اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 23 September 2020

حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور


 حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری

خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ


          محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔

                       اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 

                       سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے 

        اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان  کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر  کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص  کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور کہیں نہ کہیں اپنے غموں سے بھاری دل کو کچھ آرام دلانے کے لیے بھی چلے آتے ہیں، وہ ایک بیٹی کی قبر ہے، قبر کے پاس کھڑے ہوئے شخص کی لخت جگر کا مدفن ہے، جو زندہ رہی تو اس کے خوشیوں کے لیے تکلیفیں اور کلفتیں برداشت کرتا رہا اور جب رخصت ہوئی تو اس کے لئے بلندی درجات کی دعائیں کر رہا ہے، یہ محبت اور چاہت ہی تو ہے، اس قبر میں مدفون عورت  کی  بھی خوشحال زندگی تھی، تین یا چار سال پہلے شادی ہوئے تھے، اب وہ اپنے قدموں کے نیچے جنت لانے والی تھی کہ قضا کا وقت آ پہنچا، اور اپنی امید کو اپنے اندر لئے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہو گئی، اس شخص کو دیکھ کر مجھے اپنی حالت کا خیال آیا، کہ فرق صرف رشتہ کا ہے، میں بھی حاضر ہوتا ہوں، ایسا لگتا ہے پکارنے والا پکار رہا ہے، چلے آؤ،

                    بڑا سکون میرے گوشہ مزار میں ہے

        یقینا وہ پرسکون جگہ ہی ہے، پہنچتا ہوں، چلا جاتا ہوں،  یسین پڑھتا ہوں دعائیں کرتا ہوں، مضطرب دل لے جاتا ہوں واپسی پر سکون سا محسوس کرتا ہوں، لیکن فرق ہے اس کے غم میں اس کی تکلیف میں، میرے پاس میری بچی ہے، جو مرحومہ کی نشانی اور ان کی یاد ہے، اس کی شکل و صورت میں ان کا چہرہ، اس کی مسکراہٹ میں ان کی ہنسی ہے، لیکن اس مرحومہ کے شوہر اور باپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں، اس قبر کے پاس سے روزانہ کئی دفعہ گزرنا ہوتا ہے، جب بھی نظر پڑتی ہے، تو مجھے ولید ابن یزید کی وہ  بات یاد آ جاتی ہے، جو اس نے عروہ ابن زبیر کے لئےکہی تھی، جب ان کا پاؤں زخم کی وجہ سے کاٹ دیا گیا تھا اور اس کے چند ہی ساعت کے بعد چھت سے گر کر بیٹے کی موت کی خبر ملی تھی اور اسی وقت ولید کے دربار میں قبیلہ عبس کا وہ بوڑھا سوداگر بھی پہنچا تھا، جس کا مال، جس کا بیٹا جس کی بینائی اور جس کا سب کچھ تھوڑی ہی دیر میں اس سے چھین لیا گیا تھا، جس کے حالات سن کر ولید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے، کہلا بھیجا تھا، جاؤ ا، عروہ ابن زبیر سے کہہ دو تمہیں صبر و شکر مبارک، اس لئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تم سے زیادہ غموں اور مصیبتوں کے مارے ہوئے ہیں۔

        ولید کے یہ الفاظ یاد آتے ہی خدا کا شکر ادا کرنے لگتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ٹیلیگرام چینل۔

https://t.me/sensitivestudy

واٹس ایپ گروپ۔

https://chat.whatsapp.com/GxbTLUt3AXb2B6QLrk2ba7

سینسیٹیو اسٹڈی فیس بک پیج۔

http://facebook.com/Sensitivestudy-102187811602183/

رابطہ لنک۔

https://wa.link/fm2uas