اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: July 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 25 July 2020

بہار کی سیاست و الیکشن پر راشد لطیف کا تجزیہ!

بہار کی سیاست میں آسکتی ہے تبدیلی، جے،ڈی،یو،بی جے پی،آر جے ڈی،کی مقبولیت میں کمی، کانگریس کا گراف نوجوانوں میں کافی بڑھا، کانگریس کے لیے بہار سے کچھ اچھی خبر آنے کی امید ہے

نئ دہلی(آئی این اے نیوز 25/جولائی 2020)گزشتہ تیس سال یعنی 10مارچ 1990 کو بہار میں کانگریس کی سرکار چلی  گئی تھی۔۔۔مگر اب بہار میں کانگریس کی مقبولیت میں اب تیزی سے اضافہ ہونے کی امید ہے،اگر کانگریس نے %40 والی انتہائی پسماندہ طبقے سے بہار پردیش صدر منتخب کریں توں کانگریس بہار مزید مضبوط ہوں گے۔۔۔بہار کے نوجوانوں جو بہار کے علاوہ دوسری جگہوں پہ تعلیم کرتے ہیں وہ سیاسی طور پر کانگریس کا ہاتھ ضرور تھامنے میں یقین رکھتے ہیں۔
حالانکہ 2015 اسمبلی انتخابات میں کانگریس بہار میں چوتھی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی،اور ماہ گڈ بندھن میں رہ کر سرکار بھی بنائی تھی،مگر چند مہینوں کے بعد سرکار ٹوٹ گئی اور جے ڈی یو نے اپنے پرانے دوست بی جے پی سے ہاتھ ملا کر سرکار بنا لی۔واضع رہے کہ گزشتہ 30 سالوں سے بہار میں کانگریس کی حکومت نہیں ہے،یہاں پہلے آر جے ڈی کی حکومت رہی پھر جے،ڈی،یو،اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنتی رہی ہے۔۔2015 ماہ گڈ بندھن اسمبلی انتخابات میں آر،جے،ڈی کو 101 سیٹ میں 80 سیٹ پر فتح حاصل ہوئی تھی،جے ڈی،یو،کو 101 میں 71 سیٹ پر فتح حاصل ہوئی تھی اور کانگریس کو 41 سیٹ میں 27 سیٹ پر فتح حاصل ہوئی تھی،کل ماہ گڈ بندھن کو 243میں سے 178 سیٹیں ملی تھی اور ماہ گڈ بندھن کی حکومت بنی اور چند مہینوں کے بعد سرکار ٹوٹ گئی،اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی،اور جنتا دل یونائیٹڈ کی حکومت بنی۔۔۔۔آج کانگریس بہار میں نوجوانوں کے لیے سب سے مقبول پارٹی بن کر ابھر رہی ہے اگر کانگریس پارٹی کے ذمه دار نوجوانوں کو مان سمان دینے میں کامیاب رہی تو،کیونکہ بہار پردیش کانگریس صدر کو لیکر اعلیٰ کمان میٹنگ کر رہی ہے کہ بی پی سی سی صدر کن کو بنایا جائے،جبکہ اس لسٹ میں کافی پرانے سینیئر کانگریسی لیڈران کے نام شامل ہیں۔۔سینیئر لیڈر شیام سندر سنگھ دھیرج،سابق ممبر پارلیمنٹ و مرکزی وزیر طارق انور،سینیئر لیڈر و MLC سمیر سنگھ،نکھیل سنگھ،مدن موہن جھا،اور ڈاکٹر پرمود کمار چند ونشی %40 انتہائی پسماندہ طبقہ سے آنے والےکے نام شامل ہیں۔۔۔اگر کانگریس پارٹی انتہائی پسماندہ طبقات سے صدر منتخب کرتے ہیں تو بہار میں کانگریس پارٹی کا گراف کافی بڑھنے کا امکان ہے جس سے اقلیتی اور دلت،اور پچھڑے سماج کے لوگ کانگریس کی طرف پھر سے رخ کریں گے۔۔اور نوجوان طبقہ کانگریس کے طرف واپس چلے جائیں گے،جبکہ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں مہا گڈ بندھن کافی مقبول اور زبر دست اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دی،جبکہ آر،جے،ڈی،پہلی،جے ڈی،یو،دوسری،بی،جے،پی،تیسری اور کانگریس چوتھی پارٹی بن کر ابھری۔2015 سے لیکر اب تک نتیش حکومت میں کانگریس پارٹی بہار میں آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے کیونکہ نتیش حکومت کی ناکامی کو سب سے زیادہ جے،ڈی،یو  اور کانگریس ہی اجاگر کر رہی ہے۔۔ لوک سبھاانتخابات 2019 میں بہار میں مہا گڈ بندھن کو زبردست دھچکا لگا تھا،بہار کی کل 40 سیٹوں میں سے صرف مہا گڈ بندھن کو 1سیٹ میں ہی کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ سیٹ ڈاکٹر جاوید کشن گنج کی تھی،جبکہ سابق ممر پارلیمنٹ و مرکزی وزیر طارق انور کو کٹیہار کی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔۔۔یہ شکست اس وقت ہوئی تھی جب طارق انور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی چھوڑ کر پھر سے کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔۔بہار میں کانگریس پارٹی کیسے مضبوط ہو اور کانگریس پارٹی کی کھوئی ہوئی وقار کیسے واپس لوٹے بہار کے یوا پیڑھی کافی فکر مند ہے۔بہار میں تقریبا 10 مارچ 1990 کو کانگریس کی سرکار ختم ہو گئی تھی۔نئی نسل کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بہار میں یہ موقع کانگریس پارٹی %40 والے انتہائی پسماندہ سماج کو دیا جانا چاہیے،جبکہ سینیئر لیڈران کی فہرست میں انتہائی پسماندہ سماج سے ڈاکٹر پرمود کمار چند ونشی کے نام موجود ہے،جو پچھلے 34 سالوں سے کانگریس  پارٹی کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔اگر بہار میں کانگریس صدر ڈاکٹر پرمود کمار چند ونشی بنایا جاتا ہے تو دلت سماج،جے،ڈی یو،چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھا میں گے،باقی کانگریس کے پاس برہمن،راجپوت مسلمانوں،وغیرہ کا ووٹ ہے ہی،مگر دلت سماج کا ووٹ بینک بن جائے گا۔۔اس لیے بہار کانگریس کمیٹی صدر کے لئے کانگریس پارٹی کسی انتہائی پسماندہ طبقات سے بنانے پر غور و فکر کرتے ہوئے دکھائیں دے رہے ہیں،اور نوجوان بھی یہی چاہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت ہی اچھا ہوگا۔۔گزشتہ کئی سالوں سے کانگریس پارٹی اور خاص کر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی توجہ کسانوں،نوجوانوں،مسلمانوں، مزدوروں،اور دلتوں کے مسائل پر ہے۔۔اور کھل کر بول بھی رہے ہیں،کانگریس پارٹی کے اعلیٰ کمان اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ بہار میں 1990 کو سرکار ختم ہونے کے بعد مسلمان اور دلت اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا،دلت بہت تیزی سے پہلے آر، جے، ڈی،کی طرف گیا اور پھر بعد میں جنتا دل یونائیٹڈ  کی طرف،اب کانگریس پارٹی کے پاس موقع ہے کہ مسلمان اور دلت کو پوری طرح اپنے خیمے میں لیکر آنے کا،اگر سوجھ بوجھ کے ساتھ بی،پی،سی،سی صدر منتخب کریں تو ہی ممکن ہے۔۔۔

Friday 24 July 2020

دہلی وقف بورڈ میں ایس او محفوظ محمد کی منمانی سے ملازمین پریشان امانت اللہ خان کو دوبارہ بحال کیا جائے: ڈاکٹر سعد رشید ندوی نئی دہلی: 24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز

دہلی وقف بورڈ میں ایس او محفوظ محمد کی منمانی سے ملازمین پریشان

امانت اللہ خان کو دوبارہ بحال کیا جائے: ڈاکٹر سعد رشید ندوی

نئی دہلی: 24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
ہندوستان میں اوقاف کی صورتحال اظہر من الشمش ہے، قوم کا یہ ادارہ جس کی کوئی منزل ہے نہ مقصود لیکن جس دن سے دہلی وقف بورڈ کے چیرمین کی کرسی اوکھلا کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان نے سنبھالی تو ایک بے جان ادارہ میں روح واپس آگئی ملک اور بیرون ممالک میں امانت اللہ خان اور دہلی وقف بورڈ کاچرچہ ہونے لگا لیکن دوسروں سے زیادہ اپنوں کی نظر لگ گئی۔

مذکورہ باتوں کا اظہار خیال آل انڈیا ندوہ اولڈ بوائز کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سعد رشید ندوی نے پریس ریلیز کے ذریعہ کیا۔ ساتھ ہی دہلی کے وزیر اعلی اور لفٹننٹ گورنر سے مطالبہ کیا کہ فوری طورپہ امانت اللہ خان کو دوبارہ بحال کیاجائے تاکہ بورڈ میں ہورہی طوفان بدتمیزی کو روکا جاسکے آج ایک کمپوٹر آپریٹر سکشن آفیسر بنابیٹھا ہے اور اس کے رویہ سے بورڈ کے ملازمین ائمہ موذنین سبھی پریشان ہوتے رہتےہیں۔ ندوہ اولڈ بوائز کے دیگر ذمہ داروں نے کہا کہ سنئر کے رہتے ہوئے آخر ایک جونئیرایس او کیسے بن گیا اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔

بورڈ کے ملازمین کو چھ مہینہ سے تنخواہ جاری نہیں کی گئ آخر اس کاذمہ دار کون ہے جنرل سکریٹری نے محفوظ محمد کی منمانی کاتذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ اس مہاماری کےوقت میں حکومت اور عدالت نے کسی بھی ملازمین کے ٹرانسفر پر روک لگارکھی ہے جبکہ دہلی وقف بورڈ کے چار موذنین کا ٹرانسفر بغیر کسی وجہ کے ایس او کے ذریعہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مساجد کے خدام اکثر پریشان ہوتے رہتے ہیں، سعد رشید ندوی نے یہ بھی کہا کہ آخر ایک سکشن آفیسر اپنی مرضی سے کیسے کسی کا ٹرانسفر کرسکتا ہے جبکہ بورڈ میں چیرمین اور( CO) سی او موجود نہیں ہیں لوگوں کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہئے کہ کئی ایسے ائمہ اور موذنین ہیں جنکی تنخواہ سالوں سے بند کر رکھی ہے اور وہ بےچارے بغیر وظیفہ کی خدمت انجام دے رہے ہیں افسوس ایک فلاحی ادارہ اپنے امام و موذن کی تنخواہ بند کئے ہوئے ہے اور کوئی اس ظلم کے خلاف بولنے کوتیار نہیں ہے۔ بورڈ میں رشوت کے ذریعہ آپ جہاں چاہیں جس جگہ چاہیں وہاں کی کمیٹی بناکر صدر سکریٹری کاعہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسلئے آل انڈیا ندوہ اولڈ بوائز پرزور مطالبہ کرتا ہے حکومت فوری طورپہ جانچ کر ادارہ کے ملازمین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پہ قدغن لگا کر ایسے تمام بدعنوان ملازمین کے خلاف سخت کاروائی کرے۔

انجانشہید: ماسٹر صلاح الدین صاحب کی اہلیہ کا انتقال! رپورٹ: حافظ ثاقب اعظمی ___________ انجانشہید/اعظم گڑھ( 24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز

انجانشہید: ماسٹر صلاح الدین صاحب کی اہلیہ کا انتقال!
رپورٹ: حافظ ثاقب اعظمی
___________
انجانشہید/اعظم گڑھ( 24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز سگڑی تحصیل علاقہ کے موضع انجانشہید کے ماسٹر صلاح الدین صاحب کی اہلیہ کا کل دیر شام کو انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون.
واضح ہو کہ ماسٹر صاحب کی صاحبزادی اور اہلیہ کا گزشتہ کچھ دنوں پہلے آٹو کے پلٹنے سے زخمی ہوگئی تھی جن کا علاج اعظم گڑھ کے ایک ہاسپیٹل میں چل رہا تھا، کل جمعرات کی دیر شام علاج کے دوران ہاسپیٹل میں ہی اہلیہ کا انتقال ہوگیا، آج بروز جمعہ بعد نماز جمعہ موضع انجانشہید کے دھسواں قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.
نماز جنازہ میں علاقہ کے سیکڑوں لوگوں نے شرکت کر کے ان کی اہلیہ کیلئے دعاء مغفرت کی.
دعا کریں اللہ پاک مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر عطا کرے آمین.

یوپی میں صدر راج کا نفاذ ناگزیر: اکھلیش سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اتر پردیش میں جرائم کے بڑھتے معاملات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی واحد حصولیابی قرار دیتے ہوئے ریاست میں آئینی بحران کا دعوی کیا اور صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا


یوپی میں صدر راج کا نفاذ ناگزیر: اکھلیش

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اتر پردیش میں جرائم کے بڑھتے معاملات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی واحد حصولیابی قرار دیتے ہوئے ریاست میں آئینی بحران کا دعوی کیا اور صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا

لکھنؤ: سماج وادی پارٹی (ایس پی)سربراہ اکھلیش یادو نے اترپردیش میں جرائم کے بڑھتے معاملات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی واحد حصولیابی قرار دیتے ہوئے ریاست میں آئینی بحران کا دعوی کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔
اکھلیش یادو نے یہاں جاری بیان میں کہا کہ اترپردیش میں مجرموں کا کھیل جاری ہے۔اقتدار کا پناہ یافتہ ،محروم طبقات کے دشمن جرائم پیشہ افراد کو کسی کا بھی خوف نہیں ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب راجدھانی لکھنؤ سمیت ریاست کے مختلف اضلاع سے قتل،لوٹ، اغوا، عصمت دری کے واقعات کی اطلاعات نہ آتی ہوں۔اترپردیش میں قانون کا راج نہیں رہ گیا ہے۔بحران کی وجہ سے صدر راج کا نفاذ ناگزیر ہے۔
سابق وزیر اعلی نے الزام لگایا کہ مافیاؤں اور غنڈوں سے برسر اقتدار پارٹی کے لیڈروں کی خفیہ تعلقات ہیں۔پولیس بھی اس میں اپنی حصہ داری نبھاتی ہے۔ابھی کانپور کے بکرو میں واردات پیش آئی اور پھر لیب ٹینیشن کا اغوا کر کے قتل کردیا ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ 30 لاکھ روپئے بھی بدمعاش پولیس کے سامنے لے کر ہی فرار ہوئے ہوں گے۔
اکھلیش یادو نے سنجیت یادو کے قتل کو پورے نظم ونسق کے قتل سے تعبیر کرتےہوئے کہا کہ ابھی تک متوفی کی لاش بھی برآمد نہیں ہوسکی ہے۔یہ پولیس کی شدید لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ سماج وادی پارٹی متاثرہ کنے کوپانچ لاکھ روپئے کا مالی تعاون پیش کرے گی ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرہ کنبے کو 50لاکھ روپئے کی مالی مدد فراہم کرے ۔

دہلی فساد: جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کی دکانوں کا تعمیری کام مکمل اب یہ مارکیٹ جمعیت ٹائر مارکیٹ مدنی نگر گوکل پوری کے نام سے جانی جائیگی

