اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: February 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 29 February 2020

*#یہ_غازی یہ تیرے پُراسرار بندے* افغان طالبان کی اقبال مندی پر ایک ہندی مسلمان کا پیامِ مسرت:

*#یہ_غازی یہ تیرے پُراسرار بندے*

افغان طالبان کی اقبال مندی پر ایک ہندی مسلمان کا پیامِ مسرت:

 آج افغانستان کی امارت اسلامیہ کو موجودہ نظام ہائے دنیا میں بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، اب یہ لوگ افغانستانی ملک کو Represent کرینگے_

یہ افغانی طالبان کون ہیں ایک پیراگراف میں جانیے:
طالبان  وہ لوگ ہیں جو کہ موجودہ ٹکنالوجی اور نیوکلیئر پاور کے دور میں بظاہر نہتے ہیں، عالمی برادری، جمہوری دنیا اور نام نہاد کٹھ پتلی عالم اسلام کے اعتبارسے تو مکمل اکیلے ، تنہا اور بظاہر اچھوت
 روسی افواج نے بھی ان پر حملہ کیا، سوویت یونین نے بھی ان پر جارحیت کی،برطانیہ نے بھی انہیں زیر کرنا چاہا پھر امریکہ کے زیرسایہ 56 ممالک کی فوجوں نے ان پر بم برسائے اور ناجائز طورپر افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں، ناجائز اور غیر قانونی حکومت تشکیل دی، ہر طرح سے ان کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی کروائی، رسد و کمک کے تمام راستے بند کردیے، آگ اور خون برساتے رہے،
 ایکطرف المناک مظالم کا یہ شیطانی وار تھا دوسری طرف امریکہ اور روس دو دو سپر پاورز کی علمی، صحافتی اور سفارتی طاقت نے متحدہ طورپر افغان طالبان کو پوری دنیا میں جان توڑ پروپیگنڈہ کرکے انسانیت مخالف اور گھناؤنا بنا کر پیش کیا، خلافت اسلامی، امارت اسلامی اور اسلامی نظام کو، انتہاپسندی اور دہشتگردی کا لباس پہنا کر اسے پوری دنیا میں اس طرح پھیلایا گیا کہ مغربی دنیا، لبرل، سیکولر، کمیونسٹ سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں ان اسلامی بنیادوں اور ان کے علمبرداروں کو اچھوت اور قابل احتراز بناکر عام کردیا_

 لیکن آج افغان طالبان کے آگے امریکہ نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، برابری کی سطح پر مذاکرات ہوئے ہیں، جس وقت معاہدے پر دستخط کا عمل ہورہاتھا اُس وقت ظالم و قابض امریکی نمائندوں کے چہرے پر برستی ہوئی بے نور پھٹکار اور امارت اسلامیہ کے مجاہد افغانیوں کے دمکتے ہوئے پرنور چہرے صاف طورپر اعلان کررہے تھے کہ اقبال مند کون ہیں؟

 دنیا بھر میں حقوق انسانی اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ نے افغان طالبان سے جن معاہدات پر دستخط کیے ہیں وہ امریکہ بنام امارت (حکومت)  اسلامیہ افغانستان ہیں
جس نظام حکمرانی کو ختم کرنے آئے تھے آج اسی نظام حکمرانی سے معاہدات کرنا پڑے ہیں

 کلمہ طیبہ کا پرچم تھامے،  کالی کملی والے فاتحِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانوں نے،  عظمتِ اسلامی کی تاریخ رقم کردی ہے، دنیا کی موجودہ سمت سے مایوسی کے شکار ہونے والے مؤمنین کے لیے یہ ہمت افزاء ہے

 آج کے معاہدات میں امریکہ ہارا ہے، کیونکہ امریکہ افغانستان سے واپس جائےگا
کیونکہ امریکہ کو امارت حکومت اسلامی افغانستان سے معاہدہ کرنا پڑا ہے
کیونکہ امریکہ کو اپنی کٹھ پتلی افغانستان حکومت کو علیحدہ چھوڑنا پڑا ہے
کیونکہ امریکہ کو اپنی سوچ تبدیل کرکے افغان طالبان کی بین الاقوامی حیثیت تسلیم کرنی پڑی ہے

 افغانستان میں جمہوریت کے نام پر بٹھائے گئے کٹھ پتلی منافقین کا ٹولہ " ینظرون من طرف خفی " کی منظرکشی کررہاہے
پوری دنیا یہ عجیب و غریب تماشا دیکھ رہی ہے،اسوقت عالم اسلام اور عالمی میڈیا کا بنیادی موضوع طالبان کی فتح ہوناچاہئے تھا لیکن دوغلی دنیا میں اتنی جرأت نہیں ہیکہ وہ اسلامی فاتحین کا تذکرہ کرسکیں، اسلیے وہ اسے مختلف حیلوں اور عناوین سے رخ موڑ کر پیش کررہےہیں جبکہ واقعہ یہی ہیکہ امریکہ کو افغانیوں کی شرائط تسلیم کرنا پڑی ہیں

 افغان کی حکومت اسلامیہ پوری دنیا میں ایک خودمختار حکومت ہے، انہیں آئینی، انسانی اور انصاف کی بنیادوں پر اپنی سرزمین پر اپنی ریاست تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے، آج اسے دنیا نے تسلیم بھی کرلیاہے، امید ہیکہ کم از کم اب تو مصلحت کے مارے مسلمان کھلے بندوں افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تہنیت پیش کرینگے، موجودہ شکست و ریخت کے دور میں یہ اچھی خبر ہے جس پر ایمانی اظہار بھی ضروری ہے

افغانیوں نے اپنی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہ سفر نہایت ہی کٹھن اور صبرآزما مراحل کے ساتھ طے کیا ہے میدان سے لیکر ایوان تک اور خیموں سے لیکر چوراہوں تک ہر افغانی کا چہرہ اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہے

پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشانِ نقشِ پا ملتا نہیں

 اس موقع پر اظہار مسرت کی اولین بنیاد اسلامی اخوت ہے،
 *افغان کی حکومت اسلامیہ سے ہمارے ملک ہندوستان کے حلیف امریکہ نے صلح کی ہے، اور ہمارے ملک کے آفیشل سفیر برائے قطر پی کمارن بھی اس تاریخی مجلس میں موجود ہیں، لہٰذا آئینی بنیادوں پر بھی دوست ملک کا حلیف اب دوست ہوگا اور یہی امکان ہےکہ دوست ملک کے حلیف سے آئندہ ہمارا وطنِ عزیز بھی سفارتکاری کرےگا*
 میں ذاتی طورپر ایک مومن کی حیثیت سے اپنے افغانی بھائیوں کو، افغان طالبان کو، افغانستان کی عوام کو، خاص طورپر نیک تمنائیں پیش کرتاہوں، ان کی جیت پر چراغاں کرتاہوں، ہندوستان کے نازک اور المناک ماحول میں دور کے دیار میں اپنے مومن بھائیوں کے اس عروج پر دل کو یک گونه قرار آیا ہے، اپنے تمام غموں کے باوجود میں  افغان طالبان کی اس جیت کو Celebrate کرتاہوں, اسلیے بھی کہ یہ ظالم پر بہادر اور باہمت کی فتح_

 اگر آج اقبال حیات ہوتے تو اس مصرعے کو باضابطہ آپ کے نام کرجاتے:

 *یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے*
*جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی*
*دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا*
*سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی*
کیونکہ افغانیوں نے بد سے بدتر حالات کا سامنا کیا لیکن جنگ اپنی شرطوں پر ہی لڑی اور اصولی تاریخ ہےکہ اپنی شرطوں پر لڑنے اور جینے والوں کے سَر کبھی نہیں جھکتے_

 آپکا ایمانی بھائی:
*سمیع اللّٰہ خان*
۲۹ فروری، بروزسنیچر ۲۰۲۰
ksamikhann@gmail.com

پکھرایاں چوکی انچارج کے تبادلہ پر الوداعی تقریب کے ذریعہ انکی خدمات کو سراہا گیا! کانپور :29!/فرروی 2020 آئی این اے نیوز


پکھرایاں چوکی انچارج کے تبادلہ پر الوداعی تقریب کے ذریعہ انکی خدمات کو سراہا گیا!
کانپور :29!/فرروی 2020 آئی این اے نیوز

کانپور دیہات یوپی میں اعلیٰ افسران کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تبادلہ ہوا
جس میں پکھرایاں پولیس چوکی کے انچارج انیلیش کمار یادو کو بھی رورا ضلع کانپور دیہات کی ذمہ داری دی گئی! اسی بناء پر پکھرایاں ضلع کانپور دیہات کے تھانہ بھوگنی پور میں انکے لئے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے معزز ترین شخصیات نے شرکت کی اور چوکی انچارج انیلیش یادو کی خدمات اور ایمانداری نیز ہندو مسلم ایکتا کو بنائے رکھنے اور ہر موڑ پر ایمان داری سے اپنی ذمہ داری نبھانے پر اہلیان شہر نے تأثرات پیش کیا اور انکی خدمات کی تعریف کی!
اس موقع پر سیف الاسلام مدنی نے کہا کہ ہمارے معزز چوکی انچارج انلیش کمار یادو ایک انتہائی ایمان دار اور انسانوں سے ہمدردی رکھنے والے ہیں انہوں نے پکھرایاں میں ہر طبقے کو ساتھ میں لےکر چلنے کی کوشش ہے اور ہر ممکن ایمانداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے ہم انکو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ آگے بھی اپنی جگہ پر پوری ایمانداری سے کام کرتے رہینگے!
اس موقع سپا کے سابق ضلع نائب صدر سمت سچان کاشف خان ڈاکٹر وی کے کمار سچان انیس پہلوان امت دیودی نیرج کمار انوپ کمار اور دیگر سماجی اور سیاسی شخصیات موجود رہے نیز پولیس اسٹاف بھی موجود رہے!

