اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: August 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 31 August 2020

سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا انتقال، بیٹے نے ٹوئٹ کر دی جانکاری


 

سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا انتقال، بیٹے نے ٹوئٹ کر دی جانکاری


21 دنوں تک آرمی ریسرچ اینڈ ریفرل اسپتال میں بہترین ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج کے باوجود سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا آج انتقال ہو گیا۔ اس کی خبر ان کے بیٹے ابھجیت مکھرجی نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے دی ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ "انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ میرے والد پرنب مکھرجی آر آر اسپتال کے ڈاکٹروں کی بھرپور کوشش اور پورے ہندوستان کے لوگوں کی دعاؤں کے باوجود اس دنیا میں نہیں رہے۔ آپ سب کی دعاؤں کے لیے شکریہ۔"

With a Heavy Heart , this is to inform you that my father Shri #PranabMukherjee has just passed away inspite of the best efforts of Doctors of RR Hospital & prayers ,duas & prarthanas from people throughout India ! I thank all of You
🙏

بزم یاراں کا ایک ہنگامی سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو [مہتاب حیدر نقوی]


 بزم یاراں کا ایک ہنگامی سفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


                            اسعداللہ بن سہیل احمداعظمی 


      نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو

        سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کرو سفر کرو 

                                   [مہتاب حیدر نقوی]


لاکڈاٶن کی وجہ سے آج کل ہمارے دیار اعظم گڑھ میں ہفتے کے پانچ روز تو بازار میں خوب چہل پہل، چمک دمک رہتی ہے،زندگی  اپنے کھوٸے ہوٸے شباب کو پانے کی طرف دوڑتی نظر آتی ہے، لیکن دو روز (شنبہ یکشنبہ) کو بالکلیہ یہ سلسلہ بند رہتاہے، صرف علاج ومعالجہ یعنی ہسپتال سے متعلق افراد ان دنوں سڑکوں کی زینت بنے رہتےہیں، اور کچھ محدود وقت تک سبزی وپھل فروش بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ رمق نظر نہیں آتی جو اوردن رہتی ہے۔ 


22/اگست بروز سنیچر کوصبح ہی سے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر کے تعلیم یافتگان کا واٹس ایپ  گروپ(ابناٸے قدیم مدرسہ بیت العلوم) میں پیغامات کا ایک خلاف توقع سلسلہ شروع ہوا، چونکہ تمام ہی حضرات فارغ ہونے کے ساتھ اپنے گھروں میں محصور تھے، مفتی عبیدالرحمن شیروانی، مفتی کلیم شیروانی، مولوی مستقیم شیروانی،  نے ایک ہنگامی سفر کا اعلان کیا۔ وقت کی ترتیب بنتی بگڑتی رہی۔

 تقریباً ایک بجے مولوی مستقیم صاحب کی کال  اور مفتی عبیدالرحمن صاحب کا میسج موصول ہوا کہ اسطرح کا سفر ہونا طے پایاہے اپنا ارادہ ظاہر فرمائیں، میں نے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے رفیق سفر بننے کی حامی بھرلی۔ 


 مدرسہ بیت العلوم:

مشرقی یوپی کا قدیم دینی ادارہ ہے، آج سے ترانوے 93/ سال پہلے 4/ربیع الاول 1349هج بروز دوشنبہ کو  حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ نے اپنے پیرو مرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی میں قاٸم فرمایا، مدرسہ میں شعبہ پراٸمری سے لے کر تخصص فی الحدیث تک کی تعلیم کا نظم ہے۔  بانیء مدرسہ کے اخلاص وللہیت کی برکت سے اس کے فیض یافتگان ہند وبیرون ہند کے چپے چپے پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، محسن الامت مولانا شاہ مفتی عبداللہ صاحب پھولپویؒ کی بے لوث خدمات کی وجہ سے مدرسہ تعمیری وتعلیمی دونوں لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

فی الحال مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادے اور بانیء مدرسہ کے پرپوتے(مفتی احمداللہ صاحب پھولپوری مدظلہ) اس کے روح رواں ہیں۔


 الغرض 1بجکر 39منٹ پر یہ تینوں حضرات شیرواں کی گلیوں سے نکل کر قصبہ سرائمیر میں واقع ایک جدید مسجد میں ظہرکی نمازادا کرنے کے بعد متصلا  ڈاکٹر شمیم صاحب کے یہاں ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہیں سے اس قافلہ میں چارچاند لگانے کے لئے مفتی موسی محمودآباد بھی ساتھ ہوئے۔ موسی صاحب کو دیکھ کر یہ شعر ذہن میں آیا۔

             

            کس کی آمد ہے یہ کیسی چمن آراٸی ہے

            ہر طرف پھول مہکتے ہیں، بہار آٸی ہے


 مفتی موسیٰ صاحب:

خوش مزاج، خوش نہار، خوش نظر، مہمان نواز، اور لاجواب صلاحیت کے مالک ہیں، حفظ کی تکمیل مدرسہ دارالابرار جوماں پھولپور میں کی، فارسی تا عربی پنجم  کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہیں سے سندفضیلت حاصل کی، اس کے بعد دیوبند کے "اشرف للغة والدعوة" میں یک سالہ عربی ادب کورس کیا، پھر اسکے بعد مشہور دینی درسگاہ ریاض العلوم گورینی جونپور سے افتا کیا، فی الحال اپنی ہی قائم کردہ  کاسمیٹک کی دوکان(شمیم مارکیٹ کوٹلہ بازار) میں دن ورات تگ ودو کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں دن دونی رات چوگنی ترقیات سے مالا مال فرمائے۔۔۔۔۔۔آمین


دیگر حضرات کاتعارف میرےایک مضمون {احباب کے ہمراہ چندگھنٹے کا ایک خوشگوار سفر} میں گزرچکا ہے۔


خیر 2بجکر 11منٹ پر کھریواں موڑ سے ہمارا یہ پانچ نفری قافلہ تین موٹر سائکلوں کے ذریعہ برق رفتاری سے چھتے پور کی جانب محو سفر ہوا، راستے کےدونوں طرف قسمہاقسم کے درخت، ہرے بهرے پودے ، چھوٹی بڑی عمارتیں، دل کو موہ لے رہی تھیں، چندہی منٹ میں ہم مغلن سکرور پہونچے مگر یہاں پر پولیس کا ایک دستہ سڑک پر لاٹھی پیٹتے ہوٸے نظرآیا، دو تین منٹ رک کر غور وخوض اور باہم مشورہ کرنے کے بعد ایک دوسرے راستے کا انتخاب کیا گیا، کچھ ہی پل میں ہم  مین راستے پر آپہونچے، راستہ چلتے ہی  مدرسہ اسلامیہ علوم القرآن کا دیدار بھی ہوا، اور دل نے کہا کہ اس پرشکوہ عمارت سےکبهی قرآن و حدیث کی آوازیں  گونجا کرتی تھیں، لیکن آج بالکل سنسان ہے ،صبح کی دلکشی شام کی رعنائی کھوگئی ہے یہ سب 'کرونا' کی وجہ سے ہے اللہ کرے جلد ہی یہ وبا ختم ہو۔۔اور پھر یہ چمن آباد ہو۔۔


ابھی اسی سوچ میں ڈوبا تھا کہ چھتے پور کی بازار نظر کے سامنے تھی۔ پھر کچھ لمحےکے بعد گاٶں میں داخل ہوتے ہی پہلی ملاقات (حافظ محمد ندیم صاحب استاذ شعبہ حفظ مدرسہ بیت العلوم) سے ہوئی علیک سلیک کے بعد آنے وجہ دریافت کی جس کا جواب رفیق سفر مولوی مستقیم صاحب نےاپنے انداز میں دیا، اور مولانا آس محمد صاحب کے دولت کدہ کی جانب گاڑی کا رخ کیا، مولانا ہمارے منتظر تھے، پہونچتے ہی انتہائی گرم جوشی سے سلام ومصافحہ کیا، اور مہمان گاہ میں بیٹھایا، بات نکلتی رہی ہنسی مذاق کا دورچلتا رہا ایک دوسرے کی  باتوں سے محظوظ ہوتے رہے،  لطافتوں سے بھرپور مجلس جمی ہوئی تهی کہ اتنے میں مولانا کے والد محترم تشریف لاٸے جوکہ (جامعہ اسلامیہ علوم القرآن کریاواں میں ایک عرصہ سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں)  تمام ہی حضرات سے مصافحہ کیا اور بڑی خوشی کا اظہار کیا، اسکے کچھ دیر بعد مولانا آس محمد صاحب کے برادر صغیر مفتی ابوذر قاسمی صاحب حاضر ہوئے اور سلام و مصافحہ سے فارغ ہوئے چند وقفے بعد دسترخوان سجایا گیا جسمیں طرح طرح کی چیزیں تھیں، اخیر میں شاندار وخشکی کو دور کرنیوالی چاٸے نے تو کمال ہی کردیا۔ 


چھتے پور کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ہماری اگلی منزل چھاٶں تھی اوریہاں گروپ ممبر مفتی آصف صاحب ہمارے منتظر تھے۔ مولانا مستقیم صاحب کے اصرار  پر مولانا آس محمد صاحب بھی رفیق سفر ہوگئے اب ہمارا یہ چھ نفری قافلہ ننداٶں کے راستے ہوکر چھاٶں کی جانب چلنے لگا، راستے میں پارہ، اساڑھا، نیگواں، کمراواں جیسے جیسے کٸی چھوٹے گاٶں پڑے، موسم بہت جان لیوا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہواٶں کےمست جھونکے دل کو گد گدارہے تھے، اور راستے کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تالاب ہرے بھرے کھیت آنکھوں کو سرور پہونچارہے تھے، یہی کچھ نصف گھنٹے میں ہم لوگ چھاٶں میں سرحد میں داخل ہوئے مفتی آصف صاحب رہبری کے لیے راستے میں مستعد تهے

 انہیں کے پیچهے پیچهے چل پڑے ، ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزر کر ان کے دولت کدہ پر پہونچے،  وہ گلیاں نہیں تهیں بلکہ گویا لکھنؤ کی بھول بھلیا تهیں ۔


 مفتی آصف صاحب 

 نیک طبیعت، منکسرالمزاج، اور اعلیٰ قسم کی صلاحیت کے حامل ہیں عربی چہارم تک تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں ہوٸی، اس کے بعد دورہ حدیث تک کی تعلیم دارالعلوم وقف دیوبند میں حاصل کی، پھر ایک سال مکمل دارالعلوم کے شعبہ افتا میں سماعت کی،  حاضری کی مکمل پابندی کی اور انتهک کوشش کرکے داخل شدہ طلبہ سے زیادہ تمرینات لکھیں،  دیوبند سے واپسی کے بعد  مدرسہ انوار العلوم و مدرسہ بیت العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں، فی الحال آن لائن خرید وفروخت کررہے ہیں۔


خیر پہونچتے ہی مفتی صاحب نے ہال میں بیٹھایا، راستے کے متعلق گفت وشنید کی، تهوڑی ہی دیر میں  دسترخوان لگا، فرائی کئے ہوئے گرما گرم انڈے، انار کے دانے اور اشرف المشروبات چائے  ودیگر لوازمات نظروں کے سامنے تھے، ہر ایک نے اپنی پسند کے اعتبار سے سیری حاصل کی، عصر کا وقت ہوچکا تھا، فورا مسجد حاضر ہوئے اور (حافظ علاٶالدین صاحب سابق استاذ مدرسہ بیت العلوم) کی امامت میں ادا کی گٸی۔