دہلی فساد: جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کی دکانوں کا تعمیری کام مکمل
اب یہ مارکیٹ جمعیت ٹائر مارکیٹ مدنی نگر گوکل پوری کے نام سے جانی جائیگی
نئی دہلی: دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں امسال فروری ماہ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کی دکانوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ دکانوں کو منہدم کرکے پوری مارکیٹ کو فسادیوں نے نذرِ آتش کر دیا تھا۔ جس سے دکانداروں کو بھاری مالی نقصان ہواہے۔ تاہم کورونا بحران کا سامنا کرتے ہوئے انکو دوہری مار جھیلنی پڑی ہے۔ جمعیت علماء ہند کی جانب سے گزشتہ ماہ سے مارکیٹ کی جن دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا ان کی تعمیر کا کام چل رہا تھا۔جو آج مکمل ہو گیا ہے۔ اس موقع پر جمعیت علماء ہند نے مارکیٹ کا افتتاح کیا۔جس میں ضلع مجسٹریٹ ششی کوشل،اے ڈی ایم آرسی اگروال، ایس ڈی ایم،دیویندر کمار نے بھی شرکت کر مارکیٹ کا دورہ کیا۔اور شجر کاری بھی کی۔
اس دوران جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا اور کہا کہ گزشتہ دنوں علاقہ میں فسادات ہوئے،شرپنسدوں اور ظلم کے شریک لوگوں نے معصوم افراد کے ساتھ زیادتیاں کیں ان کے مکانات دوکانات کو تباہ کیا اور گوکل پوری کی ٹائر مارکیٹ کو نہ صرف لوٹا گیا بلکہ نذرِ آتش بھی کیا گیا،ملک کے کچھ صاحب حیثیت مسلمانوں نے اس کی بحالی کا ذمہ اٹھایا جو کسی وجہ سے روک گیا، اللہ کا فضل ہے کہ اس نے بچے ہوئے کام مکمل کو کرانے کے لئے جمعیتہ علماء ہند کو توفیق دی جو ہمارے لئے خوشبختی اور سعادت کی بات ہے، جمعیتہ کے اہم ذمہ داران گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کی بحالی میں مصروف رہے جو مکمل ہوگئ ہے۔انہوں نے سبھی دکانداروں کو مبارکباد پیش کی اور مستقل کے لیے اپنی نیک دعاؤں سے نوازا۔
ٹائر مارکیٹ میں موجود نیاز فاروقی نے نمائندہ کو بتایا کہ ٹائر مارکیٹ میں کل 224 دکان ہیں۔ان میں سے 97 دکانوں کی دیواروں،چھتوں کو گرا کر خاک کر دیا گیا تھا۔انہوں بتایا دکانوں کی تعمیر کے لیے کافی آرگنائزیشن نے شروعات میں تعمیر کا کام کیا تھا لیکن وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا۔جس کے سبب لوگوں اور دکانداروں کو بھاری مالی نقصان کے ساتھ کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔انہوں مزید کہا کہ سب سے پہلے مارکیٹ کی جو بدترین حالت ہو گئی تھی اس کو نارمل کرنا تھا۔اس کے لیے ہم نے یہاں کے انتظامیہ،پولیس ڈی ایم،وغیرہ سے بات کی اور ان کا تعاون بھی ہمیں مل پایا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہندو مسلم دونوں میں جو رشتے ہے اُن کو بحال کرنا تھا۔اسی لیے آج مارکیٹ دوبارہ پہلے کی طرح آباد ہو گئی ہے۔
جمعیت علماء ہند کے قومی سیکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے بتایا کہ ہمارا مقصد بلا تفریق مذہب و ملت فلاح و بہبود کے کام کرنا ہے۔جس میں جمعیتہ علماء ہند ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ24 فروری کو مارکیٹ میں آگ زنی کی گئی تھی۔آج 24 جولائی ہے۔ہم اس جلے ہوئے ماحول میں کھڑے ہوئے ہیں جو اب خوشیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ہم نے ان دکانداروں کے آنسوؤں کو دیکھا ہے اور ان کے درد کو محسوس کیا ہے۔جمعیت کے پاس جب یہ لوگ آئے تو مولانا محمود مدنی نے انکی درخواست کو قبول کیا۔تاہم آج 97 دکانوں کا تعمیری کام مکمل ہو چکا ہے دکاندار دوبارہ سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ مارکیٹ کی کمیٹی کے اِسرار پر اور سبھی کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ اب یہ مارکیٹ جمعیت ٹائر مارکیٹ مدنی نگر گوکل پوری کے نام سے جانی جائیگی۔
مارکیٹ کا دورہ کرنے آئی ڈی ایم،ششی کوشل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں مارکیٹ کی دکانوں پر بورڈ نظر آرہے ہیں،خوشحالی نظر آرہی ہے جو خوش آئند بات ہے۔انہوں نے قومی يكجہتی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب ہندوستانی ہے ایک دوسرے کے تعاون سے ہی ہم ترقّی کی راہوں پر گامزن ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن فساد متاثرین کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل پایا ہے دوبارہ سے جلد ہی یہ کام شروع کردیا جائے گا۔

علم وادب کا بےمثل شہسوار اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی

علم وادب کا بےمثل شہسوار
                         
          اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی

اردو زبان کی خوش قسمتی ہے کہ ہر دور میں اس کی آبیاری کرنے والے، اس کو دل سے لگانے والے، اور اس کی زلفیں سنوارنے والے موجود رہے ہیں۔


قابل ذکر  وخوشی کی بات تو یہ ہے کہ ناسازگار حالات کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے، منصوبہ بند مخالفتوں کے باوجود اردو کے چاہنے والے اس کی خدمت کو آج ایک ضروری فرض سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں وہ قدر مستحق تحسین قرار پاتے ہیں جو حوصلے اور ستاٸش کی تمنا کٸے بغیر اپنے فرض کو نبھارہے ہیں۔ جو قلمی جہاد سے اردو کو سرخ رو اور سربلند کرنیکی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہی افراد میں سے دور حاضر کے نامور ادیب مکرم ومحترم مولانا ابن الحسن عباسی صاحب بھی ہیں۔ جن کی تحریروں میں بلاکی جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، جوانی کی ترنگ اور شباب کی جولانیاں ہر قدم پر بہاروں اور سبزہ زاروں کی صورت میں نظرآتی ہے، اسلوب تحریر کی دلکشی ورعناٸی لفظ لفظ سے پھوٹی پڑتی ہے، قاری جب محو قرأت ہوتاہے توطرز تحریر میں کہیں تکرار والجھاٶ محسوس نہیں کرتا ہے بلکہ ایک ہی دھن میں مکمل پڑھنے کی چاہت رکھتاہے۔ اور یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ:   
    *چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا*
   *محسوس ہوا پاٶں میں زنجیر پڑی ہے*
                         
ہندستان کے بہترین ادب کے شناور حضرت مولانا ومفتی شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی نے  آپ(ابن الحسن عباسی) کی تحریروں میں غوطہ زنی کرکے الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر کچھ یوں پیش کیاہے:
       "آدمی جب ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتاہے تو وہ کبھی خود کو شورش کی محفل میں تصورکرتاہے، کبھی عامر عثمانی کے جہاں میں، کبھی اسے وہ تحریریں آزاد کی وادیاں معلوم ہوتی ہیں، کبھی حالی وشبلی کے دبستانِ صد رنگ کی پرکیف فضا، کبھی ماہر القادری کا بانکپن محسوس کرتاہے، تو کبھی دریاآبادی کے مخصوص لہجہ واسلوب کاچمن زار دلنواز، غرض انہوں نے تمام صف اول کے ادیبوں کے امتیازی اوصاف کو اپنی تحریروں میں نچوڑ کر ایک نٸے اسلوب کی دریافت کی ہے، اور اسی انفرادیت کا نقش قاٸم کرنے میں وہ اس قدر کامیاب ہیں کہ اچھے اچھے شہرت یافتہ ادیب وانشا ٕ پرداز ان کے اسلوب پر عش عش کرتے ہیں۔۔۔۔دیکھٸے(ماہنامہ النخیل شعبان ١٤٤٠ھجری)

واضح رہے کہ اپ کا اصل نام مسعود عباسی ابن مخدوم عباسی ہے قلمی نام ابن الحسن عباسی 1972کی پیداٸش 1993میں دارالعلوم کراچی سے فراغت، فراغت کے معابعد سے 2010تک جامعہ فاروقیہ کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2010 از تاحال جامعہ ترات الاسلام کراچی کےشیخ الحدیث  بانی ومہتمم ہیں۔

آپ کے گہربار قلم سے اب تک ایک درجن کے قریب  تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں دو شرحیں بھی ہیں۔

متاع وقت کاروان علم، کرنیں، داستاں کہتے کہتے، کتابوں کی درسگاہ میں، التجاٸے مسافر، مدارس ماضی حال مستقبل، کچھ دیر غیرمقلدین کیساتھ، وفاق المدارس ساٹھ سالہ تاریخ، درس مقامات حریری، توضیح الدراسہ شرح حماسہ، کتب نما،

اول الزکر چار کتابیں بندے کے پاس موجود ہیں لہذا انھیں کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کی جرأت کررہاہے۔

 *"متاع وقت اور کاروان علم"* ٢٤٧ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مصنف کو انشاء پردازی، اور سحر انگیز اسلوب میں قوت اظہار کے حوالے سے اقبال مندی وسربلندی کا تمغہ دلانے کےلئے کافی ہے جیساکہ نام ہی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیاہے؟۔لہذا اس کو بیان کرنے کی ضروت نہیں، زبان کی شگفتگی، اانداز بیان کی برجستگی وبے ساختگی کے اعتبار سے یہ کتاب ادب کاایک شاہ کار اور شہ پارہ ہے۔۔اس کی ایک مثال بھی لے لیں مصنف مفتی تقی صاحب کے متعلق کچھ یوں رقم طراز ہیں۔۔
دینی مدارس کی زندگی کے خاموش دریا میں وہ"موج تند جولاں" اب بہت کم اور بڑی مدت کے بعد اٹھتی ہے، جس سے نہنکوں کے نشیمن تہہ وبالا ہوجاتے ہیں، لیکن ان مدارس کا یہ المیہ کامیابی ہے نایابی نہیں۔ دینی مدارس  کے سادہ اور محدود ماحول میں، عقابی روح اور سینے میں شاہین کا جگر رکھنے والے، جرأت رندانہ وقوت قلندرانہ کے مالک، خود اعتمادی وخود شناسی کے جوہر سے آراستہ اور تحریر وتقریر کی غیر معمولی صلاحیت سے پیراستہ ایسے "دیدہ ور" اب بھی پیدا ہوتے رہےہیں جن کے مطالعہ کی وسعت اورعلم کی پختگی کے سامنے بڑی سے بڑی ملکی یا بیرونی دانش گاہ کے فضلا ٕ اور مغربی زبان کے ماہرین کا چراغ نہیں جلتا۔ اسکی ایک مثال استاذ محترم مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب ہیں۔(کتاب مذکورہ:ص/٢٤٣)

 *"کتابوں کی درسگاہ میں"* یہ کتاب ٢٢٣صفحات پر مشتمل مختلف  گل ہاٸے رنگہا رنگ موتیوں کا ایک علمی گلدستہ ہے دراصل دوران مطالعہ جو واقعات ولطاٸف دل کو بھاٸے مصنف نے اس کو قلمبند کردیا۔۔انداز بیاں سلیس ودلربا ہے۔ مثال کے طورپر کتاب مذکورہ کے صفحہ/167 پر 'صبح'کی رنگینی اور اس کے جمالیاتی کائنات کو دیکھیں،جس کی صورت گری کرتے ہوئے مصنف کا قلم کچھ یوں لفظوں سے کھیلتاہے:
    جب لیلئ  شب زلفیں سمیٹتی ہے، اندھیر کھسکتے ہیں، خاموشی رختِ سفر باندھتی ہے، ستارے دم توڑتے ہیں، شبنم پھولوں کو وضو کرانے آتی ہے، روشنی کے لمس سے زندگی کے وجود میں سرشاری دوڑتی چلی جاتی ہے، لمحوں کے چہرے پر رنگیتی تاریکیاں چھٹنے کو آتی ہیں اور پوپھوٹنے لگتی ہے، تب طیور آشیانے چھوڑجاتے ہیں، ڈالیوں بنے نشیمن خالی ہوتے چلے جاتے ہیں، دہقاں کھیت کے کنارے شانہ  ہلاتاہے، غنچے چٹکتے، گل مہکتے ہیں، صبا بکھرتی، گلستان نکھرتے ہیں، عندلیب چہکنے اور جگنوبن کر ہرذرہ بیاباں چمکنے لگتاہے۔۔۔۔۔یقیناً کاٸنات کی بزم میں طلوع سحر کا یہ پرکیف سماں قدرت کے شاہکار مناظر میں سے ہے۔ ،،

 *"کرنیں"* یہ کتاب ٣٠٢صفحات پر مشتمل مختلف مضامین کا علمی ومعلوماتی دستاویز ہے انداز بیاں منفرد وجداگانہ ہے صفحہ/٦٩ پر ایک مضمون کا آغاز کچھ یوں ہوتاہے:
  ہمارا یہ دور مسلمانوں کے لٸے موسم درد والم ہے، اس عہدِ ستم پر نہ جانے کتنے مرتیے کہے گٸے اور نہ معلوم کب تک کہے جاٸیں گے۔۔۔ ایک درد مند مسلمان کے ساز جگر چھیڑنے والے خونچکاں مناظر کی ہر سو پھیلی ویرانیوں میں جب دل کےپردوں سے نالے پھوٹتے ہیں تو لفظ وبیان اور تعبیر وزبان کا سانس ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔

 *"داستاں کہتے کہتے"* ١٥٩ صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی ملک کے مقبول اخبارات ورسائل میں لکھے گئے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے صفحہ ٦١ پر مسلم قوم کی ترقی کے متعلق مصنف کا قلم سرچڑھ کر کچھ یوں بول رہاہے:
  ہماری ترقی کی راہ میں صرف وساٸل کی کمی رکاوٹ  نہیں بلکہ وساٸل کا صحیح استعمال اور من حیث القوم ان کے درست کی تربیت کا فقدان بھی ہماری ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ تربیت ہمیں اسلام نے فراہم کی ہے اور اس قدر اعلیٰ طریقے سے فراہم کی ہے کہ اس سے بہتر کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا، لیکن ہم نے اسلام کی وہ اعلی تربیت تیاگ دی ہے، نتیجتاً ہمارے قومی مزاج میں بگاڑ آگیا اور یہی بگڑا ہوا مزاج ترقی کے لٸے سدّ راہ ہے۔۔۔۔علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔۔

ان تحریروں کے پڑھنے کے بعد آپ کی شخصیت علامہ اقبال کے کہے ہوٸے اس شعر کی حقیقی مصداق لگ رہی ہے۔۔     

 *ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے*
        *بڑی مشکل سے ہوتا ہے*      *چمن میں دیدہ ورہ پیدا*

فی الحال آپ عمر کی48 ویں بہاریں دیکھ رہے ہیں دعا ہے حق جل مجدہ سے آپ کی عمروں میں خوب برکت عطافرماٸے اور آپ کے علمی، ادبی، تحقیقی، معلوماتی فیضان کو اسی طرح جاری وساری رکھے۔۔۔ *آمین*

مراد علی نے جوش اور ولولے کے ساتھ تھاما مجلس اتحاد المسلمین کا پرچم ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! معراج احمد انصاری