ضلع اقلیتی آفیسر نے د ارالعلوم فیض محمدی کا دورہ کیا آنند نگر مہراج گنج:29 /فروری 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! عبید الرحمن الحسینی

ضلع اقلیتی آفیسر نے د ارالعلوم فیض محمدی کا دورہ کیا


   آنند نگر مہراج گنج:29 /فروری 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! عبید الرحمن الحسینی
اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کے امتحانات کو نقل سے پاک صاف رکھنے کی غرض سے ضلع اقلیتی فلاح وبہبود آفیسر پروین کمار مشر نے امتحانی سینٹر دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ کا اچانک معاینہ کیا ،آپ کے ساتھ اقلیتی آفس مہراج گنج کے بابو ،برج بھوشن پٹیل بھی تھے۔
    اقلیتی آفیسر نے سینٹر کے تمام نظام کی اچھائی اور سختی کے ماحول میں چل رہے امتحانات کے علاوہ سی سی کیمرے کے سسٹم کو دیکھنے کے بعد امتحان گاہ کے ایک ایک کمرہ میں جاکر باریکی سے جائزہ لیا، آپ نے کمروں میں بہتر نظام اور امیدواروں کی سلقیہ مندی اور یکسوئی کیساتھ لکھتے ہوئے دیکھ کر اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ، معاینہ کے موقع پر آپ کے ساتھ دارالعلوم فیض محمدی کے پرنسپل مولانا محی الدین قاسمی ندوی اور بابو فیض احمد موجود تھے۔

*دامن کوہ سے صدائے حق کی باز گشت!* تحریر: انس بجنوری

*دامن کوہ سے صدائے حق کی باز گشت!*

تحریر: انس بجنوری

افغان سے تعلق ان پہاڑوں کے جانباز بیٹوں کی وجہ سے کس مسلمان کے دل میں نہیں پایا جاتا ، جنھوں نے سپر وار کی غلامی کو ٹھکرا کر بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا  ۔۔کون ہے جو ان کی صداوں کو شوق کے کانوں سے نہیں سنتا، جنھوں نے عزیمتوں کے اتنے عظیم باب باندھے ہیں کہ جس کی بنا پر اسلام کی جرآت مندانہ تاریخ کا تسلسل زندہ نظر آتا ہے ۔۔۔۔افغانی جنگ کے تناظر میں مفتی شفیع صاحب کی معرکۃ الآراء تصنیف "جہاد افغانستان  میں سات دن" اور معروف عالم دین صاحب طرز ادیب مولانا ابن الحسن عباسی کے اسی حوالے سے لکھے گئے بیشمار مضامین ، ساتھ ہی اوریا مقبول جان کے کئی انٹرویو اور بیشمار مضامین نیز افغان جہاد کے پس منظر میں لکھا گیا  عبرت انگیز ناول "پہاڑوں کا بیٹا" میرے مختصر اور محدود مطالعے کا محور ہے۔ ان سب میں افغان مجاہدین کی بےمثال قربانیوں اور جرات و ہمت پر مبنی ناقابل یقین کارناموں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔۔۔۔افغانستان کا علاقہ یوں تو انتہائی پسماندہ نظر آتا ہے ؛ لیکن اس کی حیرت انگیز جد و جہد کی بنا پر اس کے ساتھ جذباتیت سے بھرپور دلی وابستگی اور حقیقی وارفتگی ہے۔۔۔افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤوں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے، کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔۔۔اسلامی تاریخ کا بے مثال فاتح محمود غزنوی یہیں کا باشندہ تھا جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بت کدے لرزتے تھے۔۔۔پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبد الرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔۔۔یہ سب تاریخ اسلامی کی وہ عبقری شخصیات ہیں کہ زمانہ آج تک ان کی عبقریت کے گیت گا رہا ہے ۔۔۔اسی بنا پر یہاں سے دلی وابستگی جذباتیت کی حد تک ہر حق پرست مخلص مسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے۔۔۔اسی بنا پر آج ہر مسلمان افغان کی اس حیرت ناک جیت پر  قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کر رہا ہےاور یہ صدا لگا رہا ہے
*اسلام کے دامن میں اور اسے سوا کیا ہے*
*اک ضرب ید اللہی اک نعرہء تکبیری*
پہاڑوں کے یہ عظیم بیٹے شوق کا عنوان ہیں۔۔ وہ شادابی دل اور تفریحِ نظر کا سامان ہیں۔۔ ظلم کی سیاہ شب میں بھٹکے دل فگاروں اور رنجیدہ خاطروں کے درد کا درماں ہیں. وہ مجبوریوں کے درد سے معمور دلوں میں مدفون کچھ حسین خوابوں کی تعبیر نو ہیں. وہ امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز و محور بنتا جا رہے ہیں وہ افراد کے دائرے سے خراماں خراماں نکل کر ایک تحریک کا روپ دھارتے جارہے ہیں وہ سیاہ شب میں اپنی مشعلِ عزیمت جلائے افسردہ قلب جگمگاتے جارہے ہیں ۔۔وہ دورِ خزاں میں بہارِ لازوال کی ایک خوش کن نوید ہیں. وہ بجھی اور ویران و پریشان بزم میں چراغاں کرنے آرہے ہیں. وہ ٹوٹی طنابیں اپنے سریلے نغموں سے مسلسل جوڑ رہے ہیں ۔۔۔وہ خوبصورت اور خوش اندام نوجوان، اسلام پسند ہر ہر  فرد کو عزیز ہیں۔۔۔کیوں نہ ہوتے کہ وہ اپنا بستر چھوڑ کر اپنے اہل و عیال کو خیرآباد کہہ کر  اپنے مادر وطن کو امریکی طوق و سلاسل سے چھٹکارا دلانے کے لیے کوہ و بیاباں کے کھنڈرات میں محو سفر ہیں۔۔۔
وہ عجیب و غریب فولادی  نوجوان ہیں ان کے خون میں آگ کی سی حرارت ہیں. ان کا دل جذبہء صادق سے معمور ہیں اس کی آواز میں میں بلا کی گرج ہے. ان کے نطق میں غضب کی طاقت ہیں۔۔ان مردان حر سے کفر کانپتا ہےوہ جرات و ہمت کا ایک بھرپور خزینہ ہیں۔۔۔وہ عزم و ہمت کے خالد و طارق ابن و قاسم و غزنوی کے صحیح جانشین ہیں  تبھی تو اتنے بڑے اور طاقتور اسٹیٹ سے لڑائی مول لی۔۔۔۔ایک جرآت مند قلم کار لکھ کر گیا ہے "جب قابض غیر مہذب اور وحشی ہو، اس کا اجتماعی ضمیر خوں آشام ہو، اس کی اخلاقیات دھوکہ اور فریب ہو، اس کی ذہنیت غالبانہ، توسیع پسندانہ ہو اور وہ بندوق کی نالی سے سوچتا ہو تو ایسے میں پرامن مذاکرات حل نہیں ہو سکتا. ضروری ہے کہ اس کا گھمنڈ اور غرور توڑا اور کچلا جائے."
اسی لیے انہیں ظلم کے چھاوں کی زندگی راس نہیں آئی. انہیں راہِ مفر نہیں سوجھی. انہیں آدابِ غلامی کا پابند ہونا نہیں بھایا۔۔۔وہ متشدد نہیں  کہ انھوں نے سپر پاور (امریکہ) کے تسلط یا قبضہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔۔ بلکہ تشدد افغانستان میں امریکی حکومت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔۔ تشدد فوجی چھاؤنیوں، بنکروں، چوکیوں کی یہاں موجودگی ہے، اور قبضہ بہ ذات خود سب سے بڑا تشدد ہے. اس لیے قبضہ و تسلط کی وکالت کرنے والوں کو "تشدد" اور "مدافعت" میں فرق کو سمجھ لینا چاہیے."