نماز کے بعد اجازت چاہ کر اگلی منزل کے لیے نکل پڑے، مولوی مستقیم صاحب کی خواہش تھی کہ اب آئیں ہیں تو مدرسہ بیت العلوم کے سابق ہونہار طالب علم مولانا ارقم ظلی صاحب کے یہاں بھی ہولیا جائے، متعدد مرتبہ فون کیا گیا لیکن رابطہ نہ  ہوسکا اسلئے ہم انتظار نہ کرکے اگلی منزل(آنوک) کی طرف   برق رفتاری سے روانہ ہوئے،  کارواں چهاوں  سے ایک غیر معروف راستے سے تهوڑی ہی دیر میں گمبھیرپور کی شاہراہ پر پہنچ گیا  وہاں سے  محمد پور پور ہوتے ہوئے ہم لہبریاں پہنچ چکے تهے اور گروپ ممبر مولانا سیف اللہ صاحب آنوک میں ہمارے   منتظرتھے۔


راستہ بالکل ہمواراور خالی تها  جسکے چلتے کچھ ہی دیر میں ہم لوگ لہبریاں پہونچ گٸے، اور یہاں پر چند منٹ سڑک کے حاشیہ پر کھڑے ہوکر سوچا گیا کہ آنوک چلاجائے یا ذائقہ دربار پر رک کر مولانا سیف للہ و مولانا ایوب صاحبان کو یہیں بلا لیا جائے ، چونکہ مولانا سیف اللہ صاحب کی طرف سے یہ قافلہ ذائقہ دربار میں رات کے کھانے پر مدعو تھا، لیکن ابھی مغرب کا وقت ہونے میں ایک گھنٹہ کا وقفہ تھا، اسلئے فیصلہ ہوا کہ آنوک ہی چلاجائے، لہبریاں سے آنوک کی دوری تقریبا سات کلومیٹر ہے، مگر راستہ بڑا ہی خراب ہے، درمیانی رفتار سے ہم لوگ پندرہ منٹ میں آنوک پہونچے، مولانا ایوب صاحب بھی یہیں موجود تھے،  دونوں ہی حضرات نے خندہ پیشانی کے ساتھ سلام ومصافحہ کیا، اور مہمان خانے میں بٹهلایا کشادہ ہال جسمیں کتابیں بڑے  سلیقے سے رکهی ہوئی تهیں اوپر چهت کی جانب انتہائی خوبصورت، دیدہ زیب و جاذب نظر جهومر معلق تها جسکی چمچماہٹ  پورے ہال میں پڑ رہی تهیں.

          دیکھے  بہت  ہم نے  بھی ، پُر کیف مناظر

       لیکن تیرے کوچے کی فضا اور ہی کچھ ہے


 مولانا سیف اللہ صاحب

خوش مزاج اور مرنجا مرنج طبیعت کے حامل ہیں، نہایت  ذکی اور ذہین، بہت باذوق، سخن فہم اور ادب درویش ہیں، مکتب کی تعلیم آنوک میں مکمل کرنے کے بعد حفظ اور فارسی تا عربی پنجم کی تعلیم  مدرسہ بیت العلوم میں حاصل کی اسکے بعد شہرہ آفاق دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، امسال دورہ حدیث شریف میں ہیں، لیکن لاکڈاٶن کے چلتے چونکہ تمام تعلیم گاہیں و ادارے کالج و یونیورسٹیاں سب بند ہیں اسلئے موصوف بهی فی الحال گھرپر قیام پذیر ہیں

گروپ میں چٹ پٹے سوالات بہترین اشعار کے انتخاب سے سب کو محظوظ کئے رہتے ہیں۔ خودساختہ شعر بھی کہنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ آنوک مولانا کا نانیہال ہے بچپن ہی سے  اکثر نانیہال میں رہتے آئے ہیں آپکا مسکن بندی ضلع مئو ہے  ۔ 


 مولانا ایوب صاحب

یہ آنوک کے ہی  باشندے ہیں مفتی کلیم و عبیدالرحمن صاحبان کے درسی ساتهی ہیں عربی پنجم تک کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں ہوٸی، بعدازاں دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، اس کے بعد دو سالہ کورس"نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارفیتھ لیڈر شپ" غازی آباد میں کیا، فی الحال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں زیر تعلیم ہیں۔ 


ہم لوگ  ابهی چوکی پر دراز ہی ہوئے تھے کہ  اشرف المشروبات ودیگر چیزوں سے آراستہ دسترخوان سے  ضیافت کی گئی ، کافی دیر تک ایک دوسرے سے تبادلہء خیال ہوا مجلس جمی رہی کچھ ہی دیر بعد  مغرب کی اذان کی صدائیں بازگشت ہوئیں ہم لوگ جامع مسجد پہنچے اور (مولانا فرحان صاحب قاسمی) کی امامت میں نماز ادا کی ۔ بعد نماز مولانا فرحان صاحب تمام حضرات کو اپنے دولت کدہ پر لے گٸے، اور تقریبا پون گھنٹہ چائے نوشی و دیگر لوازمات میں گزرا وہاں سے فراغت کے بعد ذائقہ دربار کی طرف متوسط رفتار سے ہم لوگ چلنے لگے۔


 مولانا فرحان صاحب 

یہ رفیق سفر مولانا مستقیم صاحب کے درسی رفیق ہیں، آنوک ہی کے رہنے والے ہیں، عربی پنجم تک بیت العلوم میں پڑھے، بعدازاں دارالعلوم کی جانب رخ کیا اور وہیں سے سند فضیلت حاصل کی گاؤں ہی میں مقیم ہیں کراٹے وغیرہ میں کافی مہارت حاصل ہے۔


 اب ہم ذائقہ دربار پہنچ چکے تھے جو ایک وسیع دائرے میں انتہائی خوبصورت شکل میں بنا ہوا ہے ننهے پودوں و پهولوں سے آراستہ کیا ہواہے دودهیا روشنی میں کسی باہر ملک کا ہوٹل    معلوم ہوتا ہے اندر  پہونچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں تو کھچا کھچ بھیڑ ہے، کوئی ٹیبل، کرسی خالی نظر نہیں آئی، چونکہ سنیچر اتوار دوکاندار ودیگر حضرات خالی ہونے کی وجہ سے کھانے کی پارٹی کرتے ہیں، اور پردھان پارٹی بھی نظرآٸی سامنے 2021 میں الیکشن جو ہے; ڈھابے کے مالک  ذیشان بھائی نے جب مولوی پارٹی کو دیکھا تو ایک جگہ کرسی کا بندوبست کیا اور ہم لوگ بیٹھ کر جگہ کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے، تقریباً نصف گھنٹہ سے زائد انتظار کرنے کے بعد جگہ مل گٸی، وہاں پر کهانے کے لیے کئی طرح کے انتظامات ہیں کرسی ٹیبل و ہال دو چهوٹے چهوٹے ہال بنے ہیں جنکو مجلس کا نام دیا گیا ہے جہاں  فرش پر بیٹھ کر کهانے کا خوبصورت نظم کیا گیا ہے  سب لوگ اطمینان سے بیٹھ گئے، باہم مشورہ سے چکن لپیٹا، چکن رجواڑی،ملائی ٹکہ و دال فرائی کا آرڈر کردیا گیا۔


 شعری نشست

طے ہوا کہ جب تک کھانا آتاہے کیوں نہ بیت بازی کا پروگرام  کرلیاجائے، موسم کی خنکی انتہائی دل افزا تھی ہوا کے تیز جهونکے چل رہے تهے  چار چار افراد کی دوٹیم بنی ایک کی کمان برادرعزیز مفتی موسی صاحب کے ہاتھ میں اور دوسری کی رفیقم مولانا سیف اللہ صاحب کے ہاتھ سوا گھنٹے سے زائد علامہ اقبال، کلیم عاجز، احمد فراز ودیگر قصہ پارینہ بن جانے والے شعرائے کرام کے بہترین وعمدہ شعر ہرایک نے کہے، کافی انتظار کے  بعد کھانا آیا کھانا تو لذیذ وذائقہ دار ضرور تھا، لیکن وہ مزہ نہیں آیا جس کی سوچ ہم رکھتے تھے۔


کہتے ہیں نہ جب بھوک مرجاتی ہے تو چاہے کوئی بھی ڈش بندے کے سامنے رکھ دی جائے اسے اچھی نہیں لگتی، ایسا ہی واقعہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا، ذائقہ صاعقہ بن کر گرا اور ہم طعام سے فارغ ہوکر شکر خداوندی بجالائے۔

  کھانے سے فراغت کے بعد ایک مرتبہ پھر چائے کی چسکی لی گئی جس سے بدن میں طراوت و خنکی آئی مولانا سیف اللہ ومولانا ایوب صاحبان سے اجازت چاہ کر بادل نخواستہ روانہ ہوئے ابهی نکلے ہی تهے کہ راستے کے متعلق مشورہ ہوا کس راستے چلا جائے مولانا موسی صاحب ایک پتلے راستے سے محمدپور و پهریہا کی شاہراہ سے ہم لوگوں کو ملایا اور یہاں سے ہم کیف ونشاط کے ماحول میں صبا رفتاری سے منزل کی طرف چل پڑے مفتی کلیم صاحب ننداٶں موڑ سے گهر کے لئے الوداعی سلام کہہ کر روانہ ہوگئے 

الحَمْدُ ِلله شب دس بجکر ستائیس منٹ پر میں اپنے گھر پہونچا   تمام لوگ بعافیت وسلامت اپنے اپنے گھر گیارہ بجے تک پہونچ گئے  اور اس طرح ایک خوشگوار ہنگامی سفر کا اختتام ہوا۔


ان بے لوث محبت کرنے والے احباب کا ساتھ دس گھنٹے رہا، اور ہرپل، ہر لمحہ، ہر گھڑی قیمتی پرسکون مسکراہٹوں سے لبریز تھی۔

         

          تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیساہے

             تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

                                             [بشیربدر]


مورخہ 28/اگست بروز جمعہ

رات سات بجکر پچپن منٹ پریہ تحریر مکمل ہوئی۔

*سرسنڈ اسمبلی حلقہ سے راجد امیدوار ہوسکتے ہیں راجیو رنجن شکلا*


 *سرسنڈ اسمبلی حلقہ سے راجد امیدوار ہوسکتے ہیں راجیو رنجن شکلا*


مدھوبنی:31/اگست 2020 آئی این اے نیوز 

رپورٹ! محمد سالم آزاد 


۔ بہار کے سیتامڑھی ضلع کے سرسنڈ اسمبلی حلقہ سے راجد کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کا من بنا چکے ہیں راجیو رنجن شکلا جی۔ راجیو رنجن شکلا سماجی سطح پر ہمیشہ عوام کے بیچ رہتے ہیں اور اس لاک ڈاؤن کے دوران بہار سے باہر رہنے والے لوگوں کی خوب مدد بھی کی ہے اور گاؤں غریب مزدوروں کو بہار واپس بھی لائے ہیں۔ راجیو رنجن شکلا نے بتایا کہ آج بہار کی 26 سرسنڈ اسمبلی حلقہ بدحالی کا شکار ہے۔ یہاں تعلیم، سڑکیں، بے روزگاری، صفائی، انفراسٹرکچر، پانی کی نکاسی، کھیل کود میدان وغیرہ نہ کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دس سالوں سے موجودہ حکومت نے علاقے کی عوام کو ترقی کے نام پر دھوکہ دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان سبھی مدعوں پر جب ہم نے مقامی لوگوں سے بات کی اور ان کی منشا جاننی چاہی تو ایسا محسوس ہوا کہ لوگ موجودہ حکومت اور ایم ایل اے سے پریشان ہوچکے ہیں اس لئے اچھے امیدوار کی تلاش میں ہیں۔ راجیو رنجن شکلا نے کہا کہ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخاب میں سرسنڈ اسمبلی حلقہ سے راجد کی ٹکٹ پر اپنی دعویداری بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو جی مجھے سرسنڈ اسمبلی سے راجد کا امیدوار بنائیں گے۔ انہوں نے اخیر میں کہا کہ اگر راجد مجھے یہاں سے امیدوار بناتی ہے تو عوام کے مسائل پر کھڑا اتروں گا اور عوامی مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کروں گا۔یہاں کی عوام بھی مجھ جیسے امیدوار کے میدان میں آنے کا انتظار کررہی ہے۔ اس لئے پارٹی سے میری اپیل ہے کہ مجھے ہونے والے اسمبلی انتخاب میں سرسنڈ سے امیدوار ضرور بنائے تاکہ جیت پر پارٹی اور علاقے کی خدمت کرسکوں۔