مراد علی نے جوش اور ولولے کے ساتھ تھاما مجلس اتحاد المسلمین کا پرچم 

ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! معراج احمد انصاری
سماجی تنظیم غازی فاؤنڈیشن کے صدر مراد علی نے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ساتھ انہیں ضلع صدر کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز شہر میں واقع پارٹی دفتر میں منعقد تقریب میں غازی فاؤنڈیشن کے صدر مراد علی نے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ پورے جوش اور ولولے کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین میں شامل ہو گئے ہیں۔ منعقدہ تقریب میں مجلس اتحاد المسلمین کے صوبائی سکریٹری عرفان پٹھان نے پارٹی کے ریاستی صدر شوکت علی کی ہدایت پر سینئر سماجی کارکن مراد علی کو مجلس اتحاد المسلمین میں شامل کرکے ضلع کی کمان بھی سونپ دی ہے۔ انہوں نے مراد علی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک سیاسی ورکر نہیں بلکہ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت کے حامل ہیں۔ انکے مجلس اتحاد المسلمین کے پرچم تھامنے سے پارٹی کو مزید طاقت ملےگی۔ اس موقع پر سالم انصاری، شاہد انصاری، نفیس انصاری، غلام دستگیر، وغیرہ نے گل پوشی کر خوشی کا اظہار کیا۔

رام مندر 'بھومی پوجن مہورت' تنازعہ کا شکار، سوامی سوروپانند سے ایودھیا کے سنت چراغ پا رام جنم بھومی کے پردھان پجاری آچاریہ ستیندر داس کا کہنا ہے کہ بھادو پکش میں سبھی گرہ نکشتر موزوں ہوتے ہیں۔ اس ماہ میں کیے گئے کسی بھی کام کو مضر نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔"

رام مندر 'بھومی پوجن مہورت' تنازعہ کا شکار، سوامی سوروپانند سے ایودھیا کے سنت چراغ پا
رام جنم بھومی کے پردھان پجاری آچاریہ ستیندر داس کا کہنا ہے کہ بھادو پکش میں سبھی گرہ نکشتر موزوں ہوتے ہیں۔ اس ماہ میں کیے گئے کسی بھی کام کو مضر نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔"
شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی کے ذریعہ رام مندر 'بھومی پوجن مہورت' سے متعلق دیا گیا بیان تنازعہ کا شکار ہو گیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں رام مندر تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مقرر کردہ تاریخ 5 اگست کو 'اشبھ' (منحوس) بتایا تھا جس پر ایودھیا کے سنتوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ کچھ سنتوں نے تو شنکراچاریہ کو چیلنج پیش کیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ بھادر پکش کی بھادو اشبھ ہوتی ہے۔
ایودھیا کے سنتوں کا کہنا ہے کہ بھادو میں بھگوان شری کرشن کی پیدائش ہوئی تھی اور اس لیے پورا مہینہ ہی شبھ (مبارک) ہوتا ہے۔ جس ماہ میں دیوتا اَوتار لیتے ہیں اس پورے ماہ کو مبارک تصور کیا جاتا ہے۔ سنتوں کا کہنا ہے کہ بھگوان کے خصوصی طور پر دو اوتار ہوتے ہیں، ایک رام اوتار اور دوسرا کرشن اوتار۔ رام اوتار چیتر میں ہوا تھا اس لیے چیتر کا پورا مہینہ مبارک ہوتا ہے۔ بھادو میں بھگوان کرشن نے جنم لیا تھا اس لیے بھادو کا بھی مکمل مہینہ مبارک ہے۔
ہندی نیوز پورٹل 'نیوز 18' پر شائع ایک خبر میں شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی کے بیان پر رام جنم بھومی کے پردھان پجاری آچاریہ ستیندر داس کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ "خاص طور سے سناتن مذہب میں دو اوتار مانے جاتے ہیں۔ بھگوان رام کا اوتار چیتر ماہ میں ہوا تھا اور بھگوان کرشن کا اوتار بھادو پکش میں ہوا تھا۔ اس ماہ میں سبھی گرہ نکشتر (فلکیاتی نظام) موزوں ہوتے ہیں۔ اس ماہ میں کیے گئے کسی بھی کام کو مضر نہیں کہا جا سکتا ہے۔" آچاریہ ستیندر داس مزید کہتے ہیں کہ "مندر تعمیر کی تاریخ اسی وقت شبھ مانی جاتی ہے جس وقت اس کی بنیاد کا پتھر رکھا جائے۔ اس لیے بھادو کو اشبھ نہیں کہنا چاہیے۔ جو بھی پتھر بھگوان رام کے بھومی پوجن کے لیے رکھا جائے گا وہ شبھ ہوگا اور مندر بلارکاوٹ جلد تعمیر ہوگی۔"
دوسری طرف تپسوی چھاؤنی کے مہنت پرمہنس داس کا کہنا ہے کہ شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی نے 5 اگست کو اچھا مہورت نہ ہونے کی بات کہی ہے اور کہا ہے کہ بھادر پکش میں کوئی بھی مبارک کام نہیں ہوتا ہے جو نامناسب ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھادو میں بھگوان کرشن کا جنموتسو منایا جاتا ہے اور بھادو کا پورا مہینہ مبارک ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ "ویسے بھی بھگوان شری رام کا نام محض لینے سے ہی سبھی برائیاں دور ہو جاتی ہیں۔" مہنت پرمہنس داس نے سوروپانند سرسوتی کو چیلنج بھی پیش کیا اور کہا کہ "وہ (سوروپانند) اس معاملے پر آ کر مجھ سے شاسترارتھ کریں۔"
مہنت پرمہنس داس نے شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی پر الزام عائد کیا کہ وہ مندر تعمیر کے کام میں رخنہ اندازی کرنا چاہتے ہیں اس لیے بھومی پوجن کی تاریخ کو 'اشبھ' ٹھہرا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ "ہنومان چالیسا سے لے کر رِگ وید تک آ کر سوروپانند سرسوتی شاسترارتھ کریں اور ثابت کریں کہ 5 اگست کو بھومی پوجن کرنا غلط ہے۔"
بشکریہ! قومی آواز 

*عارف باللہ حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے سوانحی نقوش اور خدمات* ✍🏻از قلم: عبدالرحمن چمپارنی *شخصیات نمبر کی چھٹی قسط*/6

*عارف باللہ حضرت مولانا قاری  صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کے سوانحی نقوش اور خدمات*
✍🏻از قلم: عبدالرحمن چمپارنی
*شخصیات نمبر کی چھٹی قسط*/6
  آپ  ؒ کانام : آپ ؒ کانام سید صدیق احمد تھا ، اور آپ ؒ  کے والد محترم کا نام سید احمد تھا
آپ ؒ کی  ولادت : آپ ؒ  بہ روز  جمعہ ۱۱؍ شوال المکرم ۱۹۲۳ ء اپنے گاؤ ں ہتھورا ضلع باندہ ضلع اتر پردیش میں  پیدا ہوئے ،
آپ کا نسب: آپ  ؒ  کا نسب قاضی محمد داؤد تک جاپہنچتا ہے ،
آپ ؒ کی تعلیم وتربیت : آپ ؒ نے گاؤ ں ہی میں اپنے دادا قاری عبد الرحمن صاحب تلمیذ قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی ؒ سے ابتدائی تعلیم  مکمل کی اور کلام پاک حفظ کیا ، داد کی وفات کے بعد حفظ قرآن کی تکمیل اپنے ماموں سید امین الدین صاحب سے کی ، اور انھی کی فا رسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ، پھر آپ ؒ کانپور آگئے ، اور یہاں کئی ایک اساتذہ سے عربی وفارسی مبادیات کی تعلیم پائی ، پھر یہاں سے پانی پت چلے گئے اور وہاں شرح جامی تک کے درجے کی مختلف علوم  و فنون پرھیں ، اور قراء ت سبعہ کی تعلیم بھی آپ ؒ نے یہیں حاصل کی ،
اعلی تعلیم کے لئے آپ ؒ نے شوال ۱۳۵۸ ھ مطابق ۱۳۳۹ ء میں ایشا ء کی عظیم دینی دانش گاہ  مظاہر علوم سہارن پور میں دا خلہ لیا ، یہ بات قابل ذکرہے کہ
اسی سال آپ ؒنے درمیان سال میں مظاہرعلوم  سے آکر ۵؍ جمادی الاولی ۱۳۶۲ ھ کو مدرسہ شاہی میں داخلہ لیا ، اور اسی سال مشکوۃ شریف اور ہدایہ آخرین وغیرہ پڑھیں ، مدرسہ شاہی کے رجسٹر نمبرات امتحان تک آخری  نمبرات شعبان ۱۳۶۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امتحان میں آپ ؒنے  مشکوۃ شریف میں کل ۵۰ میں سے ۵۱ اور ہدایہ آخرین میں ۵۰  نمبرات حاصل کیے ، اس زمانہ میں ۵۰ ؍ نمبر ہی تک تھا ، جب کہ ہمارہ زمانہ میں ۱۰۰؍ نمبر کا مدارس ومکاتب اور یونیورسٹیوں میں ہے ۔ آیندہ سال مظاہر علوم میں پھر دورہ ٔ حدیث شریف میں داخل ہوئے لیکن سہ ماہی امتحان دے کر مدرسہ عالیہ فتح پور ی مسجد میں دہلی آگئے ، اور یہیں دورہ حدیث کی تکمیل کی ۔
آپ ؒ کے دورہ حدیث کے اساتذہ کرام : اس وقت فتح پوری  میں دودہ حدیث کے استا د حدیث علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ت تھے ، مظاہر علوم میں آپ ؒ نے بخاری جلد اورل اور ابو داؤد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ سے پڑھا ، اور بخاری  جلد ثانی مولانا عبد اللطیف صاحب ، مسلم شریف مولانا منظور احمد صاحب سے ، ترمذی ، شمائل ترمذی اور طحاوی شریف مولانا عبد الرحمن صاحب کامل پوری ؒ سے ، نسائی مولانا اسعد اللہ صاحب سے پڑھی ،
سلو ک و معرفت : آپ ؒ نے مظاہر علوم کے ایام طالب علمی  میں ، ہمیشہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے ساتھ رہا کرتے تھے ، ، آپ ؒ ان کے علم وفضل اور صلاح و تقوی کے دل دادہ تھے ، تزکیہ و احسان اور سلوک وطریقت کے منازل ان ہی کی نگرانی میں طے کیے اور طور طریقے انھی سے سیکھے ، انھوں نے ۱۳۷۶ ھ میں آپ کوخلافت و اجازت کے خلعت سے بھی سرفراز فرمایا ،حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کے وصال کے بعد ، وقت کے نامور علماء و مشایخ سے سلسلہ ٔ زیارت و استفادہ مشورہ جاری رکھا ، جن میں حضرت تھانوی ؒ کے خلفاء مولانا شاہ وصی ا للہ الہ آبادی ؒ ، مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوری ، ؒ مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی ؒ ، اور شیح الحدیث مولانا محمد زکریا ، مولانا مفتی محمو دحسن گنگوہی ، مولانا محمد احمد پرتاب گڈھی  ، اور مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ سر فہر ست ہیں ،
آپ ؒ کی خدمات
آپ ؒ نے فراغت بعد تدریسی ، تصنفی ، اور تاسیس مدارس کی خدمات انجام دی ہیں ،
تدریسی زندگی : فراغت کے بعد تدریسی زندگی کا سلسلہ شروع ہوا ، چندماہ گونڈہ مدرسے فرقانیہ ،اور چند سال فتح پور مدرسہ اسلامیہ میں تدریسی فرائض  انجام دیے ، اس طرح تین سال گزر گئے ، اسی زمانے میں علاقے میں فتنہ ٔ  ارتداد اٹھ کھڑا ہو ا، آپ ؒ نے اس فتنے کا قلع قمع کیا ، اسی زمانہ میں گاؤں آئے اسی جذبہ و حوصلہ سے پہلے تو مکاتب قایم کیے ، پھر اصل مراکز مدارس قائم کیے ، سرپرست اور نگراں رہیں ، آپ نے جو مدرسہ قائم کیا ہے ، وہ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ  ہے ۔
آپ ؒکی تصنیفی خدمات
آپ ؒ کی متحرک زندگی ، قلمی اشتغال کا موقع نہیں دیتی تھی ، لیکن آپ ؒنے تصنیف و تالیف کاصاف ستھرا  ذوق پایا تھا ، بے پناہ مشغولیتوں کے باوجود ، جو قلمی سرمایہ آپ ؒ کی یا دگار رہے ، وہ اس بات کا شاہد عدل ہے ، ذیل میں تصنیفات صدیق ؒ ملاحظہ فرمائیں ،
۱۔ تسہیل التجوید، ۲ ۔ احکام میت ،۳۔ آداب المعلمین والمتعلمین ، ۴۔ تسہیل المنطق ۵۔ حق نما ، ۶۔ فضائل نکاح ، ۷۔ تسہیل الصرف ۸۔  اسعاد الفہوم شرح سلم العلوم ۸۔ تسہیل النحو ، ۹۔ فضائل علم ۱۰۔ قواعد فا رسی ، ۱۱۔ سیرت نبوی پر سنن کی ترتیب سے واقعات کا بیان ، ۱۲۔ نماز کے موضوع پر ایک عمدہ کتابچہ ، ۱۴۔ منظوم مجموعہ ٔ کلام ۱۵۔ تسہیل السامی شرح ‘‘ شرح جامی ’’
عہدے اور مناصب : آپ ؒ   بہت سارے مدارس اور مکاتب کے رکن شوری تھے ، ان میں سر فہر ست یہ ہیں  : ۔ دالعلوم دیوبند ، ۲۔ مظاہر العلوم سہارن پور ۳۔ دالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ اور ۴۔ مدرسۃ الرشاد بنکی ضلع بارہ بنکی اور دوسرے جامعات و مدارس کے ذمہ دار اور مشیر تھے ۔
آپ ؒ کی وفات : حزن و ملال اور نم دیدہ آنکھو ں سے سلام ہو ، اس عظیم ہستی پر جو دنیا سے ۲۸ ؍ اگست ۱۹۹۷ ء کو دنیا کو الوداع کہہ گیا ،
دیکھئے : مرجع سابق (ص؍ ۴۹۰ ۔ ۴۹۸

ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ۔ فضائل و اعمال عطاء الرحمن ندوی

ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ۔ فضائل و اعمال


عطاء الرحمن ندوی
 

عید الاضحیٰ اسلامی تقویم کا آخری مہینہ ہے،یوں تو پورا مہینہ خدا کی قدرتوں اور حکمتوں کی نیرنگیوں کا آئینہ دار ہے،لیکن اسکا پہلا عشرہ اپنے فضائل و مراتب کے لحاظ سے نہایت قدر و منزلت کا حامل ہے، الله رب العزت نے قرآن کریم میں ذی الحجہ کے دس دنوں کی قسم کھائی ہے (و الفجر وليال عشر) جس سے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اسمیں اللہ کی رحمتیں بندوں پر سایہ فگن ہوتی ہیں، یہ عشرہ اللہ سے قرب کا حسین موقع اور اسکے دن اجابت و قبولیت کے ہیں، اس عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت،ذکر و اذکار کا اہتمام کریں،خاص طور پر اپنی دعاؤں میں حرمین شریفین جانے کی دعا شامل کریں۔
اسی عشرہ ذی الحجہ میں عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ولولہ انقیاد تسلیم و رضا ایثار و قربانی کی تاریخ وابستہ ہے،جسمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطاعت و ایثار کی لازوال مثال پیش کی تھی،اسمیں حج اور قربانی کو بھی یکجا کردیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہٴ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔ (طبرانی)۔۔۔۔۔۔ (ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، تکبیرِ تشریق کے کلمات یہ ہیں: اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ لَآ اِلٰہ الَّا اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ اَکْبَر۔ اللّٰہُ اَکْبَر۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذی الحجہ کی عبادت زیادہ محبوب ہے، عشرہ ذی الحجہ کے ایک دن کا روزہ عام دنوں کے ایک سال کے روزوں کے برابر اور عشرہ ذی الحجہ کی ایک رات کی عبادت لیلة القدر کی عبادت کے برابر ہے۔
نوٹ یہ فضیلت ایک ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ تک کے روزوں کی ہے دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