ان عشق و وفا کے راہیوں نے اس راہ کا انتخاب کر کے امریکہ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔۔۔ہم نے بہت پہلے لکھا تھا جو اب لفظ بہ لفظ حقیقت بن کر سامنے آگیا کہ ۔۔۔۔ انسانی تاریخ عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے، ہر طاقت کا عروج کسی کا زوال ہوتا ہے، طاقت کو ایک دن نا طاقتی کا لباس اوڑھنا ہی ہوتا ہے، فرعون، نمرود، سے لے کر الیگزینڈر دی گریٹ تک سب نے زوال کا مزہ چکھا ہے، روما اور فارس کی عظیم سلطنتوں کا زوال عرب کے ننگ دھڑنگ بدوؤں کا عروج تھا، عربوں نے جب خدا کی کتاب سے روگردانی کی تو انکی جگہ ترکوں نے لے لی اور ترکوں کا زوال تاج برطانیہ کے عروج کا سورج لے کر طلوع ہوا اور ایسا عروج جس کے بارے میں کہا جاتا تھا سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا، پھر اسکے بعد سویت یونین جس کے ٹوٹنے پر کئی ریاستیں دنیا کے افق پر نمودار ہوئیں اور سویت یونین کے زوال کی کوکھ سے امریکہ بہادر نے عروج کی پگڈنڈی پر پاوں رکھا وہ امریکہ بہادر جو دنیا کی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کا باپ مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود انکل سام کو پتھر کے دور میں رہنے والے طالبان نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا اور آج وہ اپنے زخم سہلاتا ہوا افغانستان سے نکلنے کے درپے ہے کیوں کہ وہ خود کو سویت یونین جیسے انجام سے بچانا چاہتا ہے لیکن اسکا انجام تو لکھا جا چکا ہے... ۔
امریکہ کی مصنوعی معیشت اندر سے کھوکلی ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن میں رپورٹس تجزیے یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ کا زوال تہہ شدہ ہے...
اب تاریخ انسانی میں طاقتوں کے عروج و زوال میں انسانوں کے لیے بے شمار سبق پوشیدہ ہیں اور جو یہ سبق نہیں سیکھتا وہ ایک دن انہی کی صف میں لا کھڑا کر دیا جاتا ہے.... ایک دوست نے واٹسپ پر خط لکھا کہ افغانستان کے حالات اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے طالبان کے حق میں ہیں اس لیے تمام مسلمانوں سےاپیل ہے کہ کسی کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں ان شاء اللّٰہ ہم سب پھر سے شریعت نافذ ہوتی دیکھیں گے۔۔۔ اور اک بات جو آپ کے علم میں ہونی چاہیئے وہ یہ کہ ، طالبان نے نہایت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے چالیس کے ممالک کے حضور میں معاہدے پر دستخط کروا رہے ہیں جسکا مطلب کہ امریکہ سمیت چالیس کے قریب ممالک طالبان کو اک طاقت اور حکومت تسلیم کر رہے ہیں۔۔۔۔

اور کفرستان ریزہ ریزہ ہوا تحریر ✍️ حمزہ اجمل جونپوری

اور کفرستان ریزہ ریزہ ہوا

تحریر ✍️ حمزہ اجمل جونپوری

عالم اسلام خون سے رنگین ہو رہی تھی کوئی انکی آہ سننے والا نہیں تھا کوئی انکا پرسان حال نہیں تھا ہر طرف سے کفرستان کے بزدل عالم اسلام پر حملہ کر رہے تھے ایسے میں افغانستان میں ایک جماعت طلوع ہوئی
خلافت راشدہ کا نمونہ پیش کرنے والا حرم کا پاسبان کفرستان کا فاتح ملا عمر مجاہد رحمہ اللہ امت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے انکے چھلکتے ہوئے آنسو کو پوچھنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا دنیا اسے جانتی نہیں دنیا اسے پہچانتی تک نہیں تھی وہ افغانستان کی پہاڑوں میں بسیرا کرنے والا پھٹی چٹائی پر سونے والا اسے معلوم نہیں تھا کہ کیا تاریخ رقم ہونے والی ہے وہ جانتا تک نہیں تھا اسے بادشاہوں کا بادشاہ امیر المومنین بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا وہ جب عالم کفر کو للکارتا تھا تو ایک شور برپا ہوتا تھا کفر کے خیموں میں ایک گھبراہٹ برپا ہوتی تھی ایک شکشت خوردہ آہ سنائی دیتی تھی
جب امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تو اپنی طاقت کے غرور میں اعلان کر رہا تھا دو مہینے میں انکا صفایا ہو جائے گا لیکن دنیا نے دیکھا وہ آج بھی فخر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور امریکی فوج جس غرور کے ساتھ آئی تھی اس سے زیادہ اسپیڈ کےساتھ بھاگنے کے لئے طالبانیوں کے آگے سر نگوں ہے
آج پہاڑوں کے بیٹوں نے دکھا دیا ذات اللہ کے سواء کوئی سپر پاور نہیں جب امریکہ اپنے پورے لاو لشکر کے ساتھ اپنی جدید ٹیکنولوجی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا اور جدید ٹیکنولوجی کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا یہ مٹھی بھر طالبانیوں کو ایک ہفتہ میں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے لیکن طالبانی بے یار و مددگار اللہ کے بھروسے پھٹے کپڑے اور چپل میں دنیا کی سپر پاور سے ٹکرا گئے
اور انکی لاشوں کے انبار لگا دئے اور ثابت کیا کہ اسلام جھکنے کے لئے نہیں بنا اسلام جھکانے کے لئے بنا یہ چند نوجوان جو جدید ٹیکنولوجی سے واقف نہیں تھے جو بلٹ پروف گاڑیوں کو دیکھا نہیں تھا لیکن آسمان و زمین گواہ ہیں کہ وہی بلٹ پروف گاڑیوں کے پرخچے ہوا میں دھول کی طرح اڑا رہے تھے امریکیوں اور ناٹو کے لشکر کو صفحہ ہستی سے مٹا رہے تھے افغانستان کی سر زمین کو گوروں سے پاک کر رہے تھے
سی آئی اے نے بھی تسلیم کیا دنیا نے بھی تسلیم کیا ان دیوانوں سے لڑنا ان جانبازوں سے ٹکرانا کسی کی اوقات نہیں ایسی کوئی ٹیکنالوجی ہی نہیں بنی جو انکو ختم کردے وہ 15لاکھ سے زائد لاشیں اٹھا کر گھبرائے نہیں بلکہ اللہ سے مدد و نصرت چاہتے رہے اور آج وہ دن بھی آ گیا وہ ملا وہ شیخ الحدیث بن گیا امیرالمومنین
اللہ تعالی آپ لوگوں کا سایہ تادیر قائم رکھے ✌
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
حمزہ اجمل جونپوری

وزیراعظم مودی کے پاس شہریت کا کوئی ثبوت نہیں ہے مگر وہ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہیں: پی ایم او


وزیراعظم مودی کے پاس شہریت کا کوئی ثبوت نہیں ہے مگر وہ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہیں: پی ایم او


نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی شہریت کے بارے میں سوال کرنے والے ایک بھارتی شہری کی طرف سے دائر آر ٹی آئی کے جواب میں پی ایم او(وزیراعظم آفس) نے جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس شہریت کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیوں کہ پیدائشی طور پر ایک ہندوستانی شہری ہے۔
سی اے اے مخالف احتجاج
جب سے مرکز میں بی جے پی حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا ہے اس سے پہلے اور بعد بھی سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور ملک کا ہر شہری پریشان ہے کہ اپنی شہریت کیسے ثابت کرے۔
ار ٹی داخل کیا گیا
دریں اثنا ایک سبھاونکر سرکار نامی شخص نے 17 جنوری 2020 کو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کا شہریت کا سرٹیفکیٹ مانگنے کے لئے آر ٹی آئی داخل کی تھی۔
ار ٹی ائی کا جواب
ان کی آر ٹی آئی کے جواب میں پی ایم او کے سکریٹری پروین کمار نے لکھا: "وزیر اعظم شری نریندر مودی شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 3 کے تحت پیدائشی طور پر ہندوستان کے شہری ہیں اور اس طرح کہ ان کے شہریت ہونے کے سوال کے طور پر جو سرٹیفیکیشن رجسٹریشن کے ذریعہ شہریت کے لئے ہے وہ موجود نہیں ہیں۔
وزیر اعظم کے دفتر کا ردعمل مبہم اور غیر واضح ہے۔
ہندوستان کے شہری شہریت کے معاملے پر پریشان ہیں ، یہاں تک کہ پی ایم او وزیر اعظم نریندر مودی کے شہریت کا سرٹیفکیٹ دکھانےمیں ناکام ہے۔
جو ہنس کے لئے اچھا ہے کیا وہ گیڈر کے لئے اچھا ہے؟
سی اے اے کے نفاذ کے بعد اگر سرکاری اہلکار شہریت کی دستاویز طلب کریں تو شہری پیدائشی طور پر اپنے آپ کو شہری ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صورت میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عام شہری کے اس طرح کے دعوے کو قبول کیا جائے گا؟

بشکریہ سیاست ڈاٹ کام 

Friday 28 February 2020

دارالعلوم دیوبند کے استاذ مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض


دارالعلوم دیوبند کے استاذ مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض


حیدر آباد : دارالعلوم دیوبند کے استاد مفتی اشتیاق احمد قاسمی کو ان کے تحقیقی مقالہ علما ء دیوبند کی اردو سوانح عمریوں کا تنقیدی جائزہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ،مفتی اشتیاق احمد نے یہ مقالہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شمس الہدی دریابادی کی نگرانی میں مکمل کیا ،اس مقالہ پر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ہال میں مناقشہ ہوا ،ممتحن کی حیثیت سے سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد ڈاکٹر فاطمہ پروین تشریف لائی تھیں ،انہوں نے طویل مناقشہ کے بعد مقالہ کی ستائش کی اور اسے ممتاز تحقیقی مقالوں میں قرار دیتے ہوئے ریسرچ اسکالر مفتی اشتیاق احمد قاسمی اورنگراں ڈاکٹر شمس الہدی دریابادی کو مبارکباد دی ۔
مفتی اشتیاق احمد نے اپنےا س تحقیقی مقالہ میں علماء دیوبند کی سوانح عمریوں کا سائنٹفک مطالعہ کیا ہے اور جدید اصول کے مطابق علماء دیوبند کی سوانح عمریوں کا تنقیدی ،تحقیقی اور تقابلی جائزہ پیش کیا ہے ،اپنی نوعیت کا بہت ہی اہم تحقیقی کارنامہ ہے ۔
اس موقع پر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے صدر پروفیسر نسیم الدین فریس ،پروفیسر فاروق بخشی ،ڈاکٹر جابر حمزہ ،ڈاکٹر بی بی رضا ،شعبہ عربی کے استاد ڈاکٹر جاوید ،شعبہ تعلیم کے ستاد ڈاکٹر افروز ،اس کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس ،طلبہ اور طالبات موجود رہے۔
مفتی اشتیاق احمد قاسمی کا تعلق ضلع دربھنگہ بہار سے ہے ،دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،اس سے قبل ڈکٹر شمس الہدی کی ہی نگرانی میں دارالعلوم دیوبند کے تین بڑے شاعر کے عنوان سے مقالہ تحریر کر چکے ہیں جس پر انہیں ایم فل کی ڈگری تفویض کی گئی تھی ،ایک اچھے مدرس، مقرر اور سنجیدہ قلمکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ،ان کی متعدد کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔
اس اہم کامیابی کے لیے بڑی تعداد میں سرکردہ شخصیات اور دانشوروں نے انہیں مبارکباد پیش کی ہے ۔جن میں سے چند نام ڈاکٹر ابوبکر عباد استاد شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی ،دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسين مفتی سعید احمد پالنپوری، مفتی اشرف عباس قاسمی ،مولانا شاہ عالم گورکھپوری، جامعہ ربانی منوروا شریف کے مہتمم مفتی اختر امام عادل قاسمی ،مولانا احمد سجاد قاسمی، پروفیسر شمس عالم قمر، ڈاکٹر نوشاد عالم، مفتی رضوان قاسمی ممبئی، عبدالباری قاسمی ،نایاب حسن قاسمی ،شاداب شمیم ،والد انوار احمد، چچا زاد بھائی ارشاد اور فیضان عالم وغیرہ کے ہیں. دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اور طلبہ میں بھی خوشی کا ماحول ہے اور سب لوگ مبارکباد دے رہے ہیں.

طاغوتی طاقتوں کے سامنے داستان عزیمت رقم کرنے والے دلی کے مسلمان محمد طلحہ برنی دہلی یونیورسٹی

طاغوتی طاقتوں کے سامنے داستان عزیمت رقم کرنے والے دلی کے مسلمان

محمد طلحہ برنی
دہلی یونیورسٹی

 إن يمسسكم قرح فقد مس القوم قرح مثله وتلك الأيام نداولها بين الناس(القران الكريم)

صبرواستقامت... ایمان ویقین... ایثار و قربانی... حکمت و دانائی... عدل وانصاف... ہمت وجواں مردی... شجاعت و بسالت کی وہ زریں تاریخ دلی کے مسلمانوں نے  رقم کی ہے کہ شاید ہی سرزمین دلی نے گزشتہ صدی سے اب تک  اس کی نظیر پیش کی ہو.
نمرودوں کے سامنے ابراہیمی صبر، فرعونوں کے سامنے موسوی استقامت، طاغوتوں کے سامنے محمدی (صلى الله عليه وسلم) حکمت و دانائی، ابو جہلوں کے سامنے معاذو معوذی جواں مردی، ہرقلوں اور کسراؤں کے سامنے فاروقی عدل و انصاف اور رستموں کے سامنے ولیدی شجاعت کو دلی کے مسلمانوں نے تازہ وزندہ کیا.

   اے غیور دلی والو!  تم نے اس قوم کے سر کو فخر سے بلند کیا ہے تم نے بتایا کہ یہ سر صرف ایک ذات وحدہ لاشریک کے سامنے جھک سکتا ہے کسی شیطان کے سامنے نہیں. بیشک تم نے جام شہادت نوش کرلیا لیکن اپنی عزت و حرمت پر آنچ نہیں آنے دی تم کوہ گراں بن کر ڈٹے رہے کہ بندوقوں و بارودوں سے مسلح وحشی تمہیں شکست نا دے سکے.
اے دلی کے جیالو!  تم نے بہادری کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ جسے ہم نے اپنے اسلاف کی تاریخ میں پڑھا تھا. تم نے مسلمان کو اس کی طاقت کا احساس کرایا، تم نے مردہ قوم کو استقلال و عزیمت کا سبق یاد کرایا، تم نے نفرت و عداوت کے فلک بوس آتش فشاں کا مقابلہ کرتے ہوۓ بھی عدل و انصاف کا وہ مثالی اور اعلی معیار قائم کیا کہ جس کو پیش کرنے سے دوسری اقوام کی تاریخ مجرد ہے اور جو صرف اہل ایمان ہی کا طرہ امتیاز ہے.
   آسمان و زمین نے ہمیشہ کی طرح دیکھا کہ کفریہ طاقت نے آمنے سامنے کی لڑائی میں شیطانی پولیس کی سپورٹ کے باوجود شکست کھائی تو راہ گیروں اور شذوذ میں رہنے والے مسلمانوں کو نشانہ بناکر ان کو شہید کیا ان کی مساجد کو شہید کیا ان کی املاک کو لوٹا اور جلایا. یہ یقینا بزدلی ناکامی اور حیوانیت تھی.

       تم نے سوچا تھا کہ مسلمان تر نوالہ ہیں ان کو ایسے ہی نگل لیا جاۓ گا پر خدا کے حکم سے دلی کے مسلمانوں نے تمہیں غلط ثابت کرکے ناکوں چنے چبوادیے اور یہ بتایا یہ گجرات نہیں دلی ہے یہ 2002 نہیں 2020 ہے یہ سویا ہوا مسلمان نہیں بیدار اور مقابلہ کرنے والا مسلمان ہے.
        تم نے سوچا تھا کہ حکومت کی ایماء اور پولیس کی سپورٹ لے کر تم حیوانیت کا ننگا ناچ ناچ کر اطمینان سے چلے جاؤ گے اور تمہیں کھرونچ تک بھی نہیں آۓ گی پر تمہیں مومن عقابوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں بھی وہ مزا چکھایا کہ مصالحت کی اپیلیں کرنے لگے
      تم نے سوچا تھا کہ تمہاری بندوقوں کے سامنے بموں کے سامنے مسلمان کانپنے لگیں گے اور لاشیں بن کر تمہاری قدموں میں گرنے لگیں گے پھر تم ان کی عزت و حرمت کو پیروں تلے مسلوگے پر تمہیں جلدی ہی احساس ہوگیا کہ تمہارے سامنے ایک ایسی جاوید قوم کھڑی ہے جس کے بچے عمرو بن کلثوم کے اس شعر کا مصداق ہیں:
                       اذا بلغ الصبي لنا فطاما
                       تخر له الجبابر ساجدينا

      تم طاقت کے نشے میں حیوان بن کر حملہ آور ہوۓ پر شاید تمہیں اندازہ نہیں تھا کہ تمہارا مقابلہ پندرہ سے لے کر اسی سال تک کے بچوں جوانوں اور بوڑھوں پر مشتمل ایک ایسی جماعت سے ہے جو صرف ایک خدا قہار سے ڈرتی ہے جو اپنے اسلحے پر توکل اور غیروں کے اسلحے سے خوف زدہ ہونے کے بجاۓ خدا قادر مطلق پر اعتماد اور اسی سے خوف زدہ ہوتی ہے.

        بیشک جانی و مالی نقصان ایمان والوں کا زیادہ نظر آتا ہے اس وجہ سے کہ تم نے کتوں کی طرح جھنڈ بناکر راہ گیروں اور الگ تھلگ رہ جانے والے نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنایا لیکن بزدلو تم میں اور ہم میں بہت فرق ہے.
 وہ فرق یہ ہے کہ موتانا فی الجنة وموتاكم في النار.
وہ فرق یہ ہے کہ ہم شہادت پر فخر کرتے ہیں تم ماتم کرتے ہو، ہم موت و زیست کی حقیقت سے واقف اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور تمہارے حصے میں دنیا میں صرف سینہ کوبی اور آخرت میں دائمی عذاب ہے.
وہ فرق یہ ہے کہ ہمارے لئے ابدی کامیابی ہے اور تمہارے لئے ابدی خسارہ، ہمارے لئے ہمارا رب کافی ہے اور تمہارے لئے تمہارے اصنام اور معبودان باطلہ کبھی کافی نہیں ہوسکیں گے.

 یاد رکھو شیطان کے پجاریو

ہم پھر سے اٹھیں گے
پہلے سے زیادہ مستعد ہوکر
پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوکر
پہلے سے زیادہ متحد ہو
پہلے سے زیادہ منظم ہوکر
پہلے سے زیادہ منصف بن کر
پہلے سے زیادہ مصلح بن کر
اور پھر تمہارے شر و فتنہ تمہارے ظلم و ستم کی اس دنیا کو ختم کرکے خیر و صلاح، ایمان و یقین اورعدل و مساوات کی ایک نئی دنیا بنائیں گے جہاں بڑے سے بڑے طاغوت کو اس کے انجام تک پہنچائیں گے. یہ ہوکر رہے گا ان شاء الله، یہ رب کائنات کا وعدہ ہے ، ان الله لا يخلف الميعاد.

