اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 28 August 2023

تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر دعائیہ تقریب کا انعقاد

 قرآن انسان کے لیے چشمہ حیات ہے: قمرالزماں ندوی 

مہنداول (نمائندہ) مدرسہ عربیہ مخزن العلوم بھینسا معافی سنت کبیر میں دو بچوں نوشاد احمد اور محمد ارمان کے حفظ قرآن مکمل ہونے پر دعائیہ تقریب منعقد ہوئی اس موقع پر مولانا قمر الزماں ندوی  نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی جس کے بہترین نمونے حفاظ کرام کی شکل میں موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظ کے سینوں میں قرآن پاک کو محفوظ کر رکھا ہے،  قابل مبارکباد ہیں یہ حفاظ اور ان کے والدین کہ کل میدان محشر میں ان کے سروں پر نور کا تاج پہنایا جائے گا چنانچہ جو بھی قرآن پاک سے وابستہ ہوگا وہ دونوں جہان کی کامیابی حاصل کرے گا۔


اس موقع پر قاری محمد افسر صاحب،  مولانا قمر الزماں ندوی، مولانا نوشاد قاسمی، مولانا نفیس ندوی، قاری ولی اللہ، حافظ شہزادہ اسد، حافظ خورشید، ماسٹر محمد اکرم، ماسٹر علاؤ الدین موجود رہے.

آسرائے اسیران الحاج گلزار احمد اعظمی صاحبؒ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں!

 الحاج گلزار اعظمی صاحبؒ کے انتقال پر جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور کی تعزیتی نشست!

بنگلور، 27؍ اگست (پریس ریلیز): جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری حضرت الحاج گلزار احمد اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا گزشتہ دنوں وصال ہوگیا۔ انکے انتقال پر جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ بنشنکری کے زیر اہتمام نورانی مسجد، الیاس نگر، بنگلور میں ایک خصوصی تعزیتی و دعائیہ نشست جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور کے صدر حافظ کبیر احمد کی زیر صدارت اور جنرل سکریٹری حافظ محمد آصف کی زیر نگرانی منعقد ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء کے اراکین اور رضاکاران نے شرکت کی اور قرآن خوانی و آیات کریمہ کے ورد کے ذریعہ مرحوم کے حق میں ایصال و ثواب کیا گیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور کے ذمہ داران نے الحاج گلزار احمد اعظمی صاحبؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ الحاج گلزار احمد اعظمی صاحبؒ قوم و ملت کے مخلص رہنما تھے، سن 1954ء میں جمعیۃ علماء ہند میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد تادم واپسیں اس سے وابستہ رہے۔ اور اپنی پوری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں صرف کردی۔ ملک اور خصوصاً فرقہ وارانہ فسادات اور قدرتی آفات کے دوراثراحتی کاموں میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے رہے، خصوصی طور جمعیۃ علماء ہند کے صدر عالی قدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی سرپرستی میں جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کے ذریعے جھوٹے مقدمات اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بے قصوروں کی باعزت رہائی کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہے، جس کی بنا پر سینکڑوں لوگ جیل کی کال کوٹھری سے اور پھانسی کے پھندوں سے چھٹکارا پاکر باعزت بری ہوئے، جس میں انہوں نے سب سے اہم رول ادا کیا۔ اس درمیان میں بہت سے نشیب وفراز رونما ہوئے مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی، صداقت، حق گوئی، حق شناسی اوربے باکی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ جمعیۃ علماء کے ایک قدیم خادم تھے، اور ایک طویل زمانے سے جمعیۃ علماء سے وابستہ تھے اور زندگی کی آخری سانس تک جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے کئی اہم نمایاں کام انجام دیئے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خاص طور پر جمعیۃ علماء کے ذریعے بے گناہ قیدیوں کی رہائی کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ انکا اس طرح سے اچانک پردہ فرما جانے سے ملت اسلامیہ ہندیہ کو عموماً اور جمعیۃ علماء ہند کو خصوصاً ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور مرحوم اعظمی صاحب ؒکے جملہ پسماندگان اور متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتی ہے۔ اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور امت کو انکا نعم البدل عطاء فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ بنشنکری کے صدر و جنرل سکریٹری کے علاوہ نائب صدور مولانا محمد طاہر قاسمی، حافظ شفیق احمد، مولانا عبد القدیر، جوائنٹ سکریٹریز ڈاکٹر ندیم خان، محمد فرقان، خازن اکبر پاشاہ، معاون خازن حافظ محمد حیات خان، اراکین عاملہ ایڈووکیٹ مختار احمد، محمد فیض، مولانا سعید قاسمی، حافظ منصور، محمد آصف وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ تعزیتی نشست کا آغاز مولانا سعید قاسمی کی تلاوت سے ہوا اور حافظ کبیر احمد کی دعا پر یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔

Wednesday 23 September 2020

حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔ اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور


 حسرتوں کے مدفن کو دیکھ کر

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری

خادم: جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ


          محبت کیا ہے ایک جذبہ ہے، جو مختلف رنگوں روشنیوں کا مجموعہ اور مرقع ہے۔

                       اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 

                       سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے 

        اپنے نئے مکان سے پرانے مکان پر جاتے ہوئے ایک قبرستان  کے بغل سے گزرنا ہوتا ہے، جو میرے نئے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے، مگر درمیان میں کئی مکان حائل ہونے کی وجہ سے کچھ دوری بھی ہے، گزشتہ جمعرات کو عصر کے بعد گھر جاتے ہوئے، ایک قبر  کے داہنی جانب ہاتھ باندھے ایک شخص پر نگاہ پڑی، سر جھکا ہوا، ہونٹ ہلتے ہوئے، آنکھوں میں چند قطرے آنسوؤں کے بھی موجود، یہ قبر کس کی ہے؟ اور وہ شخص  کیوں کھڑا ہے؟ یہ محبت ہی تو ہے، یہ اپنوں کی چاہت ہی تو ہے، کہ جانے والا تو چلا گیا کبھی نہ آنے کے لیے، مگر جنہیں وہ چھوڑ کر گیا ہے وہ خود غرض نہ ہوئے، اس کے لئے چلے آتے جسے اس کی ضرورت ہے، اور کہیں نہ کہیں اپنے غموں سے بھاری دل کو کچھ آرام دلانے کے لیے بھی چلے آتے ہیں، وہ ایک بیٹی کی قبر ہے، قبر کے پاس کھڑے ہوئے شخص کی لخت جگر کا مدفن ہے، جو زندہ رہی تو اس کے خوشیوں کے لیے تکلیفیں اور کلفتیں برداشت کرتا رہا اور جب رخصت ہوئی تو اس کے لئے بلندی درجات کی دعائیں کر رہا ہے، یہ محبت اور چاہت ہی تو ہے، اس قبر میں مدفون عورت  کی  بھی خوشحال زندگی تھی، تین یا چار سال پہلے شادی ہوئے تھے، اب وہ اپنے قدموں کے نیچے جنت لانے والی تھی کہ قضا کا وقت آ پہنچا، اور اپنی امید کو اپنے اندر لئے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہو گئی، اس شخص کو دیکھ کر مجھے اپنی حالت کا خیال آیا، کہ فرق صرف رشتہ کا ہے، میں بھی حاضر ہوتا ہوں، ایسا لگتا ہے پکارنے والا پکار رہا ہے، چلے آؤ،

                    بڑا سکون میرے گوشہ مزار میں ہے

        یقینا وہ پرسکون جگہ ہی ہے، پہنچتا ہوں، چلا جاتا ہوں،  یسین پڑھتا ہوں دعائیں کرتا ہوں، مضطرب دل لے جاتا ہوں واپسی پر سکون سا محسوس کرتا ہوں، لیکن فرق ہے اس کے غم میں اس کی تکلیف میں، میرے پاس میری بچی ہے، جو مرحومہ کی نشانی اور ان کی یاد ہے، اس کی شکل و صورت میں ان کا چہرہ، اس کی مسکراہٹ میں ان کی ہنسی ہے، لیکن اس مرحومہ کے شوہر اور باپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں، اس قبر کے پاس سے روزانہ کئی دفعہ گزرنا ہوتا ہے، جب بھی نظر پڑتی ہے، تو مجھے ولید ابن یزید کی وہ  بات یاد آ جاتی ہے، جو اس نے عروہ ابن زبیر کے لئےکہی تھی، جب ان کا پاؤں زخم کی وجہ سے کاٹ دیا گیا تھا اور اس کے چند ہی ساعت کے بعد چھت سے گر کر بیٹے کی موت کی خبر ملی تھی اور اسی وقت ولید کے دربار میں قبیلہ عبس کا وہ بوڑھا سوداگر بھی پہنچا تھا، جس کا مال، جس کا بیٹا جس کی بینائی اور جس کا سب کچھ تھوڑی ہی دیر میں اس سے چھین لیا گیا تھا، جس کے حالات سن کر ولید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے، کہلا بھیجا تھا، جاؤ ا، عروہ ابن زبیر سے کہہ دو تمہیں صبر و شکر مبارک، اس لئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تم سے زیادہ غموں اور مصیبتوں کے مارے ہوئے ہیں۔

        ولید کے یہ الفاظ یاد آتے ہی خدا کا شکر ادا کرنے لگتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ٹیلیگرام چینل۔

https://t.me/sensitivestudy

واٹس ایپ گروپ۔

https://chat.whatsapp.com/GxbTLUt3AXb2B6QLrk2ba7

سینسیٹیو اسٹڈی فیس بک پیج۔

http://facebook.com/Sensitivestudy-102187811602183/

رابطہ لنک۔

https://wa.link/fm2uas

24 ستمبر کو بلڈ ڈونیٹ گروپ (الفلاح فرنٹ)و دیگر گروپ کے اشتراک سے خون عطیہ کیمپ کا انعقاد


 24 ستمبر کو بلڈ ڈونیٹ گروپ (الفلاح فرنٹ)و دیگر گروپ کے اشتراک سے خون عطیہ کیمپ کا انعقاد


اعظم گڑھ،23/ستمبر 2020 آئی این اے نیوز 

الفلاح فرنٹ کے ذریعہ چلنے والے بلڈ ڈونیٹ گروپ و دیگر گروپ اور شبلی کالج کے طلباء کے ذریعہ 24 ستمبر کو ایک خون عطیہ کیمپ کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس کیمپ میں بلڈ ڈونیٹ گروپ ،وارانسی بلڈ پوائنٹ،بلڈ کنیکٹیکٹ سمیت دیگر گروپ کے کارکنان شرکت کر اپنا خون عطیہ کریں گے۔اس موقع پر کیمپ کے آرگنائزر ابو ہاشم نے عوام سے کیمپ سے شرکت میں اپیل کی ہے۔اس موقع پر بلڈ ڈونیٹ گروپ کے بانی اور نیشنل کنوینر ذاکر حسین نے بھی بلڈ ڈونیٹ گروپ کے کارکنان و عوام سے کیمپ میں شرکت کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ یہ کیمپ شبلی نیشنل کالج میں 24 ستمبر کو صبح دس بجے سے شروع ہوکر چار بجے تک چلے گا۔بلڈ ڈونیٹ گروپ کے سرگرم رکن ضیاءخالد،یاسر پٹھان،اکھیلیش موریا،نبراس امین آعظمی،یاسر نواز و دیگر نے کیمپ کو کامیاب بنانے کا عزم دہرایا ہے۔

اولاد کی تربیت کا طریقہ ماں باپ کا کردار..... ✍️محمد امین الرشید سیتامڑھی


 اولاد کی تربیت کا طریقہ ماں باپ کا کردار..... 