*بال ناخن وغیرہ نہ کاٹنا*

جو  شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اذا دخل العشر واراد بعضکم ان يضحی فلا ياخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا
’’جب ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘۔
بال ناخن نہ کاٹنے کا حکم قربانی والے کیلئے ہے، یہ مستحب ہے فرض و واجب نہیں، لہذا اگر کوئی اسکی رعایت نہ کرسکا تو گناہ بھی نہ ہوگا، نیز عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے

منظرِحق نسواں انٹر کالج نے بغیر ڈیمانڈ کے 3 ماہ کی فیس کو معاف کر دیا: حاجی اشفاق ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز

 منظرِحق نسواں انٹر کالج نے بغیر ڈیمانڈ کے 3 ماہ کی فیس کو معاف کر دیا: حاجی اشفاق

ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
ٹانڈہ شہر کے چھوٹی بازار واقع اچھی تعلیم کے لئے مشہور منظرِ حق نسواں انٹر کالج نے سرپرستوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے ہی تین ماہ کی فیس معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ جانکاری دیتے ہوئے کالج کے مینجر حاجی اشفاق احمد نے بتایا کہ کورونا وبا کے سبب اقتصادی کمزوری دیکھتے ہوئے بچوں کی پڑھائی کے لئے فکر مند، سرپرستوں کے لئے فیس ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی کے پیشِ نظر آج منظرِحق نسواں انٹر کالج انتظامیہ کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کرتے ہوئے اپنے کالج کےسبھی بچیوں کی 3 ماہ اپریل، مئی و جون تک کی فیس معاف کر دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے سے کالج میں زیرِتعلیم بچیوں کے سرپرستوں کو بڑی راحت ملیگی۔ کیونکہ اب ان کو تین ماہ کی فیس نہیں جمع کرنا ہے۔ حاجی اشفاق نے نئے تعلیمی سال میں جلد سے جلد بچیوں کے داخلے کے لئے انکے سرپرستوں سے اپیل بھی کی ہے۔

*مولانا وصی احمد قاسمی کے انتقال پر تعزیتی نشست* دربھنگہ:24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز (عبد الرحیم برہولیا وی )

*مولانا وصی احمد قاسمی کے انتقال پر تعزیتی نشست*
دربھنگہ:24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
(عبد الرحیم برہولیا وی )
مدرسہ چشمہ فیض ململ کے ناطم،جامعہ فاطمہ الزہراء ململ کے بانی و سرپرست اور معروف عالم دین حضرت مولانا وصی احمد قاسمی کے سانحہ ارتحال پر مدرسہ رحمانی نسواں جمالپور دربھنگہ میں دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا،اس موقع پر ناظم صاحب علیہ الرحمہ کے لئے ایصال ثواب کیا گیا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی، مولانا ہارون الرشید صاحب ناظم وبانی مدرسہ رحمانیہ نسواں نے کہا کہ مولانا وصی احمد قاسمی مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات تھے، وہ بہترین عالم، ایک اچھے رفیق،خدمت گار، مہمان نواز اور باحوصلہ انسان تھے،انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے مدرسہ چشمہ فیض ململ کو سینچا اور پروان چڑھایا،ان کی خدمات لائق ستایش ہیں، ان کے انتقال کی خبر سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا،میں نے آج ایک بہترین رفیق کو کھو دیا، معروف سماجی رہنما عبد السلام نے مولانا وصی احمد قاسمی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ناظم صاحب کو اللہ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا، مدرسہ چشمہ فیض اور جامعہ فاطمہ الزہراء ان کی قربانیوں کی زندہ یادگار ہیں، وہ روشن ضمیر عالم دین تھے، حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر تھی،نوجوان اہل قلم عالم دین مولانا نور السلام ندوی سکریٹری نور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی جمالپور نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس قحط الرجال کے دور میں حضرت ناظم صاحب کا انتقال ملک وملت کا بڑا خسارہ ہے، ناظم صاحب اسلا ف کے نمونہ تھے، مشکل اور سخت حالات میں مسکرا کر کام کرنا ان کی فطرت تھی،آپ بےشمار خوبیوں کے مالک تھے، آپ کے تربیت یافتہ اور استفادہ کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، مولانا سفیان احمد ناظم تعلیمات مدرسہ رحمانیہ نسواں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ ناظم صاحب اپنی خدمات کی بنیاد پر دیر تک یاد کئے جائیں گے، وہ اچھے منتظم، بہترین مربی اور شفیق استاذ تھے، طلبہ کے ساتھ بے حد شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے ،مولانا نعمت اللہ قاسمی استاذ مدرسہ رحمانیہ سوپول نے کہا کہ ناظم صاحب اسلاف کی زندہ جاوید مثال تھے،ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آتے،اپنائیت کا مظاہرہ کرتے،انسانی خدمت کے کاموں میں پیش پیش رہتے، مولانا کا انتقال علمی دنیا کے لئے بڑا خسارہ ہے،مولانا رفیع اللہ ندوی نے کہا کہ حضرت کے انتقال سے دلی صدمہ پہنچا،ناظم صاحب رحمہ اللہ ہمارے مربی تھے،انہوں نے پوری زندگی مدرسہ کی خدمت میں گزار دی، خدا ان کی محنتوں کو قبول فرمائے،

*مولانا وصی احمد قاسمی:شخصیت کے چند نقوش* نور السلام ندوی جمالپور،دربھنگہ(بہار)

*مولانا وصی احمد قاسمی:شخصیت کے چند نقوش*
نور السلام ندوی
جمالپور،دربھنگہ(بہار)

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
 کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی
آہ مخدوم و محترم حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے،بلاشبہ موت کا ایک دن معین ہے، اور ہر شخص کو اس راہ کا راہی ہونا ہے،لیکن سال رواں باالخصوص اس دو مہینے میں جس کثرت کے ساتھ علماء وصلحا اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں،اس سے ایسا لگتا ہے یہ سال ملت کے لئے عام الحزن ہے،اور قیامت بہت نزدیک آگیا ہے، اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ قرب قیامت کے وقت علم اٹھا لے گا، یعنی اس دنیا سے علماء اور اہل علم رخصت ہو جائیں گے،آج یکے بعد دیگرے نامورعلماء ہمارے درمیان سے اٹھتے جا رہے ہیں،ابھی مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کے سانخہ ارتحال کا زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ مولانا محمد سلمان صاحب ناظم مظاہر علوم سہارن پور داغ مفارقت دے گئے اس صدمہ سے ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ  اچانک حضرت مولانا وصی احمد قاسمی مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ اور بانی وسرپرست جامعہ فاطمہ الزہراء ململ راہی عدم ہو گئے،یہ اطلاع پاکر دل صدمہ سے چور ہے،اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر و استقامت عطا فرمائے، آمین، وصی احمد قاسمی ان شخصیات میں تھے جو دیر تک یاد کئے جاتے رہیں گے،ان کے کارنامے،سرگرمیاں،جہد مسلسل سے عبارت زندگی،تعلیمی وتحریکی فعالیت،سماجی و فلاحی خدمات،ملت کی فکر مندی،قوم کی دردمندی،طلبہ کے ساتھ ہمدردی، اساتذہ کے ساتھ نرمی، انسانیت نوازی،مہمان نوازی، بلند اخلاق، اعلی کردار یہ وہ اوصاف تھے جو ان کو زندہ جاوید رکھیں گے،
سال 1998 کا موسم گرما تھا ، دن اور تاریخ یاد نہیں ،جب عم محترم حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب مجھے اور اپنے فرزند ارجمند حافظ سفیان احمد کو لے کر مدرسہ چشمہ ململ داخلہ کے لئے حاضر ہوئے تھے ۔ دوپہر کا وقت تھا ،سخت دھوپ اور گرمی تھی ، مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کھانا اور نماز ظہر سے فراغت کے بعد آرام کر رہے تھے ،ہم لوگ بھی تھکے ماندہ تھے ، آرام کی ضرورت تھی ،وہاں موجود شعبہ حفظ کے ایک استاذ نے ضیافت کے بعد ہمیں آرام کرنے کا مشورہ دیا ،تھوڑی دیر آرام کیا، عصر کی نماز ادا کی ،بعد نماز عصر مدرسہ کے صحن میں، گھنے خوبصورت تینوکے درخت کے سایہ میں اساتذہ کرام کی مجلس جمی تھی ، ایک میانہ قد عالم دین، بھاری بھرکم جسم ، سفید کرتا پائجامہ، سر پر دوپلی ٹوپی اور عربی رومال ، آنکھوں میں بڑے فریم کا چشمہ ، سفید اور گھنی ڈارھی ، چمکتی پیشانی ، روشن آنکھیں ، مسکراتا چہرہ اور حسن و جمال کا پیکر، اساتذہ کے درمیان توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ معلوم ہو اکہ یہ مدرسہ کے ناظم و سرپرست حضرت مولانا وصی احمد قاسمی صاحب مدظلہ العالی ہیں۔ جن کا ذکر خیر حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب سے پہلے ہی سن چکا تھا ،بڑھکر مصافحہ کیا ،انہوں نے نام پوچھا اور خیریت دریافت کی ۔ گرچہ داخلہ کا وقت کافی پہلے ہی نکل چکا تھا ، تاہم مولانا ہارون الرشید صاحب ناظم صاحب سے اس سلسلے میں پہلے ہی بات کر چکے تھے ، دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کیا کرتے تھے، دوسرے دن صبح داخلہ کی کاروائی ہوئی اور اس طرح تعلیمی سلسلہ مدرسہ چشمہ فیض ململ میں شروع ہو گیا ۔
مدرسہ چشمئہ فیض تعمیر کے لحاظ سے اس وقت کوئی خاص نہیں تھا، تاہم تعلیم کے لحاظ سے بہت پر کشش اور متاثر کن تھا ، اساتذہ محنتی اور مخلص ، کم تنخواہ اور کم سہولیات پر قناعت کرنے والے ، طلبہ نظام الاوقات کے پابند اور مدرسہ کے نظم و ضبط کا خیال رکھنے والے ، مدرسہ کی دو منزلہ عمارت میں کل ملا کر دس کمرے سے زائد نہ رہے ہونگے، مدرسہ کا ایک چھوٹا سا صحن، ایک گھنا اور سایہ دار تینو کا درخت ، مدرسہ سے متصل ہی ایک بڑی مسجد، مسجد کے سامنے بڑا اور مچھلیوں سے بھرپور تالاب ، ان ماحول اور درودیوار کو دل و نگاہ کا عادی بنانے کی کوشش کرتا رہا،کیونکہ آئندہ کئی برسوں تک یہیں رہ کر تعلیم حاصل کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دن گذرتے وقت نہیں لگتا، دیکھتے ہی دیکھتے طالبعلمانہ زندگی کی پانچ بہاریں یہاں گذار دیں۔
گذارے ہیں خوشی کے چند لمحے
انہیں کی یاد، اپنی زندگی ہے
اس دوران حضرت مولانا وصی احمد قاسمی صاحب کی پر کشش شخصیت کی صحبت حاصل رہی اور حتی المقدور استفادہ بھی کرتا رہا ، حضرت ناظم صاحب با وقار عالم دین ، اخلاقی اقدار کے حامل ، پرانی قدروں کے پاسدار ، تہذیب کے نمونہ، شرافت و شائستگی کی تصویر اور وضع داری اور رکھ رکھاؤ میں اپنی مثال آپ تھے قدیم و جدید کا حسین امتزاج آپ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا مسلک قدیم صالح اور جدید نافع پر ہے ، ناظم صاحب نے مدرسہ چشمئہ فیض ململ کو نہ صرف یہ کہ اس مسلک کا ترجمان بنایا بلکہ خود اس کی عملی تصویر بن کر سامنے آئے ،آج کے سائنٹفک دور میں کسی بھی چیز کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے اسے پریکٹیکل میں لانا بے حد ضروری ہے ، اسی طرح کسی بھی فکر کو پروان چڑھانے کے لئے اس فکر کو اپنی زندگی اور عمل میں ڈھالنا ضروری ہوتا ہے ۔ ایسا کرنے سے خود بخود Followers(فلوورس)بنتے چلے جاتے ہیں ۔اور واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف مدھوبنی ، دربھنگہ اور سیتامڑھی کے طلبہ کا یہ امید کا مرکز بنا ،بلکہ پورے اتر بہار کے طلبہ یہاں کشاں کشاں آتے تھے اور علمی تشنگی بچھا کر جاتے تھے ، اور الحمد اللہ آج بھی یہ ادارہ اسی طرح اپنا فیض لٹا رہا ہے ۔اور زبان حال سے یہ پیغام دے رہا ہے:
میری آرزو یہی ہے کہ ہر اک کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گذر ہوں،مجھے شوق سے جلاو
حضرت مولانا وصی احمد قاسمی صاحب سے متعلق چند تاثراتی سطر یں سپرد قلم کر رہا ہوں ،اس لئے سردست صرف انہیں باتوں کا ذکر کروں گا جو میرے ذاتی احساسات و تاثرات اور تجربات پر مبنی ہیں۔ مدرسہ کے طالب علمی کے دور سے لے کر اب تک جو میں نے محسوس کیا وہ یہ کہ ناظم صاحب بڑے متواضع اور دردمندانسان تھے، ٹوٹ کر محبت کرنے والے اور چاہنے والے ،درد مندی ایسی کہ معمولی ناخوشگوار واقعہ پر بھی آپ کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں ،یہ اللہ والے کی پہچان ہے اور دل بیناو دل سوز کی علامت ہے ۔ مدرسہ کے طلبہ کو ہمیشہ اپنے گھر اور خاندان کے بچے سمجھتے رہے ، پیار، شفقت اور محبت لٹاتے رہے ،حسب ضرورت ڈانٹ پھٹکار بھی لگاتے، مگر آپ زیادہ تر جزر و توبیخ کے قائل نہیں تھے۔ جس وقت  میں وہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا دو چیزوں کا عمدہ انتظام نہیں تھا،ایک قیام اور دوسری طعام،مالی حیثیت سے بھی ادارہ کمزور تھا،لیکن ناظم صاحب کو دیکھتے ہمیشہ مسکرا رہے ہیں، طلبہ سے مل رہے ہیں، چہرہ پر مسکراہٹ ہے ،اساتذہ سے باتیں کر رہے ہیں، ہنس رہے ہیں ،لیکن ان کا دل اندر ہی اندرطلبہ کی پریشانیوں سے پریشان رہتا ، دل سوچ رہا ہوتا ، دماغ پلاننگ کر رہا ہوتا ، کیا کرنا ہے ، کیسے ادارہ کو ترقی دینا ہے ، تعلیمی میعار کو کیسے اونچا کرنا ہے ، وغیرہ ۔ ناظم صاحب طلبہ کے آرام وراحت کے خاطر بیشتر اسفا رمیں ہی رہا کرتے ، اس دوران نائب مہتمم حضرت مولانا مکین احمد صاحب رحمانی سے مدرسہ کی پل پل کر خبر لیتے رہتے ۔ ناظم صاحب کے غائبانہ میں مولانا مکین احمد مدرسہ کے انتظامی امور میں اسی طرح فکر مندی، دل سوزی اور دلچسپی لیتے جس طرح ناظم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی فکر ی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کی باتوں کو مان کر چلنے کے جذبہ نے ادارہ کو بلا شبہ ترقی دی ،اور ہنگامی حالات میں بھی ادارہ مامون و محفوظ رہا ۔اور اس شعر کی عملی تصویر پیش کرتا رہا:
 سلگنا اور شئی ہے جل کر مرجانے سے کیا ہوگا
 جو ہم سے ہو رہا ہے کام پر وانے سے کیا ہوگا
ناظم صاحب انتظامی امور میں بڑے ماہر تھے ، افراد کو جوڑنا اور جوڑکر رکھناانہیں خوب آتا تھا ، اساتذہ اور طلبہ سے اکثر روبرو ہوتے ،خاص طور پر جب کسی سفر سے واپس آتے تو بعد نماز عشا مسجد میں طلبہ کو وعظ و نصیحت فرماتے، سفر کے تجربات بیان کرتے ، طلبہ کے تئیں اپنی فکر مندی اور درد مندی کا اظہار کرتے ۔ اس کا دو فائدہ تو کم از کم میں نے ضرور محسوس کیا ،ایک تو یہ کہ تجربات ومشاہدات کی روشنی میں وہ جو کچھ فرماتے اس میں ہم طلبہ کے لئے بڑی نصیحتیں اور سبق آموز باتیں ہوتیں ، جس کا فائدہ اس وقت کم اور عملی زندگی میں زیادہ ہوا، دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ان سےطلبہ کو بڑی تحریک اور تقویت ملتی ۔ وہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی معمولی باتوں کی طرف بھی ہم طلبہ کی توجہ مبذول کراتے، وہی چھوٹی اور معمولی باتیں انسان کو بڑا بناتی ہیں،ماہ وسال کی گردش سے آج جس مقام پر بھی ہوں اور جیسا بھی ہوں ان میں مادر علمی اور ناطم صاحب کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا بڑا حصہ ہے۔ آپ بڑے مہمان نواز اور خلیق انسان تھے ، اکرام ضیوف آپ کی شخصیت کا نمایاں حصہ ہے ،مدرسہ میں ایک دودنوں بعد مہمانوں کی آمد ہوتی رہتی تھی ،زندگی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات کی تشریف آوری ہوتی رہتیں ،ناظم صاحب ان کے کھانے پینے کا انتظام اپنے گھر سے کرتے اور پر تکلف دعوت کرتے۔
آپ بڑے حوصلوں اور جذبوں کے ساتھ کام کرتے تھے ،ویسے بھی کوئی ادارہ چلانا معمولی بات نہیں ہے ،کم ہمت اور بے لوث آدمی اس میدان میں منزل نا آشنا ہوجاتا ہے ،ناظم صاحب نے حوصلوں کو زندہ رکھا اور جذبوں کو پروان چڑھایا ۔پیرانہ سالی میں جب کہ عمر ۷۰ سے تجاوز کر چکی تھی ،عزم جواں اور عمل پیہم کا پیکر معلوم ہوتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی قابل رشک ہے کہ آپ نرے عالم نہیں تھے ، بلکہ علاقائی اور قومی سیاسیات اور حالات حاضرہ سے باخبر رہتے ، مقامی سیاست میں دلچسپی لیتے، علاقائی جھگڑوں اور پنچایتوں میں مقدمے کے فیصلے کے لئے بلائے جاتے،یہ آپ کی مقبولیت کی دلیل تھی، لوگوں کی نگاہ میں آپ باکار بھی تھے اور باوقار بھی-
آپ کی پیدائش 1945 کوعلمی اور تہذیبی سرزمین ململ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی، پھر جامعہ رحمانی مو نگیر تشریف لے گئے، اس وقت مدرسہ امداد یہ لہریاسرا ئے دربھنگہ کا بڑا نام تھا، چنانچہ یہاں بھی علمی تشنگی بجھائی اور اس وقت کے ماہر فن اساتذہ سے کسب فیض کیا،بعد ازاں دارالعلوم دیوبند گئے اور یہاں سے سند فضیلت حاصل کی،فراغت کے بعد 1975میں مدرسہ چشمہ فیض ململ کی ذمہ داری آپ کو سپرد کی گئی،اس وقت یہ ادارہ مکتب کی شکل میں تھا، انہوں نے اپنی محنت، صلاحیت اور صالحیت سے اسے سینچا، پروان چڑھا یا اور ایک بڑے ادارہ کی شکل دی، 1992 میں اس کا الحاق دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے کروایا، اسی سال اُنہوں نے تعلیم نسواں کے فروغ کے لیے جامعہ فاطمہ الزہراء ململ کی بنیاد رکھی،جو شمالی بہار میں لڑکیوں کا پہلا ادارہ ہے، اس ادارہ میں لائق وفائق اساتذہ اور ماہر معلمات کی نگرانی میں دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم ہوتی ہے،
ناظم صاحب میدان عمل کے آدمی تھے، ان کا جوش عمل کبھی بھی خموش نہیں ہوا، پیرانہ سالی ا ور ضعف وکمزوری ان کے عزائم کو مضمحل نہ کر سکا،مصائب ومشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے، آپ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی مثال بنے رہے، اور اس شعر کے مصداق رہے:
ہر گام حادثوں سے تعارف ہوا مگر
ہم مسکرا کے حسب روایت گزر گئے

جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے کیے ماسک تقسیم اور شجر کاری مہم تحت لگائے گئے پودے رپورٹ:- محمد دلشاد قاسمی بڑوت/باغپت:24/ جولائی 2020 آئی این اے نیوز

جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے کیے ماسک تقسیم
اور شجر کاری مہم تحت لگائے گئے پودے
رپورٹ:- محمد دلشاد قاسمی
بڑوت/باغپت:24/ جولائی 2020 آئی این اے نیوز
آج قصبہ بڑوت اور شہر باغپت میں جگہ جگہ پر بنیاد سستھان کی جانب سے تیار کردہ ماسک جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے کیمپ لگا کر ماسک تقسیم کیے، بڑوت میں سی او اٰفس، بڑوت کوتوالی، دلی بس اسٹینڑ، شہر باغپت میں راشٹیریہ وندنا چوک، اور شوکت مارکیٹ میں بغیر ماسک کے چلنے والے راہ گیروں کو ماسک تقسیم کیے،اور باہر نکلتے وقت ماسک لگانے کی تاکید کی، کرونا وائرس مہاماری کے چلتے چلتے پورے صوبہ میں باہر نکلتے وقت ماسک پہننا حکومت کی جانب سے ضروری قرار دیا گیا ہے، اسی کے تحت اٰج بڑوت اور باغپت شہر میں جگہ جگہ جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس اور کمشنر اور ماسٹر صاحبان نے مہم چلاکر ماسک تقسیم کرائے، سی او بڑوت اٰلوک کمار سنگھ نے کہا کہ کرونا وائرس ایک مہلک بیماری ہے،اور اس سے بچنے کے لیے باہر نکلتے وقت ماسک ضرور پہنیں،اور شوشل ڈسٹینشنگ کی پابندی کریں، انہوں نے کہا کہ جمعیة یوتھ کلب اور جمعیة علماء ہند کی جانب سے چلائی جارہے یہ مہم قابل تعریف ہے،
اسی کے ساتھ ساتھ جمعیة علماء ضلع باغپت کے صدر حضرت مولانا مفتی عباس صاحب،اور ایس ڈی ایم بڑوت، اور ایل اٰئیو کے اٰفسر،اور سی او بڑوت اٰلوک کمار نے بڑوت تحصیل کے احاطہ میں جمعیة یوتھ کلب کی جانب سے چلائی جارہی شجر کاری مہم کا اٰغاز کیا، حضرت مفتی عباس نے کہا کہ درختوں کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے، اسی کے باعث ہم سب کو صاف شفاف ہوا میسر ہوسکتی ہے، اسی لیے سبھی اس مہم کے تحت زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور ہندوستان کی روئے زمین کو ہریالی سے روشن بنائے،تاکہ ملک ہندوستان کی جو اٰن بان شان ہریالی کی وجہ سے قائم ہے، وہ برقرار رہ سکے، ایس ڈی ایم بڑوت نے کہا کہ جمعیة علماء ہند ایک ایسی تنظیم ہے، جس نے ہر سماج کو ساتھ لیکر چلنے کا کام کیا ہے، اور کررہی ہے، ایک ساتھ مل کر یہ پیڑ پودوں کا لگانا اس بات کی مثال ہے کہ ہم سب ہمیشہ اس ملک میں خوش رہے، اور ایک اچھے ماحول کو قائم رکھ سکیں،
بڑوت میں اس موقع پر قاری صابر، حافظ محمد لیاقت، کمشنر جمعیة یوتھ کلب ،ماسٹر محمد دانش ،مولانا محمد خالد سیف اللہ کنوینر جمعیة یوتھ کلب ضلع باغپت ،چودھری راغب، قاری راغب، ودیگر اراکین جمعیة یوتھ کلب و جمعیة علماء تحصیل بڑوت،موجود رہے،
شہر باغپت میں یہ مہم قاری محمد ساجد حقی کمشنر جمعیة یوتھ کلب کی معیت میں جاری رہا، اس موقع پر اسکاوٹ اور روورس اور دیگر جمعیة یوتھ کلب تحصیل باغپت کے اراکین، حکیم محمد زبیر صاحب، بھائی علی حسن، اشوک بندھو چیف بھارت اسکاوٹ اینڈ گائڈ ضلع باغپت موجود رہے

Thursday 23 July 2020

دارالعلوم ندوۃالعلماء کی جانب سے’’ندوہ اوپن یونیورسٹی‘‘ کا قیام

دارالعلوم ندوۃالعلماء کی جانب سے’’ندوہ اوپن یونیورسٹی‘‘ کا قیام


ممبئی :ہندوستان میں تعلیمی تحریک کو مضبوط کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فارغین نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق دارالعلوم ندوۃالعلماء کی عالمی تنظیم’’ ابنائے ندوۃ العلماء‘‘نے تحریک ندوۃ کا احیاء اور جدید عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے “ندوہ اوپن یونیورسٹی”قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعیۃ شباب الاسلام (الہند) کے آفس سکریٹرمحمدعبدالرشید ندوی کے مطابق مذکورہ ادارے کا قیام امسال ماہ شوال 1441 ھ میں کیا جاچکا تھا ،لیکن اس کا باقاعدہ اعلان ابھی کیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ تحریک ندوۃ العلماء برصغیر میں برطانوی دور میں برپا ہونے والی تحریک ہے جس کا بنیادی مقصد اسلامی مدارس کے نظام و نصاب تعلیم کی اصلاح اور اسے زمانے کے مطابق تبدیل و تجدید کرنا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے یہ تحریک منجمد پڑی ہوئی تھی اوراب ایک نئی کوشش کی گئی ہے کہ “ندوۃ آن لائن یونیورسٹی ” قائم کیا گیا ہےجس کا مرکزی دفتر کنیڈا میں بنایا گیاہے جس میں کنیڈا، امریکہ، برطانیہ، جاپان، اور ساؤتھ افریقہ کے تجربہ کار اساتذہ کا انتظام کیا گیاہے۔دلچسپ بات یہ ہیکہ اس میں عربی اور انگلش میڈیم “کلیتہ الشریعۃ ” قائم کیا گیا ہے ،جس میں تین سالہ B.A کے مساوی کورس کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ،ساتھ ہی فاصلاتی تعلیم اور آن لائن تعلیم کا نظم کیا گیا ہے ۔
مزید تفصیلات کے لئے طلبہ تفصیلی معلومات اور داخلہ فارم لکھنؤ کے مرکزی آفس سے رابطہ کرکےحاصل کرسکتےہیں ۔

*ضلع پریشد رکن جمال اطہررومی قتل کو لیکر تاریخی احتجاج کی ہورہی تیاری: نظرعالم* *دربھنگہ ضلع انتظامیہ ہرمحاذ پر ناکام، انصاف ملنے تک لڑائی جاری رہے گی: بیداری کارواں* مدھوبنی:24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! محمد سالم آزاد

*ضلع پریشد رکن جمال اطہررومی قتل کو لیکر تاریخی احتجاج کی ہورہی تیاری: نظرعالم*

*دربھنگہ ضلع انتظامیہ ہرمحاذ پر ناکام، انصاف ملنے تک لڑائی جاری رہے گی: بیداری کارواں*
مدھوبنی:24/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! محمد سالم آزاد
 سنگھواڑہ بلاک کے بردی پور باشندہ جمال اطہررومی قتل معاملے میں لگاتار لوگوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے ۔ ضلع انتظامیہ کی لاپروائی کا نتیجہ ہے کہ تین دن بعد بھی شہید رومی قتل معاملے میں ملوث لوگوں کی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ دربھنگہ ڈی ایم سی ایچ میں سازش کے تحت جمال اطہررومی کا علاج کے دوران آکسیجن ہٹاکر قتل کردیا گیا ۔ اہل خانہ کے پوچھنے پر ڈاکٹروں اور غنڈوں کی ٹیم نے جم پر اہل خانہ کی پٹائی کردی ۔ اتنا ہی نہیں اہل خانہ کا پانچ موبائل فون بھی غنڈے ڈاکٹروں نے چھین لیا اور پولیس نے اہل خانہ کے ہی دو افراد کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ جب پولیس انتظامیہ پر دباوَ بنایا گیا تب جاکر بانڈ بھروانے کے بعد پولیس نے دونوں افراد کو چھوڑا ۔ اس پورے معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے صدرنظرعالم نے کہا کہ دربھنگہ ضلع انتظامیہ جس طرح سے لاپروائی کا مظاہرہ کررہی ہے اُسی کا نتیجہ ہے کہ جمال اطہررومی کے قتل کے تین دن بعد بھی ضلع انتظامیہ نے اب تک قتل میں شامل لوگوں پر نہ تو قتل کا مقدمہ درج کیا ہے اور نہ ہی کسی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ۔ مسٹرعالم نے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو، راجد کے سینئرلیڈرعبدالباری صدیقی اور راجد کے یواریاستی صدرقاری صہیب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اس قتل معاملے کو سنجیدگی سے لیا ، اہل خانہ سے مل کرپوری جانکاری لی اورقاتل کو انجام تک پہنچانے کی بات کہی ، پورا مسلم سماج ان کی کوشش کو سلام کرتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ شہید رومی کو راجد کے سینئرلیڈر کی حمایت ملنے سے انصاف ضرور ملے گا ۔ مسٹرنظرعالم نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے بہار کے مکھیا نتیش کمار کو گیارہ مطالبہ کا لیٹر بھیجا ہے اور مانگ کیا ہے کہ اگر تین دنوں کے اندر ہمارے مطالبات پر غور نہیں کیا گیا یا شہید رومی کے انصاف کا کوئی راستہ نہیں نکالا گیا تو تاریخی احتجاج کریں گے اور تب تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا جب تک انصاف نہیں مل جاتا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے۔ (1) ڈی ایم سی ایچ آئی سی یو میں جمال اطہر رومی کا آکسیجن ہٹانے والے ڈاکٹر اور نرس پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ (2) اہل خانہ کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے غنڈے اور ڈاکٹروں پر بھی قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ (3)جب جمال اطہرومی کا کورونا جانچ رپورٹ نگیٹو آیا تو پھر ان کی لاش کے ساتھ صدر ایس ڈی او اور ڈی ایس پی نے بدسلوکی کیوں کیا اور کورونا متاثرین کی لاش کی طرح آنن فانن میں جے سی بی سے گڈھا کھدوا کر کیوں گروایا، اس میں شامل سبھی افسران پر بھی ہو قتل، لاش کے ساتھ بدسلوکی اور قتل معاملے کو چھپانے کی سازش کا مقدمہ درج۔ (4)اگرمرحوم کے اہل خانہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو پولیس نے اُنہیں جیل کیوں نہیں بھیجا، پولیس کو دربھنگہ پرشاسن اور ڈی ایم سی ایچ کے ڈاکٹروں پر مقدمہ نہیں کرنے کا بانڈ پیپر بھرواکر اہل خانہ کو چھوڑنے کی نوبت کیوں آئی۔ (5)جب پولیس انتظامیہ نے اہل خانہ سے بانڈ پیپر بھرواکر اہل خانہ کے دو افراد کو چھوڑ دیا اور معاملہ رفع دفع کردیا تو مرحوم کے اہل خانہ کا موبائل فون پولیس نے کیوں نہیں دلوایا۔ (6) اگر جمال اطہررومی صاحب کا قدرتی موت ہوا تو دربھنگہ پرشاسن اور ڈی ایم سی ایچ پرشاسن نے اُن کے اہل خانہ سے چھپایا کیوں، غنڈے ڈاکٹروں کو اہل خانہ کے ساتھ مارپیٹ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، اچانک دو درجن سے زائد غنڈے آئی سی یو میں کیسے گھس گئے اور ڈی ایم سی ایچ انتظامیہ اُس وقت کہاں تھی، اتنی جلد میں 250-300 پولیس دستہ کے ساتھ موقعہ واردات پر ایس ڈی او اور ڈی ایس پی کیسے پہنچ گئے۔ (7) اگر دو فریقوں میں مارپیٹ ہوئی تو مرحوم رومی کے ہی لوگوں کو پولیس نے حراست میں کیوں لیا، ڈاکٹر اور غنڈے نے پولیس کی موجودگی میں اہل خانہ کی پٹائی کیسے کی اور موبائل فون لیکر کیسے چلتے بنے، پولیس غنڈے کو گرفتار کیوں نہیں کی۔ (8)اگر رومی صاحب کے قتل کے پیچھے کوئی سازش یا پھر کوئی سیاسی لیڈر کی ٹیم کام کررہی ہے تو انتظامیہ اُسے بچا کیوں رہی ہے۔ (9)ڈی ایم سی ایچ میں رومی صاحب کے قتل سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر امیش چندر کا بھی قتل کیا گیا جس کی فوری طور پر جانچ ہو ۔ (10)حکومت اور محکمہ صحت بہار قانون بنائے اگر ڈی ایم سی ایچ میں کسی مریض کا اہل خانہ کسی ڈاکٹر کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے یا مارپیٹ کرتا ہے تو ڈاکٹر یا غنڈے یونین والے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے، دربھنگہ ضلع انتظامیہ اہل خانہ پر قانونی کارروائی کرے گا۔ (11) اگر ڈاکٹر کسی مریض کے ساتھ غلط کرتا ہے تو اہل خانہ بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا، ڈی ایم سی ایچ انتظامیہ سے شکایت کرے، جس کے لئے شکایت مرکز بنایا جائے اور اس کے ذریعہ فوراً مسئلے کا حل نکالا جائے ۔

