اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: October 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 31 October 2019

مانو کالج اورنگ آباد میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یومِ پیدائش پر "قومی اتحاد کا" انعقاد

مانو کالج اورنگ آباد میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی  یوم پیدائش پر "یوم قومی اتحاد "کا انعقاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31 اکتوبر آئی این اے نیوز 2019
رپورٹ :ذیشان الٰہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد

      تاریخی اور سیاسی اعتبار سے مشہور و معروف اورنگ آباد کی سرزمین پر موجود مانو کالج ایک نہایت ہی بہترین علمی دانشگاہ ہے اس کالج کی سب بڑی اور اہم خصویت یہ ہے کہ یہاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ وقت و حالات کے اعتبار سے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے چنانچہ اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کی ایک عظیم شخصیت سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش 31 اکتوبر پر اس کالج میں "یوم قومی اتحاد "کی تقریب کو عمل میں لایا گیا ۔سردار ولبھ بھائی پٹیل 31 اکتوبر 1875ء میں گجرات کے اندر پیدا ہوئے آپ نے اپنی محنت و لگن سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی آزادی سے قبل آپ انڈین نیشنل کانگریس سے جڑے پھر ،گجرات کا سب سے بڑا احتجاج جو انگریزی حکومت کے خلاف ہوا اس میں آپ ایک رہنماء کی شکل میں ابھرے پھر انگریزوں بھارت چھوڑوں تحریک میں اپنی شمولیت کو یقینی بنایا وطن عزیز ملک بھارت کی آزادی کے بعد آپ نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے اہم منصب پر فائز ہوئے اور بھارت کو موجودہ شکل صورت میں لانے کے لئے آپ نے اپنی تن من اور دھن کی قربانی پیش کردی ۔چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو آپ نے بھارت میں شامل کیا حتی کے حیدرآباد، جموں و کشمیر اور جوناگڑھ جیسی بڑی بڑی ریاستوں پر عسکری قوت کی مدد سے عظیم بھارت میں شامل کرنے کا بہترین فریضہ انجام دیا۔
   اس عظیم اور بہترین شخصیت کی یوم پیدائش اس بات کی متقاضی تھی کہ اسے یوم قومی اتحاد کے نام سے منایا جائے اس لئے ڈاکٹر عبد الرحیم سر کی زیر نگرانی میں یوم قومی اتحاد کو مانو کالج میں بڑے ہی زور و شور کے ساتھ منایا گیا ۔تمام اساتذہ و معلمات اور طلبہ و طالبات کالج سے باہر نکل کر معاشرے میں قومی اتحاد کا پیغام دیا اور طلبہ نے ایک ساتھ دوڑ لگا کر قومی اتحاد کا ثبوت پیش کیا پھر تمام مشارکین کالج تشریف لائے اور ڈاکٹر عبد الرحیم سر کی زیر نگرانی میں تمام اساتذہ، معلمات اور طلبہ و طالبات نے اس مناسبت سے حلف لیا کہ وہ عظیم بھارت کی اتحاد و اتفاق کو مضبوط کرنے اور اسے لوگوں کے درمیان عام کرنے میں اپنی شرکت کو ہمیشہ یقینی بنائے رکھے گا ۔
 اس یوم قومی اتحاد کی مناسبت سے کالج کے لگ بھگ تمام طلبہ و طالبات موجود تھے لیکن باالخصوص میں محمد علی ،شاہ رخ خان، محمد عمران، مستحسن، ذیشان الہی منیر تیمی، عبد القادر،شہاب الدین، معید انجم، ابو نصر، عاشق، افروز، احمد رضا، سلامل انصاری، قابل، سلمان، عبد السمیع، شمشاد، امتیاز، علی تیمی، نظام الدین، فردوس، جمیل، عاشق، شمیم، عبد المتین، تفضل، ملک عبد الباری، شاکر، خادم الاسلام سیماب، سائمہ، نمرہ، عمرانہ، ترنم، عائشہ، رقیہ، صفیہ اور نوشین جیسے طلبہ و طالبات موجود تھے ۔صدر پروگرام  پروفیسر عبد الرحیم سر ،  پروفیسر پٹھان وسیم سر اور پروفیسر بدر الاسلام سر حفظھم اللہ ،محترمہ خان شہناز بانو میم ،محترمہ عظمی صدیقی میم ،ڈاکٹر شاہین پروین میم اور سیدہ ہاجرہ نوشین میم حفظھن اللہ  کے ساتھ ساتھ تمام طلبہ و طالبات کی موجودگی نے اس پروگرام کو کامیاب اور مثالی بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا  ۔
 
          ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی ہر مخلوق کے لیے رحمت ہے، سرفراز احمد ملی القاسمی حیدرآباد

*رسول اکرم ﷺ کائنات  کی ہرمخلوق کے لئے رحمت ہیں*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📝*سرفراز احمد ملی القاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد*
----------------------------------------
 ماہ ربیع الاول اسلامی مہینوں کےاعتبار سے انتہائی اہمیت کاحامل ہے،اس ماہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں میرے آقا ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی،اس میں فخررسل،محسن انسانیت،رحمت للعالمین،محبوب رب العالمین،سرورِ کونین،سردار الانبیاء ﷺ تشریف لائے،عربی زبان میں"ربیع"موسم بہار کو کہتے ہیں،
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کی ویران وادی میں بہار آئی تھی،بی بی آمنہ کے آنگن میں ایک صدا بہار پھول کھلاتھا،جسکی مہک اورخوشبو سے ساری کائنات معطر ہوگئ،دلوں کے خلوت کدے روشن ہوگئے،تھکی ماندی انسانیت کوشادمانی نصیب ہوئی، نسل آدم کاوقار بلند ہوا،شرف انسانی کو سربلندی ملی، ذروں کوآفتاب کی چمک ملی،یہ آنے والی بہار اوراس میں کھلنے والاپھول، حسن ازل کی تجلی خاص اورجان کائنات،فخرموجودات کی ذات اقدس تھی،جو حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی دعائے مستجاب کاثمرہ تھا،جنکو حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے ان الفاظ کے ذریعے خدا سے مانگا تھا،"اے ہمارے پروردگار!آپ لوگوں میں ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انھیں میں سے ہو اوروہ رسول  تیری آیتیں انکے سامنے تلاوت کرے،انکو کتاب اوردانائ کی باتیں سکھائے اورانکو پاک و صاف کرے، بیشک تو بڑازبردست اوربڑی حکمت والاہے"(قرآن)
سرور کائنات ﷺ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں علماء کے تین قول ہیں،بعض نے 8 اور بعض نے 9 اوربعض نے 12 ربیع الاوّل تاریخ ولادت بیان فرمائی ہے،مگر محقق علماء کااس بات پراتفاق ہے کہ 12ربیع الاوّل، پیرکے دن صبح کےوقت آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی،اور اسطرح  یہ مہینہ بہار جاوداں کہلایا،امام شافعیؒ  فرماتےہیں کہ اس مہینے میں ایک نہیں بلکہ تین ربیع(بہار) جمع ہوگئے،ایک تو اس ماہ کانام ربیع،دوسرے موسم ربیع اوربہارکا، تیسرے خود رسول اکرم ﷺ بھی عالمگیر خزاں میں بہار بن کر تشریف لےآئے،آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ظلمت کدہ عالم میں روشنی پھیلی،خزاں رخصت ہوگئی،بہار کی ہوائیں چلنے لگیں،پھر قرآن نے یہ اعلان فرمایا کہ"
ہم نے آپ کو سارے جہاں اورساری کائنات کےلئے  رحمت بناکر بھیجاہے"(سورہ انبیاء)جب یہ معلوم  ہوگیا کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کےلئے رحمت بناکر بھیجاہے تواب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رحمت اورمہربانی کا
تقاضہ کیاہے؟
علماء نےلکھاہے کہ آپﷺ تمام جہانوں کےلئے رحمت ہیں،چاہے وہ عالم انسانیت ہویاعالم جن،عالم ملائکہ ہوں یاعالم حیوانات،یاپھرعالم چرند پرند،ان تمام عالموں کےلئے آپﷺ
  کو رحمت بناکربھیجاگیاہے،انسانوں کےلئے رحمت
 تو  اسطرح ہوئے کہ آپ ﷺ فیضان ربانی اورانعامات خداوندی کےلئے واسطہ اورذریعہ بنے،اپنی اپنی قابلیت اورقبولیت کے تناسب سے پوری عالم انسانیت کےلئے آپﷺ ایک مشعل کامل
بن کرآئے،آپ ﷺ نے انسانوں کے سامنے علوم کے
 خزانے رکھدئے،اورانسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کی  رہنمائی فرمائی،انسان کی پیدائش سے لیکر وفات تک اور وفات کے بعد پھر حیات تک اور حیات ثانیہ سے لیکر حیات جاودانی تک وہ کونسا
پہلو اورکونسا شعبہ ہے جسکی آپ ﷺ نے پوری پوری رہنمائی نہ کی ہو؟
علامہ ابن قیم کے حوالے سے ایک جگہ لکھاہے کہ"اگر عالم میں نبوت کاسلسلہ نہ ہوتاتو نہ علم نافع کا وجود ہوتا اورنہ عمل صالح کاکوئی تصور ہوتا،نہ معیشت ومعاشیات کاکوئی  صحیح رخ ملتا اورنہ حکومت چلانے کے کوئی  صحیح  ضابطے ملتے،بلکہ لوگ جانوروں،درندوں اورپاگل کتوں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتے رہتے،الغرض
عالم کائنات میں جہاں  کہیں خیرو بھلائی نظر آتی ہے تویہ نبوت حقہ کا پرتو اوراثر ہے،اور جہاں  کہیں عالم میں برائی اور شرارت  نظر آتی ہے یامستقبل میں آئے گی وہ نبوت حقہ کے آثار کے مخفی اورکمزور ہونے کی وجہ سے ہے،گویاکہ عالم ایک جسم ہے اور نبوت حقہ اسکی روح ہے،لہذا زمانۂ نبوت جتنادور ہوتاجائے گا عالم میں بگاڑ پیدا ہوگا"(روح المعانی)
بہر حال رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات عالم انسانیت کی ہدایت وکامیابی اوردینی و دنیوی  ترقی کےلئے رحمت ہی رحمت ہے،اسی طرح رسول  اکرم ﷺ غیر مسلموں  کےلئے بھی رحمت ہیں،آپ ﷺ کی ذات بابرکات اور آپ ﷺ کی عام دعا کی وجہ سے اللہ تعالی نے سابقہ غیرمسلم امتوں کے عذاب کی طرح،عام عذاب سے اس امت کے کفار کو محفوظ رکھا کہ آسمان سے آگ ان پر برس پڑے یاپانی ہواکا ایسا طوفان آجائے کہ روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ رہ جائے،عذاب الہی کا ایسا سلسلہ کہ جس سے کفار مجموعی اعتبار سے صفحہ ہستی سے مٹ جائے،موقوف ہوگیا،اسی طرح کفار کو دنیوی لحاظ سے امن کی زندگی بھی ملی اورتوبہ کرنے کاایک وسیع میدان بھی ملا،جو یقینا حضور اکرم ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کااثرہے،سورہ انفال میں ایک جگہ ہے"اورجب کفار کہنے لگے کہ اے اللہ! اگریہی دین تیری طرف سے حق ہےتو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یاہم پر کوئی عذاب لا،اور وہ ہرگزان پر عذاب نہیں لائے گاجب تک وہ لوگ معافی مانگتے رہیں گے"(آیت 32)
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ"مشرکین جس قسم کی خارق عادت عذاب طلب کررہے تھے،جو قوم کی قوم کادفعة استیصال کردے،ان پرایسا عذاب بھیجنے سے دوچیزیں مانع ہیں،ایک حضورؐ  کاوجود باوجود کہ اسکی برکت سے اس امت پرخواہ امت دعوت ہی کیوں نہ ہوایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا یوں کسی وقت افراد یاآحاد پر وہ اسکے منافی نہیں،دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم
جیساکہ منقول ہےکہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ وطواف وغیرہ میں غفرانک غفرانک کہاکرتے تھے"(تفسیر عثمانی)
اسکے علاوہ رسول اکرم ﷺ نے مطلق انسانیت کے حقوق کاجو تعین کیاہے اور انسان کو ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی سے جو روکاہے اس میں بھی غیر مسلموں کےلئے آپﷺ کامل و مکمل رحمت ہیں،آپؐ نے اپنے ارشادات عالیہ میں بھی مہربانی،رحمت وشفقت، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور عدل وانصاف پربہت زوردیاہے،ایک حدیث میں آپﷺ کاارشاد ہے"جو شخص لوگوں پر مہربانی  نہیں کرےگا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کریں گے"(حدیث)ایک دوسری حد یث میں ہے"تم زمین والوں پر مہربانی کرو تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا"اسی طرح آپﷺ فرشتوں کےلئے بھی رحمت ہیں،ایک دفعہ حضور اکرمؐ نے حضرت جبریل سے پوچھاکہ"عالم کےلئے میرے رحمت ہونے کاتجھے کیافائدہ پہونچا ہے؟یعنی اس رحمت کا تجھ پر کیااثر ہواہے؟جبریل امین نے جواب میں فرمایا کہ مجھے یہ ضمانت مل گئی ہے کہ میراخاتمہ باالخیر ہوگا علماء کے بقول حضرت جبریل امین کایہ جواب دوسرے فرشتوں کےلئے بھی عام کیاجاسکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے واسطے سے قرآن کریم میں تمام فرشتوں کی معصومیت کاتذکرہ فرمایا ہے،ان کی اطاعت وعظمت کے اعلانات فرمائے جبریل امین کی امانت ودیانت، صاحب قدرو منزلت اورانکی شان ورفعت کااعلان فرمایا اورتمام  فرشتوں کو مقربین بارگاہ خداوندی قراردیا،فرشتوں سے محبت کاحکم دیااوران سے عداوت کو اپنے ساتھ دشمنی قرار دیا"(علمی تقریریں)ایسے ہی آپ جنات کےلئے بھی رحمت ہیں،جنات کےلئے بھی شرعی قواعد وقوانین وہی ہیں جو انسان کےلئے ہیں،لہذا جن وجوہات کی وجہ سے آپ انسانوں کےلئے رحمت ہیں انہی وجوہات کےتحت آپ جنات کےلئے بھی رحمت ہیں،اسی لئے ہڈیوں سے استنجاء کرنے سے آپؐ نے منع فرمایا کیونکہ اس سے جنات غذا کا کام لیتے ہیں،ایسے ہی گوبر سے استنجاء کو ممنوع قرار دیاگیا کیوں کہ اس سے بھی جنات فائدہ اٹھاتے ہیں،کسی گھر میں سانپ دکھ جائے تواسکو فورامارنے سے منع کیاگیا،اور یہ حکم دیا گیاکہ پہلے اسے اعلان کرکے چلے جانے کو کہو اگر وہ سانپ چلاجاتاہے تو ٹھیک ورنہ پھراسے ماردیاجائے،تاکہ سانپ کی صورت میں کوئی جن نہ مار جائے،اسکے علاوہ آپﷺ نے جنات کے کئی تنازعات کےفیصلے کرکے صلح کرائی ہے اورہدایت وایمان کاعظیم سامان فراہم کیاہے جوجنات کےلئے رحمت ہے،
ایسے ہی آپؐ کی ذات بابرکت جانوروں کےلئے بھی رحمت ہے مختلف احادیث میں آپ ﷺ نے جانوروں کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کاحکم دیا،ایک حدیث میں فرمایا"ان بے جان جانوروں کے بارےمیں خدا کاخوف کرو،جب تک وہ صحیح سالم ہوں ان پر سواری کرو اور پھر صحیح حالت میں انکو چھوڑ دو"ایک اورحدیث میں ہے کہ"کسی حیوان کو بیٹھنے کےلئے منبر مت بناؤ"ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ"ذبح کرتے وقت کسی جانور کے ساتھ زیادتی نہ کرو،چھری کو خوب تیز رکھو،اورجہاں تک ذبح ضروری ہے اسی پراکتفا کرو"اسکے علاوہ اور بھی کئی حدیثیں جانوروں کے تعلق سے موجود ہیں جس میں جانوروں کے ساتھ خیرخواہی کی تعلیم دی ہے،اسی طرح آپ پرندوں کےلئے بھی رحمت  بناکر مبعوث کئے گئے،ایک سفرمیں، کسی صحابی کو آپ ﷺ نے دیکھاکہ پرندوں کے چند چوزوں کو چادر میں لپیٹ رکھاہے آپؐ نے اسکو کھولنے کاحکم دیاجب اسکو کھولا گیا تو چوزوں کے ساتھ اسکی ماں بھی بیٹھی ہوئی تھی،اورواپس نہیں جارہی تھی آپﷺ نے جب یہ قصہ سنا تو فرمایا"اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر چوزوں کی ماں سے بھی زیادہ مہربان ہیں،پھرآپؐ نے حکم دیاکہ"جاؤ اس پرندے کو ان چوزوں کے ساتھ وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے پکڑاہے،اس صحابی نے وہیں لے جاکر سب کو چھوڑدیا،اسی طرح اور بھی کئی واقعات ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ تمام جہانوں کےلئے رحمت  بناکر بھیجے گئے ہیں،اب اس رحمت کاتقاضہ یہ ہے کہ ہم اس رحمت کے پیغام کو عام کرنے میں حصہ لیں اوراہم کردار اداکریں،علماء نے لکھاہے کہ آپﷺ سارے جہان کےلئے  رحمت  بناکر بھیجے گئے ہیں، اگرکوئی بدبخت اس رحمت عامہ سے خود ہی منتفع نہ ہو تو یہ اسکا قصور ہے، آفتاب عالم تاب سے روشنی اورگرمی کا فیض ہرطرف پہونچتا ہے لیکن کوئی شخص اپنے اوپر تمام دروازے اورسوراخ بند کرلے تو یہ اسکی دیوانگی ہوگی،آفتاب کے عموم میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا،اور یہاں تو رحمۃ للعالمین کا حلقۂ فیض اس قدر وسیع ہے کہ جومحروم القسمت مستفید ہونا نہ چاہے اسکو بھی کسی نہ کسی درجہ میں بے اختیار رحمت کا حصہ پہونچ جاتا ہے"(تفسیر عثمانی)
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ"اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم ہدیہ جو بندوں کو ملا وہ رسول اکرمؐ  کی ذات بابرکات ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے بنیادی طور پر تین حقوق ہیں جنکاادا کرنا ہر فرد کےلئے  ضروری ہے،ایک عظمت، دوسرے محبت اور تیسرے متابعت،عظمت یہ ہے کہ آپؐ کو اتنابڑا جانا اور سمجھاجائے کہ کائنات میں کوئی اتنی بڑی ہستی نہیں ہے،جتنی آپ ﷺ کی ہے،دوسری چیز  محبت ہے اگر محبت نہیں ہوگی تو ایمان  نصیب نہیں ہوگا،آپؐ کا یہ حق ہے کہ ہم آپؐ سے محبت کریں، محبت کا خاصہ یہ ہے کہ فقط محبوب ہی محبوب نہیں ہوتامحبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوجاتی ہیں،جس سے محبت ہوتی ہے تو آدمی یہ چاہتا ہے کہ میں صورت بھی ایسی بنالوں جیسی محبوب کی ہے،چال ڈھال بھی ایسی بنالوں جیسی محبوب کی ہے،رہن سہن کاڈھنگ بھی ایسا بنالوں جومیرے محبوب کاہے،محبوب سے جب محبت ہوتی ہےتو فقط محبوب سے نہیں ہوتی بلکہ اسکی ہرایک اداسے محبت ہوجاتی ہے،یہاں تک کہ اسکا گھر در بھی محبوب بن جاتاہے،اورتیسرا حق متابعت ہے، جو قانون آپؐ نے لاکردیا ہم اسکی پیروی اوراطاعت کریں، جو سنتیں آپؐسے ثابت ہیں انکی اتباع کریں،ایک ایک سنت کی پیروی میں جونورانیت اور برکت ہے، ہم اپنی عقل سے ہزار قانون  بنالیں اس میں وہ خیروبرکت نہیں آسکتی جو آپؐ کی ایک سنت کی ادائیگی میں برکت ہوسکتی ہے،ایک ایک سنت کی پابندی کرنا اسی کا نام متابعت ہے"(خطبات حکیم الاسلام)اللہ تعالی ہم سبکوآپؐ سے بے انتہا محبت عطافرمائے، اورسنتوں کی پابندی کی توفیق دےآمین۔۔۔۔۔۔۔


برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com

یہ کوئی دستور ہے، مفتی توقیر بدر آزاد قاسمی

*یہ کویی دستور نہیں*

_*ت بدر آزاد*_ *

*ہم اور ہمارا سماج*:

راقم کو آج جس نکتے پر بات کرنی ہے،وہ مسلم سوسائٹی میں عورتوں کے ساتھ "حسن معاشرت"سے متعلق ہے.

واقعہ یہ ہے کہ آج ہم جس سماج سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مسلم سماج کہلاتا ہے.ساری دنیا میں زبان و بیان کی جادوگری سے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ "اسلام عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے" جو کہ اپنے آپ میں ایک اٹل حقیقت اور ٹھوس ثبوت و شواہد کا حامل ہے.
اب ظاہر ہے کہ اسلام کے پیروکار "مسلمان" کہلاتے ہیں.اور سماج "مسلم سماج" کا نام و عنوان لے لیتا ہے.

*مسلم سماج اور حقوق نسواں*:

اب معاملہ یہ ہے کہ مسلم سماج میں گھل مل کر حقوق نسواں کا مشاہدہ جب کبھی کرنے کی نوبت آتی ہے تو سواے افسوس کہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا.
دنیا تو رہنے دیں!شادی بیاہ کے موقع پر از خود اسے محسوس کرنے کی کوشش کریں تو یہ سمجھ میں آجایگا کہ مسلم سماج میں بلا شبہ عورتیں شادی بیاہ و دیگر پروگرام و تقریب کے موقع سے مظلوم ہی ہیں.
بھلے اسلام نے انہیں ایسا نہیں ٹھہرایا ہے.

*شادی کے موقع سے ذمہ داروں کا رویہ*:

بات شادی بیاہ میں آنے والے مدعوئین کی ضیافت کو لیکر کرتے ہیں.شاید آپ قارئین بھی اس بات سے اتفاق کریں کہ مردوں کو عورتوں سے پہلے کھانا کھلانے،انہیں بیٹھنے بٹھانے میں ہم مسلم سماج والے ترتیب تقدم و تأخر کا ایسا لحاظ رکھتے ہیں کہ انھیں غور سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر دوسرے درجے کا انسان ہی کیا جاسکتا ہے.کم ازکم ہمارا آج کا کلچر تو اِسی کا غماز ہے.یہی نہیں!غصے یا ہنسی مذاق میں آپس میں ہمارے درمیان رائج گالیاں بھی اِسی رویے کی عکاس ہیں!

*راقم کا احساس*:

راقم نے علاقے میں بہت سے مقامات پر شادیوں و دیگر پروگرام میں شرکت کی ہے.دیکھنے کو یہ ملا اور ملتا ہے کہ ولیمے یا بھوج کے وقت مَرد حضرات کو کھانا پہلے جبکہ عورتوں کو بعد میں ملتا ہے. کیی دوستوں نے بات چیت ہی میں اپنا اپنا یہ احساس بھی شییر کیا کہ خود گھر خاندان کی شادی کے موقع پر،دیکھنے کو یہ ملا کہ ہماری خواہش کے برعکس ذمہ داروں(گھر کی خواتین خود بھی ان میں شامل ہوتی ہیں)نے عورتوں کو مَردوں کو کھانا کھلانے کے بعد کھانا دیا.

چند دن پہلے ایک شناشا کی شادی کی تقریب جو ایک شادی ہال میں ہو رہی تھی،اُس میں بھی یہی صورت حال دیکھی،ہم سب مرد حضرات جب کھانا کھا کر نکل رہے تھے تب خواتین کے کھانے کا بندوبست کیا جارہا تھا،بلکہ مشورہ ہورہا تھا
"کیا اب خواتین کو بھی کھانا کھلا دیا جایا /دے دیا جایے"

ظاہر ہے ایسے موقع سے عموما بچے ماں کے ساتھ اور انکے پاس ہی ہوتے ہیں،نتیجتاً ان معصوموں کو بھی بھوکا اتنی دیر تک جھیلایا جاتا ہے.حالانکہ اسلامی و اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں،عورتوں اور بچوں کو کھانا پہلے کھلانا چاہیے.اگر پہلے نہ کھلایا جا سکے تو کم از کم ایک ساتھ سبھی کو کھانا دینے اور کھلانے کا نظم تو بہر حال ہونا چاہیے.بطور خاص باہر سے آنے والی خواتین کو تو ضرور مرد حضرات کے کھانے کے ساتھ ہی فارغ کردیں تاکہ انکے شوہر یا محرم انکے انتظار میں نہ پکیں!راقم ایک دو موقع سے خود اسکا ستایا ہوا ہے. الغرض نظم ہو خواہ الگ سے دیگ چڑھا کر کریں یا کسی اور صورت سے اس کو بیلنس کریں!

*اس رویے کو بدلنا ہوگا*:

بہر صورت اب تعلیم اور عوامی میڈیا کا دور دورہ ہے،اس کے بل پر ہمیں اس ذہنیت کو بدلنا ہے کہ"مَرد حضرات جلدی اور اچھی طرح کھانا کھا لیں یہ کافی ہے.بعد ازاں دوسرے درجے کی انسان،یعنی عورتوں اور انکے ساتھ بچوں کو بھی کھانا دے ہی دیا جائے گا"

عورتوں سے حسن معاشرت کے متعلق قرآنی ہدایت"وعاشرواھن بالمعروف" کو وسیع پس منظر میں دیکھیے!اٹھ کھڑے ہویے اور اس رویے کو بدلنے کی تحریک چلایے!
ان شاء اللہ یہ بھی کسی اور معاشرتی اصلاح کے لیے کیے جانے والے دیگر افعال سے جد وجہد میں کم رتبے کا حامل نہ ہوگا!

*یہ مناسب عمل نہیں ہے*:

کھانا کھلانے میں کسی گروہ کو دوسرے پر مقدم کرنا، یہ نہ تو قطعی مناسب عمل ہے،نہ ہی اسلامی و اخلاقی رویے سے میل کھاتا کوی دستور!

==============*
ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا

+918789554895
+919122381549

ڈینگو کے قہر سے پورا خاندان 15 دن میں ختم، صرف ایک نوزائیدہ بچہ بچا

تلنگانہ31 اکتوبر
تلنگانہ میں ڈینگو کے تباہی نے ایک کنبے کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ اس کنبے میں اب صرف ایک نوزائیدہ بچہ بچ گیا ہے۔ اس کے والدہ ، والد ، بہن اور دادا دادی سب ڈینگو سے فوت ہوگئے ہیں۔ معلومات کے مطابق ، تلنگانہ کے ضلع مانچیرال میں رہنے والا یہ کنبہ 15 دن میں ختم ہوگیا۔ بدھ کے روز ایک ہی خاندان کی 28 سالہ خاتون بچے کو جنم دینے کے بعد اسپتال میں دم توڑ گئیں۔
ایک ایک کرکے سارا کنبہ ختم ہوگیا
اس خاندان میں سب سے پہلے سونی کا شوہر راجیگٹو (30 سال) کو ڈینگو ہوا تھا۔ راجاگٹو ایک استاد تھا اور مانچیرال ضلع کے شری نگر میں رہتا تھا۔ ڈینگیوکا پتہ چلتے ہی یہ لوگ کریم نگر شفٹ ہوگئے۔ نجی اسپتال میں زیر علاج 16 اکتوبر کو اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ، راجیگٹو لنگے کے 70 سالہ دادا کو ڈینگی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کنبہ کے ایک اور فرد کا 20 اکتوبر کو انتقال ہوگیا۔
دیوالی پر تیسری موت
یہ خاندان ابھی تک لگاتار دو اموات کے غم سے باز نہیں آیا تھا ، راجیگٹو کی 6 سالہ بیٹیشری ورشینی کو بھی ڈینگی ہوگیا۔ علاج کے دوران ، شری ورشینی بھی دیوالی کے دن 27 اکتوبر کو انتقال کر گئی۔


بشکریہ سیاسی منظر

ڈاکٹر ظل الرحمٰن کی کتاب "تربیت اولاد اور ہماری ذمہ داریاں" پر محمد عباس دھالیوال کا قیمتی تبصرہ

بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے۔اگر بچپن میں بچے کے ذہن پر خیر اور نیکی نقش کرگئی تو وہ زندگی بھر اس کا پاسدار رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر اس کی تربیت کا مکمل اہتمام نہیں کیا گیا اور اس کے ذہن میں برائیاں اور بری خصلتیں راسخ ہوگئیں، تو تاحیات انہیں ان سے الگ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا۔
جامع تربیت تبھی ممکن ہے جب تربیت کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کو سینچا جائے۔ بچوں کی ایمانی، اخلاقی، جسمانی، عقلی، فکری، نفسیاتی، جنسی اور ایمان وعقیدہ کی تربیت کا بھر پور خیال رکھا جائے۔ورنہ اگر ہماری تربیت صرف جسم تک یا صرف بعض اخلاق وآداب سکھادینے یا صرف اسکول کالج کی تعلیم مکمل کرادینے تک محدود رہی، تو ہم تربیت کے جامع وآفاقی اور ہمہ گیر ہدف کو نہیں پاسکتے ہیں۔
قابل مبارک باد اور لائق شکر ہیں گرامی قدر ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی، جنہوں نے نہ صرف اس ضرورت کو محسوس کیابلکہ مسلسل دو سالوں کی محنت وجانفشانی کے بعد ایک ایسی کتاب تیار کی جو تربیت کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئی ہے۔آپ تصنیف وترجمہ کاطویل تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں امام محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں او رحرم مکی میں ائم?حرم کی فوری ترجمانی پر مامور ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے تربیت کے ان تمام اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے جو توجہ کے مستحق ہیں اور ہر گارجین کو جن کی تلاش ہوتی ہے۔
یہ کتاب سترہ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں ولادت سے قبل بچوں کے حقوق زیر بحث آئے ہیں جس میں نیک بیوی اور نیک شوہر کے انتخاب کے شروط وضوابط پر بالاختصار بات کی گئی ہے۔ دوسریباب میں ولادت کے بعد بچوں کے حقوق اور نومولود کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔تیسرے باب میں ”بچے، اسکول اور ہماری ذمہ داریاں ” پر بات کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں بچوں کی تربیت کیقیمتی اور رہنما اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں باب میں نئی نسل میں بڑھتے انحراف کے اسباب وعلاج پر بات کی گئی ہے۔ اسی ضمن میں غلطیوں کے ارتکاب پر بچوں کی اصلاح کے طریقیکو حوال? قرطاس کیا گیا ہے
۔چھٹے باب میں بچوں کے غلط رویوں پرروشنی ڈالنے کے ساتھ ان کیعلاج واصلاح کی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔ساتویں باب میں عقیدہ کی تربیت، آٹھویں باب میں فقہی تربیت، نویں باب میں اخلاقی تربیت، دسویں باب میں ادبی تربیت، گیارہویں باب میں جسمانی تربیت، بارہویں باب میں جنسی تربیت، تیرہویں باب میں عقلی تربیت، چودہویں باب میں نفسیاتی تربیت، پندرہویں باب میں متوازن غذا اور بچوں کی صحت، سولہویں باب میں بچوں کی طبی جانچ اور ٹیکہ کاری، سترہویں باب میں بچوں کو ایک شیڈول کا عادی بنانیکے سلسلے میں ہدایات اور اخیر میں خاتم? کتاب بیان کیاگیا ہے۔ اس طرح اس کتاب میں تربیت کے اہم پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے، تاکہ ان کی روشنی میں ہرمربی اپنے بچوں کی جامع ومنصوبہ بند تربیت کرسکے۔
موصوف اپنی کوشش میں بہت حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں. آپ کا اسلوب سلیس اور زبان شریں ہے. نہایت مثبت انداز میں آپ نے معلومات پیش کی ہیں. آپ کا انداز معروضی اور علمی ہے. آپ نے دلائل کی روشنی میں باتیں کی ہیں. البتہ بعض موضوعات میں تشنگی محسوس ہوتی ہے. جیسے عقیدہ کے باب میں اورنفسیاتی تربیت کے باب میں آپ نے بہت اختصار سیکام لیا ہے. یہاں بھی اگر آپ نے اسی تفصیل سے بات کی ہوتی جس طرح اخلاقی, ادبی, جنسی, عقلی, نفسیاتی تربیت وغیرہ میں کیا ہے, تو مزید بہتر ہوتا اور کتاب کے حسن میں مزید نکھار پیدا ہوتا. کہیں کہیں پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں. اگلے ایڈیشن میں اگر ان کی اصلاح کر لی جائے تو بہت اچھا رہے.یہاں قابلِ ذکر ہے کہ اس کتاب کا انگریزی زبان میں بھی ترجمہ Parenting In Islam کے نام سے ہوچکا ہے انگلش میں اسکا ترجمہ محمد رازِق سوداگر نے کیا ہے جو کہ گزشتہ دنوں منظرِ عام پر بھی آچکا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر ظل الرحمن کی یہ کوشش بہت خوب ہے.اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیے جانے اوراس سے استفادہ کیے جانے کی ضرورت ہے. یہ کتاب ہر والدین کے لیے اولاد کی تربیت کے ضمن میں سنگ میل کی ثابت ہو سکتی ہے یقینا اگر ا س کتاب میں بیان کی گئی ہدایات پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ اس کے دور رس اثرات محسوس کیے جائیں گے.
تبصرہ نگار: محمد عبّاس دھالیوال مالیر کوٹلہ،پنجاب۔ رابطہ9855259560

راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر عامر رشادی کا دو روزہ بہار کا دورہ، مختلف جگہوں پر پارٹی کے پروگرام کو کیا خطاب

راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر عامر رشادی کا دو روزہ بہار دورہ۔۔۔۔
مختلف جگہوں پر پارٹی کے پروگرام کو کیا خطاب۔۔۔۔

بہار : راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی دو دنوں کے دورہ پر صوبہ بہار پہونچے۔ بہار کے گیا ضلع میں پارٹی کے صوبائ صدر فردوس احمد پرنس کی بہن کے نکاح میں بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر مولانا رشادی کے ہمراہ قومی ترجمان ایڈوکیٹ طلحہ رشادی، بہار پربھاری مولانا آفتاب اظہر، نائب صدر توحید انصاری بھی موجود رہے۔ بہار پہونچنے پر مولانا رشادی کا مختلف جگہوں پر کارکنوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اورنگ آباد میں استقبال کے بعد شیرگھاٹی میں رات گزاری اور دوسرے دن وہیں شیر گھاٹی میں کارکنان اجلاس کو بھی خطاب کیا۔اس کے بعد گیا ضلع کے لئے بذریعہ کار نکل گئے جہاں راستے میں کئ جگہ کارکنان نے استقبال کیا جس میں خاص طور سے امام گنج، شاہ دیو خاص، بارا وغیرہ جگہ شامل رہی۔ اس کے بعد رات صوبائ صدر فردوس احمد پرنس کی بہن کے نکاح میں شامل ہوئے۔ آج بدھ کو دوسرے روز گیا میں منعقد کارکنان اجلاس کو خطاب کیا۔
            جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا رشادی نے کہا کہ آج وقت کی ضرورت ہے کہ سماج کا ہر محروم، مظلوم، پسماندہ طبقہ متحد ہوکر اپنے حقوق اور مسائل کی لڑائ خود ایک مظبوط و سیاسی طاقت بن کر لڑیں۔ راشٹریہ علماء کونسل اس مقصد اور مشن کو لیکر آگے بڑھ رہی ہے اور ملک بھر میں 14 صوبوں میں مسلسل کام کر رہی ہے۔ انہوں نے بھاجپا اور جے ڈی یو سمیت کانگریس و آر جے ڈی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان سبھی پارٹیوں میں پورے بہار کو پچھلے 73 سالوں سے ٹھگا ہے اور آج تک پینے کے لئے صاف پانی تک مہیا نہ کرا سکے۔ بالخصوص مسلمانوں کو تو ان پارٹیوں نے اتنا استحصال کیا ہے کہ آج مسلم طبقہ سماج کے آخری سطح پر دلت اور آدیواسیوں سے بھی بری حالت میں کھڑا ہے۔ نہ تعلیم، نہ روزگار، نہ بنیادی سہولت مسلمانوں کو میسر ہیں۔ جبکہ آج نتیش اور لالو دونوں ہی مسلمانوں کے دم پر قومی لیڈر بن گئے ہیں اور صرف اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی ترقی میں لگے ہیں۔
                   کونسل کے قومی ترجمان ایڈوکیٹ طلحہ رشادی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں کو اپنے مسائل کا حل صرف دو طریقے سے حاصل کیا جاسکتا ہے وہ جمہوری اور قانونی طریقہ ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے لیڈر مولانا عامر رشادی نے طلاق ثلاثہ جیسے مسئلے پر سب سے پہلے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی اور اس مسئلے کو حل کرانے اور بہنوں کو انصاف دلانے کی راہ میں ایک مثبت کوشش کی ہے۔ راشٹریہ علماء کونسل کی پہچان اس کے زمین پر کئے گئے بنیادی کام ہیں جو آج اس ملک بھر میں مشہور بنائے ہوئے ہیں۔
                 اس موقع پر مولانا آفتاب، توحید انصاری، ضلع صدر ذاکر خان، عامر، کفیل خان، آزاد خان، دلشاد احمد، معصوم، عادل وغیرہ گیا ضلع کی عوام موجود رہی۔

اشرف اصلاحی
میڈیا انچارج

Wednesday 30 October 2019

مرکزی سیرت کمیٹی کی ٹیم کی ہوئی تشکیل!

جونپور(آئی این اے نیوز31/اکتوبر2019)  شيراز ہند جونپور کا آئندہ بتاریخ 10 نومبر کو منعقد ہونے والا تاریخی جلوس مدح صحابہ رضی اللہ عنہ اور جلسہ سيرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاریاں زوروں پر ہے۔
اسی اثناء میں مرکزی سیرت کمیٹی کی ایک اہم میٹنگ درگاہ حضرت فاضل شاہ شیخ مہامد میں ہوئی میٹنگ کا آغاز کلام الہی سے کیا گیا، میٹنگ کی صدارت ارشد قریشی صدر مرکزی سیرت کمیٹی نے کیا۔
مرکزی سیرت کمیٹی کے آئندہ جلوس اور جلسہ کے سلسلے میں ٹیم کی تشکیل کرنے کے بارے میں غور و خوض کیا گیا۔ مرکزی سیرت کمیٹی کے صدر ارشد قریشی اور تمام سابق صدور کی موجودگی میں حاجی نہال انصاری، شکیل منصوری، نیاز طاہر شیخو، ڈاکٹر طفیل انصاری، اشبع صدیقی، کو نائب صدر انجم صدیقی، ابو طالب انصاری، اشفاق منصوری، ابوذر شیخ، عمر منصوری، کو جنرل سیکرٹری شمیم احمد کو خزانچی، شکیل ممتاز کو آڈیٹر، شفیق گوپ، شمشیر قریشی، سلیم اللہ خان چننا، شہاب الدین رايني، شعیب قادری، امير اللہ رائین ، ثاقب انصاری، سمیر اسلم خان، شاہد قمر انصاری کو سکریٹری شاہد صدیقی، محمد زبیر، دانش صدیقی، سلمان ملک، کو جوائنٹ سکریٹری اجود قاسمی کو میڈیا انچارج رفیق احمد کو سوشل میڈیا انچارج منتخب کیا گیا۔
تمام عہدیداروں نیں اپنی اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دینے کا وعدہ کیا. آخر میں ملک میں امن و امان اور جلسہ و جلوس کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی۔

کیا ہم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں، انظر الاسلام بن شبیر احمد

