اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 23 September 2020

حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور


 حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری

خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ


          محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔

                       اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 

                       سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے 

        اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان  کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر  کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص  کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور کہیں نہ کہیں اپنے غموں سے بھاری دل کو کچھ آرام دلانے کے لیے بھی چلے آتے ہیں، وہ ایک بیٹی کی قبر ہے، قبر کے پاس کھڑے ہوئے شخص کی لخت جگر کا مدفن ہے، جو زندہ رہی تو اس کے خوشیوں کے لیے تکلیفیں اور کلفتیں برداشت کرتا رہا اور جب رخصت ہوئی تو اس کے لئے بلندی درجات کی دعائیں کر رہا ہے، یہ محبت اور چاہت ہی تو ہے، اس قبر میں مدفون عورت  کی  بھی خوشحال زندگی تھی، تین یا چار سال پہلے شادی ہوئے تھے، اب وہ اپنے قدموں کے نیچے جنت لانے والی تھی کہ قضا کا وقت آ پہنچا، اور اپنی امید کو اپنے اندر لئے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہو گئی، اس شخص کو دیکھ کر مجھے اپنی حالت کا خیال آیا، کہ فرق صرف رشتہ کا ہے، میں بھی حاضر ہوتا ہوں، ایسا لگتا ہے پکارنے والا پکار رہا ہے، چلے آؤ،

                    بڑا سکون میرے گوشہ مزار میں ہے

        یقینا وہ پرسکون جگہ ہی ہے، پہنچتا ہوں، چلا جاتا ہوں،  یسین پڑھتا ہوں دعائیں کرتا ہوں، مضطرب دل لے جاتا ہوں واپسی پر سکون سا محسوس کرتا ہوں، لیکن فرق ہے اس کے غم میں اس کی تکلیف میں، میرے پاس میری بچی ہے، جو مرحومہ کی نشانی اور ان کی یاد ہے، اس کی شکل و صورت میں ان کا چہرہ، اس کی مسکراہٹ میں ان کی ہنسی ہے، لیکن اس مرحومہ کے شوہر اور باپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں، اس قبر کے پاس سے روزانہ کئی دفعہ گزرنا ہوتا ہے، جب بھی نظر پڑتی ہے، تو مجھے ولید ابن یزید کی وہ  بات یاد آ جاتی ہے، جو اس نے عروہ ابن زبیر کے لئےکہی تھی، جب ان کا پاؤں زخم کی وجہ سے کاٹ دیا گیا تھا اور اس کے چند ہی ساعت کے بعد چھت سے گر کر بیٹے کی موت کی خبر ملی تھی اور اسی وقت ولید کے دربار میں قبیلہ عبس کا وہ بوڑھا سوداگر بھی پہنچا تھا، جس کا مال، جس کا بیٹا جس کی بینائی اور جس کا سب کچھ تھوڑی ہی دیر میں اس سے چھین لیا گیا تھا، جس کے حالات سن کر ولید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے، کہلا بھیجا تھا، جاؤ ا، عروہ ابن زبیر سے کہہ دو تمہیں صبر و شکر مبارک، اس لئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تم سے زیادہ غموں اور مصیبتوں کے مارے ہوئے ہیں۔

        ولید کے یہ الفاظ یاد آتے ہی خدا کا شکر ادا کرنے لگتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ٹیلیگرام چینل۔

https://t.me/sensitivestudy

واٹس ایپ گروپ۔

https://chat.whatsapp.com/GxbTLUt3AXb2B6QLrk2ba7

سینسیٹیو اسٹڈی فیس بک پیج۔

http://facebook.com/Sensitivestudy-102187811602183/

رابطہ لنک۔

https://wa.link/fm2uas

24 ستمبر کو بلڈ ڈونیٹ گروپ (الفلاح فرنٹ)و دیگر گروپ کے اشتراک سے خون عطیہ کیمپ کا انعقاد


 24 ستمبر کو بلڈ ڈونیٹ گروپ (الفلاح فرنٹ)و دیگر گروپ کے اشتراک سے خون عطیہ کیمپ کا انعقاد


اعظم گڑھ،23/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز 

الفلاح فرنٹ کے ذریعہ چلنے والے بلڈ ڈونیٹ گروپ و دیگر گروپ اور شبلی کالج کے طلباء کے ذریعہ 24 ستمبر کو ایک خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس کیمپ میں بلڈ ڈونیٹ گروپ ،وارانسی بلڈ پوائنٹ،بلڈ کنیکٹیکٹ سمیت دیگر گروپ کے کارکنان شرکت کر اپنا خون عطیہ کریں گے۔اس موقع پر کیمپ کے آرگنائزر ابو ہاشم نے عوام سے کیمپ سے شرکت میں اپیل کی ہے۔اس موقع پر بلڈ ڈونیٹ گروپ کے بانی اور نیشنل کنوینر ذاکر حسین نے بھی بلڈ ڈونیٹ گروپ کے کارکنان و عوام سے کیمپ میں شرکت کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ یہ کیمپ شبلی نیشنل کالج میں 24 ستمبر کو صبح دس بجے سے شروع ہوکر چار بجے تک چلے گا۔بلڈ ڈونیٹ گروپ کے سرگرم رکن ضیاءخالد،یاسر پٹھان،اکھیلیش موریا،نبراس امین آعظمی،یاسر نواز و دیگر نے کیمپ کو کامیاب بنانے کا عزم دہرایا ہے۔

اولاد کی تربیت کا طریقہ ماں باپ کا کردار..... ✍️محمد امین الرشید سیتامڑھی


 اولاد کی تربیت کا طریقہ ماں باپ کا کردار..... 


✍️محمد امین الرشید سیتامڑھی 


اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے والد کا کردار بڑاہی سخت ہوتا ہے، جب کہ اسی کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار سے اولاد نڈر اور بے باک ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم وتربیت اور کردار پر بُرا اثر پڑتا ہے، جب کہ والد کی سختی، نگہہ داشت اور تیزی سے اولاد کو من مانی کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولاد یہ نہیں جانتی کہ ان کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنی مشقتیں سرنگوں کرنا پڑتا ہے وہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر یا روکھی سوکھی غذائیں کھا کر اپنا  گزر بسرکرتارہتا ہے، لیکن باپ  پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھا کھانا، پینا، تعلیم و تربیت میسر ہو


ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسلام میں باپ کو بڑا رتبہ حاصل ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور باپ کی خوش نودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نودی قراردیا گیا ہے


بچے کا ایمان مضبوط کر نے کے لئے ماں کو چاہئے کہ بچے کی ذہن میں اللہ کا تصور پیداکریں کہ بیٹا!اگر تم ایسے کروگے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے ۔آپ جب پیار سے سمجھائیں گے تو بچہ پوچھے گا کہ اللہ تعالیٰ کون ہے ؟اب اللہ رب العزت کا تعارف کروانے کا موقع مل جائیگااب آپ اللہ کا خوب تعارف کرائیں کہ کھانا کھلانے اور پانی پلانے والی ذات اللہ کی ہے ہم سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے یہ پوری کائنات اللہ نے بنائی ہے ،غرض کہ وہ موٹی موٹی باتیں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں حکمت کے ساتھ اللہ کی طرف کرتے رہیں اورجیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جائے اس کو دینی تعلیم دیں، قرآ ن مجید پڑھائیں، حدیث شریف زبانی یاد کروائیں ،دعا ئیں یاد کرائیں ، ارکان اسلام ،کلمہ طیبہ اس کے معنٰی ومفاہم بچہ کے سامنے بیان کریں،نماز کا طریقہ بتائیں ،سوتے وقت بجائے لوری یا جھوٹی قصہ کہانیوں کے انبیاء علیہم السلام کے واقعات ان کی قربانیاں جناب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ،حیات خلفاء راشدین و اہل بیت،صحابۂ کرام و ازواج مطہرات اور پیشوان اسلام اوراسلامی تاریخ بتائیں

تاکہ بیٹا کہنے پر مجبورہوجائےکہ والدین نے الحمد للہ بہت محنت اور کوشش کی جو آج ہم اس قابل ہوئےہیں کہ کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں کچھ کہ سن لیتے ہیں

ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہو گا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لیے دعا اور دوا کا اہتمام، نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالیٰ ایسے ماں باپ کے لیے آسانیاں فراہم کرے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لیے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ مرد حضرات خود با جماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پا لینے کی آرزو پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی مانگنی ہیں۔ بچے کو روز مرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔ نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتداء میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی تاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ……… صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کرائی جائے۔ دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعاء و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائے گی

الحمدللہ ان سب چیزوں پر والد صاحبؒ نے کافی محنت کی اور مدرسہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی میں اس پر توجہ بھی بہت کی تا کہ بچے شروع سے ہی ان سب چیزوں کے پابند ہوجائیں

جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے ہر وقت دعا کرتے رہیں اور ان کی دی گئی اچھی تربیت پر عمل کرتے رہیں تاکہ ان کو اس کا اجر ملتا رہے۔ یاد رکھیں اللہ نے قرآن پاک میں نیک والدین اور ان کے نیک بچوں کو جنت میں اکھٹا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ہر نماز میں دعا کریں کہ وہ آپ کے والدین کو بخشش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے آپ پر بچپن کی بے بس زندگی کے دوران رحم کیا تھا۔ رب ارحمھما كما ربياني صغيراانشاءاللہ بندہ امید کرتا ہے کہ آج  سےہم سب انشاءاللہ مذکورہ ہدایات پر عمل پیرا ہونگیں اور ماں باپ کی قدر اور اس کے حکم کو اپنےسر کا تاج سمجھینگیں اللہ پاک ہمارے لئے مزید آسانیا ں پیدا فرمائے آمین یارب العالمین .....

محمد امین الرشید سیتامڑھی ابن حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب مظاہری علیہ الرحمہ سابق استاد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی

کورونا بحران کے سبب آج ختم ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس مانسون کا اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا کے بحران کے مزید سنگین ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہونے کا امکان ہے


 کورونا بحران کے سبب آج ختم ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس

مانسون کا اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا کے بحران کے مزید سنگین ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہونے کا امکان ہے

نئی دہلی: کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے تقریباً پانچ کے ماہ بعد 14 ستمبر کو شروع ہونے والا پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس قبل از وقت ہی ختم ہو سکتا ہے۔ یہ اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا وبا کے بحران کے مزید شدید ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہو ہونے کا امکان ہے۔

دریں اثنا، بدھ کے حزب اختلاف کی غیر موجودگی میں حکومت نے روز یکے بعد دیگرے متعدد بلوں کو منظور کرا لیا ہے۔ اس میں زراعت سے متعقل تیسرا بل بھی شامل ہے۔ ان بلوں کے خلاف ملک بھر کے کسان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اپوزیشن نے بھی دو زرعی بلوں کے خلاف ایوانوں کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔

حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں مرکزی حکومت نے لیبر کوڈ سے متعلق تمام بل، ایف سی آر اے ترمیمی بل، جموں وکشمیر لینگویج بل اور نیٹنگ بل سمیت دیگر بلوں کو منظور کرا لیا ہے۔ راجیہ سبھا کی کارروائی کو آج شام 4 بجے ملتوی کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق، لوک سبھا کی کارروائی، جو آج سہ پہر تین بجے سے شروع ہوگی، ایک توسیع شدہ وقفہ صفر کے بعد شام پانچ بجے کے قریب غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کی جا سکتی ہے۔ وہیں راجیہ سبھا میں پانچ بل پیش کیے جانے کے بعد اسے بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ لوک سبھا میں زرعی بل کی منظوری کے بعد سے حزب اختلاف اور کسانوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھی۔ اسی اثنا میں حکومت نے اتوار کے روز راجیہ سبھا میں دو بلوں کو پیش کیا اور صوتی ووٹ سے انہیں منظور کرا لیا۔ اس دوران کچھ اراکین پارلیمنٹ نے ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ جس کے بعد 8 اراکین پارلیمنٹ کو ایک ہفتہ کے لئے ایوان کی کارروائی سے معطل کر دیا گیا۔ یہ 8 ممبران اسمبلی تھے: ڈیرک او برائن (ترنمول کانگریس)، سنجے سنگھ (عآپ)، راجیو ساتاو (کانگریس)، کے کے راگیش (سی پی ایم)، سید ناصر حسین (کانگریس)، رپون بورا (کانگریس)، ڈولا سین (ترنمول کانگریس) اور ایلارام کریم (سی پی ایم)۔

مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے منگل کے روز کہا کہ راجیہ سبھا کے معطل ارکان اپنے طرز عمل پر بلا شرط معذرت کریں تو ان کی معطلی پر غور کیا جائے گا۔ پرساد کا یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب راجیہ سبھا میں کانگریس کی زیر قیادت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے 8 اراکین کی معطلی کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان بالا کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ ایوان بالا میں سب سے پہلے کانگریس کے اراکین نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے بعد عآپ، ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان نے بھی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ بعد ازاں این سی پی، ایس پی اور آر جے ڈی کے ممبران بھی ایوان سے واک آؤٹ کر کے چلے گئے۔

Tuesday 22 September 2020

اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو بل میں MSP کا ذکر کیوں نہیں؟... پرینکا گاندھی


 

اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو بل میں MSP کا ذکر کیوں نہیں؟... پرینکا گاندھی


کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ایک بار پھر کسان بل کے حوالے سے مودی حکومت کا گھیراؤ کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے پوچھا ، "اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو پھر سپورٹ پرائس MSP کا ذکر کسان بل میں کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ بل میں یہ کیوں نہیں لکھا گیا ہے کہ حکومت کسانوں کی مکمل حفاظت کرے گی؟ حکومت نے کسانوں کے لئے منڈیوں کا نیٹ ورک بڑھانے کا ذکر بل میں کیوں نہیں کیا ہے؟ حکومت کو کسانوں کے مطالبات سننے ہوں گے۔ "

کورونا: 188 دنوں بعد لوگوں نے کیا تاج محل کا دیدار! آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔


 کورونا: 188 دنوں بعد لوگوں نے کیا تاج محل کا دیدار!

آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔

کورونا وبا کی وجہ سے بند مشہور تاریخی وراثت تاج محل آج سے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ 188 دنوں تک بند رہنے کے بعد محبت کی علامت 17ویں صدی کی اس وراثت کو دوبارہ کھولے جانے سے لوگوں میں ایک جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ اس درمیان آگرہ میں کووڈ-19 کے 144 نئے معاملے سامنے آئے ہیں جس نے انتظامیہ کے لیے پریشانی بڑھا دی ہے۔ اس کے باوجود آج تاج محل کھولنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا، وہ قائم رہا۔

کورونا کے خطرے کو دیکھتے ہوئے اے ایس آئی کے افسران نے سی آئی ایس ایف اہلکاروں کے ساتھ تاریخی تاج محل احاطہ میں سماجی فاصلہ اور ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ صفائی کو یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔

تاریخی اسمارک کھلنے سے مقامی ٹریول ایجنسی کے لوگ پرجوش ہیں اور آنے والے مہینوں میں اس شعبہ کی بہتر کارکردگی کی امید کر رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی تک ایڈوانس میں ہوٹل بکنگ کو لے کر بہت اچھی خبریں سامنے نہیں آ رہی ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا، چیزیں بدلیں گی۔ ہوٹل کاروباریوں کو بھی امید ہے کہ آگرہ کو اہم شہروں سے جوڑنے والی کچھ نئی پروازیں سیاحوں کو یہاں آنے کے لیے حوصلہ بخشیں گی۔


حکومت کو اب نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے، نہ اراکین پارلیمنٹ کی! کل راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی تاریخ میں اس وقت سیاہ باب کی شکل میں درج ہو گیا جب حکومت نے سبھی ضابطوں کو طاق پر رکھ کر سیاہ قانون پاس کرائے اور 'کسانوں کی موت کا وارنٹ' جاری کر دیا۔


 حکومت کو اب نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے، نہ اراکین پارلیمنٹ کی!

کل راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی تاریخ میں اس وقت سیاہ باب کی شکل میں درج ہو گیا جب حکومت نے سبھی ضابطوں کو طاق پر رکھ کر سیاہ قانون پاس کرائے اور 'کسانوں کی موت کا وارنٹ' جاری کر دیا۔

ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں اتوار کا دن سیاہ باب کی شکل میں درج کیا جائے گا۔ اتوار کو جس طرح پارلیمانی روایات اور اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر اراکین پارلیمنٹ کی آواز کو دبا کر حکومت نے منمانی کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جمہوریت اب گزرے زمانے کی بات ہو گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت کے 6 وزیر پریس کانفرنس کرنے میدان میں اتریں، ٹھیکرا اپوزیشن کے سر پھوڑ دیں۔ اس اخلاقیات اور روایت کی دہائی دیں، جسے خود حکومت نے تار تار کر دیا۔

اتوار کو حکومت نے جس طرح راجیہ سبھا پر لات مار کر قبضہ کیا، ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ کا جو رویہ رہا، اس سے صاف ہو گیا کہ حکومت کو نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے نہ اراکین پارلیمنٹ کی۔ راجیہ سبھا میں زرعی بل پاس کرانے کے لیے حکومت نے جس ہتھکنڈے کا استعمال کیا وہ حکومت کی منمانی ظاہر کرتا ہے۔ کورونا کی آڑ میں پہلے ہی اراکین پارلیمنٹ کے، خصوصی طور سے اپوزیشن کے سوالوں کو ٹالنے کے لیے وقفہ سوالات کے ملتوی کا انتظام تھوپ کر حکومت اپنے ارادے ظاہر کر چکی تھی کہ اب پارلیمنٹ محض نام کی رہ گئی ہے، صرف رسم ادائیگی ہی ہوگی اور صرف ایک ہی پارٹی اور خصوصی طور سے ایک ہی شخص کی آواز سنی جائے گی، مانی جائے گی۔

ہندوستان کی آبادی میں تقریباً دو تہائی حصہ داری والے کسان کے حقوق کے بارے میں حکومت ایک قانون بنا رہی ہے اور انہی کسانوں، ان کے نمائندوں سے پوچھا تک نہیں جا رہا ہے کہ کیا یہ قانون ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا یا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جب بھی انگریز کوئی ایسا کام کرتے تو پورا ہندوستان ان کے خلاف کھڑا ہو جاتا، اور جلیاں والا باغ جیسے حادثے تک ہو جاتے۔ لیکن ایک جدید جمہوریت میں جب سب سے مضبوط حکومت ایسا کرے تو اسے کیا ہی نام دیا جائے۔

آئینی نظام ہے کہ حکومت کوئی بھی بل لائے گی تو اسے پاس کرانے سے پہلے اس بل سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرس سے تبادلہ خیال ہوگا، غور و خوض ہوگا، ضروری ہوا تو اس میں تبدیلیاں ہوں گی، پھر پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندہ کی شکل میں اراکین پارلیمنٹ کے درمیان بحث ہوگی، تب کہیں جا کر بل پاس ہوگا۔ لیکن زرعی بل، جو ملک کے کسان کی زندگی اور روزی روٹی کے ساتھ سیدھے جڑا ہے اس میں کسانوں سے بات کرنا تو دور، قانون بنانے والے اراکین پارلیمنٹ تک کو اپنی رائے رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اپوزیشن نے بل پر بحث کے لیے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے کی گزارش کی، جسے خارج کر دیا گیا۔ اپوزیشن کے جن اراکین پارلیمنٹ کو اس پر اپنی بات رکھنی تھی، انھیں ایسا کرنے سے روکا گیا اور حد تو تب ہو گئی جب اراکین پارلیمنٹ نے بل پر ووٹنگ کی مانگ کی، ضابطوں کا حوالہ دیا، تو مارشل کو بلا کر اراکین پارلیمنٹ کو روک دیا گیا۔

ایوان کے اندر حکومت کی تاناشاہی کس طرح سے چل رہی تھی، یہ بات باہر نہ جا پائے اس کے لیے پہلے راجیہ سبھا ٹی وی کے نشریہ میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تقریر کی آواز بند کی گئی، اس کے بعد پوری کارروائی کا ہی نشریہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی ووٹ ڈویژن کے مطالبہ کو درکنار کر صوتی ووٹ سے بل پاس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ بل پر نہ اپوزیشن کے اعتراض درج کیے گئے، نہ حکومت نے ان پر جواب دیا، اور سارے قوانین کو ٹھینگا دکھا کر بل کو پاس مان لیا گیا۔

ایوان کے اندر حکومت کی تاناشاہی کس طرح سے چل رہی تھی، یہ بات باہر نہ جا پائے اس کے لیے پہلے راجیہ سبھا ٹی وی کے نشریہ میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تقریر کی آواز بند کی گئی، اس کے بعد پوری کارروائی کا ہی نشریہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی ووٹ ڈویژن کے مطالبہ کو درکنار کر صوتی ووٹ سے بل پاس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ بل پر نہ اپوزیشن کے اعتراض درج کیے گئے، نہ حکومت نے ان پر جواب دیا، اور سارے قوانین کو ٹھینگا دکھا کر بل کو پاس مان لیا گیا۔

قانون ہے کہ اگر کسی بھی بل پر کوئی ایک بھی رکن ووٹنگ کا مطالبہ کرے گا تو ووٹنگ ہوگی۔ یہ ذمہ داری ایوان کی کارروائی کو چلا رہے ڈپٹی چیئرمین کی تھی۔ لیکن وہ تو صرف برسراقتدار طبقہ کی ہی بات سنتے ہوئے نظر آئے۔


دہلی فساد: سازش کو انجام دینے کے لئے پانچ افراد کو ملے تھے 1.61 کروڑ! پولیس چارج شیٹ میں دعویٰ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔


 دہلی فساد: سازش کو انجام دینے کے لئے پانچ افراد کو ملے تھے 1.61 کروڑ! پولیس چارج شیٹ میں دعویٰ

چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔

نئی دہلی: دہلی پولیس نے فروری ماہ میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں عدالت میں دائر اپنی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے مقامات پر انتظام و انصرام کرنے اور فرقہ وارانہ تشدد کی سازش کرنے کے لئے پانچ افراد نے مبینہ طور پر 1.61 کروڑ روپئے وصول کیے تھے۔

پولیس نے چارج شیٹ میں کہا ہے کہ سابق کونسلر عشرت جہاں، سماجی کارکن خالد سیفی، عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین، جامعہ ملیہ اسلامیہ ایلومنی ایسوسی ایشن کے صدر شفا الرحمن اور جامعہ کے طالب علم میران حیدر نے احتجاج کے مقامات کے انتظام اور مبینہ طور پر فروری میں دہلی فسادات کی سازش کرنے کے لئے 1.61 کروڑ روپئے وصول کیے تھے۔

واضح رہے کہ پولیس نے گزشتہ روز فروری میں شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں 15 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق، "تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ یکم دسمبر 2019 سے 26 فروری 2020 کے دوران ملزم عشرت جہاں، خالد سیفی، طاہر حسین، شفا الرحمن اور میران حیدر کو بینک اکاؤنٹ اور بطور نقد کل 16133703 (ایک کروڑ 61 لاکھ 33 ہزار 703) روپے موصول ہوئے تھے۔ "

چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔

*اعظم خان کے ساتھ ناانصافی ظلم و زیادتی اب برداشت نہیں ہوگی: سید ارشد* *بی جے پی حکومت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا*


 *اعظم خان کے ساتھ ناانصافی ظلم و زیادتی اب برداشت نہیں ہوگی: سید ارشد*

 *بی جے پی حکومت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا*


 *آنند نگر مہراج گنج (عبید الرحمن الحسینی)*

 بی جے پی حکومت میں جہاں عوام بے روزگاری سے پریشان ہے وہیں دن بدن لوگوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ بھی توڑے جارہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اعظم خان کے ساتھ ناانصافی کو دیکھتے ہوئے کل گزشتہ روز پھریندہ تحصیل کے احاطے میں سماجوادی پارٹی کے قدآور نیتا سید ارشد کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اعظم خان کے ساتھ ہورہی ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کو دیکھ کر یوگی حکومت کی پولس نے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا اور اسی دوران پولس کی لاٹھی چارج میں کوریج کرنے گئے میڈیا والوں پر بھی لاٹھی برسائے گئے کافی لوگ زخمی ہوگئے۔ سید ارشد نے ایس ڈی ایم پھریندہ کو راجیہ پال کے نام مکتوب دے کر اعظم خان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا ہیکہ یہ ظلم زیادتی ہے اعظم خان کے ساتھ ان کو فرضی مقدمات میں پھنسایا گیا ہے جو شخص اسمبلی کا ممبر ہو راجیہ سبھا کا ممبر ہو وہ بکری چورائےگا؟ بی جے پی حکومت کی یہ ظلم زیادتی بہت زیادہ دن چلنے والی نہیں ہے۔ حکومت عوام سے بنتی ہے اور جب عوام چاہ لیتی ہے تو حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے۔


Monday 21 September 2020

مولانا_طاہر_مدنی_صاحب_کا_عملی_سیاست_سے_ریٹائرمنٹ_کا_اعلان

 

مولانا_طاہر_مدنی_صاحب_کا_عملی_سیاست_سے_ریٹائرمنٹ_کا_اعلان


عزیزان گرامی قدر و محبان گرامی منزلت!