Wednesday 22 July 2020

مذہبی و سماجی تحریک دعوت اسلامی ہند نے ٹانڈہ شہر کی شجرکاری ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! معراج احمد انصاری

مذہبی و سماجی تحریک دعوت اسلامی ہند نے ٹانڈہ شہر کی شجرکاری

ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! معراج احمد انصاری
دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے اور بگڑتے موسم کو دیکھتے ہوئے مذہبی و سماجی تحریک دعوت اسلامی ہند نے ایک کروڑ بیس لاکھ درخت لگانے کا عزم کیا ہے۔ دعوت اسلامی کہ یہ شجرکاری مہم 20 جولائی سے جاری ہے جس میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے رضاکار اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں اور تحریک کے اس بہت بڑے عزم کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے  ہیں۔
 اس مہم کے تحت شہر ٹانڈہ کے مختلف مقامات پر شجرکاری کا اہتمام کیا گیا۔  جس میں تھانہ علی گنج اور پولیس چوکی سکراول میں بھی دعوت اسلامی کے رضاکاروں نے پودے لگائے اس کے علاوہ بھی مبلغین دعوت اسلامی نے شہر کے مختلف مقامات پر شجرکاری کا اہتمام کیا ۔
 حالانکہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ جب دعوت اسلامی ہند نامی یہ مذہبی تحریک کوئی سماجی یہ شجرکاری جیسے کسی کام کو انجام دے رہی ہے۔ غور طلب ہے کی دعوت اسلامی صوفی تعلیمات اور خیالات سے متاثر مذہبی تحریک ہے اس سے پہلے بھی یہ تحریک مذہبی امور کے علاوہ سماجی اور تعلیمی معاملات میں بھی خدمت انجام دے رہی ہیں۔

راجیہ سبھا کے 45 نومنتخب ممبران کی حلف برداری راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے آج صبح ایوان میں کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلہ، ماسک اور سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کی ہدایت کا سختی سے عمل کراتے ہوئے نئے ممبروں کو رکنیت دلائی۔

راجیہ سبھا کے 45 نومنتخب ممبران کی حلف برداری
راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے آج صبح ایوان میں کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلہ، ماسک اور سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کی ہدایت کا سختی سے عمل کراتے ہوئے نئے ممبروں کو رکنیت دلائی۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے صبح ایوان میں کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلہ، ماسک اور سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کی ہدایت کا سختی سے عمل کراتے ہوئے نئے ممبروں کو رکنیت دلائی۔ اس موقع پر راجیہ سبھا کے لیڈر تھاور چند گہلوت، ایوان میں حریف رہنما غلام نبی آزد، پارلیمانی امور کے وزیرمملکت پرہلاد جوشی اور ارجن رام میگھوال موجود تھے۔
نومنتخب ممبران نے ہندی، انگریزی، کنڑ، تمل اور اپنی مادری زبان میں حلف لیا۔ کئی ممبران اپنی روایتی ملبوسات میں تھے۔ حلف برداری سے قبل سندھیا حریف رہنماوں کی طرف آئے اور کئی ممبران کے ساتھ بات چیت کرتے نظر آئے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ راجیہ سبھا چیمبر میں ایوان کا اجلاس نہ ہونے کے باوجود حلف برداری کی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔
سیشن کے نہ چلنے پر حلف برداری کی تقریب چیئرمین کے دفتر میں منقعد کی جاتی ہے۔ حلف برداری کی تقریب کے دوران ممبران کو کسی سے ہاتھ نہ ملانے اور سیٹ کے پاس نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ۔ عام طور پر حلف برداری کے بعد ممبر چیئرمین کے پاس جاکر انہیں سلام کرتے ہیں اور ایوان کے لیڈر اور اپنے پارلیمانی پارٹی کے رہنما سے ملتے ہیں۔ ہر ممبران کو دستخط کرنے کے لئے اپنا پین استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا اور قلم نہ ہونے پر دستخط والی کتاب کے نزدیک رکھے قلم سے دستخط کرنے اور اسے لے جانے کو کہا گیا۔
راجیہ سبھا کے انتخابات 20 ریاستوں میں جون میں کرائے گئے تھے اور ان میں 61 نئے ممبران منتخب ہوئے تھے۔ ان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 17، کانگریس کے 9، جنتا دل یو کے تین، بیجو جنتا دل اور وائی ایس آر کانگریس کے چارچار، اے آئی اے ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے نے تین تین، نیشنل کانگریس پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے دو ممبر ہیں۔ باقی سیٹ دیگر نے حاصل کی ہیں۔ ان نئے ممبران میں سے 43 پہلی مرتبہ منتخب ہوئے ہیں باقی ممبران نے دوبارہ راجیہ سبھا میں واپسی کی ہے۔

ہندؤوں_کے_تہوار_کو_کرونا_نہیں_لگتا رام مندر میں بھومی پوجن لیکن عیدالاضحیٰ پر پابندی : سمیع اللہ خان

ہندؤوں_کے_تہوار_کو_کرونا_نہیں_لگتا
  رام مندر میں بھومی پوجن لیکن عیدالاضحیٰ پر پابندی :

سمیع اللہ خان

 ایکطرف، کرونا وائرس کے نام پر رمضان اور عیدالفطر کے بعد اب  عیدالاضحیٰ بھی حکومت کی سوتیلی پالیسیوں کے نشانے پر ہے لیکن دوسری جانب مندروں کے تہواروں کے لیے گنجائشیں کبھی سپریم کورٹ سے تو کبھی حکومت ہند کے خصوصی اختیارات کے ذریعے نکال لی جاتی ہیں_
 تازہ ترین متعصبانہ فیصلہ ہے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے باضابطہ آغاز کا،  ۵ اگست کو مرکزی حکومت رام مندر میں بھومی پوجن منعقد کررہی ہے، اس پروگرام کے لیے اجودھیا میں وزیراعظم نریندرمودی بھی موجود ہوں گے
 قانونی اعتبارسے ۵ اگست جوکہ کرونا وائرس لاکڈاون کے Unlock 2.0 کے مرحلے میں آتا ہے اس دوران کسی بھی قسم کے مذہبی پروگرام، اجتماع یا رسم کے لیے اکٹھا ہونا سختی سے ممنوع ہے، اور Ministry Of Home Affairs کی ہدایات میں یہ بالکل واضح ضابطہ ہے، لیکن اسی دورانیے میں رام مندر کا بھومی پوجن ہوگا، جس میں کرونا لاکڈاؤن کی ضابطہ شکنی وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت اور برہمن پروہتوں اور پجاریوں کی موجودگی میں ہوگی… دلچسپ بات یہ بھی ہیکہ بابری مسجد کو شہید کروانے میں سرگرم کردار ادا کرنے والا مجرم لال کرشن ایڈوانی جس کے دامن پر سینکڑوں معصوموں کا خون لگا ہوا ہے اور جسے اپنے خونی سیاست کے جرم میں ایک دن کی بھی جیل نہیں ہوئی وہ ایڈوانی رام مندر کے بھومی پوجن میں شریک رہے گا_


 *اب ذرا یاد کیجیے عیدالفطر کے موقع کو:*
 عیدالفطر سے قبل کئی مسلم نمائندوں نے صرف عیدگاہ میں نماز ادا کرنے کی اجازت مانگی تھی لیکن حکومت اور عدالت دونوں نے اسے خاطرخواہ توجہ تک کے قابل نہیں سمجھا تھا
 لیکن عیدالفطر کے چند ہی دنوں کےبعد سپریم کورٹ نے اڑیسہ میں نہایت بھیڑبھاڑ والی جگنّاتھ یاترا کو منظوری دے دی تھی جس یاترا کو ہرحال میں منعقد کرانے کے لیے شدت پسند ہندو تنظیموں کے سادھو، سنتوں اور مہاراجوں نے دباؤ بنایا تھا
*اور اب جبکہ مسلمانوں کی عیدالاضحیٰ نزدیک ہے اور حکومت یا عدالت عیدالاضحی منانے کے لیے ہمیں گنجائش دینے کے موڈ میں  نہیں ہیں لیکن یہی حکومت رام مندر کا بھومی پوجن اسی دورانیے میں منعقد کر رہی ہے، یہ بھی یاد رہے کہ شاہجہاں پور مندر میں  گنگا جل چڑھانے کا مذہبی پروگرام ابھی دو روز قبل اس طرح منعقد ہوا کہ لاکڈاؤن کے ضوابط، ماسک اور سوشل ڈسٹینس کو روند کر رکھ دیاگیا* یہ درحقیقت ہندوستان میں سیکولرزم اور جمہوریت کی بالکل حقیقی اور ہندوتوا نواز عملی مثالیں ہیں جنہیں بصیرت کی نگاہوں سے آپ نے ماضی میں پرکھا نہیں اور آج ہمت کے ساتھ اعتراف بھی نہیں کر پارہے، یا پھر ہندو پروہتوں کی طرح کہا جائے کہ ہندو تہواروں کو کرونا نہیں لگتا؟ اگر آنکھیں کھلی اور کان تیز ہوں تو یاد بھی ہوگاکہ جس وقت کرونا کا ابتدائی دور اور سخت لاکڈاون کا عالَم تھا تب یوگی آدتیہ ناتھ جی لاک ڈاؤن کے ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایودھیا میں  رام مندر کا پروگرام کررہےتھے _

 ہمیں ہندؤوں کے تہواروں سے بالکل کوئی شکایت نہیں نہ ہی ان کی آستھا پر ہم بندش لگاتے ہیں لیکن ایک ہی ملک میں، ایک ہی حالت، ايک ہی ماحول میں انسانوں کی آبادی کے لیے دو الگ الگ قانون کیوں؟ جبکہ آپکا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار ہے !
*یہ کیسی بے شرم پالیسیاں ہیں کہ نظام الدین مرکز میں کچھ لوگ پھنس گئے تو تبلیغی جماعت کرونا بم بن گئی، مساجد آزادانہ کھل نہیں سکتیں لیکن مندروں میں بےتحاشا بھیڑ لگ سکتی ہے، عیدالاضحیٰ کی اجازت نہیں لیکن رام مندر کا بھومی پوجن ہوگا*
یہ صورتحال جہاں ہندوستان کے اندرونی سسٹم میں گھسے ہوئے اسلامو فوبیا اور کٹّر ہندوتوا کی عکاس ہے وہیں یہ پیغام دیتاہے کہ بھارتی جمہوریت میں ہندؤوں کی برہمن آستھا کا سوال ہوگا تو مسجد کی جگہ پر مندر بھی بنےگا اور کرونا کے خطرات سے ماوراء ہندو دیوتاؤں کے تہوار بھی منعقد ہوں گے اور اگر مسئلہ مسلمانوں کے تہواروں یا جذبات کا ہو تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی
 اور اہمیت اسی کی نہیں ہوتی جو خود کو کمزور ثابت کرتاہے، اب ذرا سوچیے کہ آپ کمزور کیوں ہیں؟

*سمیع اللّٰہ خان*

آفت کے دور میں ہر کسی کو عوام کی مدد کرنا چاہیے سہدیئ دیوی بالیکاانٹرکالج کے مینجر وشال ورما نے 3 ماہ کی فیس معاف کرنے کے اعلان پر کیا اپنے خیالات کا اظہار ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! معراج احمد انصاری

آفت کے دور میں ہر کسی کو عوام کی مدد کرنا چاہیے

سہدیئ دیوی بالیکاانٹرکالج کے مینجر وشال ورما نے 3 ماہ کی فیس معاف کرنے کے اعلان پر کیا اپنے خیالات کا اظہار

ٹانڈہ/امبیڈکر نگر :22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! معراج احمد انصاری
معروف تعلیمی ادارہ سہدیئ دیوی بالیکا انٹر کالج نے 3 ماہ کی فیسیں معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس  کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹانڈہ تحصیل کے تحت بسکھاری بلاک کے بڑھنا پورگاؤں میں واقع سہدیئ دیوی بالیکا انٹر کالج کے مینجر سابق ایم ایل سی وشال ورما نے والدین پر دباؤ نہ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 3 ماہ اپریل، مئی و جون تک کی فیسیں معاف کر دی ہیں۔ کالج کے مینجر اجے کمارعرف وشال ورما نے آج  نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے والدین اور سرپرستوں کی حالت دیکھ کر 3 ماہ کی مکمل اسکول فیس چھوڑ دی ہے۔ جو کہ لاکھوں روپے سے زائد بنتی ہے۔ انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آفت کے اس دور میں ہر کسی کو عوام کی مدد میں اپنا حصہ ڈالناچاہیے۔ کیونکہ کمائی سے زیادہ انسانیت ضروری ہے۔ وشال ورما نے باتچیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار متاثر ہو گئے تو والدین اور سرپرستوں کے لئے فیس ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا، اس وقت میں والدین اور سرپرستوں سےنظریں ملانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کالج کے تقریباً  700 والدین اور سرپرستوں کو 3 ماہ کی فیسیں معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایاکہ ان کا کالج علاقے کے بہترین سکولوں میں شامل ہوتا ہے جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بچے بچیوں کو معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ وشال ورما نے اس سے قبل لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں اور ضرورت مندوں کے گھر راشن بھی بھیجنے کا کام کیا تھا۔