*کیا ہم خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں*

*(ذٰلک لمن خاف مقامی وخاف وعید)*

✍انظرالاسلام بن شبیراحمد

 *اس وقت ملک بھر میں گومگو کی کیفیت ہے، ہر پل ہر شخص مستقبل کو لے کر پریشان ہے، مگر بطور خاص یہ کیفیت ان لوگوں کی ہے جن کو لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون کی صفت سے متصف ہونا تھا، جن کے لیے أنتم الأعلون کی بشارت تھی، جن کو  وأن الارض یرثہا عبادی الصالحون کا مزدۂ جانفزا سنایا گیا تھا، وہی دراصل اس کیفیت میں مبتلا ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ہر صبح کو سوچتے ہیں کہ جانے شام تک کیا ہوگا اور ہر شام کو سوتے وقت سوچتے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی جانے کون سی خبر سننے کو ملے گی۔*
 ملک کے حکمراں طبقہ نے جو رخ اختیار کیا ہے اس سے یہ بالکل صاف ہوگیا ہے کہ اگر وہ اپنے عزائم کو نافذ کرنے میں مکمل کامیاب ہوگیا تو سب سے زیادہ پریشانیاں اس ملک کے مسلمانوں کو جھیلنی ہوں گی (لا قدر اللہ) اگرچہ دوسروں کو بھی جھیلنی پڑیں گی مگر ابھی بظاہر نہیں، البتہ اگر حکمراں طبقہ کو یہ کامیابی نہ ملی تو پھر ملک کو بڑے فسادات کی آگ میں جھونکا جائے گا اور اس کی زد میں بھی ہم ہی آئیں گے، وزیر داخلہ نے کلکتہ کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بہت صاف طور پر کہا کہ ہم پورے ملک میں NRC نافذ کریں گے مگر اس سے پہلے CAB یعنی (Citizenship Amendment Bill) لائیں گے، اس بل کے تحت ہم تمام ہندوئوں، بودھ، جین، عیسائی وغیرہ کو جن کے پاس شہریت کا ایک بھی دستاویزی ثبوت نہیں ہے انھیں شہریت دے دیں گے، اس لیے کسی بھی ہندو اور ان سے جڑی ہوئی دیگر اقلیتوں کو ڈرنے کی اور دستاویز بنوانے کے لیے لائن لگانے کی ضرورت نہیں ہے، وزیر داخلہ کا یہ بیان دستور کی دفعہ ۱۴-۱۵ کے خلاف تھا، مگر وہ یہیں پر رکے نہیں کل میں نے ایک چینل پر ان کا انٹرویو سنا، انھوں نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بہت زور دے کر تین چار بار یہی بات کہی اور ایک بار بھی ’’مسلمان‘‘ کا لفظ منہ سے نہیں نکلا اور قابل رحم الیکٹرانک میڈیا کے اینکر نے ایک بار بھی اس بابت سوال نہ کیا کہ آپ مسلمانوں کا نام کیوں نہیں لے رہے ہیں، اس ویڈیو کو سننے کے بعد اور اس سے پہلے کے تمام بیانات کی روشنی میں میرے تاثرات یہ ہیں کہ NRC کے ذریعہ بی جے پی کے کچھ مقاصد ہیں، *ایک مقصد* تو بنگال کی کامیاب ترین حکومت اور آہتی لیڈر ممتا بنرجی کو ہٹا کر بنگال پر بھی قبضہ کرنا ہے، وزیر داخلہ نے صاف کہا کہ ہم تو CAB لا کر وہ کام کرنے جا رہے ہیں جو آزادی کے بعد سے اب تک نہیں ہوا، جن کو اب تک شہریت نہیں ملی ان کو ہم شہریت دیں گے، اب ممتا جی بتائیں کیا وہ اس کی مخالفت کریں گی کہ بنگالی ہندوئوں، بدھوں وغیرہ کو شہریت نہ ملے، اس طرح انھوں نے دو طرفہ ممتاجی کو گھیر لیا، وہ اگر مخالفت کرتی ہیں تو ہندو مخالف اور مسلم نوازی کا الزام اپنے سر لیں اور نقصان اٹھائیں، اگر موافقت کرتی ہیں تو ان کا سیاسی موقف Political Stand کمزور پڑتا ہے اور وہ مسلم مخالف بھی قرار پاتی ہیں، اس ایک بیان سے وزیر داخلہ نے ممتا کی سیاست کو فرقہ واریت کے جال میں گھیر دیا ہے۔
 بی جے پی کا *دوسرا مقصد* NRC کے ذریعہ آئندہ ایک طویل مدت کے لیے ہندوئوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، کہ دیکھو ہم اس ملک کو رفتہ رفتہ گھس پیٹھیوں سے پاک کر رہے ہیں، بالفاظ دیگر مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کی پوری کوشش کر کے ہندو راشٹر کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے لیے وہ مختلف شہروں میں آباد جھونپڑیوں میں رہنے والے، کوڑا چننے والے، رکشہ چلانے والے لوگوں کو ٹارگیٹ کرے گی اور ان کے ساتھ کچھ ڈاڑھی ٹوپی والوں کو بھی شامل کرے گی اور انھیں حراستی مراکز میں رکھے گی، نہیں کہا جا سکتا کہ اپنے اس سیاسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ کتنے لاکھ یا کروڑ دو کروڑ پر اکتفا کرے گی، مگر یہ کرکے وہ آئندہ دو تین دہائیوں کے لیے ہندوئوں کا اعتماد حاصل کرلے گی۔
 *تیسرا مقصد* NRC کا بی جے پی کو اپنا مسلم مخالف چہرا ہندوئوں کے سامنے واضح کرنا ہے، لیکن عالمی سطح پر شبیہ گندی نہ ہو اس کے لیے وہ مسلمانوں کو استعمال بھی کرے گی، اور ایسے تمام لوگوں کو استعمال کرے گی جنھیں پھنسانے اور سماج کے سامنے بدنام کرنے کے ذرائع وہ ڈھونڈ لکالنے میں کامیاب ہوگی، اس طرح وہ دوطرفہ کھیل کھیلنے میں کامیاب رہے گی۔
 NRC پر اس قدر تند و تیز بیان بازی کا مقصد حکومت کی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنا ہے، ملک اس وقت بدترین مالی بحران (Financial Crisis) سے گذر رہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور ُرکی ہوئی تنخواہیں یا تاخیر سے تقسیم ہونے والی تنخواہیں یہ بتاتی ہیں کہ غیر علانیہ مالی بحران سے بھارت سے دوچار ہے، بلکہ بعض لوگوں کے مطابق (Financial Emergency)لاگو ہوچکی ہے، رِزرْو بینک کا خزانہ حکومت خالی کرچکی ہے، سونا گروی رکھ چکی ہے، رزرو بینک کے بی جے پی نواز گورنر تک استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے ہیں، NRC کے پردہ میں کسی دن آپ FRDI کے نافذ ہونے کا اعلان سنیں گے، کیونکہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں کہ وہ پبلک کا بینکوں میں جمع پیسہ استعمال کرے، اس کی جانب پیش قدمی جاری ہے اور بعض بینکوں پر کار روائیوں سے واضح اشارے مل چکے ہیں، اس قانون کا مطلب ہے کہ بینک میں جمع ااپ کی رقم کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو آن لائن خرید فروخت پر مجبور کر دیا جائے، یا تھوڑی بہت رقم نکالنے پر محدود کردیا جائے یا آپ کی رقم شیئر میں تبدیل کردی جائے، یعنی خلاصہ یہ کہ آپ کے پاس پیسہ ہوتے ہوئے بھی آپ بغیر پیسے کے ہوجائیں، یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کے بینکوں میں غالباً 1.5 ملین روپیہ ان مسلمانوں کے سود کا جمع ہے جنھوں نے اسے انٹرسٹ سمجھ کر نکالا نہیں، ان بے چاروں کو کون سمجھائے کہ یہ پیسہ تمہارے خلاف استعمال ہو اس سے بہتر ہے کہ اسے نکال کر فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں کو بغیر کسی ثواب کی نیت کے دے دیا جائے، یا فقہاء کی صراحتیں معلوم کر کے اور دیگر امور میں خرچ کر دیا جائے، مسئلہ کشمیر پر بھی حکومت بری طرح پھنسی ہوئی ہے، کشمیر اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے گذر رہا ہے، خدا معلوم کہ آئندہ وہاں کیا ہونے والا ہے، اسی درمیان رام مندر کی تعمیر بھی ہونی ہے اور اس پر فیصلہ آنا ہے، رام مندر کی تعمیر ایک بڑے سیاسی سہارے کو ختم کردے گی، اس سے پہلے کسی دوسرےایسے سیاسی سہارے کی ضرورت تھی جو سوتے جاگتے بھوت کی طرح سر پر سوار رہے، یہ سب وہ مقاصد ہیں جو این آر سی کے ذریعہ پورے کیے جا رہے ہیں یا پورے کیے جائیں گے، بی جے پی رام مندر کی تعمیر کا وعدہ اسی مدت کار میں پورا کرے گی، اور ایفائے عہد کا انعام پائے گی، پھر این آر سی کے سہارے بھی اصل مسائل سے بھٹکا کر آئندہ گرما گرم سیاسی ماحول قائم رکھے گی۔
 این آر سی کتنی آسان ہے اور کتنی مشکل، اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ سمجھیے کہ آسام میں اس عمل کے پورا ہونے میں چار سال لگے اور ۱۶؍ سو کروڑ روپیہ خرچ ہوا اور آج بھی بات وہیں کی وہیں اٹکی ہے، جب مسلمانوں سے زیادہ ہندو غیر ہندوستانی قرار پائے تو اب CAB بل کا سہارا لیا جائے گا، جو لوگ فہرست میں نہ آسکے ان کے پاس پہلا موقع یہ ہے کہ وہ ٹربیونل کے سامنے اپنی شہریت ثابت کریں، پھر بات نہ بنے تو وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جاسکتے ہیں، اس پورے عمل (Process) میں تین چار سال تو مزید لگیں گے، البتہ ان پریشان حال لوگوں کے ساتھ ہر شخص تعمیری کاموں سے ہٹ کر NRC کے بارے میں سوچنے میں مصروف رہے گا، مجھے پورا یقین ہے کہ بی جے پی اس عمل کو کرے گی مگر بہت طول دے گی، ابھی نہیں کرے گی، البتہ یہ عمل وہ غیر علانیہ اور غیر قانونی طور پر انجام دے گی اور سیاسی فضا ہموار کرتی رہے گی، جیسے کہ یوپی حکومت نے پولیس کپتانوں کو حکم نامہ جاری کردیا ہے اور بعض اضلاع کی جھونپڑ پٹی بستیوں میں دہشت پھیلانے کا کام شروع بھی ہوگیا ہے، شہریت کے بنیادی دستور میں یعنی بنیادی ڈھانچہ کو بی جے پی تمام تر اکثریت کے باوجود نہیں تبدیل کرسکتی، یہ تبھی ممکن ہے جب وہ آئین ہند کو ہی کالعدم قرار دے دے اور منوسمرتی کا قانون نافذ کردے جس کے متعلق اس کے لوگ اظہار خیال کرتے رہتے ہیں، ساتھ ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کام پورے ملک میں کرنا اس قدر آسان بھی نہیں ہے، مگر جب کسی چیز کو سیاسی مسئلہ Political Issue بنا لیا جائے تو پریشان کرنے کے لیے وہ بہت آسان بھی ہو جاتا ہے خواہ نتیجہ صفر ہی نکلے، افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی اس کو Issue بنانے میں کامیاب ہوگئی، کیونکہ اس کو روز اول سے مسلمانوں نے اپنا مسئلہ بنا لیا تا آنکہ وزیر داخلہ نے واضح کردیا کہ یہ واقعی  مسلمانوں کا ہی مسئلہ ہے، اور اب بی
جےپی کی پوری سیاست NRC کے شور پر چل رہی ہے ۔
 میں روز اول سے لکھتا رہا ہوں کہ محض دفاعی پالیسیاں قوموں کو زندہ رکھنے کی ضمانت نہیں دیتیں، جمہوریت میں جب ہر بات پر سر تسلیم خم کی پالیسی اپنا لی جائے تو جمہوریت ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس NRC  یا  FRDI وغیرہ جیسے قانون کو نیشنلزم وہ بھی جھوٹے اور فریبی نیشنلزم کی علامت Symbol of Nationalism نہیں بننے دینا چاہیے، اس پر الجھن کا شکار ہونے، ڈرنے اور جھکنے و دفاع کرنے کے بجائے بائیکاٹ و احتجاج کی پالیسی اپنانی چاہیے، وزیر داخلہ کے بیان پر میزورم اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں میں سخت احتجاج ہوا جہاں مسلمان نہ کے برابر ہیں، ضرورت تھی کہ ان سے رابطہ کیا جاتا اور ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر احتجاج کی تیاری کی جاتی، ایسا نہیں کہ اس ملک میں انصاف بالکل مر چکا اور انصاف پسند بالکل ناپید ہوچکے، ابھی ۴۹؍ دانشوروں نے وزیر اعظم کے نام کھلا خط لکھا تو ان کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہوگیا، لیکن بات یہیں تھمی نہیں پھر ان کی حمایت میں سینکڑوں دانشور و فنکار و اداکار آگئے، جبکہ ہمارے درمیان بہت سے لوگوں کو اس کی خبر تک نہ ہوگی، یہی دراصل اس وقت کرنے کا کام ہے، اس وقت ڈرنے، جھکنے اور دبنے کے بجائے قانونی اور دستوری لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے، جس طرح سے لوگ سجدہ ریز ہو رہے ہیں اور *فریبی دیش بھکتی* کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، خدا معلوم کیوں ملا رہے ہیں، وجہ جو بھی ہو مگر یہ انتہائی خطرناک عمل ہے، اس کی تقلید کے بجائے کھڑے ہونے اور مورچہ سنبھالنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک بار اگر حوصلے پست ہوگئے، قوم میں خوف سرایت کرگیا اور ہمتیں ٹوٹ گئیں تو یقین جائیے آئندہ کئی نسلیں غلام بن کر رہیں گی، *بلکہ خوف کی وجہ سے (خدا نہ کرے) ارتداد کی وہ لہر چلے گی جس کے متعلق سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے،* اس لیے ضرورت ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں سے رابطے کیے جائیں، ان کے ساتھ مستقبل کا طاقتور پروگرام بنایا جائے اور جب تک دستور ہند زندہ و سلامت ہے تب تک اس کی بقا کے لیے جبر و استبداد کا مقابلہ کیا جائے۔
 خوب یاد رکھیے کہ *دعا و اذکار اور وظائف کی اپنی تاثیر مسلّم ہے، مگر قانون الٰہی میں دعائوں کی قبولیت کا انحصار عمل اور جدوجہد پر ہے، قرآن مجید اور سیرت نبوی یہی سبق سکھاتی ہے، نصرت الٰہی کی بشارتیں ہیں مگر کن لوگوں کے لیے؟ جو اہل ایمان ہیں اور عمل صالح کے خوگر ہیں* والعصر إن الانسان لفی خسر إلا الذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحات، تائید غیبی ان کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے کانپتے ہوں، جو خدا کی وعیدوں سے ڈر کر عمل صالح پر آمادہ ہوتے ہوں اور منکرات سے بچتے ہوں ان کے لیے خدا کی نصرت تیار ہے، *مگر ہماری اور ہمارے عوام و خواص کی بے پروا زندگی دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ہمیں بھی خدا کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس ہے، ہم بھی حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں، اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہم گھٹیا خواہشات اور گندی سیاست، حسد، کینہ، غیبت، سازشیں رچنا، تنقیص و تذلیل، کذب بیانی، کذب کو نقل کرنا، دروغ گوئی، ایک دوسرے کو زک پہنچانے اور نیچا دکھانے کو گناہ سمجھتے ہی نہیں، کبھی آپس کے تنازعات کو حل کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوششیں کرتے ہی نہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ ہماری داخلی اور ملی صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ملک کی صورت حال اس قدر دگرگوں ہے، کفر ہماری تذلیل کے لیے واقعی تیار کھڑا ہے، ظلم کی تلوار حقیقت میں لٹک رہی ہے، مگر ہمارے بے جا مباحثے، بے وقت کی شہنشائیاں اور آپسی اختلافات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ملک میں ہمارا مستقبل بالکل محفوظ ہے اور گویا ہمیں خارجی کوئی خطرہ لاحق ہی نہیں ہے، یہ وہ صورت حال جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں سے خدا کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کے سامنے جوابدہی کے احساس سے ہم بالکل عاری ہوچکے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ اگر غیروں کو ہمارے انتشار کا صحیح طور پر علم ہوجائے اور پورے طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ ایک ایک فرد ہم میں کا دوسرے کے خون کا کس قدر پیاسا ہے اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر سے کس قدر خوش ہوتا ہے تو انھیں ہماری تباہی کے لیے زیادہ سامان ہی نہ کرنا پڑے، یہ بھی سچ ہے کہ ان کو ہماری داخلی حالت کا خوب علم ہے تبھی تو وہ دھمکیوں سے کام چلا رہے ہیں اور *’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے دھمکیوں سے گھبراتے، ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آ رہے ہیں، *حضرت مولانا علی میاںؒ نے فرمایا تھا کہ کسی ملک میں مسلمانوں کی حفاظت کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ دین کے لیے جدوجہد کریں اور دین کو اتنا طاقتور بنائیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت اپنی طرف سے فرمائے، پھر ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، یہ وہی بات ہے جس کو قرآن نے کہا ہے إن تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم مگر واقعہ یہ ہے کہ آج ہم خود ہی دین کی بنیادیں کھودنے پر لگے ہیں، اس کی دیواریں اٹھانے کے بجائے ڈھانے پر آمادہ ہیں، دین کے پردے میں بے دینی ہے، خود غرضی ہے، تن آسانی و فتنہ سامانی ہے، دین کے نام پر انتشار ہے تو پھر نصرتِ الٰہی کے بجائے عذاب الٰہی کیوں نہ مقدر بنے۔*
            *ملت کو اس وقت اس ملک میں جو صورت حال در پیش ہے وہ تقریباً وہی ہے جو تمام نبیوں اور رسولوں کی تحریکی و دعوتی زندگی میں پیش آئی ہے، وقال الذین کفروا لرسلہم لنخرنکم من ارضنا أو لتعودن فی ملتنا ’’اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا پھر تم کو ہماری ملت میں واپس آنا پڑے گا‘‘،* آج اس ملک میں امت محمدیہ کے افراد سے یہی بات کہی جا رہی ہے کہ یا تو ملک سے نکلنا پڑے گا اور یا پھر گھر واپسی کرنی پڑے گی، اس ملک میں وہی رہے گا جو ہندوستانی ہوگا اور ان کے بقول ہر ہندوستانی ہندو ہے، جو لوگ بھی جھک رہے ہیں اور نرم موقف اختیار کر رہے ہیں انھیں سمجھنا ہوگا کہ صرف نرم موقف اور کچھ دیش بھکتی سے بات نہیں بنے گی، وہ تو گھر واپسی سے کم پر راضی ہی نہیں ہیں، جیسے یہود و نصاریٰ کی بابت فرمایا گیا کہ ولن ترضی عنک الیہود ولاالنصاریٰ حتی تتبع ملتہم، انھیں ضد ہے کہ آپ اپنے ملی تشخص کو چھوڑ کر ان کی ملت میں داخل ہوجائیں، یہی دراصل حقیقی معرکہ ہے، حق و باطل کی کشمکش کا یہی اصل مزاج ہے، جاہلیت کو قطعاً یہ برداشت نہیں کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی شناخت ہو، اپنی قیادت ہو، اپنی ریاست ہو، اپنا تشخص ہو اور ان کا اپنا مستقل وجود ہو، کفار نے رسولوں سے صرف اپنی دعوت کو موقوف کردینے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ مطالبہ یہ کیا کہ وہ ہماری ملت میں ضم ہوجائیں ورنہ ہم انھیں جلا وطن کردیں گے، ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ دین حق کے مزاج کے منافی تھا، اسلام کسی ایسے مطالبہ کو کیوں کر قبول کرسکتا ہے، اگر اسے وطن چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دے گا، قربانی دینی پڑے تو دے گا، یہ اس مرحلہ کی آیات ہیں جبکہ دعوت اسلامی کے علمبرداروں کے اردگرد قریش مکہ نے اپنے مظالم سے اس قدر گھیرا تنگ کردیا تھا کہ ان کے سامنے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، مگر ظاہر ہے کہ نہ اس وقت یہ مطالبہ قبول کیا گیا اور نہ اب کیا جاسکتا ہے، ہماری طاقت کا اصل راز اس مطالبہ کو مسترد کرنے اور پوری قوت سے مسترد کرنے میں ہے، ہماری قوت کا راز مسلمان بن کر اپنے تشخص کے ساتھ جینے میں ہے، ہماری بقاولا یخشون احدا إلا اللّٰہ کا فارمولہ اپنا کر کسی سے نہ ڈرنے اور کسی سے نہ دبنے میں ہے، جب ہم یہ کریں گے تو اسی آیت کے اگلے جملے میں موجود بشارت کے مستحق قرار پائیں گے، ضرورت ہے کہ اس بشارت اور اس کے مستحق قرار پانے کی شرط کی یاددہانی عوام و خواص سب کو کرائی جائے، ارشاد فرمایا گیا *فأوحیٰ إلیہم ربہم لنہلکن الظلمین ’’تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے‘‘ ولنسکننکم الارض من بعدہم ’’اور ان کے بعد تم کو زمین میں بسائیں گے‘‘،* گویا جب بات جلاوطنی تک پہنچی تو اللہ نے اپنے رسولوں کو یہ بشارت دے دی اور رسولوں کے ذریعہ ان کے متبعین و پیروکاروں کو بشارت دے دی کہ ہم ان ظالموں کو نیست و نابود کردیں گے، ان کے وجود سے زمین پاک کردیں گے اور تم کو اس زمین میں بسائیں گے، قیادت و سیادت تم کو سونپی جائے گی، تم اس زمین کے انتظام کو سنبھالو گے، لیکن یہ عظیم بشارت مشروط کردی گئی خوفِ الٰہی اور احساس جوابدہی کے ساتھ، چونکہ رسول کے ذریعہ ان کے پیروکاروں کو بھی بشارت دینا مقصود تھا اس لیے اس آیت کے آخری فقرہ میں انھیں استقامت اور خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس کی تنبیہ کی گئی، یوں فرمایا گیا کہ یہ عظیم الشان خوش خبری ان لوگوں کے لیے ہے جو میرے حضور پیشی اور میری وعید سے اس طرح خائف رہے کہ اس کے بالمقابل انھوں نے کسی دھمکی کی پروا نہ کی، کسی سے خائف نہ ہوئے، کوئی مطالبہ قبول نہ کیا، اپنی شان، شناخت اور اپنے تشخصات کے ساتھ دین حق پر جمے رہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی سے ڈرے اور اللہ کی وعیدوں سے خائف رہے، *ذلک لمن خاف مقامی و خاف وعید (ابراہیم ۱۳-۱۴)* یہ بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جن پر حالات آئیں تو وہ ان کا مقابلہ کریں، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں مگر وہ صبر کے ساتھ اپنے مشن پر جمے رہیں، آلام و مصائب جھیلتے رہیں مگر اپنے مشن کے ساتھ ڈٹے رہیں، کسی قیمت پر مخالفین کے خوف سے اپنا موقف نہ تبدیل کریں، دشمنوں کے ڈر سے خوف خدا سے غافل نہ ہوں، بلکہ ہمہ وقت اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے اپنے کام میں مصروف رہیں۔
             *ضرورت اس کی ہے کہ اپنے داخلی انتشار پر قابو پایا جائے، دوریوں کو قربت میں تبدیل کیا جائے، قریب آنے اور قریب لانے کے بہانے ڈھونڈیں جائیں، آپسی خلفشار کو نظر انداز کیا جائے، بے سود و بے مقصد فقہی موشگافیوں اور کلامی بحثوں سے صرف نظر کیا جائے، بغض و حسد، حرص و ہوس، غیبت و سازشی رویوں سے اپنی تطہیر کی جائے اور پھر ملت کے سامنے نمونۂ عمل پیش کیا جائے، اسے خوف کے بجائے حوصلہ دیا جائے، اسے کسی کے ہاتھوں مار دیے جانے کے خوف کے بجائے خوفِ الٰہی سے آشنا کیا جائے، اسے احساسِ کمتری کے بجائے خیر امت کا سبق پڑھایا جائے، اسے غلامی کا پاٹ پڑھانے کے بجائے دنیا کی امامت کا درس دیا جائے، بے جا مصلحت کے اور بزدلی کے بجائے مکہ مکرمہ کی اقدامی دعوت کا سبق عام کیا جائے، ضرورت ہے کہ حالات کا تجزیہ قرآنی تناظر میں کیا جائے، اصلاحی تحریک کا ڈھانچہ قرآنی ستونوں پر استوار کیا جائے، حالات کا مقابلہ قرآنی ہدایات و بشارتوں کی روشنی میں کیا جائے، ضرورت ہے کہ اپنی روش تبدیل کی جائے، باہمی مشاورت کو فروغ دیا جائے، دوسروں کو اخلاص کی تلقین کے بجائے خود احتسابی کی عادت ڈالی جائے اور خود اپنے قول و عمل کو اخلاص کے معیار پر پرکھا جائے، ضرورت ہے کہ ملت کے داخلی انتشار پر قابو پاکر ملک کے غیر مسلم دانشوروں سے رابطہ کیا جائے، انصاف پسند عوام کو ساتھ لیا جائے اور انھیں ملک کو درپیش مشترکہ خطرات سے آگاہ کیا جائے، ان کو ساتھ لے کر حالات کے مقابلہ کی تیاری کی جائے، *لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اندر سے انانیت نکلے، باہمی تعاون، دوسروں کو اور ان کے کام کو قبول کرنے کی عادت ہو، ہم دوسروں کو قریب کرنے اور قرب سے خوش ہونے کے عادی بن جائیں اور ہمیں اخلاص کے کچھ ذرات نصیب ہوجائیں،* اگر واقعی خلوص کے ساتھ کوششیں کی جائیں تو باہمی تعاون کے فقدان کا شکوہ دور ہوسکتا ہے، اتحاد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں، خود غرضی و مفاد پرستی بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے اور زوال کی کہانی مکمل ہونے سے پہلے نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے، اس لیے کہ وعدہ الٰہی ہے کہ اللہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرتا إن اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔

توحید کا پیغام پوری انسانیت کے نام !

ذیشان الہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
______________________
 ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ توحید وہ قیمتی شئی ہے جس کو جان کر اور سمجھ کر ایک انسان اپنے مالک حقیقی کو جان اور سمجھ سکتا ہے وہ دنیا میں اپنا رشتہ اپنے رب سے مضبوط کرکے ان کی عبادت کرتا ہے اور ان کے نیک اور صالح بندوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرا لیتا ہے ۔اس امید میں کہ اللہ تعالی آخرت میں ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے اور انہیں جنت میں جگہ عنایت کرے ۔کیونکہ یہی وہ بہترین دولت ہے جس کی وجہ کر اللہ تعالی نے جن و انس کی تخلیق کی اور انبیائے کرام کی بعثت کا واحد مقصد اسی توحید کو قرار دیا گیا تاکہ لوگ اپنی حقیقت کو سمجھے اپنے مالک، خالق اور رازق کو پہچانے اور ان کی عبادت اور بندگی سے اپنی زندگی کو مالا مال کرلے ۔حتی کہ اسی توحید کی دعوت کو قبول نہ کرنے کی وجہ کر کبھی نوح علیہ السلام کی قوم کو پانی میں غرق کردیا گیا، تو کبھی ابراہیم علیہ السلام کو اسی دعوت کی وجہ کر آگ کا سامنا کرنا پڑا ۔ کبھی موسی علیہ السلام کو فرعون کی ظلم و بربریت کو سہنا پڑا، تو کبھی آپ صلعم کو اس کی وجہ کر طائف میں پتھر کھانے پڑے ۔تاریخ گواہ ہے کہ بدر و احد جیسی لاکھوں جنگیں موحدین اور مشرکین کے درمیان اسی توحید کو لے کر ہوئیں جس میں بے شمار جانی و مالی خسارہ ہوا ۔
توحید کا معنی و مفہوم :
   توحید یہ باب تفعیل کا مصدر ہے جس کا معنی ہے ایک، اکیلا ،تنہا، منفرد ۔جس کو ہندی میں ایکم کہا جاتا ہے ۔
توحید کی اصطلاحی تعریف :
اصطلاح میں توحید دراصل اللہ رب العالمین کے لئے توحید کے تینوں اقسام کو خاص کرنا ہے اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ اور شراکت سے بچنا ہے ۔
توحید کے اقسام :
  توحید کے تین اقسام ہیں جس کو مندرجہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے
(1)توحید الوہیت : اس کی دلیل سورۃ فاتحہ کے اند موجود ہے "ایاک نعبد و ایاک نستعین "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں "توحید الوہیت کا صاف مطلب ہے کہ ہر طرح کی عبادت صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس میں کوئی شخص چاہے وہ کتنا بڑا متقی، پرہیزگار، نمازی، حاجی اور پیر و فقیر ہی کیوں نہ ہو اس کو شامل نہیں کیا جا سکتا ۔قرآن و حدیث کے دلائل اس بات پر دال ہے کہ صرف اللہ رب العالمین کی ہی عبادت کی جائے، اسی سے سوال کیا جائے، اسی سے اولاد، رزق، روزی، برکت، صحت، دولت اور اس جیسی دیگر چیزیں مانگی جائے اسی سے بارش  کے لئے دعا کی جائے غرض یہ کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز صرف اللہ سے مانگی جائے اسے سے ملنے کی امید رکھی جائے یہ اور اس طرح کی دیگر چیزیں توحید الوہیت کے حدود میں آتے ہیں ۔
(2)توحید ربوبیت :توحید کے اقسام میں سے دوسری قسم توحید ربوبیت ہے ۔اس کی دلیل بھی سورہ فاتحہ کے اندر موجود ہے "الحمد للہ رب العالمين "دونوں جہاں کا پالنہار اللہ تعالی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر جتنی ساری مخلوقات ہیں اس کو وجود بخشنے  والا اس کو پیدا کرنے والا اور اس کو ایک متعینہ مدت تک غذا فراہم کرنے والا اللہ تعالی ہے اس لئے چاند، سورج، آسمان، زمین، جن و انس، شجر و حجر ان تمام چیزوں کا خالق ،مالک صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے اس میں کسی کا تصرف نہیں صرف اللہ تعالی ان چیزوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے اس لئے تمام انسانوں کو چاہئے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ ساری مخلوقات اللہ کی دیکھ ریکھ میں زندگی کی سفر طے کررہی ہیں ۔کوئی دوسرا نہ تو اس کا مالک ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کو چند منٹ کے لئے زندہ رکھ سکتا ہے جب اس چیز کا وقت مقررہ آجائے ۔
(3)توحید اسماء و صفات : توحید کی تیسری قسم توحید اسماء وصفات ہے اس کی دلیل بھی سورہ فاتحہ کے اندر موجود ہے "الرحمن الرحیم "کہ رحمن و رحیم یہ اللہ کے صفات ہیں اور یہ انہیں کے ساتھ خاص ہیں ۔اللہ تعالی کے جو اسماء و صفات کتاب و سنت میں بیان کئے گئے ہیں اس کو اللہ کی ذات کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھا جائے کسی دوسرے انسان کے ساتھ اس کو چسپاں نہ کیا جائے الا یہ کہ اس کے ساتھ عبد کا اضافہ کردیا جائے جیسے رحمن یہ اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے تو اگر انسان کو اس سے پکارنا ہو تو رحمن سے پہلے عبد لگادیا جائے اور عبد الرحمن اور عبدالرحیم کہا جائے بغیر اضافت کے صرف رحمن اور رحیم کہنا یہ جائز نہیں کیونکہ یہ اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے اور یہ صفت اللہ کے لئے خاص ہے ۔

