اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: January 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 31 January 2020

نربھیا کے مجرمین کو آج نہیں ہوگی پھانسی، آئندہ حکم تک کریں انتظار

نربھیا کے مجرمین کو آج نہیں ہوگی پھانسی، آئندہ حکم تک کریں انتظار۔
نئی دہلی :01 فروری2020
نربھیا اجتماعی آبروریزی اور قتل کے مجرمین کو پھانسی پرلٹکانےکی طےتاریخ ایک بار پھرملتوی ہوگئی ہے۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے جمعہ کو آئندہ حکم تک پھانسی پر روک لگا دی ہے۔ اب ان مجرمین کو یکم فروری کو پھانسی نہیں دی جائےگی۔ یہ دوسری بار ہےجب مجرمین کی پھانسی ملتوی کردی گئی ہے۔ اس سےپہلے 22 جنوری کی صبح 7 بجے مجرمین کو پھانسی دینےکی تاریخ طے ہوئی تھی۔ واضح رہےکہ مجرمین کی طرف سے جمعرات کو عدالت میں عرضی داخل کرکے صدر جمہوریہ کے پاس رحم کی درخواست زیر التوا ہونےکو بنیاد بنا کرپھانسی پر روک لگانےکا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس دھرمیندر رانا نے تہاڑ جیل انتظامیہ کو آرڈرکی کاپی حاصل کرنےکا حکم دیا ہے۔ عدالت نےکہا کہ اگلے حکم تک پھانسی پر روک لگائی جائے۔
1580495180141963-0
وہیں سماعت کے دوران تہاڑ جیل کے وکیل نےکہا کہ ونے کمار شرما انتظار کرسکتا ہے، لیکن باقی تین مجرم کو کل پھانسی دی جائے۔ تہاڑ جیل کے وکیل نےکہا کہ جس مجرم کی رحم کی درخواست صدر جمہوریہ کے پاس زیر التوا ہے، اسے چھوڑ کر باقی تین کو کل یعنی یکم فروری کو پھانسی دی جائے۔ تہاڑ جیل کی طرف سے پیش ہوئے وکیل عرفان احمد نےکہا کہ صرف ایک مجرم (ونے شرما) کی رحم کی درخواست زیر التوا ہے اور دیگرکو پھانسی دی جاسکتی ہے۔ انہوں نےکہا کہ اس میں کچھ غیر قانونی نہیں ہے۔ نربھیا کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ضابطہ کہتا ہےکہ جیل انتظامیہ اس سے متعلق حکومت کو میسیج بھیج کر دریافت کرےگی کہ کیا پھانسی روکی جائے۔ اگر کوئی جواب نہیں ملتا تو پھانسی کو روکا جاسکتا
رت نہیں ہے۔ اس کےلئے عدالت کے حکم کی ضر

واضح رہےکہ مجرم پون گپتا، ونےکمار شرما اور اکشے کمارکے وکیل اے پی سنگھ نے عدالت سے پھانسی پر'غیر معینہ مدت کےلئے' روک لگانےکا مطالبہ کیا۔ انہوں نےکہا کہ مجرمین میں سےکچھ کے ذریعہ قانونی اقدامات کا استعمال کیا جانا باقی ہے۔ نچلی عدالت نے17 جنوری کو معاملےکے چاروں قصورواروں مکیش (32)، پون گپتا (25)، ونے کمار شرما اور اکشے کمار (31) کو موت کی سزا دینے کے لئے دوسری بار بلیک وارنٹ جاری کیا تھا، جس میں یکم فروری کو صبح 6 بجے تہاڑ جیل میں انہیں پھانسی دینےکا حکم دیا گیا۔ اس سے پہلے7 جنوری کو عدالت نے پھانسی کےلئے22 جنوری کی تاریخ طےکی تھی۔

دہشت گردوں کی مدد کرنے کے ملزم معطل ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کے بارے میں نیا انکشاف ہوا ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق دیویندر سنگھ دہشت گرد تنظیم سے "تنخواہ” لے رہا تھا ۔

دہشت گردوں کی مدد کرنے کے ملزم معطل ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کے بارے میں نیا انکشاف ہوا ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق دیویندر سنگھ دہشت گرد تنظیم سے 
"تنخواہ” لے رہا تھا ۔
نئی دہلی :01 فروری 2020 
11 جنوری کو دہشت گرد نوید مشتاق کی مدد کیلئے گرفتار دیویندر سنگھ کے اس معاملہ کی جانچ قومی جانچ ایجنسی ( این آئی اے ) کررہی ہے ۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دیویندر دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کو مدد کرنے کیلئے "تنخواہ” لیتا تھا ۔
1580494248072071-0
بتادیں کہ حزب المجاہدین کے ہی دہشت گرد نوید مشتاق کے ساتھ دیویندر کو 11 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا ، جس کے بعد اس کو معطل کردیا گیا ۔ اخبار نے دعوی کیا ہے کہ دیویندر نے نہ صرف نوید کو ٹرانسپورٹ کرنے اور چھپنے کیلئے جگہ دینے کیلئے حزب المجاہدین سے پیسے لئے ۔ بلکہ پورے سال مدد کرنے کیلئے بھی پیسے لیتا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق ایک افسر نے بتایا کہ جب دیویندر پکڑا گیا تب وہ نوید کو جموں لے کر جارہا تھا ، جس کے بعد نوید وہاں سے پاکستان جاتا تھا۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سی ا ے اے کے خلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد ! جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر ایک وفد نے اترپردیش کے مختلف شہروں میں مغموم اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعاون پیش کیا ، وکلاء پینل کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا نئی دہلی ۔31 جنوری 2020

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سی ا ے اے کے خلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد !
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر ایک وفد نے اترپردیش کے مختلف شہروں میں مغموم اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعاون پیش کیا ، وکلاء پینل کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا
نئی دہلی ۔31 جنوری 2020
اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعیۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل ، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲؍جنوری ۲۰۲۰ء کو جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا ، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی ۔

جمعیۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعیۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد ، بجنور میں محمد سلیمان ، محمد انس ( نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال ،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید ،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے ۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعیۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے ۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery) )نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے ۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔

مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعیۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری ،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی ،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے ، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میںریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔ آج جب وفد نے مظفر کا دورہ کیا تو اس میں ضلع سے ڈاکٹر جمال الدین قاسمی ، قاری ذاکر،قاری عبدالماجد، مولانا ارشد،قاری محمد صادق، قاری محمد عادل، مولانا محمد موسی قاسمی، حافظ اکرام،حاجی عبدالقیوم ،مولانا گلزار، محمد افضال منشا بھی شریک تھے جب کہ رامپور میں محمود الظفرحمانی، اسعد الظفر رحمانی، مولانا محمد ساجد قاسمی، مولانا لیاقت علی قاسمی، مولانا محمدعرفان قاسمی وغیرہ شریک تھے ، اسی طرح میرٹھ میں قاری امیر اعظم، مولانا سلمان ، حافظ شبیر، یوسف قریشی ، قاضی زین الراشدین ، ایڈوکیٹ ریاست علی اورسنبھل میں مولانا ندیم ،حافظ شاہد، مولانا تنظیم ، مولانا نجیب قاسمی وفد کا حصہ رہے ۔
ِّّّ

مسلمانوں کے لیے سیاست کیوں ضروری ہے ؟ از قلم :تنویر عالم دربھنگوی متعلم دارالعلوم وقف دیوبند

مسلمانوں کے لیے سیاست کیوں ضروری ہے ؟
از قلم :تنویر عالم دربھنگوی
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند


یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام میں سیاست کو یکتا ومنفرد حیثیت حاصل ہے اور یہ کافی اذیت ناک عنوان ہے جودل کو تڑپا دیتا ہے ہے ،آنکھوں کواشکبار کریتاہے۔اس لئے اس موضوع پر کچھ لکھنا،گویا کہ اپنے دردکے ساز کو چھیڑ نے، بلکہ اپنے دل کے زخموں سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔یہ موضوع ہمیں حال کے حالت زار پر رلاتاہے،تو دوسری طرف گلستان ماضی کی سیر بھی کراتاہے ۔جب بات عصر حاضر میں لوگوں کی حالت وکیفیت کی آتی ہے خیر میں آپ کو بتادوں، کہ لفظ سیاست کے معنی انتظام وانصرام کے ہیں،اور اسلام نام ہے موالید ثلاثہ(شریعت،طریقت اور سیاست )کا یہ تین چیزیں اکھٹی ہونگی، تواسلام بنیگا اور سیاست علم حکمت کا وہ گوشہ ہے، جوذاتی حالات اور خاندانی نظام سے اٹھ کر ملکی نظام کے استحکام، امن و امان کا قیام، جرائم کی روک تھام،اور مجرموں کو کیف کردار تک پہونچانے، نیز عوام کو بہتر سے بہتر مواد اور سہولیات فراہم کرنے کا ۔دین کا سیاست سے اس قدر گہرا تعلق ہے، جیسا کہ عین نماز کا رکوع اور سجدہ سے ۔علم سیاست کوئی جدید علم نہیں؛بلکہ یہ ایک پرانا اور قدیم علم ہے جس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ  نَبيٌّ آخر،وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، کہ بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتےتھے،جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہوجاتے،تو دوسرے ان کی جگہ آموجود ہوتے، لیکن یادرکھو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔دوسری جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية" (مسلم) کہ اس شخص کی موت جہالت کی موت ہے جو سیاست سے کنارہ کش ہوجائے اور کسی قائد یا حکمراں کی حمایت کیلئے کمر بستہ نہ رہے؛ یہی وجہ ہے کہ سیاست کو دین کا مقصود اصلی قراردیتے ہوے کہا گیا، کہ سیاسی جدوجہد میں تھوڑے بہت مکروہات کا بھی ارتکاب ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں، سیاست کے تعلق سے اسلام نے بہت سے احکام عطافرمائے ہیں ۔اسی کے پیش نظر یہ بات کہی گئی کہ قیادت وسیادت مسلمانوں کے خمیر کا عنصر ہے اور ان ان کا سیاست میں حصہ لینا ان ملی وہ دینی فریضہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے اسلاف واکابر کی شاندار روایات کا اہم حصہ اور ان کا ورثہ بھی ہے۔          جی ہاں جب سیادت وقیادت اسی اسلام کے ماننے والوں کے ہاتھوں میں تھی تو اقوام عالم انہیں سلامی دیتی تھی جن کے حکم کی تابعداری جنگل کے بے زبان جانوروں نے کی تھی ۔لوگوں کی زندگی مسرتوں وشادمانی سے لبریز تھی ان کے رخساروں کی تابندگی کبھی مایوسی میں تبدیل نہیں ہوئی۔   یہی وجہ ھیکہ کامیابی وکامرانی ان کا استقبال کرتی تھیں ۔وہ جن راستوں سے گزرتے فضائیں ان کے کردار وعمل کی خشبو سے معطر ہوجاتی تھیں، جس کی بستی اور آبادی میں داخل ہوتے وہاں کے باشندے ان کا خیر مقدم کرتے تھے، کیالوگ تھے جو راہ وفاسےگزرگئے    جی چاہتا ہے نقش قدم چومتا چلوں
حیف صد حیف! عصر حاضر میں اسی اسلام کے ماننے والوں کی حالت وکیفیت ان کے بالکل برعکس ہے
 آج! ضرورت ہے قوم وملت کو ایک ایسے مسلم رہنما اور لیڈر کی جوعوام کو ملی انتشار اور گروہی اختلافات سے ہٹ کر رنگ و نسل اور مذہب وملت کی تفریق کو مٹاکر انہیں اتحاد واتفاق کے ایک پلیٹ فارم پر لا سکے، ملک سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر کے امن و آشتی کا پرچم لہراسکے
ازقلم محمد تنویر عالم دربھنگوی

بجٹ اجلاس: صدر نے سی اے اے کو بتایا حکومت کی اہم کامیابی، حزب اختلاف کا ہنگامہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اپنے خطاب کے دوران شہریت ترمیمی قانون کو مودی حکومت کی اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے حکومت نے مہاتما گاندھی کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے


بجٹ اجلاس: صدر نے سی اے اے کو بتایا حکومت کی اہم کامیابی، حزب اختلاف کا ہنگامہ

صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اپنے خطاب کے دوران شہریت ترمیمی قانون کو مودی حکومت کی اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے حکومت نے مہاتما گاندھی کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے

نئی دہلی: بجٹ اجلاس سے قبل صدر رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اس دروان انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کو مودی حکومت کی اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے حکومت نے مہاتما گاندھی کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اپنے خطاب کے دوران شہریت ترمیمی قانون کا ذکر کیا تو برسر اقتدار نے میز بجا کر اس کا استقبال کیا جس سے مرکزی ہال کی گونج اٹھا اور صدر کو اپنے خطاب کے دوران کچھ دیر کےلئے رکنا پڑا لیکن اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے خطاب میں رخنہ پڑا۔
کووند نے پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے پہلے دن دونوں ایوانوں کی مشترکہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے صدر بابائے قوم مہاتما گاندھی کو یاد کیا اور پارلیمنٹ میں پچھلے دنوں پاس شہریت ترمیمی قانون کا ذکر کیا جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی استحصال کی وجہ سے 31دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے ہندو،سکھ،جین،بودھ،عیسائی اور پارسی طبقے کے لوگوں کو شہریت دینے کا التزام ہے۔
ویڈیو گریب
ویڈیو گریب
اس کے ذکر پر وزیراعظم نریندرمودی سمیت پوری برسراقتدار پارٹی نے دو بار زوردار طریقے سے میز تھتھپاکر خیر مقدم کیا۔ تقریباً ڈیڑھ منٹ تک مرکزی ہال میں ان کے میز تھپتھپانے کا شور گونجتا رہا۔ اس وجہ سے صدر کو تین بار رکنا پڑا۔ اس پر اپوزیشن نے احتجاج کے طورپر شور مچایا جس کی وجہ سے ایک بار پھر خطاب میں رخنہ پڑا۔
قبل ازیں، وزیراعظم نریندرمودی نے جمعہ کو امید ظاہر کی کہ پارلیمنٹ کا آج سے بجٹ اجلاس شروع ہورہا ہے جو ملک کے روزشن مستقبل کی بنیاد ڈالنے والا ہوگا اور ان کی حکومت کا زور دلتوں،محروموں،خواتین کے بااختیار بنانے پر ہوگا۔
تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
مودی نے یہاں پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں نامہ نگاروں سے کہا ’’یہ اس سال کا اور اس دہائی کا پہلا اجلاس ہے۔ ہماری کوشش رہنی چاہئے کہ اجلاس دہائی ملک کے روشن مستقبل کےلئے مضبوط بنیاد ڈالنے والا اجلاس بنا رہے۔ہماری حکومت نے اب تک دلتوں، مظلوموں، محروموں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت کام کیا ہےاور اس دہائی میں بھی ہماری یہی کوشش رہے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں زیادہ سے زیادہ اقتصادی موضوعات پر بحث ہوگی۔یہ یقینی بنایا جانا چاہئے کہ عالمی اقتصادی حالات کا ہندوستان کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے،موجودہ عالمی صورت حال کا فائدہ ہندوستان کو کیسے مل سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں اجلاس میں لوگوں کو اقتصادی طورپر بااختیار بنانے پر وسیع بحث ہونی چاہئے

ماؤں کو اپنے انڈروائڈ فون پر توجہ دینے کے بجائے اپنے بچوں کی تربیت میں زیادہ وقت دنیا چاہیے تحریر ✍️: وزیر احمد مصباحی رکن:تنظيم حافظ ملت اسلامیہ، بانکا (بہار)

ماؤں کو اپنے انڈروائڈ فون  پر توجہ دینے کے بجائے اپنے بچوں کی تربیت میں زیادہ وقت دنیا چاہیے

تحریر ✍️: وزیر احمد مصباحی
رکن:تنظيم حافظ ملت اسلامیہ، بانکا (بہار)
رابط نمبر :6394421415
Wazirmisbahi87@gmail.com
           لفظ "ماں" اس خوبصورت و دلکش انسانی وجود کا نام ہے جس کے دامن میں پیار و محبت اور ایثار و ہمدردی کی عظیم داستان پنہا ہے. انسانی وجود کو شفقت و مہربانی کی جو دلفریب خوشبو اس کے آنچل سے ملتی ہے وہ شاید ہی کہیں اور میسر ہو. یقیناً یہی وجہ کہ ایک ماں اپنے بچے کی کامیابی و کامرانی کے لیے جتنے جتن کرسکتی ہے،کوئی دوسرا اس طرح شاید ہی کر سکے. اللہ رب العزت نے ماں کے مراتب کو کافی بلند کیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی بندہ اپنی ماں کی زندگی بھر خدمت کرتا رہے اور اسے منانے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اللہ رب العزت ایسوں کو دارین کی ساری فلاح و ظفر سے ہمکنار فرما دیتا ہے. واقعی بچوں کی نشو و نما اور ان کی درست تعلیم و تربیت میں ایک ماں کا کردار بہترین رول ادا کرتا ہے.
            آپ دور قدیم کا مطالعہ کریں اور حال کے جھروکوں سے ماضی کی دہلیز پر ایک تحقیقی و معلوماتی نگاہ دوڑائیں تو پھر معلوم ہوگا کہ ماں اپنے بچوں کے خوشگوار مستقبل کے دھن میں اس کے سادہ سی سلیٹ جیسے ذہن پر اپنی عمدہ و نفیس تربیت کا ایسا گہرا نقش چھوڑتی  تھی کہ پھر بچہ آگے چل کر انسانیت کا حسین پیکر اور بڑھاپے کا معتمد علیہ سہارا بن کر ابھرتا تھا. آج کی طرح اگرچہ اس دور کی مائیں زیادہ پڑھی لکھی اور حالات کے نشیب و فراز اور اس کے تقاضوں سے زیادہ واقف نہیں ہوتی تھیں لیکن پھر بھی وہ اپنے دلکش اور سادگی بھرے لب و لہجے میں اپنے پلاسٹک ذہن اولاد پر حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار کا ایسا تاج محل تعمیر کرتی تھیں کہ پھر اس کی چمک دمک زندگی کے ہر شعبے میں بخوبی جھلکتی تھی. شاید ماؤوں کے اپنے بچوں تئیں اسی نتیجہ اخلاص و وفا کو دیکھ کر یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ایک ماں کی ممتا کو دنیا کی کوئی شی ان کے اپنے جگر گوشوں سے جدا نہیں کر سکتیں... مگر افسوس کہ آج جب ہم ماضی کے روشن جھروکوں سے حال کی طرف نظر کرتے ہیں اور جائزہ لینے کی زحمت کرتے ہیں تو پھر اس معاملے میں ہمیں سواے تحیر و تحسر کے کچھ اور ہاتھ نہیں آتا. حالات زمان کی ستم ظریفی تو دیکھیے کہکہ دور جدید کی یہ ماڈرن مائیں سوشل میڈیا کی رنگین فضاؤں میں راحت کی سانس تو لے لیتی ہیں لیکن اکثر رات کی تاریکیوں میں بچے میٹھی میٹھی لوریوں اور پیار بھرےتھپکیوں کے لیے بلکل ترس جایا کرتے ہیں. جی ہاں! یہ کرشمہ ہے واٹش ایپ ، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے نیے نیے ایجادات کا. یہ سچ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا نے انسانی حیات سے اپنا ایک اٹوٹ رشتہ قائم کر لیا ہے اس کی مدد سے بڑے سے بڑا کام چند لمحوں میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے. لیکن پھر بھی یہ بات ایک مہذب معاشرہ اور ہندوستانی تہذیب و تمدن اور اور اس کی خوبصورت ریت و رواج کے لیے ضرور خلاف اولی ہے کہ ایک ادھیڑ عمر کی ماں پر چیٹنگ کا بھوت اس طرح سوار ہو جائے کہ سوشل میڈیا کی رنگین فضاؤں میں اپنے جگر کے ٹکڑوں تک کو بھول جایا کرے. بچے ٹرین کی بوگی میں جھپکیاں لیتے لیتے تھک جایا کریں اور بعد میں جب اسی ماں کی آنکھ پر غلبئہ نیند وار کرنے لگے تو وہ خود سُرمئہ خواب سجانے کے لیے اپنے معصوم معصوم بچوں کے نرم و نازک زانوؤں کو بحیثیت تکیہ استعمال کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کرے. سچ پوچھیں تو ایسے موقعوں پر یہ ایک دردناک سوال سر ابھارتا ہے کہ کیا اب سوشل میڈیا میں وہ نشہ بھی آ گیا ہے کہ وہ ایک ماں کو اس کے اپنے بچوں تک سے بےپرواہ کر دے؟؟؟ جوابا عرض ہے کہ ہاں! اب تو اس میں یہ دم خم بھی موجزن ہوتا چلا جا رہا ہے. اس تلخ حقیقت کا اعتراف مجھے اس وقت کرنا پڑا جب ابھی چند دنوں قبل میں دوستوں کی معیت میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور آنے کے لیے ایک لوکل ٹرین میں سوار تھا. جب سمستی پور اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اپنے تین چھوٹے ننھے منھے بچوں اور رختِ سفر کے ساتھ ایک جنرل بوگی میں سوار ہوئی اور پھر چند ہی لمحے بعد اس نے سوشل میڈیا سے اپنے قلبی لگاؤ کی بنا پر بچوں کے تئیں ان تمام ناپسندیدہ اوصاف کا اس طرح اظہار کیا کہ ذہن و دماغ بلکل ماؤف ہو کر رہ گیے. دریچئہ ذہن میں بس ایک ہی سوال بار بار کچوکے لگاے جا رہا تھا کہ کیا مائیں اب ایسی بھی ہونے لگی ہیں؟ کیا بچوں تئیں ماؤوں کے جو شفقت بھرے داستان دامنِ تاریخ میں ثبت ہیں، وہ بس یوں ہی قصئہ پارینہ کی متحمل ہیں اور کیا اس کی کوئی حقیقت نہیں ؟
              ہاں! یہ سچ ہے کہ آج دنیا کے اکثر افراد سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں. وطن عزیز بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہے. ہر طبقہ یہاں اپنا اچھا خاصا وقت صرف کر رہا ہے . صبح و شام ہر وقت ان کا دھیان سوشل میڈیا میں لگا رہتا ہے، بالخصوص نوجوان نسل کے ذہن و دماغ پر تو سوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہو چکا ہے. دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ کے باوجود بھی جب تک وہ سوشل میڈیا پر کچھ وقت نہیں گزار لیتی تب تک اسے نیند ہی نہیں آتی. آج زمانے کی تھپیڑوں نے تقریباً ہر انسانی ذہن و دماغ پر ایسا وار کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسے عظیم ذرائع ابلاغ کی بدولت کار خیر کی انجام دہی کے بجائے برائیوں اور فحاشیوں کے فروغ میں اپنے قیمتی اوقات صرف کر رہے ہیں.
          صاحبو! متذکرہ بالا تمام باتوں سے یہ نتیجہ ہرگز نہ اخذ کیا جائے کہ سوشل میڈیا کا استعمال غلط ہے اور ہماری ماؤں و بہنوں کو اس سے کوسوں دور و علاحدہ رہنا چاہیے. نہیں،اس کا مطلب یہ نہیں. بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ سوشل میڈیا کا استعمال کریں لیکن جائز حد تک. غلط چیزوں کی تشہیر میں وقت گزاری نہ کریں. والدین سوشل میڈیا سے اپنے محبت کا دم بھرنے اور اس کے ثبوت میں زور صرف کرنے کے بجائے بچوں کی درست تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کریں جو بلکل عین حقیقت بھی ہو. اسے انٹرنیٹ سے نہ جوڑیں اور نہ ہی اس کے تفریح کے لیے کھلونے کے طور پر اسمارٹ فون کا استعمال کریں. اس لیے کہ یہ سوشل میڈیا جہاں اپنے آپ میں مفید ہے وہیں حد درجہ مضر و خطرناک بھی. اور ہاں! یہ حقیقت بھی اکثر تجربہ سے گزرتی ہے کہ طفلانہ ذہن کسی شی سے استفادہ کرنے اور اسے مثبت پیمانے پر پرکھنے کے بجائے اس کے منفی پہلو میں اپنی دلچسپی کا کچھ زیادہ ہی اظہار کرتا ہے.یاد رکھیے! اس مفاد پرستی کے دور میں اگر والدین ہی ان کی تربیت سے آنکھیں چرانے لگے اور تساہلی و تغافلی کا شکار ہو جائیں تو پھر یہ قوی اندیشہ ہے کہ بچہ قبل از وقت ہی اپنی ساری صلاحتیوں کا جنازہ نکال دے یا یہ خدائی قوتیں خود بخود ٹھٹھر کر منجمد ہو جائیں اور وہ تعظیم و تکریم کے اعلی دروس سے واقفیت حاصل کرنے کے بجائے برائیوں و فحاشیوں سے ایسا رشتہ و ناطہ جوڑ لے کہ پھر اسے راہ راست پر لانا ایک مشکل اور لا ینحل مسئلہ بن جائے. اس لیے دور جدید کے تمام والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بےکار وقت گزاری کرنے کے بجائے زیادہ تر اوقات اپنے بچوں اور جگرپاروں کی صحیح تعلیم و تربیت اور اسے ایک فرشتہ صفت انسان بنانے میں لگائیں، (ہاں! آپ کے توجہ سے تو ایک نسل سنور سکتی ہے) تا کہ آئندہ ہمارے یہ بچے اعلی اور پسندیدہ اخلاق و کردار کا مالک بن سکے. اور ہمارا یہ آج کل کا زوال پذیر معاشرہ جو رواں دور میں مکمل طور سے سوشل میڈیا کے حصار میں آ چکا ہے، یہ اس سے نجات حاصل کر سکے اور نئی نسل کے نوجوان اس سے استفادہ میں مستقیم شاہراہ پر چل سکے. تا کہ وطن عزیز جلد از جلد عالمی سطح پر اپنی ترقیوں کے سنہرے خواب شرمندہ تعبیر کر سکے اور ہم ہندوستانی پوری دنیا میں اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب و ظفریاب ہو سکیں...(انشاءاللہ)

*کیا"شاہین باغ"کا پرامن احتجاج بغاوت ہے*؟ *اب تو اخبار بھی پڑھتے ہوئے ڈر لگتاہے* تحریر: *سرفراز احمدالقاسمی حیدرآباد*