آیا صوفیا: جمہوری مسلمانوں کیلئے ایک پیغام محمد جاوید نعمان قاسمی

آیا صوفیا: جمہوری مسلمانوں کیلئے ایک پیغام

محمد جاوید نعمان قاسمی

جمہوری ملک ترکی کے دارالحکومت، تاریخی شہر استنبول کی تاریخی عمارت *آیا صوفیا* کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کیے جانے والے عدالت کے *تاریخی فیصلے* پر خوشی منائی جارہی ہے یقینا عالم اسلام کے لئے باعث خوشی و مسرت ہے لیکن اسی تاریخی فیصلے کے پس پشت ایک ایسی *سیاسی تاریخ* پوشیدہ ہے جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں دراصل یہ تاریخ ان ترک اسلام پسندوں کی ہے جنہوں نے جمہوری چیلنجوں کا پوری استقامت کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے جمہوری میدان میں فتح حاصل کی ہے اس لیے آج ہماری یہ تحریر تاریخی عمارت کے بجائے تاریخی شخصیت کے پس منظر میں ہیں جس کی *کامیاب سیاسی حکمت عملی* کی بدولت آج یہ تاریخی فیصلہ صادر ہوا.
آئیے آج ہم اس تحریر میں تاریخی شخصیت *رجب طیب اردگان* کی جمہوری میدان میں کی جانے والی سیاسی کاوشوں کا تلخیصاًجائزہ لیتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلے آیا صوفیا کے عدالتی فیصلے کے پس پشت کس طرح سے بلند حوصلے صبر و تحمل نئے نئے چیلنجوں اور سازشوں کا کامیاب سامنا کارفرما تھا…..
*فلاحی سیاست* : رجب طیب اردگان صاحب دوراندیش اور عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن سے ہی سیاست کی کشمکش دیکھتے ہوئے پروان چڑھے تھے اسی لئے انہوں نے خاص ترتیب سے شہر استنبول میں *سیاسی محنت* شروع کی، جس میں طالب علموں اور عورتوں کے شعبے کو خاص مرکزی حیثیت حاصل تھی پورے شہر استنبول میں ہر تحصیل، ہر محلہ، ہر گلی تک اپنا جال بچھا دیا تھا خواتین میں خواتین ہی جاکر دعوت دیتی تھی اس طرح سے پانچ سال گھر گھر جاکر محنت کی بے شمار کارکنوں کا اضافہ کیا،کام کی ترتیب تبلیغی جماعت کے کام سے مشابہت رکھتی تھی حالانکہ خالص سیاسی کام تھا اسی دوران انہوں نے *فلاحی سیاست* شروع کر دیا وہ اس طرح کے ہر گھر تک رسائی ہونے کی وجہ سے ہر گھر کی معلومات پتہ تھی کہ کہاں یتیم بچے ہیں، کہاں بیوہ ہے جماعت کی مالی حالت کمزور ہونے کے بعد بھی مقامی کارکن اپنی حیثیت سے ضرورت مند افراد کی خدمت کرتے تھے اسی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اسلامک وژن دینا بھی ان کا خاص ہدف تھا سارا کام اللہ کی خوشنودی کے لیے سرگرمی کے ساتھ کیا جاتا تھا *حقیقت میں اسلامی رنگ تھا اسلام کا نام لیے بغیر*……. حتی کہ وہ غیر مشروع مقامات میں جاکر دعوت دینا بھی شروع کردیےتھے مثلا اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ قحبہ خانہ جاکر ذہن سازی کی جارہی تھی
یہاں تک کہ 1994ء میں الیکشن بلدیاتی کا وقت آگیا اسلامی پارٹی کا نوجوان الیکشن کے لیے کھڑا ہوا پانچ اہم پارٹیوں میں سے چھوٹی پارٹی نوجوان امیدوار اپنی مہم کے لیے مالی لحاظ سے بھی کمزور جب کہ فریق مخالف جعلساز سیاستدان تھے لیکن پھر بھی پانچ سال پہلے کی گئی محنت کی بدولت بہت ساری دھمکیوں اور ناجائز حربوں کے باوجود الیکشن کے نتیجہ نے تصدیق کی مہرثبت کردی اور اردگان نے سب کو شکست دے کر میئر بن گئے ہیں اور یہ پارٹی کے صدر نجم الدین اربکان صاحب کی سیاسی لیڈرشپ کی بہت بڑی کامیابی تھی ، (ملخصا از : ترک ناداں سے ترک دانا تک)
*پارلیمان سے زنداں تک* : اردگان صاحب کے میئر بننے کے بعدان کی سیاسی پارٹی 1996ء میں قومی اسمبلی الیکشن میں پہلی دفعہ اربکان کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی،جس نے 150 سیٹیں حاصل کی،اس طرح 1996ء میں مشترک حکومت بن گئی ، معاہدات کے مطابق ایک سال اربکان وزیر اعظم رہیں گے اور دو سال فریق مخالف پھر دو سال اربکان وزیر اعظم۔۔۔
پہلے سال کے نصف میں ہی ترکی میں عجیب و غریب تیز رفتار ترقیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی غیر معمولی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسلام دشمن دوسری پارٹیوں نے ایک ایسا منصوبہ بندی کی،کہ جس وقت سال مکمل ہوا اور حکومت جیسے ہی فریق مخالف کو دی گئی اس وقت تک فریق مخالف کے تمام ارکان کو خرید لیا گیا تھا اور پھر حکومت پر اسلام دشمن قابض ہوگئے،،اور حکومت نے دین دار لوگوں پر سختی شروع کردی، جو کبھی چھپ کر نماز پڑھتا ہوا دیکھ لیا جاتا اسے کسی نہ کسی طرح فرضی اسباب بناکر معذول کردیا جاتا،نیز اربکان اور ان کی پارٹی پر فوج نے بھی میڈیا کا سہارا لیکر اسلامی پارٹی کو رجعت پسندی کا بار بار طعنہ دینے لگے اور عوام کو ورغلانے لگے یہاں تک کہ خود اربکان اور ان کی پارٹی کے بہت سے افراد پر آئیں کی خلاف ورزی کے عنوان سے طرح طرح کے مقدمات بنادئیے گئے، اس طرح اسلامی پارٹی پر اگلے پانچ سال کیلئے پابندی لگاکر *سیاست کے دروازے بھی بند کردئیے* اور اُدھر شہر استنبول کے مقبول نوجوان مئیر رجب طیب اردگان صاحب پر ایک تقریر کے دوران کچھ اشعار پڑھنے پر مقدمہ قائم کردیاگیا، پھر اس مقدمہ میں *دس مہینے کی سزا* سنائی گئی اور *سیاست کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردیئے*،اور وہ چند اشعار یہ تھے…..
*””مسجدوں کے مینار ہمارے نیزے ہیں، مسجدوں کے گنبد ہماری آہنی ٹوپیاں ہیں، مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں، اہل ایمان ہمارے لشکر ہیں، ہمارے ایمان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا "”*
*زنداں سے پارلیمان تک* :
مخالفین نے اپنے طور پر اسلام پسندوں کی سیاسی زندگی کا خاتمہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، مگر اسلام پسندوں نے اس سفر میں صبر و تحمل، استقامت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، یہاں تک کہ اسلام پسندوں نے اس سفر میں پانچ ناموں سے کام کرتے رہے، ملی پارٹی، ملی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی، فضیلت پارٹی، سعادت پارٹی غرض حالات کے نشیب و فراز اور لادین طبقوں کی مخالفت کے سبب وقتا فوقتاً *ہر پارٹی پر پابندی عائد ہوتی گئی*، وجہ وہی اسلامی نام اور اسلامی کام قرار پایا.
مخالفین کی اتنی ساری فریب کاریوں کے بعد بھی خدا کو کچھ اور ہی منظور ہوا، اس لئے ترک اسلام پسندوں نے پھر ایک *نئ پارٹی "انصاف اور ترقی” جسٹس اینڈ ڈیولپمینٹ* پارٹی کے بدلے ہوئے نئی جماعت کے تحت کام کرنے لگے، اصلاح پسندوں کی اس نوخیز جماعت کے پہلے صدر عبداللہ گل کو بنایا گیا، جماعت میں طیب اردگان جیسا مقبول قائد موجود تو تھا لیکن ان پر تاحال سیاست پر پابندی عائد تھی، لہذا ان کے پرانے دوست عبداللہ گل صاحب کو سامنے لانے کا فیصلہ لیا گیا اور ان کی یہ سیاسی حکمت عملی بے انتہا کامیاب رہی جس کیلئے ایک اقتباس پیش خدمت ہے..
*””نام بدل کر سامنے آنے والی نوزائیدہ جماعت نے نئے انتخابات میں 35 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئ، اسمبلی میں صرف دو پارٹیاں ہی آنے میں کامیاب ہوسکی ،اس لئے تمام وزارتیں انہی دونوں کے درمیان تقسیم ہوئیں، عبداللہ گل جس کی جماعتی نشستوں کی تعداد 362 تھی ،بھاری اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ،اسے وزیر اعظم بنادیا گیا ،اس دیرینہ رفیق طیب اردگان دس مہینے کی سزا پانے کے سبب تاحال سیاست کے منظر نامے سے غائب کردیئے جانے کی سازش کا شکار تھا ،یہ سازش آئیں کی ایک شق کا سہارا لے کر کی گئی تھی ،عبداللہ گل نے وزیر اعظم بننے کے بعد اسمبلی میں اس شق میں ایسی ترمیم منظور کروائی جس کے سبب طیب اردگان کیلئے ضمنی انتخابات کے ذریعے اسمبلی میں آنے کی راہ ہموار کردی، اس رکن کی نشست اس علاقے میں تھی جہاں پر تقریر کرنے پر اردگان کو نااہل قرار دیا گیا تھا، اردگان اسی شہر اور حلقے سے جیت کر اسمبلی کارکن بنا جس میں شعر پڑھنے پر اس پر پابندی لگائی گئی تھی، اس شہر کا نام کارکن ہے یہ اردگان کا سسرالی شہر بھی ہے ،اس کے بعد کی تاریخ وفا و حکمت بھی یادگار رہے گی ،اب کی مرتبہ عبداللہ گل نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیا اور اس کی جگہ نوجوان قائد رجب طیب اردگان تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہوا وزیر اعظم کے منصب تک جا پہنچا،مخالفین منہ تکتے رہ گئے اور اسلام پسندوں کی حکمت و فراست نے نئی تاریخ رقم کردی ۔۔۔*(ترک ناداں سے ترک دانا تک صفحہ 72)
مذکورہ تاریخی پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، سیکھنے کی کوشش کریں کہ ہم جیسے لوگ، ان جیسے حالات میں ہمارے ملک میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ دیکھئے قرآن مجید کی اس آیت میں بھی اسلام سے دفاع اور کفار کے مقابلے کیلئے تیاری کا حکم ہے ، *واعدوالھم ما استطعتم من قوة*، اس آیت میں من قوۃ کا عام لفظ اختیار فرماکر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے نیز *ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم* فر ماکر حکمت اور مقصد بھی واضح فرما دیا کہ اصل قتل و قتال نہیں ہے بلکہ کفر و شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کردینا ہے جو کبھی صرف زبان و قلم بھی ہوسکتا ہے اور کبھی قتل و قتال سے….. جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے… (معارف القرآن ج سوم)
*ڈپینڈ کے بجائے دفاع کریں* : ہمیشہ یہ دیکھنے میں آیا کہ الیکشن کے دور میں پورے مسلمان کسی نہ کسی پارٹی پر ڈپینڈ کرتے ہیں کہ یہ سیکولر ہے وہ سیکولر ہوگی مگر جب حقیقت پر سے پردہ اٹھتا ہے تو پھر سونچتے ہیں کہ اب کیا کریں، مختصر یہ کہ اب ضرورت ہے کوکسی بھی پارٹی پر ڈپینڈ (Depend) کرنے کے بجائے دفاع کی تیاری کریں جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے،میری اس تحریر کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سفید جھبہ پہن کر سفید ٹوپی گھنی داڑھی مکمل متشرع انسان اس سیاست کے اس بازار میں جائے جہاں جھوٹ، رشوت خوری، دغابزی، فریب کاری زوروں پر ہو بلکہ ایسے متشرع یا علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایسا حلقہ تو ضرور بنائیں جس کے عمل دخل کے بغیر یا تائید کے بغیر کسی بھی امیدوار کا سرخرو ہونا محال ہوجائے، ایسی شکل میں اس متعین حلقہ کی مدد سے ایسے افراد کا انتخاب ہوتا رہے گا جو مکمل نہ صحیح لیکن کچھ تو دین و شرع کا خیال کرے گا جس سے رفتہ رفتہ سیاست کی اس تاریکی میں ایمانی شمع کی روشنی رونما ہونا شروع ہوگی جس سے گمراہ لوگوں کو صحیح راہ پر گامزن ہونا ممکن ہوگا.
فریق مخالف نہ صرف ہم سے بات کرنے پر راضی ہے بلکہ ہمیں دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے بلکہ اپنی قوت و اقتدار سے اپنا پاور دکھانا چاہتا ہے ایسے تقابلی دور میں ہم یہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آپسی بات چیت سے مسئلہ کا حل تلاش کرلیں گے اور ہمارا اس پر مصر ہونا ہماری کمزوری سمجھا جارہا ہے…. قصہ مختصر یہ کہ *بقول صاحب ترک ناداں سے ترک دانا تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں پر فرشتے نہیں اترتے ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرشتہ نہ بنیں تو شیطان کے خلاف جنگ سے پیچھے بھی نہ رہیں، ترک دانا فرشتے نہیں لیکن انسان بننے کی کوشش ہم سے بہتر انداز میں کررہے ہیں*

فن حدیث کا شناور___فکر نانوتوی سے باخبر! تحریر: انس بجنوری

فن حدیث کا شناور___فکر نانوتوی سے باخبر!