گذشتہ 12 برس سے میں عملی سیاست میں سرگرم رہا اور راشٹریہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے ممکن خدمت انجام دیتا رہا. بٹلہ ہاؤس فرضی انکاونٹر کے بعد اکتوبر 2008 میں کونسل کی تشکیل ہوئی اور میں بھی یکے از موسسین تھا. اس وقت بہت ڈر اور خوف کا ماحول تھا اور بطور خاص اعظم گڑھ کا مسلمان نشانے پر تھا. عاطف اور ساجد کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا اور پوری کمیونٹی کو بدنام کیا جا رہا تھا، دہشت گردی کے نام پر نوجوانوں کو اٹھایا جارہا تھا اور انتہائی خوف کا ماحول تھا. اس وقت ایک مضبوط پلیٹ فارم کی ضرورت تھی. الحمد للہ کونسل نے اس ضرورت کی تکمیل کی. ظلم اور زیادتی کے خلاف ایک مضبوط تحریک کی بنیاد پڑ گئی، قوم کو نیا حوصلہ ملا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے بیداری پیدا ہوئی.

کونسل نے یہ پیغام دیا کہ جمہوریت میں جس قوم کے پاس قیادت نہیں ہوتی، اس کے حقوق کی حفاظت نہیں ہوتی. قیادت کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے. کونسل نے سب کے لیے انصاف کی آواز بلند کی اور مسلم ہندو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کی. پچھلے 12 سالوں سے کونسل کا سنگھرش سب کے سامنے ہے، یہی وجہ ہے کہ اب کونسل کا پیغام دور دور تک پہونچ گیا ہے. دور دراز کی ریاست آسام میں بھی اس کی مضبوط یونٹ قائم ہو چکی ہے. قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کی قیادت میں کونسل اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سماج کے ہر طبقہ کے لوگ اس سے جڑتے جا رہے ہیں. اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے.

عملی سیاست کا کام بہت دوڑ بھاگ اور محنت شاقہ کا کام ہے. اس کے لیے بہت قربانی درکار ہوتی ہے. صحت اور تندرستی کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے. دن کا آرام اور رات کی نیند قربان کرنی پڑتی ہے. اس میدان میں کوئی چھٹی کا دن نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی آرام کا وقت ہوتا ہے. رات میں دو بجے بھی اگر فون آگیا اور ضرورت پڑگئی تو نکلنا پڑتا ہے.

میری عمر اب 62 سال ہوگئی ہے. صحت تندرستی بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی، بائی پاس سرجری ہوئی ہے اور شوگر کا بھی عارضہ ہے. اب زیادہ دوڑ بھاگ نہیں ہوسکتی. اس لیے میں نے عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے. کونسل کے ساتھ میرا اخلاقی تعاون برقرار رہے گا. میں کونسل کو ملک و ملت کی اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ لوگ اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون جاری رکھیں گے اور اسے مضبوط کرتے رہیں گے.

اب جو بھی مہلت عمر بچی ہے، اسے یکسوئی کے ساتھ درس و تدریس، تعلیم و تربیت ،دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف اور اصلاح و ارشاد کے کاموں میں لگانا چاہتا ہوں. اللہ سے توفیق مانگتا ہوں کہ آخری سانس تک اپنے دین کی خدمت لے اور اپنے بندوں کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

اس وقت ہم اس ملک میں بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں. بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ مختلف میدانوں میں تقسیم کار کے اصول کے ساتھ کام کی ضرورت ہے. چیلنج بہت ہیں اور بہت کام کرنا ہے. منصوبہ بندی اور باہمی اشتراک و تعاون بہت ضروری ہے؛

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اللهم وفقنا لما تحبه و ترضاه. آمین

طاہر مدنی  20 ستمبر 2020

Sunday 20 September 2020

جمہوریت بالائے طاق، ملک میں پولس راج... ظفر آغا ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا


 جمہوریت بالائے طاق، ملک میں پولس راج... ظفر آغا

ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا

آخر عمر خالد کو جیل پہنچا دیا گیا۔ ایک عرصہ سے اس سابق جے این یو طالب علم کی پولس کو تلاش تھی۔ کنہیا کمار کے ساتھ یہ بھی 'دیش دروہی' ٹھہرا دیا گیا تھا۔ مگر پچھلے ہفتے تو اس کو دہلی پولس نے دہلی دنگوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا۔ لیکن ان دنگوں کے سلسلے میں عمر خالد اکیلے ہی ملزموں کی صف میں نہیں ہیں۔ اس معاملے میں تو کیا ہندو، کیا مسلمان کسی کو نہیں بخشا جا رہا ہے۔ جناب حد تو یہ ہے کہ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری اور سوراج پارٹی کے یوگیندر یادو کا بھی نام اسی چارج شیٹ میں ہے۔ پھر دہلی یونیورسٹی کے ہندی پروفیسر اپوروانند اور جے این یو کی مشہور ماہر معاشیات محترمہ جیتی گھوش کا نام بھی دہلی میں دنگے کروانے کی سازش کے سلسلے میں پولس چارج شیٹ کی فہرست میں ہے۔

عجیب عالم ہے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، جو بھی حکومت کے خلاف چوں کرے وہ غدار وطن اور دیکھتے دیکھتے سلاخوں کے پیچھے۔ ابھی چند روز قبل پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں حکومت نے یہ انکشاف کیا کہ غدار وطن کے الزام میں پچھلے تین سالوں میں چار ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ لوگ یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار ہیں جس میں ایک سال تک کسی قسم کی ضمانت کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ خیال رہے کہ چار ہزار گرفتار افراد میں عمر خالد جیسے وہ لوگ جو اس سال پکڑے گئے ہیں وہ شامل ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ اگر کسی نے ذرا سا منھ کھولا اور بس وہ جیل گیا۔

صاحب یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں کوئی حکومت وقت کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیے تو وہاں برسوں سنوائی کا سوال نہیں اٹھتا۔ افسرشاہی حکومت کی انگلیوں پر ناچ رہی ہے۔ میڈیا حکومت وقت کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہے۔ ملک میں ہاہاکار مچی ہے۔ لیکن کوئی حکومت کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ اگر کسی کو آزادی ہے تو وہ صرف پولس ہے۔ وہ جو جی چاہے سو کرے۔ اور بھلا پولس من مانی کیوں نہ کرے! ذرا غور فرمائیے اتر پردیش حکومت نے ابھی پچھلے ہفتے یہ قانون پاس کیا ہے کہ یو پی پولس بغیر کسی وارنٹ اور ایف آئی آر کے جب چاہے جس کو چاہے گھر سے اٹھا کر لے جا سکتی ہے۔

یہ ایمرجنسی نہیں تو اور کیا ہے! ہم نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کا دور بھی دیکھا ہے۔ اس وقت نوجوان ہوتے تھے۔ یونیورسٹی طالب علم تھے۔ اندرا گاندھی سے سخت ناراض تھے۔ ہم اور ہمارے ساتھی کھلے عام دن رات کافی ہاؤس میں بیٹھ کر کھلے بندوں حکومت کے خلاف بولتے تھے۔ مجال ہے کہ کبھی جھوٹے منھ بھی پولس نے سوال کیا ہو۔ اب مودی کے خلاف بول کر تو دیکھیے، چوبیس گھنٹے نہیں گزریں گے اور پولس گھر پر دستک دے رہی ہوگی۔ کہنے کو کوئی ایمرجنسی نہیں، لیکن ایمرجنسی سے بدتر حالات ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری حقوق بالائے طاق۔ ملک میں پوری پولس راج اور مودی-شاہی چل رہی ہے۔

خیال رہے کہ یہ ایمرجنسی جیسے حالات اور پولس کی من مانی اب روز بہ روز بڑھتی جائیں گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مودی حکومت ہر فرنٹ پر بری طرح ناکام ہے۔ ملک سے روزگار اڑ چکا ہے۔ جو روزگار سے لگے تھے لاک ڈاؤن ان کی بھی روزی روٹی کھا گیا۔ ہر دھندا چوپٹ ہے۔ ادھر کسان سڑکوں پر ہے۔ ابھی 17 ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش کو نوجوان نے بطور یومِ بے روزگار منایا۔ سینکڑوں شہروں میں حکومت مخالف جلوس نکلے۔ کئی جگہوں پر پولس نے نوجوانوں کے خلاف لاٹھی چارج بھی کیا۔ ادھر مہنگائی ہے کہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ بازار خریداری کے لیے جائیے، روز مرہ کے سامان خریدیے ہزار روپے منٹوں میں ختم۔ لب و لباب یہ کہ مودی حکومت کی ناکامیوں سے اب عام آدمی کے پیٹ پر لات پڑ رہی ہے۔ ظاہر ہے بھوکے پیٹ کو ہر وقت ہندو-مسلم دشمنی کا نشہ جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ یعنی پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت نے ہندو-مسلم منافرت کی سیاست کا جو جال بُنا تھا وہ ملک کے معاشی حالات کے آگے اب ڈھیلا پڑنے لگا۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں عوام کا غصہ اب سڑکوں پر نکلے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔ ابھی حال میں ہریانہ میں ہزاروں کسان سڑکوں پر تھے۔ دہلی کے پڑوس اتر پردیش سے بھی ایسی ہی خبریں آئیں۔ پھر نوجوان روزگار مانگ رہا ہے۔ تاجر کو قرض چاہیے۔ ادھر بینک ڈوب رہے ہیں۔ قرض کہاں سے دیئے جائیں۔ مودی جی کے پاس اب صرف دو راستے بچے ہیں۔ پہلا، نفرت کی سیاست کا بازار اتنا گرم کیا جائے کہ ملک ہی جھلس جائے۔ مگر معاشی پریشانیوں نے منافرت کا نشہ بھنگ کر دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ رام مندر تعمیر کے نام پر بھی ہندو عوام میں جوش پیدا نہیں ہوا۔ یعنی اب مودی جی کی پرانی حکمت عملی یعنی بانٹو اور راج کرو بہت کارگر ہونا مشکل ہے۔

ایسے کٹھن حالات میں مودی حکومت کے پاس پولس کے مظالم کے ساتھ حکومت چلانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ یعنی جیسے جیسے دن گزریں گے، ویسے ویسے عوام کی پریشانی بڑھیں گی۔ اور ساتھ میں عوام کا غصہ حکومت کے خلاف بڑھے گا۔ لوگ سڑکوں پر نکلیں گے اور ادھر پولس کے مظالم بڑھیں گے۔ یعنی مودی حکومت عوام پر مظالم ڈھانے کے نئے ریکارڈ قائم کرنے جا رہی ہے۔ کیونکہ زبردست معاشی پریشانیوں کے سبب پولس مظالم کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا، اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔



مودی۔یوگی نے کسان اور نوجوانوں کو بربادی کی طرف دھکیلا: شیوپال

شیوپال یادو نے کہا کہ گزشتہ 7 مہینوں سے کورونا کی وجہ سے عوام کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی۔ کورونا ختم نہیں ہوا ہے، مگر اب کورونا اور حکومت سے لڑنے کے لئے ہم لوگ سائیکل یاترا کے ذریعہ سڑکوں پر اترے ہیں۔

 اٹاوہ: پرگتی شیل سماج وادی پارٹی (لوہیا) کے صدر شیوپال سنگھ یادو نے الزام لگایا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے نوجوانوں اور کسانوں کو بربادی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ شیوپال یادو نے اتوار کو اپنے انتخابی حلقہ جسونت نگر میں پارٹی کی سائیکل یاترا کے موقع پر کہا کہ بی جے پی حکومت میں ہر طبقہ پریشان ہے۔ کسانوں اور نوجوانوں کو مایوس کردیا گیا ہے۔ کسی کو ملازمت دینا تو دور، نوکری پیشہ لوگوں کی ملازمت لینے کی بات کی جا رہی ہے