کنہیا کمار پر چلے گا غداری وطن کا مقدمہ، کیجریوال حکومت نے دی منظوری کنہیا کمار پر 2016 کے فروری مہینہ میں جے این یو کمپلکس میں لگے ہندستان مخالف نعروں اور نفرت پھیلانے کے الزام میں دہلی پولیس نے تقریباََ ایک برس پہلے ہی فرد جرم داخل کر دی تھی


کنہیا کمار پر چلے گا غداری وطن کا مقدمہ، کیجریوال حکومت نے دی منظوری

کنہیا کمار پر 2016 کے فروری مہینہ میں جے این یو کمپلکس میں لگے ہندستان مخالف نعروں اور نفرت پھیلانے کے الزام میں دہلی پولیس نے تقریباََ ایک برس پہلے ہی فرد جرم داخل کر دی تھی۔


جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبہ یونین کے سابق صدر  کنہیا کمار کی مشکلات میں اب اضافہ ہو جائے گا۔ دہلی میں اروند کیجریوال حکومت نے اب ان کے خلاف غداری کے معاملہ میں مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ سرکاری ذرائع نے یہ اطلاع دی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے امیدوار کے طور پر گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بہار کے بیگو سرائے سیٹ سے الیکشن لڑ چکے کنہیا کمار پر غداری کا معاملہ چلانے پر کیجریوال حکومت کی طرف سے اجازت نہیں دینے پر گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی بہت ہنگامہ مچا تھا۔
1582916387379889-0
کنہیا کمار پر غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے متعلق فائل دہلی حکومت کے محکمہ داخلہ کے پاس پڑی ہوئی تھی۔ کنہیا پر 2016 کے فروری مہینہ میں جے این یو کمپلکس میں لگے ہندستان مخالف نعروں اور نفرت پھیلانے کے الزام میں دہلی پولیس نے تقریباََ ایک برس پہلے ہی فرد جرم داخل کر دی تھی۔ پولیس نے کمار پر غداری سمیت آٹھ دفعات لگائی ہیں۔
خیال رہے کہ دہلی پولیس نے کمار کے علاوہ جے این یو کے سابق طلبا عمر خالد، انربن اور سات دیگر لوگوں کے خلاف گزشتہ برس 14جنوری کو غداری، فساد بھڑکانے اور مجرمانہ سازش کے تحت فردجرم دائر کی تھی۔ اس کے بعد دہلی پولیس نے دہلی حکومت سے مقدمہ چلانے کی اجازت مانگی تھی۔
اس معاملہ میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے پٹیالہ ہاوس کے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں 1200صفحات پر مشتمل فردجرم دائر کی تھی۔ اس معاملہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنوں اور جے این یو کے سیکورٹی گارڈوں کو گواہ بنایا گیا ہے۔ اس معاملہ میں حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے پولیس کو اسٹیٹس رپورٹ مانگتے ہوئی ہدایت دی تھی کہ وہ دہلی حکومت کو اس معاملہ میں ریما ئنڈر بھیجے اور اس نے تین اپریل کو سماعت کے لئے اگلی تاریخ مقرر کر دی تھی۔
اس پر وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ردعمل میں کہا تھا کہ وہ اس معاملہ میں اپنی حکومت سے جلد فیصلہ کرنے کے لئے کہیں گے۔ گزشتہ دنوں دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران بھی اس معاملہ پر بی جے پی اور عام آدمی پارٹی نے ایک دوسرے پر خوب الزام اورجوابی الزام لگائے تھے۔

دہلی فسادات: ہائی کورٹ کے موجودہ جج سے کرائی جائے تحقیقات، سول سوسائٹی کا مطالبہ۔ , دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے سوال اٹھاتے ہوئےکہا دہلی میں بڑے بڑے ادارے ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے علاوہ خواتین کمیشن، اطفال کمیشن جیسے ادارے ہیں، لیکن کسی نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا


دہلی فسادات: ہائی کورٹ کے موجودہ جج سے کرائی جائے تحقیقات، سول سوسائٹی کا مطالبہ۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے سوال اٹھاتے ہوئےکہا دہلی میں بڑے بڑے ادارے ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے علاوہ خواتین کمیشن، اطفال کمیشن جیسے ادارے ہیں، لیکن کسی نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

 شمال مشرقی دہلی میں فسادات کو کنٹرول میں کرلیا گیا ہے، لیکن اس درمیان سول سوسائٹی کی طرف سے پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کرکے سول سوسائٹی کی طرف سےتحقیقات کو لےکرسوال اٹھائےگئے ہیں اورکہا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے معاملےکی تحقیقات ہائی کورٹ کےکسی سیٹنگ جج کے ذریعےکرائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فسادات کو لےکر بھی کہا گیا ہےکہ دہلی میں فساد کے پیچھے مبینہ سازش ہے۔
1582917343796766-0
پریس کلب آف انڈیا میں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی، جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی، سماجی کارکن پرشانت ٹنڈن کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبرکمال فاروقی اور کئی افراد و سماجی کارکن دانشور شامل ہوئے۔ اس موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے بڑا سوال اٹھاتے ہوئےکہاکہ شہریت قانون کےخلاف ملک بھر میں پُر امن احتجاج ہورہے تھے، لیکن اسی درمیان ایک لیڈرکے ذریعے ان احتجاج کےخلاف اشتعال انگیزی کی گئی اور ایک ڈی سی پی کے سامنےکہا گیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے کے بعد وہ نہیں رکیں گے، لیکن امریکی صدر کے دورے کے خاتمے تک بھی انتظار نہیں کیا گیا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب کر دی گئی اور ہندوستان کو بد نام کردیا گیا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے سوال اٹھاتے ہوئےکہا دہلی میں بڑے بڑے ادارے ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے علاوہ خواتین کمیشن، اطفال کمیشن جیسے ادارے ہیں، لیکن کسی نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ دہلی اقلیتی کمیشن اپنا کام کر رہا ہے اور پیرکےدن اس کی ٹیم متاثرہ علاقے کا دورہ کرےگی۔ انہوں نےکہا کہ جن افسران کو جانچ کی ذمہ داری دی گئی ہے، ان کی اہلیت پرکوئی سوال نہیں، لیکن وہ دوسروں کےاشاروں پرکام کرتے رہےہیں۔ ایک آفیسرکو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کی تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن اس میں اب تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح سے الیکشن کمیشن نےانتخابات کے دوران ایک افسرکو ٹھیک سے کام نہ کرنےکی وجہ سے ہٹا دیا تھا۔ کمال فاروقی نےکہا کہ شہریت قانون کے خلاف پورے ملک میں چل رہے احتجاج کو ختم کرانےکی سازش کی گئی ہے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے سوال اٹھایا کہ دہلی میں فسادات کے درمیان تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 20 سے 25 ہزار گھروں کو نذرآتش کردیا گیا ہے۔ ایسے میں صرف طاہرحسین کی جانچ کی جارہی ہے۔ میں طاہرحسین کا دفاع نہیں کرتا، اگر وہ گنہگار ہے تو ان کو سزا ملے، لیکن ان کے معاملےکے ذریعہ دوسرےگنہگاروں کو بچانےکی کوشش نہیں کی جانی چاہئے، جنہوں نے اعلان یا اشتعال انگیزی کی اورگولی مارو کےنعرے دیے‌۔ سوال یہ بھی ہے کہ جس طریقے سے چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ان کے گھرپراینٹ پتھر اوربوتلیں پائی گئی ہیں جن میں پٹرول تھا یہتو اپنے تحفظ کےلئے بھی لوگ کرتے ہیں۔ کہا جارہا ہےکہ ان کےگھر میں بڑے ہتھیار برآمد ہوئے ہیں، وہ ہتھیار کہاں ہیں، اگر پتھر اور بوتلیں ہتھیارہیں تو مجھے بہت ڈرلگتا ہے۔ جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ شاہد صدیقی نےکہا انہیں نہیں لگتا کہ دہلی پولس اس معاملے میں درست تحقیقات کر سکےگی۔

دہلی تشدد: فورنسک ٹیم کے جائے حادثہ پر پہنچنے سے پہلے میڈیا نے ثبوتوں کا کیا پوسٹ مارٹم طاہر حسین کے گھر پر پتھر اور پٹرول بم ملے تھے، جس کے بعد ان پر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ لیکن فورنسک ٹیم سے پہلے نیوز چینل والے طاہر حسین کے گھر پہنچے اور ثبوتوں کے ساتھ ٹی آر پی کا کھیل کھیلنے لگے



دہلی تشدد: فورنسک ٹیم کے جائے حادثہ پر پہنچنے سے پہلے میڈیا نے ثبوتوں کا کیا پوسٹ مارٹم

طاہر حسین کے گھر پر پتھر اور پٹرول بم ملے تھے، جس کے بعد ان پر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ لیکن فورنسک ٹیم سے پہلے نیوز چینل والے طاہر حسین کے گھر پہنچے اور ثبوتوں کے ساتھ ٹی آر پی کا کھیل کھیلنے لگے

