اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *دامن کوہ سے صدائے حق کی باز گشت!* تحریر: انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 29 February 2020

*دامن کوہ سے صدائے حق کی باز گشت!* تحریر: انس بجنوری

*دامن کوہ سے صدائے حق کی باز گشت!*

تحریر: انس بجنوری

افغان سے تعلق ان پہاڑوں کے جانباز بیٹوں کی وجہ سے کس مسلمان کے دل میں نہیں پایا جاتا ، جنھوں نے سپر وار کی غلامی کو ٹھکرا کر بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا  ۔۔کون ہے جو ان کی صداوں کو شوق کے کانوں سے نہیں سنتا، جنھوں نے عزیمتوں کے اتنے عظیم باب باندھے ہیں کہ جس کی بنا پر اسلام کی جرآت مندانہ تاریخ کا تسلسل زندہ نظر آتا ہے ۔۔۔۔افغانی جنگ کے تناظر میں مفتی شفیع صاحب کی معرکۃ الآراء تصنیف "جہاد افغانستان  میں سات دن" اور معروف عالم دین صاحب طرز ادیب مولانا ابن الحسن عباسی کے اسی حوالے سے لکھے گئے بیشمار مضامین ، ساتھ ہی اوریا مقبول جان کے کئی انٹرویو اور بیشمار مضامین نیز افغان جہاد کے پس منظر میں لکھا گیا  عبرت انگیز ناول "پہاڑوں کا بیٹا" میرے مختصر اور محدود مطالعے کا محور ہے۔ ان سب میں افغان مجاہدین کی بےمثال قربانیوں اور جرات و ہمت پر مبنی ناقابل یقین کارناموں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔۔۔۔افغانستان کا علاقہ یوں تو انتہائی پسماندہ نظر آتا ہے ؛ لیکن اس کی حیرت انگیز جد و جہد کی بنا پر اس کے ساتھ جذباتیت سے بھرپور دلی وابستگی اور حقیقی وارفتگی ہے۔۔۔افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانی خراسان) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔ افغانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح بو علی سینا جسے اسلامی اور مغربی دنیاؤوں میں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے، کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔۔۔اسلامی تاریخ کا بے مثال فاتح محمود غزنوی یہیں کا باشندہ تھا جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بت کدے لرزتے تھے۔۔۔پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبد الرحمٰن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔۔۔یہ سب تاریخ اسلامی کی وہ عبقری شخصیات ہیں کہ زمانہ آج تک ان کی عبقریت کے گیت گا رہا ہے ۔۔۔اسی بنا پر یہاں سے دلی وابستگی جذباتیت کی حد تک ہر حق پرست مخلص مسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے۔۔۔اسی بنا پر آج ہر مسلمان افغان کی اس حیرت ناک جیت پر  قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کر رہا ہےاور یہ صدا لگا رہا ہے
*اسلام کے دامن میں اور اسے سوا کیا ہے*
*اک ضرب ید اللہی اک نعرہء تکبیری*
پہاڑوں کے یہ عظیم بیٹے شوق کا عنوان ہیں۔۔ وہ شادابی دل اور تفریحِ نظر کا سامان ہیں۔۔ ظلم کی سیاہ شب میں بھٹکے دل فگاروں اور رنجیدہ خاطروں کے درد کا درماں ہیں. وہ مجبوریوں کے درد سے معمور دلوں میں مدفون کچھ حسین خوابوں کی تعبیر نو ہیں. وہ امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز و محور بنتا جا رہے ہیں وہ افراد کے دائرے سے خراماں خراماں نکل کر ایک تحریک کا روپ دھارتے جارہے ہیں وہ سیاہ شب میں اپنی مشعلِ عزیمت جلائے افسردہ قلب جگمگاتے جارہے ہیں ۔۔وہ دورِ خزاں میں بہارِ لازوال کی ایک خوش کن نوید ہیں. وہ بجھی اور ویران و پریشان بزم میں چراغاں کرنے آرہے ہیں. وہ ٹوٹی طنابیں اپنے سریلے نغموں سے مسلسل جوڑ رہے ہیں ۔۔۔وہ خوبصورت اور خوش اندام نوجوان، اسلام پسند ہر ہر  فرد کو عزیز ہیں۔۔۔کیوں نہ ہوتے کہ وہ اپنا بستر چھوڑ کر اپنے اہل و عیال کو خیرآباد کہہ کر  اپنے مادر وطن کو امریکی طوق و سلاسل سے چھٹکارا دلانے کے لیے کوہ و بیاباں کے کھنڈرات میں محو سفر ہیں۔۔۔
وہ عجیب و غریب فولادی  نوجوان ہیں ان کے خون میں آگ کی سی حرارت ہیں. ان کا دل جذبہء صادق سے معمور ہیں اس کی آواز میں میں بلا کی گرج ہے. ان کے نطق میں غضب کی طاقت ہیں۔۔ان مردان حر سے کفر کانپتا ہےوہ جرات و ہمت کا ایک بھرپور خزینہ ہیں۔۔۔وہ عزم و ہمت کے خالد و طارق ابن و قاسم و غزنوی کے صحیح جانشین ہیں  تبھی تو اتنے بڑے اور طاقتور اسٹیٹ سے لڑائی مول لی۔۔۔۔ایک جرآت مند قلم کار لکھ کر گیا ہے "جب قابض غیر مہذب اور وحشی ہو، اس کا اجتماعی ضمیر خوں آشام ہو، اس کی اخلاقیات دھوکہ اور فریب ہو، اس کی ذہنیت غالبانہ، توسیع پسندانہ ہو اور وہ بندوق کی نالی سے سوچتا ہو تو ایسے میں پرامن مذاکرات حل نہیں ہو سکتا. ضروری ہے کہ اس کا گھمنڈ اور غرور توڑا اور کچلا جائے."
اسی لیے انہیں ظلم کے چھاوں کی زندگی راس نہیں آئی. انہیں راہِ مفر نہیں سوجھی. انہیں آدابِ غلامی کا پابند ہونا نہیں بھایا۔۔۔وہ متشدد نہیں  کہ انھوں نے سپر پاور (امریکہ) کے تسلط یا قبضہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔۔ بلکہ تشدد افغانستان میں امریکی حکومت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔۔ تشدد فوجی چھاؤنیوں، بنکروں، چوکیوں کی یہاں موجودگی ہے، اور قبضہ بہ ذات خود سب سے بڑا تشدد ہے. اس لیے قبضہ و تسلط کی وکالت کرنے والوں کو "تشدد" اور "مدافعت" میں فرق کو سمجھ لینا چاہیے."