سرکاری ملازمین وقت سے پہلے ریٹائر کیے جا سکتے ہیں، حکومت نے جاری کیا سرکولر مرکز ی حکومت نے مرکز کے تمام سرکاری ملازمین کے کاموں کا جائزہ لینے کی ہدایت جاری کی ہے جس کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر ان کو ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔


 

سرکاری ملازمین وقت سے پہلے ریٹائر کیے جا سکتے ہیں، حکومت نے جاری کیا سرکولر

مرکز ی حکومت نے مرکز کے تمام سرکاری ملازمین کے کاموں کا جائزہ لینے کی ہدایت جاری کی ہے جس کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر ان کو ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔

مرکز کی مودی کی قیادت والی حکومت نے ان تمام افسران اور ملازمین کے کام کا جائزہ لینے کے لئے ہدایت جاری کی ہیں جو حکومت میں 30 سال سے زائد ملازمت کر چکے ہیں۔ متعلقہ وزارت کے مطابق یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے، بس اس پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

وزارت نے 28 اگست کو ایک سرکولر جاری کیا ہے جس میں حکومت کے اس قانون کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں تحریر ہے کہ عوامی مفاد میں حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کو وقت سے پہلے ریٹائر کرسکتی ہے اور ریٹائر کرنے کی وجہ کارکردگی اور بدعنوانی ہو سکتے ہے۔ اس سرکولر میں ایسے تمام ملازمین کے کام کا جائزہ لینے کے لئے کہا گیا ہے جن کی ملازمت کا وقفہ 30 سال ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان سرکاری ملازمین کی ملازمت کے ریکارڈ کا بھی جائزہ لینے کے لئے کہا گیا ہے جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔

واضح رہے سرکولر کے جاری کرنے کا مقصد سرکاری مشینری کو چست درست بنائے رکھنا ہے اور اس سے سرکاری کام کاج میں اہلیت بڑھے گی۔ اس مقصد کی حصولی کے لئے حکومت کے پاس ملازمین کو وقت سے پہلے ریٹائر کرنے کا حق ہے۔ اس سرکولر میں یہ واضح تحریر ہے کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملازم کے ذریعہ کام ٹھیک نہ کرنے کی صورت میں اس کو ریٹائر کر سکتی ہے۔

قانون کے مطابق ریٹائر کیے جانے والے ملازمین کو یا تو تین ماہ کا نوٹس دیا جاتا ہے یا پھر اس کو تین مہینے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ قانوں کے مطابق وقت سے پہلے ریٹائر کیے گئے ملازمین کو پینشن ملتی رہے گی۔ اس میں ان سینئر افسران کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جن کو آخری سالوں میں ترقی یعنی پرموشن ملنی ہوتی ہے۔ اس سرکولر کے بعد سرکاری ملازمین میں نوکری جانے کا خوف ہے اور ان کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وبا کے اس دور میں حکومت کی جو اقتصادی حالت ہے اس میں کہیں ان کی نوکری نہ چلی جائے۔

دشت کربلا سے آتی ہے یہ صدا۔۔۔ ✍ ظفر امام قاسمی


                  دشت کربلا سے آتی ہے یہ صدا۔۔۔

                                          ✍ ظفر امام قاسمی 

_______________________________

       آج سے یہی کوئی تقریباً چودہ سو برس پہلے ایک نہایت ہی مقدس و معظم قافلہ مکہ کی گلیوں میں پا بہ رکاب ہے، جس کا سالار نواسۂ رسولؐ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ہیں، قافلے کے ساتھ پردہ نشیں عورتیں اور بچے بھی آمادۂ سفر ہیں، اس مقدس قافلے کی منزل کوفہ ہے، مقصد اس سفر سے حصولِ اقتدار اور قبضۂ امارت نہیں بلکہ اعلاءِ حق اور ازہاقِ باطل ہے، مکہ کے گلی کوچوں میں اس قافلے کی روانگی کے چرچے عروج پر ہیں، الوداعی سلامی دینے کے لئے عقیدت مندوں کا ہجوم کسی رکے ہوئے سیلاب کے مانند امڈتا چلا آ رہا ہے، فراقِ حسینؓ کے غم میں ہر ایک آنکھ نمناک ہے اور دل ایک انہونے اور ان دیکھے خدشے کی وجہ سے چیخیں مار رہا ہے کہ "ہو نہ ہو حسینؓ کے اس نورانی مکھڑے اور چاندنی چہرے کا دیدار دوبارہ نصیب نہ ہو"۔

     یہ وہ دور تھا جب حضرت امیرِ معاویہؓ کے وصال کے بعد آپؓ کا بیٹا ابو خالد یزید کرسئ امارت پر متمکن ہوا، یزید کی امارت مذہبِ اسلام اور دینِ محمدیؐ کے لئے کسی ناسور سے کم نہیں تھی ،کیونکہ اس کے زہرناک جراثیم پوری ملتِ بیضاء کی روح کو مضمحل کرکے رکھنے والی تھی، وجہ اس کی یہ تھی کہ یزید اپنی ذاتی حیثیت اور پُرفسق زندگی کی وجہ سے کسی طور بھی اس قابل نہیں تھا کہ مسندِ امارت پر براجمان ہو، جبکہ اس وقت کبارِ صحابہ اور جلیل القدر تابعین کا ایک جم غفیر موجود تھا، جس میں خلیفۂ رابع حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندِ ارجمند اور وجہِ تخلیقِ کائنات، تاجدارِ عرب و عجم جنابِ نبی کریم ﷺ کا نواسہ حضرت حسینؓ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ 

      یزید نے مسندِ امارت سنبھالتے ہی ملکِ عرب کے طول و عرض میں پھیلی حکومتوں کے امیروں کے نام نامہ بروں کی معرفت یہ فرمان ارسال کیا کہ " حضرت امیر معاویہؓ کا وصال ہوگیا ہے، لہذا اب اس کے بعد میرے نام پر بیعت لی جائے" اس وقت مدینہ کا امیر ولید بن عتبہ تھے، جو ایک نہایت ہی نیک طبیعت اور صلح جو آدمی تھے، جب ولید بن عتبہ کے پاس یزید کا قاصد پہونچا تو آپ نے حسبِ حکم حضرت حسینؓ سے یزید کے نام پر بیعت لینے کا ارادہ ظاہر کیا، حضرت حسین ؓ نے یہ کہہ کر کہ " ابھی یزید کی بیعت پر میرا دل مطمئن نہیں ہے، میں کچھ سوچ کر فیصلہ کرونگا " بیعتِ یزید کو اگلے دن پر ٹال دیا، لیکن! آپ کا دل کسی بھی طرح بیعتِ یزید پر مطمئن نہیں ہو رہا تھا، لہذا آپ اگلا دن آنے سے پہلے ہی رات کے وقت موقع نکال کر اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ سے خروج کر کے مکہ کی طرف کوچ کر گئے، مدینہ میں بیٹھے حامیانِ یزید نے والئ مدینہ ولید بن عتبہ کو بہت اکسایا کہ حسینؓ کے قافلے کا تعاقب کیا جائے، اور اسے پا بجولاں یزید کے پاس روانہ کردیا جائے! مگر ولید بن عتبہ نے جواب دیا کہ میں ہرگز حسینؓ کا تعاقب نہ کرونگا، ممکن ہے کہ حسینؓ میرے خلاف برسرِ پیکار ہوں، مجبورا مجھے حسینؓ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے پڑیں، اور میں کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ خانوادۂ رسولؐ کے ایک فرد کا خون بطور قرض میرے کندھے پر ہمیشہ سوار رہے؛ 

   حضرت حسینؓ کے مدینہ سے خروج کرنے سے ایک رات پہلے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بھی یزید کی بیعت سے عملاً انکار کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ،مدینہ سے خروج کرکے مکہ کی طرف کوچ کرچکے تھے، اور پھر دونوں ہی قافلہ ایک ہی ساتھ مکہ کی شہر پناہ میں داخل ہوا، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے مکہ پہونچتے ہی اس مقصد سے کہ کم از کم مکہ والے یزید کی بیعت کے گناہ سے محفوظ رہیں، اپنے نام پر بیعت لینی شروع کردی، اور ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 

    ادھر دوسری طرف یزید کا قاصد جب کوفہ پہونچا اس وقت کوفہ کے امیر حضرت نعمان بن بشیرؓ تھے، یہ بھی نہایت نیک طبیعت اور صلح جو انسان تھے، یزید کے قاصد کا کوفہ پہونچتے ہی کوفہ کے لوگوں اور سربرآوردہ افراد نے درپردہ حضرت حسینؓ کو خطوط لکھنے شروع کردیے، ان خطوط کا لب لباب اور ماحصل یہی ہوا کرتا تھا کہ " آپ کوفہ تشریف لائیں، آپ کے بےشمار چاہنے والے یہاں موجود ہیں، سردارانِ کوفہ کی دلی خواہش آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی ہے، آپ بےجھجھک کوفہ چلے آئیں، ہم نعمان بن بشیرؓ کو قتل کرکے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلینگے، پھر کوفہ کی مسندِ حکومت پر قبضہ کر کے آپ کی معیت میں یزید پر یلغار کرینگے اور اس کی بوٹیاں کتوں سے نچوا کر آپ کو پورے مذہبِ اسلام کا امیر مقرر کر دینگے، آپ جیسی مستحقِ امارت شخصیت کے ہوتے ہوئے ہم کسی بھی حال میں فسق و فجور سے عبارت یزید کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسندِ امارت کو شرمسار نہیں کرنا چاہتے"۔ 

      اس سے پہلے بھی امیر معاویہؓ کے زمانے میں بھی خطوط کے تبادلے کے ذریعے کوفیوں کا رابطہ حضرت حسینؓ کے ساتھ بنا ہوا تھا، اب جب آپ یزید کی امارت سے دلبرداشتہ ہو کر مکہ پہونچ گئے تو ایک بار پھر کوفیوں کے خطوط آپ تک پہونچنے شروع ہوگئے، لہذا آپ نے صحیح صورتِ حال سے آگہی حاصل کرنے کے لئے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو یہ حکم دے کر کہ " خفیہ طریقے پر کوفہ میں داخل ہو اور کوفیوں سے میرے نام پر بیعت لو" کوفہ کی طرف روانہ کیا، تقریبا ایک یا دو منزل چلنے کے بعد مسلم بن عقیل نے حضرت حسینؓ کو یہ پیغام ارسال کیا کہ "میرا دل کہہ رہا ہے کہ کہیں یہ سفر نامبارک ثابت نہ ہوجائے، اور کوئی انہونا حادثہ پیش نہ آجائے، لہذا مجھے معاف رکھیں! اور میری جگہ کسی اور کو کوفہ روانہ کردیں" اس کے جواب میں حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ " زیادہ بزدل نہ بنو!وہاں لوگ میری راہ دیکھ رہے ہیں، فورا کوفہ کی طرف کوچ کرو اور میرے نام پر بیعت لینی شروع کرو، اور وہاں کی جو بھی صورتِ حال ہو وہ مجھے فورا لکھ بھیجو!"