     توحید کی اہمیت و افادیت اور اس کی حقیقت کے متعلق قرآن و سنت میں دلائل بھرے پڑے ہیں اگر یہ کہا جائے تو کچھ بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ مذہب اسلام کی بنیاد اور جڑ یہی توحید ہے اسی لئے تو اسلام کے ارکان خمسہ میں پہلا رکن توحید کو ہی قرار دیا گیا ہے ۔اسلام کی تعلیمات میں شرک کی کہیں بھی جگہ نہیں بلکہ ایسے شخص کے لئے اسلام جہنم کی آگ کا اعلان کرتا ہے اس لئے قرآن مجید میں ہر آیت اور ہر سورہ میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں توحید کی تشریح ہمیں ملتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر انسانوں نے توحید کے حق کو ادا کردیا تو پھر وہ شخص صلاح و فلاح سے ہمکنار ہوجائے گا ذیل میں چند دلائل درج کئے جارہے ہیں جس کی وجہ کر توحید کا جو پیغام انسانیت کے نام ہے اس کو ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں
(1)سورہ الشوری آیت نمبر 11 میں قرآن نے توحید کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ "لیس کمثلہ شیئ و ھو السمیع البصیر "کہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔اس آیت کریمہ کے مد نظر تمام انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز کو اللہ کے مماثل نہ قرار دے کیونکہ اس دنیا کی کوئی چیز اللہ کے مثل ہوہی نہیں سکتی اور وہ اللہ ہر انسان کی باتوں کو سننے اور ان کے کرتوت کو دیکھنے والا ہے چاہے وہ شخص کسی کام کو دن کے اجالے یا رات کے اندھیرے میں انجام دیا ہو اسے بھی اللہ دیکھ لیتا ہے کوئی کام اللہ کی بصارت سے اوجھل نہیں ۔
(2)سورہ "الطور "آیت نمبر 35 میں قرآن نے لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کیا کہ "ام خلقوا من غیر شیئ ام ھم الخالقون "کہ کیا یہ بغیر کسی(پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے انسانوں سے سوال کیا کہ جو چیزیں تمہارے سامنے دیکھ رہی ہیں کیا یہ خود بخود پیدا ہوگئیں یا اس کا کوئی خالق ہے ۔یقینا ایک حساس ذہن و دماغ رکھنے والا شخص یہ جواب دے گا کہ ان چیزوں کا خالق کوئی نہ کوئی ضرور ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
(3)سورۃ اخلاص آیت نمبر 3 اور 4 میں قرآن نے اللہ تعالی کی حقیقت کو بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ "لم یلد و لم یولد ۔و لم یکن لہ کفوا احد "کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے ۔اس آیت کریمہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نہ تو بیٹا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی والد ہے اور اللہ کے برابر کوئی نہیں اس لئے جو شخص یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے یہ باطل عقیدہ ہے جس کی بنیاد اور حقیقت کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ۔اس لئے اللہ کو ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرہ سمجھا جائے ۔
(4)سورۃ الفرقان آیت نمبر 61 میں قرآن نے اللہ کے بہترین کارنامے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " تبارک الذی جعل فی السماء بروجا و جعل فیھا سراجا و قمرا "بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج (بڑے بڑے ستارے )بنائے اور اس میں آفتاب اور منور ماہتاب بنایا ۔اس آیت کریمہ میں قرآن نے اللہ کی ذات کو ستارے کا خالق سورج کو روشنی دینے والا قرار دیا جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ان چیزوں پر تصرف صرف اللہ کا ہے کوئی دوسرا اس میں تصرف کا ذرہ برابر حق نہیں رکھتا ۔
(5)سورۃ الانبیاء آیت نمبر 22 میں قرآن کی یہ آیت موجود ہے کہ "لوکان فیھما آلھۃ الا اللہ لفسدتا "اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتا تو آسمان و زمین تباہ و برباد ہوچکے ہوتے "کیونکہ ہر ایک معبود اپنی بات کو بہتر سمجھتا کوئی کہتا کہ آج بارش ہوگی تو دوسرا کہتا کہ نہیں آج دھوپ رہے گی غرض یہ کہ ان میں ہر ایک اپنی من مانی اور اپنی حکومت اور بات چلانے کو لے کر جنگ پر آمادہ ہوجاتے جس کے نتیجہ میں آسمان و زمین تباہ و برباد ہوجاتے ۔
(6)سورۃ الشوری آیت نمبر 13 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا و الذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدین و لا تتفرقوا فیہ "اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تمہاری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔اس آیت کریمہ کی روشنی میں تمام انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انبیائے کرام کے راستے اور ان کے بتائے ہوئے توحید کی راہ پر گامزن ہو تاکہ ان کا شمار اللہ کے نیک بندوں میں ہوسکے ۔
(7)سورۃ حج آیت نمبر 62 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ "ذلک بان اللہ ھو الحق و ان ما یدعون من دونہ ھو الباطل و ان اللہ ھو العلی الکبیر "یہ اس لئے کہ حق اللہ ہی کہ ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں اور بے شک اللہ ہی بلند مرتبہ بڑائی والا ہے ۔اس آیت میں اللہ کی ہستی کو برحق قرار دیا گیا ہے اس لئے اسی کی عبادت و بندگی کی جائے گی جب کہ اس کے علاوہ جتنے سارے معبودان باطلہ ہیں اس کی عبادت درست نہیں کیونکہ وہ انسان کو کچھ بھی نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
(8)سورۃ نساء آیت نمبر 36 کی دلیل "واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا "اور سورۃ نحل آیت نمبر 36 کی دلیل "و لقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت "اس بات پر دال ہے کہ اللہ کی عبادت میں کسی غیر اللہ کو شریک کرنا بہت بڑا گناہ ہے جب کہ اسی کو واضح کرنے کے لئے ہر امت میں اللہ نے رسول کو بھیجا تاکہ لوگ ان کی بات کو سن اور سمجھ کر حقیقی معبود کے سامنے اپنے سر کو جھکائے اور غیر اللہ کی عبادت سے اپنے آپ کو بچائے ۔
   توحید کے دلائل قرآن و سنت اور اقوال علمائے امت میں بھرےپڑے ہیں جس کا صاف صاف پیغام پوری انسانیت سے یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت و بندگی کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرے، اس کے صفات اور اسماء سے کسی دوسروں کو تشبیہ نہ دے کیونکہ اللہ کے لئے جو چیز ہے اگر اس کا حق کسی دوسرے کو دے دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھا جائے کہ فلاں شخص ،فلاں صاحب ،فلاں پیر ،فلاں فقیر اللہ کے ولی ہیں اور بہت پہنچے ہوئے ہیں وہ یہ یہ کام کرسکتے ہیں جو کام اللہ نے اپنے لئے خاص کئے ہوا ہے تو ایسا عقیدہ یہ شرک ہے اور شرک کرنے والا بغیر توبہ کئے دنیا سے رخصت ہوگیا تو وہ سیدھا ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں جائے گا ۔اللہ ہم سب کو شرک سے بچائے اور توحید کو سمجھنے کی توفیق دے آمین ۔

مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام روشن گڑھ میں بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ جمعیت یوتھ کلب کا پانچ روزہ پرتھم سوپان کا کیمپ اختتام پزیر!

رپورٹ: محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روشن گڑھ/باغپت(آئی این اے نیوز 30/اکتوبر 2019) ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام میں جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ جمعیۃ یوتھ کلب کاپانچ روزہ کیمپ آج اپنی اختتامی منزل کو پہونچا،
اس موقع پر ایک تعارفی مظاہرہ پروگرام منعقد ہوا، جس کی صدارت حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب صدر جمعیت علماء ضلع باغپت نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض مولانا محمد رفاقت بدری صاحب ٹرینر ماسٹر اسکاؤٹ اینڈ گائڈ نے انجام دیئے، پروگرام کا آغاز مدرسہ ھذا کے طالب علم محمد عبد الباسط کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا، جب کہ نعت نبی کا ھدیہ محمد عمر نے پیش کیا، سب سے پہلے اسکاؤٹ اور روورس نے اپنا اپنا پروگرام پیش کیا جس کو حاضرین نے دیکھ کر خوب داد و تحسین سے نوازا، اور تمام شرکاء نے مختلف قسم کے کرتب دکھائے، بعدہ علماء کرام کے بیانات ہوئے.
ڈاکٹر محمد طاہر قمر قریشی صاحب نے جمعیۃ یوتھ کلب پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اصل اسکاؤٹ کا مقصد مخلوق خدا کی خدمت کرنا ہے تاکہ اسلام کو پھلنے پھولنے کا اور غیروں کو اسلام سے قریب ہونے کا ذریعہ بن سکے، آج قوم مسلماں سے ایثار و ہمدردی کا جذبہ جاتا رہا تو غیروں نے اسلام سے اپنے کو بچانا شروع کردیا، اس لیے اپنے اندر اسکاؤٹ کے زریعہ دوسروں کے ہمدردی کرنے کا مادہ اجاگر کرو اور ہفتہ میں کوئی ایک دن متعین کر کے ایک طرف سے صفائی کرنی ہے، پورے گاؤں کی جو خوشی خوشی کرائے کرنا ہے، چھیڑنا بھی نہیں اور چھوڑنا بھی نہیں.
قاری محمد صابرصاحب نے کہا کہ یہ جمعیۃ یوتھ کلب کا قیام بہت اچھا قدم ہے کیونکہ آدمی جب تندرست رہے گا تو وہ اسی عبادت کرسکتا ہے اور اسی دنیاوی کاموں کو انجام دے سکتا ہے اس لیے سبھی اس سے جڑیں اور اپنے آپ کو ہر تندرست بنانے کی فکر کریں.
حضرت مولانا مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب نے کہا کہ ہم سب جمعیۃ علماء ھند کی تاریخ کو پڑھے اور علماء ائمہ حضرات ممبر و محراب کے ذریعہ بحسن و خوبی جمعیۃ علماء ھند کے کارنامہ اور تاریخ کو عوام کے سامنے پیش کرے کیونکہ عوام جمعیۃ کی تاریخ سے ناآشنا ہیں.
بعدہ صاحبہ بنت محمد اسلام متعلمہ مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام نے جمعیۃ کا ترانہ پیش کیا.
اس موقع پر مولانا محمد عمران قاسمی صاحب ٹرینر جمعیۃ یوتھ کلب، قاری محمد صابر صاحب صدر جمعیۃ علماء ھند تحصیل بڑوت، راغب چودھری صاحب صحافی، حافظ عبد القیوم، حافظ محمد محمود، عبد الرحمان کلو چوکیدار وغیرہ وغیرہ، و اہل بستی موجود رہے، آخر میں مدرسہ ھذا کے ناظم مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب نے تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا

مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ان کے افکار کی عصر حاضر میں معنویت!

از: محمد ابو حسنین
_____________
     مولانا رحمت اللہ کیرانوی انیسوی صدی کے ان مایۂ ناز ہستیوں میں سے تھے، جنہوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ تقریر و تحریرکے ذریعہ اسلام کا دفاع کیا تھا۔ مولانا کی پیدائش ١٨١٨ء میں ضلع مظفر نگر میں ہوئی، بارہ سال کی عمر تک قرآن کے ساتھ فارسی اور دینیات پڑھ لئے، مزید اعلی تعلیم کے لئے دہلی اور لکھنؤ تشریف لے گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ١٢٧٠ھ میں کیرانہ پہنچ کر درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تردید عیسائیت کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
      مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں، مسلمانوں کے لئے وہ بڑی آزمائش کا دور تھا، نہ صرف بر صغیر بلکہ پورا عالمِ اسلام نو آبادیات کے پنجوں میں  میں  میں  میں جکڑا ہوا تھا ہوا تھا ہوا تھا ہوا تھا، انگریزوں نے مسلمانوں کو  کو  کو  کو عیسائی    بنانے کے لئے  کے لئے  کے لئے  کے لئے مشن اسکول، مشن    اسپتال    اور    مشن فنڈ قائم    کئے۔ برطانیہ سے پادریوں کی  کی  کی  کی پوری    کھیپ ہندوستان    آئی    اور    اپنے    مشن    کا آغاز کر دیا۔
     جرمن نژاد سی. جی. فنڈر نے جو پادریوں کا سربراہ تھا، ہندوستان آکر مشنریز کی سرگرمیاں تیز کی۔ فنڈر نے اپنی کتاب میزان الحق کا اردو ترجمہ شائع کرایا، جو نہ صرف جارحانہ تھی بلکہ اسلامی مقدسات کی تنقیص و توہین سے پر تھی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر شدید تشویش و بےچینی تھی۔ ایسے وقت میں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو جرأت و شہامت سے بھی متصف ہوا اور علم و لیاقت سے بھی، جو نہ صرف علوم اسلامیہ پر پوری قدرت رکھتا ہو بلکہ عیسائی مذہبی علوم سے بھی کما حقہ واقف ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈر کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ فنڈر شروع میں پہلو تہی کرتا رہا، بالآخر محلہ عبد المسیح، اکبر آباد، آگرہ میں ١٠/اپریل ١٨٥٤ء کو علی الصبح پانچ بنیادی موضوعات تحریف بائبل، وقوع نسخ، تثلیث، رسالت محمد ﷺ اور حقانیت قرآن پر اس شرط کے ساتھ مناظرے طئے ہوئے کہ اگر مولانا کیرانوی غالب آئے تو فنڈر مسلمان ہو جائے گا اور اگر فنڈر غالب آئے تو مولانا عیسائی ہو جائیں گے۔
دو دن تک انجیل کی نسخ و تحریف پر مناظرہ ہوا، مولانا نے بہت ہی فاضلانہ بحث کی اور عیسائیوں کی کتابوں سے نسخ و تحریف ثابت کی، چنانچہ پادری فنڈر نے سات آٹھ مقامات پر تحریف کا اقرار کیا، لیکن پادری تیسرے دن مناظرے کے لئے نہیں آیا۔
       ١٨٥٧ء میں مولانا کو انگریزوں سے جنگ کرنے کی وجہ سے مفرور باغی قرار دے کر گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا گیا، چنانچہ حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے حجاز ہجرت کرنا پڑا۔ مسجد حرام میں کئی سالوں تک مولانا کو درس دینے کا شرف حاصل رہا، وہاں مولانا نے مدرسہ صولتیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا، جو آج بھی اپنی منزل کو رواں دواں ہے۔
    مناظرے کے بعد چرچ مشنری سوسائٹی نے پادری فنڈر کو واپس بلا لیا اور قسطنطنیہ بھیج دیا تاکہ وہاں کام کرے، وہاں اس نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں میرا ایک مسلمان عالم سے مناظرہ ہوا تھا، جسمیں عیسائیت کی جیت اور اسلام کو شکست ہوئی تھی۔ عثمانیہ حکومت کے سلطان عبد العزیز خاں کو اس کی فکر ہوئی، چنانچہ انہوں نے مولانا کو طلب کیا،١٨٦٤ء میں مولانا شاہی مہمان کی حیثیت سے قسطنطنیہ پہنچے، لیکن مولانا کی آمد کی خبر پاتے ہی پادری فنڈر وہاں سے بھاگ نکلا۔
مولانا کی بیشتر تصانیف رد عیسائیت کے موضوع پر ہیں مثلاً ازالۃ الاوہام، ازالۃ الشکوک، اظہار الحق وغیرہ جو اس موضوع پر بنیادی مأخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اظہار الحق جس کو مولانا نے قسطنطنیہ میں رہتے ہوئے ٦ ماہ کے اندر تصنیف کیا تھا، جب اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو کر لندن پہنچا، تو لندن ٹائمز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
"لوگ اگر اس کتاب کو پڑھتے رہیں گے تو دنیا میں مذہب عیسوی کی ترقی بند ہو جائے گی"
          مولانا نے جس جانفشانی اور قوت و ہمت کے ساتھ باطل مذہب کا مقابلہ کیا تھا، مسلمانوں کے  کے اندر سے شکوک وشبہات کو دور کیا  تھا، اسلام کی  کی تبلیغ  واشاعت کے لئے  کے لئے جس جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے  آپ کو لگا دیا تھا، ہمارے لئے یہ  یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے  اندر وہ قوت و ہمت، جرأت و بہادری پیدا کریں کہ باطل مذہبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں، اعلی  قسم کی صلاحیت و لیاقت سے ہم مالا مال ہوں کہ اسلام کی  کی صحیح ترجمانی کر سکیں، اپنے اندر وہ جوش و جذبہ اور حوصلہ پیدا کریں کہ اسلام  کی تبلیغ واشاعت کے لئے  کے لئے اپنے  آپ کو نچھاور کر دیں۔

مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ان کے افکار کی عصر حاضر میں معنویت!

