اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسلم پرسنل لاء اور ہماری ذمے داریاں !

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 26 October 2016

مسلم پرسنل لاء اور ہماری ذمے داریاں !

مولانا فضیل ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ گزشتہ کچھ دنوں سے طلاقِ ثلاثہ (ٹرپل طلاق) سے متعلق خبریں مسلسل گرم ہیں....پورے ملک میں احتجاج دراحتجاج کا ایک دور چل پڑا ہے.....مرد، عورت، بڑے چھوٹے اپنی دینی حمیت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں.....خوش گوار حیرت اس پر کہ وہ سارے مکاتبِ فکر ہم آواز ہوگئے جو ایک دوسرے پر تکفیر کے گولے برساتے کبھی نہیں تھکتے تھے....بریلویوں کی نظر میں ان کے علاوہ سب کافر ہیں....اہلِ حدیث کے نزدیک سارے مقلدین اسلام سے خارج ....جماعتِ اسلامی اپنے غیر کو خاطر میں نہیں لاتی.....اہلِ دیوبند نے باطل کا آپریشن کبھی نہیں چھوڑا....سب ایک دوسرے سے دست و گریباں.....لیکن طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کردیا....اس سے بڑی حیران کن بات اور کیا ہوسکتی ہے!!!آگے بڑھنے سے پہلے اپنے قارئین کو پہلے یہ بتادوں کہ "مسلم پرسنل لا "ہے کیا؟ ....تو عرض ہے کہ: "مسلم "تو خیر عربی لفظ ہے اور "پرسنل لا "انگریزی....."پرسنل "کے معنیٰ ذاتی اور "لا "کے معنیٰ قانون کے ہیں.....تینوں کا ترجمہ "مسلمانوں کے ذاتی قوانین ".....ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ذاتی قوانین وہی ہیں جو اللہ کی طرف سے طے کردہ اور رسول کی طرف سے تشریح کردہ ہیں.....انسانوں کا مزاج ہے کہ کسی تنظیم کو چلانا ہو، کسی انجمن یا تحریک کو آگے بڑھانا ہو، حکومت اور اقتدار کو مضبوط کرنا ہو تو اس کے لیے "اصول و ضوابط "مقرر کرتا ہے.....رہ نما خطوط واضح کرتا اور آئین مرتب کرتا ہے.....پھر انہی اصول و آئین کی روشنی میں اپنی حکومت و قیادت کو پروان چڑھاتا ہے.....حکومت و قیادت کا بہی خواہ اپنے طے کردہ اصول سے ایک انچ بھی انحراف نہیں کرتا....اسے اپنے بناے ہوے قانون سے حد درجہ محبت ہوتی ہے.....تنظیم و تحریک میں شامل کوئی شخص "ضابطہ شکنی "کا مرتکب ہو تو اسے سخت پھٹکار لگائی جاتی ہے.....زجر و توبیخ اور عتاب و عقاب تک سے اسے گذارا جاتا ہے.....غور کیجیے! انسان کو اپنے تخلیق کردہ آئین سے کس قدر پیار ہے! پھر خالقِ کائنات کو اپنے اصول و قوانین اور آئین سے پیار کیوں نہ ہو! جب کہ اس کی حکمت، تدبر اور حاکمیت انسان کے ہر طبقے کے نزدیک مسلّم ہے.....قرآن و حدیث میں جو مسائل بیان ہوے، وہی مسلمانوں کے ذاتی قوانین ہیں.....فقہ کی کتابیں قرآن و حدیث ہی کے تشریح کردہ مجموعے ہیں.....فقہ "قرآن و حدیث "کا خوب صورت شارح ہے....یہ انسان کے اپنے نظریات کے ترجمان نہیں....بعض لوگ "فقہ "کو قرآن و حدیث کا حریف سمجھ بیٹھے ہیں.....یہ شیطان کی طرف سے ملنے والا بہت بڑا دھوکہ ہے.....خیر!!جب انسان اپنے اصول توڑ نہیں سکتا تو خالقِ کائنات کے بناے گئے اصول کیسے توڑ سکتا ہے؟ ....ایک شخص مسلمان رہتے ہوے حق جل مجدہ کے مقرر کردہ آئین کو توڑنے کا تصور بھی دل میں نہیں لا سکتا.....کائنات جس نے بنائی ہے، اسے ہی قانون بنانے کا حق حاصل ہے.....اس کا قانون ہر انسان کو ماننا ضروری ہے.....اسلامی قانون میں ترمیم و تنسیخ کی اجازت خود پیغمبر علیہ السلام کو بھی نہیں تھی، ہما شما کی کیا بات .....مسلمان کوتاہ عمل ہوسکتا ہے ....سستی کر سکتا ہے....غفلت برت سکتا ہے....مگر ترمیم و تنسیخ کی سوچ بھی نہیں سکتا......اگر اسلامی قوانین میں تبدیلی مسلمان کے ہاتھ میں ہوتی تو "پنج وقتہ نمازیں "منسوخ کردی جاتیں اور صرف "جمعہ "باقی رکھا جاتا.....رمضان کے روزے ختم کر دیے جاتے ، صرف "افطار "باقی رہتا.....جہاد کو مٹادیا جاتا اور اس کے بدلے میں "جماعت "ہی کو کافی سمجھ لیا جاتا.....