       حضرت حسینؓ کے اس فرمان کے بعد مسلم بن عقیل اپنے دل میں انہونے اور ان دیکھے خطرات و خدشات کا ایک طوفان لیکر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، اور خفیہ طریقے پر وہاں پہونچ کر مختار بن عبیدہ کے مکان میں قیام پذیر ہوئے، اور حامیانِ حسینؓ سے حضرت حسینؓ کے نام پر بیعت لینی شروع کردیے، پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ میں حضرت حسینؓ کے نام پر بیعت قبول کرلی، اس صورتِ حال سے آگاہ کرنے اور اپنے بخیر و عافیت کوفہ پہنچ جانے کی خبر حضرت حسین کو دینے کے لئے مسلم بن عقیل نے قیس و عبد الرحمن نامی دو قاصد کو اس عنوان کا خط لکھ کر حضرت حسین کی طرف روانہ کیا، جس میں اپنے بخیر و عافیت کوفہ پہونچنے اور بارہ ہزار کوفیوں کے بیعت ہونے سے متعلق تحریر کیا اور مزید کے بیعت ہونے کی بھرپور امید ظاہر کی۔ 

     مسلم بن عقیل کی اتنی بڑی سرگرمی آخر کب تک پردۂ خفا میں رہ سکتی تھی؟ بالآخر ایک دن یہ رازِ پنہاں طشت از بام ہوگیا، جس کے بعد عبد اللہ بن مسلم الحضرمی نامی ایک شخص نے والئ کوفہ نعمان بن بشیرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسلم بن عقیل کی خفیہ سرگرمیوں سے متعلق ان کو آگاہ کیا، اور مسلم بن عقیل کی گرفتاری پر انہیں اکسانے لگا، جس کے جواب میں نعمان بن بشیرؓ نے فرمایا کہ " جب تک یہ لوگ علی الاعلان آمادۂ جنگ نہیں ہونگے تب تک میں ان کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کرونگا"۔ 

     یہ سن کر عبد اللہ بن مسلم الحضرمی نے یزید کے نام ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ آمد اور خفیہ طور پر حسینؓ کے نام پر بیعت لینے کے متعلق بالتفصیل لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا کہ " نعمان بن بشیرؓ مسلم بن عقیل کو گرفتار کرنے میں تساہل برت رہے ہیں، آپ جلد از جلد کسی سخت قسم اور بدطینت طبیعت کے گورنر کو بھیج کر نعمان بن بشیر کو معزول کریں! مسلم بن عقیل کو گرفتار کرائیں اور حسینؓ کا راستہ روکیں، ورنہ کوفہ کو اپنے قبضے سے نکلا ہوا سمجھیں!"

     عبد اللہ کا خط موصول ہوتے ہی یزید کا سر چکرا گیا، وہ حد درجہ پریشانی اور فکر کے عالم میں اپنے کمرے میں یوں ٹہلنے لگا جیسے کوئی درد زدہ شخص مارے درد کے ایک جگہ ٹک نہیں پاتا ہے، بلکہ وہ ٹہلتے ہوئے اپنے درد کو غلط کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگتا ہے، یہی حال اس وقت یزید کا تھا، وہ مارے درد کے  ایک جگہ ٹکنے ہی نہیں پا رہا تھا، کہ اسی حال میں اس کی نگاہوں کے سامنے اپنے والد معاویہؓ کے آزاد کردہ غلام سرجون کا چہرہ گھوم گیا اور بے ساختہ اسے سرجون یاد آنے لگا، اپنے اس خیال کو روبہ عمل لاتے ہوئے اس نے سرجون کو بلانے کے لئے ایک قاصد کو دوڑایا اور خود بدستور پریشانیوں اور ترددوں کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہا۔ 

   سرجون حضرت امیر معاویہؓ کا ایک آزاد کردہ غلام تھا، طبیعت کے اعتبار سے نہایت دانشمند، سوچ کے لحاظ سے بے انتہا دور اندیش اور ذہانت کے اعتبار سے بےپناہ ذہین آدمی تھا، خود امیرِ معاویہؓ اپنے دورِ خلافت میں ان سے مشورہ لیکر اس پر عمل پیرا ہوتے تھے، اب وہی کام آپ کا بیٹا یزید کرنے جا رہا تھا۔ 

    تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ سرجون حاضر ہوگیا، جھک کر سلام کیا اور با ادب ایک طرف کھڑا ہوگیا، سرجون کو دیکھتے ہی یزید کا مرجھایا چہرہ گلنار ہوگیا، یزید نے سرجون سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، جسے سنتے ہی سرجون نے اپنا سر جھکا لیا ، آنکھیں بند کر لیں اور کچھ دیر کے لئے اپنے آپ میں بےخود ہوگیا، کافی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور اپنے پیوست زدہ ہونٹ کو حرکت میں لاتے ہوئے عرض گزار ہوا کہ " اے امیر! گرچہ وقتی طور پر میری بات آپ کو بری لگے، مگر جہاں تک میری دانش کہتی ہے وہ یہ ہیکہ اس کام کے لئے عبید اللہ بن زیاد سے زیادہ دوسرا کوئی آدمی مناسب نہیں، آپ عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم بنا کر روانہ کریں پھر دیکھیں کہ کیسے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ 

      عبید اللہ بن زیاد بن ابی سفیان یزید کا چچا زاد بھائی تھا، نہایت ہی سفاکانہ طبیعت اور درشتانہ مزاج کا حامل انسان تھا، اپنی نالائقی میں طاق تھا، اس کی منت سماجت کرنے پر امیر معاویہؓ نے اسے بصرہ کا حاکم بنا رکھا تھا، جسے لیکر یزید رقابت کی آگ میں جلا بھنا جا رہا تھا اور اسے بصرہ سے معزول کرنے کے تانے بانے بن رہا تھا، اب جبکہ سرجون نے عبید اللہ کا نام لیا تو وہ پیچ و تاب کھانے لگا، لیکن! اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چارۂ کار بھی نہ تھا، نتیجۃ عبید اللہ بن زیاد کو لکھ بھیجا کہ بصرہ میں اپنی جگہ کسی کو اپنا نائب بنا کر چھوڑو اور خود کوفہ جا کر وہاں کی امارت سنبھالو! اب تمہاری امارت میں بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی اضافہ کیا جا رہا ہے! کوفہ جاکرمسلم بن عقیل کو گرفتار کرو اور حسینؓ کا راستہ روکو کہ وہ کوفہ تک نہ پہونچ پائے! اپنے گمان کے خلاف پیغام موصول ہوتے ہی ابن زیاد کافی خوش ہوا اور اپنی جگہ اپنے بھائی عثمان کو بصرہ کا والی بنا کر خود کوفہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ 

    جس دن ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا اس دن تک اٹھارہ ہزار کوفی حضرت حسینؓ کے نام پر بیعت کرچکے تھے، ادھر کسی نے مسلم بن عقیل تک مخبری کردی کہ کوفہ میں ابن زیاد داخل ہوچکا ہے، یہ سنتے ہی مسلم بن عقیل مختار بن عبیدہ کے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ہانی بن عروہ کے گھر میں جا پناہ گزیں ہوئے، عبید اللہ بن زیاد کے جاسوسوں نے اسے بتایا کہ مسلم ہانی کے گھر میں روپوش ہیں، لہذا اس بات کو متیقن کرنے کے لئے عبید اللہ بن زیاد نے ایک گمنام آدمی کو جس کا نام معقل تھا ہانی کے یہاں تحفے تحائف دے کر بھیجا اور پیغام اس انداز کا دینے کو کہا کہ مسلم کو شک نہ ہو کہ وہ عبید اللہ کا بھیجا ہوا جاسوس ہے، چنانچہ معقل نامی اس آدمی نے ہانی کے واسطے سے مسلم بن عقیل سے ملاقات کی اور اس انداز سے اپنا تعارف کرایا کہ ہانی اور مسلم میں سے کسی ایک کے فرشتے کو بھی معلوم نہ ہوسکا کہ یہ عبید اللہ کا آدمی ہے، مسلم بن عقیل نے یہ سمجھ کر کہ یہ تو اپنا آدمی ہے اس سے تحفے جو تین ہزار درہم کی شکل میں تھا وصول کرلیا اور اس ڈر سے کہ کہیں عبید اللہ بن زیاد کو خبر نہ ہوجائے فورا ہی پچھلے دروازے سے اسے رخصت کردیا۔ 

      معقل وہاں سے نکلنے کے بعد سیدھا ابن زیاد کے پاس پہونچا اور اسے یقین دلایا کہ مسلم ہانی کے گھر میں روپوش ہیں، ابن زیاد نے ہانی کو بلاکر گرفتار کرکے اسے جیل خانے میں ڈال دیا، پھر اس کے بعد مسلم بن عقیل کو بھی گرفتار کرلیا، اور اگلے دن انہی ہزاروں کوفیوں کے سامنے جنہوں نے مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان دونوں کی گردن اڑا دی، کسی بھی کوفی نے اف تک نہ کیا، وہ ایک دوسرے کو یوں تک رہے تھے جیسے انہوں نے مسلم بن عقیل کو قتل کروانے ہی کے لئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ 

    جس وقت مسلم بن عقیل کی گردن خاک و خون میں لتھڑ رہی تھی، ٹھیک اسی وقت حضرت حسینؓ مکہ سے کوفہ کے لئے خروج کر رہے تھے، با وجودیکہ یکے بعد دیگرے عبد اللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ نے آ آ کر حضرت حسینؓ سے منت سماجت کی کہ آپ ہرگز ہرگز کوفہ کی طرف کوچ نہ کریں! ہمیں کوفہ والوں کے ارادے اچھے معلوم نہیں ہوتے، کہیں ان کی یہ بنی بنائی سازش نہ ہو، اور آپ کے قتل کے لئے کوئی جال نہ بنا جا رہا ہو، اس سے پہلے ان لوگوں نے آپ کے والد اور آپ کے بھائی کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ بھی وہی دھوکہ دہی کی روایت اپنائ جائے، عبد اللہ بن زبیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ میں آپ کی خاطر مکہ کی حکومت سے دستبردار ہونے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں،لیکن خدارا کوفہ کی طرف خروج نہ کریں، لیکن حضرت حسینؓ نے ہر ایک کو یہی جواب دے کر خاموش کردیا کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک پہونچ چکا ہے، ہزاروں لوگ میرے منتظر ہیں، اب میرا وہاں جانا ہی مناسب ہے؛

     آخر میں عبد اللہ بن عباس نے یہاں تک کہہ دیا کہ" مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے اس پرعزم ارادے سے باز نہیں آئینگے،ورنہ میں آپ کی اونٹنی کے آگے لیٹ کر بھی آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کی کوشش کرتا، اگر آپ جانا ہی چاہتے ہیں تو کم از کم عورتوں اور بچوں کو ہرگز ساتھ نہ لے جائیں! " مگر حضرت حسینؓ نے نہ ہی اپنے ارادے کو ترک کیا اور نہ ہی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ جانے پر رضامند ہوئے۔ 