✍️محمد امین الرشید سیتامڑھی 


اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے والد کا کردار بڑاہی سخت ہوتا ہے، جب کہ اسی کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار سے اولاد نڈر اور بے باک ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم وتربیت اور کردار پر بُرا اثر پڑتا ہے، جب کہ والد کی سختی، نگہہ داشت اور تیزی سے اولاد کو من مانی کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولاد یہ نہیں جانتی کہ ان کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنی مشقتیں سرنگوں کرنا پڑتا ہے وہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر یا روکھی سوکھی غذائیں کھا کر اپنا  گزر بسرکرتارہتا ہے، لیکن باپ  پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھا کھانا، پینا، تعلیم و تربیت میسر ہو


ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسلام میں باپ کو بڑا رتبہ حاصل ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور باپ کی خوش نودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نودی قراردیا گیا ہے


بچے کا ایمان مضبوط کر نے کے لئے ماں کو چاہئے کہ بچے کی ذہن میں اللہ کا تصور پیداکریں کہ بیٹا!اگر تم ایسے کروگے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے ۔آپ جب پیار سے سمجھائیں گے تو بچہ پوچھے گا کہ اللہ تعالیٰ کون ہے ؟اب اللہ رب العزت کا تعارف کروانے کا موقع مل جائیگااب آپ اللہ کا خوب تعارف کرائیں کہ کھانا کھلانے اور پانی پلانے والی ذات اللہ کی ہے ہم سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے یہ پوری کائنات اللہ نے بنائی ہے ،غرض کہ وہ موٹی موٹی باتیں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں حکمت کے ساتھ اللہ کی طرف کرتے رہیں اورجیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جائے اس کو دینی تعلیم دیں، قرآ ن مجید پڑھائیں، حدیث شریف زبانی یاد کروائیں ،دعا ئیں یاد کرائیں ، ارکان اسلام ،کلمہ طیبہ اس کے معنٰی ومفاہم بچہ کے سامنے بیان کریں،نماز کا طریقہ بتائیں ،سوتے وقت بجائے لوری یا جھوٹی قصہ کہانیوں کے انبیاء علیہم السلام کے واقعات ان کی قربانیاں جناب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ،حیات خلفاء راشدین و اہل بیت،صحابۂ کرام و ازواج مطہرات اور پیشوان اسلام اوراسلامی تاریخ بتائیں

تاکہ بیٹا کہنے پر مجبورہوجائےکہ والدین نے الحمد للہ بہت محنت اور کوشش کی جو آج ہم اس قابل ہوئےہیں کہ کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں کچھ کہ سن لیتے ہیں

ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہو گا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لیے دعا اور دوا کا اہتمام، نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالیٰ ایسے ماں باپ کے لیے آسانیاں فراہم کرے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لیے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ مرد حضرات خود با جماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پا لینے کی آرزو پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی مانگنی ہیں۔ بچے کو روز مرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔ نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتداء میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی تاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ……… صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کرائی جائے۔ دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعاء و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائے گی

الحمدللہ ان سب چیزوں پر والد صاحبؒ نے کافی محنت کی اور مدرسہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی میں اس پر توجہ بھی بہت کی تا کہ بچے شروع سے ہی ان سب چیزوں کے پابند ہوجائیں

جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے ہر وقت دعا کرتے رہیں اور ان کی دی گئی اچھی تربیت پر عمل کرتے رہیں تاکہ ان کو اس کا اجر ملتا رہے۔ یاد رکھیں اللہ نے قرآن پاک میں نیک والدین اور ان کے نیک بچوں کو جنت میں اکھٹا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ہر نماز میں دعا کریں کہ وہ آپ کے والدین کو بخشش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے آپ پر بچپن کی بے بس زندگی کے دوران رحم کیا تھا۔ رب ارحمھما كما ربياني صغيراانشاءاللہ بندہ امید کرتا ہے کہ آج  سےہم سب انشاءاللہ مذکورہ ہدایات پر عمل پیرا ہونگیں اور ماں باپ کی قدر اور اس کے حکم کو اپنےسر کا تاج سمجھینگیں اللہ پاک ہمارے لئے مزید آسانیا ں پیدا فرمائے آمین یارب العالمین .....