ان عشق و وفا کے راہیوں نے اس راہ کا انتخاب کر کے امریکہ کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔۔۔ہم نے بہت پہلے لکھا تھا جو اب لفظ بہ لفظ حقیقت بن کر سامنے آگیا کہ ۔۔۔۔ انسانی تاریخ عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے، ہر طاقت کا عروج کسی کا زوال ہوتا ہے، طاقت کو ایک دن نا طاقتی کا لباس اوڑھنا ہی ہوتا ہے، فرعون، نمرود، سے لے کر الیگزینڈر دی گریٹ تک سب نے زوال کا مزہ چکھا ہے، روما اور فارس کی عظیم سلطنتوں کا زوال عرب کے ننگ دھڑنگ بدوؤں کا عروج تھا، عربوں نے جب خدا کی کتاب سے روگردانی کی تو انکی جگہ ترکوں نے لے لی اور ترکوں کا زوال تاج برطانیہ کے عروج کا سورج لے کر طلوع ہوا اور ایسا عروج جس کے بارے میں کہا جاتا تھا سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا، پھر اسکے بعد سویت یونین جس کے ٹوٹنے پر کئی ریاستیں دنیا کے افق پر نمودار ہوئیں اور سویت یونین کے زوال کی کوکھ سے امریکہ بہادر نے عروج کی پگڈنڈی پر پاوں رکھا وہ امریکہ بہادر جو دنیا کی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کا باپ مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود انکل سام کو پتھر کے دور میں رہنے والے طالبان نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا اور آج وہ اپنے زخم سہلاتا ہوا افغانستان سے نکلنے کے درپے ہے کیوں کہ وہ خود کو سویت یونین جیسے انجام سے بچانا چاہتا ہے لیکن اسکا انجام تو لکھا جا چکا ہے... ۔
امریکہ کی مصنوعی معیشت اندر سے کھوکلی ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن میں رپورٹس تجزیے یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ کا زوال تہہ شدہ ہے...
اب تاریخ انسانی میں طاقتوں کے عروج و زوال میں انسانوں کے لیے بے شمار سبق پوشیدہ ہیں اور جو یہ سبق نہیں سیکھتا وہ ایک دن انہی کی صف میں لا کھڑا کر دیا جاتا ہے.... ایک دوست نے واٹسپ پر خط لکھا کہ افغانستان کے حالات اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے طالبان کے حق میں ہیں اس لیے تمام مسلمانوں سےاپیل ہے کہ کسی کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں ان شاء اللّٰہ ہم سب پھر سے شریعت نافذ ہوتی دیکھیں گے۔۔۔ اور اک بات جو آپ کے علم میں ہونی چاہیئے وہ یہ کہ ، طالبان نے نہایت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے چالیس کے ممالک کے حضور میں معاہدے پر دستخط کروا رہے ہیں جسکا مطلب کہ امریکہ سمیت چالیس کے قریب ممالک طالبان کو اک طاقت اور حکومت تسلیم کر رہے ہیں۔۔۔۔