   الغرض یہ مختصر سا قافلہ دریا و صحرا دشت و جبل اور وادی و بیابان کو شق کرتا ہوا کوفہ کی طرف بڑھتا رہا، راستے میں کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی، ہر ایک نے حضرت حسینؓ کو اپنا ارادہ ترک کرنے کے لئے کہا، مگر حضرت حسینؓ اس گمان سے کہ وہاں مسلم بن عقیل نے میرا راستہ ہموار کر رکھا ہے آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔ 

    ادھر جاسوسوں کی معرفت حسینؓ کے کوچ کی خبر یزید تک پہونچ گئی، یزید نے فورا ہی ابن زیاد کو لکھا کہ حسینؓ مکہ سے نکل چکا ہے، کسی بھی حال میں اسے کوفہ میں داخل ہونے مت دو، اگر ضرورت پڑے تو اسے گرفتار کر لو! یزید کے حکم کے مطابق ابن زیاد نے ایک لشکر عمرو بن سعد کی قیادت میں حضرت حسین کا کھوج لگانے کے لئے روانہ کیا اور ایک دوسرا لشکر حر بن یزید تمیمی کی سربراہی میں اسی کام کے لئے متعین کیا۔ 

   مختصر یہ کہ حضرت حسینؓ کا کارواں یزیدی جرار افواج کے نرغے میں پھنس چکا تھا، آپ قافلہ لیکر جس طرف بھی نکلتے یزیدی افواج سد سکندری بن کر آپ کے سامنے کھڑی ہوجاتیں، آپ نے بارہا کہا کہ میں تو تمہارے بلانے پر ہی یہاں آیا ہوں، اگر تم کو میرا یہاں آنا منظور نہیں تو میرا راستہ چھوڑ دو میں جدھر سے آیا ہوں ادھر ہی سے چلا جاؤنگا، لیکن حر بن یزید (یہی حر بن یزید لڑائی کے وقت حضرت حسین کے لشکر میں شامل ہوگیا تھا اور آپ کی طرف سے کوفیوں کے ساتھ مقابلہ کیا تھا)نے کہا کہ ہم مجبور ہیں اور اس بات پر مامور ہیں کہ آپ کو زیرِ حراست ابن زیاد تک پہنچائیں، یہ سن کر حضرت حسینؓ نے کہا کہ ابن زیاد کے پاس گرفتار ہوکر جانے سے مر جانا کہیں اچھا ہے، لہذا آپ وہاں سے چل پڑے اور اپنے قافلہ کے ہمراہ ٢/ محرم الحرام ٦٠؁ھ کو میدانِ کربلا میں جا خیمہ زن ہوئے۔ 

    آپ کے خیمہ کے سامنے عمرو بن سعد نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ خیمہ گاڑ لیا، اور حضرت حسینؓ سے جا کر کہنے لگا کہ " ہمیں پتہ ہیکہ یزید سے کہیں زیادہ آپ مستحقِ خلافت ہیں، لیکن! آپ کا یہاں سے چلے جانا ہی اچھا ہوگا، تاکہ جنگ و جدل کی نوبت نہ آئے" واقعۃ عمرو بن سعد اس کوشش میں تھا کہ حضرت حسینؓ کسی طرح ابن زیاد کے پاس یزید کی بیعت کے لئے چلے جائیں اور جنگ کی نوبت ہی نہ آئے، لیکن حضرت حسینؓ ابن زیاد کے پاس جانے کو تیار نہ ہوئے، اور بالآخر آپ نے عمرو بن سعد کے سامنے تین شرطیں پیش کیں اور ان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کو کہا، اس کے جواب میں عمرو بن سعد نے کہا میں تو اس کا مجاز نہیں، ہاں آپ ضرور اپنی شرطیں پیش کریں، ممکن ہے ابن زیاد تینوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لے؛ 

  اس کے بعد حضرت حسین نے عمرو بن سعد کے سامنے مندرجہ ذیل شرطیں پیش کیں۔ 

  (۱) میں جدھر سے آیا ہوں ادھر سے ہی نکلنے کی مجھے اجازت دی جائے، میں یہاں سے نکل کر مکہ چلا جاؤنگا اور عبادت و ریاضت میں اپنی بقیہ زندگی گزار دونگا۔ 

   (٢) مجھے حدودِ اسلام سے باہر نکلنے دیا جائے تاکہ میں دین اسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لئے کفار کے ساتھ جہاد کروں اور جہاد کرتے کرتے راہِ خدا میں شہید ہوجاؤں۔ 

    (٣) مجھے دمشق یزید کے پاس پہونچایا جائے کہ میں براہِ راست انہی سے اپنا معاملہ حل کرلوں۔ 

     عمرو بن سعد یہ شرطیں سن کر دل ہی دل میں بےانتہا خوش ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو ضرور ابن زیاد قبول کرلے گا اور ایک قاصد کے ہمراہ ان شرطوں کو ابن زیاد کے پاس روانہ کیا،{ ممکن تھا کہ ابن زیاد مان بھی لیتا } مگر ملعون شمر ذی الجوشن { جو حضرت علی کا برادر نسبتی اور عباس بن علی کا سگا ماموں تھا }نے ابن زیاد کو یہ کہہ کر کہ اگر تم نے " جال میں پھنسے حسینؓ کو قتل نہ کیا اور اسے چھوڑ دیا تو ممکن ہے کہ تم یزید کی نگاہوں سے گرجاؤ، تمہارے پاس یہی موقع ہے یزید کی خوشنودی حاصل کرنے کا کہ حسین اور اس کے ہمراہیوں کو قتل کردو" حضرت حسینؓ کے قتل پر آمادہ کر لیا، اور فورا ہی شمر ذی الجوشن کو حکم دیا کہ جاؤ! عمرو بن سعد سے کہہ دو کہ اگر تم لڑنا نہیں چاہتے تو تجھے گرفتار کرلیا جائےگا اور تمہاری کی جگہ مجھے سپہ سالار بنایا جائے گا، اس پیغام کو سنتے ہی عمرو بن سعد ابن زیاد کے خوف سے حضرت حسینؓ کے لشکر کو غروب آفتاب کے وقت للکارنے کے لئے کھڑا ہوگیا اس کے ساتھ شمر ذی الجوشن بھی تھا، حضرت حسینؓ نے کہا " اب تو آفتاب غروب ہورہا ہے، کیوں نہ جنگ کو کل پر ٹال دیا جائے"عمرو بن سعد تو مان گیا لیکن! شمر ذی الجوشن ماننے کے لئے تیار نہ تھا اس پر حضرت حسینؓ نے فرمایا "سبحان اللہ کیا تم رات کو بھی لڑنا پسند کروگے" یہ سنتے ہی شمر ذی الجوشن جھینپ گیا اور جنگ کو اگلے دن یعنی دس محرم الحرام ٦١؁ھ کے لئے ٹال دیا۔ 

   رات رخصت ہوئی، رات کے نمناک لبادے سے سپیدۂ سحر طلوع ہوا، اس دن سورج کی کرنیں بجائے اجالگی پھیلانے کے کرۂ ارضی پر لالی بکھیر رہی تھیں، اب کسے پتہ تھا کہ کرنوں کی یہ لالی ایک ایسے مقدس و مکرم انسان کے خونوں کی لالی ہے جس کا لعابِ دہن بھی فخرِ موجوداتؐ کو بےپناہ مرغوب تھا، یہ اس عظیم ہستی کے جسم کے لہو کی سرخی ہے جس کے جسمِ اطہر کو اپنے کندھے سے مس کرنے کے لئے شہنشاہِ دو عالم بے تاب رہا کرتے تھے، یہ ان خوبصورت انگلیوں سے ابلتے خون کی گلناری ہے جو کبھی فاتحِ خیبر کی انگلیوں میں حمائل ہو کر کھیلا کرتی تھیں اور یہ اس سعادت مند پیشانی کے لہو کی لالی ہے جس پر جگرگوشۂ رسول ، فاطمہ بتولؓ کے چمبندوں کے نشان ثبت تھے، اس دن زمین بھی کانپ رہی تھی، آسمان بھی آنسو بہا رہا تھا، ستارے و سیارے بھی یہ سوچ کر سہمے ہوئے تھے کہ آج ہرا بھرا باغِ آدم نواسۂ رسول کے خون سے لالہ زار ہونے والا ہے اور قدسی صفات فرشتے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ آج ان کی پیشین گوئی بر آنے والی تھی۔

   بہرحال خلاصہ اس غم کی داستان اور روح کو مضمحل کردینے والی کہانی کا یہ ہیکہ دسویں محرم کی صبح فریقین ایک دل خراش و جگر تراش جنگ کے لئے صف بستہ ہوئے، اس کے بعد حضرت حسینؓ نے کوفیوں کے سامنے ایک مختصر سا خطبہ دیا، جس میں آپنے کہا کہ اے کوفیو! سن لو! کہ میں نواسۂ رسول ہوں، علی میرا باپ اور فاطمہ میری ماں ہے اور جعفرِ طیار کا میں بھتیجا ہوں، اس نسبی فخر کے علاوہ مجھے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ میرے نانا نے مجھے جنت کے جوانوں کا سردار کہا ہے، اے کوفیو! میری پارسائی کا حال یہ ہیکہ میں نے کبھی نماز ترک نہ کی، شراب کے جام کو کبھی ہونٹوں سے نہ لگایا، ناحق کسی مسلمان کو اذیت نہ دی اور نہ ہی کبھی کسی مؤمن کا خون بہایا، تو پھر آخر کیا وجہ ہیکہ تم میری جان کے درپے پڑے ہو، اے کوفیو! اگر آج عیسیؑ کا گدھا بھی زندہ ہوتا تو عیسائی اس کی حفاظت میں اپنی جانوں پر کھیل جاتے، لیکن آخر تم کیسے امتی ہو کہ اپنے رسولؐ کے نواسہ کی جان لینے کے پیچھے پڑے ہو۔ 

       کسی بھی کوفی کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا، سب صف بستہ خاموش کھڑے تھے، فضا میں کچھ دیر خاموشی تیرتی رہی، پھر اس خاموشی کو حضرت حسینؓ کی رنج و الم میں ڈوبتی ہوئی آواز نے توڑا، آپ نے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ اے کوفیو! " کیا یہ غلط ہیکہ تم نے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے؟ جن میں اپنی وفاداری کا تم نے تذکرہ کیا تھا،" یہ سن کر کوفیوں کی بند زبانیں بیک وقت بول اٹھیں کہ " نہیں! ہم نے کوئی خط آپ کے پاس نہیں بھیجا تھا، یہ سن کر حضرت حسین نے کوفہ کے سرداروں کے بھیجے ہوئے خطوط نکال کر انہیں دکھانے شروع کردیے، اور فردا فردا ہر ایک کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ " اے فلاں! اے فلاں! کیا یہ خطوط تمہارے لکھے ہوئے نہیں ہیں ؟" اس کے جواب میں کوفیوں نے کہا کہ بھلے ہم نے اس وقت آپ کو خطوط لکھے تھے، پر اب ہم آپ سے اظہارِ بیزاری کرتے ہیں"