از: محمد ابو حسنین
_____________
     مولانا رحمت اللہ کیرانوی انیسوی صدی کے ان مایۂ ناز ہستیوں میں سے تھے، جنہوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا۔ تقریر و تحریرکے ذریعہ اسلام کا دفاع کیا تھا۔ مولانا کی پیدائش ١٨١٨ء میں ضلع مظفر نگر میں ہوئی، بارہ سال کی عمر تک قرآن کے ساتھ فارسی اور دینیات پڑھ لئے، مزید اعلی تعلیم کے لئے دہلی اور لکھنؤ تشریف لے گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ١٢٧٠ھ میں کیرانہ پہنچ کر درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تردید عیسائیت کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
      مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں، مسلمانوں کے لئے وہ بڑی آزمائش کا دور تھا، نہ صرف بر صغیر بلکہ پورا عالمِ اسلام نو آبادیات کے پنجوں میں  میں  میں  میں جکڑا ہوا تھا ہوا تھا ہوا تھا ہوا تھا، انگریزوں نے مسلمانوں کو  کو  کو  کو عیسائی    بنانے کے لئے  کے لئے  کے لئے  کے لئے مشن اسکول، مشن    اسپتال    اور    مشن فنڈ قائم    کئے۔ برطانیہ سے پادریوں کی  کی  کی  کی پوری    کھیپ ہندوستان    آئی    اور    اپنے    مشن    کا آغاز کر دیا۔
     جرمن نژاد سی. جی. فنڈر نے جو پادریوں کا سربراہ تھا، ہندوستان آکر مشنریز کی سرگرمیاں تیز کی۔ فنڈر نے اپنی کتاب میزان الحق کا اردو ترجمہ شائع کرایا، جو نہ صرف جارحانہ تھی بلکہ اسلامی مقدسات کی تنقیص و توہین سے پر تھی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر شدید تشویش و بےچینی تھی۔ ایسے وقت میں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو جرأت و شہامت سے بھی متصف ہوا اور علم و لیاقت سے بھی، جو نہ صرف علوم اسلامیہ پر پوری قدرت رکھتا ہو بلکہ عیسائی مذہبی علوم سے بھی کما حقہ واقف ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈر کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ فنڈر شروع میں پہلو تہی کرتا رہا، بالآخر محلہ عبد المسیح، اکبر آباد، آگرہ میں ١٠/اپریل ١٨٥٤ء کو علی الصبح پانچ بنیادی موضوعات تحریف بائبل، وقوع نسخ، تثلیث، رسالت محمد ﷺ اور حقانیت قرآن پر اس شرط کے ساتھ مناظرے طئے ہوئے کہ اگر مولانا کیرانوی غالب آئے تو فنڈر مسلمان ہو جائے گا اور اگر فنڈر غالب آئے تو مولانا عیسائی ہو جائیں گے۔
دو دن تک انجیل کی نسخ و تحریف پر مناظرہ ہوا، مولانا نے بہت ہی فاضلانہ بحث کی اور عیسائیوں کی کتابوں سے نسخ و تحریف ثابت کی، چنانچہ پادری فنڈر نے سات آٹھ مقامات پر تحریف کا اقرار کیا، لیکن پادری تیسرے دن مناظرے کے لئے نہیں آیا۔
       ١٨٥٧ء میں مولانا کو انگریزوں سے جنگ کرنے کی وجہ سے مفرور باغی قرار دے کر گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا گیا، چنانچہ حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے حجاز ہجرت کرنا پڑا۔ مسجد حرام میں کئی سالوں تک مولانا کو درس دینے کا شرف حاصل رہا، وہاں مولانا نے مدرسہ صولتیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا، جو آج بھی اپنی منزل کو رواں دواں ہے۔
    مناظرے کے بعد چرچ مشنری سوسائٹی نے پادری فنڈر کو واپس بلا لیا اور قسطنطنیہ بھیج دیا تاکہ وہاں کام کرے، وہاں اس نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں میرا ایک مسلمان عالم سے مناظرہ ہوا تھا، جسمیں عیسائیت کی جیت اور اسلام کو شکست ہوئی تھی۔ عثمانیہ حکومت کے سلطان عبد العزیز خاں کو اس کی فکر ہوئی، چنانچہ انہوں نے مولانا کو طلب کیا،١٨٦٤ء میں مولانا شاہی مہمان کی حیثیت سے قسطنطنیہ پہنچے، لیکن مولانا کی آمد کی خبر پاتے ہی پادری فنڈر وہاں سے بھاگ نکلا۔
مولانا کی بیشتر تصانیف رد عیسائیت کے موضوع پر ہیں مثلاً ازالۃ الاوہام، ازالۃ الشکوک، اظہار الحق وغیرہ جو اس موضوع پر بنیادی مأخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اظہار الحق جس کو مولانا نے قسطنطنیہ میں رہتے ہوئے ٦ ماہ کے اندر تصنیف کیا تھا، جب اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو کر لندن پہنچا، تو لندن ٹائمز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
"لوگ اگر اس کتاب کو پڑھتے رہیں گے تو دنیا میں مذہب عیسوی کی ترقی بند ہو جائے گی"
          مولانا نے جس جانفشانی اور قوت و ہمت کے ساتھ باطل مذہب کا مقابلہ کیا تھا، مسلمانوں کے  کے اندر سے شکوک وشبہات کو دور کیا  تھا، اسلام کی  کی تبلیغ  واشاعت کے لئے  کے لئے جس جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے  آپ کو لگا دیا تھا، ہمارے لئے یہ  یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے  اندر وہ قوت و ہمت، جرأت و بہادری پیدا کریں کہ باطل مذہبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں، اعلی  قسم کی صلاحیت و لیاقت سے ہم مالا مال ہوں کہ اسلام کی  کی صحیح ترجمانی کر سکیں، اپنے اندر وہ جوش و جذبہ اور حوصلہ پیدا کریں کہ اسلام  کی تبلیغ واشاعت کے لئے  کے لئے اپنے  آپ کو نچھاور کر دیں۔

Tuesday 29 October 2019

آہ مرزا اشفاق احمد اصلاحی صاحب، قوم کے نوجوانوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتے تھے: کاشف شاہد سابق سابق جنرل سکریٹری شبلی کالج

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اکتوبر 2019) میری ابھی تک کی زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ میری زندگی تھم سی گئی اور ایسا لگا کہ آج کوئی اپنا جو مجھے بے پناہ محبت کرتا تھے جو میری ہر مصیبت میں میرا خیال رکھتے تھےاور اللہ رب العزت نے صبح سویرے ان کو اس دنیا سے اٹھا لیا ان للہ وانا الیہ راجعون  اتفاق سے کی میں اپنی ماں کے علاج کروانے کے لیے نئی دلی جا رہا تھا تب بھی صبح سویرے جب میری ٹرین علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے ہی والی تھی تبھی میں نے اپنا موبائل دیکھا جس پر ایک میسج آیا اور اس پر لکھا تھا کہ مرزا  اشفاق احمداصلاحی صاحب اب دنیا میں نہیں رہے
وہ قوم کے نوجوانوں کے بارے میں ہمیشہ سخت فکرمند رہتے تھے وہ ہمیشہ نوجوانوں کو اللہ اور دین اسلام کی طرف رجوع کروانے کے لیے اپنی پوری زندگی صرف کر دیا مدرسۃ الاصلاح میں اپنی پوری زندگی کو خدمت کے لیے لگا دیے تھے اللہ تعالی انکی قبر کو نور سے بھر دے آمین
مرحوم میرے ساتھ ساتھ میرے اہل خانہ کے بھی بہت قریبی تھے میری  اللہ سے  دعا کا اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین مرحوم نے اپنی پوری زندگی میں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کی اور دل کھول کر دین اسلام کی راہ میں خرچ کیا دور حاضر میں اپنی زندگی کو ایک نمونہ بنا کر پیش کیا

Monday 28 October 2019

جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی خدمات کا ایک نیا باب دنیا کے سامنے


جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کی خدمات کا ایک نیا باب دنیا کے سامنے 
رضوان سلمانی 
رضوان سلمانی / ہماری دنیا بیورو
سہارنپور:وطن عزیز ہندوستان سے انگریزوں کے ناپاک قدم اکھاڑنے اور ہندوستان کو آزادی کی دولت سے مالا مال کرنے میں ہندوستان کی مختلف تنظیموں ، جماعتوں اور دینی مدارس کی بڑی نمایاں خدمات رہی ہیں ،علماءحق کی اس سلسلہ میں جانفشانی اور ان کے ایثار و قربانی کی مستقل ایک تاریخ ہے ،لیکن تاریخ کا یہ باب اب تک نگاہوں سے اوجھل تھا کہ ایک سو ترپن سالہ قدیم علمی و دینی درسگاہ جامعہ مظاہرعلوم اور اس کے فیض یافتگان کی خدمات بھی اس باب میں تاریخ کا حصہ ہیں ،جامعہ مظاہرعلوم کے امین عام (سکریٹری) مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے آٹھ سال کی علمی جدو جہد اور عرق ریزی کے بعد مکمل چار جلدوں میں ایک تاریخ مرتب فرمائی ہے جس کا حسنِ آغاز اور تقریب افتتاح آج جامعہ کے وسیع ہال زکریا منزل میں جمعیة علماءہند کے صدر مولانا سید محمد ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔

صدر اجلاس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ماضی میں ہمارے اکابر صرف تعلیم و تعلم سے وابستہ نہیں رہے بلکہ ملت کے لئے اور اسلام کی بالا دستی کے لئے میدان عمل میںبھی آئے ،انھوں نے شیخ الہند کا ایک ملفوظ سنایا کہ ”جو لوگ حجروں میں بیٹھ کرصرف تعلیم و تعلم کو ہی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں وہ اسلام کے صاف شفاف چہرے پر داغ لگاتے ہیں،مولانا مدنی نے کہا کہ تحریک آزادی میں علماءکا کردار اب ضرورت ہے کہ باقاعدہ ہمارے مدارس میں داخل نصاب کیا جائے ۔
 اس اجلاس کی نظامت جامعہ کے استاذ مولانا مفتی محمد جاوید سہارنپوری نے کی ،جامعہ کے استاذ مولانا قاری سید محمد عمار الہاشمی کی تلاوت کلام پاک اور حافظ محمد عامر سہارنپور متعلم جامعہ کی نعت سے اس کا آغاز ہوا ،پورے ملک کی اہم ترین شخصیات اس تقریب میں موجود تھیں ،مہمانان کرام کے استقبال اور کتاب ”تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور“کے تعارف پر مشتمل ایک وقیع افتتاحی خطبہ مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے پیش کیا ،سہارنپور کے مشہور خوشنویس اسلام انجم کی اس اجلاس کی مناسبت سے لکھی ہوئی بہترین نظم مولوی محمد ممتاز سہارنپور نے پیش کی ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے دوران خطاب کہا کہ یہ دونوں ادارے دارالعلوم دیوبند اور مظاہرعلوم اپنے آغاز سے لے کر اپنے تمام ارتقائی ادوار میں علمی و فکری ہم آہنگی کے ساتھ تاریخ کا حصہ ہیں ، تحریک آزادی میں دارالعلوم دیوبند کے اکابر اگر پیش پیش تھے تو مظاہرعلوم کے فیض یافتگان کی بھی ایک فہرست اس سلسلہ میں موجود ہے جس کی تفصیلات مولانا سید محمد شاہد الحسنی کی تازہ ترین کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے ،مہتمم صاحب نے ایک بات یہ کہی کہ اگر اس کتاب کی ہندی زبان میں تلخیص کرکے اسے شائع کیا جائے تو استفادہ کا دائرہ وسیع ہوگا اور کتاب کے مضامین اور تاریخی حقائق سے برادران وطن کی واقفیت سے بہت سارے ملکی و ملی مسائل حل ہونے کی قوی امید ہے ۔
صدر جمعیة علماءہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے مصنف کتاب کو اس عظیم تاریخی کارنامے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ دین اور سیاست دونوں کو ایک ساتھ لے کر ملک و ملت کی تعمیر میں کس انداز سے خدمات انجام دی جاتی ہیں یہ کتاب اس کا واضح ثبوت ہے ۔ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع صاحب نے کہا کہ ”تحریک آزادی میں مظاہرعلوم کی خدمات کا تعارف پوری قوم پر قرض تھا اسے فرض کفایہ کے طور پر ایک ابنِ مظاہر نے ادا کردیا، طاقتور تحریک ہمیشہ صحتمند ذہن جنم دیتی ہے ،مظاہرعلوم کے جیالوں کی تاریخ کا منصہ ¿ شہود پر آنا اس بات کی علامت ہے کہ صحت مند اذہان اب بھی یہاں جنم لیتے ہیں ،دنیائے ادب کے مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی نے اس کتاب کے اختصار اور ہندی ترجمہ کی بابت مولانا سید محمد شاہد الحسنی کو توجہ دلائی اور اپنا مشہور منظوم سلام سنایا۔