محمد امین الرشید سیتامڑھی ابن حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب مظاہری علیہ الرحمہ سابق استاد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی

کورونا بحران کے سبب آج ختم ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس مانسون کا اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا کے بحران کے مزید سنگین ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہونے کا امکان ہے


 کورونا بحران کے سبب آج ختم ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس

مانسون کا اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا کے بحران کے مزید سنگین ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہونے کا امکان ہے

نئی دہلی: کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے تقریباً پانچ کے ماہ بعد 14 ستمبر کو شروع ہونے والا پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس قبل از وقت ہی ختم ہو سکتا ہے۔ یہ اجلاس 18 دن کا تھا اور اس کا اختتام یکم اکتوبر کو ہونا تھا، لیکن کورونا وبا کے بحران کے مزید شدید ہو جانے کی وجہ سے اجلاس آج ہی ختم ہو ہونے کا امکان ہے۔

دریں اثنا، بدھ کے حزب اختلاف کی غیر موجودگی میں حکومت نے روز یکے بعد دیگرے متعدد بلوں کو منظور کرا لیا ہے۔ اس میں زراعت سے متعقل تیسرا بل بھی شامل ہے۔ ان بلوں کے خلاف ملک بھر کے کسان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اپوزیشن نے بھی دو زرعی بلوں کے خلاف ایوانوں کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔

حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں مرکزی حکومت نے لیبر کوڈ سے متعلق تمام بل، ایف سی آر اے ترمیمی بل، جموں وکشمیر لینگویج بل اور نیٹنگ بل سمیت دیگر بلوں کو منظور کرا لیا ہے۔ راجیہ سبھا کی کارروائی کو آج شام 4 بجے ملتوی کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق، لوک سبھا کی کارروائی، جو آج سہ پہر تین بجے سے شروع ہوگی، ایک توسیع شدہ وقفہ صفر کے بعد شام پانچ بجے کے قریب غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کی جا سکتی ہے۔ وہیں راجیہ سبھا میں پانچ بل پیش کیے جانے کے بعد اسے بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ لوک سبھا میں زرعی بل کی منظوری کے بعد سے حزب اختلاف اور کسانوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھی۔ اسی اثنا میں حکومت نے اتوار کے روز راجیہ سبھا میں دو بلوں کو پیش کیا اور صوتی ووٹ سے انہیں منظور کرا لیا۔ اس دوران کچھ اراکین پارلیمنٹ نے ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ جس کے بعد 8 اراکین پارلیمنٹ کو ایک ہفتہ کے لئے ایوان کی کارروائی سے معطل کر دیا گیا۔ یہ 8 ممبران اسمبلی تھے: ڈیرک او برائن (ترنمول کانگریس)، سنجے سنگھ (عآپ)، راجیو ساتاو (کانگریس)، کے کے راگیش (سی پی ایم)، سید ناصر حسین (کانگریس)، رپون بورا (کانگریس)، ڈولا سین (ترنمول کانگریس) اور ایلارام کریم (سی پی ایم)۔

مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے منگل کے روز کہا کہ راجیہ سبھا کے معطل ارکان اپنے طرز عمل پر بلا شرط معذرت کریں تو ان کی معطلی پر غور کیا جائے گا۔ پرساد کا یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب راجیہ سبھا میں کانگریس کی زیر قیادت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے 8 اراکین کی معطلی کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان بالا کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ ایوان بالا میں سب سے پہلے کانگریس کے اراکین نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے بعد عآپ، ترنمول کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان نے بھی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ بعد ازاں این سی پی، ایس پی اور آر جے ڈی کے ممبران بھی ایوان سے واک آؤٹ کر کے چلے گئے۔

Tuesday 22 September 2020

اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو بل میں MSP کا ذکر کیوں نہیں؟... پرینکا گاندھی


 

اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو بل میں MSP کا ذکر کیوں نہیں؟... پرینکا گاندھی


کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ایک بار پھر کسان بل کے حوالے سے مودی حکومت کا گھیراؤ کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے پوچھا ، "اگر یہ بل کسانوں کے حق میں ہے تو پھر سپورٹ پرائس MSP کا ذکر کسان بل میں کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ بل میں یہ کیوں نہیں لکھا گیا ہے کہ حکومت کسانوں کی مکمل حفاظت کرے گی؟ حکومت نے کسانوں کے لئے منڈیوں کا نیٹ ورک بڑھانے کا ذکر بل میں کیوں نہیں کیا ہے؟ حکومت کو کسانوں کے مطالبات سننے ہوں گے۔ "

کورونا: 188 دنوں بعد لوگوں نے کیا تاج محل کا دیدار! آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔


 کورونا: 188 دنوں بعد لوگوں نے کیا تاج محل کا دیدار!

آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔

کورونا وبا کی وجہ سے بند مشہور تاریخی وراثت تاج محل آج سے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ 188 دنوں تک بند رہنے کے بعد محبت کی علامت 17ویں صدی کی اس وراثت کو دوبارہ کھولے جانے سے لوگوں میں ایک جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ اس درمیان آگرہ میں کووڈ-19 کے 144 نئے معاملے سامنے آئے ہیں جس نے انتظامیہ کے لیے پریشانی بڑھا دی ہے۔ اس کے باوجود آج تاج محل کھولنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا، وہ قائم رہا۔

کورونا کے خطرے کو دیکھتے ہوئے اے ایس آئی کے افسران نے سی آئی ایس ایف اہلکاروں کے ساتھ تاریخی تاج محل احاطہ میں سماجی فاصلہ اور ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ صفائی کو یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پی این سنگھ نے کہا کہ سبھی احتیاط برتی گئی ہیں اور سخت نگرانی رکھی جائے گی۔ آن لائن ٹکٹ فروخت کرنے کے عمل نے سیاحوں کی مناسب اسکریننگ کو یقینی بنایا ہے۔