شیوپال یادو نے کہا کہ عالمی وبا کورونا کے نام پر بجٹ میں اوپر بیٹھے لوگوں کے اشارے پر جم کر بدعنوانی، کمیشن خوری اور لوٹ کی جارہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کی ملازمتیں چلی گئی ہیں۔ بڑے صنعتی گھرانوں کی کٹھ پتلی بن کر یہ حکومت ملک کو نجکاری کی آڑ میں فروخت کر رہی ہے۔ بدعنوانی میں ملوث پولیس اور بجلی محکمہ فرضی معاملات میں پھنسانے و چھاپہ ماری کا خوف دکھاکر غریب عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔یوپال یادو نے پارٹی کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عوام کو لوٹنے والے حکام کی فہرست تیار کریں تاکہ وقت آنے پر سود سمیت وصول کیا جائے گا۔ بی جے پی حکومت کی من مانی اور تغلقی فیصلوں سے عوام بے حال ہیں۔ شیوپال یادو نے کہا کہ گزشتہ سات مہینوں سے کورونا کی وجہ سے عوام کو بہت پریشانی برداشت کرنی پڑی۔ کورونا ختم نہیں ہوا ہے، مگر اب کورونا اور حکومت سے لڑنے کے لئے ہم لوگ سائیکل یاترا کے ذریعہ سڑکوں پر اترے ہیں۔

دخول کی رسم کے بعد 634 واں عرس مخدوم اختتام پزیر ٹانڈہ/امبیڈکرنگر:20/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! معراج احمد انصاری


 دخول کی رسم کے بعد 634 واں عرس مخدوم اختتام پزیر


ٹانڈہ/امبیڈکرنگر:20/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز 

رپورٹ! معراج احمد انصاری 

درگاہ کچھوچھہ میں حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کے 634 ویں سالانہ عرس پاک کووڈ 19 وباء کے پیش نظر انتہائی سادگی اور پر سکون ماحول میں آستانہ عالیہ پر منعقد ہوئے تقریبات بحسن و خوبی کے ساتھ آج 30 محرم الحرام مطابق 19ستمبر کو صندل پوشی اور دخول کی رسم کے بعد اختتام پزیر ہو گیا۔ منعقدہ دخول کی رسم میں صاحبِ سجادہ آستانہ عالیہ کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا سید شاہ فخرالدین اشرف و سجادہ نشین و آستانہ عالیہ کے متولی حضرت مولانا سید شاہ محی الدین اشرف تمام فقراء کے مسائل کی جانکاری حاصل کيا اور اسے دور کرنے کی یقین دہانی  کرائی۔ واضح رہے کہ 634 ویں عرس مخدوم کا آغاز اپنے قدیمی روایات کے مطابق کورونا وائرس کے پیش نظر وزارتِ صحت کی رہنما خطوط پر عمل کرتے ہوئے سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ 24 محرم الحرام مطابق 13ستمبر بروز اتوار کو غنی دار شاہ کی قیادت میں تمام فقراء و ملنگوں کے ساتھ آستانہ عالیہ پر رسومات کی ادائیگی سے کیا گیا۔ اس کے بعد 25 محرم الحرام مطابق 14 ستمبر بروز دوشنبہ کو آستانہ عالیہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ معین الدین اشرف جانشین شہید راہ مدینہ آستانہ علیہ پر رسم گاگر ادا کیا۔ جبکہ 26 محرم الحرام مطابق 15ستمبر بروز منگل کو آستانہ عالیہ پر سجادہ نشین مولانا سیدحسین اشرف نے رسم گاگر ادا کیا۔ 27 محرم الحرام مطابق 16ستمبر بروز بدھ کو سجادہ نشین و آستانہ عالیہ کے متولی حضرت مولانا سید شاہ محی الدین اشرف نے رسومات ادا کیا۔ اسی طرح عرس کے خاص روز 28 محرم الحرام مطابق 17ستمبر بروز جمعرات کو صاحبِ سجادہ آستانہ عالیہ کے سرپرست اعلیٰ و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر حضرت مولانا سید شاہ فخرالدین اشرف نے آستانہ عالیہ پر رسم گاگر اور خرقہ پوشی ادا کیا۔ عرس کی ان تمام تقریبات کے بعد 30 محرم الحرام مطابق 19 ستمبر بروز سنیچر کو صندل پوشی اور دخول کی رسم کے بعد عرس اختتام پزیر ہوا۔ اس موقع پرسیدمعراج الدین، سیدسراج اشرف، سیدنعیم اشرف، ڈاکٹر محمد ماجد سمیت درگاہ انتظامیہ کمیٹی کے تمام اراکین موجود رہے۔

زرعی بلوں کے خلاف کسانوں کا زبردست احتجاج، حکومت مخالف نعرے بازی امبالہ کے ایس پی ابھیشیک نے کہا کہ بھارتی کسان یونین نے مظاہرے کی کال دی ہے۔ اس کے پیش نظر بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ ہمارے پاس کافی تعداد میں فورس موجود ہیں۔ ہم نے ٹریفک کا راستہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔


 زرعی بلوں کے خلاف کسانوں کا زبردست احتجاج، حکومت مخالف نعرے بازی

امبالہ کے ایس پی ابھیشیک نے کہا کہ بھارتی کسان یونین نے مظاہرے کی کال دی ہے۔ اس کے پیش نظر بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ ہمارے پاس کافی تعداد میں فورس موجود ہیں۔ ہم نے ٹریفک کا راستہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔

امبالہ/ چنڈی گڑھ / دہلی: ایک طرف جہاں اتوار کے روز راجیہ سبھا سے زراعت سے وابستہ تین بلوں میں سے دو کو منظور کر لیا وہیں دوسری طرف ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے ان بلوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ متعدد کسان تنظیموں نے اتوار کو عظیم الشان مظاہرہ کی کال دی تھی اور ’سڑک روکو‘ تحریک کے تحت کسانوں نے شاہراہ کو جام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ متعدد تنظیموں کی کال پر سینکڑوں کسان آج امبالہ میں سڑکوں پر نکل آئے۔ کسان ٹریکٹر کو سڑکوں پر لے کر اترے اور بل کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران مظاہرین نے جھنڈے اور بینرز بھی دکھائے۔

ہریانہ میں امبالہ سے ملحقہ سدو پور بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر پولیس کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا۔ امبالہ کے ایس پی ابھیشیک جروال نے کہا، بھارتی کسان یونین نے ایک مظاہرے کی کال دی ہے۔ اس کے پیش نظر بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں کافی تعداد میں سیکورٹی فورسز موجود ہیں۔ ہم نے ٹریفک کا راستہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔

ایس پی امبالہ نے کہا کہ جو لوگ دہلی، کوروکشترا سے آرہے ہیں، ہمارے پاس ان کے لئے ایک ڈائیورزن کا منصوبہ ہے۔ امبالہ میں پولیس کی مزید نفری تعینات کردی گئی ہے کیونکہ مظاہرین یہاں کے راستے دہلی جاسکتے ہیں۔ اسی دوران، دہلی پولیس بھی کسانوں کے مظاہرے کے پیش نظر الرٹ موڈ میں ہے۔

امبالا رینج کے آئی جی وائی پورن کمار نے کہا، ’’ہریانہ میں 16 -17 کسان تنظیموں نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ امن و امان ہر صورت برقرار رہے گی۔ قبل ازیں، متنازعہ زراعت بل آج راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا۔ بل پیش کرنے کے بعد اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ راجیہ سبھا میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ حکومت کے اتحادی، شرومنی اکالی دل نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ لوک سبھا میں بل کی منظوری کے بعد مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

Friday 18 September 2020

تازہ ترین خبریں کسانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے یوگی حکومت: اکھلیش یادو


 

کسانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے یوگی حکومت: اکھلیش یادو

سماج وادی پارٹی (ایس پی) سربراہ اکھلیش یادو نے بدھ کو الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت زرعی آرڈیننس کے ذریعہ کسانوں کو بڑے بڑے تاجروں کا محتاج بنانا چاہتی ہے۔

مسٹر یادو نے یہاں جاری بیان میں کہا کہ بی جے پی حکومت 214 سے ہی کسانوں کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔زمین کی حصولیابی کی کوشش کے بعد اب بی جے پی زرعی آرڈیننس کے ذریعہ کسانوں کو بڑے بڑے کاروباریوں کا محتاج بنانا چاہتی ہے بی جے پی کسانوں کا کم از کم سہارا قیمت تو دلا نہیں پائی اس نے ضروری اشیاۓ ایکٹ سے ہی کئی فصلوں کو باہر کردیا۔ گنا کسانوں کے ابھی تک 13ہزار کروڑ روپئے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ کسانوں کی پیداوار کو نئے قانون کے سہارے بڑی کمپنیاں اور بڑے کاروباری من چاہے طریقے سے خریدیں گے۔ بی جے پی ان آرڈیننس کو کسانوں کی آزادی کے جملے کا نام دے کر درحقیقت کسانوں کو غلام بنانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا بحران اور لاک ڈاؤن نے کاروبار بند کئے تو نوجوان بے روزگاری کے شکار ہوگئے۔ بی جے پی حکومت مبینہ سرمایہ کاری کے اعدادوشمار کے ساتھ روزگار کے سپنے دکھاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی حکومت کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی نئی انڈسٹریاں نہیں لگیں۔اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ ریاست میں 1.03کروڑ لوگ نوکری کی تلاش میں ہیں ۔محکمہ عملہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یو پی میں 14.62 فیصدی تعداد نوکری طلب کرنے والوں کی ہے۔

نیوز ایجنسی (یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

گوگل پلے اسٹور پر واپس لوٹا 'پے ٹی ایم'، ٹوئٹ کر دی جانکاری پے ٹی ایم نے اپنے بہت مختصر سے ٹوئٹ میں لکھا ہے "اینڈ وی آر بیک!" یعنی "اور ہم واپس آ گئے!" اچانک پے ٹی ایم کے گوگل پلے اسٹور سے غائب ہونے اور پھر کچھ ہی دیر بعد واپس آ جانے سے لوگ حیران ہیں۔


 گوگل پلے اسٹور پر واپس لوٹا 'پے ٹی ایم'، ٹوئٹ کر دی جانکاری

پے ٹی ایم نے اپنے بہت مختصر سے ٹوئٹ میں لکھا ہے "اینڈ وی آر بیک!" یعنی "اور ہم واپس آ گئے!" اچانک پے ٹی ایم کے گوگل پلے اسٹور سے غائب ہونے اور پھر کچھ ہی دیر بعد واپس آ جانے سے لوگ حیران ہیں۔

پے ٹی ایم جب گوگل پلے اسٹور سے غائب ہوا تو ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا اور پے ٹی ایم استعمال کرنے والے لوگ بھی خوفزدہ ہوئے کہ کہیں ان کے پیسے نہ چلے جائیں۔ پے ٹی ایم نے اس درمیان بیان بھی دیا کہ کسی کا پیسہ ڈوبنے والا نہیں، اور تازہ خبر یہ ہے کہ ایک بار پھر پے ٹی ایم گوگل پلے اسٹور پر واپس آ گیا ہے۔ اس کی جانکاری خود پے ٹی ایم نے ٹوئٹ کر کے دی ہے۔

پے ٹی ایم نے اپنے بہت مختصر سے ٹوئٹ میں لکھا ہے "اینڈ وی آر بیک!" یعنی "اور ہم واپس آ گئے!" اچانک پے ٹی ایم کے گوگل پلے اسٹور سے غائب ہونے اور پھر کچھ ہی دیر بعد واپس آ جانے سے لوگ حیران ہیں۔ گوگل نے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ اس نے پے ٹی ایم ایپ کو کھیلوں میں سٹہ بازی سے متعلق سرگرمیوں پر اپنی پالیسی کی خلاف ورزی کے سبب پلے اسٹور سے ہٹایا ہے۔ لیکن پھر اچانک اس کی واپسی کے تعلق سے گوگل کا کوئی بیان فی الحال سامنے نہیں آیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گوگل اپنے ایک ای میل جواب میں کہا تھا کہ "ایپ کو 'پلے' پالیسیوں کی خلاف ورزی کے سبب بلاک کیا گیا ہے۔ ہماری پالیسی کے معاملے میں آئی پی ایل ٹورنامنٹ سے پہلے آج ایک وضاحت جاری کیا گیا ہے۔" گوگل نے یہ بھی کہا تھا کہ اس قدم سے صرف پلے اسٹور پر ایپ کی دستیابی متاثر ہوگی اور اس کے استعمال کنندگان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

بعد ازاں پے ٹی ایم نے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ نئے ڈاؤن لوڈ یا اَپ ڈیٹ کے لیے پے ٹی ایم اینڈرائیڈ ایپ گوگل پلے اسٹور پر عارضی طور سے دستیاب نہیں ہے۔ کمپنی نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ "یہ (ایپ) بہت جلد (پلے اسٹور پر) واپس آ جائے گا۔ آپ کا پورا پیسہ پوری طرح محفوظ ہے، اور آپ اپنے پے ٹی ایم ایپ کا معمول کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں۔"

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ ، بھتے اور پنشن کے ترمیمی بل 2020 پر پارلیمنٹ کی مہر


 


اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ ، بھتے اور پنشن کے ترمیمی بل 2020 پر پارلیمنٹ کی مہر

نئی دہلی: کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب مالی مشکلات کے پیش نظر اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 30 فیصد تخفیف کرنے سے متعلق “اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ، بھتے اور پنشن (ترمیمی) بل 2020” پر جمعہ کے روز پارلیمنٹ کی مہر ثبت ہوگئی۔

راجیہ سبھا نے آج مختصر بحث کے بعد اسے منظور کرلیا جبکہ لوک سبھا نے پہلے ہی اس کو منظور کرلیا تھا۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے اس ترمیمی بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بحران کے اس وقت میں کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بحران کے وقت حکومت کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پارلیمنٹ کو اپنے اخراجات میں کمی کرکے اس سلسلے میں مثال قائم کرنی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وقت کورونا وائرس کے خلاف لڑنے کا ہے اور اس وقت ہر مرحلے پر حکومت کو اس وبا سے لڑنے کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ ایم پی فنڈ کو ملتوی کرنے کا فیصلہ عارضی ہے اور بعد میں اسے بحال کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے تمام وزراء کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ کورونا وائرس کے معاملے میں کوئی سیاست نہ کریں۔
حکومت کورونا وائرس کو شکست دینا چاہتی ہے اور اسے صرف اجتماعی تعاون سے ہی شکست دی جاسکتی ہے، اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔

تاریخ شیراز ہند ( جونپور ) حمزہ اجمل جونپوری


 تاریخ شیراز ہند ( جونپور ) 

حمزہ اجمل جونپوری 

شاہانِ تغلق اور شاہانِ شرقیہ کے عہد سے پہلے


قدیم تاریخ  جونپور کے متعلق عموماً تاریخی اوراق اور ہندوستانی مؤرخین خاموش ہیں، بعض کتب میں صرف اتنا ہی ملتا ہے کہ رام چندر کے زمانے میں ایک قبیلہ آباد تھا جسکا پرانا نام جم ودگن پورہ تھا۔ 

جونپور کے عہد قدیم کے مختلف نام جو مورخین "پونا پورہ" "یام پورہ" "وسیندر پورہ" "یامونیا پورہ" "جوہن پورہ" "جمدگن پورہ" "ایوتھیم پورہ" لکھتے ہیں یہ اسی دور کی پیداوار ہے جب شہر جونپور پر بھروں کا قبضہ تھا۔

اس شہر کی تاریخ کو اگر فیروز شاہ تغلق کے دورِ حکومت سے دیکھا جائے تو اسکی عظمت و اہمیت بہت بلند و بالا معلوم ہوتی ہے۔


محمد تغلق کی وفات کے بعد فیروز شاہ تغلق تخت نشین ہوا ، اسکے بعد ہی فرماروائے بنگال حاجی الیاس نے بغاوت کردی، تو اسکی سرکوبی کے لئے فیروز شاہ تغلق نے بنگال کا رخ کیا، اس مہم میں اس کو کامیابی حاصل ہوئی اور حاجی الیاس کو شکست ہوئی ، فیروز شاہ تغلق کو وہاں کی آب و ہوا راس نا آئی تو وہ دہلی کے لئے روانہ ہوا۔

چند دن گزرے ہیں تھے کہ حاجی الیاس کا انتقال ہوا  اور اسکا بیٹا سکندر تخت نشین ہوا، 1360 عیسوی میں وہ شمس الدین سکندر کی سرکوبی کے لئے نکلا لیکن اس سے صلح ہو گئی ، اور واپسی میں پدماوی چھوٹا ناگ پور کے جنگل میں شکار کھیلتا ہوا ظفر آباد حضرت مخدوم آفتاب ہند اور حضرت مخدوم چراغ ہند رحمہما اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا چونکہ برسات کا موسم تھا اس لئے مہینوں قیام کرنا پڑا دوران قیام ایک روز سیر و تفریح کے غرض سے دریائے گومتی کے کنارے آیا ، اس کو اس جگہ کا منظر بے حد پسند آیا جہاں سے دریائے گومتی کو سڑک پار کرکے لے جاتی ہے۔ 

فیروز شاہ کو بر اکناف دریائے گومتی ہی  ایک شہر آباد کرنے کا خیال ہوا ، اس نے ماہرین کے ذریعہ جتنے رقبہ میں شہر آباد کرنا تھا ، بچشم خود جائزہ لیا اور پھر مختصر عرصہ میں اس شہر کو آباد کردیا گیا۔

اس شہر کو فیروز شاہ تغلق نے اپنے چچا زاد بھائی "محمد بن تغلق" (جونا شاہ) کے نام سے 1361 عیسوی میں دریائے گومتی کے شمالی کنارے پر ہموار زمین دیکھ کر آباد کیا تھا اسکا نام جونا پور رکھا بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے اسکا نام جونپور ہوگیا۔

فیروز شاہ تغلق ایک لائق و فائق اور دور اندیش بادشاہ تھا ، اس نے اس سر زمین پر نامور صوفیہ اور علماء کو لا کر بسایا ، انکے لئے مسجدیں اور خانقاہیں اور مدرسے تیار کروائے اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں؛  جب اسکے جود و سخا ، عطاء و بخشش اور علم دوستی کا شہرہ مملکتِ اسلامیہ میں پہنچا تو ہر فن کے اہل کمال نے اس شہر کو اپنا مسکن و مرکز بنایا پھر یہاں سے چاروں طرف علم کا دریا بہہ کر اطراف عالم کو سیراب کرنے لگا۔

جونپور اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے بنگال پر حملہ کے لئے قلعہ تھا ، اور حکومت دہلی کے لئے ہمیشہ سپر کا کام دیتا رہا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ خواجہ جہاں ملک سرور نے اسے سلطنت شرقیہ کا پایہ تخت بنا دیا تھا اور اسکے خاندان نے ایک صدی تک حکومت کی اور انہی خصوصیات کی بنا پر اکبر نے جونپور کو بہت ترقی دی اور اسکا نام سرکار جونپور رکھا الہ آباد کا قلعہ تعمیر ہونے کے بعد پایہ تخت یہاں سے منتقل ہو گیا ۔

(ماخوذ از تاریخ شیراز ہند)

علم و عمل کا یہ مرکز جسے فیروز شاہ تغلق نے آباد کیا اور علماء و صلحاء اور صوفیہ کرام سے اسکی سیرابی کروائی ، دنوں کے چڑھتے چڑھتے یہ اس ثریا پر چمکنے والا سب سے بڑا ستارہ بن گیا اور علم و عمل کا یہ مرکز ایران کے شیراز کے مقابلے میں آ گیا ، وقت کے بادشاہ ' شاہ جہاں نے جب یہ منظر دیکھا تو جونپور کو شیراز ہند کے لقب سے نواز کر اسکی شان کو دوبالا کر دیا ، دور دور سے لوگ ہجرت کرکے آتے گئے اور جونپور کو اپنا مسکن و مرکز بناتے گئے بہت سے اولیاء اور صوفیہ پیدا ہوئے۔ یہ بنجر اور خشک علم  زمین جس کو بھروں اور بودھوں نے روند ڈالا تھا اور جس کو بنجر بنا کر چھوڑ دیا تھا فیروز شاہ تغلق نے اسی کھنڈر پر اسے تعمیر کر دیا تھا اور پورے عالم میں اسکی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا ۔

ہزاروں علمائے جونپور کو تاریخ کی کتابوں نے اپنے سنہرے اوراق میں جگہ دی  اور فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب فتوی عالم گیری پر کام علماء جونپور کے ہی سپرد تھا۔ پہلی جلد مولوی جلال الدین مچھلی شہر نے مدون کی۔ اور اسی سرزمین سے فیض حاصل کرنے والے شیر شاہ  سوری نے ہندوستان میں اقتدار و اختیار کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور مواصلاتی نظام کو جی ٹی روڈ بنا کر ایک نئی شکل دی۔

علم  و فن کا یہ مرکز آسمان کی بلندیوں پر چڑھتا گیا اور بے شمار علماء پیدا ہوئے، فن نحو کی مشہور کتاب کافیہ کا حاشیہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے ہی لکھا ہے  جن کی قبر انور جونپور ہی میں ہے ،  فلسفہ کی مشہور کتاب الشمس البازغہ ملا محمود جونپوری ہی نے تصنیف کی اور  سید احمد شہید رح کے تربیت یافتہ مولوی کرامت علی جونپور سے ہی تعلق رکھتے تھے۔

امیر المومنین فی الحدیث مولانا یونس صاحب جونپوری کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں جس نے اپنی ساری عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی خدمت میں صرف کر دی اور جسے عالم اسلام نے امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے نوازا۔

 جونپور ہی  کی مایہ ناز شخصیت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری رح ہیں  جنہوں نے مدرسہ عربیہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی کی بنیاد رکھ کر قحط الرجال کے دور میں علم و فضل کا دریا بہایا۔  جن کا لگائے ہوئے  درخت سے آج ایک ایک دنیا  سیراب ہو رہی ہے اور جس نے بہت سے عالموں اور حافظوں کو جنم دیا سر فہرست بڑے حافظ جی ( حافظ نسیم صاحب رحمہ اللہ ) مولانا عبدالرحیم صاحب ناظم مدرسہ ھذا مفتی احمد شمیم صاحب  ۔

مولانا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی ریسرچ اسکالر آکسفورڈ یونیورسٹی لندن بھی جونپور کی ہی مایہ ناز شخصیت ہے ۔

اردو ادب کے نمایاں شاعر شفیق جونپوری بھی کسی ادب شناس سے پوشیدہ نہیں ہیں ،

تاریخ کے اوراق جونپور کو اپنے آغوش میں سموئے ہوئے ہے ادیبوں اور شاعروں کا ہجوم عالموں اور حافظوں کا مجمع سیاست دانوں کی بھیڑ غرضیکہ ہر فن مولا شیراز ہند ہے۔ 

شیراز ہند کا شہرہ آفاق مدرسہ عربیہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی

دارالعلوم دیوبند کی عظیم شاخ جامعہ حسینہ لال دروازہ جونپور

دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو کی شاخ مدرسہ محمودیہ جمدہاں جونپور

مدرسہ مولانا ابو الکلام آزاد اسرہٹہ شاہ گنج جونپور

جامعہ فاروقیہ صبرحد جونپور

اور بھی بہت سے مکاتب و مدارس جونپور کی آغوش میں چلتے ہیں جہاں انسانوں کے ذہنوں کی اسلامی تعلیمات سے سینچائی کی جاتی ہے ۔

جونپور کی تاریخی عمارتیں اور جگہیں 

"لال دروازہ مسجد" "اٹالہ مسجد" "شاہی پل (جس کو مغل دور حکومت میں بنایا گیا تھا جو کہ چار سو سال پرانا ہے)" "قلعہ فیروز شاہ" اور بھی بہت سہی جگہیں اور عمارتیں ہیں مضمون طویل نا ہو جائے اسی لئے مختصرا ذکر کر دیا گیا ۔

اللہ شیراز ہند جونپور کو یوں ہی شاد و آباد رکھ اور اس سے دین کی خدمت لیتا رہے۔


والد صاحبؒ کا علمی سفر اور انکی قربانیاں ✍️ محمد امین الرشید سیتامڑھی بہار


 والد صاحبؒ کا علمی سفر اور انکی قربانیاں


✍️ محمد امین الرشید سیتامڑھی بہار

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے؛ جو اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت اور اس کی ترقی  کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگا دیتا ہے۔ ہر باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری زندگی فراہم کرے ؛ تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد سب سے زیادہ والدین کے حقوق کی پاسداری کی طرف متنبہ کیا۔

میرے والد حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید  مظاہری ؒ بن غلام رسول بن سودھن بن محمد منیرؒ مدھوراپوری باجپٹی سیتامڑھی تھے۔