*کیا"شاہین باغ"کا پرامن احتجاج بغاوت ہے*؟

*اب تو اخبار بھی پڑھتے ہوئے ڈر لگتاہے*


تحریر:
*سرفراز احمدالقاسمی حیدرآباد*

26جنوری اتوار کادن تھا،اس دن زیادہ مصروفیت کی وجہ سےصبح کوئی اخبارنہیں دیکھ سکا تھا،جب اپنی مصروفیات سے فارغ ہواتو اس وقت عصر کاوقت ہورہاتھا،خیرعصر کی نماز پڑھی اورنمازکے بعد کچھ دوستوں سے ملاقات کاتقاضہ  پہلے سےطےتھا،نمازکے بعد ملاقات کی غرض   سےمسجد سےباہرنکلا اورموبائیل کھولاتو سوشل میڈیا پرایک 'اردو اخبار'کے بائیکاٹ کی مہم بڑی تیزی سے چل رہی تھی،ابتدائی مرحلےمیں تو نہیں سمجھ سکاکہ آخراس مہم کی'وجہ'کیاہے؟لیکن تھوڑی ہی دیرکے بعد معلوم ہوگیاکہ اس اخبار کے سی او نےآج اپنے اخبارمیں کوئی 'متنازع'آرٹیکل لکھاہے جسکی وجہ سے سوشل میڈیا پراس اخبارکے بائیکاٹ کی تحریک سرگرم ہے،اس وقت میرے پاس اخباربھی نہیں تھاتاکہ میں بھی اسی وقت پڑھ لیتاکہ آخراس آرٹیکل میں کیالکھاہے؟میں چونکہ گھرسے باہرشہر میں تھااوراس وقت اخبار پڑھنے کاموقع بھی نہیں تھا، خیر،ایک دوگھنٹے کے بعد جب میں گھرآیاتو سب سے پہلے اسی اخبارکے"متنازع آرٹیکل"کوایک نظردیکھا،اس آرٹیکل کودیکھنے کےبعد پہ محسوس ہواکہ ایک اردو کے بڑے اخبار کے ایڈیٹر نےجومضمون لکھاہے،اس میں انتہائی جانبداری اورایک خاص کمیونٹی پربھڑاس نکالنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے،مضمون میں حقائق کوچھپاکربکواس کیاہے،جویقینا قابل مذمت ہے،اس تحریر کولکھنے والا'نام نہاد صحافی'ہے جوصحافت کے نام پردلالی اورجی حضوری میں لگاہواہے،ایسے لوگ یقیناً صحافت کی پیشانی پربدنماداغ ہے،بھلا صحافت جیسے مقدس پیشے کوبدنام کرنے کےلئے اس طرح کی غلط بیانی اورہرزہ سرائی بڑی تکلیف دہ ہے،اس نے اپنے آرٹیکل میں کیالکھا ہےہم آگے اس تحریر سے آپکوواقف کرائیں گےاوراسکا جائزہ بھی لیں گے،مذکورہ ایڈیٹر پر یہ الزام  بھی ہے کہ اس نے کوئی پہلی بار اس طرح کی تحریر لکھ کر زہرنہیں اگلا ہے بلکہ وہ گذشتہ کئی ماہ سےا پنے ہرمضمون میں حکومت کی چاپلوسی،غلط بیانی اورہرزہ سرائی کرتاہے،لیکن افسوس اتنے دنوں میں کسی نے اسکا نوٹس نہیں لیا،گذشتہ کئی ماہ سے یہ صاحب اپنا کالم اس اخبار کےادارتی صفحہ پرشائع کرتاہے اورنمایاں عنوان کےساتھ،یہ اس تحریر کو جگہ دیتاہے،میڈیا اور صحافت جمہوریت کاچوتھا اور اہم ستون سمجھا جاتاہے،لیکن یہی میڈیا گذشتہ کئی سال سے اپنی ذمہ داریوں سےفراراختیار کرچکاہے،میڈیا کاکام تو عوام کو صحیح اور درست حالات سے واقف کرانا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ ان دنوں ملک کامیڈیا ضمیر فروش ہوچکاہے اور اپنے ضمیرکو گروی رکھ چکاہے،دوٹکوں کے واسطے حکومت کی غلط اقدام کی پردہ پوشی اور جی حضوری اب ملکی میڈیا کا"شعار"بن چکاہے،جب میڈیا غلط کو غلط کہنے کے بجائے درست کہنے کےدرست کہنے لگے اور اہم مسائل کودرکنار کرکے صرف اورصرف غلط بیانی، جھوٹ اورچاپلوسی پراترآئے تو آپ جانتے ہیں اسکا انجام کتنا خطرناک ہوگا،اور ملک کی حالت کیاہوگی ہم اور آپ اس کاتصور بھی نہیں کرسکتے،الیکٹرانک میڈیا تو گذشتہ کئی سالوں سے یہی کررہاہے،لیکن پرنٹ میڈیا ابھی کچھ غنیمت ہے،اب" اردو میڈیا" بھی اسی راستے پرچلنے لگاہے جسکا واضح ثبوت اردوکے دو بڑے"اخبار"ہیں،آج میری تحریر ان دونوں بڑے اخباروں میں سے'ایک'ہے،یہ اخبار بھارت کے تقریباً دس شہروں سے بیک وقت دس ایڈیشن شائع ہوتاہے جوملک کا"دوسرابڑااردواخبار"ہے اس اخبار کی حالت ان دنوں یہ ہے کہ ہرمہینے دومہینے میں اس کاایڈیٹر چینج ہوتارہتاہے،مطلب جس ایڈیٹر کی تقرری،یہ اخبار کرتاہے اگروہ اسکے"سنگھی اورخفیہ"ایجنڈے پرعمل نہ کرے توپھراس ایڈیٹر کی فوری چھٹی کردی جاتی ہےاوراسکی حق گوئی و حق بیانی کی وجہ سے باہر کاراستہ دکھادیاجاتاہے،جبکہ اس اخبار کے 90 پرسنٹ قارئین ایک خاص  کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں،اسکی آفس میں کام کرنے والے اکثراسی کمیونٹی کےیعنی مسلمان ہیں،اس  میں  ایڈدینےوالا ایک ببڑاطبقہ بھی اس ک میونٹی سے تعلق رکھتاہے،پھر سوال یہ ہے کہ آخر یہ اخبارمسلمانوں کے خلاف ہی کیوں لکھ رہاہے؟ کیاآپ کو نہیں لگتاکہ اخبارکے ذریعے گمراہ کیاجارہا ہے؟ آپ اس اخبارکےپڑھنے اور نہ پڑھنے پر غور تو کرہی سکتے ہیں،اگر آپ اخبار کے مطالعہ کے شوقین ہیں اور اخبار پڑھناآپ کی زندگی کا حصہ ہے تو پھراپنی پسند کو تبدیل کرہی سکتےہیں،ایسے اخبار کو آپ خریدئیے جو غیرجانبدارہو،درست معلومات آپ تک پہونچائے،وہ اخبار حق بیانی اور سچ بیانی سے کام لیتاہو،اپنے صحافتی معیار کوبرقراررکھتاہواس پرکسی قسم کی سودے بازی نہ کرتاہو،ایسے اخبار کوآپ ترجیحی بنیاد پراپنی پسند کاحصہ بنائیے،ملک بھرمیں ایسے چھوٹے چھوٹے اخبار ابھی تقریباً ہرشہر میں شائع ہوتےہیں،جسکے پآس وسائل کم ہیں لیکن وہ صحافتی اقدارسے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے،ایسے اخبارات کاہمیں تعاون کرناچاہئے،آئیے دیکھتے ہیں کہ اس اخبارکا"نام نہاد ایڈیٹر"اور سی او نے اپنے آرٹیکل میں کیالکھاہے؟"جمہوریت میں بدامنی کی اجازت نہیں"اس عنوان سے یہ تحریر شائع ہوئی ہے،جس میں صاحب تحریر کانام"اپندررائے"ہے،انھوں نے اپنے مضمون میں عجیب وغریب"گل"کھلائے ہیں،جمہوریت کاتعارف کراتے ہوئے یہ صاحب اپنی تحریر کاآغاز کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ"جمہوریت ایسا حکمرانی کا نظام ہے،جس میں عوام کو سب سے اوپر رکھا گیاہے،اسی طرح تمام حکمرانی کےنظاموں کے مقابلے جمہوریت کی کشش کو سب پرفائق سمجھا گیاہے،آزادی کی سات دہائیوں سےبھی زیادہ وقت گذرجانے کےبعد تمام چیلنجوں سے گذرتے ہوئے نہ صرف جمہوریت کی کشش برقرار ہے،بلکہ اس میں پہلے سے کہیں زیادہ بہتری آئی ہے"اس اقتباس کے آخری لائن پرغور کیجئے اورسرپیٹئے،اس مضمون نگارکو یہ بھی بتانا چاہئیے تھاکہ
پہلے سے زیادہ کیابہتری آئی ہے؟اورجمہوریت کی کشش کس اعتبار سے برقرار ہے؟جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہرآنے والا دن،جمہوریت کے شرمناک ہوتاجارہاہےاورجمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے،پھرایسے میں یہ دعویٰ کرنا کہ جمہوریت کی کشش برقرار ہےاوراس میں مزید بہتری آئی ہے،یہ نری جہالت ہے یاپھر صریح  دروغ گوئی؟ابھی اس وقت جبکہ یہ تحریر لکھی جارہی ہے، جامعہ ملیہ میں  پرامن طور پراحتجاج کررہے مظاہرین پرپولس کی موجودگی میں"گوپال رام بھکت"نامی دہشت گرد نے فائرنگ کردی جس سے ایک طلبہ زخمی ہوگیا،اورتھوڑے ہی فاصلے پرکھڑے ہوئےپولس کاعملہ اسکے فائرنگ کاانتظار کرتارہا،کیایہ جمہوریت کی کشش ہے؟اسی دہلی میں ڈیرہ ماہ قبل، دہلی پولس نے جےاین یو اورجامعہ ملیہ میں حیوانیت کاننگاناچ کیاتھا،یوپی میں پولس کے ذریعے درندگی کامظاہرہ کیاگیا،20سے زائد لوگوں کویوپی پولس نے گولیوں کانشانہ بنایا،جسکے نتیجےمیں وہ لوگ اپنے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،کیایہ سب جمہوریت کی کشش ہے؟ اگریہ چیزیں، اس طرح جاہل مضمون نگار کی نظر میں جمہوریت ہے توہمیں ہرگزایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں،کچھ آگے چل کر'اپندررائے'جی لکھتے ہیں کہ"ملک کی راجدھانی،دہلی کے شاہین باغ علاقے سے اٹھ رہی اختلاف رائے کی آواز میں خطرے کی یہ آہٹ سنائی دینے لگی ہے،شاہین باغ کی مسلم خواتین کی یہ تحریک اس خوف میں اپنی زمین تلاش رہی ہے کہ شہریت قانون میں تبدیلی اور این آرسی دونوں مسلمانوں کواس ملک سے بےدخل کرنے کےلئے لائے جارہےہیں،تقریباً سات ہفتے قبل شروع ہوئی یہ مخالفت،ہٹ دھرمی کی حدتک پارکرکےاب 'بغاوت' کی جانب بڑھ رہی ہے،ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ تفریق نہ ہونے دینے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی یقین دہانی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سنوائی شروع ہوجانے کے باوجود اگرعدم اعتماد کاجذبہ برقرار رہتاہے تواسے بغاوت نہیں توپھر کیا کہاجائے"اب آپ اس پر جتنا ماتم کرلیجئے کم ہے،اسے احتجاج اور بغاوت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا،افسوس ہے ایک ایسا جاہل شخص ایک بڑے اخبار کاایڈیٹر اورسی او کس طرح بنادیاگیا؟احتجاج  اور بغاوت میں فرق سمجھنے کےلئے کم ازکم وہ کسی اردو ڈکشنری کاہی مطالعہ کرلئے ہوتےتو پھراس طرح کی جہالت کاثبوت نہ دینا پڑتا،بھلا بتلائیے وہ شاہین باغ جہاں تقریباً گذشتہ پچاس دنوں سے پرامن طورپر احتجاج ہورہاہے،نہ وہاں اب تک کوئی ایک زخمی یاکسی کے پاس ہتھیار وغیرہ کی کوئی خبر بھی نہیں،پھرآخرکس بنیاد پر وہ اس پرامن احتجاج کو 'بغاوت'کہہ رہے ؟کیایہ صریح جھوٹ اور افتراء پردازی نہیں ہے؟ایسے نام نہاد ایڈیٹر کی نظر میں شاہین باغ کااحتجاج'بغاوت'ہے تو2016 میں جاٹ ریزرویشن کی آگ میں ملک کاایک بڑا حصہ جل رہاتھا،اوراس مطالبہ کےدرمیان پیش آنےوالےشدید تشدد اور لوٹ مارکے واقعات کو کیاکہاجائےگا؟اس تحریک کے مضراثرات پرایک نظر ڈالئے جس میں،میڈیا کے مطابق 5سے 7ریلوے اسٹیشن تباہ کردئیے گئے،جسکے نتیجے میں تقریبا 200کروڑ کا نقصان ہوا،800  کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئی،اس سے ریلوے کو ہونے والی آمدنی کااندازہ لگایا جاسکتاہے،بہت سی بسیں اورسرکاری دفاتر کو نذرآتش کردیاگیا،بہت سی سڑکیں کھوددی گئیں،یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا،ریاست کا پورے ملک سے رابطہ تک ٹوٹ گیاتھا،9دن تک یہ تحریک چلی اگراور زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیاہوتا،500 سے زیادہ دکانیں،1000 سے زائد گاڑیاں نذرآتش کی گئی،انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے،ٹرانسپورٹ اورمالی خدمات سمیت 18ہزار کروڑ کانقصان ہوا،صنعتی اور زرعی،کاروباری سرگرمیوں،بجلی اور کھانے پینے کی اشیاء کو پہنچنے والا نقصان 12 ہزار کروڑ تک ہے،بس اسٹینڈ،ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے  کی سہولیات کو نقصان پہونچنے سے4ہزار کروڑ کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوایعنی ملک پر چوتیس ہزار کروڑ کا بوجھ پڑا،2014 میں مودی اقتدار میں آئے اور 2016 میں جاٹوں کی یہ تحریک شروع ہوئی جس نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک انکی ذاتی تحریک اورریزرویشن کو لیکرتھی،لیکن شاہین باغ تحریک پورے ملک کےلئے ہےاور اس تحریک میں ہرقوم وملت کے لوگ شامل ہیں،سوال یہ ہے کہ اگر شاہین باغ کا احتجاج بغاوت ہے توپھرجاٹ تحریک کی پرتشدد واقعے کوکیاکہاجائےگا؟اسی طرح چندماہ قبل بابارام رہیم کی گرفتاری کے موقع پر ڈیرہ سچا سودا اورآس پاس کے دیگر شہروں میں جوپرتشدد واقعہ پنجاب اورہریانہ کے مختلف شہروں میں ہوا اوراسکے نتیجے میں جوہزاروں کروڑ کانقصان ہوا اسکو کیا کہا جائےگا؟