جماعت اسلامی ہند کے سابق جنرل سکریٹری مولانا رفیق احمد قاسمی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم صرف اپنی حالتِ زار کا مرثیہ نہ پڑھیں بلکہ یہ عہد کریں کہ اپنے ماضی کی تاریخ اور اپنے بڑوں کے کارنانوں سے اپنے اندر عملی بیداری پیدا کریںگے ۔اور یہ کتاب اس کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ان حضرات کے علاوہ جامعہ مظاہرعلوم کے ارکان شوری مولانا مفتی محمد معصوم ثاقب رائیچوٹی،مولانا مفتی سبیل احمد چنئی،مولانا روح الحق تمل ناڈو ،حاجی فضل الرحمن علیگ ممبر آف پارلیمنٹ نے بھی اپنے تا ¿ثرات بیان کئے اور مولانا محمد شاہد الحسنی کے اس علمی و تاریخی کارنامے پر ان کو مبارکباد دی ۔ اس اجلاس کے مدعو خصوصی دارالعلوم ندوة العلماءکے ناظم اور آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی اپنی مشغولی کے سبب اجلاس میں شریک نہیں تھے لیکن ان کا بھیجا ہوا پیغام ان کے فرستادہ مولانا محمود حسن حسنی ندوی نے پڑھ کر سنایا ،اسی طرح دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی بھی شریک اجلاس نہیں تھے لیکن ان کا پیغام ان کے حکم سے مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے پڑھ کر سنایا ،آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی بھی اپنی علالت کی وجہ سے موجود نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنا پیغام ارسال کیا جس میں انھوں نے اس کتاب کو ایک گم گشتہ تاریخ کی باز یافت بتلایا اور یہ بھی تحریر کیا کہ مظاہرعلوم کی خدمات کا ایک اور پہلو ماشاءاللہ مولانا سید محمد شاہد الحسنی کے قلم سے منظرعام پر آرہا ہے۔
مولانا سفیان احمد قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند،پروفیسر سفیان بیگ پرنسپل انجینیرنگ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،مفتی زاہدعلی خان مظاہری شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،مولانا محمد عارف ابراہیمی رکن شوری مظاہرعلوم سہارنپور،مولانا عبداللہ معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند ،مولانا محمد مکریا نانوتوی رکن شوری دارالعلوم وقف دیوبند نیز تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داران مولانا عبدالرشید مرزاپور پول،مولانا محمد طاہر رائے پور،مولانا محمد ہاشم چھٹمل پور،مولانا محمد عاقل صدر جمعیة علماءمغربی یوپی،مولانا محمد الیاس پپلی مزرعہ،مولانا محمد اختر ریڑھی،حاجی عبدالرحمن امیر جماعت یمنا نگر،مولانا فضیل احمد ناصری معہد الانور دیوبند،مولانا حسین احمد پانڈولی مفتی نجٹ الہدی مرشدآبادی ،شاہ محمود چیرمین بہٹ،سرفراز خان،مظاہرحسن مکھیا،چودھری لیاقت ایڈوکیٹ،انور علی ایڈوکیٹ،پرم بتراڈائرکٹر ہیندس ٹو کیئر ویلفیر سوسائٹی،کارتک کھرانا،وجے دتّہ،کمل چُگ،نمن سچدیوا،عبدالعلیم،چودھری سنجے پردھان ٹوڈر پور،چودھری جنک سنگھ پردھان بھوکڑیجیسی اہم علمی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔اجلاس کے داعی مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے آخر میں تمام مہمانان کرام کا شکریہ ادا کیا ،جامعہ مظاہرعلوم کے صدر المدرسین 
اور شیخ الحدیث مولانا سید محمد عاقل کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔

 ہماری دنیا بیورو بشکریہ 

مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام میں جاری پرتھم سوپان کے کیمپ کا اختتام ہوگا کل، مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب جنرل سیکرٹری جمیعةعلمإ کی آمد متوقع

مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام میں جاری پرتھم سوپان کے کیمپ کا اختتام ہوگا کل
حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند کی آمد متوقع
رپورٹ:- محمد دلشاد قاسمی
روشن گڑھ/ باغپت (آئی این اے نیوز 28 اکتوبر 2019)
ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام میں 25 اکتوبر سے جاری پرتھم سوپان کے کیمپ کا اختتام کل بروز منگل کو ہوگا،جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب جنرل سیکرٹری جمعیت علماء ہند تشریف لائے گیں
میڈیا کو اطلاع دیتے ہوئے مدرسہ کے ناظم مفتی محمد دلشاد قاسمی نے کہا کہ پرتھم سوپان کا کیمپ 25 اکتوبر سے جاری ہے جو کل بروز منگل بعد نمازِ ظہر اختتام پذیر ہوگا، جس میں مہمان خصوصی کے طور سے حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب جنرل سیکرٹری جمعیت علماء ہند تشریف لائے گیں۔جب کہ ضلع باغپت کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب، اور حضرت حافظ محمد قاسم صدیقی صاحب جنرل سیکرٹری جمعیت علماء ضلع باغپت، حضرت مولانا محمد محمد خالد صاحب کنوینر جمعیت یوتھ کلب ضلع باغپت،حضرت مولانا محمد یامین صاحب نائب صدر جمعیت علماء ضلع باغپت،حضرت مولانا محمد داؤد صاحب نائب صدر جمعیت علماء ضلع باغپت،قاری محمد صابر صاحب صدر جمعیت علماء تحصیل بڑوت،اور مشہور شاعر ڈاکٹر محمد طاہر قمر قریشی میراپوری، وجملہ اراکین عاملہ جمعیت یوتھ کلب ضلع بھی تشریف لائے گیں، اس لیے اس بابرکت و عظیم الشان پروگرام میں زیادہ سے زیادہ افراد شریک ہونے کی کوشش کریں،اور علماء کے خطاب کو سنیں اور اسکاؤٹ اور روورس کے پروگرام کو دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی فرمائیں

نم آنکھوں کے ساتھ مدرستہ الإصلاح کے ناظم مرزا اشفاق احمد اصلاحی سپرد خاک

سرائے میر: مدرسۃ الاصلاح کے ناظم مرزا اشفاق احمد اصلاحی مدرسۃ الاصلاح کی قبرستان میں سپرد خاک ہوگئے۔ نماز جنازہ مولانا سرفراز اصلاحی استاد مدرسۃ الاصلاح نے پڑھائی۔
ناظم مدرسۃ الاصلاح مرزا اشفاق احمد اصلاحی کافی دنوں سے امراض تنفس کا شکار تھے۔ مولانا 83 سال کی عمر پائی۔ 28 اکتوبر 2019 بروز دوشنبہ رات تقریبا 2:30 طاہر میموریل اسپتال پھول پور میں دوراں علاج دارفانی سے کوچ کرگئے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّ ا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
مولانا 1999 میں مدرسۃ الاصلاح میں نائب ناظم کے طور پر عہدہ سنبھالا اور ناظم مدرسۃ الاصلاح مولانا ضیاء الدین اصلاحی مرحوم کے انتقال کے بعد سے تا حال مدرسہ کی نظامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مولانا جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے اور کانپور قیام کے دوران وہاں کے مقامی امیر جماعت بھی تھے۔ جامعۃ الفلاح بلریاں گنج اعظم گڑھ کے کے شوریٰ کے ممبر بھی تھے۔
مولانا بینا پارہ کے قریبی گاؤں ابڈیہہ ابراہیم پور کے رہنے والے تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔

بشکریہ حوصلہ نیوز 

مدرستہ الإصلاح سوگوار، مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ

مدرسۃ الاصلاح سوگوار

موت کا فرشتہ زندگی کی پہلی ڈور سے ھمارے تعاقب میں لگا رھتا ھے ھم سے زیادہ اسکے نزدیک کوئی محبوب نہیں اسکا مقصد حیات صرف اور صرف ھمیں پانے کی فکر ھے....وہ صبح و شام ھمارے دروازے کی کنڈی بجاتا ھے اور جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ھے کہ کون ھمارا منتظر ھے اور آج ھم کسکو اپنا ھمراھی بناکر فانی دنیا سے دور بہت دور ھمیشگی کی دنیا جو کہ انسان کی اصلی جائے رھائش ھے لے جا سکیں .... وہ پل پل اس فکر میں ھیکہ کب حکم ربی آئے اور ھمیں ابدی دنیا کی منزل مقصود تک پہونچا سکے وقت اصلی سے وہ بھی انجان ھے اور ھم بھی بے خبر........ ھم فرشتئہ اجل کے خوف سے دور بھاگتے ھیں اور وہ ھمیں اصلی منزل کی راہ پہ لےجانا چاھتا ھے...........بھاگنے اور لے جانے کا فکری سلسلہ یوں ھی چلتا رھتا ھے حتی کہ وہ لمحہ آجاتا ھے جسکا خوف ھمیں ستاتا ھے اور جسکی فکر فرشتئہ اجل کو دامن گیر ھوتی ھے تقدیر کا لکھا غالب آتاھے اور یوں سارا خوف سمٹ کر نگاھوں کے سامنے ھوتا ھے....فرشتئہ اجل اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ھوکر اپنے طے شدہ کام پر آگے بڑھ جاتا ھے.....اب آگے ھم ھوتے ھیں اور ھمارا امتحان.....اب ھمیں ان چیزوں کا سامنا کرنا ھے جسے ھم سنتے یا پڑھتے آئے ھیں....اب یہ بات ھمیں سوچنی ھیکہ کیا ھم اس قابل ھیں....؟ کیا ھم آگے کے امتحانوں میں پاس ھونے بھر عمل رکھتے ھیں...؟ کچھ کرپانے کا وقت تو گزر گیا اب صرف اور صرف کیئے ھوئے نیک اعمال کے بھروسے ھی گزارہ ھوگا....کوئی ڈگری اور کوئی ڈپلومہ کام نہیں آنے والا اللہ تعالی ھمیں موت کے بعد کی ھر منزل پہ آسانیاں دے اور ھر امتحان میں سرخرو کرے ھم بہت نادان اور کمزور ھیں جانے انجانے نہ جانے کتنی غلطیوں کی ٹوکری سر پر لادے پھرتے ھیں بلاشبہ ھم تقدیر کی ڈور میں بندھے ھیں کشیدہ لکیروں پہ چلنا ھی ھمارا مقدر ھے لیکن ھم ایک کام ضرور کرسکتے ھیں اور وہ ھے اپنے عمل کو اخلاص کی نیت سے سنوارنے کی فکر کرنا اپنے رب کو اپنے ساتھ اپنے سامنے محسوس کرنا یقین جانیں اس فکر کے ساتھ کئے گئے عمل سے ھماری تنگی وسعت میں تبدیل ھوسکتی ھے اور آسانیاں ھمارے لئے فرش راہ بن سکتی ھیں
موت سے پہلے کی زندگی میں ھماری کردنی وناکردنی میں اعزہ و اقارب کی خوشیاں انکی مصلحتیں ھماری راہ میں رکاوٹ ھوتی ھیں پر موت کے بعد کی زندگی میں جزاء و سزاء ھمارا اور رب کا معاملہ ھوگا مگر اس سے پہلے ھمیں یہ سوچکے زندگی گزارنی ھیکہ ھم حالت سفر میں ھیں دنیاوی مال متاع اتنا ھی ذخیرہ کریں جسکی ضروت ھے اس زندگی کی فکر اوڑھیں جو ابدالآباد ھے وہ عمل کریں جو دائمی ھے وہ پیڑ لگائیں جسکا پھل اخروی ھے
آج بتاریخ ۲۸ اکتوبر بروز دوشنبہ علی الصباح بزریعہ فون محترم جناب لئیق احمد صاحب بی ایس سی رکن شوری مدرسۃ الاصلاح سرائمیر نے اطلاع دی کہ مدرسۃ الاصلاح کے ناظم اعلی مولانا اشفاق احمد صاحب اصلاحی کا انتقال ھوگیا اناللہ واناالیہ راجعون مولانا موصوف ضعف پیری کی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سے بیمار چل رھے جس کے علاج کے سلسلہ میں طاھر میموریل&ٹراما سینٹر پھولپور میں ایڈمٹ بھی تھے دو تین روز قبل بواسطہ واٹس اپ گروپ خطئہ اعظم گڈھ بیماری کی اطلاع ملی تھی شنبہ کو مزاج پرسی کیلئے حاضری بھی ھوئی طبیعت بہتر تھی پر ضعف کافی تھا باالآخر وقت معہود بھی آن پہونچا اور زندگی کی ستاسی بہاریں دیکھنے کے بعد ھزاروں چاھنے والوں کو سوگوار چھوڑ ابدالآباد دنیا کا رخ کرلیا موصوف انتہائی سادہ مزاج اور سیدھے سادھے تھے تقریبا چالیس سال تک مدرسہ کی بے لوث خدمت کرتے رھے اللہ تعالی انکے مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے بال بال مغفرت فرمائے کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطاء فرمائےنیز جملہ پسماندگان کو صبر جمیل وفیر نصیب فرمائے اور اپنے دین پرمکمل عمل کرنے والا بنائے...آمین
غم کی اس گھڑی میں ھم اھل خانہ کے ساتھ ھیں اور آپ حضرات کو مرحوم کیلئے ایصال ثواب کی زحمت دیتے ھیں اور سنت نبوی کی ادائیگی کرتے ھوئے الفاظ مسنونہ سے اظہار تعزیت پیش کرتے ھیں......!!
 إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شئ عندہٗ بأجل مسمی۔

مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ

رحمانیہ سیرت کمیٹی کا انتخاب پر امن طریقے سے ہوا مکمل!

جونپور(آئی این اے نیوز 28/اکتوبر 2019) رحمانیہ سیرت کمیٹی کی ایک اہم میٹنگ دڑھيانا ٹولا ملهني پڑاؤ پر حاجی افضال احمد کی صدارت میں مکمل ہوئی۔
میٹنگ کا آغاز کلام پاک سے اجود قاسمی نیں کیا میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے رحمانیہ سیرت کمیٹی کے سرپرست اعلیٰ سابق ممبر اسمبلی حاجی افضال احمد نے کہا کہ رحمانيہ سیرت کمیٹی طویل عرصے سے اس تاریخی جلوس و جلسہ سيرت النبی کو منعقد کرت چلی آ رہی ہے اور اس پروگرام کے ذریعہ سے ہم پورے ملک میں امن و امان کا پیغام دیتے ہیں جس کی ولادت کا ہم جشن مناتے ہیں اس ذات نے بھی ہم سب کو اخوت و محبت کا سبق سکھایا ہے۔
اس دوران متفقہ طور پر توقیر خان دللو کو کنوینر دانش اقبال کو صدر اور عبداللہ تیواری کو جنرل سیکرٹری محمد طالب کو خزانچی بنایا گیا۔
آخر میں سابق ممبر اسمبلی حاجی افضال احمد نے ملک میں امن و امان و جلوس کی کامیابی کے لیے دعا کی۔
اس موقع پر سرپرست ساجد علیم سبھاسد، جاوید خان بابو سابق سبھاسد، انور خان صاحب سیف الدین صدیقی، حافظ وکیل احمد حافظ احسان محبوب عالم توحید خان کلام بھائی رضوان اسرائیل حفیظ شاہ الطاف احمد سلیم اللہ خان چننا اسد اللہ خان منا انصار ادريسي جلال الدین عارف محمد شعیب  محمد طالب محمد نثار محمد چاند صابر محمد عامر وغیرہ موجود رہے۔