والد صاحبؒ کے تعلق سے حضرت مولانا بخشش صاحب سابق استاد حدیث مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر رقم طراز ہیں کہ حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب کی زمانہ ٕ طالبعلمی پر نظر ڈالتاہوں تو وہ ان باقسمت لوگوں میں نظر آتے ہیں جنہوں نےتنگدستی اور غربت کے باوجود تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ,اللہ تعالی ان کی کوششوں کو قبول فرماۓ اور جنت نصیب فرماۓ مرحوم نے حفظ مکمل کرکے گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا؛ مگر تحصیل علم کا شوق ان کے رگ و ریشہ میں رچا بسا تھا؛ چنانچہ چند سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے معاشی تنگی کے باوجود مزید علم حاصل کرنے کا فیصلہ لیا اور مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی تعلیم کی غرض سے پہونچ گٸے اور باضابطہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تنگدستی اور غربت ایسی کہ گھر والے ان کے جیب کے خرچ کو کیا برداشت کرتے خود حافظ صاحب کو کسی شکل سے انتظام کرکے گھر بھی کچھ رقم بھیجنی پڑتی تھی؛ پھر بھی گھر والوں کا تقاضاتھاکہ  تعلیم کو چھوڑ کر کماٸی کا کوٸی ذریعہ اختیار کیاجاٸے ؛مگر اللہ کے اس  بندہ نے ہمت نہیں ہارا اور اسی حالت میں اپنے خرچ  کابھی انتظام کرتا اور گھر بھی کچھ نہ کچھ رقم بھیج دیا کرتا تھا اور اسی شش و پنچ کے ساتھ حافظ صاحب نے اپنی تعلیم کو مکمل کرلیا اور پھر سہارن پور سے فارغ ہونے کےبعد مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر  میں منصب تدریس پر فائز ہوکر بڑے انہماک کے ساتھ درس وتدریس میں لگ گٸے, معاشی اعتبار سے تھوڑی سی راحت ملی ؛مگر پھر بھی گھر والے خوش نہیں تھے ادھر بال بچوں کا خرچ بڑھ گیا حتی کہ گھر والوں سے پریشانی کی وجہ سے آباٸی وطن چھوڑ کر مکان بنانے کی فکر ہوٸی اللہ کے کرم سے زمین تومل گٸی مگر روپیہ کی فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر ذہنی تناؤ ہوگیا،کوشش بسیار کے بعد اللہ تعالی کے فضل وکرم سے بطور قرض کچھ رقم مل گئی تو زمین خرید لی گٸی اللہ تعالی نے مکان بھی بنوایا اور قرضہ بھی ادا کروادیا ،اسی تنگدستی میں سخاوت کایہ عالم تھاکہ کھانے وغیرہ میں ضرور ایک دو آدمیوں کو شریک کرتے تھے بغیر کسی کو ساتھ لٸے کبھی کھانا نہیں کھایا اور وقتاً فوقتاً اور لوگوں بھی کچھ نہ کچھ کھلاتےہی رہتے تھے،ان کے پاس تھا ہی کیامگر لوگ ان کے خلوص سے متأثر ہوکر ان کے دستر خوان کی زینت بن جایا کرتے تھے،راقم الحروف بھی ان کے دسترخوان کا ایک حصہ تھا کسی چیز کے کھانے کی خواہش ہوتی اس کا انتظام کیا تذکرہ کیا اللہ کے بندے کو کبھی تردد نہیں ہوتاتھا وہ چیز تیار ہوجاتی تھی اوربہت قلیل مدت میں تیار کرلیتے تھے اللہ تعالی اپنی شایان شان اجر عظیم عطا فرماۓ  ایک مرتبہ تدریس  ہی کے زمانہ میں گھر آۓ ہوۓ تھے وہیں بیمار ہوۓ علاج ومعالجہ ہوا؛ مگر طبیعت ٹھیک نہیں ہوٸی  افاقہ توہوا تین سال بیمار رہ کر اسی بیماری میں کلمہ پڑھتے ہوۓ اللہ تعالی کو پیارے ہوگٸے اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس عطإ فرماۓ 


 والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم 


آپ کی پیدائش 1374ھ مطابق 1953ء میں ہوئی تکمیل حفظ کے بعد مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں داخلہ لیکر ابتدائی فارسی و عربی سے مشکوٰۃ اور جلالین شریف تک یہاں تعلیم حاصل کی، شعبان 1399ھ میں جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور میں دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی -

والد صاحب ؒ نے بخاری شریف مسلم شریف مؤطا امام محمد حضرت مولانا شیخ محمد یونس  صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ابو داؤد شریف حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سے ترمذی و شمائل ترمذی حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے طحاوی شریف حضرت مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحب سے نسائی اور ابن ماجہ حضرت مولانا مفتی عبد العزیز صاحب سے پڑھی -

فراغت کے بعد والد صاحب علیہ الرحمہ شوال 1399 ھ مطابق 1978ء مدرسہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڑھ یوپی بلا لئے گئے اور شعبہ حفظ قرآن کریم کی مبارک اور اہم خدمت آپکے سپرد ہوئی

اس 26 سالہ عرصے میں کثیر تعداد میں آپ کے ذریعے حفاظ کلام پاک تیار ہوئے

بیعت و ارشاد کا تعلق اولاً حضرت مولانا مفتی محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ سے قائم کیا انکی وفات کے بعد حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کارگذار ناظم جامعہ مظاہر العلوم سے آخری وقت تک روحانی رابطہ رہا 

والد صاحب آخر وقت تک ذکر جہری اور تہجد کے پابند تھے

والد صاحب مستجاب الدعوات بھی تھے 

اس سلسلے میں شیخ المشاٸخ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم نے فرماکہ اگر بارش نہیں ہوتی تو والدصاحب رحمة اللہ علیہ سے دعإ کراٸی جاتی  تو فوراً بارش ہوجاتی اسی طرح سے یونس چچا مدھوراپور بھی نقل فرماتے ہیں اور ہم نے تو کٸی کشف وکرامات دیکھے ہیں


اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم وتربیت اورکردار پر بُرا اثر پڑتا ہے،جب کہ والد کی سختی،نگہداشت اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو ۔ اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ۔رشتہ داروں ، یتیموں،مسکینوں اورلوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ)اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔’’اورپروردگارکافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو؛ بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور( ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار! تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا تھا‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل) اللہ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں اپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے؛ حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار ،اُن کے سامنے ’اُف‘ تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو،(تم سب کو )میری ہی طرف لوٹنا ہے اور اگر وہ تُجھ پر دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تُجھے کچھ علم نہیں تو(اس مطالبۂ معصیت میں )ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو، (لیکن اس کے باوجود ) دُنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو۔ ‘‘(سورہ لقمان) اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں ۔ اُن کی رائے کو ترجیح دیں ۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں ، اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت اُن کے لیے خاص کردیں۔اُن کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے،’’اور(ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو ) اے ہمارے رب!ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل) حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے ، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت وبخشش کی دعامانگتے ہیں۔جس کاقرآن پاک نے اس طرح ذکرکیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (بخش دے)اور سب مسلمانوں کو(بخش دے)، جس دن حساب قائم ہوگا‘‘۔(سورہ ابراہیم) ماں باپ کے انتقال کے بعدبھی ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس کی کئی صورتوں میں سے ایک دعائے مغفرت کرنابھی شامل ہے۔ جس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں بلند فرما دیتا ہے تو وہ بندہ عرض کرتا ہے کہ’’ اے میرے رب! یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ ،’’تیری اولاد کی دعائے مغفرت کی بدولت (تُجھے یہ بلند درجہ دیا گیا ہے)۔‘‘(مسائل اربعین) ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرناان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کاسلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لیکن تین چیزوں کا نفع اس کو(مرنے کے بعدبھی) پہنچتا رہتا ہے۔۱۔ صدقہ جاریہ۲۔ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہوں۳۔نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتی ہو۔حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت (اورمحبت) سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ اعمال میں ) ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا ،اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، اللہ سب سے بڑا ہے اور(اس کی ذات ) بہت پاک ہے ،(یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا......

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ،’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (اپنے رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے۔ ‘‘(الحدیث) ایک اور اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد پر اپنے بیوی بچوں کی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور کفالت اور ان کی ضروریاتِ زندگی (کھاناپینا،لباس، علاج )کو پورا کرنا بھی اولادپر فرض ہے ،اس کے ساتھ اُن کی ضروریات کے مطابق مخصوص رقم ہرمہینے اُن کوپیش کی جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں۔.

غورطلب بات یہ ہے کہ والد ایک ذمہ دار انسان ہے جو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔والد کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرادے گا۔اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولاد پر لازم ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے..

یہی وجہ ہے کہ ربّْ العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے پس ماندگان میں تین لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں آخرمیں راقم الحروف کی گزارش ہیکہ جن لوگوں تک یہ تحریر پہونچے ہمارے والدین کیلٸے تین مرتبہ قل ہواللہ احد الخ پڑھ کر دونوں کو ایصال ثواب فرماٸیں اور مغفرت کی دعإ فرماٸیں   اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Thursday 17 September 2020

جامعہ کے ساتھ حکومت کا امتیازی سلوک، وزیر اعظم مودی کو کنور دانش علی کا خط دانش علی نے کہا کہ جامعہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا خواب تحریک آزادی کے دوران دیکھا گیا تھا، جسے تحریک آزادی کے مجاہدین نے ایک حقیقی شکل دی تھی۔


 جامعہ کے ساتھ حکومت کا امتیازی سلوک، وزیر اعظم مودی کو کنور دانش علی کا خط

دانش علی نے کہا کہ جامعہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا خواب تحریک آزادی کے دوران دیکھا گیا تھا، جسے تحریک آزادی کے مجاہدین نے ایک حقیقی شکل دی تھی۔

نئی دہلی: بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے جمعرات کے روز وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ حکومت کے امتیازی سلوک پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ کی تاسیس کے 100 سال پورے ہونے پر ملنے والی 100 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ جلد فراہم کرانے کی اپیل کی ہے۔

کنور دانش علی نے کہا کہ "ہمارے ملک میں 100 سال پورے کرنے والے ادارے کو 100 کروڑ کی خصوصی گرانٹ دینے کی روایت رہی ہے۔ اس رقم کا استعمال ادارے کے تعلیمی انفراسٹرکچر کو مزید مستحکم بنانے کے لئے کیا جاتا ہے، مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سو سال انتہائی کامیاب اور تاریخی سفر مکمل کرنے کے موقع پر کوئی صد سالہ مالی مدد نہیں ملی۔ یوم اساتذہ کے موقع پر جامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن نے آپ سے یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے اور تعلیمی و تحقیقی سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے ایک سو کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس سلسلے میں، آج تک آپ کی طرف سے کوئی پہل نہیں کی گئی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی صد سالہ جشن منا رہا ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جس کا خواب تحریک آزادی کے دوران دیکھا گیا تھا اور اسے تحریک آزادی کے مجاہدین نے ایک حقیقی شکل دی تھی۔ جامعہ کی ہمہ جہت حصولیابیوں کی انتھک کوششوں کا پھل ملا ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے وزارت ترقی انسانی وسائل کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ جامعہ نے بین الاقوامی درجہ بندی میں اپنی پوزیشن میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ یہ کارنامے طلبہ، اساتذہ، انتظامیہ اور عملہ کی سخت محنت سے ممکن ہوسکے ہیں۔

امروہہ سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ مکنور دانش علی نے لکھا ہے کہ اس طرح کی متاثر کن اور قابل ذکر حصولیابیوں کے باوجود یہ جان کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اس ادارے کی مدد نہیں کررہی ہے جو نہ صرف تعلیمی میدان میں امتیاز رکھتا ہے بلکہ ملک کی تعمیر میں بھی بہت بڑا حصہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک اہم درخواست طویل عرصے سے حکومت کے سامنے زیر التوا ہے۔ یونیورسٹی نے مرکزی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ میڈیکل کالج اور اسپتال قائم کرنے کی اجازت دے۔ میڈیکل کالج اور اسپتال کے قیام سے قومی صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ اعلی معیار کے ڈاکٹروں کی کھیپ تیار کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے جامعہ میں میڈیکل کالج اور اسپتال کے قیام کی تجویز پر بھرپور تائید کی۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ وزارت ترقی انسانی وسائل / یو جی سی سے معمول کا فنڈ موصول کرنے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے بقایہ بل کا انبار لگا ہوا ہے، جو کروڑوں کی رقم پر مشتمل ہے۔ اساتذہ بہت مشکل حالات سے گزر بسر کر رہے ہیں کیونکہ حکومت ان کے بنیادی مسائل کو مستقل نظرانداز کر رہی ہے۔ فنڈ کی قلت نے جامعہ ملیہ کو خصوصی مضامین کی خالی اسامیوں پر تقرری کرنے سے روک دیا ہے۔ مالی بحران کی وجہ سے یونیورسٹی موجودہ سیشن میں تقریباً 200 اساتذہ، مہمان / کنٹریکٹ فیکلٹیوں کی بھرتی نہیں کرسکی۔ جامعہ کی انتظامیہ درس و تدریسی کا بوجھ ریسرچ اسکالروں پر ڈالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چل سکے گا کیونکہ اس سے یونیورسٹی میں اسکالروں کے مطالعہ و تحقیق کے معیار پر منفی اثر پڑے گا۔

بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ طویل اور تاریخی رشتہ رہا ہے۔ جنوری 1925 میں جب جامعہ کو فنڈ کی کمی کی وجہ سے بند ہونے کا خطرہ درپیش ہوا تھا، تو مہاتما گاندھی جی نے حکیم اجمل خان سے کہا تھا کہ "اگر آپ کو پیسے کی دقت ہے تو میں بھیک مانگ لوں گا لیکن جامعہ بند نہیں ہونا چاہیے"۔ ہمارے بابائے قوم جامعہ ملیہ کو چلانے کے لئے بھیک مانگنے کو بھی تیار تھے لیکن بدقسمتی سے آج اس ادارے کو مالی طور پر دم توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے وزير اعظم مودی سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی تاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور اسے اس کا حق دیا جائے کیونکہ کسی قوم کا مستقبل اس کے نوجوانوں کو دی جانے والی تعلیم کے معیار پر منحصر ہوتا ہے جس کا دار ومدار ہمارے ذریعہ قائم اور چلائے جانے والے اداروں کے معیار پر ہے۔ کسی تعلیمی ادارے میں سرمایہ کاری کسی قوم کے مستقبل میں سرمایہ کاری کے مترادف ہوتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم یونیورسٹیوں، کالجوں اور تحقیقی مراکز کو بروقت فنڈ کی فراہمی یقینی بنا کر تعلیم یافتہ معاشرے کی تعمیر کے تئيں اپنی عہد بندی کا اظہار کریں گے۔

اپنے گھر کی فکر کیجئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی،نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ


 اپنے گھر کی فکر کیجئے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی،نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ


انسان علمی، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے ترتیبی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے، اقدار نہیں پڑھائے جاتے،ایسے میں ہماری ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں،سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے ”انا“ کا شکار ہوتا ہے اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری نماز کے ذریعہ ہی ختم ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ۔

 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ”برائے مہربانی“ اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے، اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے، مار پٹائی، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔

 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گاوہیں رکھے گا، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا، فضول گفتگو نہیں کرے گا، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی۔کیوں کہ مجلس کے شرکاء کی اہمیت کا خیال اس وقت ہر اعتبار سے ضروری ہے، ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ابھی ہمارے لیے وہ شخص سب سے اہم ہے جو ہم سے مخاطب ہے، انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے اور کھانے میں برکت ہوتی ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوہئ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطہئ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت

 سمجھیں، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے، آپ چھوٹوں پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی، باقی پھر کبھی۔(بشکریہ نقیب)

اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے تحریک شاہین باغ کو زندہ رکھنا ہوگا!! 📝 سرفراز احمد قاسمی(حیدرآباد) برائے رابطہ: 8099695186


 اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے تحریک شاہین باغ کو زندہ رکھنا ہوگا!!



📝 سرفراز احمد قاسمی(حیدرآباد)

  برائے رابطہ:  8099695186



  ملک بھر کی ریاستی  اسمبلی اور پارلیمنٹ کامانسون اجلاس شروع ہوچکاہے،کرونا کےکیس 50 لاکھ کے قریب پہونچ چکےہیں  اور لاک ڈاؤن کےسائے میں یہ اجلاس ہورہاہے،تیس ارکانِ پارلیمنٹ کی کورونا رپورٹ پازیٹو آئی ہے،یہ اجلاس اسلئے بھی اہم ہےکہ اس  باربہت کچھ بدلاہواہے،ایوان سےوقفہ سوالات کاسیشن اس سال ختم کردیاگیا ہے، کروڑ وں لوگ بیروزگار ہیں،بھوک سےلاکھوں لوگوں کی جان اب تک جاچکی ہے،ملکی کی جی ڈی پی آخری سطح پر پہونچ چکی ہے،سرحد پرچین اورنیپال بری نظرڈالے ہواہے،کشمیرمیں لوگوں کی زندگیاں دن بہ دن اجیرن ہورہی ہیں،لوگوں کےاوپر خوف ودہشت کاسایہ ہے،مہنگائی بڑھتی جارہی ہے،لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں،ہزاروں لوگوں کا کاروبار برباد ہوچکاہے،کسان خودکشی  کررہے ہیں ،ڈیزل اورپٹرول کی قیمت روزبڑھ رہی ہے،ملک کا سفرجاری ہے لیکن ایک ایسے راستے کی جانب جہاں سے نکلنا بہت آسان نہیں ہے،وہاں پہونچنے کے بعد واپسی کاکوئی راستہ نہیں،گھپ اندھیراہے،ایسے میں ملک کا کیا ہوگا؟ یہ ملک اپنا سنہرا مستقبل کیسے طےکرےگا؟یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی ہوگا؟ ملک کاایک باوقار شہری ہونےکی حیثیت سے یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور ہونا چاہئے،لیکن ان سوالوں کا جواب کون دےگا؟آخر ملک کواس راہ پر لےجانے کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ کون ہےجوملک کوٹکڑے ٹکڑے اوربرباد کرناچاہتاہے؟اگر ہم نے

 ان  سوالوں پرابھی غور نہیں کیا اورملک کوایسے ہی برباد کرنے چھوڑدیا تو پھر یاد رکھئے کہ اس ملک کی تباہی وبربادی کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوگی،اور پھر ہم ان ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے،دہلی میں فساد کے نام پر حیوانیت کا جوننگا ناچ ناچا گیا،اور دوسرا گجرات بنایا گیا یہ سب اچانک نہیں ہوا،بلکہ ایک منظم پلان کے تحت دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کی پوری کوشش کی گئی،یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہواہے،اب اسکی آڑ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھ ڈالا جارہاہے،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہی یہ فساد برپاکیاگیا،درجنوں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، مسلمانوں کے کاروبار اور گھربارکو لوٹاگیا،عزت وآبرو کو پامال کیاگیا اوراب مجرم بھی مسلمان ہی بنائے جارہےہیں،اسی جرم میں ابھی ایک روز قبل ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کے صاحب زادے،عمرخالد جو جے این یو کے اسٹوڈینٹ ہیں انکو گرفتار کیاگیا اورعدالت نےدس دن کی پولس ریمانڈ پر  انھیں بھیج دیاہے،عمر خالد کی پہ پہلی گرفتاری نہیں ہے،بلکہ جب سے ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہواہے تب سے ہزاروں نوجوانوں کواب تک جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے جیل رسید کردیاگیاہے،شرجیل امام، خالد سیفی، اور دیگر بہت سے نوجوانوں کوجھوٹا الزام لگاکر جیلوں میں ٹھونس دیاگیاہے،خالد سیفی کی بیوی اور عمر خالد کی والدہ آج دہلی پریس کلب میں انصاف کی گہار لگارہی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ آخر چن چن کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں انہیں پس دیوار زنداں کیوں کیاجارہاہے؟کیاہے انکا جرم ؟

انکا جرم صرف یہ ہے کہ انھوں نے بھارت کی ظالم وجابر حکومت کوللکارا،انکی ناانصافی کے خلاف آواز بلندکی،ملک کے کروڑوں مسلمان جو مایوسی کے دور سے گزر رہےتھے انکےاندر امید کی کرن پیداکی، ہمت وحوصلہ عطاکیا،انھوں نے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ اگربھارت جمہوری ملک ہے تو ہمیں یہاں اپنے بنیادی حقوق ملنا چاہئے،اور جہاں حق ملتا نہیں وہاں حقوق مانگے نہیں جاتے بلکہ چھین کر لیاجاتاہے اور اسکے لئے جمہوری طریقہ اپنایاجاتاہے،ملک کی ممتاز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والا یہ  احتجاجی مظاہرہ  ایک تحریک کی  شکل میں تبدیل ہوگیا،جو دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا،اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک  پورے ملک میں پھیل گئی،جسکو "تحریک شاہین باغ" کہا

 جاتاہے، تقریبا چار ماہ چلنے والی اس طویل تحریک نے حکومت کےایوانوں میں لرزہ پیدا کردیاتھا،یہ تحریک جسے شاید دنیا کی سب سے بڑی تحریک ہونے کااعزاز حاصل ہے اگریہ کامیاب ہوجاتی تو ملک میں انقلاب ضرور آتا، لیکن ایک سازش کے تحت، منظم پلان کے ذریعے کرونا کی آڑ میں زبردستی اس تحریک کو اپریل کے مہینے میں ختم کروادیاگیا،اس تحریک نے لوگوں کے اندر عجیب قوت پیدا کردی،100 دنوں سے زائد چلنے والی یہ پرامن اور بےمثال تحریک سے گھبراکر اس سنگھی حکومت  نے دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کا خفیہ پلان کرلیا،اور پھر پوری دنیا نے یہ  تماشا  دیکھا کہ حکومت اپنے مکروہ عزائم کس طرح پورے کرتی ہے،تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت سی تحریکیں اٹھیں کبھی بعض وجوہات کی بناء پر کچھ ناکام بھی ہوئی  اور کبھی کامیابی نے اسکی قدم بوسی کی،ایسی بہت سی تحریکیں تاریخ کی  کتابوں میں آپ کومل جائیں گی،زندہ قومیں اپنی جدوجہد ہمیشہ جاری رکھتی ہیں جب تک وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو جائیں،ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت میں بیٹھے کچھ فرقہ پرست لوگ اورملک کی سنگھی حکومت مسلمانوں کےلئے ملک کی زمین تنگ کررہی ہے، ایسے میں اب ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ملک کے تحفظ اور اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے تحریک شاہین باغ کو زندہ رکھیں،اور جمہوری طریقے سے ہم اپنا حق حاصل کریں، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے حقوق پلیٹ میں سجاکر ہمیں کوئی پیش نہیں کرسکتا،1974 کی بات ہے اسی ہندوستان میں ریاست بہار میں اسوقت جب کانگریس  کی حکومت تھی،عبدالغفور وزیراعلیٰ تھے،پٹنہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی،یہ تحریک اپنے مطالبات کےحل کےلئے شروع کی گئی تھی،اسکو مضبوط اور متحرک بنانے کےلئے طلبہ کی ایک یونین بنائی گئی،لالو یادو کو اسکی صدارت سونپی گئی،اس میں کچھ اور لوگوں کو بھی شامل کیاگیا جن میں،محمد شہاب الدین مرحوم،رام ولاس پاسوان اور بی جےپی کے سشیل کمارمودی وغیرہ شامل تھے،اس تنظیم کا نام "بہار چھاتر سنگھرش سمیتی"رکھاگیا،بعد میں اسی کو وسعت دیکر جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں اسے قومی تحریک کی شکل دیدی گئی،اور پھراسے" سمپورن کرانتی "کے نام سے موسوم کردیاگیا،اس تحریک کواتنا مضبوط کردیاگیا کہ اسکے ذریعے نہ صرف بہار حکومت کو اکھاڑ پھینکا گیا بلکہ اسکی آندھی نے اسوقت بھارت  کی سب سے مضبوط لیڈر اورخاتون آہن کہلانے والی اندرا گاندھی کی حکومت کو بھی زوال پزیر کردیا،اورپھر بلآخر اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا،اس تحریک سے ہمیں سبق لیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،عزم مستحکم،ثابت قدمی اور جہد مسلسل کے ذریعہ ہمیں اپنی لڑائی کوجاری رکھنا ہوگا،تحریک شاہین باغ نے گھٹا ٹوپ اندھیرےمیں میں امید کی ایک نئی کرن پیداکی ہے،نیا  ولولہ اور جوش عطاکیاہے،شاہین باغ تحریک نے ہمیں بہت کچھ سکھایاہے،آئیے پھرسے اسے تازہ کریں،اس عزم کے ساتھ کہ جب تک ہمیں ہمارے حقوق  نہیں دئیے جاتے،ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیاجاتا،ہمارے عدل وانصاف نہیں کیاجاتا ہماری تحریک جاری رہنی چاہئے،سی اے اے اوراین آرسی لاکر تم ہمیں ہرگز خوف زدہ اور دونمبر کا شہری نہیں بناسکتے،قیادتیں ہمیشہ جدوجہداورقربانیوں کےذریعے ہی  پیدا ہوتی ہیں،جوقیادت جدوجہد اورقربانی،جانفشانی اورجہد مسلسل کی  وجہ سے وجود  میں آتی ہیں،یہی کارگر ہوتی ہیں اور قوم کی  نیا پار لگانے کی  صلاحیت رکھتی ہیں،آج مسلم لیڈران کے ساتھ بھی متعصبانہ رویہ اختیار کیاجارہا ہے،چاہے وہ ڈاکٹر کفیل خان ہوں،اعظم خان ہوں،مختارانصاری اور عتیق احمد ہوں یاپھر پورے ملک سے گرفتار کئے جارہے ہزاروں مسلم نوجوانوں کا مسئلہ ہو،جنکو جھوٹے اور غلط الزام کے تحت جیلوں میں بھرا جارہاہے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے چن چن کر مسلم نوجوانوں کوگرفتار کیاجارہاہے اور انکے خلاف یواے پی اے تحت شکنجہ کسا جارہاہے، یوپی کی سنگھی اور فرقہ پرست یوگی حکومت ان دنوں چن چن کر انتقامی کارروائی انجام دے رہی ہے،جسکی لپیٹ میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے تحریک شاہین باغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اورلکھنؤ وغیرہ میں سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں اہم کردار اداکیاتھا،یوپی حکومت نے اسپیشل فورس بھی تشکیل دی ہے،جوبغیر کسی نوٹس کے جب چاہے اور جسکوچاہے گھرمیں گھس کرگرفتارکرسکتی ہے اور کارروائی کرسکتی ہے،سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد جو یوپی کے الہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں،انکی پچیس کروڑ روپئے کی پراپرٹی یوپی پولس نے ضبط کرلیاہے،