خرد کانام جنوں رکھ دیا،جنوں کانام خرد
جوچاہے آپ کاحسن کرشمہ سازکرے
اوپر کے اس اقتباس میں دیکھاآپ نے کس طرح صاحب تحریر نے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے،یہ کہتے ہیں جب وزیراعظم نے یقین دہانی کرادی تواب یہ ہٹ دھرمی اورمخالفت کی حد پارکرکےاحتجاج 'بغاوت'کی جانب بڑھ رہاہے،سوال یہ ہےکہ وزیراعظم نے کیا یقین دہانی کرائی؟اورکیسے لوگ وزیر اعظم کی بات پراعتبارکرلیں،جب کہ وزیراعظم کاحال یہ ہے 2014 سے لیکر اب تک بےشمار جھوٹ اورسفید جھوٹ تک بغیر کسی شرم و حیاء کے بولاہےایسے وزیر اعظم کی یقین دہانی کو کیسے قبول کرلیاجائے،ملک کا شاید یہ پہلا وزیر اعظم ہے جو ہردن ایک نیاجھوٹ بولتاہے،دہلی کےرام لیلا میدان میں انھوں نے کہاکہ" این آرسی پراب تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے"اگر بات چیت نہیں ہوئی تو پھر وزیرداخلہ نے کم ازکم 9بار ایوان  اورایوان سے باہر یہ باربار کہاکہ این آرسی پورے ملک میں ہوگا،پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ نے بھی وزیر داخلہ کی بات کہی تھی،اب مضمون نگار کویہ تو وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ آخرسچ کون بول رہاہےاور جھوٹ کون؟تب جاکریقین دہانی پراعتبارکیاجائےگا،پندرہ لاکھ سے لیکرنوٹ بندی،جی ایس ٹی اورکشمیر تک جومودی ہرجگہ جھوٹ بولتے رہے کیاصرف ان کے یہ کہہ دینے سے کہ'این آرسی پرابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے"اعتماد کرلیاجائے؟اور کیاملک کے باشندوں کوحکومت اور وزیراعظم سے یہ سوال کرنے کےکاحق نہیں ہےکہ آخرآپ نے سچ کہاں کہاں بولا؟اوریقین دہانی پرآپ نے اب تک کتنا عمل کیا؟میرے خیال میں یہ اپندررائے نامی شخص ایک سنگھی مزاج اورمودی بھکت ہےاوراس طرح کی تحریر لکھکر وہ اپنے قارئین کوبھی بھکت بنانا چاہتاہے،ایسالگتاہے کہ اسکومودی بھکتی نے بالکل اندھاکردیاہے،سوال یہ ہے کہ اگر یہ شخص سنگھ کی ترجمانی کھلے عام کررہاہے تو پھرہزاروں مسلمان اس اخبار کو کیوں کر پڑھیں؟آگے یہ صاحب لکھتےہیں کہ"سوال صرف عدم اعتماد کاہی  نہیں،بلکہ اس احتجاج سے پھیل رہی بدامنی کا بھی ہے،سماج کے ایک طبقہ کی'خوف'سے آزادی کی چاہت نے علاقہ کے دوسرے ہزاروں باشندوں کوبھی قیدی بناکر رکھ دیاہے،اگرشاہین باغ کی خواتین کو آزادی سے جینے کا حق ہےتو ملک کے ان شہریوں نے ایسا کون ساقصور کیا ہے کہ انکی آزادی کے حق یا پھرانکی سہولتوں پر پابندی لگادی جائے،نوئیڈا اور دہلی کوجوڑنے والی سڑک پر مظاہرین اس طرح دھرنے پر بیٹھے ہیں کہ مقامی لوگوں کےلئے آمد ورفت میں مشکل پیش آرہی ہے،امتحان کے موسم میں لوگ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پارہے ہیں،دوسری جانب مقامی لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیاہے"کیا کہاجائے کہ اس پر؟ان کو کچھ لوگوں کی اتنی فکر ہورہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے نقصانات اور پریشانیوں کو شمار کرارہے ہیں، بھلا بتلائیے جہاں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی پریشانی انھیں دکھائی نہیں دے رہی ہے جو تقریباً پچاس دنوں سے پورے ملک میں اپنا گھر،بار چھوڑ کر احتجاج اوردھرنا منظم کررہےہیں،کیا انکے بچے اسکول نہیں جاتے ہونگے یاانکے کاروبار میں نقصان نہیں ہورہاہوگا؟اور جہاں تک کاروبار کی بات ہے تو لاکھوں لوگوں کاروبار تو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ختم ہوگیا،کیااسکے ذمہ دار بھی شاہین باغ والے ہیں،شاہین باغ کی سڑک بند کولیکر بھی یہ بہت فکر مند ہیں،سوال یہ ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں اپنے گھرکے سامنے ایک مصروف ترین روڈ بند کررکھی ہے تاکہ لوگ اسکے گھر تک احتجاج نہ کرسکیں کیا اس سے لوگوں کومشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑرہاہوگا؟ اس روڈ پر جودکانیں ہیں کیا اس سے کاروباری لوگوں کو نقصان نہیں ہورہاہے؟پھر اسکا تذکرہ صاحب تحریر نے کیوں نہیں کیا؟شاہین باغ احتجاج  کی وجہ سے لوگوں  کو جو مشکلات پیش آرہی ہیں اسکا اصل ذمہ دار مودی حکومت ہے نہ کہ شاہیں باغ کے احتجاجی؟ویسے یہ صاحب جس اخبار کے سی او اورایڈیٹران چیف ہیں اسکی تاریخ رہی ہے اس اخبار نےکئ سال قبل تک سنگھ کے خلاف پورے زور وشور اوراہتمام سے لکھا پھرمعافی نامہ بھی شائع کردیا،اس وقت اسکے ایڈیٹر کوئی اور صاحب تھے،ابھی موجودہ سی او اب مسلمانوں کے خلاف لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے،اسی لئے یہ مسلسل حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ رہاہے،مسٹراپندررائے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جمہوریت میں اگربدامنی کی اجازت نہیں تو پھر وزیر داخلہ کی دادا گیری اور ہٹ دھرمی جو پورے ملک میں بدامنی اور انتشار کاسبب ہے اسکی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟صاحب کی پوری تحریر پڑھنے کے بعد پہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اس جیسے ناعاقبت اندیش،جھوٹے،مکار،تنگ نظر اورقلیل معلومات رکھنے والےنام نہاد صحافیوں کی وجہ سے پورا بھارت بارود کے ڈھیر پر
کھڑاہے،اپندررائے جیسے بدتمیز اور بدبخت اور ناہنجار لوگوں کو تاریخ ضرور ان لوگوں میں یاد رکھے گی جسکا مقصد حکومت کے جوتے چاٹنا اور قوم کو بے وقوف بناناہے،سوال یہ بھی ہے کہ جمہوریت میں اگربدامنی کی اجازت نہیں ہے تو کیا ظلم وستم کی اجازت ہے؟خون ریزی، نفرت و تعصب اور ناانصافی کی اجازت ہے؟عصمت دری اورڈاکہ زانی کے علاوہ حقوق کی پامالی کی اجازت ہے؟ جھوٹ اور انسانیت سوز واقعات کی کیا جمہوریت میں اجازت ہے؟ اسکے علاوہ اوربھی بہت سارے سوالات ہیں جسکے جواب کا انتظار ہے،شاہین باغ کے لوگوں کے پاس ملک بچانے،آئین و دستور کی حفاظت کے لئے صبرو تحمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے،تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ اس بے چارے کے اوپر بھی شاہین باغ کا وہی بھوت سوار ہے جو پاترا،امت ساہ، کمار وشواس اور منوج تیواری،پرویش ورما،انوراگ ٹھاکر،اور اس جیسے دریدہ دہن لوگوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہے،اس طر حی کی تحریر لکھکر مضمون نگار مہودیہ"سبرت رائے سہارا" جی کو غالبا "شرشری روی" یعنی ڈبل شری بنانے کی تیاری چل رہی ہے،ایسے صحافیوں سے تو طوائف ہزار گنا بہتر ہے جو بازاروں میں اپنا حسن اور اپنا جسم بیچ کر اپنی خواہشات اور ضروریات پوری کرتی ہے،کم از کم عورتوں تو اس طرح کے ذلیل اور جاہل صحافیوں سے ہزار درجہ بہتر ہے،پورے ملک میں شاہین باغ کابڑھتا ہوادائرہ سے حکومت سمیت سنگھی ٹولے کی نیند حرام ہےایسے میں فکر کا موضوع  یہ ہونا چاہئے کہ اس طر ح کی تحریر لکھنے کے پیچھے آخر کون سی ذہنیت کام کررہی ہے اور پھر اسکا پردی فاش بھی ہونا چاہئے،اس طرح کی بے ہودہ گوئی اور بکواس کرنے والے لوگ کبھی بھی اس ملک یعنی بھارت کےلئے فائدہ مند نہیں ہوسکتے،ایسی تحریریں  اور خبارات کو جلادینا ہی زیادہ مناسب ہے،ایسے اخبارات کو خریدنا اور گھر میں کسی بھی طرح مناسب نہیں،سماج کو پوری قوت کے ایسے اخبارات اور من گھڑت تحریروں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا چاہیے،یہ وہی اخبار ہے جو فرنٹ پیج پر سب سے اوپر نمایاں طور پر"یعنی مکمل سچ،حب الوطنی، فرض شناسی،اورایثار "وغیرہ کا خوبصورت نعرہ لگاتاہےاور کام اسکے برعکس ہے،یہ وہی اخبار ہے جواپنے آپ کو "سہارا" کہتاہے حالانکہ یہ خود بے سہارا ہے،جو خود بےسہارا ہواور جسے دوسروں کے سہارا کی ضرورت ہو وہ کیوں کر آپ کا سہارا ہو سکتاہے؟حال ہی میں اس نے ایک ایسے شخص کو"ایڈیٹر" بنایا تھا،اور انھوں نے مودی کی دل کھول کر مدح سرائی  کی تھی،اورمدح سرائی کےلئے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی تھی،شاید وہ بھی سبکدوش کردئیے گئےہیں گرچہ وہ مسلم تھے،اسی طرح آج جبکہ پورے ملک میں افراتفری کاماحول ہے،اسی اخبار کے ایک نمائندہ کے مودی حکومت نے ایوارڈ سے نوزا اور وہ صاحب خوشی خوشی ایوارڈ لینے پہونچ گئے،انکے چہرے پر ذرابھی شکن نہیں تھااور نہ انکی غیرت یہ گوارہ کرسکی کہ یہ  وقت ایوارڈقبول  کرنےکانہیں ہےایک   ایسے  وقت جب کہ بہت سے لوگ اپنا ایوارڈ واپس کررہے ہیں، مجتبیٰ حسن جیسے لوگوں نے اپنا پدم شری ایوراڈ واپس کردیاہے،خیربتانا یہ ہے کہ ایسے لوگ جسکاکام صرف دروغ گوئی اور جمہوریت کے نام پر اس سے کھلواڑ ہو ایسے لوگ اور ایسا اخبارات کو سماج کو بائیکاٹ کرنا چاہیے،ملک میں جاری افراتفری اور بے اطمینانی کے درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پچاس دنوں سے احتجاج کررہی شاہین باغ کی خواتین اور مظاہرین سے ملاقات کرنے اورانکے مسائل پوچھنے گودی میڈیا بھی پہنچ رہاہے،کل اے بی پی نیوز اور آج تک کے نمائندوں نے ان سے بات چیت کرکے اپنے چینل پر اسکی رپورٹنگ کی،اسی ہندی پرنٹ میڈیا اور"نوبھارت"نے پہلے پیج پر جامعہ ملیہ میں ہوئی حالیہ فائرنگ کوبنمایاں جگہ دی ہے،اور حملہ آور کو"دہشت گرد"لکھا ہےجو ملک کے مفاد میں ایک اچھی تبدیلی ہے،وقت بدل رہاہے اورامید کہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلے گا،انشاءاللہ، شرط یہ ہے کہ مسلسل جد وجہد اور استقامت کے راستے پر ہم قائم رہیں،

برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com

جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے بانی مولانا مناظر عالم قاسمی نے جامعہ کے تعلیم کا جائزہ لیا

جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے بانی مولانا مناظر عالم قاسمی نے جامعہ کے تعلیم کا جائزہ لیا

سمستی پور:31 جنوری 2020 آئی این اے نیوز

دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی، دینی مدارس عہد نبوی سے لیکر آج تک اپنے مخصوص انداز سے چلے آرہے ہیں اور تا قیامت چلتے رہینگے کیونکہ یہ وہی مدارس ہیں جہاں ہمہ وقت قال اللہ وقال الرسول کی صدا لگائی جاتی ہے اور یہ آواز جب تک ہے تبھی تک دنیا میں رونق ہے اور ہمارے ملک میں تاج محل کی سفیدی اور لال قلعےکی لالی باقی ہے
یہ باتیں جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے بانی رکن اورقیام جامعہ کے ابتدائی محرک حضرت مولانا مناظر عالم قاسمی استاذ حدیث مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی سیتامڑھی نے جامعہ کے تعلیمی جائزہ لینے کے درمیان کہی مولانا موصوف اپنے خاص رفیق محترم حضرت مولانا فخر عالم صاحب قاسمی استاذ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجوپٹی سیتامڑھی کے ہمراہ جامعہ ہذا کے تمام شعبہ جات کا معائنہ کیا طلبہ واساتذ کو اپنے قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ہوئے خطاب کیا کہ آپ حضرات من جانب اللہ چنندہ ہیں کیونکہ آپ کے آس پاس کے کثیر تعداد میں بچے لہو ولعب میں مشغول ہیں لیکن آپ کو اللہ تعالی نے علم دین حاصل کرنے کے لئے منتخب کیا، آپ اپنی قیمت کو پہچانئے آپ دین کیلئے کھمبے کے مانند ہیں اسلیئے مضبوط کھمبا بنئے کمزور نہیں
مدرسہ میں آپ کو دو کام کرنا ہے نمبر ۱ ایک محنت ولگن شوق وجذبہ سے پڑھنا نمبر ۲دو لڑنا اب آپ کو پڑھنا تو سمجھ میں آرہا ہوگا لیکن لڑنا اسکا مطلب جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ باالکل نہیں ہے بلکہ لڑنے کا مطلب محنت و مشقت سے پڑھنا ہے اور نفسیاتی بہکاوے سے رک جانا ہے گویا نفس سے لڑنا،
اس موقع پر ناظم ونائب ناظم اساتذہ وملازمین کے خدمات کی ستائش کی اور ہمت افزائ بھی ساتھ ساتھ علاقہ کے باحمیت اہل دل حضرات سے خاص و ملت اسلامیہ سے عام درخواست کی جامعہ پہ خصوصی توجہ دینے کی
واضح ھوکہ جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور زیر اہتمام الامدادایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ واقع کرھوا برہیتا وایہ کلیانپور ضلع سمستی پور علاقہ کے 20کیلو میٹرچہار جانب میں واحد منفرد ادارہ ھے جو دینی تعلیم و رفاہی خدمات اپنے وسعت کے اعتبار سےبخوبی انجام دیرہاھے

ووٹ کی اہمیت۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اہل مدارس طاہر ندوی (متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)

ووٹ کی اہمیت۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اہل مدارس
طاہر ندوی
(متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
یہ اللہ کا فضل ہے  کہ اس نے ہمیں علماء جیسے طبقات  سے نوازا، مدارس اور خانقاہوں جیسے  دینی قلعے  فراہم کیئے، جہاں صبح و شام قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں  بلند ہوتی ہیں، جہاں انسانیت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں سماج اور معاشرے سے جڑی  خرابیوں کا حل تلاش کیا جاتا ہے، جہاں قوم و ملت کے مسائل کا حل فراہم کیا جا تا ہے، جہاں حالات کا سامنا پامردی کے ساتھ کرنا سکھایا جاتا ہے!
یقیناً وہ تمام صفات حسنہ سے  آراستہ و پیراستہ کیا جاتا ہے  جو ایک انسان میں ہونی چاہئیں
اور تمام ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے  جو آئندہ حالات میں اس کو درپیش ہوگا
یہ سب اپنی جگہ قابل تسلیم ہے  لیکن کچھ کوتاہیاں  بھی ہیں جس کا اہل مدارس مرتکب ہوتے ہیں  میرا نہیں خیال کہ اہل مدارس کا ان کوتاہیوں کی طرف کوئی توجہ  کوئی دھیان  نہ گیا ہوگا!
 میرا مقصد اہل مدارس کے افکار و خیالات، ان کی دور اندیشی اور تجربات پر سوال کھڑا  کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم دانستہ یا نادانستہ چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں کر گزرتے ہیں جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا  کہ مستقبل میں اس کا انجام کتنا خطرناک ہو سکتا ہے!
انہیں کوتاہیوں میں سے ایک" ووٹ کو وہ اہمیت نہ دینا جو اس کو دی جانی چاہیے تھی" !
 جبکہ کہ ووٹ کی کچھ شرعی حیثیتیں اور تقاضے ہیں علمائے کرام کے خطابات اور ان کے مضامین  اس کے شاہد ہیں  کہ ووٹ  اپنے تئیں کچھ شرعی حیثیتیں رکھتا ہے! درج ذیل ووٹ کی کچھ شرعی حیثیتیں ہیں
(1) ووٹ کی پہلی حیثیت  گواہی کے مانند ہے
یعنی ووٹ کے ذریعے  انسان اس بات کی گواہی دیتا ہے ہے کہ جس کے حق میں وہ ووٹ ڈال رہا ہے وہ قوم و ملت کا بہترین خادم بننے کا اہل رکھتا ہے، وہ باشندگان ملک کے لیے ایک بہتر رہنما کے طور پر  اپنی خدمات بہتر طریقے سےانجام دے سکتا ہے، وہ ملک کی فلاح و بہبودی کے لئے بہتر ثابت ہوسکتا ہے،
چنانچہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے " وأقیموا الشہادة لله" اللہ کے لئے گواہی ٹھیک ٹھیک قائم کرو
دوسری جگہ ارشاد ہے" كونوا قوّامين لله شهداء با لقسط"
اور ایک جگہ " کونوا قوّامین با لقسط شہداء لله"
يعني اللہ کے لئے انصاف پر خوب خوب قائم رہنے والے اور گواہی دینے والے بن جاؤ !
(2) ووٹ کی دوسری حیثیت  سفارش کی مانند ہے
جس کو حدیث میں لفظ امانت سے تعبیر کیا گیا ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ ذاتی مفاد اور قرابت وتعلقات کا لحاظ کئے بغیر حق رائے دہی کا استعمال کیا جائے!

چنانچہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے
"إن الله يأ مركم أن تؤدوا الأمانات إلىٰ أهلها"
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو ادا کرو
"الأمانات" کے اندر جملہ حقوق آگئے  جن کی ادائیگی واجب ہے چاہے وہ حقوق جمہوریت نے ہمیں حق رائے دہی کی شکل میں دی ہو !
اور" أهلها " سے وہ سب مراد ہیں جن کے متعلق وہ فرائض عائد ہوتے ہیں!
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے
من يشفع شفاعةً حسنةً يكن له نصيبٌ منها ومن يشفع شفاعةً سيئةً يكن له كفلٌ منها "
جس نے اچھی سفارش کی تو اس کے اجر و ثواب میں وہ بھی حقدار ہوگا اور جس کسی نے بری سفارش کی تو اس کا وبال اس پر بھی آئے گا
(3) ووٹ کی تیسری حیثیت  کسی کو اپنا وکیل بنانے کے مانند ہے
یعنی ایک شخص اپنے ووٹ کے ذریعے اس کی وکالت کرتا ہے کہ فلاں دعویدار اس کا اہل ہے اور فلاں ذمہ داری کی اہلیت رکھتا ہے  وہ انصاف پسند اور عادل ہے اگر اس کو  حکومت کے کسی شعبے کی ذمہ داری دی گئی تو بحسن و خوبی  وہ اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے!
مندرجہ بالا امور سے  یہ بات واضح ہوگئی کہ ووٹ کی کی کچھ شرعی حیثیتیں ہیں کچھ تقاضے ہیں جس کی ادائیگی بحیثیت ایک مسلم  اور ایک بھارت کے شہری کے طور پر ہم پر واجب ہے !
اب ذرا  اہل مدارس کا حال دیکھیں  کہ عین الیکشن کے وقت  اپنے طلبہ کو اس حق کی ادائیگی سے محروم کردیا جاتا ہے
ہر سال  لاکھوں ووٹس طلباء مدارس کی شکل میں ضائع کر دیا جاتا ہے
 کیا آپ نے کبھی سوچا ہے  کہ ووٹ کا استعمال نہ کرکے  خود پر ، اپنے ملک پر، اور عوام پر  کتنا ظلم کر رہے ہیں  اور کس طرح  شر پسند عناصر کے مقاصد کو کس حد تک ہم تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں  اور مدارس کے ذمہ دار  تعلیم کا نقصان بتا کر اس اہم فریضہ سے پہلوتہی کرلیتے ہیں اور مدارس میں زیر تعلیم طلبہ بڑی آسانی سے ووٹ کے حق سے محروم کر دئے جاتے ہیں
جبکہ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ آئے دن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں ، ایسے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں کہ مسلمانوں  اور دلتوں کے نام  ووٹر لسٹ سے دانستہ طور پر غائب کئے جارہے ہیں مسلمانوں اور دلتوں اور نچلی ذاتوں کے طبقات سے ووٹ کا حق  چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے اور مسلسل  کوششیں کر رہے ہیں  کہ کسی طرح  مسلمانوں  دلتوں اور  نچلی ذاتوں کے طبقات کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے!
اس تعلق سے
CRDP (Centre for research and debates in development policy) کی رپورٹ کافی حیران کن ہے
ان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں تین کروڑ سے زیادہ مسلم اور چار کروڑ سے زیادہ دلتوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہیں !
اور ایک رپورٹ جو خالد سیف اللہ جو پیشے سے ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور گزشتہ دو سال سے رسرچ کر رہے ہیں کہ کس طرح سے پورے منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں اور دلتوں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کیا جا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں  کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کا نام ووٹر لسٹ سے غائب کر دیا گیا ہے !
محترم قارئین
یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ہماری  اس کوتاہی کی بنا پر انجام کس قدر مہلک ہو سکتا ہے ، ہماری ذرا سی لاپرواہی کی وجہ سے  کس قدر منفی اثرات ملک میں مرتب ہو سکتا ہے!
 اہل مدارس سے میری ایک گزارش ہے کہ اس سلسلے میں آپ غوروخوص کریں اور مناسب حل تلاش کریں  میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کا دھیان  اس طرف نہیں گیا یا آپ کی دور اندیشی  اس سلسلے میں خطا  کر گئی  ایسا کہنا یا سوچنا  میرے لیے لیے ایک عظیم گناہ کے مترادف ہوگا  لیکن اب وقت بدل چکا ہے، حالات بدل چکے ہیں، اب پرانی حکمت عملی کو چھوڑ کر نئی حکمت عملی  اختیار کرنا ہوگا، پرانی اور بوسیدہ روش کو  ترک کرنا ہوگا  اب ہمیں  کوئی حل تلاش کرنا ہوگا  جس سے مدارس کے طلباء آسانی سے  الیکشن میں حصہ لے سکیں اور ووٹ ڈال سکیں،
ووٹ ایک انتہائی ذمہ دارانہ عمل ہے،  قوم کا ہر وہ شخص جو خود کو ہندوستانی کہتا ہے ووٹ اس کے ملک اور قوم کی امانت ہے اور امانت میں خیانت ایک سنگین جرم ہے  چاہے وہ خیانت ووٹ نہ دے کر کی جائے یا  اس کا غلط استعمال کرکے کی جائے  ووٹ ایک ملی و قومی ذمہ داری ہے اور ووٹ ایک ملی و قومی فریضہ ہے۔
لہذا مدارس کے طلباء کے لئے ایسا نظام وضع کیا جا ئے جس کے تحت وہ بآسانی الیکشن میں حصہ لے سکیں اور اپنا ووٹ ڈال سکیں!!!!!!!!

Thursday 30 January 2020

اعظم گڑھ میں سی اے اے کے خلاف بیداری مہم کے تحت اجتماع سی اے اے کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے:بیداری مہم کی ذمہ داران ماریہ گوہر کی رپورٹ اعظم گڑھ,30جنوری 2020 آئی این اے نیوز

اعظم گڑھ میں سی اے اے کے خلاف بیداری مہم کے تحت اجتماع

 سی اے اے کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے:بیداری مہم کی ذمہ داران

ماریہ گوہر کی رپورٹ
اعظم گڑھ,30جنوری 2020 آئی این اے نیوز
اعظم گڑھ میں سی اے اے کے خلاف بیداری مہم کے تحت آج  خواتین کا ایک اجتماع عام ہوا۔اس موقع پر ایک بڑی تعداد میں خواتین موجود تھیں۔خواتین نے سی اے اے کے خلاف منظم طریقے سے لڑائ لڑنے کا عزم کیا۔مہم میں شامل خواتین نے اعظم گڑھ کی مزید خواتین سے جڑنے کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔آج ملک میں دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر دیگر جگہوں پر بھی  بہادر ہندو,مسلم,سکھ عیسائی خواتین نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔آج اعظم گڑھ کے سرائمیر علاقے میں بھی خواتین نے سی اے اے کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ہے۔مہم کے ذمہ داران کا کہنا ہیکہ بے روزگاری,جرائم اور دیگر مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے حکومت نے سی اے اے کا حربہ اپنایا ہے۔لیکن حکومت یہ سمجھ لے کہ ملک کی عوام کیلئے یہ غیر آئینی ایکٹ کبھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ہم ملک کے آئین آئین کو بچانے کیلئے اس تاناشاہی حکومت کے خلاف سنگھرش کی راہوں پر چلتے رہیں گے۔سی اے اے کے خلاف بیداری مہم چلانے والوں نے اعظم گڑھ بالخصوص سرائمیر,کھریواں,پھریہا,دائودپور,سنجرپور,خداداپور,سہریا,راجہ پور سکرور,اسرولی ,اساڑھا,بلریا گنج , مہراج گنج اور دیگر جگہوں کی خواتین سے جڑنے کی اپیل کی ہے.خواتین نے ہر ایک گائوں سے سی اے اے کے خلاف صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم بھیجنے کی اپیل کی ہے۔بتا دیں بیداری مہم کے تحت اعظم کے مختلف گائوں میں اجتماع اور آپسی صلاح و مشورہ کے بعد سی اے اے کے خلاف کام کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی از قلم :حبیب الرحمن سلطان پوری