    اس کھلی دغابازی کے بعد حضرت حسینؓ نہایت دلبرداشتہ ہوئے اور لڑنے کے لئے اونٹ سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوئے، دشمنوں کی طرف سے اپنے اوپر سے الزام کا داغ دھو ڈالنے کے لئے سب سے پہلا تیر لشکر برحق پر عمرو بن سعد نے چلایا، اس کے بعد فریقین میں گتھم گتھا شروع ہوگئی، اولا مبارزت ( تنہا تنہا) کی جنگ ہوئی جس میں کوفیوں کا خاصا نقصان ہوا، اس کے بعد اجتماعی مقابلہ شروع ہوا، حضرت حسینؓ کے ہمراہیوں نے جی کھول کر دادِ شجاعت پیش کی، لیکن! یہ مختصر سا لشکرِ حسینی یزیدی لشکرِ جرار سے کب تلک لڑنے کی تاب رکھ سکتا تھا، بالآخر حضرت حسینؓ کے سارے جاں نثار یکے بعد دیگرے شہید ہوتے چلے گئے، اب میدان میں صرف تنہا حضرت حسینؓ کی جان باقی تھی اور خیموں کے پیچھے عورتوں اور ننھے علی اصغر کی چیخ و پکار۔ 

     حضرت حسینؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی، گھوڑا چند بارسیخ پا ہوا اور دشمن کی صف میں جا گھسا، اس گھوڑے کا سوار نہایت ہی بے جگری اور جانبازی کے ساتھ دشمن کی لاشوں کے پشتے لگا رہا تھا، لیکن! وہاں ان کی شجاعت و بہادری کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا، ان کے دیکھنے والے سارے ساتھی کب  کا ہی ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے، لیکن! شمرذی الجوشن اور عمرو بن سعد آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ خدا کی قسم " ہم نے آج تک ایسا جری اور بہادر انسان کبھی نہیں دیکھا" دشمن سے لڑتے لڑتے آپ پر ٤٣/ زخم تیروں کے آئے، جسم زخموں سے چور تھا اور ان زخموں سے خون کے فوارے ابل رہے تھے، مگر آپ کی شجاعت و بہادری میں سرِ مو بھی فرق نہیں آ رہا تھا، کہ اچانک ملعون شمر ذی الجوشن نے چھ کوفیوں کو لیکر آپ کو چاروں سمت سے گھیر لیا اور پھر کمبخت سنان بن انس نخعی نے آپ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ آپ زمیں بوس ہوگئے، آپ کے خون کے چھینٹوں سے زمین سرخ ہوگئی، تلوار کی ضرب ایسی کاری تھی کہ آپ دوبارہ سنبھل نہ سکے اور کچھ ہی دیر میں آپ کی روح جسدِ عنصری سے پرواز کر گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔ 

   ملعون شمر ذی الجوشن نے آپ کے سرِ مبارک کو دھڑ سے الگ کیا اور اس بے سر دھڑ پر گھوڑوں کے جھنڈوں کو دوڑایا، یہاں تک کہ آپ کا جسم مبارک قیمہ قیمہ ہوگیا۔۔ لعنۃ اللہ علیہم۔۔۔ 

      آج اس روح فرسا واقعۂ کربلا کو پیش آئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن! آج بھی حسینؓ کا نام زندہ و جاوید ہے، اور تاقیامت رہے گا،یزیدی ٹولوں نے آپ کے نام کو ہمیشہ کے لئے صفحۂ ہستی سے کھرچ دینا چاہا تھا، مگر ان کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا، آج نہ ہی یزید ہے اور نہ یزیدی ٹولوں کا ظلم و جبر، اگر ہیں تو حسینی یادیں ہیں جو ہر روز دشتِ کربلا کے خون آلود کھنڈروں کے پیچھے سے ہمیں یہ آواز لگاتی ہیں، کہ لوگو! حق کی سربلندی اور دینِ محمدی کی سرفرازی کے لئے اگر جان دینے کی باری آئے تو اپنی جان دے دینا لیکن! باطل کے آگے کبھی سر نہ جھکانا۔۔۔۔ 


                                  ظفر امام، کھجور باڑی

                                   دارالعلوم بہادرگنج

                            

ملکی وسائل کی نِجکاری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


 ملکی وسائل کی نِجکاری 


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


بی جے پی سرکار امیروں کے بل بوتے چل رہی ہے، اس نے ملک میں ایسا ماحول بنایا کہ امیرزیادہ امیر ہوتے چلے گیے اور غریبوں کی جیب نوٹ بندی، جی اس ٹی اور مہنگائی کے ذریعہ خالی ہوتی چلی گئی، کانگریسی دور حکومت میں ہندوستان کا جھکاؤ روس کی طرف تھا، اور وہاں کے کمیونسٹ نظام حکومت میں سارے وسائل حکومت کے تھے اور انسان دولت کی پیداوار کا ایک ذریعہ تھا، حکومت اپنی سوچ کے مطابق اخراجات لوگوں کو فراہم کرتی تھی، اس قربت نے ہندوستانی حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ملکی وسائل کو قومیالیا جائے، چنانچہ بینک، ریلوے، تعلیمی نظام سب کا سرکاری کرن ہوا، اس سے عام لوگوں کو نوکریاں ملیں، بینکوں پر اعتماد بڑھا، تعلیمی فیس کم ہوئی؛ بلکہ معاف ہوتی چلی گئی، نقصان یہ ہوا کہ خدمت کا معیار گرتا چلا گیا، اس کی وجہ سے سرکاری اداروں پر اعتبار واعتماد میں کمی آئی، لوگوں کی توجہ پوری طرح پرائیوٹ اداروں کی طرف ہو گئی، حالاں کہ نن بینکنگ سسٹم والے مالیاتی اداروں نے دیوالیہ ہو کر صارفین کو بڑا نقصان پہونچایا، پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں موٹی فیس کے باوجود معیار کے حصول کے لیے طلبہ کو کوچنگ اور ٹیوشن کا سہارا لینا پڑا، اس کے باوجود سرکاری اداروں پر جوبے اعتمادی قائم ہوئی تھی وہ باقی رہی، ڈاک خانہ کا نظام بھی ٹھپ ہوگیا، کوریر سروسیز کا چلن عام ہو گیا، بی اس ان ال سے لوگوں کا رشتہ ٹوٹا، ایر ٹیل، اورجی او نے موبائل کی دنیا پر قبضہ کر لیا۔

 اس کے باوجود سرکاری محکمے اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے اور شکایتوں کے باوجود ان کی افادیت باقی تھی؛ لیکن اب ملک پورے طور پر ملکی وسائل کی نج کاری کی طرف بڑھ رہا ہے، سرکار نے ریلوے کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا فیصلہ کر لیا ہے،ائر انڈیا کی بولی لگ رہی ہے، اِل آئی سی بک چکی ہے، ائیر پورٹ سرمایہ کاروں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اب تیاری تعلیمی نظام کے دھیرے دھیرے نجی ہاتھوں میں سونپنے کی چل رہی ہے،اور شاید مالیاتی نظام بھی انبانی اور اڈانی جیسوں کے ہاتھ میں منتقل ہوجائے، سرکار کی یہ سوچ در اصل روس کے بجائے امریکہ کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے بنی ہے، امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس میں پبلک سکٹر کی بڑی اہمیت ہے، سرکار اسی نہج پر ہندوستان کو لے جانا چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں خدمات مہنگی ہوتی چلی جائیں گی، ممکن ہے معیار میں کچھ بڑھوتری ہو، لیکن غریبوں کے لیے سفر، علاج اور تعلیم سبھی کچھ اس قدر مہنگا ہوجائے گا کہ ان کی پہونچ وہاں تک نہیں ہوسکے گی، ایسے میں امراء کی چاندی ہوگی اور غرباء بندھوا مزدوروں کی طرح ان امراء کے دست نگر ہوں گے، جب سارا کچھ ان کے ہاتھ چلا جائے گا تو حکومت بھی انہیں کے اشاروں سے بنے گی اور ٹوٹے گی، ووٹوں کی خریدوفروخت اب بھی ہوتی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی مارکیٹنگ پورے طور پر بڑھ جائے گی، سوچیے کہ ہندوستان کس طرف جا رہا ہے۔(بشکریہ نقیب)

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن پر لگایا ایک روپے کا جرمانہ


 

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن پر لگایا ایک روپے کا جرمانہ

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف سزا کا اعلان کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن پر ایک روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے، ایک روپے کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں 3 ماہ کی سزا اور عدالت میں پریکٹس پر تین سال کی پابندی لگا دی جائے گی۔

30 ستمبر تک بین الاقوامی پروازوں پر رہے گی پابندی


 

30 ستمبر تک بین الاقوامی پروازوں پر رہے گی پابندی

نئی دہلی: ڈائرکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) نے بین الاقوامی پروازوں پر پابندی میں 30 ستمبر تک توسیع کردی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل نے آج ایک سرکلر جاری کیا، جس میں 31 اگست سے 30 ستمبر تک اس سلسلہ میں جاری آرڈر کی مدت میں توسیع کی گئی ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ اس حکم کا اطلاق کارگو طیاروں اور خصوصی اجازت یافتہ پروازوں پر نہیں ہوگا۔ نیز منتخب روٹوں پر باقاعدہ بین الاقوامی پروازوں کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کووڈ ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے 22 مارچ سے ملک میں بین الاقوامی پروازیں بند ہیں۔ گھریلو پروازوں پر بھی 25 مارچ سے پابندی عائد تھی، لیکن 25 مئی سے محدود تعداد میں گھریلو پروازیں شروع کردی گئیں ہیں۔

Sunday 30 August 2020

جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ میں ملک کی بدحال معیشت پر اظہارِ تشویش لاک ڈاؤن سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا، کروڑوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوئے، ہزاروں لقمہ اجل بن گئے اور بڑے پیمانے پر محنت کشوں نے نقل مکانی کی۔


 جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ میں ملک کی بدحال معیشت پر اظہارِ تشویش

لاک ڈاؤن سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا، کروڑوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوئے، ہزاروں لقمہ اجل بن گئے اور بڑے پیمانے پر محنت کشوں نے نقل مکانی کی۔

نئی دہلی: 29 اگست کو جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ایک آن لائن پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔اس پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مجلس شوریٰ کے سہ روزہ اجلاس منعقدہ 23 تا 25 اگست 2020 میں پاس قرار داد پر تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں چار اہم بنیادی ایشوز پر قرار دادیں پاس ہوئی ہیں۔ان میں ملک میں بگڑتی معاشی صورتحال، جمہوری اقدار میں کرائسس، عالمی خصوصاً مسلم ممالک کی ابتر صورت حال اور مسلم طبقہ سے خصوصی اپیل کے تعلق سے قراردادیں پاس ہوئیں۔

اس قرار داد میں ملک و ملت کے اہم مسائل پر غور و فکر ہوا اور کچھ اہم ایشوز پر اقدامات کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس وقت پورا ملک کورونا کی زد میں ہے اور سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے،ایسے وقت میں ہمیں اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی کورونا کے سبب مرنے والوں کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کے ساتھ ہی اس وبا سے متاثر ہونے والے یا اس کے سبب مالی پریشانیوں سے دوچار ہونے والوں اور اظہار رائے کے جرم میں انتظامیہ اور پولس کے مظالم کا شکار ہو نے والوں سے اظہار ہمدردی کیا گیا۔