ایسے ہی یوپی کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کے خلاف لگاتار کارروائی کرتے ہوئے انکی املاک کو ضبط کرنے اورعمارت کومسمار کرنے کاسلسلہ جاری ہے،لکھنؤ میں مختار انصاری کی دو منزلہ عمارت جو تقریباً 8000 ہزار اسکوائر فٹ پرمشتمل تھی اسکو منہدم کردیاگیا،انتظامیہ کاالزام ہے کہ اس عمارت کوغیر قانونی طور پرتعمیر کیاگیاتھا،میڈیا رپورٹ کے مطابق کے مطابق پولس انتظامیہ سمیت دوسو سے زیادہ پولس اہلکاروں نے 20سے زیادہ جے سی بی مشینوں کی مددسے انہدامی کارروائی انجام دی،یوگی حکومت کے مطابق عمارت کے تعمیر ہونے سے لیکر زمیں دوز کرنے تک کانہ صرف یہ کہ کرایہ وصول کیاجائےگا بلکہ اسکو منہدم کرنے میں جوخرچ آیاہے اسکی بھی وصولی کی جائےگی،اتناہی نہیں انکی انکی بیوی اورسالےوغیرہ پرگنگیسٹرایکٹ کامقدمہ بھی درج کیاگیاہے،کیا یہ فرقہ پرستی نہیں ہے؟ کیا یہ تغلقی فرمان نہیں ہے؟ کیایہ مسلم دشمنی نہیں ہے؟ کیااب بھی ہم خاموش  تماشائی بنے رہیں گے؟ رکن پارلیمنٹ اعظم خان فیملی سمیت جیل میں ہیں انکی تعمیر کردہ ملک کی ایک ممتاز دانش گاہ"جوہر یونیورسٹی کو تہس نہس کردیاگیا،دہلی میں ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کیاگیا،اورانہیں ابھی تک پریشان کیاجارہاہے،

کیاآپ نہیں سوچتے کہ آخر یہ ملک کس رخ پر جارہاہے؟مسلمانوں کی شناخت کومٹایاجارہاہے،ایسے وقت میں اب ہمارے لئے کونسا دوسراراستہ باقی بچتاہے؟عدلیہ سمیت میڈیا،مقنہ اور ملک کےدیگر اہم ادارے سب مسلم دشمن ہوچکے ہیں،کل عدالت عظمی نے سدرشن نیوز چینل ایک پروگرام لگادی جومسلم مخالف تھا، یہ ایک اچھا فیصلہ سنایاگیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس چینل کوجوکام کرنا تھاوہ کرچکا،اب اس فیصلہ سےکیاحاصل ہوگا؟اس نے ابتک جو ملک میں نفرت کی فضا ہموار کی اسکا کیاہوگا؟ایسے  حساس مسائل پر عدالت عظمی پہلے کیوں غور نہیں کرتی،گذشتہ کئی ماہ سے ملک کامیڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہاہے،کیوں اس پراب تک خاموشی اختیارکی گئی؟سدرشن نیوز چینل کا جومقصد تھاوہ تو پوراہوچکا کیونکہ وہ اس مسلم مخالف پروگرام کاکافی حصہ دکھا چکاہے،کچھ ایپی سوڈ باقی ہیں،کتاب میں کیاچیز ہے اسکو جاننے کےلئے پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی،اخبار میں کیاہے اسکےلئے صرف اخبار کااداریہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے اوراس کتاب کا مقدمہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے،ایسے ہی یہ چینل کیاچاہ رہاتھا اسے نے جوابتک اپنا پروگرام نشر کیا اس میں اسکا مقصد پورا ہوگیا،اب روک لگانے کا کیافائدہ ہوگا؟ اصل سوال یہ ہے،

بہر حال ملک کے مسلمانوں کےلئے یہ وقت انتہائی نازک ہے،اورہمیں مصلحت کوشی کی چادر اتارکر اپنی بقاء وتحفظ کےلئے اور حقوق کی بازیابی کےلئے جدوجہد کرنا ہوگا،اگر ہم نے پھر بھی بےحسی اور خاموشی کامظاہرہ کیاتو انجام بہت براہوگا،خدانہ کرے ایساہو،اسلئے ایک زندہ اور باضمیر قوم ہونے کاثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کےلئےتحریک شاہین کوزندہ اور ملک میں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کریں،ورنہ توہمیں ایسے ہی کبھی ٹاڈا،پوٹا اور کبھی یواے پی اےاورسی اےاے و این آرسی جیسے کالے قوانین کے ذریعہ ہم پرظلم وستم کاپہاڑ توڑا جاتارہےگا۔اور ہم مردہ لاش کی طرح خاموش تماشائی بنےرہیں گے پھر ہماری آواز اورفریاد سننے والا کوئی نہ ہوگا۔شاید ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے قوم کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ 

ساتھ چلنا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح 

مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی


(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

sarfararazahmedqasmi@gmail.com

آستانہ مخدوم کے سرپرست اعلیٰ مولانا فخرالدین اشرف نے عرس خاص کے موقع پر کی خصوصی دعائیں ٹانڈہ/امبیڈکرنگر:17/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! معراج احمد انصاری


 آستانہ مخدوم کے سرپرست اعلیٰ مولانا فخرالدین اشرف نے عرس خاص کے موقع پر کی خصوصی دعائیں


ٹانڈہ/امبیڈکرنگر:17/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز 

رپورٹ! معراج احمد انصاری 

درگاہ کچھوچھہ میں تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانیؒ کے 634 واں سالانہ عرس  کے خاص روز کووڈ 19 وباء کے پیش نظر جاری سرکاری ہدایات پرعمل کرتے ہوئے انتہائی سادگی کے ساتھ آج 28 محرم الحرام مطابق 17ستمبر بروز جمعرات کو قدیمی روایات کے مطابق صاحبِ سجادہ آستانہ عالیہ کے سرپرست اعلیٰ و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر حضرت مولانا سید شاہ فخرالدین اشرف اپنی رہائش گاہ بسکھاری سے درگاہ واقع خانقاہِ معلیٰ لحد خانہ پہنچے۔ جہاں پرفقراء و خادمِ آستانہ نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے یہاں پرمخدوم اشرف جہانگیرسمنانیؒ کے قدیمی خرقہ زیبِ تن فرمایا اور آستانہ مخدوم پر پہنچ کر کورونا وائرس کے سبب احتیاطی تدابیر کے ساتھ رسم گاگر ادا کیا۔ اس دوران صاحبِ سجادہ نے ملک میں امن و خوشحالی، تمام عقیدت مندوں کی حاجت، بیماریوں اور وباؤں سے حفاظت اور ان کے خاتمے کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی۔ واضع ہو کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیرسمنانیؒ نے 28 محرم الحرام 828ھ کو داعئ اجل کو لبیک کہا، اسی یاد میں یہ عرس منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر سید فیضان اشرف عرف چاند میاں، سیدمعراج اشرف، سیدآل مصطفیٰ چھوٹے بابو، سیدخلیق اشرف، سیدمعراج الدین، سیدسراج اشرف، سماجوادی پارٹی کے نوجوان لیڈر مصاب عظیم، سیدقسیم اشرف، مجیب احمد سونو، سیدعلی اشرف، پولیس و انتظامیہ کے افسران موجود رہے۔

بلڈ ڈونیٹ گروپ(الفلاح فرنٹ) اپنا یوم تاسیس "یومِ روٹی "کے طور پر منائے گا۔ یوم تاسیس کے موقع پر کارکنان غرباء کو کھانا اور مفت راشن تقسیم کریں:ذاکر حسین نئ دہلی،17 ستمبر 2020 آئی این اے نیوز


 بلڈ ڈونیٹ گروپ(الفلاح فرنٹ) اپنا یوم تاسیس "یومِ روٹی "کے طور پر منائے گا۔



یوم تاسیس کے موقع پر کارکنان غرباء کو کھانا اور مفت راشن تقسیم کریں:ذاکر حسین


نئ دہلی،17 ستمبر 2020 آئی این اے نیوز 

الفلاح فرنٹ کے ذریعہ چلنے والے ڈونیٹ گروپ کے 28 ستمبر کوایک سال مکمل ہوجائیں گے۔اس موقع پر بلڈ ڈونیٹ گروپ اپنا یوم تاسیس 'یوم روٹی 'کے طور پر منائے گا۔بلڈ ڈونیٹ گروپ کے بانی اور نیشنل کنوینر ذاکر حسین نے آج میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ الفلاح فرنٹ نے ہمیشہ مظلوموں،بے سہارا اور غریبوں کی بے لوث،بلا تفریق اور بغیر کسی مفاد کے مدد کی ہے۔الفلاح فرنٹ کے ذریعہ بنائے گئے بلڈ ڈونیٹ گروپ کا مقصد مریضوں کو بالکل مفت میں خون مہیا کروانا ہے۔گروپ اپنے قیام کے وقت سے اب تک نوے (90) سے زائد مریضوں کو مفت میں بلڈ دے چکا ہے۔ذاکر حسین نے مزید کہا کہ بلڈ ڈونیٹ گروپ کا یوم تاسیس ہم یوم روٹی کے طور پر منائیں گے۔28 ستمبر کو کارکنان اعظم گڑھ،جونپور،مئو،لکھنئو،مرادآباد اور دہلی میں غرباء کے درمیان کھانا یا راشن تقسیم کرکے اپنا یوم تاسیس بطور" یوم روٹی" منائیں گے۔اس موقع پر بلڈ ڈونیٹ گروپ کے ضیاء خالد،یاسر پٹھان،اکھیلیش موریہ،محمد فصیح،محمد ندیم ،محمد ناصر،مرزا تابش،عادل ریحان،محمد سلطان،اشرف آعظمی،ابو ہاشم، محمدقیس،سرفرازالدین،ڈاکٹر ذیشان،وامق شیرازی،زعیم شیرازی،محمد معاذ،محمد عرفان،احتشام آعظمی،جنشید آعظمی،نورالقمر،خلیق الرحمٰن،فراز خان ایس ایس پی،پریم سونکر،سجیت شان،محمد سلیم،محمد عمر،عامر آعظمی،ندیم ایس پی،محمد عبداللہ،شہریار عتیق،محمد سلمان،ثنائو اللہ،علی،شہنواز قریشی،ابو شحمہ قریشی،آعظم قریشی،عبد الرحمٰن،ڈاکٹر علی،خلیق الرحمن،صابر علی،عبد القادر،عازم خان،محمد شراقہ،محمد احسن،محمد عبد اللہ،محمد اشہد،ہاشر جمال،جمال اختر،فرید خان،تہذیب عباس نقوی,مرزا اسمر و دیگر نے بلڈ ڈونیٹ گروپ کا یوم تاسیس 'یوم روٹی 'کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔کارکنان نے کہا کہ بلڈ ڈونیٹ گروپ کے ایک سال مکمل ہونے پر ہم غرباء کو کھانا کھلا کر اورراشن دے کر اپنا یوم تاسیس منائیں گے۔ذاکر حسین نے بتایا کہ 28 ستمبر کو کارکنان میٹنگ کراور لوگوں سے ملاقات کر انہیں خون عطیہ کرنے اور لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دیں گے۔ذاکر حسین نے کہا کہ سماج میں بلا تفریق سب کی مدد کی جائے، یہی ہمارا مقصد ہے۔واضح رہے کہ بلڈ ڈونٹ گروپ (الفلاح فرنٹ) کا قیام 28 ستمبر 2019 کو الفلاح فرنٹ کے صدر ذاکر حسین کے ذریعہ ہوا۔