شمال مشرقی دہلی میں پیدا فسادات نے اب تک 42 لوگوں کی جان لے لی اور اس پورے معاملے کی جانچ کے لیے باضابطہ ایس آئی ٹی تشکیل بھی دے دی گئی ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ فورنسک ٹیم سے پہلے کئی مقامات پر میڈیا والے پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے ایسے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ضروری اور اہم چیزوں سے چھیڑ چھاڑ ہو گئی ہے۔ دراصل دہلی فورنسک سائنس لیباریٹری کی ایک ٹیم چاند باغ علاقے میں کونسلر طاہر حسین کی فیکٹری سے ثبوت جمع کرنے کے لیے پہنچی۔ عآپ سے نکالے گئے طاہر حسین پر دہلی میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے افسر انکت شرما کے قتل میں شامل رہنے اور فساد بھڑکانے کا الزام ہے۔ جمعرت کو طاہر حسین کے گھر پر پتھر اور پٹرول بم ملے تھے، جس کے بعد ان پر ایف آئی درج کر لی گئی۔ لیکن فورنسک ٹیم سے پہلے نیوز چینل والے طاہر حسین کے گھرپہنچے اور ثبوتوں کے ساتھ ٹی آر پی کا کھیل کھیلنے لگے۔
بتایا جاتا ہے کہ طاہر کے گھر پر کئی ایسی چیزیں ملیں جو اہم ثبوت بن سکتے تھے، لیکن چینل کے رپورٹروں نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے معاملہ خراب کر دیا۔ اس معاملے میں پولس کی لاپروائی بھی سامنے آ رہی ہے۔ خبر میں آنے کے بعد بھی پولس نے وہاں جا کر ان چیزوں کی جانچ کی زحمت نہیں اٹھائی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا رپورٹروں کے ذریعہ کوریج کے نام پر طاہر حسین کی چھت پر ملی چیزوں کو ہاتھ سے اٹھا کر ادھر ادھر رکھنے سے اصلی گنہگاروں تک پہنچنا مشکل نہیں ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ طاہر ھسین کے گھر پر پتھر اور پٹرول بم ملے تھے، جس کے بعد کل رات ان پر دیال پور پولس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ طاہر حسین پر دہلی پولس نے آئی پی سی کی دفعہ 302 ّ(قتل کی سزا) کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ طاہر حسین پر انٹیلی جنس بیورو کے افسر انکت شرما کے قتل کا الزام ہے۔ اسی معاملے کی جانچ کے لیے دہلی فورنسک سائنس لیباریٹری کی ایک ٹیم 28 فروری کو چاند باغ علاقہ میں کونسلر طاہر حسین کی فیکٹری اور گھر سے ثبوت جمع کرنے پہنچی۔
غور طلب ہے کہ انکت شرما کے گھر والوں نے مقامی کونسلر طاہر حسین پر قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ طاہر حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ الزام غلط ہے۔ جس وقت یہ پورا واقعہ ہوا وہ اپنے گھر سے نکل کر کسی رشتہ دار کے یہاں چلا گیا تھا۔ عآپ کونسلر طاہر حسین نے اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے ویڈیو جاری کر خود کو بے قصور بتایا ہے

*اُردو کو فراموش کرکے یوگا کے چرنوں میں پہنچے نام نہاد اقلیتی نمائندہ: نظرعالم* *اُردو کو اقلیتی زبان قرار دینا اورقومی حیثیت کو ختم کرناحکومت کی بڑی سازش: بیداری کارواں* مدھوبنی :28/فروری 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! محمد سالم آزاد :

*اُردو کو فراموش کرکے یوگا کے چرنوں میں پہنچے نام نہاد اقلیتی نمائندہ: نظرعالم*

*اُردو کو اقلیتی زبان قرار دینا اورقومی حیثیت کو ختم کرناحکومت کی بڑی سازش: بیداری کارواں*

مدھوبنی :28/فروری 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! محمد سالم آزاد :
سابق وزیرمملکت حکومت ہند اور جدیو لیڈر علی اشرف فاطمی اُردو کو فراموش کرکے اب یوگا کی تعلیم عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اُردو کے خلاف ہونے والی حکومتی سازش کے خلاف ایک لفظ نہیں بولنے والے علی اشرف فاطمی نے گذشتہ دنوں بھاجپا یوا مورچہ کے ضلعی صدر کے ساتھ بہار کے گورنر سے ملاقات کرکے اُنہیں دربھنگہ واقع سنسکرت یونیورسٹی میں یوگا کی تعلیم کا آغاز کرنے کے لئے میمورینڈم دیا۔ شروع سے اب تک بھاجپا کے خلاف سیاست کرنے والے علی اشرف فاطمی کا بھاجپا والوں کے ساتھ مل کر نئی سیاست کی آغاز کرنا بہت کچھ واضح کرتا ہے۔مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے کہی۔ مسٹرنظرعالم نے کہا کہ خود کو اقلیتوں کا بڑا  نمائندہ قرار دینے والے فاطمی کو اقلیتوں کے درمیان اپنی حیثیت کا اندازہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو کے خلاف مرکزی حکومت میں ہورہی سازش کے خلاف انہوں نے ایک لفظ بولنا مناسب نہیں سمجھا۔ واضح ہوکہ اُردو کے فروغ کے لئے قائم ادارہ این سی پی یو ایل کو جو فروغِ انسانی وسائل کی وزارت کے تحت چل رہا ہے،اقلیتی امور کی وزارت کو سونپنے کا مطالبہ خود اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کیا ہے، نقوی کا کہنا ہے کہ اُردو اقلیتی زبان ہے اس لئے اسے اقلیتی امور کی وزارت کے تحت ہونا چاہئے۔ اُردو کو اقلیتی زبان قرار دینا ایک بڑی سازش ہے اور اس کی قومی حیثیت کو ختم کرنا ہے، اس تجویز کی مخالفت دیگر زبانوں کے ادبا بھی کررہے ہیں اور اسے حکومت کی فرقہ وارانہ سوچ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن فاطمی جو خود اس ادارہ کے ذمہ دار رہ چکے ہیں اور اردو کی بات کرتے رہے ہیں اور مشاعرے کراکر ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں۔ آج اسے فراموش کرکے بھاجپا اور یوگا کے چرنوں میں آگئے ہیں جسے افسوسناک ہی کہا جائے گا۔

*1/مارچ کو ڈاکٹرشکیل احمدلال باغ اور سوبھن ستیہ گرہ کا کریں گے دورہ* مدھوبنی :28 /فروری 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! محمد سالم آزاد

*1/مارچ کو ڈاکٹرشکیل احمدلال باغ اور سوبھن ستیہ گرہ کا کریں گے دورہ*

مدھوبنی :28 /فروری 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! محمد سالم آزاد

 کانگریس پارٹی کے سینئرلیڈر اور سابق مرکزی وزیرڈاکٹرشکیل احمد پچھلے کئی مہینوں سے لگاتار سی اے اے، این پی آر، این آرسی کے خلاف چل رہے غیرمعینہ دھرنا میں شریک ہورہے ہیں اور اس کالے قانون کے خلاف زبردست طریقے سے اپنی باتوں کو رکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت علیل ہونے کی وجہ کر وہ کچھ دنوں کے لئے ملک سے باہربھی گئے تھے لیکن جلدہی واپس لوٹ کر اس لڑائی میں جو بھی لوگ شامل ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور مضبوطی دینے کے لئے لگاتار جگہ جگہ چل رہے دھرنا کا دورہ کررہے ہیں اور مرکز کی حکومت کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کالا قانون کسی بھی حال میں ملک کی عوام لاگو ہونے نہیں دے گی۔ نفرت کی سیاست بند کریئے اور ملک میں امن بھائی چارے کا ماحول بنائیں۔ ملک آئین سے چلے گا نہ کہ آر ایس ایس کے مینوفیسٹو سے چلے گا۔ اسی کڑی میں سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئرلیڈر جناب ڈاکٹرشکیل احمد 1/ مارچ کو شام 6:30 بجے دربھنگہ لال باغ ستیہ گرہ پر تشریف لائیں گے ساتھ ہی بہادرپور بلاک کے سوبھن چوک پر چل رہے غیرمعینہ دھرنا میں بھی اُسی دن شام میں 7:30 بجے شامل ہوکر اس لڑائی کو مضبوطی دینے کا کام کریں گے۔ مذکورہ اطلاع آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے سکریٹری انجینئرفخرالدین قمر نے پریس بیان جاری کر دی ہے۔ مسٹرقمر نے بتایا کہ ڈاکٹرشکیل احمد کی اہلیہ کی طبیعت علیل ہونے کے باوجود وہ ہم سبھوں کی اس لڑائی میں لگاتار ساتھ دے رہیں اس لئے ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ 1 /مارچ کو کثیرتعداد میں لال باغ ستیہ گرہ اور سوبھن چوک پر تشریف لاکر ڈاکٹرشکیل احمد کو ضرور سنیں۔

ایس این شریواستو دہلی کے نئے پولس کمشنر مقرر، کل سنبھالیں گے ذمہ داری دہلی میں پرتشدد واقعات کے درمیان وزارت داخلہ نے فوری احکام جاری کرتے ہوئے ایس این شریواستو کی تقرری دہلی کے اسپیشل کمشنر کے طور پر کی تھی، اور اب انھیں دہلی پولس کمشنر کی ذمہ دارینے کا فیصلہ کیا گیا۔



ایس این شریواستو دہلی کے نئے پولس کمشنر مقرر، کل سنبھالیں گے ذمہ داری

دہلی میں پرتشدد واقعات کے درمیان وزارت داخلہ نے فوری احکام جاری کرتے ہوئے ایس این شریواستو کی تقرری دہلی کے اسپیشل کمشنر کے طور پر کی تھی، اور اب انھیں دہلی پولس کمشنر کی ذمہ دارینے کا فیصلہ کیا گیا۔