شرم تم کو مگر نہیں آتی
 از قلم :حبیب الرحمن سلطان پوری


شاہین باغ کا احتجاج سنگھیوں کے دل ودماغ میں چبھتا نظر آرہا ہے، ہندوستانی خواتین کی جرأت وبے باکی ان کے گلے کی پھانس بنتی جارہی ہے، آے دن کسی نئے فتنے کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، جیسا کہ ابھی ایک تازہ معاملہ سامنے آیا کہ "ونود" نامی شخص مظاہرین کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنارہا ہے، اور پولیس تماشائی بنی تکتی نظر آتی ہے ،
گزشتہ پچاس دنوں سے چل رہے احتجاج کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، کبھی تو عورتوں کو پانچ سو کا کرایہ دار کہہ کر، اور کبھی مظاہرین کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حصہ بتا کر، احتجاجی کیمپوں کے ارد گرد لگے لائٹ کو توڑ کر، تو کبھی کمبل اور دوسرے سردی کے سامان کی دن دہاڑے ڈکیتی کر_
شاید سنگھی اور ان کی ہمنوا فاشسٹ طاقتیں یہ بھول گئی ہیں کہ کہ ہمارا کسی ایرے غیرے سے نہیں بلکہ اسلام کی ان شہزادیوں سے پالا پڑا ہے جو خولہ رض کی بہن اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں، ان کی رگوں میں صفیہ اور فاطمہ کا خون موجزن ہے، ان کا روحانی تعلق اس ماں سے ہے جس نے اپنے تین بچوں کا نذرانہ دے کر حضور علیہ السلام کی سالمیت کے لئے دعا گو تھی، جس موت سے انھیں ڈرانے کی انتھک محنت کی جارہی ہے وہ ان کے گھر کی لونڈی ہے، یہ موت سے کم بلکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ڈرتی ہیں، انھیں اس بات کی حقیقت کا مکمل اعتراف ہے کہ یہ دنیا جس کے حصول میں تم انسانیت کی تمام سرحدیں پار کر چکے ہو وہ کسی مکڑی کے جالے اور مکھی کے پر سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی ہے ، یہ کیوں بھول جاتے ہوکہ ان کا رشتہ اس شہنشاہ سے جڑتا ہے جو شیر کی ایک روزہ زندگی کو گیدڑ کی سو سالہ  زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے  موت کو گلے لگالیتا ہے،
سنگھیو! تمھاری بہادری کا اندازہ اس وقت لگ گیا تھا جب تم نہتھی عورتوں پر، رات کی تاریکی میں، لائٹ بجھا کر، ہتھیار سے لیس حملے کی کوشش کر رہے تھے، تمھاری تنگ نظری اور علم دشمنی کا مشاہدہ اسی وقت ہو گیا تھا جب تم نے یونیورسٹی کے طلبا پر اپنی لاٹھیاں برسائ تھیں، تمھاری حرکتیں تو  گیدڑاور لومڑی کو بھی شرمندہ کردینے والی ہیں،  تم نے اس ملک کو ہمیشہ بانٹے کی کوشش کی ہے،جس ہندو راشٹر کا جھانسہ دے کر تم نے اس ملک کو اپنے ناپاک ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنانے کی سازش رچی ہے، یہ محض سراب ہے، دیوانے کا خواب ہے_

جامعہ علاقے میں طالب علم پر فائرنگ قومی سلامتی قانون فرقہ پرستوں پر لاگو کیوں نہیں


جامعہ علاقے میں طالب علم پر فائرنگ
قومی سلامتی قانون فرقہ پرستوں پر لاگو کیوں نہیں

یاد رہے آج ہی کے دن ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو گاندھی جی کو نتھوں رام گوڈسے نے شہید کردیا تھا۔ آج پھر نتھوں رام گوڈسے کی اولادیں گاندھی جی کے عدم تشدد کے خلاف ماحول کو خراب کر رہے ہیں اور نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
جامعہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج میں ایک شخص بندوق کے ساتھ یہ کہتے ہوئے داخل ہوا کسے چاہیے آزادی، اور اس نے شاداب عالم نامی طالب علم پر فائرنگ کردی، زخمی طالب علم کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ، فائرنگ کرنے والے شخص کا نام گوپال بتایا جارہا ہے۔ ابھی یہ بات صاف نہیں ہوئی ہے کہ یہ کونسے سنگھٹن سے ہے۔ اور اس فرقہ پرست کو کس نے جامعہ میں بھیجا۔

ذوالقرنین احمد

Wednesday 29 January 2020

شاہین باغ خاتون مظاہرین آئین کو بچانے کے لئے سڑکوں پر ہیں۔ رتن راج امبیڈکر شاہین باغ خاتون مظاہرین نے وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے اور ان کی پھیلائی ہوئی روشنی سے پورا ملک روشن ہے۔


شاہین باغ خاتون مظاہرین آئین کو بچانے کے لئے سڑکوں پر ہیں۔ رتن راج امبیڈکر

شاہین باغ خاتون مظاہرین نے وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے اور ان کی پھیلائی ہوئی روشنی سے پورا ملک روشن ہے۔

قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج بی ڈی نقوی نے کہاکہ جمہوری ہندوستان میں احتجاج اور تحریک چلانا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہندوستانی آئین دیتا ہے۔
انہوں نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے اور آپ کی پھیلائی ہوئی روشنی سے پورا ملک روشن ہے۔ آپ کی تحریک کی وجہ سے آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ بن چکے ہیں اور اس میں روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو لڑائی آپ نے چھیڑی ہے اسے نتیجہ تک جاری رکھنا ہے اور بغیر نتیجہ کے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹانا ہے۔
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر پڑپوتے رتن راج امبیڈ کر نے شاہین باغ خاتون مظاہرین کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ لڑائی ہمارے لئے بھی لڑ رہی ہیں کیوں کہ اس قانون سے سب سے زیادہ نقصان ایس سی ایس ٹی اور کمزور طبقہ کو ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی منشا کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس نے مسلمانوں کے بہانے دلت سماج پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بابا صاحب کے بنائے ہوئے آئین کو بچانے کا معاملہ ہے اور شاہین باغ کی خواتین آئین کو بچانے کے لئے نکلی ہیں۔
پانی پت سے آنے والے سماجی کارکن جن ابھیان منچ کے صدر پی پی کپور نے اس موقع پر کہاکہ قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر 135کروڑ عوام پر حملہ ہے۔ یہ کہناکہ اس قانون سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے سخت غلط فہمی والی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان سے زیادہ یہاں ہندو عوام پریشان ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کا اصل مسئلہ بیروزگاری، تعلیم، صحت اور معاش ہے لیکن حکومت ان تمام مسائل پر توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کا قانون لے کر آئی ہے۔
مسٹر کپور نے کہاکہ آزادی کے بعد 73سال بعد بھی اگر ہم لوگوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جاتے ہیں اس سے شہریوں کی توہین اور نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت آسام میں این آر سی نافذ کرکے پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور اب پورے ملک میں اس طرح کا تجربہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا ملک سیکولر ہے اور اس میں امتیازی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور سی اے اے،این آر سی اور این پی آر مذہب پر مبنی قانون ہے۔
کرناٹک سے آنے والے کرناٹک فارمر ایسوسی ایشن کے نائب صدر خدیر (قدیر) بھارتیہ نے کہاکہ ہمیں آئین نے مساوی شہری تسلیم کیا ہے۔ اس میں کسی مذہبی بنیاد پر امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس کے باوجود حکومت نے غیر آئینی کام کیا ہے۔ انہوں نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے ملک کو ایک نئی سمت اور ہندومسلم اتحاد کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ موجودہ حکومت نے ہندو مسلم کرکے دونوں فرقوں کو الگ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان خواتین ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اس تحریک نے ہندو مسلم کو ایک کردیا ہے۔اسی کے ساتھ رشید خاں بہار، محمودہ خاتون شبیر کرناٹک اور سکندراعظم نے بھی خطاب کیا

مشہور شاعر اور گیت نگار اجمل سلطانپوری 94 برس کی عمر میں انتقال

مشہور شاعر اور گیت نگار  اجمل سلطانپوری 94 برس کی عمر میں انتقال

30 /جنوری 2020
 ڈاکٹر اشہد کریم الفت نے انہیں اکھنڈ بھارت کو تلاش کرتا شاعر قرار دیا ان کے مطابق شاعری میں وطن پرستی کا جذبہ بھی ایک عظیم جذبہ ہے۔

مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
مَیں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
اجمل سلطان پوری

حب الوطنی کا موضوع اپنی سرحدوں میں ضرور سمٹا ہوا ہے مگر تحفظ وطن کے  لکشمن ریکھا میں انسانیت اور تہذیب کے فروغ کی خاطر یہ موضوع بے شمار معاشرتی و سماجی زندگی کی وسعت لئے ہوے ہے عہد جدید کی شاعری میں تقسیم ہند کا المیہ اور پورے ہندوستان کا وجود جس طرح اجمل سلطان پوری کی شاعری میں ملتا ہے دیگر شعراء کرام کے یہاں یہ جذبہ کچھ کم نظر آتا  ہے۔ ان کی حب الوطنی کی تڑپ اور کسک کابیان بہت  پر اثر ہے۔ اجمل سلطان پوری اس وقت زندگی کے صد سالہ سفر کے قریب ہیں ،رخش عمر پہ سوار 9 دہائیوں کا دریا عبور کر چکے ہیں _ان کی شاعری یقیناّ  زندگی کے طویل تجربوں سے گزر کر مشاہدے و مجاہدے کا نچوڑ ہے۔ انھوں نے تقسیم وطن کے کرب کو جس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے وہ منٹو کے ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کے برعکس بیانیہ میں سیدھے سنجیدگی کے ساتھ اپنے گیتوں میں ڈھالا ہے۔ لیکن معنوی سطح پر دونوں کا درد ایک ہی  ہے۔ بچپن کے اسکول اور کچی سڑکوں کی اڑتی ہوئی دھول میں جو ناسٹلجیا کا کرب ہے وہ بنگلہ دیش اور پاکستان تک ڈھاک کے تین پات میں تبدیل ہو کر ایک مذہبی جنون کی حنابند  شفقی دیوار ہو جاتی ہے۔ جہاں شاعر کی جذباتی تڑپ محبت کی ٹوٹتی قدروں اور زندگی کی روایت پر ایک سیاہ سوالیہ نشان کھینچ دیتی ہے۔ جو، اکھنڈ بھارت کی  خیالی تصویر میں گنگاجمنی کے خواب کو شکستہ ہوتے دیکھ رہی ہے، یہ تہذیبی مرثیہ بہت ہی درد انگیز ہے۔ اجمل سلطان پوری کی شعری کائنات گہرے فلسفیانہ مزاج سے دور ہی سہی لیکن ان کی محبت کی فضا میں نظیر اور دیگر صوفی شعراء کی وہ روایت شامل  ہے جس کی لہریں صدیوں سے پہاڑی سنگیت بن کر دیہاتی لہرا پوربی تان میں سنائ دیتی ہیں۔ یہ تہذیب گنگا اور جمنا کے تقدس کی امین ہے اور جس کی فضا صرف محبت کی تصویر بناتی ہے جہاں ایک اکھنڈ بھارت کا وجود پورے کے پورا ہندوستان لئے ملتا ہے۔                                         
             
جبکہ اسلم چشتی نے ان کے متعلق اپنے مضمون "اجمل سلطان پوری" کی گیت رنگ شاعری، میں لکھا ہے۔

ترقی پسند تحریک کے شباب کے دور میں غزل مخالف لہر چل پڑی تھی، نظموں کا بول بالا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد، معریٰ اور پابند نظموں نے قارئین کو بے حد مُتاثر کیا تھا۔ کچھ شاعروں کی نظموں کی شہرت اکیسویں صدی تک بھی پہونچ گئی۔ آج کے قارئین اور سامعین میں بھی ان نظموں کی اہمیت بھی ہے اور مقبولیت بھی، لیکن ان میں ایک مجروح سلطان پوری ایسے شاعر تھے جنہوں نے غزل کے دامن کو نہیں چھوڑا – غزل کے اشعار میں وہ کچھ ایسی بات کہہ جاتے کہ ان کا ایک شعر طویل ترین نظموں پر بھی بھاری ہوتا۔ جیسے

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطان پوری کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے کلاسیکل شاعری سے منہ نہیں موڑا بلکہ شاعری کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے، عصری موضوعات اپنی غزل میں قائم کیے اور رواں غزل کے موضوعات اور لفظیات کو اپنی غزل سے دور ہی رکھا، اور سُخن کی نئ روایت قائم کی اُس دور میں دیگر شعراء جو اس تحریک کے تحت لکھنے والوں کی مقبولیت سے مرعوب تھے اور غزل کو کم اور نظموں کو زیادہ اہمیت دے کر میدانِ ادب میں فعّال تھے۔ مجروح کی مسلسل غزل گوئی سے متاثر ہو کر انھوں نے غزل گوئی کو اپنایا اور ساتھ میں قطعات اور گیت کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ ان میں اجمل سلطانپوری پیش پیش رہے۔ ترنّم نے ان کا ساتھ دیا اور مُشاعروں نے انھیں شہرت کے بام پر پہنچا دیا۔ اور اجمل سلطانپوری مُشاعروں کے کامیاب شاعر تسلیم کیے گئے۔