نکاح کی سادگی کا حکم اٹھادیاجاتا اور تکلفات و خرافات کو فرض کا درجہ دیا جاتا ....الغرض: جن جن اعمال میں مسلمان سست ہیں، انہیں کالعدم کردیا جاتا اور جن اعمال سے انہیں "نفسانی لگاؤ "ہے، انہیں فرض، واجب اور سنت و مستحب کا درجہ دیا جاتا......مگر ایسا ہے نہیں اور نہ ہوسکتا ہے......مسلمان کتنے ہی بدعمل، سست، کوتاہ، اسلام بیزار کیوں نہ ہو جائیں، اسلامی قوانین میں تبدیلی نہ ماضی میں ہوئی، نہ اب ہوگی، نہ آئندہ ہوسکتی ہے.....لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا.....جس طرح بدعمل مسلمان اپنے والدین کو ضربیں لگاسکتا ہے، لیکن اگر اس کے والدین کو کوئی دوسرا ہاتھ لگاے تو اس کی آتشِ انتقام کو کوئی بجھا بھی نہیں سکتا....اسی طرح کم عمل مسلمان اسلامی قوانین سے پہلو تہی تو کرسکتا ہے، مگر جب کوئی دوسرا اس پر ترچھی نظر ڈالے تو یہی بے عمل مسلمان "آیاتِ شہادت کی تفسیر "بھی بن سکتا ہے.....اس لیے اسلامی آئین میں تبدیلی تو ناممکن ہے....جہاں تک معاملہ طلاقِ ثلاثہ کا ہے، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ "طلاق "شریعت کی نظر میں کوئی اچھی چیز نہیں.....اسے "ابغض المباحات "کہا گیا ہے.....یعنی حلال چیزوں میں سب سے زیادہ قابلِ نفرت.....یہاں یہ یاد رکھیے کہ "طلاق "حلِ مسئلہ کے لیے ہے.....یہ کوئی فرض و واجب نہیں ہے......اسلام نے ماں باپ کا جائز حکم ماننا فرض قرار دیا ہے، مگر یہی والدین اپنے لاڈلے کو طلاق پر مجبور کریں تو بیٹے پر ان کے حکم کی تعمیل واجب نہیں.....لوگوں نے طلاق کے مسئلے کو پیچیدہ بنا کر رکھ دیا ہے....بہت سے جاہل یہ سمجھتے ہیں کہ تین مرتبہ "طلاق "نکالنے سے ہی طلاق پڑتی ہے، ورنہ نہیں.....عرض ہے کہ اسلام نے میاں بیوی کا رشتہ حتی الامکان برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے....اگر بات نہ بنے تو مجبوری میں ایک طلاق دینے کا اختیار دیا ہے.....اگر میاں بیوی میں عدت کے اندر صلح ہوگئی تب تو دوبارہ نکاح کیے بغیر ہی "ازدواجی رشتہ "قائم کیا جاسکتا ہے.....لیکن بات نہ بننے کی صورت میں عدت گزرتے ہی عورت "بائنہ "ہو جاتی ہے ....اب دوبارہ شادی کیے بغیر چارہ نہیں.......یہاں ہمارے عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ طلاق کا مقصد یا تو تنبیہ ہے یا رشتے کا خاتمہ.....اور یہ دونوں مقاصد ایک طلاق سے حاصل ہوسکتے ہیں، لہذا ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا بے وقوفی ہے.....کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی کو تنبیہ کے لیے ایک طلاق دے دی اور جب مصالحت ہوگئی تو پھر رشتہ چل پڑا.....بدقسمتی سے بات پھر بگڑ گئی اور بننے کے آثار نہیں، تو اس وقت بھی ایک ہی طلاق دے، تاکہ عدت کے دوران صلح کی صورت میں دوبارہ نکاح کی زحمت سے بچ جاے.....اور اگر رکھنے کا ارادہ ہی نہیں تو عدت گزر جانے دے.....عورت بائنہ ہوجاے گی....بالفرض پھر دونوں رشتہ قائم کرنا چاہیں تو محض نکاح سے کام چل جاے گا....خدا نخواستہ نباہ اب بھی نہ ہو سکا تو تیسری طلاق دے کر رشتہ ختم کیا جاسکتا ہے.....لیکن اب مصالحت کے سارے دروازے بند ہیں......حلالہ کراے بغیر اس مرد و عورت کا رشتہ منعقد نہیں ہوسکتا.....یہاں فقہی باریکیاں سمجھانے کا موقع نہیں.....بس اتنا عرض ہے کہ مسلمانوں نے اپنے قوانین کو خود ہی بالاے طاق رکھ دیا ....اب آزمائش تو جھیلنی ہی پڑے گی.....یہ ہم علما کی ذمے داری تھی کہ اپنے عوام میں بیداری لاتے، افسوس کہ "منصب نشینی "کے سوا ہم سے کچھ نہ ہو سکا......لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے پر تلے ہیں، کوئی سمجھانے والا نہیں......یہ کام مسلم پرسنل لا بورڈ کرتا تو احسن طریقے سے ان مصائب سے گلو خلاصی ہوتی.....مگر یہاں "منصب نمائی "اور "رکنیت بیانی "کے علاوہ کوئی بڑا قدم بمشکل ہی اٹھتا ہے.....فالی اللہ المشتکیٰ