تاریخی اسمارک کھلنے سے مقامی ٹریول ایجنسی کے لوگ پرجوش ہیں اور آنے والے مہینوں میں اس شعبہ کی بہتر کارکردگی کی امید کر رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی تک ایڈوانس میں ہوٹل بکنگ کو لے کر بہت اچھی خبریں سامنے نہیں آ رہی ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا، چیزیں بدلیں گی۔ ہوٹل کاروباریوں کو بھی امید ہے کہ آگرہ کو اہم شہروں سے جوڑنے والی کچھ نئی پروازیں سیاحوں کو یہاں آنے کے لیے حوصلہ بخشیں گی۔


حکومت کو اب نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے، نہ اراکین پارلیمنٹ کی! کل راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی تاریخ میں اس وقت سیاہ باب کی شکل میں درج ہو گیا جب حکومت نے سبھی ضابطوں کو طاق پر رکھ کر سیاہ قانون پاس کرائے اور 'کسانوں کی موت کا وارنٹ' جاری کر دیا۔


 حکومت کو اب نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے، نہ اراکین پارلیمنٹ کی!

کل راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا وہ پارلیمانی تاریخ میں اس وقت سیاہ باب کی شکل میں درج ہو گیا جب حکومت نے سبھی ضابطوں کو طاق پر رکھ کر سیاہ قانون پاس کرائے اور 'کسانوں کی موت کا وارنٹ' جاری کر دیا۔

ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں اتوار کا دن سیاہ باب کی شکل میں درج کیا جائے گا۔ اتوار کو جس طرح پارلیمانی روایات اور اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر اراکین پارلیمنٹ کی آواز کو دبا کر حکومت نے منمانی کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جمہوریت اب گزرے زمانے کی بات ہو گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت کے 6 وزیر پریس کانفرنس کرنے میدان میں اتریں، ٹھیکرا اپوزیشن کے سر پھوڑ دیں۔ اس اخلاقیات اور روایت کی دہائی دیں، جسے خود حکومت نے تار تار کر دیا۔

اتوار کو حکومت نے جس طرح راجیہ سبھا پر لات مار کر قبضہ کیا، ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ کا جو رویہ رہا، اس سے صاف ہو گیا کہ حکومت کو نہ تو پارلیمنٹ کی ضرورت ہے نہ اراکین پارلیمنٹ کی۔ راجیہ سبھا میں زرعی بل پاس کرانے کے لیے حکومت نے جس ہتھکنڈے کا استعمال کیا وہ حکومت کی منمانی ظاہر کرتا ہے۔ کورونا کی آڑ میں پہلے ہی اراکین پارلیمنٹ کے، خصوصی طور سے اپوزیشن کے سوالوں کو ٹالنے کے لیے وقفہ سوالات کے ملتوی کا انتظام تھوپ کر حکومت اپنے ارادے ظاہر کر چکی تھی کہ اب پارلیمنٹ محض نام کی رہ گئی ہے، صرف رسم ادائیگی ہی ہوگی اور صرف ایک ہی پارٹی اور خصوصی طور سے ایک ہی شخص کی آواز سنی جائے گی، مانی جائے گی۔

ہندوستان کی آبادی میں تقریباً دو تہائی حصہ داری والے کسان کے حقوق کے بارے میں حکومت ایک قانون بنا رہی ہے اور انہی کسانوں، ان کے نمائندوں سے پوچھا تک نہیں جا رہا ہے کہ کیا یہ قانون ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا یا نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جب بھی انگریز کوئی ایسا کام کرتے تو پورا ہندوستان ان کے خلاف کھڑا ہو جاتا، اور جلیاں والا باغ جیسے حادثے تک ہو جاتے۔ لیکن ایک جدید جمہوریت میں جب سب سے مضبوط حکومت ایسا کرے تو اسے کیا ہی نام دیا جائے۔

آئینی نظام ہے کہ حکومت کوئی بھی بل لائے گی تو اسے پاس کرانے سے پہلے اس بل سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرس سے تبادلہ خیال ہوگا، غور و خوض ہوگا، ضروری ہوا تو اس میں تبدیلیاں ہوں گی، پھر پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندہ کی شکل میں اراکین پارلیمنٹ کے درمیان بحث ہوگی، تب کہیں جا کر بل پاس ہوگا۔ لیکن زرعی بل، جو ملک کے کسان کی زندگی اور روزی روٹی کے ساتھ سیدھے جڑا ہے اس میں کسانوں سے بات کرنا تو دور، قانون بنانے والے اراکین پارلیمنٹ تک کو اپنی رائے رکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اپوزیشن نے بل پر بحث کے لیے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے کی گزارش کی، جسے خارج کر دیا گیا۔ اپوزیشن کے جن اراکین پارلیمنٹ کو اس پر اپنی بات رکھنی تھی، انھیں ایسا کرنے سے روکا گیا اور حد تو تب ہو گئی جب اراکین پارلیمنٹ نے بل پر ووٹنگ کی مانگ کی، ضابطوں کا حوالہ دیا، تو مارشل کو بلا کر اراکین پارلیمنٹ کو روک دیا گیا۔

ایوان کے اندر حکومت کی تاناشاہی کس طرح سے چل رہی تھی، یہ بات باہر نہ جا پائے اس کے لیے پہلے راجیہ سبھا ٹی وی کے نشریہ میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تقریر کی آواز بند کی گئی، اس کے بعد پوری کارروائی کا ہی نشریہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی ووٹ ڈویژن کے مطالبہ کو درکنار کر صوتی ووٹ سے بل پاس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ بل پر نہ اپوزیشن کے اعتراض درج کیے گئے، نہ حکومت نے ان پر جواب دیا، اور سارے قوانین کو ٹھینگا دکھا کر بل کو پاس مان لیا گیا۔