اجمل سلطانپوری 1926 کو سلطانپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ مجروح کے بعد میرا خیال ہے کہ اجمل سلطانپوری ہی وہ شاعر ہیں جن کے سُخن کے چرچے مُشاعروں کے حوالے سے سارے ہندوستان میں ہوئے۔ میں چونکہ ڈبائی ضلع بُلندشہر یوپی کا ہوں اس لیے ان کی شاعری کو اپنی نو عمری سے پسند کرتا ہوں۔ میں ان کی شاعری کو گیت رنگ شاعری کہنے میں حق بجانب اس لیے ہوں کہ ان کی نظم ہو کہ غزل یا سُخن کی کوئی اور صنف موضوعات چاہے کچھ بھی ہوں گیت کا رنگ اور آہنگ ضرور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے سُخن کا کمال دیکھئے۔

اس نگری کی ریت یہی ہے یہ نگری بے پیار
یہاں کوئی میت نہیں
( جلتا سنسار)
جب سارا جگ سوئے + تو رجنی کیوں روئے
( رجنی)
راہ ہے پُر خطر
رہزنوں کا ہے ڈر
رات اندھیری ہے تنہا کہاں جاؤ گے
(اندیشے)
مجھ کو جانا ہے جانے دو روکو نہیں
تم مرا راستہ چھوڑ دو
ہو سکے تو مرے ساتھ تم بھی چلو
زندگی کو نیا موڑ دو
( تم مرا راستہ چھوڑ دو)
راہ کٹھن
ہر گام پہ مشکل
چلنا ہے دشوار
بٹوہی منزل کتنی دور
( بٹوہی)
تمہارے آنگن میں برسات لیے جب ساون آئے گا
تو مجھ کو یاد کروگے
( پردیسی)

اجمل سلطانپوری کے گیت رنگ سُخن کا اندازہ ان مکھڑوں ( ابتدائی مصرعوں) سے ہو جائے گا۔ ان میں ایک خاص وصف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جب قاری مصرعے پڑھتا ہے تو الفاظ کے نظم سے ایک خاص قسم کی موسیقی اُبھر آتی ہے اور پڑھتے پڑھتے گانے گُنگُنانے کو جی چاہتا ہے۔ کلام کی یہ خوبی کم کم ہی دیگر شاعروں میں ملتی ہے۔ ان کے پاس تو صد فی صد ملے گی۔ ان کی ایک گیت نُما نظم ہے ” دیپک راگ” جو مُجھے پسند ہے۔ اسے پڑھتے پڑھتے میں گُنگُنانے لگا – مُلاحظہ فرمائیں۔ ابتدائی بول۔
کلی جب چٹکی کھٹکے خار، زخم جب سلگا سسکے پیار
تڑپ کر نکلی دل سے آہ کسی سے نین ہوئے جب چار
تو میں نے گیت لکھا ہے
( دیپک راگ)
ایک اور گیت کے ابتدائی بول ہیں۔
روٹھ گیا مرا میت گیت مرے زخمی ہوگئے
میت مرا ایسا شرمیلا پردے میں شرمائے
بھولا پن معصوم نگاہیں آہٹ سے تھرائے
اکثر یوں ہی روٹھ جائے ہے کوئی بات نہ چیت
گیت میرے زخمی ہوگئے
(زخمی گیت)

اب تک اجمل سلطانپوری کے کلام کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں وہ شاعر کی جمالیاتی حِس اور حُسن و عشق کی موثر تصویریں ہیں جو کہ صنفِ گیت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور شاعر کے حُسنِ بیان کو بھی ظاہر کرتی ہیں – لیکن اجمل سلطانپوری کی شاعری کا کینویس ان موضوعات سے بھی وسیع ہے۔ انھوں نے اپنے وطن کی مُحبّت میں بھی گیت لکھے ہیں – جیسے –
تیرا سورج مُکھی مُکھڑا ترا چند سا بدن
چومتا ہے ترے ذرّوں کو ستاروں کا گگن
ذرّہ ذرّہ ترا اپنی جگہ انمول رتن
اے مرے پیارے وطن
( مرے پیارے وطن)
مُسلم قوم کی آن بان شان اور ہمّت جرآت اور شجاعت کا اظہار اجمل سلطانپوری کی ایک نظم ” مسلمان” میں کس سلیقے سے ہُوا۔ مُلاحظہ فرمائیں۔
مسواک اُٹھا لیتا ہے جب صاحبِ ایمان
بے تیغ بھی ہو جاتا ہے سر جنگ کا میدان
دلدل پہ بھی تیرائے ہیں مومن نے سفینے
شاہانِ زمانہ کو کیا تابع فرمان
( مسلمان)

اجمل سلطانپوری کی دو مشہور اور شاہکار نظموں کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں ایک ” ہندوستان” اور دوسری ” مری پیاری زباں اُردو زباں ہے” نظم ” ہندوستان” میں شاعر نے پُرانے ہندوستان کی عظَمَت کے گُن گائے ہیں،. اتحاد اور امن کے راگ الاپے ہیں – جب نئے ہندوستان میں وہ بات نظر نہیں آئی تو وہ تڑپ کر پُرانے ہندوستان کو ڈھونڈنے کا گیت گاتے ہیں مُلاحظہ فرمائیں۔ ابتدائی مصرعے۔

مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
مَیں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں

دوسری نظم ہے ”مری پیاری زباں اُردو زباں ہے” اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ شاعر نے ہندوستاں اور اُردو زباں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر بات کی ہے اور دونوں سے پیار کا بے پناہ اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں ہندوستان کے جانثاروں اور حکمرانوں کا بھی ذکر ہے پیر پیغمبروں کی بھی بات ہے اور اُردو زبان کی بنیاد کو مضبوط کرنے والی عظیم علمی اور ادبی شخصیات کا تذکرہ بھی ہے۔ نظم بڑی لا جواب ہے۔ پہلے دو مصرعے مُلاحظہ فرمائیں جو اس طویل نظم کے ایک ایک بند کے بعد آتے اور نظم کا معیار بلند کرتے ہیں۔
مری پیاری زباں اُردو زباں ہے
مرا پیارا وطن ہندوستاں ہے
اب اس نظم کا آخری بند مُلاحظہ فرمائیں۔
یہیں اُردو زباں پھولی پھلی ہے
یہیں اُردو کی پُروائی چلی ہے
یہیں اجمل دکن کا اک ولی ہے
جو پہلا شاعر اُردو زباں ہے
یہ نظم آسان اور رواں زبان میں اُردو زبان اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی توصیف کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے ایک سرور پاتا ہے اور اُردو زبان اور ہندوستان کے دل ہی دل میں گُن گانے اور اپنے آپ کو اُردو زبان کا پروردہ اور ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

اجمل سلطانپوری نے کئی موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں۔ اُن موضوعات میں شخصیات بھی ہیں موسمیات بھی ہیں، مشاہدات بھی ہیں تجربات بھی ہیں، جذبات بھی ہیں انقلابات بھی ہیں۔ سبھی نظموں میں شاعر نے اپنے سُخن کے کمال دکھائے ہیں۔ ان کے سُخن کا ایک کمال ان کی نظم ”تاج محل” ہے جسے انھوں نے ایک الگ زاویئے سے پیش کیا ہے۔ ساحر کی مشہور ترین نظم ” تاج محل” میں ساحر نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ مرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے اور اجمل سلطانپوری نے کہا ہے۔

”میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے” یہ نظم ساحر کی نظم کی پیروڈی نہیں ہے لیکن اُسی انداز اُسی لہجے اور اُسی بحر میں لکھی گئی ہے۔ یہ نظم اس نظم کی ضد ہے بلکہ اسے اُس نظم کا جواب کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ ”تاج محل” پر سینکڑوں شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں لیکن اجمل سلطانپوری نے جس زاویئے سے اظہار کے جو گُل بوٹے سجائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مُلاحظہ فرمائیں ابتدائی تین مصرعے۔
تاج اوروں کے لیے قابلِ نفرت ہی سہی
ان کو اس وادئی رنگیں سے رقابت ہی سہی
میرے محبوب یہیں روز ملا کر مجھ سے
اجمل سلطانپوری کی گیت رنگ شاعری میں لفظیات کا استعمال جادو جگاتا ہے اور شاعر کے ذوق کو اُجاگر کرتا ہے۔ اظہار کا یہ طریق خالص ہندوستانی ہے۔ ہندی کے الفاظ اُردو زبان میں نگینوں کی طرح جڑے ہیں۔ جسے پڑھنے اور سُننے میں لُطف آتا ہے۔ خاص طور پر ان کے گیت اپنی ایک چمک رکھتے ہیں۔ ایسے گیت سُر تال کے ساتھ ہی اچھّے لگتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے شعبئہ موسیقی نے ان کے کچھ گیتوں کو سُر تال کے زیورات سے سجا کر پیش کیا ہے جن کو ریڈیو کے شائقین نے پسند کیا ہے۔
اجمل سلطانپوری نے چھپنے چھپانے پر شاید کم توجہ دی ہے۔ ایک مجموعئہ کلام ” سفر ہی تو ہے” بہت پہلے شایع ہو چُکا ہے۔ دوسرا اشاعت کا منتظر ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی شاعری اُس شاعری کے زُمرے میں آتی ہے جو کبھی پُرانی نہیں ہوتی۔ مُجھے خوشی ہے کہ ایسی شاعری پر لکھنے کا مُجھے موقع ملا۔ مُجھے یقین ہے کہ قارئین ان کی شاعری سے مطمئن بھی ہوں گے اور لُطف بھی حاصل کریں گے۔

*دارالعلوم دیوبند کی مایہ ناز انجمن انجمن نادیۃالاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ کا اختتامی اجلاس آج 30 جنوری بروز جمعرات چہارم اولی ثانویہ میں منعقد ہوگا*