شمال مشرقی دہلی میں پرتشدد واقعات کے سبب لگاتار تنقید کا سامنا کر رہے دہلی پولس کمشنر امولیہ پٹنایک کی جگہ ایس این شریواستو کو دہلی کا نیا پولس کمشنر بنائے جانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ امولیہ پٹنایک کی مدت کار 29 فروری کو ختم ہو رہی ہے اور ایس این شریواستو ان کی جگہ پولس کمشنر کا عہدہ 29 فروری یعنی ہفتہ کے روز سنبھالیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ ایس این شریواستو کو کچھ دن پہلے ہی اسپیشل کمشنر (قانون و انتظام) مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ جموں و کشمیر میں سی آر پی ایف میں تعینات تھے۔ دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے تشدد کو روکنے کے لیے انھیں دہلی پولس میں اسپیشل کمشنر بنایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایس این شریواستو اے جی ایم یو ٹی 1985 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ دہلی میں پرتشدد واقعات کے درمیان وزارت داخلہ نے منگل کو فوری احکام جاری کرتے ہوئے ایس این شریواستو کی تقرری دہلی کے اسپیشل کمشنر کے طور پر کی تھی، اور اب انھیں دہلی پولس کمشنر کی ذمہ دارینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ دہلی پولس کی اسپیشل سیل میں رہ چکے ہیں۔ اسپیشل سیل میں رہتے ہوئے ایس این شریواستو نے دہلی میں آئی پی ایل میچ میں فکسنگ کا انکشاف کیا تھا۔ اس وقت وہ دہلی پولس کی اسپیشل سیل میں اسپیشل پولس کمشنر کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی پولس کمشنر کے موجودہ پولس کمشنر امولیہ پٹنایک کو اسی سال جنوری میں سبکدوش ہونا تھا، لیکن دہلی اسمبلی کے انتخابات کے پیش نظر ان کی مدت کار ایک مہینے بڑھا دی گئی تھی۔ گویا کہ 29 فروری کو وہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جب ایس این شریواستو کو دہلی بلایا گیا، تبھی کئی لوگوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ انھیں دہلی کا پولس کمشنر بنایا جا سکتا ہے۔ ایس این شریواستو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں جلدی اور صحیح فیصلہ لینے میں ماہر ہیں۔ ایسے میں ان کے نام کو لے کر کمشنر عہدہ کی ذمہ داری انھیں دیے جانے کی قیاس آرائیاں تیز ہو گئی تھیں۔
بہر حال، جموں و کشمیر میں اے ڈی جی، مغربی حلقہ (سی آر پی ایف) رہتے ہوئے خانہ جنگی جیسی حالت سے نمٹنے کا ان کا طویل تجربہ ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ ان کے اس تجربہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی میں تشدد کو قابو میں کرنے کے لیے ان کی تعیناتی اسپیشل کمشنر کے طور پر کیا گیا۔ جہاں تک دہلی کا سوال ہے، پولس کے اسپیشل سیل میں بھی انھوں نے کئی اہم کام کیے ہیں۔ دہلی میں رہتے ہوئے انھوں نے کئی دہشت گردوں کو بھی پکڑا تھا۔

دنیا سے ہائے!! فخرِ زمانہ چلا گیا ، از✍ احتشام الحق ، مظاہری، کبیر نگری،

دنیا سے ہائے!! فخرِ زمانہ چلا گیا ،


                         از✍
احتشام الحق ، مظاہری، کبیر نگری،



 میرے مشفق و مکرم ، حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ ، کی ہمہ گیر شخصیت ، اس گلدستۂ سب رنگ کی حیثیت رکھتی تھی ، جس میں کہیں نقشِ فا جلوہ گر تھے تو کہیں محاسن و مکارم کے گل بوٹے سجائے گئے تھے ،   کہیں سعئ پیہم او ر جہد و مسلسل کی تصویریں کندہ تھیں تو کہیں اخلاقِ کریمانہ کی عطر بیزی ہورہی تھی،  کہیں وسعت ظرفی اور عفو در گزر کی گلکاریاں تھیں ، تو کہیں حلم و بردباری کے جلوے نظر آتے تھے ،،
کہیں ہمہ گیر تعمیراتی اسکیمیں دعوت نظارہ دے رھی تھیں ، تو کہیں اصلاح و باطن اور تزکیۂ قلوب و نفوس کی تدبیریں رو بہ اثر تھیں ، کہیں ان کے اولو العزمانہ اقدامات کی چھاپ دکھائی دیتی تھی ،،،،تو کہیں ان کے مجاہدانہ ٹاپوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی، کہیں بے باکانہ تقریروں کی گونج سنائی دیتی تھیں ، تو کہیں انقلاب آفریں نعرۂ تکبیر کی گھن گرج بھی سنائی دیتی تھی، کہیں سیکڑوں کتابوں کے کامیاب مصنف نظر آتے تھے تو کہیں بہترین مدرس کے روپ میں بھی  تشریف فرماتھے، کہیں وہ مردم سازی کا ہمہ گیر مشن چلاتے نظر آتے تھے ، تو کہیں امراض دروں کا نسخۂ شافی بھی دیتے نظر آتے تھے ، کہیں تفسیر و حدیث کو موضوع تدریس بناتے نظر آتے تھے، تو کہیں فقہ و کلام کی عقد کشائی بھی کرتے دیکھائی دیتے تھے ، کہیں وہ صرف و نحو کی پرپیچ وادیوں کو سہل العبور بناتے دیکھے جاتے تھے ، تو کہیں منطق و فلسفہ کی تسہیل و تہذیب میں مشغول نظر آتے تھے ، کہیں سلوک و تصوف کو جدت و قدرت بخشتے دیکھائی پڑتے تھے ، تو کہیں شعرو ادب کی زلف طرح دار میں مہارتِ فن کا شانہ سجاتے دیکھائی دیتے تھے، کہیں کاروانِ اھل تحقیق و تدقیق کی سر براہی کرتے نظر آتے تھے ،تو کہیں نکتۂ سنجانِ فن کی قیادت کرتے نظر آتے تھے، کہیں وہ خونِ جگر سے اسلام کی آب پاشی کرتے دیکھے جاتے تھے ، تو کہیں قصر دین کے بام و در پر صدق و صفا کا رنگ چڑھا نے میں مصروف تھے، کہیں وہ طالبانِ علوم نبوت کی میزبانی کرنے میں مشغول تھے تو کہیں واردین و صادرین کی مزاج پرسی میں ہمہ تن متوجہ تھے، کہیں مہمانوں کے خورد نوش کا بہترین انتظام فرماتے تھے ، تو کہیں ان کے ہمہ انواع راحت رسانی کا بندو بست کرتے نظر آتے تھے ، کہیں احباب و رفقاء سے پیمانِ وفا باندھ تے تھے ، تو کہیں محفلِ دوستاں میں حدیث دل سناتے تھے ، کہیں وہ مصیبت زدوں کی فریاد رسی کرتے تھے ، تو کہیں بیواؤں اور مفلسوں کی کفالت فرماتے تھے، کہیں وہ یتیموں اور بے سہاروں کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے ، تو کہیں امت کے زخموں پر مرحم فشار انگلی رکھتے تھے،  کہیں وہ استغناء عن الدنیا کا درس دیتے تھے، تو کہیں خود ہی درس کی عملی تفسیر بن جاتے تھے، کہیں زہد و قناعت کا نمونہ پیش فرماتے تھے تو کہیں الفخر فخری کی زندہ تصویر بن جاتے تھے، کہیں وہ سرمایۂ آخرت کہلاتے تھے،، تو کہیں گدڑیوں میں  لعل کا مصداق ثابت ہوتے تھے، کہیں جلوتوں میں مرد میدان نظر آتے تھے تو کہیں خلوتوں میں آہ و گریہ زاری میں محو ہوتے تھے، ،، کہیں اشٹیجوں پر صدر باوقار کے روپ میں جلوہ گر ہوتے تو کہیں عزلت نشینی میں جامۂ خاکساری زیب تن کئے دیکھے جاتے تھے، کہیں وہ دینی و تبلیغی اسفار میں سرگرداں رہتے تھے تو کہیں اقامت پزیر ہوکر خانہ بدوشوں کی باز آباد کاری کے پہلو رو بہ عمل لاتے تھے،،،،،، کہیں وہ فکر آخرت اور تزکیرِ قیامت کا وعظ فرماتے تھے ، تو کہیں دنیا کی بے ثباتی اور زوال کو دلوں میں راسخ فرماتے تھے، کہیں وہ سلوک و تصوف کی راہوں کو نو آموزوں کے لئے روشن درخشاں بناتے تھے ،  تو کہیں بزم عرفانی میں معرفت حق کا راز آشکار کرتے نظر آتے تھے،، کہیں معرفت کے جامِ جم چھلکاتے تھے تو کہیں میخواروں میں صہبائے مدینہ کے ساغر و مینا لٹاتے تھے، ،،، کہیں وہ درس و تدریس کو محبوب مشغلہ بناتے تھے ،،، تو کہیں تصنیف و تالیف کا قلمدان بھی سنبھالے بیٹھے رہتے تھے،،،،، کہیں وہ خدمتِ خلق میں ہمہ تن لگے ہوئے تھے ، تو کہیں ملتِ بیضاء کی عظمت کو چار چاند لگانے میں کوشاں ہو تے تھے،، کہیں وہ ایک روحانی حکیم کی روپ میں ہوتے تھے ، تو کہیں زخم خوردوں کی مسیحائی کرتے تھے،، کہیں وہ اکابر کی دل و جان سے تعظیم بجا لاتے تھے  تو کہیں  اصاغر کی از حد حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے،  کہیں وہ اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے تو کہیں دوسروں کے لئے راحت و آرام کے ہر طرح سے انتظامات کرتے تھے، ،،،، کہیں مہر و الفت کا  فرش زمردیں بچھاتے تھے ،، تو کہیں وہ داد و دہش کے  لنگر لٹاتے تھے،،،، کہیں غیروں سے سوال نہ کرنے کی ترغیب بھی دلاتے تھے ، تو کہیں وہ جہل و ناخواندگی   کی تاریک ترین فضا کو علم و خواندگی کی روشنی سے معمور کرتے تھے، کہیں خرافات و بدعات کا جنازہ نکالتے تھے تو کہیں وہ رسمِ بد کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے، ،،، کہیں دینی اسلامی چرچے کی خبر سن کر مگن ہو جاتے تھے تو کہیں وہ عشقِ خدا میں فنائیت تک پہنچے ہوئے تھے اور حب نبی میں محویت کے مقام پر فائز تھے ،،،،،،