ایوان کے اندر حکومت کی تاناشاہی کس طرح سے چل رہی تھی، یہ بات باہر نہ جا پائے اس کے لیے پہلے راجیہ سبھا ٹی وی کے نشریہ میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تقریر کی آواز بند کی گئی، اس کے بعد پوری کارروائی کا ہی نشریہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کی ووٹ ڈویژن کے مطالبہ کو درکنار کر صوتی ووٹ سے بل پاس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ بل پر نہ اپوزیشن کے اعتراض درج کیے گئے، نہ حکومت نے ان پر جواب دیا، اور سارے قوانین کو ٹھینگا دکھا کر بل کو پاس مان لیا گیا۔

قانون ہے کہ اگر کسی بھی بل پر کوئی ایک بھی رکن ووٹنگ کا مطالبہ کرے گا تو ووٹنگ ہوگی۔ یہ ذمہ داری ایوان کی کارروائی کو چلا رہے ڈپٹی چیئرمین کی تھی۔ لیکن وہ تو صرف برسراقتدار طبقہ کی ہی بات سنتے ہوئے نظر آئے۔


دہلی فساد: سازش کو انجام دینے کے لئے پانچ افراد کو ملے تھے 1.61 کروڑ! پولیس چارج شیٹ میں دعویٰ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔


 دہلی فساد: سازش کو انجام دینے کے لئے پانچ افراد کو ملے تھے 1.61 کروڑ! پولیس چارج شیٹ میں دعویٰ

چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔

نئی دہلی: دہلی پولیس نے فروری ماہ میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں عدالت میں دائر اپنی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے مقامات پر انتظام و انصرام کرنے اور فرقہ وارانہ تشدد کی سازش کرنے کے لئے پانچ افراد نے مبینہ طور پر 1.61 کروڑ روپئے وصول کیے تھے۔

پولیس نے چارج شیٹ میں کہا ہے کہ سابق کونسلر عشرت جہاں، سماجی کارکن خالد سیفی، عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین، جامعہ ملیہ اسلامیہ ایلومنی ایسوسی ایشن کے صدر شفا الرحمن اور جامعہ کے طالب علم میران حیدر نے احتجاج کے مقامات کے انتظام اور مبینہ طور پر فروری میں دہلی فسادات کی سازش کرنے کے لئے 1.61 کروڑ روپئے وصول کیے تھے۔

واضح رہے کہ پولیس نے گزشتہ روز فروری میں شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں 15 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق، "تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ یکم دسمبر 2019 سے 26 فروری 2020 کے دوران ملزم عشرت جہاں، خالد سیفی، طاہر حسین، شفا الرحمن اور میران حیدر کو بینک اکاؤنٹ اور بطور نقد کل 16133703 (ایک کروڑ 61 لاکھ 33 ہزار 703) روپے موصول ہوئے تھے۔ "

چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 1.61 کروڑ روپے میں سے 14801186 روپے نقد رقم نکال کر مظاہرے کے مقامات کے انتظام و انصرام کے لئے خرچ کیے گئے تھے۔

*اعظم خان کے ساتھ ناانصافی ظلم و زیادتی اب برداشت نہیں ہوگی: سید ارشد* *بی جے پی حکومت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا*


 *اعظم خان کے ساتھ ناانصافی ظلم و زیادتی اب برداشت نہیں ہوگی: سید ارشد*

 *بی جے پی حکومت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا*


 *آنند نگر مہراج گنج (عبید الرحمن الحسینی)*

 بی جے پی حکومت میں جہاں عوام بے روزگاری سے پریشان ہے وہیں دن بدن لوگوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ بھی توڑے جارہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اعظم خان کے ساتھ ناانصافی کو دیکھتے ہوئے کل گزشتہ روز پھریندہ تحصیل کے احاطے میں سماجوادی پارٹی کے قدآور نیتا سید ارشد کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اعظم خان کے ساتھ ہورہی ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کو دیکھ کر یوگی حکومت کی پولس نے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا اور اسی دوران پولس کی لاٹھی چارج میں کوریج کرنے گئے میڈیا والوں پر بھی لاٹھی برسائے گئے کافی لوگ زخمی ہوگئے۔ سید ارشد نے ایس ڈی ایم پھریندہ کو راجیہ پال کے نام مکتوب دے کر اعظم خان کی رہائی کی مانگ کی ہے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا ہیکہ یہ ظلم زیادتی ہے اعظم خان کے ساتھ ان کو فرضی مقدمات میں پھنسایا گیا ہے جو شخص اسمبلی کا ممبر ہو راجیہ سبھا کا ممبر ہو وہ بکری چورائےگا؟ بی جے پی حکومت کی یہ ظلم زیادتی بہت زیادہ دن چلنے والی نہیں ہے۔ حکومت عوام سے بنتی ہے اور جب عوام چاہ لیتی ہے تو حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے۔


Monday 21 September 2020

مولانا_طاہر_مدنی_صاحب_کا_عملی_سیاست_سے_ریٹائرمنٹ_کا_اعلان

 

مولانا_طاہر_مدنی_صاحب_کا_عملی_سیاست_سے_ریٹائرمنٹ_کا_اعلان


عزیزان گرامی قدر و محبان گرامی منزلت!