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے عالم اسلام کی موجودہ صورت حال پربھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی ملک کے مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلایا گیا۔ پریس میٹ میں مجلس شوریٰ کی جانب سے ملک کی معاشی بحران پر تبصرہ ہواجس میں کہا گیا کہ بغیر کسی پیشگی تیاری کے 24 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا اور اس میں بار بار توسیع کرنا 130 ملین لوگوں کو سنگین بحران سے دوچار کر دیا جبکہ اس سے پہلے نومبر 2016 میں نوٹ بندی کی وجہ سے لوگ پہلے سے ہی پریشان تھے۔ لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کیا، ہزاروں لقمہ اجل بن گئے اور بڑے پیمانے پر محنت کشوں نے نقل مکانی کی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور، جی ڈی پی بہت نیچے آگئی اور شرح ترقی منفی ہوجانے کے درپے ہے۔ لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کی طرف توجہ دے اور نظام معیشت، نظام صحت کو بہتر بنانے کے علاوہ کرپشن کے خاتمے پر توجہ دے۔ نجی کاری کی طرف بڑھتے قدم کو روکنے کے ساتھ ہی بجٹ کے بڑے حصے کو عوام کے رفاہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے مختص کرے۔

شوریٰ کی ان باتوں کو بھی خاصی اہمیت دی گئی کہ عوام میں بیداری کے ساتھ ہی احساس ذمہ داری کا ہونا ضروری ہے۔نیز بھائی چارے اور باہم کفالت کے رجحان کو فروغ دینے کو ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھے۔پریس کانفرنس میں شوریٰ کی جانب سے سیاسی بحران پر فکرمندی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اس وقت ملک میں خود مختاری اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے۔عدلیہ کے اعلیٰ ترین اداروں کے فیصلے پر بھی پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے، حزب اختلاف کا رول ناقابل ذکر ہوکر رہ گیا ہے اور موجود دور حکومت میں اقلیتوں، دلتوں، کمزور طبقات بالخصوص مسلم مخالف پالیسیاں ملک کی جمہوری شناخت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو لاک ڈاؤن کے دورا ن جس طرح الزامات لگا کر قید و بند سے دوچار کیا جارہا ہے، وہ نہات قابل مذمت ہے۔میڈیا اور سوشل میڈیاکا کردار بھی جانبدارانہ لگتا ہے،حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

کانفرنس میں شوری کی یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ عالم اسلام خاص طور پر یمن، شام، لبنان اور لیبیا خانہ جنگی کی حالت میں ہیں جس کے سبب لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اور ناقابل شمار مالی نقصانات ہوئے۔اس خرابی کو دور کرنا عالمی طاقتوں خصوصا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے،عالمی سطح پر مہم چلا کر اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ حالیہ معاہدہ قابل مذمت ہے۔کسی بھی ملک کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فیصلہ فلسطین پر تھوپے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کو چاہئے کہ وہ جس مضبوطی کے ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے،اسی موقف پر قائم رہے۔

قومی صورت حال پر تبصرہ میں یہ بات سامنے آئی کہ حالیہ برسوں میں جب سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کو سرکاری چشم پوشی حاصل ہوئی ہے، صورت حال خاصی سنگین ہوگئی ہے۔ نفرت و فسطائیت اور مسلمانوں سے متعلق پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک موثر طریقہ خدمت خلق اور فلاح انسانیت کی سرگرمیاں اور اسلامی اخلاقیات کے عملی دعوتی مظاہر ہیں جس کی روشن مثال ملک کے مسلمانوں نے کورونا کے دوران پیش کی ہے۔ اس دوران جماعت اسلامی ہند نے بھی ملک بھر میں مہماتی انداز سے ریلیف کا کام کیا اور ملک و ملت کی رہنمائی کے لئے ہر وقت اپیلیں جاری کیں۔ مسلم امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت و دعوت کی راہ پر صبرو تحمل اور عزم و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے۔اس کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی صورتحال بہت توجہ طلب ہے اوریہ منظم جدو جہد کی متقاضی ہے۔ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی کمزوریوں پر تنقید کے ساتھ اس میں موجود امکانات کو اپنی تعلیمی ترقی کے لئے استعمال کرے۔مسلمانوں کی این جی اوز، تنظیموں اور اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام کام ملک کے قانون کے مطابق تمام ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیں۔

ان لاک-4 کی رہنما ہدایات: جانیں کیا کھلے گا اور کیا بند رہے گا؟ مرکزی وزارت داخلہ نے کورونا وبا کی وجہ سے پورے ملک میں مختلف مراحل میں نافذ کی گئی پابندیوں کو ختم کرنے کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ہفتہ کے روز ان لاک۔4 سے متعلق رہنما ہدایات جاری کیں


 ان لاک-4 کی رہنما ہدایات: جانیں کیا کھلے گا اور کیا بند رہے گا؟

مرکزی وزارت داخلہ نے کورونا وبا کی وجہ سے پورے ملک میں مختلف مراحل میں نافذ کی گئی پابندیوں کو ختم کرنے کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ہفتہ کے روز ان لاک۔4 سے متعلق رہنما ہدایات جاری کیں

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے کورونا وبا کی وجہ سے پورے ملک میں مختلف مراحل میں نافذ کی گئی پابندیوں کو ختم کرنے کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ہفتہ کے روز ان لاک۔4 سے متعلق رہنما ہدایات جاری کیں۔ دہلی میٹرو کو مختلف شرائط اور پروٹوکول کے ساتھ 7 ستمبر سے مرحلہ وار طریقہ سے چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ پروٹوکول اور شرائط و ضوابط رہائش اور شہری امور کی وزارت، ریلوے وزارت اور مرکزی صحت اور خاندانی فلاح وبہبود وزارت آپس میں صلاح و مشورہ کرکے طے کریں گی۔

اسکول، کالج او ردیگر تعلیمی اور کوچنگ اداروں کو ریاستوں او رمرکز کے زیرانتظام ریاستوں کے ساتھ صلاح ومشورہ کے بنیاد پر 30 ستمبر تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئی رہنما ہدایات میں 21 ستمبر سے سماجی، تعلیمی، کھیل، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی انعقاد کی اجازت دی گئی لیکن ان میں صرف 100 لوگ شامل ہوسکیں گے۔ تینوں وزارتیں مشترکہ طورپر میٹرو خدمات کو چلانے کے لئے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار تیار کریں گی۔رہائش اور شہری امور کی وزارت آپریٹنگ طریقہ کار جاری کرے گی۔

اس درمیان دہلی میٹرو نے کہا ہے کہ وہ نئی رہنما ہدایات کے مطابق سات ستمبر سے مٹرو سروس شروع کرنے کے لئے تیار ہے اور اس سلسلہ میں معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کا انتظار کررہی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے آج جاری رہنما ہدایات یکم ستمبر سے نافذ ہوں گی۔ یہ تمام رہنما ہدایات ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں، متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے صلاح و مشورہ سے تیار کی گئی ہیں۔ رہنما ہدایات میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے سبب کنٹینمنٹ اعلان کئے گئے علاقوں میں مکمل لاک ڈاون کی پابندیوں کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔ نئی رہنما ہدایات میں اوپن ایئر تھیٹروں کو 21ستمبر سے کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مرکز نے تعلیمی اداروں کے بارے میں ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں کے ساتھ وسیع تبادلہ خیال کیا ہے جس کے بعد اسکول، کالجوں، دیگر تعلیمی اور کوچنگ اداروں کو آئندہ 30ستمبر تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس دوران طلبا اسکول نہیں آئیں گے اور باقاعدہ کلاسز نہیں ہوں گی۔ آن لائن کلاسز پہلے کی طرح جاری رہیں گی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

حالانکہ ان رہنما ہدایات میں تعلیمی ادارو ں کے بارے میں کچھ رعایت بھی دی گئی ہے جو 21ستمبر سے نافذ ہوگی او ر اس کے لئے صحت اور خاندانی فلاح وبہبود کی وزارت الگ سے آپریٹنگ طریقہ کار جاری کرے گی۔ اس کے تحت ریاست اور مرکز کے زیرانتظام ریاستیں 50فیصد اساتذہ کو آن لائن کلاسز اور اس سے متعلق کاموں کے لئے اسکول بلا سکیں گی۔ ساتھ ہی کنٹینمنٹ زون کے باہر 9سے 12ویں کے طلبا کو رضاکارانہ طورپر رہنمائی کے لئے اسکول آنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے والدین کو تحریری رضامندی خط دینا ہوگا۔

ساتھ ہی قومی مہارت کی تربیت دینے والے اداروں اور آئی ٹی آئی اور اس طرح کے دیگر اداروں میں تربیت کی اجازت دی جائے گی۔ ساتھ ہی اعلی تعلیمی ادارے پی ایچ ڈی اور گریجوئیشن کی تعلیم کے لئے لیباریٹریوں اور تجرباتی کاموں کی اجازت دے سکیں گے۔ ان لاک۔4کی رہنما ہدایات میں بھی سنیما ہال، سوئمنگ پول، تفریحی پارک اور تھیئٹروں اور ایسی دیگر جگہوں کو ابھی بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ اوپن تھیئٹر کھلیں گے۔

ساتھ ہی بین الاقوامی فضائی سفر پر ابھی پابندی جاری رہے گی اور صرف وزارت داخلہ کی اجازت سے ہی اس طرح کا سفر ہوسکے گا۔ نئی رہنما ہدایات میں 21 ستمبر سے سماجی، تربیتی، کھیل، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی انعقاد کی اجازت دی گئی ہے لیکن انمیں صرف 100 لوگ شامل ہوسکیں گے۔ اس طرح کے انعقاد میں ماسک پہننا، سماجی دور ی قائم رکھنا اور تھرمل اسکیننگ اور سینی ٹائز ر کا استعمال ضروری ہوگا۔

وزارت صحت کی رہنما ہدایات کی بنیاد پر کنٹینمنٹ زون کا تعین کیا جائے گا اور ان علاقوں میں صرف ضروری سرگرمیوں کی اجازت د ی جائے گی۔کنٹینمنٹ زون کے باہر کوئی بھی ریاست مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر مکمل پابندی کے کے التزامات نافذ نہیں کرسکے گی۔

کووڈ۔19 کے منیجمنٹ کے لئے پورے ملک میں نافذ قومی ہدایات پر عمل لازمی ہوگا۔ ریاستوں کے اندر اور ایک سے دوسری ریاست میں لوگوں اور سامان کے آنے جانے پر کسی طرح کی پابندی نہیں رہے گی اور اس کے لئے کسی ای پاس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ 65 برس سے زیادہ عمر کے لوگوں، سنگین بیماریوں سے متاثر لوگوں، حاملہ خواتین اور دس برس سے کم عمر کے بچوں کو گھروں میں رہنے کی صلاح دی گئی ہے۔ آروگیہ سیتو ایپ کے استعمال کو بھی مسلسل فروغ دیا جائے گا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قوم کے لیے مشعل راہ… ظفر آغا ایسے تاریک حالات میں جامعہ اور اے ایم یو کا ہندوستان بھر میں بالترتیب نمبر ایک اور نمبر تین تعلیمی ادارہ کی منزل حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود قوم کروٹ لے رہی ہے


 جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قوم کے لیے مشعل راہ… ظفر آغا

ایسے تاریک حالات میں جامعہ اور اے ایم یو کا ہندوستان بھر میں بالترتیب نمبر ایک اور نمبر تین تعلیمی ادارہ کی منزل حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود قوم کروٹ لے رہی ہے

