیت یافتہ جماعت کے فضل سے قرن اول میں اسلام پوری دنیا میں پھیلا، لہذا صحابہ کرام اس امت کے خلاصہ اور عطر ہیں، بلکہ انبیا ٕ اور رسولوں کے پوری نوع انسانی میں سب سے افضل اور برتر ہیں۔
موجودہ عہد میں ایسی کوشیشیں ہورہی ہیں، اور ایسی کتابیں لکھی جارہی ہیں، اور ایسے بیانات دٸے جارہے ہیں جن سے اسلامی تاریخ کا روشن چہرہ داغ دار ہورہاہے، بعض صحابہ کرام کو اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایاجارہاہے، ان پر الزام تراشیاں ہورہی ہیں، اور عوام کے تٸیں ان کے وقار کو مجروح کرنے کی ناپاک سازشیں رچی جارہی ہیں۔
یادرکھٸے جوبھی صحابہ کرامؓ جیسی مقدس ترین جماعت پر کیچڑ اچھالے گا، یاان کو اپنے ہدف کا نشانہ بناٸے گیا، یاان کے متعلق مغلظات بکے گا تو ایسا شخص ذلت ورسواٸی کے عمیق غار میں جاگرے گا۔
امت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی تنقیص خود، دین اور اصول دین کی تنقیص ہے، اس لٸے کہ انھی حضرات کےواسطے سے دین بعد والوں تک پہنچاہے۔
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوٸے سنا:
اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًامِن بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ {ترمذی کتاب المناقب حدیث/3862)
ترجمہ:میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع) کا نشانہ نہ بناٶ، کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی، مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا، تو مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے ان کو ایذا پہنچاٸی، اس نے مجھے ایذا پہنچاٸی اور جس نے مجھے ایذا پہنچاٸی اس نے اللہ کو ایذا پہنچاٸی اور جو اللہ کو ایذا پہنچانا چاہے، تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب، اس کو اپنی گرفت میں لے لے۔
" ان کو نشانہ نہ بناٶ" کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کو نشانہ بناکر ان پر اپنی زبانوں کو تیر نہ چلاٶ۔
مطلب: بہ ہر کیف اس حدیث میں ان لوگوں کے لٸے سخت وعید اور پھٹکار ہے جو صحابہ کرامؓ کو اپنی آزادانہ تنقید، دل خراش بدگوٸی، اور زہر آلود قلم کا نشانہ بناتے ہیں، یاان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں، جس کا مقصد لوگوں میں ان کو بے حیثیت کرنا اور ان کے دل میں ان کے لٸے بغض پیداکرناہوتاہے، تاکہ لوگوں کا ان پر اعتماد نہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھیں
(صحابہ رسول اسلام کی نظر میں:ص/١٤٢)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ سے محبت کرنے والا اور حق کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والابناٸے۔۔۔آمین
صحابہ کی عظمت بتانا عبادت
صحابہ کے نعرے لگانا عبادت
(ہدہد الہ آبادی)