گذشتہ 12 برس سے میں عملی سیاست میں سرگرم رہا اور راشٹریہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے ممکن خدمت انجام دیتا رہا. بٹلہ ہاؤس فرضی انکاونٹر کے بعد اکتوبر 2008 میں کونسل کی تشکیل ہوئی اور میں بھی یکے از موسسین تھا. اس وقت بہت ڈر اور خوف کا ماحول تھا اور بطور خاص اعظم گڑھ کا مسلمان نشانے پر تھا. عاطف اور ساجد کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا اور پوری کمیونٹی کو بدنام کیا جا رہا تھا، دہشت گردی کے نام پر نوجوانوں کو اٹھایا جارہا تھا اور انتہائی خوف کا ماحول تھا. اس وقت ایک مضبوط پلیٹ فارم کی ضرورت تھی. الحمد للہ کونسل نے اس ضرورت کی تکمیل کی. ظلم اور زیادتی کے خلاف ایک مضبوط تحریک کی بنیاد پڑ گئی، قوم کو نیا حوصلہ ملا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے بیداری پیدا ہوئی.

کونسل نے یہ پیغام دیا کہ جمہوریت میں جس قوم کے پاس قیادت نہیں ہوتی، اس کے حقوق کی حفاظت نہیں ہوتی. قیادت کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے. کونسل نے سب کے لیے انصاف کی آواز بلند کی اور مسلم ہندو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کی. پچھلے 12 سالوں سے کونسل کا سنگھرش سب کے سامنے ہے، یہی وجہ ہے کہ اب کونسل کا پیغام دور دور تک پہونچ گیا ہے. دور دراز کی ریاست آسام میں بھی اس کی مضبوط یونٹ قائم ہو چکی ہے. قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کی قیادت میں کونسل اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور سماج کے ہر طبقہ کے لوگ اس سے جڑتے جا رہے ہیں. اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے.

عملی سیاست کا کام بہت دوڑ بھاگ اور محنت شاقہ کا کام ہے. اس کے لیے بہت قربانی درکار ہوتی ہے. صحت اور تندرستی کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے. دن کا آرام اور رات کی نیند قربان کرنی پڑتی ہے. اس میدان میں کوئی چھٹی کا دن نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی آرام کا وقت ہوتا ہے. رات میں دو بجے بھی اگر فون آگیا اور ضرورت پڑگئی تو نکلنا پڑتا ہے.

میری عمر اب 62 سال ہوگئی ہے. صحت تندرستی بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی، بائی پاس سرجری ہوئی ہے اور شوگر کا بھی عارضہ ہے. اب زیادہ دوڑ بھاگ نہیں ہوسکتی. اس لیے میں نے عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے. کونسل کے ساتھ میرا اخلاقی تعاون برقرار رہے گا. میں کونسل کو ملک و ملت کی اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ لوگ اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون جاری رکھیں گے اور اسے مضبوط کرتے رہیں گے.

اب جو بھی مہلت عمر بچی ہے، اسے یکسوئی کے ساتھ درس و تدریس، تعلیم و تربیت ،دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف اور اصلاح و ارشاد کے کاموں میں لگانا چاہتا ہوں. اللہ سے توفیق مانگتا ہوں کہ آخری سانس تک اپنے دین کی خدمت لے اور اپنے بندوں کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

اس وقت ہم اس ملک میں بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں. بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ مختلف میدانوں میں تقسیم کار کے اصول کے ساتھ کام کی ضرورت ہے. چیلنج بہت ہیں اور بہت کام کرنا ہے. منصوبہ بندی اور باہمی اشتراک و تعاون بہت ضروری ہے؛

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اللهم وفقنا لما تحبه و ترضاه. آمین

طاہر مدنی  20 ستمبر 2020

Sunday 20 September 2020

جمہوریت بالائے طاق، ملک میں پولس راج... ظفر آغا ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا


 جمہوریت بالائے طاق، ملک میں پولس راج... ظفر آغا

ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا

آخر عمر خالد کو جیل پہنچا دیا گیا۔ ایک عرصہ سے اس سابق جے این یو طالب علم کی پولس کو تلاش تھی۔ کنہیا کمار کے ساتھ یہ بھی 'دیش دروہی' ٹھہرا دیا گیا تھا۔ مگر پچھلے ہفتے تو اس کو دہلی پولس نے دہلی دنگوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا۔ لیکن ان دنگوں کے سلسلے میں عمر خالد اکیلے ہی ملزموں کی صف میں نہیں ہیں۔ اس معاملے میں تو کیا ہندو، کیا مسلمان کسی کو نہیں بخشا جا رہا ہے۔ جناب حد تو یہ ہے کہ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری اور سوراج پارٹی کے یوگیندر یادو کا بھی نام اسی چارج شیٹ میں ہے۔ پھر دہلی یونیورسٹی کے ہندی پروفیسر اپوروانند اور جے این یو کی مشہور ماہر معاشیات محترمہ جیتی گھوش کا نام بھی دہلی میں دنگے کروانے کی سازش کے سلسلے میں پولس چارج شیٹ کی فہرست میں ہے۔

عجیب عالم ہے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، جو بھی حکومت کے خلاف چوں کرے وہ غدار وطن اور دیکھتے دیکھتے سلاخوں کے پیچھے۔ ابھی چند روز قبل پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں حکومت نے یہ انکشاف کیا کہ غدار وطن کے الزام میں پچھلے تین سالوں میں چار ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ لوگ یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار ہیں جس میں ایک سال تک کسی قسم کی ضمانت کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ خیال رہے کہ چار ہزار گرفتار افراد میں عمر خالد جیسے وہ لوگ جو اس سال پکڑے گئے ہیں وہ شامل ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ اگر کسی نے ذرا سا منھ کھولا اور بس وہ جیل گیا۔