پچھلے چھ سالوں میں ہندوستانی مسلم اقلیت جس اندوہ و علم کے عالم سے گزری ہے اس کا ذکر الفاظ میں غالباً نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کبھی موب لنچنگ تو کبھی اس کے پرسنل لاء پر حملہ۔ حد تو یہ ہے کہ آخر اس کی شہریت پر بھی کمند لگانے کی سازش تیار کر لی گئی۔ جب اس نے اس سازش کے خلاف شاہین باغ جیسا پُر امن احتجاج کیا تو پہلے دہلی فسادات کے ذریعہ سبق سکھایا گیا اور آخر میں احتجاج کو کسی بھی طرح حمایت دینے والے ہر شخص کو گرفتار کیا گیا یا پولس تھانہ بلا کر تنبیہ دی گئی کہ باز آؤ ورنہ جیل جانے کو تیار رہو۔ آخر رام مندر تعمیر ہونے لگا۔ بس یوں سمجھیے کہ تقریباً کہہ کر اور اعلانیہ مسلم سماج کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔ بس اب ایک ووٹ ڈالنے کا اختیار ہے سو اس پر بھی نگاہیں لگی ہیں۔ دیکھیے سنگھ کا وہ خواب کب اور کیسے پورا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں قوم جس ناامیدی اور کرب کے عالم سے گزر سکتی ہے اسی کسمپرسی کے عالم میں دن کاٹ رہی ہے۔

لیکن اس نااُمیدی کے درمیان ابھی حال میں ایک خبر آئی جس سے کچھ امید کی کرن پھوٹتی نظر آتی ہے۔ وہ خبر یہ تھی کہ حکومت ہند کے زیر نگراں ملک میں جتنی بھی یونیورسٹیاں چلتی ہیں ان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شمار ملک کی تین سب سے بلند و بالا یونیورسٹیز میں کیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی تو اس برس ملک کی سب سے بہترین یونیورسٹی رہی۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دوسرے نمبر پر رہی، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو تیسرا مقام حاصل ہوا۔ خیال رہے کہ پچھلے سال یہ تینوں یونیورسٹیاں زبردست ہنگامی دور سے گزری ہیں۔ جے این یو میں سنگھ حامیوں نے گھس کر وہاں کے طلبا کو پیٹا اور پھر یونیورسٹی ایک عرصہ تک بند رہی۔ جامعہ ملیہ اور اے ایم یو میں این آر سی کے معاملہ پر پولس نے زبردستی گھس کر طلبا کی پٹائی لگائی اور پھر ہنگامہ کے بعد یہ یونیورسٹیاں بھی لمبے عرصے تک بند رہیں۔ اس ہنگامہ کے باوجود جامعہ ملیہ اور اے ایم یو ہندوستان کی نمبر ایک اور نمبر تین یونیورسٹیاں قرار دی گئیں۔

یہ بات یقیناً قابل ستائش ہے۔ اس کے لیے ان دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرس، وہاں کا ٹیچنگ اسٹاف اور خصوصاً طلبا قابل مبارکباد ہیں۔ تمام تر پریشانیوں کے باوجود ان جگہوں پر اسٹاف اور طلبا نے جی توڑ محنت کر ہندوستان میں اپنا نام روشن کیا۔ اس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریف ہو کم ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان دونوں یونیورسٹیوں نے اپنی کامیابی سے پوری ہندوستانی اقلیت کے لیے ایک امید کی شمع بھی روشن کی ہے۔ وہ امید یہ ہے کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں، اگر اس ملک کا مسلمان ہمت، عزم اور محنت کے ساتھ کوشش کرے تو کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ ناامید ہو کر ہتھیار نہ ڈال دیے جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کی مسلم اقلیت نے کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ سنہ 1947 سے اب تک نہ جانے کتنے سخت مواقع آئے لیکن یہ قوم اپنی لگن اور محنت کے سہارے گر گر کر کھڑی ہوتی رہی۔ بٹوارہ ہوا اور مار کاٹ ہوئی۔ اس کو غدار وطن کہا گیا لیکن وہ کھڑا ہو گیا۔ ہم نے خود مراد آباد، میرٹھ سے لے کر گجرات جیسے ہنگامہ خیز فسادات دیکھے ہیں، جن کا ذکر بھی کرتے ہوئے خوف آتا ہے لیکن قوم ہر منزل پر کھڑی ہو گئی۔ پھر بابری مسجد کا ہنگامہ تقریباً تین برس چلا لیکن ہمت کا دامن نہیں چھوڑا۔ اور اب تو سیدھے مودی کا ہندو راشٹر ہے، لیکن پھر بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سربلند کھڑی ہیں۔ کسی ایک قوم کے لیے اتنے مصائبوں کے درمیان گر گر کر خود کھڑا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

لیکن سنہ 1947 سے اب تک ان 70 برسوں کے سفر میں صرف دو غلطیاں ہوئیں جس نے مسلم اقلیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ وہ دو غلطیاں میری ناقص رائے میں قیادت کا فقدان اور تعلیم کی کمی تھی۔ جس قوم میں قیادت ہی غلط اور خود غرض و موقع پرست ہو وہ دھوکہ نہیں کھائے گی تو اور کیا ہوگا۔ ان 70 برسوں میں نام نہاد مسلم قیادت (جس پر قدامت پرستوں اور علماء کا غلبہ رہا) نے اپنے مفاد تو حل کیے لیکن قوم کو دیدہ و دانستہ غلط راستے دکھائے۔ حشر یہ ہوا کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا ہر رکن وزیر ہوا یا کروڑوں کا مالک ہوا۔ ادھر مسجد گئی اور ہزارہا مسلمان فساد کا شکار ہوا۔ ایسے ہی ہر موقع پر قیادت نے دھوکہ دیا۔ یہ قوم کی اپنی غلطی تھی جس کا خمیازہ وہ اب تک بھگت رہی ہے۔

مگر قوم کرتی تو کرتی کیا! کیونکہ اس کے پاس تو یہ شعور ہی نہیں تھا کہ وہ صحیح قائد پہچان سکے۔ اس نے عموماً علماء کو رہبر سمجھ کر آنکھ بند کر کے عقیدت میں قائد مانا۔ لیکن رہبر تو راہزن نکلے۔ اس لاشعوری کا سبب یہ تھا کہ قوم عموماً جہالت کا شکار تھی اور وہ اس لیے کہ وہ جدید تعلیم سے بے بہرہ تھی۔ سرسید احمد خان نے 19ویں صدی کے آخر میں جو علی گڑھ تحریک چلائی اس نے سنہ 1920 تک مسلم لیگ تحریک کے زور پکڑنے کے بعد تقریباً دم توڑ دیا۔ سر سید اور ان کے ساتھیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان جدید تعلیم کے ذریعہ جس نشاط ثانیہ کی داغ بیل ڈالی تھی، اس تحریک نے محمد علی جناح کی پاکستان تحریک کے آگے دم توڑ دیا۔ بٹوارہ ہوا اور پھر مسلم اقلیت یکے بعد دیگرے ہنگامے سے گزرتی رہی۔ 'حال' کی لڑائی میں 'مستقبل' کا خیال ہی نہیں رہا۔ بس تحفظ شریعت، اردو اور روزمرہ کی تگ و دو نے قوم کے بڑے حصے کو یا تو ہر قسم کی تعلیم سے محروم کر دیا یا پھر اس کو مدرسوں تک محدود کر دیا۔ لاعلمی کے سمندر میں ڈوبی قوم اب دوسرے درجے کے ہندوستانی شہری کے مقام تک آ گئی۔

ایسے تاریک حالات میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ہندوستان بھر میں بالترتیب نمبر ایک اور نمبر تین تعلیمی ادارہ ہونے کی منزل حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود قوم کروٹ لے رہی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ جدید تعلیم ہی ایک ایسا راستہ ہے جو قوم کی سپر بن کر اس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ وہ نشاط ثانیہ جس کی شروعات سر سید نے کی تھی اور جس کو پاکستان تحریک نے ختم کر دیا، مسلم اقلیت کو اسی سفر کو پھر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور بس پھر دیکھیے اس ملک میں نہ جانے کتنے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ادارے اولین مقام حاصل کریں گے۔

فیس بک-وہاٹس ایپ-بی جے پی کنکشن: کانگریس نے ایک بار پھر مارک زکربرگ کو لکھی چٹھی 'وال اسٹریٹ جرنل' کے بعد 'ٹائم' میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے تجارتی مفادات کے لیے فیس بک نے ہندوستان میں ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور پر بی جے پی سے جڑے ہیں۔


 فیس بک-وہاٹس ایپ-بی جے پی کنکشن: کانگریس نے ایک بار پھر مارک زکربرگ کو لکھی چٹھی

'وال اسٹریٹ جرنل' کے بعد 'ٹائم' میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے تجارتی مفادات کے لیے فیس بک نے ہندوستان میں ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور پر بی جے پی سے جڑے ہیں۔

فیس بک کے بعد وہاٹس ایپ سے بی جے پی کنکشن کی بات سامنے آنے کے بعد کانگریس جارحانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو خط لکھ کر ضروری قدم اٹھانے کی بات کہی ہے اور ایسا نہ کیے جانے پر قانونی کارروائی کی تنبیہ بھی دی ہے۔ دراصل مشہور امریکی رسالہ 'ٹائم' میں شائع خبر کی بنیاد پر کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ وہاٹس ایپ پر پیمنٹ سہولت کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے فیس بک نے بی جے پی کی انتخابی تشہیر سے جڑے شخص کو ہندوستان میں وہاٹس ایپ کا اعلیٰ افسر بنایا ہوا ہے۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ فیس بک بی جے پی لیڈروں کی ہیٹ اسپیچ یعنی سماج میں کشیدگی بڑھانے والی تقریروں پر کارروائی نہیں کرتی ہے۔ کانگریس اس سلسلے میں جے پی سی (جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی) سے جانچ کروانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔ وہاٹس ایپ-بی جے پی کنکشن کے تعلق سے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی 29 اگست کو ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ "امریکہ کی ٹائم میگزین نے وہاٹس ایپ-بی جے پی کی سانٹھ گانٹھ کا انکشاف کیا۔ 40 کروڑ ہندوستانی وہاٹس ایپ استعمال کرتے ہیں اور اب وہاٹس ایپ چاہتا ہے کہ اس سے پیسوں کی ادائیگی بھی کی جائے۔ اس کے لیے مودی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہے۔ اس لیے بی جے پی کی وہاٹس ایپ پر گرفت ہے۔"

واضح رہے کہ 'وال اسٹریٹ جرنل' کے بعد 'ٹائم' میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے تجارتی مفادات کے لیے فیس بک نے ہندوستان میں ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور پر بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں یا پھر اس کے قریب رہے ہیں۔ 'وال اسٹریٹ جرنل' نے ہندوستان میں فیس بک کی پبلک پالیسی ڈائریکٹر آنکھی داس پر انگلی اٹھائی تھی اور اب 'ٹائم' نے ہندوستان میں وہاٹس ایپ کے پبلک پالیسی ڈائریکٹر شیوناتھ ٹھکرال کو لے کر سوال اٹھائے ہیں۔

بہر حال، کانگریس کے تنظیمی جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو خط لکھ کر پوچھا ہے کہ وہ بتائیں کہ اس معاملے میں وہ کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی سماج میں نفرت پھیلانے کے الزام میں فیس بک پر قانونی کارروائی کی تنبیہ بھی دی گئی ہے۔ وینوگوپال نے دو ہفتے قبل بھی زکربرگ کو خط لکھ کر پورے معاملے کی جانچ کر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