*دارالعلوم دیوبند کی مایہ ناز انجمن انجمن نادیۃالاتحاد طلبہ  ضلع اعظم گڑھ کا اختتامی اجلاس آج 30 جنوری  بروز جمعرات  چہارم اولی ثانویہ میں منعقد ہوگا*
دیوبند :30 جنوری 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی
آپ حضرات کو یہ مژدہ سناتے ہوئے  انتہائی لذت و سرور، مسرت و خوشی، شاد مانی و فرحت محسوس ہورہی ہے دل باغ باغ  ہو ر ہاہے دل بے قرار کو قرار آرہاہے کہ ہماری اور آپ کی محبوب انجمن، خطئہ اعظم گڑھ کی صحافت وخطابت کی ترجمان  ،علامہ شبلی  نعمانی رح کی بیادگار ،دارالعلوم دیوبند کی انجمنوں میں سے ایک ممتاز انجمن، ناجانے کتنے بے باک اھل قلم اور بے لوث خطیبوں کی پرورش گاہ ،" *انجمن نادیۃالاتحاد طلبہ  ضلع اعظم گڑھ بیادگار شمش العلماء علامہ شبلی نعمانی رح*" کا اختتامی اجلاس  بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ *30 جنوری  بروز جمعرات بعد نماز عشاء*  *چہارم اولی ثانویہ دارالعلوم دیوبند* میں منعقد ہورہا ہے یہ عظیم الشان اجلاس   *مورخ اعظم گڑھ، استاذالاساتذہ،فن اسماء الرجال کے امام،ترجمان دارالعلوم دیوبند کے ایڈیٹر ،حافظ ابن حجر ثانی،  استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب* دامت برکاتہم العالیہ( اطال اللہ عمرہ ویعم ارشادہ) استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی زیر سرپرستی ہوگا 
جب کی یہ عظیم الشان پروگرام جس عظیم المرتبت شخصیت اور مایہ ناز عالم دین کی زیر نگرانی ہو رہا  ہے وہ *دارالعلوم دیوبند کے استاذ، علم تفسیر کے ماہر، شعبئہ تحفظ سنت کے نگراں، فاتح آسام، قاطع بدعت، مناظر اسلام، حضرت الاستاذ حضرت مولانا ومفتی محمد راشد صاحب* دامت برکاتہم العالیہ کی ذات گرامی ہے وہیں   دوسری جانب اس بزم کی صدارت کا سہرا جس شخصیت کو باندہ گیا ہے وہ *دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ، عصری علوم کے ماہر، شعبہ انگریزی کے ڈاریکٹر، استاذ محترم حضرت مولانا توقیر عالم کاندھولی* صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ذات اقدس ہے جب کی اس بزم سے خصوصی خطاب فرماینگے *استاذ محترم، شعبہ تخصص فی الحدیث کے مایہ ناز استاذ ، حضرت مولانا و مفتی عبداللہ صاحب معروفی* استاذ دارالعلوم دیوبند۔۔۔۔ جب کی بزم ھذا کے اس اختتامی پروگرام میں مہمان خصوصی کے حیثیت سے مختلف شخصیتیں شرکت کرینگیں   جن میں سے چند نام قابل ذکر ہیں
 *حضرت مولانا محمد ارشد معروفی صاحب* استاذ دارالعلوم دیوبند
 *حضرت مولانا کوکب صاحب* استاذ دارالعلوم دیوبند
 *حضرت مولانا نیاز کاتب اصلاحی صاحب* استاذ دارالعلوم دیوبند
 *حضرت مولانا اشتیاق صاحب* استاذ دارالعلوم دیوبند *حضرت مولانا علقمہ صاحب* معین مدرس دارالعلوم دیوبند *حضرت مولانا رضی آزاد صاحب جون پوری*
 جب کی آئینئے پروگرام کچھ اس طرح ہے اس عظیم الشان پروگرام میں نظامت کے فرائض *ابو شہاب  اعظمی* متعلم ہفتم عربی  سرانجام دینگے جب کی تلاوت قرآن پاک کے ذریعہ خوش الحان  قاری *محمد حمزہ  اعظمی* متعلم ہفتم عربی سامعین کے دلوں کو مجلی و مصفی فرمائنگیں جب کی دوسری جانب محفل کو نعت نبی سے سکتہ طاری کرنے اور *رحمت للعالمین سرکار مدینہ احمد مجتبی محبوب رب العالمین امام الانبیاء خاتم النبیین و المرسلین شاہ جن وبشر صلی اللہ علیہ وسلم* کی شان اقدس میں خراج تحسین *محمد سرفراز اعظمی* متعلم عربی ہفتم پیش کرینگے   وہیں  انتخاب صدارت کی تحریک *محمد اعظم الحنفی  الاعظمی* متعلم دورہ حدیث شریف  چلا ئنگیں ۔۔ تائید صدارت *عبدالمنعم  اعظمی* متعلم تکمیل ادب عربی  کرینگے ، جب کی محفل کو تقریر وخطابت کی وادی سے سیر کرانے کے لے بزم ھذا نے دو انتہای اہم عنوان  پر تقریریں رکھی ہیں تقریر اول *محمد سلطان  اعظمی*  متعلم دورہ حدیث شریف پیش کرینگے جن کی تقریر کا عنوان رہے گا *"شیخ الھند افکار و نظریات"* اور تقریر ثانی *محمد اسجد اعظمی* تکمیل علوم  پیش کرینگے جن کی تقریر کا موضوع ہے *"ملکی مسائل کا حل تعلیمات رسول کی روشنی میں"* جب کہ  عوام کی تشریف آوری کے شکریہ  اور مہمانان کرام کی تشریف آوری پر تشکر وامتنان کا  ھدیہ پیش کرنے  کے لے خطبہ استقبالیہ *محمد وکیع اعظمی*  پیش کرینگے۔ جب کی محفل کو شعرو شاعری کی زلفوں سے سجانے کے لے اردو ادب کو نظم کے ذریعے پیش کرنے کے لے بزم ھذا نے بیت بازی کا بھی انعقاد  کیا ہے جس میں شرکاء بیت بازی  اچھے اچھے معیاری اشعار، شاعرانہ طرز و انداز ، عمدہ لب ولہجہ میں پیش کرینگیں  اس بیت بازی کے دو گروپ ہیں پہلا *بزم شبلی* جس کے ترجمان *محمد واصل اعظمی* متعلم تکمیل ادب عربی  اور شرکاء کے نام درج ذیل ہیں
(1) *محمد عمیر اعظمی*
(2) *محمد اعظم الحنفی الاعظمی*
(3) *عزیز الرحمن اعظمی*
(4) *عبدالرحیم اعظمی*
(5) *محمد طاھر اعظمی*
(6) *عبداللہ اعظمی*
(7) *ابو شہاب اعظمی*
(8) *محمد کامل اعظمی*
 جب کہ دوسرا گروپ *بزم سہیل* ہے جس  کے ترجمان رفیق خاص میرے ہر دلعزیز   *ابوعاصم  اعظمی* متعلم تکمیل ادب عربی  شرکاء درج ذیل ہیں
(1) *مطیع اللہ اعظمی*
(2) *عبداللہ اعظمی*
(3)  *محمد سلطان اعظمی*
(4) *سیف اللہ اعظمی*
(5) *محمد حمزہ اعظمی*
(6) *رفیق خاص محمد احمد اعظمی*
(7) *محمد عدنان اعظمی*
(8) *عبدالمنعم اعظمی*
 ۔۔۔۔ ۔۔  جب کی بزم کو قہقہوں کی زد میں دینے کے لے اور پردے کے پیچھے سے عوام کو ایک پیغام دینے کے لے ایک اپنی طرز  کا منفرد مکالمہ رکھا گیا ہے جس کے اندر جہاں ایک طرف آپ اپنی ہنسی پر قابو  نہیں کر  پائنگیں  وہیں  دوسری طرف اس کے ذریعے آپ کو انتہائی اہم دینی معلومات ملنگیں  جس  کا عنوان ہے *"ہندوستانی مسلمانوں کی پریشانیاں مصائب اور ان کا دینی اور شرعی حل"* افراد مکالمہ درج ذیل ہیں
(1) *عبدالعلیم بن عبدالعظیم اعظمی*
(2) *محمد واصل اعظمی*
(3) *محمد عمیر اعظمی*
(4) *مطیع اللہ اعظمی*
(5) *اعظم اعظمی*
(6) *وکیع اعظمی*
(7) *عبدالرحیم اعظمی*
(8) *اسجد اعظمی*
(9) *اسلم اعظمی*
(10) *طاھر اعظمی*
(11) *عبداللہ اعظمی*
(12) *سلطان اعظمی*
(13) *عزیز الرحمن*

۔۔
وہیں  دوسری جانب سامعین کے مطالعہ کی وسعت کو پرکھنے کے لے دو اہم عنوان پر کوئز رکھی گی ہے اور بزم ھذا کے علاوہ کوی بھی ان سوالات کے  جوابات  دینے کا مستحق ہوگا اور صحیح جواب دینے والے کو تقریبا ایک  سوبیس روپیہ  کا انعام کتابی شکل میں دیا جاے گا ۔۔اور کوئز کا عنوان ہے
(1) *علم سیاست ایک مطالعہ*
جس کو *محمد عمیر اعظمی* متعلم دورہ حدیث شریف
(2) *سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم*
 ۔۔۔۔ جب کی ہماری محبوب انجمن کے محبوب ترانے کو ہمارے  محبوب رفیق درس  *محمد اسامہ اعظمی* متعلم تکمیل علوم  اور *محمد کامل محمد ابرار اعظمی* پیش کرینگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تمام حضرات انتہائی والہانہ عاجزانہ درخواست ہے کی آپ تمام حضرات پروگرام میں شرکت کرکے ہم اراکین انجمن نا دیا الاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی حوصلہ افزائی فرماے اور پروگرام کو مکمل طور پر کامیاب فرماے۔۔۔۔۔ اور اللہ تعالی سے دعا فرمائے کہ پروگرام مکمل طور پر کامیاب ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک بار پھر آپ حضرات سی انتہا ی عاجزانہ والہانہ کریمانہ مشفقانہ محبانہ درخواست کرتا ہوں کی آپ بزم ھذا کے اس پروگرام میں شرکت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرماے
 
 *یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے*

*بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں*

المحتاج الی دعاءکم الخیر ۔۔ 👇👇👇👇
عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی المنتسب الی القسم العلوم الشرعیة

عیدگاہ میدان میں جاری، دیوبند میں ’بھارت بند‘ بڑے پیمانے پر اثر دیوبند کے عیدگاہ میدان میں شاہین باغ کی طرز پر جاری دھرنے میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی، بہوجن کرانتی مورچہ نے بھی دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دیوبند میں بھارت بند بھی پوری طرح کامیاب رہا

 

عیدگاہ میدان میں جاری، دیوبند میں ’بھارت بند‘ بڑے پیمانے پر اثر

دیوبند کے عیدگاہ میدان میں شاہین باغ کی طرز پر جاری دھرنے میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی، بہوجن کرانتی مورچہ نے بھی دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دیوبند میں بھارت بند بھی پوری طرح کامیاب رہا


عارف عثمانی

دیوبند: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے احتجاج نے دہلی کے شاہین باغ کی صورت اختیار کرلی ہے اور گزشتہ تین دن سے سخت سردی اور بارش کے باوجود مسلسل کھلے میدان میں ڈٹی خواتین کو چاروں طرف سے زبردست حمایت مل رہی ہے۔
بدھ کے روز ’بھارت بند‘ کی کال کے سبب یہاں تاریخی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ عیدگاہ میدان سے ہزاروں مردو خواتین نے بیک آواز سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ کالا قانون اور ناجائز عمل واپس نہیں ہونگے اس وقت تک ہماری تحریک بدستور جاری رہے گی۔
متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں گزشتہ تین دنوں سے سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ چل رہا ہے۔ خواتین عیدگاہ کے میدان میں دن رات جمع ہیں اور وہ مسلسل حکومت کو وقت نشانہ بنارہی ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس احتجاج میں دیوبند کے اکثرو بیشتر گھروں سے باپردہ خواتین شامل ہورہی اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس تحریک میں اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ منگل کی رات اور بدھ کے روز کی بھیڑ اور خواتین کا جوش خروش قابل دید تھا۔ سخت سردی و بارش بھی ان باہمت خواتین کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکی۔
بہوجن کرانتی مورچہ کے سیکڑوں مرد و خواتین نے بدھ کے روز احتجاج گاہ پہنچ کر خواتین کو اپنی حمایت دی اور کہا کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک بہوجن کرانتی مورچہ کااحتجاج بھی جاری رہے گا۔ مورچہ کی خواتین ونگ کی عہدیدان رنجنا لہری نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ’’موجودہ مودی حکومت ہندوستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر رہی ہے۔ سی اے اے آئین کے خلاف ہے، جس کے لئے سیکولر ہندوستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ حکومت مسلم، دلت، پسماندہ اور دیگر دبے کچلے طبقات کے استحصال میں پیش پیش ہے لیکن اب ان کی یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوگی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اس حکومت کے پاس روزگار، معیشت، مہنگائی، کسان، تعلیم، صحت جیسے بنیادی سوالات کے جواب نہیں ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتے لیکن یہاں کے عوام اب ان کی پالیسی کو سمجھ چکے ہیں، حکومت کو اس قانون کو واپس لینا ہی ہوگا، کیونکہ یہ ملک گاندھی، ڈاکٹر امبیڈکر اور مولانا ابولکلام آزاد کے قائم کردہ راستوں پر چلے گا۔‘‘
پروگرام کی نظامت کر رہی فوزیہ سرور نے کہا کہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارا احتجاجی مظاہرہ بدستور جاری رہے گا کیونکہ ہم یہاں آئین ہند کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں۔
انقلابی نعروں کے ساتھ قومی پرچم ہاتھوں میں لیکر خواتین عیدگاہ کے میدان میں شدید سردی اور بارش کے باوجود ٹینٹ میں راتیں گزاررہی ہے، خواتین کی ہمتوں کو دیکھ کرلوگ رشک کررہے ہیں اور ان کی اس تحریک میں تعاون کررہے ہیں۔ حالانکہ انتظامیہ مسلسل اس تحریک کو ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن باہمت خواتین اس تحریک کو طویل مدت تک چلانے کے لئے پر عزم نظر آرہی ہیں۔
شہر سے مسلسل ٹولیوں میں ترنگے جھنڈوں کے ساتھ خواتین عیدگاہ میدان پہنچ رہی ہیں۔ خواتین نے قومی ترانہ اور آئین کی تمہید پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
میرٹھ سے آئیں قمر جہاں نے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔
متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی، عنبر ملک، نازیہ پروین، عذرا خان اور سلمہ احسن نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین کوسڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔
بھارت بند کے دوراندیوبند کا بند بازار ۔ فوٹو ایم افسر
بھارت بند کے دوراندیوبند کا بند بازار ۔ فوٹو ایم افسر
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بہوجن کرانتی مورچہ کے ’بھارت بند‘ کااثر دیوبند میں بھی دیکھنے کو ملا۔ یہاںمسلم علاقوں میں بند پوری طرح کامیاب رہا، حالانکہ مخلوط آبادی میں بند کا اثر جزوی طور پر نظر آیا۔ دریں اثنا، اکثریتی فرقہ کے علاقوں میں دکانیں مکمل طور پر کھلی رہیں۔
بھارت بند کی اپیل کے سبب بدھ کے روز شہر کے مسلم علاقوں میں پوری طرح بازار بند رہا، جبکہ ملی جلی آبادی میں بند ملا جلا ہی رہا اور خاص طورپر اکثریتی فرقہ کے لوگوںمیں حسب دستور کھلی نظر آئی۔ بازار بند کے سبب صبح سے ہی پولیس انتظامیہ اور ایس پی دیہات ودھیا ساگر مشر نے فورس ساتھ بازاروں میں گشت کیا۔ شہر میں بند کا باقاعدہ کوئی اعلان نہیں تھا اس کے باوجود صبح سے ہی مسلم علاقوں میں بند کا چرچہ تھا۔ تاجروں نہ صرف اپنے کاروباری اداروں کو بند رکھا بلکہ عیدگاہ کے میدان میں جاری خواتین کے احتجاج میں شامل بھی ہوئے۔
ایس پی دیہات ودھیا ساگر مشر نے بتایا کہ بند میں کسی بھی طرح کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنہوں نے اپنا احتجاج درج کرانا ہے انہوں نے پر امن طریقے سے اپنی دکانیں بند رکھی اور دیگر لوگوں نے حسب دستور اپنی دکانیں بھی کھولی ہیں۔حالانکہ ہفتہ واری بدھ بازار میں بھی آج رونقیں نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ سہارنپور اور مظفرنگر میں بند کا کافی اثر دیکھنے کو ملا اور یہاں بھی مسلم علاقوں میں پوری طرح بند رہا حالانکہ اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے اپنی دکانیں حسب دستور کھولے رکھے مگر خریدار کم ہی نظر آئے۔
خواتین کی اس تحریک کے سبب دیوبند میں چپہ چپہ پر پولیس فورس تعینات ہے، خاص طور پر عیدگاہ میدان کے اطراف، ہائی وے اور دیوبند حدودی علاقوں میں فورسس کو تعینات کیاگیا ،اتنا ہی نہیں خفیہ محکمہ او راعلیٰ افسران نہایت باریکی کے ساتھ احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس دھرنے کو ختم کرنے کی تک و دو میں بھی لگے ہوئے ہیں۔