صاحب یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں کوئی حکومت وقت کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیے تو وہاں برسوں سنوائی کا سوال نہیں اٹھتا۔ افسرشاہی حکومت کی انگلیوں پر ناچ رہی ہے۔ میڈیا حکومت وقت کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہے۔ ملک میں ہاہاکار مچی ہے۔ لیکن کوئی حکومت کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا ہے۔ اگر کسی کو آزادی ہے تو وہ صرف پولس ہے۔ وہ جو جی چاہے سو کرے۔ اور بھلا پولس من مانی کیوں نہ کرے! ذرا غور فرمائیے اتر پردیش حکومت نے ابھی پچھلے ہفتے یہ قانون پاس کیا ہے کہ یو پی پولس بغیر کسی وارنٹ اور ایف آئی آر کے جب چاہے جس کو چاہے گھر سے اٹھا کر لے جا سکتی ہے۔

یہ ایمرجنسی نہیں تو اور کیا ہے! ہم نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کا دور بھی دیکھا ہے۔ اس وقت نوجوان ہوتے تھے۔ یونیورسٹی طالب علم تھے۔ اندرا گاندھی سے سخت ناراض تھے۔ ہم اور ہمارے ساتھی کھلے عام دن رات کافی ہاؤس میں بیٹھ کر کھلے بندوں حکومت کے خلاف بولتے تھے۔ مجال ہے کہ کبھی جھوٹے منھ بھی پولس نے سوال کیا ہو۔ اب مودی کے خلاف بول کر تو دیکھیے، چوبیس گھنٹے نہیں گزریں گے اور پولس گھر پر دستک دے رہی ہوگی۔ کہنے کو کوئی ایمرجنسی نہیں، لیکن ایمرجنسی سے بدتر حالات ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری حقوق بالائے طاق۔ ملک میں پوری پولس راج اور مودی-شاہی چل رہی ہے۔

خیال رہے کہ یہ ایمرجنسی جیسے حالات اور پولس کی من مانی اب روز بہ روز بڑھتی جائیں گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مودی حکومت ہر فرنٹ پر بری طرح ناکام ہے۔ ملک سے روزگار اڑ چکا ہے۔ جو روزگار سے لگے تھے لاک ڈاؤن ان کی بھی روزی روٹی کھا گیا۔ ہر دھندا چوپٹ ہے۔ ادھر کسان سڑکوں پر ہے۔ ابھی 17 ستمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش کو نوجوان نے بطور یومِ بے روزگار منایا۔ سینکڑوں شہروں میں حکومت مخالف جلوس نکلے۔ کئی جگہوں پر پولس نے نوجوانوں کے خلاف لاٹھی چارج بھی کیا۔ ادھر مہنگائی ہے کہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ بازار خریداری کے لیے جائیے، روز مرہ کے سامان خریدیے ہزار روپے منٹوں میں ختم۔ لب و لباب یہ کہ مودی حکومت کی ناکامیوں سے اب عام آدمی کے پیٹ پر لات پڑ رہی ہے۔ ظاہر ہے بھوکے پیٹ کو ہر وقت ہندو-مسلم دشمنی کا نشہ جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ یعنی پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت نے ہندو-مسلم منافرت کی سیاست کا جو جال بُنا تھا وہ ملک کے معاشی حالات کے آگے اب ڈھیلا پڑنے لگا۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں عوام کا غصہ اب سڑکوں پر نکلے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔ ابھی حال میں ہریانہ میں ہزاروں کسان سڑکوں پر تھے۔ دہلی کے پڑوس اتر پردیش سے بھی ایسی ہی خبریں آئیں۔ پھر نوجوان روزگار مانگ رہا ہے۔ تاجر کو قرض چاہیے۔ ادھر بینک ڈوب رہے ہیں۔ قرض کہاں سے دیئے جائیں۔ مودی جی کے پاس اب صرف دو راستے بچے ہیں۔ پہلا، نفرت کی سیاست کا بازار اتنا گرم کیا جائے کہ ملک ہی جھلس جائے۔ مگر معاشی پریشانیوں نے منافرت کا نشہ بھنگ کر دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ رام مندر تعمیر کے نام پر بھی ہندو عوام میں جوش پیدا نہیں ہوا۔ یعنی اب مودی جی کی پرانی حکمت عملی یعنی بانٹو اور راج کرو بہت کارگر ہونا مشکل ہے۔

ایسے کٹھن حالات میں مودی حکومت کے پاس پولس کے مظالم کے ساتھ حکومت چلانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ یعنی جیسے جیسے دن گزریں گے، ویسے ویسے عوام کی پریشانی بڑھیں گی۔ اور ساتھ میں عوام کا غصہ حکومت کے خلاف بڑھے گا۔ لوگ سڑکوں پر نکلیں گے اور ادھر پولس کے مظالم بڑھیں گے۔ یعنی مودی حکومت عوام پر مظالم ڈھانے کے نئے ریکارڈ قائم کرنے جا رہی ہے۔ کیونکہ زبردست معاشی پریشانیوں کے سبب پولس مظالم کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ ابھی عمر خالد جیل گئے ہیں۔ کل کو سینکڑوں جیل بھیجے جائیں گے۔ ملک میں کہہ کر ایمرجنسی لاگو نہیں کی گئی، ملک میں پولس راج بڑھتا جائے گا، اور مودی راج اسی طرح ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