تحریر: انس بجنوری

رمضان المبارک کی پچیسویں تاریخ تھی،صبح کاجانفزا وقت اپنے عروج پر تھا،طلوع آفتاب کو ابھی ڈھائی گھنٹے کا عرصہ گذرا تھا کہ ملت اسلامیہ کا ایک روشن ترین آفتاب اور آسمان علم کا نیرتاباں غروب ہوگیا۔۔۔برصغیر کے سب سے بڑے بافیض ادارے کا شیخ الحدیث راہئ ملک عدم ہوگیا۔۔۔آہ
قافلے کی موت میر کارواں کی موت ہے
ہند کی تنہا نہیں،سارے جہاں کی موت ہے

پو پھٹتے ہی لوگ طویل زندگی کی دعا مانگتے ہیں،صحتوں کے لیے گڑگڑاتے ہیں۔کسے خیال تھا کہ عین اسی وقت اس کو اٹھالیا جائے گا جس کا وجود ملت اسلامیہ کا وجود تھا۔۔اور جس کی موت عالم اسلام کی موت تھی۔۔۔۔پچھلے دس سال کے عرصے میں مسلم امہ پر کیا کچھ نہیں گزرا ۔۔کون سا غم تھا جو ملت اسلامیہ پر طاری نہیں ہوا۔۔۔کیسے کیسے سخن شناس بچھڑگئے،کیسے کیسے اکابر اٹھالیے گئے،بین الاقوامی سطح پر کیا کچھ نہیں جھیلنا پڑا۔۔حکومت نے ظلم وستم کے کتنے پہاڑ ڈھائیں۔۔۔۔کشمیر تہ و بالا ہوا،ہندو بنیوں نے ہر ابھرتی ہوئی آواز کو دبایا۔عراق میں خاک اڑی،برما تباہی کا شکار ہوا۔۔شام میں آسمان رویا،فلسطین میں زمین تھرائی،سقوط بابری پر خون کے آنسو ٹپکے اور دل چھلنی چھلنی ہوگیا۔۔۔یہ سب کچھ ہوا اور ہوتا رہا۔۔ایسے میں آپ کی ذات کا وجود گہرے زخموں کےلیے مرہم تھا ۔۔۔آہ! اس رمضان کے اخیر عشرے میں یہ سہارا بھی چھن گیا ۔۔۔مسند حدیث کا عظیم محدث ہم سے بچھڑ گیا۔۔۔بزم رشیدیت و تھانویت کا آخری چراغ بھی گل ہوگیا۔۔۔

کارواں سے دور آخر رہنما کیوں ہوگیا
مدتوں کا آشنا ناآشنا کیوں ہوگیا

میرے ان ٹوٹے پھوٹے کلمات اور بےربط جملوں سے حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کی شان میں قطعاً اضافہ نہیں ہو رہا۔ میں تو حضرت رئیس المحدثینؒ کے نام اور نسبت سے خود کو امر کرنا، اپنی تحریر کو دوام بخشنا اور اس فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہوں جس میں مداح سعید شامل ہوں گے۔۔۔

ترا ثانی کہاں پیدا___فقط کہنے کی باتیں ہیں
اگر سارا زمانہ مان لے گا_____ہم نہ مانیں گے

#جامع_کمالات_شخصیت:

کاروان حق کے روح رواں،اسلامی علوم کے بحربیکراں،فکرولی اللہی کے بے مثال شارح و باکمال ترجماں، فکر نانوتوی اور منہج گنگوہی کے امین و پاسباں.......چمنستان قاسمیت کے شیریں سخن باغباں رئیس المحدثین حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ ایک باکمال شخصیت کا نام تھا،آپ جامع کمالات تھے،برصغیر کے افق پر فروزاں اہل السنہ کے دونوں کلیدی مرکز(دارالعلوم و مظاہرعلوم) سے آپ کا خمیر اٹھاتھا،
آپ نے جلیل القدر شیخ الحدیث حضرت شیخ زکریا۔علوم انوری کے محافظ حضرت فخرالمحدثین،امام المعقولات والمنقولات حضرت بلیاوی،حکیم الاسلام حضرت قاری طیب،فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی،مناظر اسلام حضرت مولانا منظور نعمانی،مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمہم اللہ جیسی متعددعبقری شخصیات کا جلوہء جہاں آرا دیکھا تھا۔۔۔

آپ وقت کے بخاری و مسلم،ابن حجر و علامہ عینی،ابن الہمام و ابن تیمیہ۔ رازی و غزالی اور رومی و سعدی کے شاگرد تھے۔۔۔۔جس نورانی ماحول میں آپ نے تربیتی مراحل طے کیے وہ جنید و شبلی کی آماجگاہ اور وقت کے قاسم و رشید کی درسگاہ تھی،یہی وجہ تھی کہ آپ ایک جامع الکمالات شخصیت بن کر ابھرے اور اہل علم کے سرتاج بن کر چمک اٹھے۔۔۔۔آپ کی شخصیت معمولی نہیں؛بل کہ غیر معمولی تھی،آپ متون کے حافظ تھے،سہل نگار مصنف اور زود نویس قلم کار تھے، تدریس و تصنیف کا مجمع البحرین تھے،آپ کی فرقت نے ہر شخص کو سکتہ میں ڈال دیا ہے،برصغیر کی علمی مجالس ایک عظیم سرپرست سے محروم ہوگئیں۔۔آہ
کاروان حق کا میرکارواں خاموش ہے!

#فن_حدیث_کا_بحر_بیکراں:

یوں تو آپ کو تفسیر و لغت،فقہ و ادب،نحو و صرف اور منطق و فلسفہ میں گہرا درک حاصل تھا؛مگر خصوصا فن حدیث پر آپ ید طولی رکھتے تھے،تمام اسلامی علوم میں سب سے زیادہ وابستگی اسی فن سے تھی۔حضرت فخرالمحدثین کے خصوصی فیض یافتہ تھے،جس کی بناپر آپ محدثانہ شان عبقریت کے حامل تھے۔۔حدیث کی "امہات الکتب" کا عرق ریزی سے دیر رات تک مطالعہ کرتے اور نوادرات نوٹ کرتے جاتے۔۔روایت سے زیادہ درایت پر نظر تھی۔۔۔۔آپ کی محدثانہ عظمت کے لیے کیا یہی کم تھا کہ آپ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم علمی درس گاہ کے شیخ الحدیث تھے؛لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے تصنیفی کارناموں سے بھی کامل ترین محدثانہ ذوق کا پتہ چلتا ہے۔"تحفہ القاری" اور____"تحفہ الالمعی" آپ کے بیش قیمت دروس کا مجموعہ ہے،اول الذکر بخاری اور ثانی ترمذی کے دروس پر مشتمل ایک قابل استناد لٹریچر ہے۔۔دونوں کتابیں کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔۔ جن سے آپ کے محدثانہ افکار سامنے آتے ہیں۔۔۔اپنے اکابرین کے افادات کا سامنا ہوتا ہے۔ہر ہر سطر سے آپ کی فن حدیث میں مہارت کا پتہ چلتا ہے۔۔۔بخاری اور ترمذی کی ان شروحات میں آپ کی اخاذ طبیعت سے نکلے ہوئے قابل قدر ملفوظات پر نظر پڑتی ہے۔۔۔۔۔وہ صحیح معنوں میں رئیس المحدثین تھے،فن حدیث سے محبت آپ کے دل کی گہرائی میں اتری ہوئی تھی۔۔۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی شخصیت اور آپ کے پاکیزہ اقوال و افعال سے گہری شیفتگی تھی۔۔ انھیں محدثین کے جتھہ سے حقیقی وارفتگی اور حدیث کی مصنفات سے دلی وابستگی تھی۔۔۔۔

آپ کی عبقری شخصیت اس وقت ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے جس کلیدی عہدہ پر فائز تھی وہ روایتی طور پر محض "صدر مدرسی" اور فقط "شیخ الحدیث" کا منصب نہیں تھا ؛ بل کہ ایک عمومی مقتدائیت کا عہدہ تھا۔۔جس پر منجانب اللہ ایسی ہی ممتاز شخصیات فائز ہوتی رہی ہیں۔جس مسند پر کبھی شیخ الہند رح نے بیٹھ کر حدیث کا درس دیا۔۔۔محدث کشمیری نے جس مسند سے ابن حجر و ذہبی کی یاد دلائی،شیخ العرب و العجم نے جہاں سے آقائے مدنی کے ترانے سنائیں آپ کی ذات اسی مسند کی برصغیر میں تنہا وارث تھی۔۔۔اسی لیے دور دراز ریاستوں سے علماء کے قافلے آپ کے درس کی سماعت کے لیے دارالعلوم میں حاضر ہوتے،خصوصا بنگلہ دیش کے علماء کا ایک قافلہ ہر سال اسی مقصد کے لیے دارالعلوم میں پناہ گزیں ہوتا۔۔۔بلاشبہ وہ بلند پایہ محدث تھے اور برصغیر میں علماے عصر کے درمیان ایک اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔۔۔۔وہ جب حدیث کا درس دیتے تو سچ مچ محسوس ہوتاکہ "بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں"وہ صحرائی ندیوں کی طرح دھیمی رفتار سے بہتے اور مسلسل و بلا انقطاع بہتے۔گویا وہ بولتے تو موتی رولتے۔۔۔۔
جس کی خاموشی میں پنہاں لذت گفتار تھی
جس کی ہر آواز باطل کے لیے تلوار تھی۔۔۔۔

#مسلک_دارالعلوم_کا_شارح:

دارالعلوم کا ہرفرزند اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ مفتی صاحب مسلک دارالعلوم کے عاشق صادق اور اس مسلک کے سرگرم ترجمان تھے،وہ اسلاف کی روایتوں کے محافظ اور تحریک ولی اللہی کے نمایاں رکن تھے، حکیم الاسلام حضرت قاری طیب رحمہ اللہ نے جس دیوبندیت کا امتیازی انداز میں تعارف کرایا ہے،علامہ اقبال نے جس دیوبندیت کو معتدل مسلک قرار دیا ہے،آپ کے اندر اسی اعتدال کا عکس تھا؛بل کہ آپ کی شخصیت اعتدال کا کوہ گراں تھی۔۔۔۔اسی لیے وہ ہمیشہ غلو کے خلاف آواز بلند کرتے،چیخ چیخ کر نت نئی بدعات کا رد کرتے،قرآن و سنت سے سرمو انحراف نہ کرتے،دیوبندیت کی خوبیوں کا برملا نغمہ سناتے،دیوبندیت میں حوادث زمانہ کی بناپر درآنے والی خامیوں پر تنقید کرتے،دم دار انداز میں غلط کو غلط کہتے۔۔ان کے ہاں غلو کا ذرہ برابر گذر نہ تھا۔ہر چیز میں اعتدال آپ کی خصوصیت تھی۔۔۔
ہماری جماعت کی موجودہ صف میں عالم،مفتی،داعی،مفسر،محدث،مصنف،ادیب اور سحرانگیز خطیب کی کوئی کمی نہیں۔۔۔ "ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں" لیکن جس شخصیت میں یہ ساری صلاحیتیں بھرپور انداز میں،اعتدال و توازن کا عنصر باقی رہتے ہوئے مطلوبہ معیار پر موجود ہوں وہ اس وقت تنہا حضرت رئیس المحدثین کی ذات تھی۔۔۔آپ کو بین الاقوامی سطح پر ترجمان دیوبندیت ہونے کا شرف حاصل تھا...

 اعتدال اہل السنہ والجماعہ "دیوبند" کا امتیازی وصف ہے۔۔جس میں افراط ہے نہ تفریط۔۔اس اعتبار سے آپ ہند میں سرمایہء ملت کے نگہبان اور اس دور آخر میں خیرالقرون سے تواتر کے ساتھ چلتی ایمانی و عملی وراثت کے پاسبان تھے۔۔۔
آپ کو برصغیر میں اجماعی طور پر دینی سربراہ ہونے کا شرف اور ملت اسلامیہ کی ایمانی قیادت کی باگ ڈور حاصل تھی۔۔۔۔نیز آپ کی مقناطیسی شخصیت کو "تلقی بالقبول" کا مقام حاصل تھا۔۔۔۔گویا آپ شخص نہیں عظیم شخصیت تھے.....فرد نہیں انجمن تھے..

گذشتہ سال خبر موصول ہوئی تھی کہ آپ دارالعلوم دیوبند کے منہج و مسلک اور فکری جامعیت پر ایک جامع لٹریچر مرتب کر رہے ہیں،جس کے لیے سوشل میڈیا پر باضابطہ اعلان بھی شائع ہوا تھا۔۔۔اس کی تکمیل کا علم تو نہیں،اللہ کرے وہ کام پایہء تکمیل کو پہونچ گیا ہو۔۔۔۔۔اس خدمت سے بھی دارالعلوم اور مسلک دارالعلوم کے تحفظ کی فکر و کڑھن کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔آپ کے مزاج میں تصلب اور پختگی تھی،دارالعلوم دیوبند فکرولی اللہی کا امین اور اس کی اشاعت نو کے لیے ابتدا ہی سے برسر پیکار ہے،آپ کی ذات فکر ولی کا عکس تھی،آپ نے محدث دیار ہند شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی کی کتاب"حجہ اللہ البالغہ" کی ایک ضخیم اور مبسوط شرح لکھ کر ڈھائی سو سال سے چڑھا ہوا قرض چکادیا۔۔۔

علمی مباحث ہوں،یا فرق و مذاہب یا پھر نظریات و رجحانات ان کے درمیان ایسا موازنہ اور عمدہ تجزیہ کرتے کہ بڑے بڑے تحقیقی ذوق رکھنے والے مطمئن ہوجاتے۔۔۔ باطل فرق و مذاہب کے مزاج و مذاق اور ان کے زیغ و ضلال اور طریقہء اضلال پر آپ کی نگاہ ہمہ گیر تھی۔۔۔صدق گوئی اور اظہار حق میں اپنے اکابر کا پرتو تھے،ملامت کی پرواہ کیے بغیر جس کو حق سمجھتے دوٹوک انداز میں کہہ ڈالتے۔۔۔
آپ نے جس طرح شاہ ولی اللہ کے افکار کو متعارف کرایا ٹھیک اسی طرح "افادات قاسمی" کے نام سے حضرت نانوتوی کے افکار کی تسہیل کا بھی کام کیا۔اس کے علاوہ حضرت شیخ الہند کی ایضاح الادلہ پر جامع ترین کام کیا یہ تمام وہ اوصاف ہیں جن کی بناپر آپ کو فلفسہء ولی اللہی کا امین اور افکار نانوتوی کا شارح کہاجاتا ہے۔۔۔۔

خوش قسمت ہیں وہ جنھوں نے آپ سے استفادہ کیا،علوم و فنون کے شیریں جام سے سیراب ہوئے۔۔حدثنا اور قال اللہ و قال الرسول کے نغمات سے لطف اٹھایا اور اس طرح یہ اربوں فیض یافتگان آپ کے روحانی وارث بن گئے۔۔۔۔دیگر اربوں خواہش مندوں اور حدیث کے طالب علموں کو تشنہ لب چھوڑ کر آپ موت کے آغوش میں چلے گئے۔۔۔اور عقبی کی راہ کے راہی بن گئے!!

موت کے آغوش میں ہنستی ہے جن کی زندگی
ان کو دیکھا ہے حیات جاوداں کی گود میں!

بلا تفریق مذہب سینکڑوں ضرورت مندوں میں خوردنی اشیاء تقسیم کیا گیا اڈا بازار مہراج گنج: 22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز

بلا تفریق مذہب سینکڑوں ضرورت مندوں میں خوردنی اشیاء تقسیم کیا گیا

   اڈا بازار مہراج گنج: 22/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
قطر الخیریہ ایک عالمی رفاہی تنظیم ہے جو اس وقت ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر انسانی خدمت انجام دے رہی ہے، یہ عمل ویسے تو پورے سال جاری رہتا ہے مگر آج کل کورونا جیسی مہلک بیماری کے دور میں دنیا بھر میں جنگی پیمانے پر وہ اپنے رفاہی کاموں کو انجام دینے میں مشغول ہے،اسی مقصد کے تحت آج مدرسہ سعد بن وقاص اڈا بازار میں قطر الخیریہ کے تعاون سے تقریبا چار سو سے زائد خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والے کنبوں کے درمیان تقسیم اشیاء خوردنی کیلئے ایک کیمپ کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی سرپرستی گائڈنس ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے ceo ( چیف ایگزکٹیو آفیسر) شیخ عبد الماجد ندوی نے کی جبکہ اس موقع پر ضلع بھر سے آئے ہوئے سینکڑوں مفلوک الحال لوگوں کے درمیان تقسیم'' اجناس کٹ،، کا عمل مولانا شاہد ندوی کی کاوشوں سے بہ حسن وخوبی پایہ تکمیل تک پہنچا۔
مرکزی جمعیت علماء ہند کے سکریٹری مولانا سہیل احمد قاسمی نے اس موقع پر کہا کہ ہم شکر گزار ہیں مولانا شاہد علی ندوی اور ان کے جملہ رفقاء کار بالخصوص محترم جناب شیخ عبد الماجدندوی کا جن کی خصوصی توجہات سے آج سینکڑوں غرباء میں اشیاء خوردنی کی تقسیم ممکن ہوسکی اس موقع پر علاقے کے غریبوں میں کافی خوشی محسوس کی گئی لوگوں نے مولانا شاہد ندوی، مولانا سہیل احمد قاسمی، مولانا اخلد قاسمی کا شکریہ ادا کیا۔