الغرض ،،، قسام ازل نے ان کی ذات میں اس قدر خصوصیات و تفردات امتیازات و کمالات اور نوادرات و شذرات ودیعت فرمائی تھی کہ جنہیں  قیدِ تحریر میں لانا ناممکن ھے ،،،،،


اس مردِ حق شناس میں تھیں خوبیاں ہزار

بے مثل،   باکمال تھا     یکتائے    روز گار 



حضرت مولانا کے انتقال سے ایسا محسوس ہوتا ھے کہ کائنات تو موجود ھے لیکن فکر و خیال کی دنیا اجڑ گئی آپ کی یاد ہمیشہ آتی رھے گی اور آپ ہمیشہ آنکھوں میں بسے رہنگے زندگی جس ذاتِ گرامی کے گرد گھوم رھی تھی وہ اب جلوہ افروز نہ رھی علم و فضل کی وہ محفل اجڑ گئی

اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور صبح شام ابر ہائے رحمت انکے مرقد کو سیراب کرتا رھے            امین

دہلی تشدد: 50 تک ہو سکتی ہے مہلوکین کی تعداد، لاش کے لیے اِدھر اُدھر بھٹک رہے اہل خانہ دہلی فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 50 تک ہو سکتی ہے کیونکہ صرف جی ٹی بی اسپتال نے ہی 33 اموات کی تصدیق کی ہے۔ کئی دیگر اسپتالوں میں بھی زخمیوں کا علاج چل رہا ہے اور وہاں ہوئی ہلاکتوں کی خبر نہیں۔



دہلی میں ہوئے فسادات میں مہلوکین کی تعداد 50 تک ہو سکتی ہے، کیونکہ ابھی تک صرف ’آفیشیل نمبر‘ ہی بتایا جا رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دہلی کے دوسرے اسپتالوں میں بھی زخمیوں کو علاج کے لیے داخل کرایا گیا ہے۔ ابھی تک تنہا شمال مشرقی دہلی کے دلشاد گارڈن واقع گرو تیغ بہادر اسپتال نے 33 اموات کی تصدیق کی ہے، بقیہ اسپتالوں سے ہلاکتوں کے تعلق سے کوئی خبر نہیں آئی ہے۔
جی ٹی بی اسپتال کے ایک افسر نے بتایا کہ ’’جی ٹی بی اسپتال میں 33 لوگوں کی موت آفیشیل ریکارڈ میں درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پیر سے اب تک 225 سے زیادہ لوگوں کے علاج کےلیے اسپتال لایا گیا ہے، ان میں سے 55 لوگ اب بھی اسپتال میں داخل ہیں جن میں سے 3 آئی سی یو میں ہیں۔‘‘
ان آفیشیل اعداد و شمار میں دہلی کے لوک نایک جے پرکاش نارائن (ایل این جے پی) اسپتال، جگ پرویش چندرا اسپتال اور مصطفیٰ آباد، کراول نگر، لونی، جعفر آباد اور سیلم پور علاقوں کے اسپتالوں اور نرسنگ ہوم میں لائے گئے یا مرے ہوئے لوگوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ فساد متاثرہ علاقے کے نالوں وغیرہ سے بھی لاش ملنے کی خبریں ہیں۔
اس دوران جمعرات کو بھی کراول نگر سے ٹارگیٹیڈ حملوں کی خبریں آتی رہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ جمعرات شام تقریباً 6.30 بجے 15 سال کے ثاقب کو سنگین چوٹوں کے ساتھ اسپتال لایا گیا۔ وہ شادی وگیرہ میں روٹی-چپاتی بنانے کا کام کرتا ہے اور وہ کام کر کے شام کو گھر واپس جا رہا تھا، تبھی اس پر کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا۔
اس کے علاوہ فساد کے چار دن بعد بھی کئی خاندان ہیں جو ابھی تک اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو حاصل کرنے کے لیے جی ٹی بی اسپتال کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ ان لاشوں کا ابھی تک پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے، اس لیے لاشوں کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جی ٹی بی اسپتال میں جن 33 لوگوں کی موت ہوئی ہے، ان میں سے صرف 9 لاشوں کا ہی پوسٹ مارٹم ہو پایا ہے۔ ایسے میں متاثرہ خاندان دہلی حکومت کے ماتحت آنے والے اسپتال اور دہلی پولس کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ایسی بھی کئی لاشیں ہیں جو پیر سے ہی اسپتال میں ہیں، لیکن پوسٹ مارٹم نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک گھر والوں کو نہیں سونپے جا سکے ہیں۔
دراصل ضابطہ کے مطابق اگر کسی شخص کی غیر قدرتی موت ہوتی ہے تو اس کی خبر مقامی پولس تھانہ میں دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد پولس کی طرف سے ایک جانچ افسر ایک سلپ لکھ کر دیتا ہے جس میں مہلوک کے بارے میں ساری جانکاری ہوتی ہے۔ اس سلپ کو اسپتال کے بورڈ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس بورڈ کو دہلی سرکار کے سکریٹری برائے صحت طے کرتے ہیں او راس میں ایسے تین میڈیکل پروفیسر ہوتے ہیں جو فورنسک ایکسپرٹ بھی ہوں۔ دہلی پولس سے سلپ ملنے کے بعد ہی بورڈ اس لاش کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔ دراصل اس بورڈ کی تشکیل میں ہی تاخیر ہوئی اور منگل کو ہی اس کی تشکیل ہو پائی۔
اسپتال کے ایک افسر نے بتایا کہ ’’اسپتال تبھی کسی لاش کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے جب دہلی پولس کا جانچ افسر رپورٹ دیتا ہے۔ لیکن دہلی پولس کی طرف سے لاشوں کی سلپ ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘‘ لیکن بورڈ کی تشکیل میں تاخیر پر سوال پوچھنے پر یہ افسر سوال کو ٹال گیا۔
اپنے بھائی کی لاش کے لیے انتظار کر رہی فرحانہ بے حد دکھ اور غصے میں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’ہم منگل سے یہاں ہیں۔ میرے بھائی کو 24 فروری کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا۔ بھگیرتی وِہار میں تقریباً 40 لوگوں کی بھیڑ ہمارے گھر میں گھس آئی تھی۔ انھوں نے میرے شوہر کو پیٹا اور بھائی کو باہر کھینچ کر لے گئے۔ اگلے دن ہمیں ان کی لاش گھر کے قریب نالے میں ملی۔ ہم 25 فروری کو انھیں اسپتال لائے تھے۔ لیکن ابھی تک پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ابھی کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
اسی طرح سائرہ بیگم بھی اپنے 22 سالہ ذہنی طور سے معذور بھائی مہتاب کی لاش کا انتظار کرتے ہوئے بے تحاشہ رو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’مہتاب گھر سے باہر گیا تھا لیکن پھر نہیں لوٹا۔ ہم نے اسے ڈھونڈا تو وہ خون سے لت پت پڑا ملا۔ ہم اسے مہر نرسنگ ہوم لے کر گئے اور منگل کو یہاں لے کر آئے۔ اب افسر اس کی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے اور ہم سے چکر لگوا رہے ہیں۔‘‘
اس درمیان عام آدمی پارٹی لیڈر رام نواس بھی جی ٹی بی اسپتال کا دورہ کرنے پہنچے تھے۔ لیکن ان کے پاس بھی لاشوں کے پوسٹ مارٹم میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آئی او کی سلپ ملنے کے بعد ہی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوگا۔ دہلی پولس جان بوجھ کر اس میں تاخیر کر رہی ہے۔‘‘
اس سلسلے میں جب پولس سے پوچھا گیا تو خود کا نام تیاگی بتانے والے دہلی پولس کے ایک انسپکٹر نے کہا کہ ’’ہم سلپ تیار کر رہے ہیں۔ اس میں وقت لگتا ہے۔ بدھ کو 4 پوسٹ مارٹم ہوئے تھے، آج بھی (جمعرات کو) 5 پوسٹ مارٹم ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔‘‘